ایک رہ نوردِ شوق، سرشار صدیقی - جہاں آرا ء لطفی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Mrs. Jahan Ara Lutfi, has expressed her deep sentiments over sad demise of Late Poet Sarshar Siddiqui and presented his devotional poetry to denote his metamorphosis from secular mindedness to devotional and submissive Muslim. She has elaborated poetic skill of the late poet with proper quotations of his selected couplets from Poetic collection 'MEESAAQ'.

جہاں آراء لطفی ۔کراچی

ایک رہ نوردِشوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔سر شاؔ ر صدیقی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سر شار صدیقی اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ اّنا للّہ واّناالیہ راجعون۔

اس جملے کو میں نے آج رات ۷ ستمبر کی رات ۱۱بجے ان کی تدفین کے بعد لکھا ہے۔ سر شار صدیقی نے اس دنیائے فانی کو خیر آباد کہہ دیااور اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔ انہوں نے اپنے ربّ کے حضور حاضری دیدی ہے میں ان کے لئے کیا لکھوں میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ، بس جذبات کا تلاطم ہے جو دل میں اٹھ رہا ہے ایک شفیق ،مہربان ،با وقار، سنجیدہ مزاج و خوش اخلاق، مبتسم الوجہ ، روشن چشم ،سایہ دار شخص تھا جواب ہم میں نہ رہا بلکہ خود اللہ کے سایہ عاطفت میں جاگزیں ہوگیا۔ ان کو یہ مقام بھی اعلیٰ ترین ملا جیسا کے دنیا میں بھی ان کو ملا تھا وہ آخرت میں بھی سر خرو رہے۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سر شار صدیقی دسمبر ۱۹۲۶ء کو کانپور میں پیدا ہوئے ۔ اسی کوچہ ادب میں ان کا بچپن گزرا۔ یہ شہر صنعتی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی مرکز بھی تھا جہاں آئے دن بڑے بڑے مشاعرے اور سیاسی جلسے جلوس ہوتے تھے۔سر شار صدیقی قیام پاکستان کے تین سال بعد ترک وطن کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان آ ئے ۔ اس وقت ان کی عمر چوبیس برس کے قریب تھی اور وہ سیکولر ہندوستان کو شعوری طور پر قبول کر چکے تھے۔ مگر جب سر شار صدیقی اپنے روحانی مرکز کی طرف رجوع ہوئے تو ان میں ایک ایسا انقلاب رونما ہوا جو اب اپنی اساس کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اسی تلاش کے پس منظر میں آپ کی کتاب ’’اساس‘‘ معروض وجود میں آئی اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تعتیہ مجموعہ سرما ےۂ ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ جن لوگوں نے سر شار صدیقی کو پہلے دیکھا ہے وہ اب سر شارسے مل کر حیران ہوجاتے ہیں ۔ ایسا مدح خوان رسول کہ ہر وقت آنکھیں نم ہیں۔ ہر سانس میں مدینہ بسا ہے اور ہر ذکر سرکار دو عالم ؐکے دربار سے وابستہ ہے ۔ شاید روح کی یہی تڑپ آپ کو ہرسال مدینہ النبیؐ کی گلیوں میں پہنچا دیتی ہے۔(۱)

سر شار صدیقی تعلیم یافتہ اور روشن خیال ضرور تھے لیکن پختہ عقیدے کے حامل تھے یہی ان کی اساس تھی اسی لئے تو انہوں نے کہا

سرشار کچھ بھی تھا ترا منکر کبھی نہ تھا

اس کے خمیر ہی میں نہیں خوئے انخراف(۲)

سر شار صدیقی صاحب سے میری پہلی ملاقات آرٹس کانسل کے ایک ادبی پروگرام میں ہوئی غالبا۱۹۹۵ء کی بات ہے ۔ ان کا نام اس قدر شہرت یافتہ تھا کہ ملک بھر میں اس کی گو نج سنائی دیتی تھی یوں بھی پاکستا ن ٹیلی ویژن نے ایسے نامی گرامی شعراء کو عوام سے مشاعروں کے ذریعے اتنا متعارف کروادیا تھا کہ اب لوگوں کے لئے وہ قطعاََ اجنبی نہیں رہے تھے چنانچہ میں ان سے عقیدت و احترام سے ملی جس کا جواب خندہ پیشانی سے ملا، ان کی شخصیت کے بہت سے پہلوتھے لیکن بظاہر بھی ان کی شخصیت وضع داری، تہذیب و شائستگی ، رکھ رکھاؤ، خوش مزاجی خوش لباسی کے باعث بہت گہراتاثر چھوڑتی تھی، وہ فوراََ سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے لوگ ان کے گرد جمع ہوجاتے تو وہ سب کو ہی والہانہ انداز میں جواب دیتے چنانچہ ہماری یہ ملاقات کارڈز کے تبادلے پر ختم ہوئی تو انہوں نے اپنائیت بھرے لہجے میں میرے شوہر عبدالستّار شیخ سے کہا ! میاں اب آپکی ذمہ داری ہے جہاں آراء کو ہمارے گھر لانے کی ۔ ہم نے آنے کا وعدہ کرلیا لیکن مختلف مصروفیات کی وجہ سے نہ جا پائے ۔ ایک دن پھر کسی محفل میں ان سے ملاقات ہوگئی تو انہوں نے ہم دونوں سے شکوہ کیاکہ ’’ارے بھائی آپ دونوں آئے نہیں بڑے وعدے کر رہے تھے کہ حاضر ہونگے، اب کیا محفلوں میں ملاقات رہے گی۔ ارے یہ ہماری بہو بھی ہیں میری آنکھیں وفورجذبات سے نم ہوگئیں۔ ان کی شیخ صاحب سے بہت پرانی واقفیت تھی کہ وہ ان کے بہترین پڑوسی سید افتخار الدین صاحب کے رشتے میں بھائی تھے جہاں آپس کی بے حد قربت تھی چنانچہ سر شار صاحب جب ان کے ہاں آتے شیخ صاحب بھی ان کے بھتیجوں کی طرح ان کو سر شار چچا کہا کرتے اسی لحاظ سے انہوں نے مجھے اپنی بہوکا درجہ بھی دیدیایہ تھی ان کے اعلیٰ درجے کی اپنائیت اور وضع داری۔ مزے کی بات یہ ہے اس اپنائیت کا دعویٰ ان سے ملنے والا ہر شخص ہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔

سرشار اپنے اصولوں کے بڑے پابند آدمی تھے جو اصول وضع کرلئے ان سے انحراف نہ کر تے ان کی ادبی زندگی میں سنہرا موڑ اس وقت آیا جب حرمین شریفین کی زیارت سے مستفیض ہوئے۔ مارچ ۱۹۸۴ء کو وہ اللہ کے مہمان بنکر سفر حجاز کی برکتوں کو سمیٹنے نکلے اس سفر نے ان کے من کی دنیا بدل ڈالی گویا ان کو شعوری طور اپنا ادراک ہوا اپنی پہچان ہوئی اس معاملے کوشعر کی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں۔

اے مرے خالق تیرے پتے سے

میں پہنچا خود اپنی خبر تک (۳)

میں نے بھی آج اپنے رب سے اپنے دل کی باتیں کیں

دامن کو ہِ صفا تومجھ کو وادئ کوہِ طور ہو ا (۴)

پھر تو سال بہ سال اس بابرکت سفر سے فیضیاب ہوتے رہے سرشار صدیقی کے اندر ایک سچا، پختہ عقیدے کا مالک او ر عشق نبی سے سرشار، سرشار ؔ تھا جس نے پہلے خود اس رستے کی شناخت کی جو جانب خلدجاتا ہے اور پھر اپنے قارئین اور سامعین و احباب کو اس راستے کی پہچان کروانے میں مصروف عمل ہوگئے۔ ابو الخیرکشفی ان کے لئے کلمات سپاس تحریر فرماتے ہوئے بڑے نپے تلے اندا ز میں لکھتے ہیں۔

’’ سر شار اپنے علم و اختیار کے بغیر شجرمحمدی ؐ کا ایک پتہ تھا اور اس بات کا شعوری ادراک سرشار کو۱۳مارچ ۱۹۸۴ء روضہ رسالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے روبرو ہوا۔

مدینے والے کو سب کچھ بتا دیا میں نے

بہت سکوں ہے گناہوں کے اعتراف کے بعد (۵)

سرشار صدیقی اس واقعے کے بعد سے اپنے آپ کو ’’نو مسلم ‘‘کہا کرتے تھے، کشفی صاحب نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے۔

’’اس اعتراف کے بعد ہی سرشار نے اپنے آپ کو ’’نومسلم‘ ‘ کہا۔ اسلام نام ہے اپنے نفس کو اُس کے طابع بنانے کا جو نبی کریمؐ لے کر آئے۔ یہ بات سرشار صدیقی کے لئے ان کی زندگی میں حقیقت اس جگہ بنی جو زمین کا مقدس ترین ٹکڑا ہے ۔ سرشار نے اپنے لہجے کونئے آداب میں ڈھالا۔ اسے ایک ایسا لہجہ صحن حرم میں عطاہواجس میں اب اناکے تماشائے یک رنگ کی جگہ عجز کا حلوہ صد رنگ ہے۔ اس لہجے میں اس سجدے کی عظمت اور سربلندی ہے جو صدیوں کی امانت تھااور یہ امانت ادا ہوگئی ہے ۔ یہ وہ عجزہے جو سربلندی آدم کی علامت ہے‘‘۔(۶)

سرشار صدیقی کی مذہبی شاعری میں عقیدت و احترام اور تقدس کا ٹھاٹیں مارتا سمندرہے جس میں غوطہ زن ہو کر فکر و بصیر ت کے درنایاب ڈھونڈکر لاتے ہیں۔ایسی ہی جامع مگر بلیغ’’اُم النبی‘‘ کے زیر عنوان کہی گئی نظم ہے ۔ انہوں نے ایک دن مجھے فون کیااور کہابھئی ایک نظم ہے اس کا عربی ترجمہ کردو ۔ میں نے خوشی اور مسرت کے جذبات سے بھرپور لہجے میں کہا، زھے نصیب آپ مجھے یہ اعزاز دے رہے ہیں۔ اور میں نے اس نظم کا عربی میں ترجمہ کیا جو غالباََ انہوں نے دبئی کے کسی مشاعرے میں پڑھی۔قطع نظر ان کی یہ نظم نکتہ آفرینی، افکار عالیہ اور شعری علامت کی بہترین مثال ہے۔ میں چاہوں گی یہ نظم آپ بھی سنیں۔

اُم النبیؐ

سلسلہ نور کے ظہور کا تھا

کائنات انتظار شوق میں تھی

اور تخلیق کائنات کاراز

صورت انکشاف چاہتا تھا

قبلۂ عرش و فرش کے اطراف

کعبہ اذن طواف چاہتا تھا

اور وہ راز

تیرے بطن میں تھا

لوح محفوظ عرش کی مانند

کلمۂ اعتبار کی صورت

جس کا سایہ نہ ہوگا

اس کے لئے

تیرے سائے کا انتخاب ہوا

تیرااُم النبیؐخطاب ہوا

فیصلہ ہے نظام قدرت کا

شاخ لازم ہے پھول سے پہلے

تیری تخلیق ناگزیر ہوئی

دو جہاں کے رسول سے پہلے

تیری عظمت کا کیا ٹھکانا ہے

تجھ سے جبریل ہم کلام ہوئے

آیتوں کے نزول سے پہلے (۷)

ابو الخیر کشفیؒ جو خود بھی صاحب کشف شخصیت تھے سرشارصاحب کی اس نظم کے بارے میں بطور شہادت یہ خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

’’ سر شار صدیقی کی اس نظم ’’ام النبی ؐؐ‘‘کی شعر گوئی اس کے مومن قلب اور اُردو زبان کے امکانات کی بیک وقت شہادت ہے ۔ اس کی ایک ہی نظیراس سے پہلے نظر آئی۔‘‘

ہوئی پہلو ئے آمنہ سے ہویدا

دعائے خلیل اور نوید مسیحا

سر شار صدیقی نے نعت کہنے کے لئے غزل کو ذریعہ اظہار بنایا۔ ان کی نعتوں میں بے قراری اور اضطراب ہے تو اس کا جواب بطریق اطمینان و سکون بھی ہے شاید غزل کی ہئیت ہی اس طرح کے جذبات کو مکمل طور پر اور متوازن انداز میں بیان کا ذریعہ ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی جب اپنے بندوں کو سرزنش فرماتا ہے اور عذاب سے ڈراتاہے تو اگلی آیات میں بشارتوں اور رحمتوں کے ابواب کھولنے کے وعدے بھی فرماتا ہے سرشار صدیقی کی حمد و نعت کے کچھ اشعار ملاحظہ ہیں۔ حمد کے اشعار:

نئے لہجے میں بصد عجزو ندامت لکھوں

صرف اشکوں کی زباں میں ، تری مدحت لکھوں (۸)

دل دھٹرکتا ہے تو آتی ہے صدائے لبیک

میں اسے روح کی تصدیق محبت لکھوں (۹)

در کعبہ ہو، کبھی ہو مرے سرکار ؐ کا در

کاش یوں دربدری میرا مقدر ہوجائے (۱۰)

ہنگامۂ حیات میں گوشہ نشیں ہوں میں

یا رب! قبول کر مرا انداز اعتکاف

اے خیر و شرنِگر، مرے ماضی سے درگزر

اے مشفق و کریم، مری لغزشیں معاف (۱۱)

سرشار صاحب کی حمد یہ ہائیکو بھی ہیں ہمارے شعرا نے ہائیکو کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایاہے اور قابل تحسین بات یہ ہے کہ حمد و نعتیہ شاعری کے لئے اس صنف کا استعمال بہت ہی خوب کیا ہے سرشار صدیقی کی چند ہائیکوملاحظہ کیجئے۔

شب کا سفر تنہا

میں نے اپنے سینے پر

بس ’’یا اللہ‘‘ لکھا

حاضر و ناظر ہے

ہر اک کی نیت کا حال

اس پر ظاہر ہے

شعر لکھ یا نثر

لیکن اپنے سامنے رکھ

آیات والعصر (۱۲)

کس قدر بر محل تراکیب ، استعارے اور تلمیحات ہیں جو سرشار کی شاعری میں دریا کی روانی کی مانند رواں دواں نظر آتی ہیں۔

عزیز احسن کہتے ہیں:

’’سر شارصدیقی کی مدحت گزاری کی’’ اساس‘‘ نئے طرز احساس اور جدید نظرےۂ فن پر ہے ۔ ان کی لفظیات میں عظمت ہنر کا عکس اور حروف میں عقیدت کا رنگ جھلکتا ہے ۔ شعریت کا ادراک سرشار صدیقی کے تخلیقی و جدان کا حصّہ ہے اور ان کی مدحیہ شاعری اس شعری ادراک کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے۔‘‘(۱۳)

سرشار صدیقی کی نعتیہ شاعری۱۹۹۰ء میں ’’اساس‘‘ کے نا م سے مجموعہ کی صورت میں آئی اور اُسی کو ترتیب نو کے ساتھ ’’میشاق‘‘ کی شکل میں مئی۲۰۰۲ء میں لایا گیا جو انہوں نے اپنے خوبصورت دستخط کے ساتھ ۲۱جون۲۰۰۲ء کو مجھے عنایت فرمائی۔ میشاق سے نعتیہ اشعار کا ایک انتخاب یہاں پیش کر رہی ہوں۔

میں اپنے حرف مدح کو یوں محترم کروں

لوح یقیں پہ اسم ’’محمدؐ‘‘ رقم کروں (۱۴)

اجالے ذہن میں ہیں ، روشنی ضمیر میں ہے

کہ خاک کوئے مدینہ مرے ضمیر میں ہے (۱۵)

وہی رمز اوّل وہی امرِ آخر

ازل تا ابد اقتدارِ محمدؐ (۱۶)

زمین شعر سنائے نبیؐ ہے عرش مقام

کہاں یہ رفعت ادراک چرخ پیر میں ہے (۱۷)

مرحبا صل علیٰ یادِ مدینہ آئی

یوں بھی احساس کے ویرانوں میں کھلتے ہیں کنول (۱۸)

مدینے کی محبت، اس کی فضاؤں کا عشق ا،س کی ہواؤں سے الفت ،اس کی زمین سے انسیت کا عجب اظہار کیا ہے سرشارؔ صاحب نے سادے الفاظ کو اپنے عمیق خیالات اور بسیط افکار کا پیراہن پہنا کے بڑی سہولت اور آسانی سے وہ سب کہہ جاتے ہیں جنھیں کہنے کو وسیع و عریض اوراق درکار ہوں ۔ چند ابیات بطور نمونہ ہی پیش کر سکتی ہوں ۔ میں اپنی نم آنکھوں سے ان کی پر تاثیر بندشوں میں دیکھتی ہوں تو ان کا چہرہ متبسم متبسم اور آنکھیں گہرے ساگر جیسی تصور میں آجاتی ہیں کہ جب ان سے یہ اشعار سننے کی فرمائش ہوتوپہلے دم بخود ہوکر گہری سوچوں میں گم ہوجاتے پھر مسکراتے لبوں سے دبی دبی آواز میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ دو چار اشعار بیان کردیتے۔ اس آیت مبارکہ کے پیش نظر نعتیہ اشعار کی ادائیگی میں آواز کو مدہم ہی رکھتے کہ لا تر فعوااصو اتکم فوق صوتِ النبی (۲:۴۹)کا اطلاق ہم سب پر ہے ۔۔۔۔۔۔مدینے کی سرزمین کے لئے کہتے ہیں:

مدینے میں نہیں ملتا جو کوئی گھر، نہ ملے

کہ میں نے دل میں بنانا ہے گھر مدینے کا (۱۹)

تڑپ جو پچھلے برس سے تھی، میرے سینے میں

پھر ایک بار بلایا گیا، مدینے میں

نہ ہوش ہے، نہ خبر ہے، نہ فکر ہے، نہ خیال

مگر عجیب مزا ہے یہاں کے جینے میں (۲۰)

دیارِ طیبہ میں مجھکو مری شناخت ملی

پتہ چلا کہ مرا نام کیا ، نشاں کیا ہے (۲۱)

سرشارؔ صدیقی جیسا روایتوں کا امین شخص محبتوں کو نچھاور کرنے والا، غیروں کو اپنانے والاآج ہمارے درمیان نہیں لیکن وہ جو اپنی ذات میں انجمن تھے دنیا کی انجمن کو سونا کر کے جنتوں کے باسی بن گئے آج ان کی یادیں ہمارے لئے سرماےۂ افتخار ہیں ہم آنے والی نسلوں کو کہہ سکیں گے ہم نے انہیں دیکھا تھا انہیں سنا تھا اور ان کی چھاؤں سے فیض اٹھایا تھا ۔ اپنی شاعری کے اس روشن اور تابناک رُخ کے بارے میں ان کے الفاظ کو اختتامی کلمات بناتی ہوں ، لکھتے ہیں:

’’شاعری تو صرف الفاظ کا پیرہن ہے ۔ میں تو اس روح پر اصرار کروں گاجو میں نے لفظ لفظ کے وجودِ باطن میں اتارنے کی کوشش کی ہے ۔ اگر ان لفظوں میں میرا لہو، میرا نسب ‘میراعشق بولتا ہوامحسوس ہوتو پھر میری گواہی سچّی ہے۔‘‘(۲۲)

آج جب میں ان کا یہ قطعہ پڑھ رہی ہوں تو دل کی عجیب سے کیفیت ہے ۔۲۲فروری۱۹۹۶ء یکم شوال۱۴۱۶ھ کو کہے گئے اس قطعہ کا عنوان ہے ’’لوح مزار‘‘۔تقریباََ اٹھارہ برس پہلے لکھے گئے ان اشعار کو آج پڑھنے میں کچھ اور بات ہے ،آج جب کہ وہ ہم میں نہیں۔

لو ح مزار

میں خاکِ پائے رسالت ، میں گردِ راہِ حرم

مجھے خدا کی زمیں پر کہیں بھی دفن کرو

میں روز حشر جہاں سے اٹھایا جاؤں گا

وہ ارض شوق مری جنت یقیں ہو گی

وہ سر زمین، مدینے کی سر زمیں ہوگی (۲۳)


حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ محمد قاسم سید ، پاکستان کے نعت گو شعراء، جلد اول، ہارون اکیڈمی کورنگی کراچی ، سال اشاعت ۱۹۹۳۔ ص:۱۸۵

۲۔ سرشارؔ صدیقی میشاق ، حرا فاؤنڈیشن پاکستان کراچی، اشاعت،۹ربیع الاول۱۴۳۳ھ ۲۲مئی۲۰۰۲ء ص:۴۸

۳۔ ایضََا۔ ص: ۵۳

۴۔ ایضََا ۔ ص: ۹۱

۵۔ ایضََا ۔ ص: ۱۴۔۱۵

۶۔ ایضََا ۔ص:۱۵

۷۔ ایضََا ۔ص:۶۷

۸۔ ایضََا ۔ص: ۲۱

۹۔ ایضََا ۔ص:۵۱

۱۰۔ ایضََا ۔ص:۴۷

۱۱۔ ایضََا ۔ص:۴۸

۱۲۔ ایضََا ۔ص: ۵۴

۱۳۔ عزیز احسن ، نعت کی تخلیقی سچائیاں،اقلیم نعت ،بااہتمام نعت ریسرچ سینٹر کراچی، سن اشاعت مارچ۲۰۰۳ء

۱۴۔ میشاق ص:۹۸

۱۵۔ ایضََا ۔ص:۱۰۵

۱۶۔ ایضََا ۔ص:۱۰۳

۱۷۔ ایضََا ۔ص:۱۰۵

۱۸۔ ایضََا ۔ص:۱۱۷

۱۹۔ ایضََا ۔ص:۹۷

۲۰۔ ایضََا ۔ص:۹۹

۲۱۔ ایضََا ۔ص:۱۰۹

۲۲۔ ایضََا ۔ص:۲۰۶

۲۳۔ ایضََا ۔ص:۲۰۳


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25