اُردو نعت میں صنعتِ تلمیع۔ خالد ندیم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Khalid Nadeem.jpg

مضمون نگار: خالد ندیم

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT: Some technical words are used in poetics for different stylistic expressions, the word 'Talmee' is one of those words that is used to decorate poetry by using different languages in a couplet or in one line of a stanza. This article discusses use of Talmee by different poets in Urdu. This type of use of languages is tantamount to express craftsmanship of a poet in a skillful manner. Such experiments are seen in the poetry of experts of languages who equally possess masterly command over poetic expression. Ahmad Raza Brailvi (R.A) was one of those poets who possessed high quality of such expressions in his Naatia poetry.

اُردو نعت میں صنعتِ تلمیع[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تلمیع، علم بدیع کی ایک صنعت ہے۔ تلمیع کو ملمع بھی کہتے ہیں۔ شان الحق حقی لفط ’ملمع‘ کے معنی ’چمکایا ہوا‘ لکھتے ہیں اور یہ کہ ’جس پر سونے یا چاندی کا پانی پھیرا گیا ہو‘؛ جب کہ صنعت ملمع کو ’نظم میں دو مختلف زبانوں کے ملے جلے مصرعوں یا ٹکڑوں کی پیوند کاری‘ قرار دیتے ہیں۱؎، اسی طرح قاضی عبدالقدوس عرشی ڈبائیوی کے نزدیک ’رنگ برنگ کے نقطے لگانا‘ اور ’کلام میں ایک سے زیادہ زبانوں کو جمع کرنا‘ تلمیع کہلاتا ہے۲؎۔ یہی وجہ ہے کہ تلمیع کو ’ذولسانین‘ یا ’ذو لغتین‘ بھی کہا جاتا ہے۔


صنعت تلمیع کی ابتدائی مثالیں فارسی میں ملتی ہیں۔ جب عربی تراکیب فارسی شاعری کا حصہ بننے لگیں تو اس عمل کو تلمیع سے تعبیر کیا گیا۔مولوی نجم الغنی رامپوری کے مطابق، ’یہ صنعت اس طرح پر ہے کہ کلام میں زبان ہاے مختلف کو جمع کر دیں‘،۳؎ چناںچہ ’تلمیع‘ شعر و سخن کی وہ صورت قرار پاتی ہے، جس میں ایک مصرعے کے دو حصے دو مختلف زبانوں پر مشتمل ہوں یا ایک شعر کے دو مصارع یا ایک بند کے مختلف مصارع یا اشعار میں مختلف زبانیں جمع کر دی جائیں؛ یعنی کسی مصرعے کا نصف اوّل ایک زبان میں اور نصف آخر دوسری میں یا ایک شعر کے دو مصارع مختلف زبانوں میں یا پھر کسی کا ایک بند کے مختلف مصارع مختلف زبانوں میں ہوں۔


پروفیسر انور جمال کے خیال میں ’تلمیع وہ صنعت ہے، جس کو شعرا نے قادر الکلامی کے اظہار کے لیے شعوری طور پر اپنایا‘۔ یقینا یہ کام وہی شاعر کر سکے گا، جسے کم سے کم دو زبانوں پر مکمل دسترس ہو اور جو دو یا زائد زبانوں کو ایک بحر میں جمع کر سکے؛ چناںچہ پروفیسر صاحب کے خیال میں، ایسا شاعر اپنی طبعِ رواں کو جس طرح چاہے، کامرانی کے ساتھ لے جا سکتا ہے۴؎؛گویا تلمیع علمِ بدیع کی ایک ایسی صنعت ہے، جس کے تحت شعری ضرورتوں اور فنی پختگی کے اظہار کے لیے ایک مصرع، شعر یا بند میں ایک سے زائد زبانوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں واضح رہنا چاہیے کہ یہ مشق تفننِ طبع سے تعلق نہیں رکھتی، جیسا کہ بالعموم سرکاری یا قومی زبانوں میں علاقائی زبانوں کے الفاظ یا مرکبات یا جملے محض مزاح پیدا کرنے یا ان کی تحقیر کے لیے شامل کیے جاتے ہیں؛ جب کہ تلمیع کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ مختلف زبانوں پر شاعر کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ تخلیقی لمحات میں مختلف زبانوں کو تخلیقی شان سے استعمال کر سکتا ہے۔ اپنے کلام میں دیگر زبانوں کے اجزا شاعر کے طبع زاد ہوں تو تلمیع کہلائیں گے، ورنہ دیگر شعرا کے مصارع یا اشعار کو اپنے کلام کا حصہ بنانا تضمین کہلاتا ہے۔ کسی کلام میں آیاتِ قرآنی یا احادیث کے اجزا کی شمولیت بھی تلمیع نہیں، بلکہ ایسے الفاظ یا مرکبات کو اقتباس کا نام دیا جاتا ہے۔ صنعت تلمیع کو برتنا سہل نہیں، کیوں کہ مختلف زبانوں پر عبور ہونے کے باوجود اُن سب کو ایک معیار سے اپنے کلام میں استعمال کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔


فارسی شاعری میں قرۃ العین طاہرہ نے صنعت تلمیع کے حوالے سے بڑی شہرت حاصل کی۔ فارسی قصائد اور مراثی میں بالخصوص تلمیع کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ مولانا جامی کی ایک نعت کا مطلع اور مقطع دیکھیے، جن کا مصرعِ اولیٰ فارسی اور مصرعِ ثانی عربی میں ہے:

اے کہ دَرَت کعبۂ اربابِ نجات

قبلتی وجہک فی کل صلات

جامی از درد تو جاں داد و نگفت

فہو ممن کتم العشق عمات۵؎


اس کی ایک بہترین مثال درج ذیل معروف نعتیہ قطعے سے دی جاسکتی ہے، جس کا آخری مصرع فارسی میں ہے:

یا صاحب الجمال و یا سید البشر

من وجہک المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہٗ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۶؎


اُردو شعر و ادب میں اس کا آغاز حضرت امیر خسرو سے ہو گیا تھا اور مختلف ادوار میں بعض نمایاں شعرا نے اس پر توجہ دی ہے۔ جن شعرا نے اس صنعت کو برتا ہے، ان میں سے بعض کے ہاں سے مثالیں پیش کر کے اس صنعت کی روایت اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔


دو یا زائد زبانوں کو یکجا کرنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں، چناںچہ ان مختلف انداز ہاے تلمیع پر ذیل میں مثالوں کے ذریعے سے گفتگو کی جاتی ہے۔ اگر ایک شعر میں دو زبانیںجمع کی جائیں تو اسے ’ملمع مکشوف‘ کہتے ہیں، جیسا کہ مولوی سلامت اللہ کشفی کے ہاں مصرعے کا نصف اوّل اردو میں ہے اور نصف آخر فارسی میں ، مثلاً:

کیا نورِ خدا از رُخِ خوبِ تو عیان ست

کہتے ہیں اسی رَو سے عیان راچہ بیان ست

کیا یوسفِ مصری ہے نظیرِ شہِ بطحا؟

وہ چشم کہاں اور کہاں جانِ جہان ست

یہ صورتِ حق ہے کہ مصور بہ بشر شد

اس کا ہی ظہور ، ایں ہمہ در کون و مکان ست۷؎


تلمیع کی ایک قسم’ملمع مکشوف‘ ہے، جس کے تحت ایک شعر کاایک مصرع ایک زبان میں ہوتا ہے تو دوسرا دوسری زبان میں، مثلاً علامہ شبلی نعمانی کی نظم ’تعمیر مسجد نبوی‘ کا آخری شعر دیکھیے:

صلّوا علی النبی و اصحابہ الکرام

اس نظمِ مختصر کا یہ مسک الختام ہے۸؎


پروانہ شاہ پوری (۱۹۴۲ء) نے اپنی ایک نعت میں اردو اور پنجابی زبانوں کو اس طور برتا ہے کہ مصرعِ اولیٰ اردو اور مصرعِ ثانی پنجابی زبان میں ہے: جب بھی عشاق مدینے کا سفر کرتے ہیں

میرے جذبے وی کریندے نیں اَڑی جاوَن دی

میرے جذبے وی کریندے نیں اَڑی جاوَن دی

اُن کے قدموں کی شبیہوں پہ رکھوں اپنی جبیں

میری اکھیاں چوں لگی ہووے جھڑی ساوَن دی

خاکِ بطحا میں مِری خاک بھی پنہاں کر دے

مینوں مشکل ہے جدائی دی بھری چاون دی

اُن کے دربار میں اِک بار اگر جا پہنچوں

مُڑ کے آوے نہ کدی مُڑ کے گھڑی آوَن دی ۹؎


صنعت تلمیع میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا نام بھی شامل ہے، کیوںکہ انھوں نے اپنی ایک نعت میں عربی، فارسی، ہندی اور اردو کو جمع کیا اور مستزاد یہ کہ نعت کی تخلیقی شان میں بھی اضافہ کر دیا۔ ترتیب یہ ہے کہ مصرعِ اولیٰ میں عربی اور فارسی اور مصرعِ ثانی میں ہندی اور اردو یا ارد و اور ہندی۔ ملاحظہ کیجیے:

لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظْرٍ ، مثلِ تُو نہ شُد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سوہے ، تجھ کو شہِ دوسرا جانا

اَلْبَحْر عَلَا وَ الْمَوْجُ طَغٰی ، من بیکس و طوفاں ہوش رُبا

منجدھار میں ہوں ، بگڑی ہے ہَوا ، موری نیّا پار لگا جانا

یَا شَمْسُ نَظَرْتِ اِلیٰ لَیلی ، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

توری جوت کی جھل جھل جگ میں رچی ، مِری شب نے نہ دِن ہونا جانا

لَکَ بَدرٌ فِی الْوَجْہِ الْاَجْمَلْ ، خط ہالہ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پروکنڈل ، رحمت کی بھرن برسا جانا

اَنَا فِیْ عَطَشٍ وَّ سَخَاکَ اَتَمْ ، اے گیسوے پاک ، اے ابرِ کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم ، دو بوند اِدھر بھی گرا جانا

یَا قَافِلَتیْ زَیْدِی اَجَلَکْ ، رحمے بر حسرت تشنہ لبک

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

وَاھا لِسُوِیْعَاتٍ ذَھَبَتْ ، آں عہد حضور بارگہت

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت ، دردا وہ مدینہ کا جانا

اَلْقَلْبُ شَجٌ وَّالَھُمَّ شَجُوْں ، دل زار چناں جاں زیر چنوں

پت اپنی بپت میں کا سے کہوں؟ مورا کون ہے تیرے سوا جانا

اَلرُّوْحُ فِدَاکَ فَزِدْ حَرْقًا ، یک شعلہ دگر بر زن عشقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا ، یہ جان بھی پیارے جلا جانا ۱۰؎


مفتی غلام رسول قاسمی (پ: ۱۹۵۸ء) کا نعتیہ مجموعہ کلام’خیر الکلام فی مدح سید الانام علیہ الصلوٰۃ و السلام‘ اردو، عربی، فارسی، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو اور انگریزی پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک نعت۱۱؎، جس کا ہر شعر الگ الگ زبان میں کہا گیا ہے اور شاعر کا کمال یہ ہے کہ تمام اشعار ایک ہی بحر میں ہیں، حتیٰ کہ انگریزی شعر بھی اسی بحر میں کہا گیا ہے:

ست مکاں دے لامکان و ہر مکاں

ہر کلہ راشہ مکینِ لامکاں

سامنے آئے حقیقت منتظر

چھوڑیے اندیشہ سود و زیاں

قَدْ تَنَوَّرَ حُسْنُہٗ فِی الْعَالَمِیْن

مَھْدُہٗ عَرْشٌ سَطِیْحٌ فِی الْجَنَاں

چھیڑیاں نیناں دے پیالے چھلکدے

گیڑیاں کھول تے جھلاراں روندیاں

مال و جانِ ما فداے رُوے تُو

دشمنِ ما پردہ ہاے درمیاں

مَیں گولیندی ہاں مٹھل منٹھار کوں

در بدر ٹکراں تے ٹھیڈے کھاندی آں

قاسمی جي شان تنہجي شان ساں

انھیں کے چمکائی چڈ یو آلواں

Last Messanger appeared in paran

Never ending Pease be on that drawn


درج بالا مثالوں کے علاوہ بھی متعدد شعرانے تلمیع سے کام لیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ علمِ بدیع کی یہ صنعت زیادہ معروف نہ ہو سکی۔ پروفیسر انور جمال کے مطابق، ’وجہ اس کی یہ ہے کہ تخلیقی دباؤ، تجربے کے mature ہوئے بغیر محض قصد و آہنگ سے stress کے تحت لکھی جانے والی شاعری وقیع نہیں ہو سکتی‘۔ ۱۲؎


اردو میں صنعت تلمیح کی اوّلین مثال حضرت امیر خسروـؒ کے ہاں ملتی ہے اور وہ ایسی مثال ہے، جو کلاسیک کا درجہ اختیار کر چکی ہے:

ز حالِ مسکیں مکن تغافل دو راے نیناں بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں! نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں۱۳؎


لیکن اسے امیر کا رنگِ سخن نہیں کہہ سکتے۔ اگرچہ اردو کے بعض صف اوّل کے شعرا کے ہاں بھی تلمیع کی مثالیں مل جاتی ہیں، لیکن تلمیع کی موجودگی کا سبب زیادہ تر پختگی فن کے اظہار سے ہے ۔ اس حوالے سے سب سے خوب صورت مثال مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی مذکورہ بالا نعت میں ملتی ہے، جس میں چار زبانوں کو جمع کیا ہے، لیکن وہ بھی اس عمل کو محض احباب کی فرمائش قرار دیتے ہیں اور اسے اپنا کمال نہیں سمجھتے :

بس خامۂ خام نواے رضا! نہ یہ طرز مِری ، نہ یہ رنگ مِرا

ارشادِ احِبّا ناطق تھا ، ناچار اس راہ پڑا جانا ۱۴؎


یہ درست کہ یہ صنعت پنپ نہ سکی، لیکن اگر اس کی اہمیت کے پیش نظر عربی و فارسی زبانوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کی دیگرادبی زبانوں کے جملے اور مرکبات بھی اردو شعر و سخن کا حصہ بننے لگیں تو اردو زبان ارتقا کے ایک نئے دَور میں داخل ہو سکتی ہے۔

حوالے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ شان الحق حقی: فرہنگِ تلفظ، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۰۸ء سوم، ص ۳۱۶

۲۔ عبدالقدوس عرشی ڈبائیوی، قاضی: اصنافِ ادب اور علمِ بیان و علمِ بدیع، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۹۱ء، ص ۷۲

۳۔ نجم الغنی رامپوری، مولوی: بحر الفصاحت، جلد ششم ہفتم، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۲۰۱۱ء، ص۱۴۰

۴۔ انور جمال، پروفیسر: ادبی اصطلاحات، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۱۵ء، ص۸۳

۵۔ جامی، عبدالرحمن: کلیاتِ جامی، لکھنؤ: مطبع نول کشور، س ن، ص ۱۶۷

۶۔ ان اشعار کے ساتھ شیخ سعدی، عبدالرحمن جامی یا شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی کا نام لیاجاتا رہا ہے اور ا ب تو حافظ شیرازی اور عبدالحق محدث دہلوی کا نام بھی لیا جانے لگا ہے، البتہ ڈاکٹر نجم الاسلام کے مطابق [ابھی تک] ’یہ امر تحقیق طلب ہے‘۔ (تحقیق، شمارہ ۱۰-۱۱، ۱۹۹۶ء-۱۹۹۷ء، ص ۹۰۲)

۷۔ بحوالہ مولوی نجم الغنی رامپوری: بحر الفصاحت، محولہ بالا ۳، ص ۱۴۳

۸۔ شبلی نعمانی: کلیاتِ شبلی اردو، اعظم گڑھ: دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی، ۲۰۰۷ء، ص ۴۸

۹۔ پروانہ شاہ پوری: نعت (قلمی) مخزونہ عابد خورشید (سرگودھا)

۱۰۔ احمد رضا خاں بریلوی، مولانا:حدائق بخشش، کراچی: مکتبہ المدینہ، ۲۰۱۲ء، ص۴۳

۱۱۔ بحوالہ شاکر کنڈان: نعت گویانِ سرگودھا، سرگودھا: ادارہ فروغِ ادب پاکستان، ۲۰۰۶ء، ص ۴۸۱-۴۸۲

۱۲۔ انور جمال، پروفیسر:ادبی اصطلاحات، محولہ بالا ۴، ص۸۳

۱۳۔ بحوالہ ڈاکٹر جمیل جالبی: تاریخِ ادب اردو جلد اوّل، لاہور: مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۲۸

۱۴۔ احمد رضا خاں بریلوی، مولانا: حدائق بخشش، محولہ بالا ۱۰، ص۴۴

٭٭٭