امجد اسلام امجد کانعتیہ آہنگ ۔ ریاض حسین چودھری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat P Riaz Hussain Chaudhry.jpg

مقالہ نگار : ریاض حسین چودھری، سیالکوٹ

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

امجد اسلام امجد کا نعتیہ آہنگ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Amjad Islam Amjad has contributed towards devotional poetry i.e. genre of Hamd and Naat by presenting his book"Asbab". Poetic style and diction of the poet of ASBAD have been hinted in this article to elaborate expression and content in perspective of modern trends of Urdu Naatia Poetry. There are numerous references of contemporary unrest among the Muslim Ummah in poetry written by Amjad Islam Amjad in highly sounded creative diction.

نئی اردو نعت میں استغاثے نے بڑی حد تک مکالمے کی صورت اختیار کرلی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کابے سکون اورمضطرب معاشرہ نہ صرف اعلیٰ اخلاقی اقدار سے محروم ہوچکاہے بلکہ ان گنت سامراجی برائیوں نے شائستگی،سنجیدگی اورمتانت کے تصور ہی کودھندلا دیا ہے۔آتش ِنمرود ہرگھر کے دروازے پردستک دے رہی ہے۔زندہ مسائل نے انسان سے زندہ رہنے کاحق چھین لیاہے قوت برداشت سے محروم انسانی معاشرہ حیوانی معاشرے میں تبدیل ہورہاہے۔زنجیر ہلانے کی رسم قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔عمل کے دستک دنیا شاید اس کی یاداشت سے محوہوچکاہے۔زخموں کی شال میں لپٹا ہوا انسان تنہائی کے اداس جنگل میں زندہ ہے۔درندوں کے درمیان زندہ دنیا اس کا اپنا انتخاب ہے یہ بکھرا ہواانسان اپنی شیرازی بندی کے لیے تاجدارِ کائنات حضوررحمت عالم کے دراقدس پرکھڑاہے رحمتوں کا آرزومندہے۔ایک امتی اپنے پیغمبر کے درِعطا پراپنی محرومیوں کی چادر بچھا کر نظرِ کرم کی بھیک نہیں مانگے گا تواورکیاکرے گا۔وہ جانتاہے کہ درِ خدا کے بعددرِ حضورکی امید وں کا آخری مرکزہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ درِخدا کے ساتھ حضور کادرِ عطا بھی کبھی مقفل نہیں ہوتا۔آج تک کوئی انسان دعاؤں کے ان مراکز سے خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ امجد اسلام امجد کامجموعۂ حمد ونعت’’ اسباب ‘‘بھی اسی اسلوبِ نو کا آئنہ بردارہے۔

امجد اسلام امجد نے آئنہ خانے میں حیرتیں تخلیق کی ہیں۔ان حیرتوں کے پس منظر میں ہیں اندر کی روشنیوں کاظہور ہواہے۔’’اسباب‘‘کاہرشعر اورہرمعراج انھی کائناتی سچائیوں کی تخلیقی تصویر ہے۔روحانی اوروجدانی انکشافات کاایک لامتناہی سلسلہ فکر ونظر کی پگڈنڈی پرپھیلاہواہے اوریہ پگڈنڈی خاکِ مدینہ کوبوسہ دے کہ آسمانوں کی طرف محوپردازہے۔

امجد اسلام امجد کے ہاں دعاؤں کی قبولیت حیرتوں کاباعث بنتی ہے ۔اللہ کی الوہیت،ربویت اوحاکمیت کی روشنی ہرچیز کویقینِ کامل کے حصار میںلے آتی ہے۔امجد اسلام امجد کامنفرد اوردلکش اسلوب جوان کی غزل اورنظم میں نمایاں ہے۔ان کی نعت میں بھی انھی تمام ترتخلیقی توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔جابجا تاریخی حوالے بکھرے ہوئے ہیں کہیں ان کا اظہار علامتوں میں ہواہے اورکہیں استعاروں میں،کہیں تاریخ نے تلمیحات کواپنے دامن میں سمیٹا ہے اورکہیں شاعر نے براہ راست ان واقعات سے اکتسابِ شعور کیاہے۔شاعر نے مناسک حج کوتخلیقی سطح پرمحسوس کیاہے۔یہ احساس قدم قدم پرپھول کھلاتاچلاگیا ہے۔’’ اسباب ‘‘کاورق ورق انھی پھولوں سے مہک رہاہے۔


بنیاد اس کی حضرت آدم نے خود دیکھی

یہ گھر ہماری گم شدہ جنت کا خواب ہے


امجد اسلام امجد کاشعورِنغمہ کبھی بھی ہنگامہ آرائی کی نذر نہیں ہوا۔موصوف اپنے اظہار کی کوملتا پر کبھی بھی کمپرومائز نہیں کرتے۔پہلے دلکش اورہلکے رنگوں سے تصویر بناتے ہیں اورپھر اس تصویر سے دھیمے لہجے میں ہمکلام بھی ہوتے ہیں۔پُرسکون ندی کی طرح اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں۔بحرِ ثناکی امواج درود پڑھتے ہوئے ساحلِ مدینہ کوچوم لیتی ہیں۔’’اسباب‘‘کاحمدیہ حصّہ بندے کوکائنات کی ازلی سچائیوں پراعتماد کرنے کاہنر سکھاتاہے اوران کی نعت ایک اُمتی کوحضوری اورحاضری کے آداب سے آگاہ کرتی ہے۔


وہ جوایک تل سی زمین ہے تری کہکشاؤں کے درمیاں

اسے کیوںچنا مرے واسطے،اے کیوں کیا مراآشیاں

اسے کھول میرے شعور پروہ جوراز ہے پسِ کن فکاں

ہماراعہد اجارہ داری کاعہدہے۔ہرزوایۂ نگاہ خود قریبی،خودنمائی اورخودستائی کے اندھیروں میں گم ہے۔خدا بننے کافتنہ ہرذہن میں سمایا ہواہے۔انسانی حقوق کاتصّور ہی ناپید ہوچکاہے پانیوں اور ہواؤں کوبھی تجوریوں میں مقفل کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔اولادِ آدم کوجھوٹی اناؤں کارزق بنایاجاری ہے۔امجد کے خیامِ آرزو وذرا جھانک کرتودیکھیے،شاعر کے اندر کاسارا دکھ دامنِ شعر میں سمٹ آیاہے۔


اُس نے تو سب کے واسطے پیداکیا ہے رزق

مشکل ہے یہ کہ بانٹنے والوں کاکیا کریں


اندازِ طلب بے ساختہ ہے۔منافق ساعتوں کے گردوغبار کانام ونشان تک نہیں ملتا۔


اس سرزمین پر بھی کوئی معجزہ اتار

دستِ دعا کے کاسے میں کچھ بھیک ڈال دے

یہ بے حسی کا زہر رگوں سے نکال دے

اس شب کواپنے فضل وکرم سے اجال دے

مولا!ترے کرم کے طریقے ہیں بے شمار


شاعر’’ اسباب ‘‘ کی حمدونعت میں وطن کی مٹی سے گہری وابستگی کاظہورہواہے۔اس خطّہ پاک پربسنے والے مفلوک الحال انسانوں سے ان کی کمٹمنٹ غیر مشروط اورغیر متزلزل ہے۔وطن کی مٹی کونیلام گھر کی زینت بنانے والوں کا المیہ بیان کرنے کے بعد آپ بارگاہِ خداوندی میں حروفِ التجا لے کرحاضر ہوتے ہیں اوراپنے انفرادی اوراجتماعی قرطاس وقلم کے سپرد کرتے ہیں۔


جہاں کروڑوں سیاہ ، پیلے نحیف بچّے

شکم کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں

اور اپنی کہی ہوئی اداس ماؤں

کے خشک سینوں سے بھوک پیتے ہیں

جن کے مردوں کی ساری دولت فقط پسینہ ہے

جس کے بدلے وہ زندہ رہنا خریدتے ہیں


شاعرحیرتوں کے سمندر میں گم ہوجاتاہے اورتصویرِ عجز بن کر بارگاہ خداوندی میں اپنے تجسس کااظہار یوں کرتاہے۔

بجا کے عالم موجود ہے تری تخلیق

اس آئنے میں مرے نقش گرکہاں ہے تو


’’ اسباب ‘‘کی شاعری بابواسطہ طورپربے خبر انسانوں کانوحہ بھی ہے وہ مسافر جواپنے راستوں سے بے خبر ہیں نشان منزل تک ان کی نگاہ میں نہیں،جہاں دھوپ برستی ہے،ریت میں اپنے خیمے لگاتی ہے،بحرانوں کاجامد سرچڑھ کر بول رہاہے۔رات کا اندھیرا سنگین سے سنگین ہوتاجارہا ہے

مگراپنی زمین سے وابستگی سلامت رہتی ہے۔

تیرے عرشوں سے اب ہم پرہن برسیں یاکال

مولا!ہم نے نام پرندے کیسے چھوڑیں ڈال

حقیقت یہ ہے کہ کربلا کاسفر آج بھی جاری ہے۔جلے خیموں کی راکھ آج بھی صف ِماتم بچھارہی  ہے۔وقت حسینؓ کی تلاش میں ہے،زندگی کوشعورِکربلا کی تلاش میں ہے،نیزوں پرقرآن پڑھنے والوں کی تلاش ہے امجد کہتے ہیں:

سروں کوہاتھوں پہ لے کے چلنے کے مدعی ہیں ہزار لیکن

کسی کے رستے میں کربلا کا سفر نہیں ہے

کہاں گئے اے زمیں وہ راہِ وفا کے جویا

کہ لاکھ اہلِ نظر ہیں لیکن نظر نہیں ہے

ہم کربلا کانام تولیتے ہیں لیکن کوئی سرہتھیلی پررکھ کرسوئے کربلا روانہ نہیں ہوتا۔شاعرنے اسی تضاد کوابھارا ہے۔شاعرکوخاکِ وطن کی یادستانے لگتی ہے۔وہ خاکِ وطن جوانگنت کربلاؤں میں گھری ہوئی ہے۔


مولا!مرے وطن پہ کیوں شامِ فرات رک گنی

ختم بھی ہو کہیں یہ اب کرب وبلا کاسلسلہ


شاعر بارگاہ خداوندی میں تصویرِ حیرت بن جاتاہے حرو ف دعا اس کے ہونٹوں پرپھیل جاتے ہیں۔


بنامِ روح محمد اب آسرا دے دے

ہمارے نقشۂ اعمال کی طرف مت دیکھ

بس اس بھنور سے نکلنے کاراستہ دے دے

امجد کالہجہ دعائیہ ہے ہرلفظ کاپیرہن التجائیہ ہے۔

کہیں دکھائی نہ دے اورہرطرف موجود

بشر کی سوچ سے باہر خیال ایساہے

دل میں ہے ربِ کعبہ توکعبہ ہے سامنے

آنکھیں کھلی ہوئی ہیں پہ لگتا ہے خواب سے


اپنی تمام انفرادی اوراجتماعی محرومیوں کاذکر کرنے کے بعد انھیں ایک ہی راستہ دکھائی دیتاہے اوروہ بے ساختہ اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں ان کی آواز روشنی میں نہا جاتی ہے۔بے یقینی کی فضا کادامن تارتار ہوجاتاہے اللہ اوراُس کے رسول کی رحمتیں قلم کوتھام لیتی ہیں۔


بے چارگی کارزق ہوئی آبروئے دل

ہم کو ہمارا کھویا ہوا افتخار دے

عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے سفر پرنکلنے کی آرزو جاگتی ہے تورب تشنہ پرتمناؤں کے پھول کھل اٹھتے ہیں۔


امجدؔ ہے اب بھی وقت پہ پس ماندہ زندگی

یادِ خدا میں،عشق نبی میں گزار دے


’’ اسباب ‘‘کی شاعری دنیائے حمدونعت میں نئے موسموں کی نوید لے کرطلوع ہوتی ہے مدینے کی خوشبو بھری ہواؤں سے شام جاں معطر ہے۔


عجب ہے شہر ِمحمد کی آرزو امجدؔ

کہ میرادل تو سنبھلتا نہیں سنبھالے سے

لکیر پیٹنے کارواج اب ختم ہورہی ہے اوراسے ختم ہی ہونا چاہیے۔اس لیے کہ فرسودگی کی کوئی بھی شکل خطّہ علم وہنر کامقتدر نہیں سایۂ دیوار بھی فرسودہ موسموں کودامنِ آرزو میں جگہ نہیں دیتا۔ہم جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی کبھی بھی اجالنے کے جوہر سے محروم نہیں رہتی، رنگ کبھی بھی اپنے چہرے پرنقاب نہیں ڈالتے،صبا کبھی بھی مقفل دروازوںپردستک نہیں دیتی اورخوشبو کبھی بھی حروفِ تازہ کا دامن چھوڑنے کاغیر تخلیقی عمل سے مراسم استوار نہیں کرتی۔امجد کی تازہ کاری کی چند مثالیں دیکھیے:


آپ سے سایۂ سعادت میں

آخری شام مانگتا ہوں میں

کوئی بھی سورج مگر اس کے حسب ِحال نہیں

وہ ایک شخص کہ جس کی کوئی مثال نہیں


تازہ ہواؤں کی بندش سے سانسیں بے ترتیب ہوجاتی ہیں۔نظم وضبط کاہرزوایہ بکھرجاتاہے لیکن امجد اسلام امجد نے ان زاویوں کوبکھرنے نہیں دیا اورنہ آپ نے کسی سطح پرفرسودگی سے سمجھوتہ کیاہے اکیسویں صدی کاہرروشن دماغ فرسودگی کی نفی کرکے اپنے اندرتخلیقی کی تازگی اورنئے پن کومحفوظ رکھتاہے۔ امجد نے اپنے تخلیقی وجود کوتحفظ کی یہی چاردیواری فراہم کی ہے جدید اردو نعت کے ہر منطقے کایہی موسم ہے۔دلکش اسلوب مدحت نئی لفظیات سے ہاتھ ملارہی ہے۔


گیا تھا جب تو کوئی اور آدمی تھا میں

میں اپنے آپ سے واقف ہوا مدینے میں