انتقادی اسالیب اور صنفِ نعت ۔ انوار احمد زئی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Anwar Ahmad Zai.jpg

مضمون نگار : انوار احمد زئی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT: The article sheds light on literary movements focusing creative and critical activities in the world. Structuralism, Modernism, Progressive movement , Deconstruction and Ontological theories have also come into discussion. Hali, Shilbi, Muhasmmad Hussain Azad to Mirajee and Muhammad Hsaan Askari 's critical patterns also came into reference besides creative and critical writings in the realm of Naatia domain.

انتقادی اسالیب اور صنف ِ نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ماضی قریب کی بات ہے کہ نعت کو تبرکاً کتاب کے ابتدائی صفحات میں شائع کیا جاتا تھا تاکہ مصنف کے عقیدے اور دین کے ساتھ ساتھ ختمی مرتبت ؐ سے اس کی عقیدت کا اشارہ بھی مل سکے۔ مگر پھربات آگے بڑھی اور خوشبوئے حسانؓ سے ایوانِ ادب مہک اٹھا۔ نعت کو اس مقام پر لانے کا دعویٰ کسی کو زیب نہیں دیتا اس لیے کہ خالق کائنات جس کا ذکر بلندکرنے کا اعلان کرے اس کے نام کا چرچا بہرطور بہرصورت ہونا ہی ہے اور نعت اس کار حسین و جمیل کا استعارہ ہے تاہم جو افراد اور ادارے اس صنف کو بطور ادبی تخصص اپنائے ہوئے ہیں انہیں تسلیم نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ نعت کہنا عقیدت ہے مگر اسے صنف کی صورت دینا ارادت ہے۔ ان دوکیفیات کے اتصال اورارتباط کے لیے اصول و پیمانے بنانا یا انہیں برتنا اشارت ہے جس کی تفہیم، ترتیب، تنظیم اور تشکیل کی خاطر صنف نعت کے لیے باقاعدگی سے کام کرنا جزوِ عبادت ہے اس لیے اس صنف کو انتقادی اسالیب کے ذریعے سمجھنا اور پرکھنا بھی سعادت ہے۔


اس سفر میں پہلا پڑائو جہاں آتا ہے اسے صنف کی تعریف کہا جاسکتا ہے۔ ادب کے طالب علم کی حیثیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ [[نعت[[ کی صنف موضوعاتی ہے اسے ہیئتی اعتبار سے محدود کرنا مناسب نہیں۔ بات کو واضح کرنے کی غرض سے کہا جاسکتا ہے کہ جہاں تک ہیئتی اعتبار سے اصنافِ ادب کا تعلق ہے تو اس کے لیے غزل اور نظم ہمارے سامنے ہیں۔ پھر نظم کو بطور مفرد صنف کے ساتھ مرکب صنف کہنا بھی نامناسب نہیں۔ اس لیے اس کی چھتری میں جو اصناف جگہ پاتی ہیں ان میں بیت، ثلاثی، رباعی، مخمس، مسدس، قطعات، مراثی، رجز، مناقب، سلام، دوہے، ہائیکو، کجری، گیت، قصائد، ہجو اور سراپے سب ہی شامل ہیں۔ مگر نعت چوںکہ موضوعاتی صنف ہے اس لیے حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت و تعریف میں جو فکر سامنے آئے وہ نعت تو ہوگی مگر شاعر نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے متذکرہ بالا اسالیب میں سے کس کا انتخاب کیا ہے یوں نعت کی موضوعاتی تشکیل صنف کا مقام پاتے ہوئے بھی نظم کی کسی صنف کا چہرہ اپنائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قدما نے نعت کہنے کے لیے غزل کی صنف کو اپنایا۔

مرحبا سیدی مکی مدنی العربی

دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

غزل ہی کا روپ تو ہے۔

نسیما جانب بطحا گزر کن

ز احوالم محمدؐ را خبر کن

غزل کی روایت میں نعت کی حکایت ہی تو ہے۔

جامی کے بعد خسرو اور دیگر نے یہی انداز اختیار کیا۔

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم

ولی کہتے ہیں:

جس مکاں میں ہے تمہاری فکرِ روشن جلوہ گر

عقلِ اوّل آکے واں اقرارِ نادانی کرے

غالب کا انداز:

منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی

قسمت کھلی ترے خدو رخ سے ظہور کی

اقبال کی شعری میراث سے:

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

حفیظ جالندھری کا رنگ:

وہ جس کو فاتح ابواب اسرار قدم کہیے

بنائے عرش و کرسی باعثِ لوح و قلم کہیے


غزل کے اس آہنگ میں نعت کی صنف مرتب ہوتی رہی ہے کہ پھر ادب و شاعری میں نقد و نظر کے حوالے سے ایک انقلاب رونما ہوا۔ بدیسی حکمرانوں نے آ کر جہاں ہمارے شعری ورثے، فکری گنجینے، ادبی خزانے اور تہذیبی اثاثے کو تاراج کیا اور زبان کے ذریعے ہند کی مختلف اکائیوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کی داغ بیل ڈالی اور فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرائسٹ کی سرپرستی میں بظاہر تدوین لسانیات کے نام پر ایسا منظم کام سرانجام دیا جو بڑے بڑوں کی آنکھوں میں دھول جھونک گیا اور نتیجہ کے طور پر ایک جانب فارسی و عربی زبانوں کے ماہر اور عالم افراد کو انگریزی سے ناآشنا ہونے کے سبب درخور اعتنا نہ سمجھا گیا بلکہ اس وقت کی نئی نسل کو بدیسی حکمرانوں کی زبان کو سکۂ رائج الوقت قرار دے کر اپنی روایات سے دور کردیا، اس تبدیلی کے دو اثرات سامنے آئے۔ ایک عقیدے اور عقیدت کے راستے جدا جدا ہوگئے دوسری جانب تنقید کے نام پر ادبی و فکری تخلیقات کو بحور اور عروض کی پہلے سے موجود قیود سے بالاتر رہ کر تنقید کے نئے ضابطوں کا تابع کردیا گیا۔ یہیں وہ مقام آتا ہے جہاں ہمارے تین اکابرین بھی اس تبدیلی کے نہ خود شکار ہوئے بلکہ آئندہ کی وسیع تر تبدیلی کے محرک بھی بنے اور اس تمام کام کو انتقاد اور تنقید کے جدید اصولوں سے موسوم کیا گیا۔


گورنمنٹ آف پنجاب بک ڈپو کے تحت مغربی تنقید اور ادب پر مشتمل جو تصنیفات تراجم کے مراحل سے گزریں ان کی زبان درست کرنے کے لیے جن افراد کی خدمات مستعار لی گئیں وہی افراد ان تحریروں کے اسیر ہوگئے اور یوں مغربی ادب کی آدھی ادھوری سی تفہیم کے زیراثر الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی اور محمد حسین آزاد نے مقدمہ شعر و شاعری، شعر العجم اور آبِ حیات کی سوغاتیں نذرِ طالبانِ علم اور جویانِ ادب کرڈالیں۔ ہر چند کہ یہاں سے ایک طرف تنقید کا سفر شروع ہوا جو مشرقی شعری مشروب کو مغربی جام و مینا میں پیش کیا جانے لگا۔ جبکہ دوسری جانب اردو غزل کو نظم کی سوکن سے واسطہ پڑا۔ ان حضرات کا دعویٰ تو یہ تھا کہ مغرب کی نظمیہ شاعری سے قبل اردو میں اس صنف کا وجود ہی نہ تھا حالاںکہ وہ اگر آج بھی نظیر اکبر آبادی کے خزانے کو مان لیں تو تقدیم کی منزل پر مغرب کی نظم کو متمکن نہ پائیں۔ یہی صورتحال تنقید کی افضلیت کی ہے کہ یہ اراکین ثلاثہ اسے کاملتاً مغرب کے اجارے میں ڈالتے ہیں، حالاں کہ بازارِ عکاظ کے تنقیدی ماحول سے لے کر ہمارے یہاں کے مشاعروں میں نقد و نظر کی روایات کو اور پھر شاعر کی مقبولیت سے لے کر قبولیت تک کی منازل کو تنقید کے سنگھاسن سے ہٹ کر دیکھنا سراسر مفروضیت ہی تو ہے۔ تاہم تخریب میں تعمیر کا پہلو بھی شانِ کریمی سے عبارت ہے۔ اس کشاکش سے فائدہ یہ ہوا کہ نعت کی موضوعاتی شاعری نے نظم کے مختلف اسالیب میں بھی جگہ بنالی جس کا بہترین نمونہ حالی کی مسدس مدوجزر اسلام ہے جس نے بنیاد فراہم کی تو اقبال کی پوری فکری شاعری نے جنم لیا اور جس کے خزانے اتنے وسیع اور کشادہ ہوئے کہ پورا اردو بلکہ فارسی ادب بھی ثروت مند ہوگیا۔ اسی سفر کے اگلے پڑائو پر ہم نہ صرف اردو نظم کی عظیم روایت کو تشکیل پذیر دیکھتے ہیں بلکہ حفیظ جالندھری کے ذریعے شاہنامۂ اسلام کے روپ میں اسلامی تاریخ کو منظوم دیکھ پاتے ہیں۔ پھر تو یہ ہوا کہ صبحدم دروازئہ خاور کھلا اور طبلۂ عطار نئی مہک کا علمبردار بن گیا۔ اردو ادب میں نعت رنگ کے متنوع پہلو نظم سے موسوم ہر صنف میں جلوہ گر ہونے لگے۔ یہاں تک کہ روایتی اصنافِ ادب کے ساتھ جاپانی صنف ہائیکو میں بھی نعتیں لکھی جانے لگیں۔


نعت کے اگلے انتقادی پہلو کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم باور کریں کہ حالی، شبلی اورآزاد کے دور کی شاعری کی وسعت پذیر آدرشوں میں جہاں شعر کے لیے کسی وزن کی ضرورت محسوس کی گئی نہ دیگر ضابطوں کو ملحوظ رکھا گیا۔ وہیں مغرب کے ادب کی بالالتزام تفہیم کی غرض سے اور نام بھی سامنے آئے جن میں میرا جی اور حسن عسکری نمایاں ہیں۔ چوںکہ مغربی ادب کے حوالے سے ان افراد کا مطالعہ وسیع بھی تھا اور وقیع بھی، اس لیے ان حضرات نے بہت سے اشکال کو رفع کیاجو ان سے قبل آنے والی تنقیداور تشریحات کا حصہ بن گئے تھے۔ اسی باعث دیگر تنقید نگاروں نے اپنے اپنے طور پر مغربی تنقید کا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر جمیل جالبی کو ارسطو سے ایلیٹ تک کی تحقیق پر مشتمل کتاب کو سامنے لانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔یہ کام بلاشبہ پھیلا ہوا بھی ہے اور فکری اعتبار سے گہرائی و گیرائی آمادہ بھی۔مگر اہل علم جانتے ہیں کہ اس کام سے بہت پہلے میرا جی کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ جمیل جالبی کے بسیط کام کی بنیادرکھ چکی تھی۔ ان کاموں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارا ناقد مغرب کے ان ہی پیمانوں میں الجھ گیا اور وہ مشرق کی ہر تخلیق کو مغرب کے تنقیدی اسکیل سے ناپنے لگا۔ استثنیٰ اپنی جگہ تاہم ہمارے دور کے تمام بڑے ناقدین نے یہ انداز اپنالیا کہ وہ اپنی تحریر کا آغاز ارسطو، ایلیٹ، ٹالسٹائی، ایذرا پائونڈ، کارلائل اور روسو سے کرنے لگے۔ ان کا یہ کام مجرمانہ نہ بنتا اگر وہ اپنے اوقاتِ کار میں ان ہی کے دور میں کہی جانے والی نعت کوبھی اپنے احاطۂ نقد و نظر میں سماتے رہتے۔ مگر ان کی یہ غفلت انہیں مغرب زدگی کے الزام سے تو نہ بچاسکی مگر ساتھ ہی عدل و انصاف کے ان تقاضوں سے بھی دور کرگئی جن کے ذریعے وہ خود کو عصری تہذیب اور سماجی تنظیم کو سمجھنے کے داعی گردانتے تھے۔ اسی دوران جدیدیت اور وجودیت کی تحریکیں سامنے آگئیں۔ کانٹ، برگساں اور ہیگل کے فلسفے رونما ہونے لگے جو خدا کو ماننے میںمتعامل تھے اور کائنات کی تخلیق کے قائل ہونے کے باوجود ان کے خالق کے قائل ہونے میں تردد کا اظہار کرتے تھے۔ اسی دوران ہمارے یہاں ترقی پسند تحریک کا اجراء ہوا اور یوں ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے نام پر رازق سے بھروسہ اٹھانے اور رزق کو مساویانہ بانٹنے کا گمراہ کن نعرہ لگانے والوں کو ترقی پسند اور باقیوں کو رجعت پسند کہا جانے لگا۔ ظاہر ہے ایسے میں ہمارا نقاد جو خود کو دوسروں سے ممتاز، بڑا اور ہدایت دینے والا سمجھتا تھا وہ اپنے پوڈیم سے نیچے کیسے آتا اور نعت کی صنف پر اظہار خیال کر کے اپنے خودساختہ ادبی الحمرا سے باہر کیوں نکلتا۔


یہاں آکر ایک بات کا احساس شدید تر ہوتا ہے کہ مغرب نے نہایت عمدگی سے، چالاکی سے اور ذہانت سے ہمارے ادبی ماحول میں مختلف تحریکات کے ڈول ڈال کر ہمارے نقادوں کو ان کا اسیر بنایا تاکہ وہ ہر اس تخلیق اور نگارش کی نفی کریں یا کم از کم درخوراعتناء نہ سمجھیں جو عقیدت کے سفر سے آراستہ ہو۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جس طرح مغرب نے مشنری اسکولوں اور مشنری صحت کے اداروں کے ذریعے یہاں کے سادہ لوح افراد کو پہلے تو اپنے مذہب سے قریب کرنے کی کوششیں کیں اور پھر یہ اصول برتا کہ اگر مقامی افراد ان کی طرف نہ آسکیں تو کم از کم اپنے عقائد سے بھی دور ہوجائیں یا ان کے لیے شک و شبے کا اظہار ہی شعارِ حیات بنالیں۔ اس طرزِ ادا نے ہمارے ادب کو راہِ راست سے دور کیااور نقاد کو صراطِ مستقیم سے ناآشنا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان تحریکات کے جلو میں جہاں دین سے بے بہرہ اور عقیدے سے دور ملحدین نے جنم لیا وہاں فرعون کے گھر میں موسیٰ بھی موجود رہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سید حسن عسکری جیسے نقاد نے ترقی پسند تحریک کوللکارا تو دوسری طرف نعت رنگ جیسے تحقیقی، عالمی، نظریاتی اور فکری پرچے کو تسلسل سے شائع کر کے سید صبیح رحمانی اور ان کی ٹیم نے یہی نعرہ لگایا کہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اللہ


اسی طرح دیگر افراد و ادارے مثلاً طاہر سلطانی کی نگرانی میں مجلہ حمد اور ماہانہ حمدیہ مشاعرے یا قمر وارثی کی ماہانہ ردیفی مجلسیں اس تحریک میں مہمیز کی دلیل ہیں۔ اس ماحول کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ ان تحریکات میں سب سے زیادہ متحرک اور متاثرکن تحریک کیا ہے جس کا نام وجودیت ہے اور جو دراصل جدیدیت کی ماں اور منصوبے کے تحت علامتی طرز ادا کی نانی کہلائی جاسکتی ہے۔ اس موضوع پر معارفِ اسلامیہ میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل وجودیت کی تحریک ہی نے عالمی ادب کو حقیقی ڈگر سے ہٹا کرتشکیک کی منزل تک پہنچایا۔ اس تحریک نے مذہب، انسان، خدا، کائنات اور مظاہر قدرت کے بارے میں ایسی فضا تیار کی کہ ادباء اور شعراء اسے جدیدیت سے ہم رشتہ سمجھتے ہوئے اپنے قارئین کو مذہب سے دور لے جانے لگے اور اس صورتحال میں سب سے زیادہ صنفِ نعت کومتاثر کرنے کی کوشش کی گئی جس کا تفصیلی مطالعہ ناگزیر ہے۔


مغربی وجودیت کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں اور جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے اس کی کوئی قطعی تعریف نہیں کی جاسکتی تاہم اس کی مختلف شاخوں میں کائنات اور انسان کی حقیقت کا انکشاف یا جستجو ایک امر مشترکہ ہے۔ اس طرح وجودیت ہر اس تصور کے خلاف ہے جوانسان کو کسی ’’وجودِ مطلق‘‘ کا مظہر یا عکس یا ظِل ثابت کرتا ہو یا کسی لامحدود و لامتناہی جوہر کا خارجی ظہور سمجھتا ہو۔ اسی وجہ سے مغربی وجودیت عینیت یا تصوریت (Idealism) کی سب شکلوں کی مخالف ہے۔ اس اعتبار سے مغربی وجودیت کا یہ نقطہ نظر صوفیانہ افکار کے ایک بہت بڑے حصے کا مخالف ہے جو عینیت کا معتقد ہے یا انسان اور کائنات کو ظلِ یا پرتو سمجھتا ہے یوں یہ تصور ابن عربی کے عینی خیالات کی بھی ضد ہے۔


وجودیت، معروضیت (Objectivism) اور سائنسیت (Sciencism) کے بھی خلاف ہے کیوںکہ وجودیت کا معنی دار خارجی وجود پر زور ہے جبکہ معروضیت کا اعتقاد قطعی اصولوں اور ضابطوں پر ہے۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو وجودیت کی ایک شاخ کائنات کی لاعینیت اور اس کے بے ہنگم ہونے کو مانتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس محدود دائرے میں اگر اسلامی ردعمل کا تعین کرنا پڑے تو وجودیت کے برعکس اس کا رخ سائنس اور خارجی مظاہرِ کائنات سے برحق ہونے کے نظریے کی طرف ہوگا۔ اسلام (قرآن) کے نزدیک خلق (مخلوق، کائنات) عبث نہیں ہیں اور جملہ اشیائے کائنات حکمتِ ربی کا ظہور ہیں۔ اس بنیاد پر وجودیت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔


جبر و اختیار کے مسئلے میں اسلامی ردعمل انسان کومختار و مجبور قرار دیتا ہے۔ صوفی فکر کا ایک حصہ انسان کو مجبور مانتا ہے لیکن راسخوںکی نظر میں جزا و سزا کے عقیدے کی وجہ سے انسان کا ایک دائرے میں فاعل مختار ہونا ثابت ہوتا ہے اسی لیے وہ جزا و سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے جبکہ وجودیت مجبوریت کو نہیں مانتی۔ اس کے نزدیک انسان کو بہت سے امکانات میں سے اختیار و انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ اس کی ہستی دوسرے افراد اور دوسری اشیاء سے رابطہ رکھنے پر مجبور ہے اور یہ امکانات ان معاشرتی روابط کی وجہ سے مختلف اور کثیر ہوتے ہیں۔


اسلام کی یا کسی بھی مذہب کی مغربی فلسفوں خصوصاً وجودیت سے تطبیق کی کوشش اور اس سے مماثلتوں کی جستجو اصولاً درست نہیں کیوںکہ اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے۔ مذاہب معرفتِ ذاتِ الٰہی، اس کے پیغامات لانے والے پیغمبروں کی منزلت، عرفانِ ذات اور تہذیب الاخلاقیاتِ انسانی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان پروردگار عالم کی شاہکار مخلوق ہے۔ اس کے برعکس وجودیت کی ایک اساس لاشیئیت (Nothingness) ہے۔ اس کے علاوہ مذہب انسانی وجود کو ایک مربوط اور باہمی متعاون کلّی مانتے ہیں اور ذات کی تکمیل اور شخصیت کی مکملیت کے علاوہ کائنات سے اس کے تعلق میں اعتقاد رکھتے ہیں۔ دوسری طرف وجودیت کا ایک اہم تصور اجنبیت (Alienation) ہے۔ جس کے ایک سے زیادہ مفہوم بتائے گئے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک منفی ہے اور دین اسلام کی اثباتی روح کے خلاف اور بعض تو سائنس کی مرکزی روح سے بھی متصادم ہیں۔ اس اجنبیت کا ایک مفہوم مجبوری ہے۔

میرتقی میر کا یہ شعر اس کا مظہر ہے۔

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہیں ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا


اس سے براہ راست متاثر نہ ہونے مگر اس فکر کے حصار میں آجانے والے بعض شعراء نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام سے دوری بلکہ ترک اسلام کرنے کا اظہار کیا ہے یا اسلامی شعائر اور غیراسلامی طریق میں امتیاز نہ تسلیم کرتے ہوئے اپنا فلسفہ خود بنایا ہے۔ میر ہی کا شعر ہے۔

میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو اُن نے تو

قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا

یا مومن کا یہ شعر کہ:

اللہ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر

مومن چلا ہے کعبے کے ایک پارسا کے ساتھ

اسی طرح غالب نے کہا تھا کہ:

دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا

داماندگی شوق تراشے ہیں پناہیں


جبکہ فیض تو اپنے ہم خیال دیگر شعراء کے ایک بہت بڑے گروہ کے ساتھ یہ تک کہہ گئے کہ؛

اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

حالاں کہ اقبال کے یہاں مطالعہ اسلام اپنی وسعتوں میں بے کراں ہے اور خود ان کا اسلام کا حرکی فلسفہ بار بار جنتِ گم گشتہ کو بازیاب کرنے کی کوششوں میں ہے تاہم انہوں نے بھی کہہ دیا کہ؛

باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر


جدید دور میں اقبال نے اپنے تصور خودی کے ذریعے انسان کی اس قسم کی مجبوری اور بے بسی کی بڑی شدت سے تردید بھی کی ہے اور اپنے خطبات میں جبر و اختیار کی تشریح کر کے انسان کی غیرمعمولی قوتوں اور دور رس صلاحیتوں کا اس طرح اثبات کیا ہے کہ اس سے وجودیت کی پوری نہیں تو آدھی عمارت ضرور منہدم ہوجاتی ہے۔


وجودیت کی ذیلی اصطلاح اجنبیت (Alienation) کا ایک مفہوم لاعینیت اور لامقصدیت ہے۔ یعنی یہ کہ زندگی (کائنات) عبث اور بے مقصد ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ قدیم مسلم شعراء کے کلام میں کہیں کہیں زندگی کے بارے میں شکایت اور تشکیک کا اظہار ہوا ہے جیسا کہ ہلکا سا اشارہ سطور بالا میں کیا گیا ہے تاہم خالق کی حکمتِ تخلیق کا انکار شاذ ہی کہیں ملے گا۔ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ قرآن پاک کا مطالعہ ان اشکال سے آزاد کرتا ہے۔ سورئہ مومنون کی آیت 115 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئو گے‘‘ اسی طرح سورۃ انبیاء کی آیت 16 میں فرمایا گیا ’’اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو (مخلوقات) دونوں کے درمیان ہے اس کو لہو و لعب کے لیے (بے مقصد) پیدا نہیں کیا‘‘ سورۃ الحجر کی آیت 85 میں اسی خیال کو واضح کیا گیا ہے کہ ’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو (مخلوقات) ان میں ہے اس کو تدبیر کے (یا اعلیٰ سچائیوں کے لیے) پیدا کیا ہے۔ اسی طرح سورئہ آلِ عمران کی آیت 191 میں ارشادِ ربی ہے کہ ’’اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے) ہیں کہ اے پروردگار تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا‘‘۔


ان اسلامی تعلیمات اور قرآنی پیغامات کے مقابل ادبی تحریکات میں اجنبیت (Alienation) کا ایک مفہوم کائنات یا زندگی کا بے قوانین ہونا ہے۔ یہ تصور دراصل زندگی میں نتائج کی بے یقینی سے پیدا ہوا ہے۔ اور مغرب کی سائنسیت (قطعی قواعد اور قطعی نتائج) پر غیرمعتدل اصرار کا ردعمل ہے۔ چوںکہ سائنس ماورائی قوتوں کو تسلیم نہیں کرتی اور یہ نہیں مانتی کہ ظاہری اسباب و علم سے ماوریٰ کوئی غیرمعمولی ماورائی نظام بھی موجود ہے اس لیے قطعی قوانین و اسباب اس کے قطعی نتائج ہی پر یقین رکھتی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض نتائج ایسے بھی برآمد ہوجاتے ہیں جو قطعی قوانین کی مسلمہ توقعات کے خلاف ہوتے ہیں اس لیے مغرب میں بیسویں صدی کے ربع ثانی میں فلسفۂ قوانین کے بارے میں شک پیدا ہوگیا جس کا ظہور یہی لاقوانینیت (Normlessness) ہے۔


اس لحاظ سے وجودیت اسلام یا شاید ہر الہامی مذہب کی ضد ہے اور اجنبیت اس کی سب سے خوفناک صورت۔ اجنبیت کا ایک مفہوم خودبیزاری ہے جس کا مطلب ہے کہ فرد خود اپنی ذات کو اپنے سے جدا اور غیر سمجھنے لگے یا معاشرے سے بے گانہ ہوجائے۔ اس کیفیت کا شکار انسان مادیت پرستی کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور اپنی فکر ہی کو معاشرے کے لیے بہتر اور اس کے مسائل کا حل سمجھتا ہے۔


وجودیت کی اسی تحریک نے ہمارے ادب کو بے حد متاثر کیا ہے اور ایسا طبقہ وجود میں آگیا جو روایت سے بغاوت کو جدیدیت اور ترقی پسندی کا نام دینے لگا۔ اس کے نزدیک ہر قدیم طرزِ ادا، روایت پسندی، وضع داری اور اقدار کی پاسداری کو رجعت پسندی سے موسوم کیا جانے لگا، اس فکر کے تحت جو ادب پروان چڑھا اسے لامذہبی، لادینی، الحادی اور مذہب بیزاری کے رجحان سے تعبیر کیا جانا مناسب ہے۔ اس فکر نے ذہین اورخلاق ادیبوں اور شاعروں کو دین سے دور بلکہ بیزار کردیا اور ان کی توجہ حمد و نعت سے ہٹ کر کمیونزم کی جانب موڑ دی۔


یہاں یہ ذکر شاید بے جا نہ ہو کہ اس تحریک سے متاثر ہو کر جب انجمن ترقی پسند مصنفین بنائی گئی تو اس میں اپنے وقت کے جید شعراء اور ادباء شامل ہوگئے جس کے باعث نعت، حمد، سلام، مراثی، مناقب اور قصائد ایمانی لکھنے والوں نے اپنی راہ بدل لی۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے سالارِ اعظم سید سجاد ظہیر کی بیٹی نے اپنی کتاب ’’میرے حصے کی روشنائی‘‘ میں خود تحریر کیا ہے کہ ایک صبح ناشتے کی میز پر ہمارے یہاں آئی مہمان ہماری پھوپی نے جو عمر میں ہمارے والد سے بڑی تھیں پوچھ لیا کہ سجاد! تم کیا کررہے ہو، دین اور مذہب سے ماوریٰ تحریک چلارہے ہو جبکہ ایک وقت میں تم محلہ کی مسجد میں اذان دیا کرتے تھے اور یوں بھی تم نے پندرہ پارے حفظ کرلیے تھے، تو یہ سن کر سجاد ظہیر نے اپنی بہن سے کہا ’’چھوڑیئے آپا، وہ سب زمانۂ جاہلیت کی باتیں تھیں‘‘ اس ایک جملہ سے منظرنامے کی تبدیلی سے پوری طرح آگاہی ہوجاتی ہے۔ اسی طرحفیض نے جو مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی اور تعلیم کا آغاز عربی سے کیا تھا، ساتھ ہی بارہ پارے حفظ کرلیے تھے، پھر ان کا رخ بھی کسی اور طرف ہوگیا۔


ترقی پسند تحریک کے تناظر میں عہد جدید کے نابغہ روزگار علمی، ادبی اور روحانی شخصیت حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاںؒ کی تحریر ہماری رہنمائی اور موضوعِ زیربحث کو سمجھنے کے لیے موجود ہے جس کا احاطہ برادر عزیز ڈاکٹر مسرور احمد زئی نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، حالات، علمی و ادبی خدمات‘‘ کے زیرعنوان صفحہ 338پر اس طرح کیا ہے۔


’’ 1931ء میں حقیقت نگاری کے نام پر اردو میں عریانی اور بے حیائی کا آغاز ہوا اور اس کا نام ترقی پسند ادب رکھا گیا، اس تحریک کی ابتداء سجاد ظہیر، احمد علی اور ڈاکٹر رشیدہ جہاں نے کی اور انگارے کے نام سے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں دین اور اخلاق پر حملے کیے گئے اور اشتراکی نظریات کی تبلیغ کی گئی۔ پھر 1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی اور اس کے اراکین نے اس مقصد کے پیش نظر اور نام نہاد حقیقت نگاری کا لباس اوڑھ کر دین، اخلاق، تہذیب اور ان کی اقدار کو لغو قرار دیا بلکہ محض جہالت اور اوہام پرستی کہا، روح اور خدا کا انکار کیا اور اس نظریے کی اس طرح تاویل کی کہ مادی ارتقاء ہی میں احساس، شعور، عقل اور ضمیر کی تخلیق ہوتی ہے اور دین محض فریبِ تخیل ہے اور استحصالی طبقوں کا آلہ کار ہے،ہر دور کا معاشی نظام ہی اس دور کے سماجی نظام کو متعین کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ فرائڈ کے نظریات بھی شامل ہوگئے اور اب نفسیاتی ماحول اور سماجی تربیت کا مرکز روٹی کے بجائے جنسیت قرار پایا۔ فرائڈ کے نزدیک انسانیت دوستی دراصل اس تشنہ کام جنسی جذبے کے لیے اب اعلیٰ راستہ نکالنے کی کوشش ہے جو تسکین نہیں پاتا اور پاک عشق و محبت محض فطری جنسی جذبے کو اخلاقی اور سماجی تصورات کے تحت کچل دینے والی بددیانتی اور خود فریبی کا عکس ہے لہٰذا گناہ ثواب اور بدی پاکیزگی اور عفونیت، عظمت اور پستی کا کوئی ایسا معیار قائم نہیں کیا جاسکتا جو ہر حالت کے لیے صحیح قرار دیا جاسکے۔‘‘


اس طرح اردو کے تنقیدی اسالیب کی ساخت پرداخت اتفاقی نہیں بلکہ اہتمامی ہے اسے ایک تصور، فکر اور منصوبے کے تحت مرتب کیا گیااور ہمارے خود پرست و خود نما نقاد اسے وسیع القلبی اور وسعتِ دماغی کی دلیل سمجھ کر اس طرح اپناتے اور برتتے رہے کہ تحریر و تقریر سے لے کر فکر و فہم تک کا قبلہ بدل گیا۔ ان تنقیدی اصولوں کو جن بڑوں نے بڑا متاثر کیا ان میں مارکس کا نام سرفہرست ہے اور ٹالسٹائی کو رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی رول ماڈل ٹالسٹائی ہے جس نے حجلۂ عروسی میں اپنی بیوی کو پہلی شب جو ڈائری پڑھوائی تھی اس میں اس کے بے شمار معاشقوں اور ان سے وابستہ ناشائستہ وارداتوں کا تفصیلی غیرادبی ذکر تحریر تھا۔


مارکس نے جب 1844ء میں یہ کہا تھا کہ ’’مذہب عوام کی افیون ہے‘‘ تو اس نے بظاہر اپنے دور اور اس کے بعد کے آنے والے ادباء کو بتایا کہ خلاقی کے لیے مذہب کی قید سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ اس نے جرمن سوشلسٹ ورکرز کی تعریف میں کہا تھا۔

"They have and simply finished with God, they live and think in the world of reality."

مارکس کے ساتھ اینگلز کا قول اس منظم تحریک کو مزید واضح کرسکے گا، وہ کہتا ہے۔

"Religion however is nothing but the fantastic reflection in men's minds of those external forces which control their daily life. A reflection in which the terrestrial forces assume the form of supernatural forces."


اب آیئے اس جانب کہ ان تحریکات کے زیراثر آنے اور وقت کے گزر جانے کے بعد صورتحال کیا ہے تو اس وقت مغربی دنیا کا شاید کوئی بڑا مفکر ایسا نہیں ہے جس نے مغربی تہذیب کے زوال کی پیش گوئی نہ کی ہو اور جس نے مغرب کے ذہنی تجربے کو جہنم کا تجربہ نہ بتایا ہو۔ ادب میں یہ چیز کوئی ایک صدی پہلے ظاہر ہونا شروع ہوئی تھی پھر علوم میں بھی آگئی۔اصولِ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے تمام لوگ اس امر پر متفق ہیں۔ اسپنگلر، ٹائن بی وغیرہ تو خیر سامنے کی چیزیں ہیں خود مارکس اور اینگلز اپنے نظریات سے مایوس ہو کر موجودہ تہذیب ِ مغرب کے زوال کا نعرہ بلند کرتے اور اسے غیر انسانی قرار دیتے ہیں۔ مارکسی نقطہ نظر اور اصول انتقاد کے موضوع پرا ہم ترین چیز کارڈویل کی تصنیف Studies in a Dying Culture ہے جس میں اس نے موجودہ مغربی تہذیب کی موت اور اس کے علوم و فنون کی کیفیت بیان کی ہے۔ اس سے آگے بڑھئے تو وجودیت پسند ادب اور فلسفہ بھی ہمیں اب بتارہا ہے کہ مغربی تہذیب کس طرح جہنم بن گئی ہے۔ ادب میں یہ معاملہ ایک طرف بودلیئر، دوسری طرف بلیک کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ روس میں اس کے نمائندے گوگول، دوستووسکی او ر چیخوف وغیرہ ہیں۔ پھر لارنس، ایذرا پائونڈ سے آگے بڑھیں تو کیفیت یہ ہے کہ آج کوئی ادیب ایسا باقی نہیں رہا جو مغربی تہذیب کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ پھر بھی اگر ہم اس تہذیب کو سمجھناچاہیں اور اس کے دکھ کی شدت کا اندازاہ لگاناچاہیں تو گنز برگ کی ایک آدھ نظم پڑھ دیکھیے۔ مغربی روح کی پیاس کا عالم یہ ہے کہ وہاں سینکڑوں نئے دین ایجاد ہوگئے ہیں اور ہندو مسالک کے ساتھ ساتھ مشرق بعید کے طریقے بھی مقبول ہورہے ہیں۔ سائنسی علوم میں تیقن کی کیفیت کیا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے اوپن ہائمر کے لیکچرز ہی دیکھ لیجیے یا پھر Rozak کی کتاب Children of Technology پڑھ لیں تو ادراک ہوگا کہ یہ ایک ایسی گرتی ہوئی دیوار ہے جسے کسی دھکے کی ضرورت بھی نہیں، یہ تو اندر سے انہدام حقیقی کی دلیل ہے مگر اس المیے کو کیا کہیے کہ جہاں سے انتقاد کی تحریکات چلی تھیں وہاں تبدیلی آگئی اس تبدیلی کے باوجود ہمارے یہاں کے نقاد ابھی تک لکیر کے فقیر بنے ہوئے اپنے تنقیدی مضامین کا آغاز ان ناموں سے کرتے ہیں جن کی تعلیم کب سے اپنی تاثیر کھوچکی مگر اس کا حوالہ آج تک چلا آتا ہے۔ ان میں سب سے اہم حوالہ ارسطو کا ہے جسے آج بھی مغربی ادب و شاعری اور تنقید کا امام سمجھا جاتا ہے اور ایک اعتبار سے اس کا یہ حق بھی ہے ورنہ اس کے استاد افلاطون نے تو اپنی ریاست کو شاعر اور شاعری سے پاک جانا تھا تاہم جہاں تک ارسطو کے تصورات کی صحت کا تعلق ہے اس کا کوئی ثانی نہیں لیکن وہ کوئی ایسا جامع نظریہ پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا جس سے مادی کائنات کو کسی وحدیتی (Monistic) تصور کے حوالے سے سمجھا جاسکے۔ ارسطو کے نظام فلسفہ میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کائنات کا مبدا ایک ہے۔ اس کے برخلاف اس کا فلسفہ ثنویت پر محمول ہے جس میں مادے کو قدیم اور خدا کی ضد تصور کیا گیا ہے۔ ارسطو نے ایک تنقیدی نظریۂ علم پیش کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں لیکن ان کوششوں میں شدید حقیقت پسندانہ رجحانات داخل ہوگئے اور انہیں بھی بڑے بودے طریقے سے پیش کیا گیا۔ اس کے نزدیک خدا محض عقل ہے۔


عالمی سطح سے ہٹ کر اس معاملے کا ایک مقامی رنگ بھی ہے۔ جس کا مطالعہ اسالیب نقد و نظر کے حوالے سے ضروری ہوجاتا ہے۔ مسلمان ممالک میں مغربی تہذیب و علوم کا دخل جس طرح ہوا تھا وہ بے چارے اس کی مبدیات سے بھی واقف نہیں تھے اس موضوع کا احاطہ سراج منیر نے بھی کیا ہے، وہ کہتے ہیں ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا کوئی لازمی تعلق مسلمانوں سے نہیں۔ مشرق میں انگریزی علوم جس طرح پھیلے اور ان کے ذریعے انگریزوں نے جس طرح خود اپنے الفاظ میں ایسا طبقہ تخلیق کیا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے مشرقی لیکن قلب و ذہن کے لحاظ سے مغربی تھا۔ وہ محتاجِ تفصیل نہیں ۔ میکالے کی تقریر تو اسکول کے بچوں تک کے علم میں محفوظ ہوتی ہے۔ مسلمان ممالک میں سب سے پہلے دو ممالک اس سے متاثر ہوئے۔ ترکی اور مصر، اور یہ واقعہ انگریزی استعماریت کے بالکل ابتدائی عہد کا ہے۔ ہندوستان میں تو انگریزی علوم کے بارے میں اختلاف کا آغاز 1857ء سے پہلے ہی ہوچکا تھا اور شاہ غلام علی اورشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے جواز کا فتویٰ مشروط طور پر دے دیا تھا۔ انگریزی علوم کے حصول کے مسئلے پر اس طرح کا اختلاف تو رہا ہی نہیں اصل اختلاف تو ان کے علوم کے سلسلے میں ایمان باالغیب پر تھا۔‘‘


اس طرح بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب کے جدید تنقیدی اسلوب نے شاعری پر جو اثر کیا وہ الگ ہے مگر نعت کہنے والوں کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا وہی دراصل اس سارے عمل کا شاخسانہ اور جدید تحریک کی جانب سے تازیانہ ہے۔ اسی نے ہمارے عقیدت کے سفر کو نشانہ بنایا اور وہ بھی اس قدر کہ محمد سہیل عمر کے الفاظ میں ’’ترقی پسند تحریک کے اہم لوگوں میں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں احمد ندیم قاسمی کا رویہ واضح ہے اور وہ بھی ترقی پسند نقادوں سے نعت لکھنے پر گالیاں کھاچکے ہیں اور یہ سب اعتراضات مطبوعہ صورت میں موجود ہیں۔‘‘ اس تناظر میں [[اقبال نے جدید علوم سے بہرہ مند ہو کر بھی جس عقیدے اور عقیدت کا مظاہرہ کیا وہ مغرب کے تخریبی طوفان میں تعمیر کا استعارہ ہے کہ

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوئہ دانشِ فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف


اسالیب نقد و نظر کے اس تجزیے کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے قضیئے کے دوسرے حصے کی طرف آئیں جو خالصتاً نعت کی صنف سے متعلق ہے۔ ہم نے یہ تو دیکھ لیا کہ مغرب کی فکری یلغار اور سازشی دیوار کے باوجود نعت گوئی کا سفر نہ صرف جاری ہے بلکہ فنی، صوری، فکری اور خلاقی کے حوالے سے ارتقا پذیر ہے اور نعت میں ان موضوعات سے اجتناب برتا جانے لگا ہے جن کو زیربحث لاکرتطہیر کا سامان ہوا اور ساتھ ہی نعت نگاری کے دائرے کی وسعت نے بھی شعراء سے لے کر ان کے قارئین، سامعین اور ناظرین تک کو خدا آگاہی اور ختمی مرتبت شناسی کے ساتھ خود احتسابی اور خود فہمی کی منزلوں سے بھی گزارا ہے ۔ اسی لیے گنجائش پیدا ہورہی ہے کہ ہم نعت کو بطور صنف بھی اور اس کے انفرادی متن کو بھی زیربحث لائیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کا مطلب نکتہ چینی، عیب جوئی اور برائی نکالنے سے مشروط ہے، حالاںکہ اہل علم جانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ شعرا اہل علم ہونے کے دعویدار ہیں کہ تنقید کا مادہ نقد ہے جس کا مطلب پرکھ کرنا اور جائزہ لینا ہے۔ یہی پرکھ ہے جس کا منصب کسوٹی ہے اور جو کھوٹے کھرے کا حساب بتاتی ہے۔ شاعری میں یہی پرکھ تنقید کے ذریعے ہوتی ہے جس میں محاسن بیان ہوتے ہیں اور معائب ہیں تو ان سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ نعت گوئی میں عیب جوئی یا معائب تلاش کرنا مناسب ہے یا نہیں۔ تو جواب یہ ہے کہ جب ہم نعت کو ایک صنف تسلیم کررہے ہیں تو اس کی تطہیر، تہذیب اور تدوین کے لیے اگر اصول وضع کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ ان سے روگردانی کرنے والا شاعر کیا نعت گوئی کا حق رکھتا ہے اور پھر جو خلاق، ممتاز، منفرد اور مقتدر نعت گو ایسی نعتیں تخلیق کررہے ہیں جو اپنا مقام اور مرتبہ خود مرتب کرتی ہیں تو ان کے استحسان کا نام بھی تنقید کی ذیل ہی میں آتا ہے۔


اس مرحلے پر ایک احساس شدت سے اپنا اظہار چاہتا ہے اور وہ یہ کہ کون سا صاحبِ ایمان ایسا ہوگا جو اپنے تئیں نعت کہنا نہ چاہے گا۔ حالاںکہ جب ہم درود پڑھتے ہیں تو نعت پڑھتے ہیں مگر خود نعت کہنے کی تمنا کس کے دل میں نہیں ہوتی۔ مگر جو لوگ موزوں طبع نہیں ہوتے وہ اپنی اس خواہش کو حسرت میں بدلتا دیکھتے ہیں۔ تو یہ اہل ایمان کی ہر دور میں ایک قبیل ہوگئی۔ دوسری قبیل وہ ہے جو طبع موزوں سے بھی متصف ہے مگر اسے نعت کہنے کا وہ سلیقہ نہیں آتا جس کا یہ نازک موضوع تقاضا کرتا ہے اس لیے تنقید ِ نعت کے منصب پر ایسی نعمتوں کو حوالہ بنانا اور اس پر رائے دینا کوئی معیوب بات نہیں ۔ تیسری قبیل وہ ہے کہ جو نعت تو کہہ رہی ہے اور اس میں بحور اور اوزان کا بھی اہتمام ہے مگر جذبے کی وہ شدت نہیں جو نعت چاہتی ہے اس لیے اس قبیلے کے نذرانے، اخلاص اور محنت اپنی جگہ مگر نعت کی نزاکت کے تعلق سے ایسی نعتوں پر گفتگو کرنا امر حقیقی ہے۔ البتہ آخری قبیل جو اس محفل کی پہلی صف میں متمکن ہے ایسے شعراء پر مشتمل ہے جو سرشاری، وارفتگی، شیفتگی اور شائستگی میں سے ہر ایک حوالے سے اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ دراصل یہی قبیل نعت کو صنف بتانے اور بنانے کی سزاوار ہے۔ لیکن شاید ایسے ہی کسی مقام کے لیے کہا گیا تھا:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا


یہاں نعت رنگ کے محرک اور نعت ٹرسٹ کے بانی صاحب اسلوب نعت گو جناب صبیح رحمانی نے ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘ مرتب کر کے تو کمال کیا ہی تھا اس میں اپنی رائے شامل کر کے موضوع کو حسین تر بنادیا ہے۔ ان کا یہ خیال بڑا معنی خیز اور متذکرہ بالا سطور سے ہم آہنگ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمارے یہاں ایک طویل مدت تک نعت نبیؐ کو محض عقیدت و محبت کا پیرایہ سمجھا گیا۔ یہی سبب ہے کہ اردو زبان و ادب کے فروغ کی دو ڈھائی صدیوں میں نعت کو عقیدت کے زمرے میں رکھے جانے کی وجہ سے اس کی علمی، فکری اور جمالیاتی حیثیت سے اغماز کی فضا پیدا ہوگئی اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حالی اپنے مقدمہ شعر و شاعری میں ادب و سخن کے معیارات، قواعد، اصولوں پر ساری بات کرتے ہیں مگر نعت کے بارے میں کچھ نہیں کہتے… قیام پاکستان سے پہلے کا نعتیہ منظرنامہ نعت کی تخلیقی نہج پر تو بقعۂ نور نظر آتا ہے لیکن تنقیدی اور تحقیقی کام کی نوعیت پر گھٹاٹوپ اندھیرے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ نعت کی اس روایتی تخلیقی نہج کو اس عہد کے بڑے نقادوں نے بہ وجوہ کچھ زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھا اور اس پر وہی پرانا عقیدت کا عنوان چسپاں کر کے اسے ادب کے مرکزی دھارے سے الگ رکھا۔ یہ حقیقت رشید احمد صدیقی جیسی بلند پایہ شخصیت کی رائے سے مترشح ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ رشید احمد صدیقی بائیں بازو کے نظریات کے حامی نہیں تھے بلکہ ان کا جھکائو دائیں بازو کے افکار کی طرف تھا اس کے باوجود روایتی نعتیہ فضا کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی۔


’’نعتیہ کلام کی محرومی یہ رہی کہ ہمارے بیشتر شعراء نے اسے ایک مقدس رسم سمجھ کر اختیار کیا اور سننے والوں نے ثواب کی خاطر آہ یا واہ کرلی۔ اس طرح کے کلام، اس طرح کے شعراء اور اسی طرح کے مقاصد نے مل جل کر نعت کو شریفوں یا شاعروں کا شیوہ نہیں میراثیوں کا پیشہ بنادیا۔‘‘ یہی رشید احمد صدیقی ایک اور جگہ کہتے ہیں۔ ’’نعت ہمارے شعر و ادب کی قابل قدر روایت بن گئی ہے۔ ایسی روایت جو شاعری میں عبادت کے عنصر و عامل کے ساز و برگ کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ نعت کو شاید اور کسی مذہب و ملت میں وہ اہمیت حاصل نہ ہو جو ہمارے شعر و ادب میں ہے۔ اس مقصد کو مہمیز دینے، متحرک کرنے اور متحرک رکھنے کی ابتدا حالی نے کی جسے اقبال نے اس درجے تک پہنچادیا ہے جس سے آگے پہنچانا اب کسی دوسرے اقبال ہی کا کارنامہ ہوگا اور مستقبل بعید میں کسی دوسرے اقبال کا ظہور پانا آسان نہیں معلوم ہوتا۔‘‘


رشید احمد صدیقی کی ان دوا ٓراء کی روشنی میں اگر ایک اور وقیع ادیب کی رائے کو دیکھا جائے تو سکّے کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق فرماتے ہیں کہ ’’ابتدائے اسلام سے اب تک نعتیہ ادب کا ایک عظیم ذخیرہ اور قیمتی خزانہ جمع ہوگیا ہے جو ادبی اور علمی لحاظ سے خود دنیا کا بہترین ادب شمار ہوتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ادب کی تحقیق، تنقید اور تشریح کی طرف دنیائے اسلام میں تاحال کماحقہ توجہ نہ ہوسکی۔ شکر ہے کہ ہمارے دور میں احساس بیدار ہوا ہے اور اب ایسے ارباب علم و ادب اور ادارے فروغ پارہے ہیں جنہوں نے اس کام کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔‘‘


اس منظرنامے کے تناظر میں موجودہ عہد میں کہی جانے والی نعتوں کو بطور ممتاز صنف تسلیم کرنے کی غرض سے جس انتقادی میزانیے کی ضرورت ہے اس کی طرف بھی توجہ کرنا ازبس ضروری ہے اور اس غرض سے زبان و بیان کی تطہیر سے لے کر ادائی اور طرز ادا کی تحسین تک کا گوشوارہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے اور اس کام کے لیے سب سے پہلے شاعری کی بنیادی تعریفوں کی تفہیم کی ضرورت ناگزیر ہے اور ان تعریفوں میں ارسطو اور ایلیٹ کے حوالے سے زیادہ مقامی اور مکانی امکانات کی دریافت کی ضرورت ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی فرماتے ہیں۔


’’بڑی حقیقتیں عظیم اور پھیلے ہوئے سلسلۂ کوہ کی طرح ہوتی ہیں، اس سلسلۂ کوہ کو کوئی مکمل طور پر نہیں دیکھ سکتا۔ جو جہاں سے دیکھتا ہے اسی کو بیان کردیتا ہے ان میں سے ہر بیان سچا ہوتا ہے مگر کوئی بیان مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے شاعری کی چند تعریفوں کو دہرالینے میں کیا قباحت ہے۔ ان میں تکنیکی تعریفیں بھی ہیں اور ایسی تعریفیں بھی جو اچھے شعر کی طرح ہمیں فکر خیال اور جذبے کی ان وادیوں میں پہنچادیتی ہیں جہاں انسانی روح کا حسن اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ جگ مگ کرتا نظر آتا ہے۔ جہاں انسانی فکر کے سارے امکانات اپنی تمام تر تہہ داری کے ساتھ اپنے آپ کو ہمارے سامنے منکشف کرتے ہیں اور جہاں سکوت گویائی میں گویائی سکوت میں بدل جاتی ہے۔ ایسا سکوت جو ایک نئے اندازِ تکلم کا نام ہے۔‘‘

اس کیفیت کے اشارے یہ ہیں۔

___ ’’شاعری مسرت کو سچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا فن ہے۔‘‘

___ ’’شاعری طاقتور جذبات کے برجستہ بہائو کا نام ہے۔‘‘

___ ’’شاعری انسانی تجربوں کے اس اظہار کا نام ہے جس میں تصورات اور انسانی اقدار ان کی قدر و قیمت کے عناصر موجود ہوں۔‘‘

___ ’’شاعری محض صداقت کا اظہار نہیں بلکہ صداقت کو ہمارے لیے زیادہ حقیقی بنانے کی کاوش ہے۔‘‘

___ ’’شعر ہماری روح کا نغمہ ہے۔‘‘


’’شاعری زندگی کی اندھیری رات میں شاعر کی روح کا نغمہ بھی ہے اور گریہ بھی۔‘‘


نعت کو عقیدت کا سفر کہیے جو منزل یابی کی تمنائی نہیں منظر شناسی کی کاوش ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ نعت کو شاعری کی تعریف کے ساتھ منظر شناسی کی سرشاری سے بھی ناپا جائے۔ یہی وہ کام ہے جو نعت کو بطور صنف تسلیم کرنے اور کرانے کے لیے اسالیب اور انتقاد کا متقاضی ہے اور یہ اسالیب وہ نہیں جو ایک طرف تو ازکار رفتہ ہوچکے اور دوسری طرف رہبر بننے کے بجائے رہزن بنتے رہے ہیں۔


ادبی نقاد اور تجزیہ نگار دریدا جو ردِّ تشکیلیت کا بانی ہے نے اپنے ایک مقالے میں لکھا تھا کہ ’’ساخت کے تصور کا انحصار مفہوم کے مرکز پر ہوتا ہے، یہ مرکز ساخت کا تعین کرتا ہے مگر بذات خود ساخت پسندانہ تجزیے سے مشروط نہیں ہوتا کیوںکہ مرکز کی ساخت معلوم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور مرکز دریافت کیا جائے۔ بہرحال لوگ اس لیے مرکز کے طلب گار ہوتے ہیں کہ یہ مابعد الطبیعی موجودگی کے ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنی ذہنی جسمانی زندگی کو ایک ’’میں‘‘ پر مرکوز سمجھتے ہیں۔‘‘


اب دیکھیے جہاں نقد و نظر کا پیمانہ ہر لمحہ نئے مرکز کی تلاش ہو اور تمام فکر کا مرکوز ’’میں‘‘ ہو تو اس پیمانے پر ہم اپنے امروز و فردا کو کیسے ناپ سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو مرکز بھی واضح ہے اور مرکوز بھی اور ہمارے یہاں ’’میں‘‘ کا امتیاز یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی میں خود کو کھو کر اپنے آپ کو بازیاب کرے۔ اس لیے جب ہم نعت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ابدی مرکز کی تصویر آشکار ہوتی ہے اور اسی میں ’’میں‘‘ نہیں ’’میں‘‘ کو سمجھانے والی وہ قوت موجود ہوتی ہے جسے وجہ وجود کائنات کہا گیا۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر مجلس بود، اندر لا مکاں خسرو

محمدؐ شمع محفل بود، شب جائے کہ من بودم


اس حوالے سے تنقید، زبان اور متن تخلیق کے بارے میں ایک اور تحریر جسے پڑھ کر ہوش اڑجاتے ہیں اور دعوتِ تردید پر اکساتے ہیں وہ بھی دریدا کی ہے جسے فکری دنیا میں سندسمجھا جاتا ہے جبکہ ہم اس کی تحریر اور تھیوری پڑھ کر اسے زباں دریدہ کہنے پر مجبور ہیں… جی ہاں ان کا فرمان ملاحظہ فرمایئے!


’’اسم اعظم تھیوری کے مطابق ہستی کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ دریدا نے اس مقدس لفظ کی الٰہیاتی مرکزیت اور اس کے معجزات کے نظریے کو مسترد کردیا ہے۔ اس کی بجائے اس نے متن کو تکوین معنی کی کثرتیت، وجود کے عدم استحکام اور صورت حال کی اضافیت پر زور دیا ہے۔ یہاں ہمارا مقصود اس کے تفکر کو بروئے کار لاکر اس معنیاتی سامراجیت کو بے نقاب کرنا ہے جس کے زیراثر مفکروں اور نقادوں نے زبان کے معنیاتی کھیل اور سماجی کوڈز کو بے اثر بنانے یا ان کے عمل دخل کو محدود کر کے ان کو مرکز فراہم کرنے یا ان میں معنی کی مصوریت کو ثابت کرنے اورا ن کے ماخذ کی نشاندہی کی صدہاسال سے کوششیں کی ہیں تاکہ متن کو توازن اور ترتیب دی جاسکے اور اس کی ساخت کو منظم کیا جاسکے۔ ان کوششوں پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ابدیت کی ہر خواہش ایک فضول افلاطونی کھیل ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس قسم کی کوششیں بقول دریدا اس لیے کامیاب نہیں ہوسکتیں کہ ان کے تعین کے لیے کوئی اسٹرکچر موجود نہیں جو متن کو توازن اور ترتیب دے سکے۔ اگر کوئی نظر آتا بھی ہے توا س کے اندر موجود بے شمار داخلی تضادات، درزیں اور دراڑیں موجود ہیں چناں چہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ کوئی متن یا تحریر کلی طور پر متحد اور یکسو نہیں ہوتی۔ نکتہ رس نقاد کی طرف سے کی گئی قرأت ہمیں ان فضول خوابوں سے بیدار کرسکتی ہے جو ہم ساخت کی مکمل ہم آہنگی اور اس میں حتمی طور پر معنی کی موجودگی کے بارے میں دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے پسِ ساختیات میں قاری اور تصنیف کے رشتے کو مصنف اور تصنیف کے رشتے پر فوقیت دی جاتی ہے۔‘‘


اب دیکھیے اس رجحان کی نفی کے لیے جہاں ہمیں صنف نعت کے پورے تعارف کا اہتمام کرنا چاہیے وہیں یہ باور کرانے کی ضرورت بھی محسوس کرنی چاہیے کہ دراصل متذکرہ سطروں میں موجود تمام اشکال کا مسکت خواب نعت ہے جس کی ایک واضح اور غیرمبدل مرکزیت ہے او ر جو پسِ ساختیات کی خودساختہ تعریف کا منطقی استرداد بھی کرتی ہے۔

اس دعوے کی دلیل میں صرف چند مثالیں دیکھیے۔

کھلے ہیں جس میں محبت کے پھول ہر جانب

وہی ہے گلشنِ بے خار گفتگو ئے رسولؐ(راجا رشید محمود) ________

جہاں پیوندِ ظلمت بن گئے روزن مکانوں کے

وہیں کھولے گئے سارے دریچے آسمانوں کے (غلام محمدناصر) ________

خزاں کا بطلان کر کے آخر بہار ہی سرخ روئی ہوئی ہے

تری صدا کے محیط میں آ کے زندگی خوب رو ہوئی ہے ( محمد فیروز شاہ) ________

ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

زمانے بھر کے پیاسے پیاس عمروں کی بجھاتے ہیں (مظفر وارثی) ________

کی دعا ختم تو پھر صلِ علیٰ پڑھتے ہوئے

ہاتھ یوں جسم پہ پھیرے کہ زرہ پہنی ہے (محمد ثناء اللہ ظہیر) ________

ہوش و خرد سے کام لیا ہے

انؐ کا دامن تھام لیا ہے (صبیح رحمانی) ________

ہیں مصدق اور صادق، صاحبِ معراج ہیں

آپؐ ظاہر، آپؐ باطن، آپؐ خاتم اور خبیر (مسرور احمد زئی) ________

اس وقت اک دھیان ہے اور ان کا دھیان ہے

یہ وقت دل کو آئینہ کرنے کا وقت ہے (جمال احسانی) ________

میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں

میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت (سلیم کوثر) ________

ورقِ جاں ہے تیرے نورِ صفا سے روشن

صفحۂ دل پہ ہر اک تیری ادا لکھی ہے (اسلم فرخی)


اس ساری بحث کا ثمر یہ ہے کہ ہم نعت اور نقد نعت کے سفر میں شامل ہوں اور اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کی رائے سے اتفاق کریں کہ ’’موجودہ صدی نعت کی صدی ہے ،اردو، عربی، فارسی، عربی بلکہ بعض علاقائی زبانوں کا مطالعہ ہم عصر ادبی پیشرفت کا جائزہ اس خیال کا موئید ہے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا ادبی منظرنامہ واضح کررہا ہے کہ امت مسلمہ کی ادبی کاوشوں کا بیشتر سرمایہ نعت ہی کا حوالہ رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ نعت ایک متعبر صنفِ سخن کی حیثیت سے تنقید نگاروں اور جائزہ کاروں کی توجہ حاصل کررہی ہے۔ اگرچہ ناقدانہ آرا کی ہمہ ہمی میں بعض مغالطے بھی جنم لے رہے ہیں مگر یہ بڑے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ نعت کے حوالے کے بغیر کوئی ادبی تحریک مکمل نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس کی ہے کہ تنقیدی آراء کو بھی معرضِ نقد میں پیش کیا جائے تاکہ نعت اور نقدِ نعت میں متوازن فکر نشوونما پاسکے۔‘‘


اس متوازن فکر ہی کا تقاضہ ہے کہ انتقاد کے نئے اسالیب وضع کئے جائیں اور جدید طرزادا کو ان ہی کے تناظر میں اس طرح دیکھا جائے کہ ایک طرف ان اسالیب کی ہنرمندی اشعار کی زینت بنے اور دوسری طرف نعت کی تخلیق میں ابھر کر آنے والی خلاقی کی روشنی میں نئے اسالیب کی اسی طرح تدوینِ نو جیسے فقہ کے میدان سے اجتہاد اور قیاس کی تقلید… مناسب ہوگا کہ ہم یہاں اسی نسبت کے ساتھ ممتاز اسکالر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر سے بھی استفادہ کرتے چلیں۔ وہ فرماتے ہیں۔


’’نعت کے دائرے کو محدود سمجھنا درست نہیں، کیوںکہ جتنا دائرہ حضورؐ کی نبوت و رسالت کا ہے، اتنا ہی دائرہ ان اوصافِ حمیدہ کا ہے جو نعت پر کام کرنے والوں کی کوششوں سے انسانیت تک پہنچ رہا ہے۔ تمام اسلامی زبانوں میں نعت اور سیرت پر سب سے زیادہ ذخیرہ اردو زبان میں ہے۔‘‘ …

بقول ناصر عزیز!

کتنا خوش قسمت وہ قلم ہے جس کی آنکھ سے ٹپکے ہیں

حمدِ خدائے پاک کے گوہر، نعتِ رسولِ پاکؐ کے موتی

٭٭٭