برسبیلِ نعت۔ الفاظ و تراکیب ،- ڈاکٹر ریاض مجید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Riaz Majeed.jpg


مضمون نگار : پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید۔فیصل آباد

مطبوعہ : نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25


ABSTRACT Professor Dr. Riyaz Majeed is a renowned scholar and poet of Naat, who is distinguished for his critical vision. In the cited article he has provoked the thoughts of poets in order to create sets of combined words, to make Naatia Poetry more meaningful and attractive in literary sense. Good Poets of all ages have always contributed towards such exercises. Poetry is meant for the exploration of words, their associations and the expansion of their meanings. Some examples showing the use of combined words have also been presented in the article by the writer to help make his suggestion clearer. The article is a rich contribution towards critical thinking in the realm of devotional poetry.

برسبیلِ نعت ۔ الفاظ و ترا کیب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ اقبا لؒ کے اُس شعر سے اس خودکلا می اور زیرِ لب گفتگو کو ایک اظہاریے کی شکل دیتے ہیں جس میں تما م فنونِ لطیفہ کے کما ل کو ’خونِ جگر ‘ کی آبیا ری سے مشروط کیاگیاہے ۔ اقبا لؒ کہتے ہیں :

رنگ ہو یا خشت وسنگ‘ چنگ ہو یا حرف و صوت

معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

(مسجدقرطبہ/بالِ جبریل)

علامہ کے پہلے مصرعے میں بلیغ معنویت اور کما ل کی مہا رت ہے مصوّری ، فنِ تعمیر، مجسمہ سازی ، موسیقی ، شعر و ادب اور صدا و غنا ( جس میں حسنِ قرات ، صدا کاری ، گلوکاری وغیرہ وہ تما م فنون آجاتے ہیں جن کا تعلق صوت‘ لحن اور آوا ز سے ہے) ___ ____علا مہ نے مختلف فنون لطیفہ کا ذکر علا متی انداز میں ایک ہی سا نس میں کر دیا ہے اور ان تمام فنون کو( اور بھی تما م مو جود یاامکا نی طورپر مستقبل میں سا منے آنے وا لے فنون) میں کما ل حا صل کر نے کے لیے فنکا ر کی پُرانہماک محنت، مستقل ریاضت اور تا ثیر سا ماں جگر کاوی کی ضرورت کو ایک لازمے کی حیثیت دی ہے _وہی بات جو میر تقی میرؔ نے کہی تھی کہ :

مصرع کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں

کِس خو ش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں

علامہ اقبال اور میر تقی میر دو نوں نے ایک ہی با ت کہی مگر دو نوں کا انداز ان کے مزا ج اور طرزِ شعر کی طرح مختلف ہے انداز کے اس فرق کا سبب طبیعتوں اور اسا لیب کے ساتھ ساتھ زمانے کا بُعد اور شعری منظر نا موں کافرق ہے جن میں اُردو کے یہ دو عظیم شا عر شاعری کررہے تھے۔ ان دونوں شعروں میں غز ل اور نظم کے مزا ج کا بھی عمل دخل ہے ۔ میر تقی میر نے ایک مصرع کے لیے جس لا زمۂ فن کی با ت کی علا مہ اقبال کے تمد نی شعور نے اسے تما م فنون پر پھیلا دیا ____میر کے شعر میں ’خوش سلیقگی‘ کے لفظ البتہ ایک اور تخلیقی لا ز مے اور کیفیت کی نشا ندہی کر تے ہیں جو جگر خون کر نے کے مشترک اظہار ( میر و اقبا ل میں) ایک اور خوبصورت قرینے، دلآویز طریقے اور شا ئستہ طرزکے مفہوم کا اضا فہ کرتے ہیں ۔

لفظیاتِ نعت کے بارے میں گفتگو کا آغاز بھی خو ش سلیقگی اور قرینے کے لوازم سے کرتے ہیں ۔ نعت کی صنف کا تعلق علا مہ اقبال کے مصرع میں ’حرف‘ کے قبیلے سے ، یعنی شعر و ادب سے ہے اور جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ ادبیات کا سا را موجود اور امکا نی اظہار حرف ہی کے ذریعے ممکن ہے لہٰذا ہمیں نعت کے فن پر پہلا مکا لمہ حروف اور الفاظ ہی کے حوا لے سے کر نا ہوگااُردو زبا ن کے وہ سب حروفِ تہجی جو اسے عر بی ،فا رسی اور ہندی زبا نوں سے دستیا ب ہو ئے ان کی تعداد38سے 48 کے لگ بھگ ہیں۔ لسانیات کی جدید بحثوں نے فونیم وغیرہ کے حوا لے سے بعض حروف کے سا تھ ’’ھ‘‘کی آوا ز کو بھی ایک جدا گا نہ حرفی اکا ئی تسلیم کیا ہے ورنہ نصف صدی پیشتر کی کتبِ قوا عد اور لغات میں یہ حروفِ تہجی کچھ کم ہیں اور ان کی تعداد 38کے قریب ملتی ہے ۔یعنی بھ ، پھ ، تھ، ٹھ ، جھ،چھ، دھ،ڈھ، کھ ،گھ وغیرہ حروف کو اُن کی اصل صوت ب ،پ ، ت ، ٹ ، ج، چ،د،ڑ،ک،گ وغیرہ کے بعد ’’ھ‘‘ سے ملا کر لکھ دیتے تھے یوں حروفِ تہجی کی تعداد کچھ کم ہو جا تی تھی ۔

حروف دوسرے حروف کے سا تھ مل کر الفاظ بنا تے ہیں اور یوں الف سے لے کر ی تک کے حروف کے مر کّبا ت combinationsیعنی الفاظ ایک دوسرے سے مل کر مصرعے ‘شعر اور نظم پارے بنتے ہیں ۔ شعر کے اظہا ر کے لیے الفاظ ضروری ہیں ایک آدمی اپنے اندر کی دنیا اور محسوسا ت میں ہزا روں اچھے اچھے خیا لا ت رکھّے اگر وہ خیالات لفظوں میں مرتّب ہو کراور شعروں میں ڈھل کر سا منے نہیں آتے وہ شاعر یا فنکا ر نہیں کہلا سکتا ۔ اس کے خیا ل کی لفظوں کے ذریعے تر جما نی اوراس کے محسوسات کی فن کے ذریعے نمو د ، ضروری ہے ۔

نعت کا تعلق چو نکہ شعری ادب سے ہے اور یہ نثر کے مقا بلے میں نظم یعنی شاعری ہی کے قبیلے کی ایک صنف ہے اس لئے اس کا اظہار بھی الفاظ یعنی انہی الف سے ی تک کے حروف میں ہوتا ہے جن کی نشا ندہی ہم اوپر کر آئے ہیں ۔ اُردو شعریا ت میں مستعمل لا کھوں الفاظ میں نعت کے حوالے سے تین طرح کے الفاظ ملتے ہیں یہ ایک سادہ سی تقسیم ہے جس کا ذکربات شروع کر نے کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ اس کا کو ئی خاص کلیہ نہیں جس طرح میں اس لمحے سو چ رہا ہوں اس حوا لے ہی سے بات کررہا ہوں قا رئین کا اس سے متفق ہو نا ضروری نہیں۔

(۱) ____وہ الفاظ جن کے اندر نعت کا فطری قرینہ مو جو د ہے جن کا تعلق اسلام اور ایما نیات سے ہے اس ذخیرہ الفاظ میں اسما ئے رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم محمد، احمد ، امین ، صا دق ، شا ہد ، سراج منیر، مبشر ، اُمّی _____ان الفاظ میں وہ تمام اسماء مبا رکہ شا مل ہیں جن کی تعداد ہزا روں میں ہے ’’اسمأ النبی الکر یم صلی اللہ علیہ واالہٖ وسلم ، مرتبہ( صو فی برکت صا حب مطبو عہ دا رلاحسان فیصل آباد)میں ان اسما ء کی تعداد 1800کے قریب ہے جنہیں انہوں نے قرآن مجید ، احادیث رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کتب سیر ومغا ز ی ، کتبِ تا ریخ اسلا می اور دوسرے تا ریخی مآ خذ (قدیم کتب سماوی وغیرہ ) سے حا صل کیا ہے ۔

یہ تما م اسما خو د مختصر اً نعتیں ہیں کہ ان کے اندر نعت کا قرینہ بدرجہ اتم مو جود ہے ۔ ان کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت ہی ان کو نعتیہ قرینے سے مشرف کر دیتی ہے مثلاً ایک سیدھا سا لفظ عبد ہے ۔ جیسا ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے اس کے شروع میں الف لا م لگا کر العبد کہتے ہیں یا اس کے آخر میں ہ اور پیش لگا کر عبدہٗ کہتے ہیں یہ ’ال‘ اور ’ہ پیش کا۔ ۔عبد ‘سے پہلے یا عبد کے آخر میں استعمال۔ ۔العبد اور عبدہٗ کو ان تما م سیرتی اوصاف و کما لا ت کا حا مل بنا دیتا ہے ۔ جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذا ت مبا رکہ متصف ہے ۔ بقول علا مہ اقبال :

عبد دیگر، عبدہٗ چیزے دیگر

ما سراپا انتظار اُو منتظَر

ویسے تو تما م آدمی اللہ ہی کے بندے ہیں مگر عبدہٗ اور العبد کے الفاظ اس تخصّص کے حا مل ہیں جن کا دو سرا کوئی آدمی اہل نہیں __مکمل خود سپردگی (complete surrender) اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے سا منے کا مل اطا عت (total submission) اور بفر ماں بردا ری کا اہل۔۔یعنی یکسو‘ کا مل مسلم آپؐ کے علا وہ اور کو ن ہے ؟ اس ’ہے‘ میں سارے زمانے ہیں یعنی تھا ، ہے اور ہو گا _____سو ہم نے دیکھا کہ عبد کے ساتھ ال اور ہ پیش لگانے نے اس لفظ کو نعت کا بڑاقرینہ دے دیا۔

اسما ئے مبا رکہ کے سا تھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات با بر کات سے تعلق رکھنے والے سارے الفاظ ۔ آپ سے آپ نعت کے قرینے کے حا مل ہیں یعنی وہ الفاظ جن میں آپ کے والدین ، اصحاب ، آل و اطہارپاک۔آپ سے منسوب شہر ، روّیے ، مسجدیں ماحول ، شعائر ، غزوات ، عادات، فرامین ، احکا ما ت ، احا دیث، سنن ، فرمودات ____ وغیرہ وہ تما م الفاظ جن کا تعلق اسلا می شعا ئر اور ایما نیا ت سے ہے اور جن کا تذکار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت و سوا نح اور شمائل و خصائل میں آتا ہے ۔ ان میں حضرت آمنہؓ ، عبد اللہؓ ، حلیمہؓ ، فاطمہؓ،خدیجہؓ، عا ئشہؓ، حسنؓ، حسینؓ، حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓاور دیگر تما م صحا بہ شا مل ہیں اسی طرح نما ز ، حرم ، مکہ ، مدینہ ، حرم ، طوا ف، گنبدِ خضرا، غا رِ حرا، غارِ ثوراور اسی قبیل کے ہزاروں الفاظ اپنے اندر نعت کا آپ سے آپ قرینہ رکھتے ہیں ۔ ان الفاظ میں نعت کی نسبت با لقوہ (poitential energy) کی طرح موجود ہے جسے نعت کا شا عر خوش سلیقگی سے استعما ل میں لا کر اس لفظ کے نسبتی جو ہر کو با لعفل (kinetic energy)میں بدل سکتا ہے ۔

دوسری قسم کے الفاظ وہ ہیں جو نعت کے حوا لے سے آپ ہی آپ پہلی قسم کی طرح قرینہ یا ب تو نہیں مگرجوا س با ب میں قرینہُ رو ضرور ہیں ان الفاظ میں اخلا ق اور انسا ن کی اچھی قدروں سے تعلق رکھنے وا لے لسا نی ذخیرے میں مو جود تما م الفاظ آجا تے ہیں مثلاً محبت ، عشق ، حُب ، حسن ،خیر ، اچھا ئی ، ایثا ر ، در گز ر ، توبہ ، نماز ، عبادت وغیرہ۔

(۲) نعت کے اظہار میں نادرہ کاری کو آمیز کرنے کے لئے ہمارے پاس لاحقوں سابقوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ بس ذرا توجہ دینے کی ضرورت ہے ہم دستیاب ذخیرے کو نہ صرف نعت رنگ کر سکتے ہیں بلکہ عقیدت نگاری کی تمام صنفوں میں استعمال کرسکتے ہیں ۔ مثلاً:


  • آور کے سا تھ . زور آور کی طرح ۔ نعت آور، حمد آور، منقبت آور وغیرہ
  • خوا ہ کے ساتھ ,خیر خواہ ۔ کی طرح ،نعت خواہ ۔حمد خواہ، منقبت خواہ وغیرہ
  • فکر کے سا تھ، راست فکر ۔ کی طرح، نعت فکر۔ حمد فکر، منقبت فکر وغیرہ
  • آمادہ کے ساتھ، نیم آمادہ ۔ کی طرح، نعت آمادہ، ثنا آمادہ ،حمدآمادہ وغیرہ
  • اندیشہ کے ساتھ، خوش اندیشہ ۔ کی طرح، نعت اندیشہ، ثنا اندیشہ، حمداندیشہ وغیرہ
  • سگالی کے ساتھ ،خیر سگالی ، کی طرح ۔ نعت سگالی ،حمد سگالی، ثناء سگالی وغیرہ
  • مند کے سا تھ ، دولت مند ،کی طرح ۔نعت مند ،ثنا مند، منقبت مند وغیرہ
  • دوست کے سا تھ ، انسان دوست، کی طرح ۔نعت دوست ،حمددوست ،منقبت دوست وغیرہ
  • حا ل کے سا تھ ،مست حال ،کی طرح ۔نعت حال ،درود حال ،حمد حال وغیرہ
  • دار کے سا تھ ،دیندار، کی طرح ۔نعت دار ،ثنا دار،منقبت دار وغیرہ
  • آشنا کے سا تھ ،فطرت آشنا، کی طرح۔ نعت آشنا، ثنا آشنا، سیرت آشنا وغیرہ
  • شنا س کے ساتھ ،غم شناس، کی طرح ۔نعت شناس، ثنا شناس، مدینہ شناس وغیرہ
  • آثا ر کے سا تھ ،خوش آثار، کی طرح۔ نعت آثار، حمد آثار، مغفرت آثار وغیرہ
  • خصال کے سا تھ ، خوش خصال، کی طر۔ نعت خصال، درود خصال، طیبہ خصال وغیرہ
  • مست کے سا تھ ،حال مست، کی طرح۔ نعت مست، ثنا مست، درود مست وغیرہ
  • انداز کے سا تھ، خوش انداز، کی طرح۔ نعت انداز، حمد انداز، منقبت انداز وغیرہ
  • سا ماں کے سا تھ ، بہار ساماں، کی طرح۔ نعت ساماں، مغفرت ساماں ، بہشت ساماں وغیرہ
  • جا ہ کے سا تھ ،عا لی جاہ، کی طرح۔ نعت جاہ، حرم جاہ، عرش جاہ وغیرہ
  • آفریں کے سا تھ ، آفریں ،کی طرح۔ نعت آفریں، مغفرت آفرین، نجات آفریں وغیرہ
  • اسلو ب سے ،خوش اسلوب، کی طرح۔ نعت اسلوب، ثنا اسلوب، منقبت اسلوب وغیرہ
  • آرا سے ،جہاں آرا، کی طرح۔ نعت آرا، حمد آرا، منقبت آرا وغیرہ
  • انجام سے ،خوش انجام ،کی طرح۔ نعت انجام، خیر انجام ،مدینہ انجام وغیرہ
  • خیز سے ،صبح خیز، کی طرح۔ نعت خیز، ثنا خیز، حمد خیز وغیرہ
  • انگیز سے ،فکر انگیز، کی طرح۔ نعت انگیز، ثنا انگیز، منقبت انگیز وغیرہ
  • صفت سے ،شعلہ صفت، کی طرح۔ نعت صفت،حمد صفت،ثنا صفت وغیرہ
  • رس سے ،نورس، کی طرح۔ نعت رس، حمد رس، درود رس وغیرہ
  • رسیدہ سے ،عمررسیدہ، کی طرح۔ نعت رسیدہ، ثنا رسیدہ، حرم رسیدہ وغیرہ
  • پُر سے ،پُر اعتما د، کی طرح۔ پُرعقیدت، پُر ثنا، پُر احترام وغیرہ
  • کوش سے ،سہل کوش ،کی طرح۔ نعت کوش، سکینت کوش، حمد کوش وغیرہ
  • کا ر سے ،خودکار، کی طرح۔ نعت کار، ثنا کار، منقبت کار وغیرہ
  • بیاں سے ،خوش بیاں، کی طرح۔ نعت بیاں، حمد بیاں ، سیرت بیاں وغیرہ
  • خوا ہ سے،خیر خواہ، کی طرح۔ نعت خواہ، ثنا خواہ، نجات خواہ وغیرہ
  • دیدہ سے ،خزاں دیدہ، کی طرح۔ حرم دیدہ، مدینہ دیدہ، مواجہ دیدہ وغیرہ
  • گفتا ر سے ،خوش گفتار، کی طرح۔ نعت گفتار، ثنا گفتار، حمدگفتار وغیرہ
  • اطوا ر سے ،نیک اطوار، کی طرح۔ نعت اطوار، درود اطوار،حمد اطوار وغیرہ
  • رُوسے، رُو برو، کی طرح۔ رُوبہ محمد، رُوبہ طیبہ، رُوبہ حرم وغیرہ

دیکھئے اس ذیل میں انوار ظہوری کا کیا خوبصورت مطلع ہے۔

یہ بات بھی ثابت ہے مری فردِ عمل سے

دل اب سے نہیں، روبہ محمدؐ ہے ازل سے

اس شعر کے ساتھ ہی میں ترکیب سازی کی اس گفتگو کو ختم کرتا ہوں ۔ نعت کے مضامین اور فضا کو نعت آشنا رکھنے کے لیے لفظیاتِ نعت کا یہ صرف ایک پہلو ہے ۔ جس کے التزام کی کوشش ہونی چاہیے ۔ اس کوشش کا مقصد وہ قرینہ حاصل کرنا ہے جس سے غزل کی ہیئت میں کہی جانے والی نعت کا ماحول نہ صرف نعت رو لگے بلکہ جس سے اسلوب میں کچھ تازہ کاری بھی دَر آئے میں نے اوپر دی گئی فہرست میں الفاظ کے جو زوج اور تراکیب بنائی ہیں اس میں نعت، ثنا ، حمد، منقبت وغیرہ کی تکرار محض ایک مثال کے طور پر ہے ۔ ذرا غور کرنے اور پھر تخلیقی عمل میں اس غور اور توجہ کے ایک مستقل تخلیقی رویّہ بننے سے اس مثال کی بیسیوں نہیں سینکڑوں نئی نئی صورتیں سامنے آ جاتی ہیں ۔ جیسے طلب میں سکینت طلب ، مغفرت طلب،جنت طلب ۔۔۔۔ باب میں خلدیاب، مغفرت یاب ، شفاعت یاب وغیرہ۔

سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن ، قرآن کی سورتوں کے اسمائے مبارکہ ، صحابہ کرامؓ ، ارکان اسلام ، شعائردین، غرضیکہ ایمانیات سے متعلقہ ہزاروں الفاظ کے ذخیرے سے استفادہ کرکے ، ایسے لا حقے اور سابقے وضع کئے جاسکتے ہیں جس سے نہ صرف یہ کہ نعت کی لفظی فضا اور معنوی ماحول اُس قرینے کا حامل نظر آئے جو نعت کے لیے ضروری ہے بلکہ جس سے نعت کے اسلوب میں تازہ کاری کا احساس بھی پید اہو۔

یہ چند صفحے لکھتے ہوئے لا حقے اور سابقے کے ذیل میں سینکڑوں ایسے الفاظ میرے خیال میں لَو دے رہے ہیں جو ابھی مشرف بہ نعت نہیں ہوئے اور بقول احمد ندیم قاسمی صاحب:

منتظر ہیں کہ کوئی تیشۂ تخلیق اٹھائے

دفن ہیں کتنے صنم آج بھی کہساروں میں

لغات میں ایسے ہزاروں الفاظ ہیں جن کی تراکیب سازی سے انہیں لفظیاتِ نعت کے ذیل میں لایا جا سکتا ہے ___ کچھ نادرہ کارنعت گوشاعر ایسا کر بھی رہے ہیں ۔

میں نے جو اوپر فہرست بنائی ہے وہ سامنے کے لفظوں کی ہے اگر کوئی شاعر فارسی کا کچھ گہرا ذوق رکھتا ہو تو اس فہرست کو ذرا اور وقیع اور بلیغ بنایا جا سکتا ہے ۔ مثلاًراست فکر کی ترکیب تو عام ہے۔ نعت فکر، مغفرت فکر کی بلاغت دیکھئے اسی طرح لفظ اندیشہ سے نعت اندیشہ ، نجات اندیشہ ۔ ذوق سے ،نعت ذوق ، منقبت ذوق اور سگالی سے خیر سگالی کی طرح ، نعت سگالی اور حمد سگالی کی ترکیب کے معنوی پھیلاؤ کو دیکھئے ۔ آج ابو الخیر کشفی ، عاصی کرنالی اور صوفی محمد افضل فقیر ہوتے تو یہ عاجز ان سے حوصلہ افزائی حاصل کر کے اس بحث کو جو الفاظ کے زوج‘ لاحقوں ‘سابقوں کے حوالے سے ہے کچھ اورطویل کرتا اور اردو میں عقیدت نگاری کے ذیل میں الفاظ کے ایسے اندازِ استعمال کی ضرورت و اہمیت پر ذرا اور کھل کر بات کرتا ۔ ان محبّان نعت میں سے ہر ایک پر یہ شعرصادق آتاہے۔

اعتدالِ معانی از من پُرس

کہ مزاجِ سخن شناختہ ام

(فیضی)

(شعر میں’ سخن ‘کی جگہ ’ثنا ‘پڑھے تو اور بھلا لگے گا)

نعت میں نادرہ کاری کے حصول کے لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ صرف تراکیب سازی کی جمع آوری اور ان کے استعمالِ محض سے بات نہیں بنتی پورے مصرع اور شعر کے ماحول میں اس ترکیب کو ہم آہنگ کرنا ضروری ہے لفظی طور پر نہیں ، معنوی طور پر۔ پھر شعر کی بحر اور مجموعی لسانی ولغوی فضا کے ساتھ اس ترکیب کو’ نعت سلیقہ‘’ عقیدت آداب‘ اور ’احترام مزاج‘ بنانا ضروری ہے ۔ یہ با ت بھی ضروری ہے کہ ماضی میں ہو چکی شاعری کے دستیاب قرینوں کے پیش نظر نادرہ کاری ہونی چاہیے ۔ جست نما اور چونکا دینے والی نہیں۔ حمد و نعت کے ذیل میں مفاہیم و مطالب کے آداب واحترامات کے ساتھ الفاظ کے استعمال میں بھی ایک ایسی شائشتگی اور خوش سلیقتگی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ جس سے وہ قرینہ مل جائے جو ثنا کاری اور عقیدت نگاری کا لازمۂ اول ہے۔ بلکہ نعت طینت شاعروں کو اس قرینے کواپنے مستقل مزاج کا حصہ بنانے کے لیے احتیاط کوش رہنا چاہیے۔

ذیل کے کچھ شعر دیکھئے جن میں تراکیب سازی الفاظ کے زوج اورلاحقوں سابقوں کے ذریعے نعت کے مذکورہ بالا قرینے کے حصول کی کوشش کی گئی ہے۔

بڑے آداب ہیں اس احترام آباد طیبہ کے

یہاں نبض جہاں تیز اور ہوا آہستہ چلتی ہے

ہوائیں مغفرت آثار ہوتی جاتی ہیں

رواں ہے سوئے حرم قافلہ درودوں کا

سفر مدینے کا حُب خیز اور بھی ہو ۔اگر

رہِ سفر میں کوئی نعت دوست مل جائے

اے خوشا! یہ سرشاری جو اثاثۂ جاں ہے

نعت دار سوچوں سے دل بہشت ساماں ہے

ہوئی جاتی ہیں کیسے نعتوں پہ نعتیں

حرم کا سفر نعت آور بہت ہے

مغفرت رُو ہو لفظ لفظ ترا

حمد میں التجا ہو بخشش کی

سیرت شناس دوست جو دو چار جمع ہوں

حب دار ہو مکالمہ و گفتگو کا رنگ

(۳) نعت یاب ، نعت رُواور نعت طلب الفاظ کی گفتگو اور تراکیب کی نادرہ کا ری کے حوا لے سے جس لا زمۂ نعت کا ذکر کیا گیا ہے وہ انتہا ئی اہم ہے ۔ یاد رہے کہ جس طرح ہر روح اپنے اظہا ر کے لئے جسم کی محتا ج ہے ۔ اسی طرح ہر فکر ، جذ بہ احسا س ،وا قعہ ، تجر بہ، واردات اور مشا ہدہ چا ہے وہ ظا ہر ہو یا با طن کا اپنے اظہا ر کے لیے الفاظ چا ہتا ہے ۔ میرزا عبدالقا در بیدل کے سا تھ ۔ ناصر سر ہندی کا ایک دلچسپ مکا لمہ لفظ اور معنی کے حوا لے سے ہُوا جس میں میرزا بیدل نے الفا ظ کی ضرورت و اہمیت کے حوا لے سے ایک حتمی اور بڑی خوبصورت با ت کہی کہ معنی بھی تو ایک لفظ ہی ہے۔

افکاروخیا لا ت کی دُنیا میں جتنی مر ضی سیر کر لیں ۔ اس سیرکا بیا ن الفاظ ہی میں ہوگا___ وہی ’ا‘ سے ’ی‘ تک کے حروف کے لفظی مرکبا ت اور ترا کیب____ پرندہ آسمان میں جس بلندی پربھی پروا ز کر لے اس کو رزق کی تلاش میں زمین پر ہی اُترنا پڑتا ہے کچھ ایسا ہی مسئلہ معانی اور الفا ظ کاہے ۔معنی اگر چہ ایک لفط ہی ہے ۔ مگر پسِ معنی کی جو فضا اور اس کی جو امکانی وسعتیں ہیں اس سے کون انکارکرسکتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افکا ر کی وسعتوں کے تما م سلسلے الفاظ یعنی الف سے ی تک کے مختصر اور تنگ سے روزن ہی سے طلوع ہوتے ہیں گے اس روزن کے پیچھے ہزاروں کائنا توں کی تاریکی پر محیط باطن (معنی) کی دنیا ہے ۔ جو ہمہ وقت ، ہمہ پہلو اور ہمہ حا ل آما دۂ اظہار رہتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اظہا ر کے لیے حروف اور ان کے مرکبات پرانے ، محدود اور نِت نئے افکار کی اقلیم کے مسافر کے لئے فرسودہ (cliche) نا مکمل ، غیر تسلی بخش ہیں علامہ اقبال نے ذوق و شوق میں یہ شعر کہا ہے :

کِس سے کہوں کہ زہرہے میرے لیے مئے حیات

تازہ ہیں میرے واردات کہنہ ہے بزمِ کائنات

یہ بھی کچھ ایسی ہی با ت ہے کہ جب وا ردا ت کی تا زگی ، بو قلمو نی اور نئے پن کے مطا بق موا فق فضا واورشعری ماحول دستیاب نہ ہو تو حسّاس ذہنو ں کوز ندگی زہر ہی لگتی ہے دو شعر اور دیکھئے :

کہاں تلک میں سہوں لفظ ڈھونڈنے کا عذاب

کہے بغیر مری بات کیوں سمجھتے نہیں

اور

الف سے پہلے تھا اور ی کے بعد جو کچھ ہے

مرا یہ جرم کہ وہ حرف پڑھ گیا ہوں میں

ایسی صورت میں فنکار یا تو راز یاب خا موشی کے حا مل تخلیہ میں معتکف ہو جائے گا کہ _____خموشی معنئ دارد کہ درگفتن نمی آید

یا پھر وہ دستیاب لسانی و سائل اور ذخیرۂ الفاظ پہ قناعت کر کے اسے اپنے افکار کے اظہار کے مطا بق اور موا فق کرنے کی کوشش کرے گا۔ مو جود سے بہتر اور بہتر سے بہترین اظہار کے پیرائے تلاش کرے گا ۔ یہ پیرا ئے حروف کے زوج ، مرکبات اور پھر الفاظ کی بہتر سے بہتر ترتیب (proper words in proper places)کے حصول کی کوشش کرے گا اور زندگی بھراس کوشش کو جاری رکھے گا ۔

شعر اور روایت کے حوا لے سے یہ کوشش ہی فن کی بنیاد ہے شعر یعنی اظہار کے باب میں جتنی کوشش ہوگی وہ اسی انداز میں روایت بنتی چلی جا ئے گی کسی بھی زبان یا صنف کی پہلی کوشش سے اب تک کی جا نے وا لی کوشش کا سلسلہ اس با ب میں روا یت کے تسلسل کا سلسلہ ہو گا____ سمندر کے پا نی کی طرح جس میں پہلا پا نی بھی مو جود ہو تا ہے اور ہر لمحے تازہ پانی بھی گرتا رہتا ہے۔

اُردو شاعری کی روا یت کے تناظر میں نعتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جائزہ لیں تو اس میں اُردو ئے قدیم کے شعری نمو نوں سے تا حا ل ایک تسلسل نظر آتا ہے۔

با بائے اُردو کی تصنیف ، اُردو کی بتدائی نشوونما میں صو فیا ئے کرا م کا حصہ سے____ قدیم دکنی مثنویوں کے آغاز کے نعتیہ اشعار سے____ عہدِ حاضر کی طویل یک کتابی نعتوں تک اُردو شاعری کی تخلیقی کوششوں کی ایک تاریخ ہے جس نے نعتیہ روا یت کی آبیا ری کی ہے جیسے جیسے اُردو زبان اُردو شاعری پروا ن چڑھی ہے ویسے ویسے اس میں سیرتِ رسول کے بیان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عقیدت و محبت کے اظہار کے نمو نے نظر آتے ہیں۔ یہ نمونے ایک روایت کے طور پر ہر دور ، دبستان ، علاقے کی اُردو شاعری میں کم و بیش موجود ہیں جب کو ئی با کما ل شا عر ادھر متو جہ ہو اہے تو اس نے اس روایت کو اپنی فنی مہارت سے رجحان ساز اور ثروت مند کیاہے ۔ محسن کا کوروی کا نعتیہ کلام محاسنِ شعری کے تما م پہلو لیے ہو ئے ہے علامہ اقبال کی ’ذوق شوق‘ اُن کے اخلاقی مزاج کی طرح عا لمگیر تہذیبی و تمدنی افکا ر کی حا مل نعتیہ نظم ہے جس میں افکار کی وسعت کی طرح اظہار کی جدّت بھی ہے ۔

عبد العزیز خا لد کا علمی انداز پر مشتمل نعتیہ اثاثہ تا حال تو ضیحی مطا لعا ت کا متقا ضی ہے ۔ ان کے سا تھ اُردو نعت کے معاصر منظر میں سینکڑوں شاعر اور اس روایت کو سنوا رنے ، نکھا رنے اور اسے وقیع بنا نے میں مصروف ہیں۔

شاعری کی کلا سیکی صنفیں محدود سہی کہ بقو ل غا لب

بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لئے

نئے شاعروں نے کثرت کے سا تھ غزل ہی کے اسلوب اور پیرائے میں نعت کہی اور مسلسل کہہ رہے ہیں غزل کی صنف کی طرح اور اُردوزبا ن کے لسا نی سر ما ئے اور ذخیرۂ الفاظ کی تعداد بھی بقدرِ شوق نہ سہی مگر حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تعلق اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا شوق انہی اصناف اور لسا نی حد بندیوں میں مسلسل پروا ن چڑھ رہا ہے اور اب اس تسلسل کی اپنی جداگانہ تا ریخ اور علاوہ شنا خت ہے اس تا ریخ اور شناخت نے چونکہ اُردو شاعری کے مر وجہ اسالیب ہی میں ظہور کیا ہے لہٰذا اُردو شاعری کی روایت ہی کے آئینے میں اُردو نعت کی بھی روا یت جلوہ گرہوتی ہے۔

اُردو نعت میں لفظیات اور ترا کیب کے حوا لے سے مطلوب قرینہ اور لا زمہ جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے نہ صرف نعت کی ثروت مندی کا باعث ہوگا بلکہ اُردو کی شعری روا یت کے حسن اور تابکاری میں بھی اضافے کاسبب ہوگا ۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زبان و بیان آداب ِ نعت
نعت خواں اور نعت خوانی نعت گو شعراء اور نعت گوئی
شخصیات اور انٹرویوز معروف شعراء