حسّان الہند غلام علی آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ حیات، خدمات اور شاعری -ڈاکٹر سیّد علیم اشرف جائسی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


مضمون نگار: ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی( حیدر آباد)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی رحمۃاللہ علیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حیات ، خدمات اور شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بلگرام! اتر پردیش گورنمنٹ گزیٹر میں ہے کہ : "Bilgram, the headquarter town of the Tahseel of the same name,lies in lat: 27.110N, and long: 80.20E , on the old high bank of the Ganga, about 26 Km south-west of Hardoi"

( بلگرام ، اسی نام کی تحصیل کا صدر مقام ہے ، ۱۱۔۲۷ درجہ عرض البلد شمالی اور ۲۔۸۰ درجہ طول البلدشرقی پر ، گنگا کے قدیم بلند کنارے پر،ہردوئی سے تقریبا ۲۶ کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔)

یہ قدیم قصبہ عہد شجاعت کی دو عظیم سلطنتوں، اجودھیا اور ہستناپور ، کی درمیانی شاہراہ پر واقع ہونے کے سبب ہمیشہ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کے نا م کے سلسلے میں کئی روایتیں ملتی ہیں ، جن میں دو زیادہ مشہور ہیں : ۱۔بل نام کے عفریت (راکشس) کے نام پر اس کا نام پڑا ، ۲۔ شری کرشن کے بھائی بلرام جنھوں نے اسے فتح کیا تھا ، ان کے نام پر اس کا نام بلگرام رکھا گیا۔محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے دوران ۴۰۹ھ؍ ۱۰۱۸ء میں قاضی محمد یوسف عثمانی گازرونی نے اس قصبے کو فتح کیا تھا، لیکن اندرون ہند عام غزنوی فتوحات کی طرح یہ فتح بھی عارضی رہی۔ عہد التمش میں سید محمد (صاحب دعوت ِ)صغری ٰنے ۶۱۴ھ ؍ ۱۲۱۷ء میں بلگرام کو دوبارہ فتح کیا۔ سید محمد صغری ٰمشہور بزرگ حضرت ابو الفتح واسطی کی نسل سے تھے۔ اس عسکری فتح نے بلگرام کو ہمیشہ کے لئے واسطی سادات کی علمی اور روحانی فتوحات کا مرکز بنادیا۔بلگرام ہندوستانی تاریخ کے کئی اہم احداث و واقعات کا شاہد ہے۔

جغرافیائی محل وقوع ، تاریخی اہمیت اور تہذیبی وراثت کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم عنصرہے جس نے بلگرام کو علم و ادب کا مرکز بنانے میں خاصہ کردار ادا کیا ہے اور وہ عنصر ہے ماحولیات کا ، بلگرام زمانہ قدیم سے ہی اپنی زرخیز مٹی ، صحت بخش آب و ہوا اورخوبصورت باغات و مناظر کے لئے مشہور رہا ہے۔ ابو الفضل نے آئین اکبری میں یہاں کے آب و ہوا کی تعریف کی ہے۔ مغربی سیاح ٹفن تھیلر (D.J.Tiffenthaler) جو ۱۷۶۹ء میں بلگرام آیا تھا، اس نے بھی اپنے سفر نامے میں یہاں کے چمنستانوں اور مرغزاروں کا ذکر کیا ہے۔ اور اس خوشگوار طبیعی ماحول کا علمی ماحول پر خوشگواراثر پڑناایک مسلم اجتماعی قانون ہے ، بقول علامہ ابن خلدون : خوش نمو زمین اور خوش نما آب و ہوا والے مقامات ہی فکر و دانش کے مراکز بنتے ہیں۔

بلگرام عہد سلطنت سے ہی اسلامی و عربی علوم و فنون کا مرکز بن گیا تھا، اور اکبری دور کے آتے آتے اس نے برصغیر میں نمایاں ترین علمی حیثیت حاصل کرلی تھی، اس کا یہ مقام انگریزوں کے عہد تک برقرار رہا۔اس زمین سے بہت سی علمی و روحانی شخصیات ابھریں جن میں سرفہرست فاتح بلگرام اور سادات بلگرام کے مورث اعلی سید محمد صغریٰ چشتی متوفی ۶۴۵ھ ، شیخ اڈھن بلگرامی (گیارہویںصدی ہجری)، شیخ الہ داد بلگرامی (۹۹۹ھ میں بقید حیات) ، سید عبد الواحد چشتی بلگرامی صاحب سبع سنابل متوفی ۱۰۱۷ھ ، سید قادری بلگرامی متوفی ۱۱۴۵ھ ، سید طفیل محمد بلگرامی متوفی ۱۱۵۱ھ ، میرسید مبارک بلگرامی متوفی ۱۱۱۵ھ، میر عبد الجلیل بلگرامی متوفی ۱۱۳۸ھ ، اورخاتم المحدثین و اللغویین سید محمد مرتضیٰ زبیدی بلگرامی صاحب تاج العروس ،و اتحاف السادۃ المقین فيشرح إحیاء علوم الدین متوفی۱۲۰۵ھ وغیرہ شامل ہیں۔

مسلمانوں کی مرکزی حکومت کے زوال کے ساتھ دوسرے علمی مراکز کی طرح بلگرام کی علمی زبوں حالی کا بھی آغاز ہوگیا۔ ایک وقت میں بلگرام کے گھرگھر میں کتب خانہ تھا، جن میں بیشتر ضائع ہوگیا ، کچھ لکھنؤ اور حیدراباد میں فروخت ہوگیا ، اور ان کا ایک معتد بہ حصہ انگریزوں کے ذریعے غصب کرکے ، تحفے میں وصول کرکے یا پھر حاکمانہ اثر و رسوخ کے ساتھ اونے پونے خرید کر یورپ منتقل کردیا گیا۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں انگریز سیاحوںجیسے ٹیننٹ(Rev M.R.Tenant) وغیرہ، اور عیسائی مشنریوں جیسے بشپ ہیبر(Bishop Heber) وغیرہ کی مسلسل بلگرام آمد کا بنیادی مقصد انھیں علمی خزانوں کا حصول تھا۔

نسب و خاندان[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ نسبا حسینی ،ا صلاواسطی، مولدا و منشاً بلگرامی ، مذہباً حنفی ،طریقۃً چشتی‘‘۔

سبحۃ المرجان ، مآثر الکرام اور خزانۂ عامرہ وغیرہ اپنی کتابوں میں آزاد نے اپنا یہی تعارف کرایا ہے۔ان کا سلسلۂ نسب حضرت عیسی موتم الأشبال بن امام زید شہید بن امام علی زین العابدین بن سید الشہداء امام حسین علی جدہم و علیہم الصلاۃ و السلام تک پہنچتا ہے۔ان کا خاندان واسط (عراق) سے ہندوستان آیا ، اور ہندوستان میں ان کے جد اعلیٰ سید محمد (صاحب دعوت) صغریٰ تھے ، جو سلطان التمش کے دربار سے وابسطہ تھے اور قطب الاقطاب خواجہ بختیار کاکی چشتی کے مرید تھے۔

ولادت و تعلیم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آزاد کی ولادت یکشنبہ ۲۵؍ صفر ۱۱۱۶ھ کوبلگرام میں ہوئی، اور وہیں انھوں نے اپنے بچپن اور عنفوان شباب کی منزلیں طے کیں۔آزاد نے علم و تدین کے ماحول میں آنکھیں کھولیں ، اور روحانیت و مشیخت کی فضاؤں میں پروان چڑھے ،ان کی دادھیال اور نانہال بلکہ پورے خاندان میں علم و فضل کے چشمے بہہ رہے تھے ، اور انھیں سیراب ہونے کے لئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ چناچہ انھوں نے تمام مروجہ تعلیم بلگرام میں اپنے خاندان کے بزرگوں ہی سے حاصل کی۔ آزاد نے اپنی کتابوں میں نہ صرف اپنے اساتذہ کا ذکر کیا ہے بلکہ کس سے کیا اکتساب کیا ہے اس کوبھی تحریر کیا ہے۔ ان تحریروں کے بموجب انھوں نے بیشتر درسی کتابیں سید طفیل محمد اَترولوی متوفی ۱۱۵۱ھ سے پڑھیں ، اپنے نانا سید عبد الجلیل بلگرامی سے حدیث ،لغت اور سیرت وغیرہ فنون کا اکتساب کیا ، اور اپنے ماموں سید محمد بلگرامی متوفی ۱۱۸۵ھ سے ادب عروض اور قافیہ کا علم حاصل کیا۔حرمین شریفین میں شیخ حیات محمد سندی مدنی متوفی ۱۱۶۳ھ سے صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث کا درس لیا اور ان کی اجازت پائی۔ اور شیخ عبد الوہاب طنطاوی شافعی مصری متوفی۱۱۵۷ھ نزیل مکہ مکرمہ سے بھی حدیث شریف میں اکتساب فیض کیا۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

بیعت و اجازت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تصوف و روحانیت کے پروردہ آزاد سن شعور کے آغاز سے ہی ذکر و فکر اور تزکیہ و مجاہدہ کی طرف مائل تھے، چناچہ اپنی خاندانی روایت کے مطابق ۱۱۳۷ھ میںمیر سید لطف اللہ چشتی بلگرامی رحمہ اللہ کے ہاتھوں پر سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں بیعت ہوگئے، اور شیخ کی جانب سے سلسلے کی اجازت و خلافت سے بھی سرفراز کئے گئے۔

سفر و سیاحت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آزاد کے بعض سوانح نگاروں کے مطابق انھوں نے بلگرام میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد مزید تعلیم کے لئے دہلی کاسفر کیا تھا ، لیکن وہاں انھوں نے کیا پڑھا اور کس سے پڑھا اس ضمن میں کچھ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ تعلیم سے مکمل فراغت کے بعد اپنے ماموں سید محمد کے بلانے پر انھوں نے سندھ کا سفر کیاجہاں ان کے ماموں ایک سرکاری منصب (محصل و پرچہ نویس) پر فائز تھے، آزاد کے وہاں پہنچنے پر ان کے ماموں انھیں اپنا قائم مقام بناکر بلگرام واپس آگئے جہاں وہ چار سال تک مقیم رہے۔ اس درمیان آزاد نے ان کی ذمہ داریوں کو بخیر خوبی نبھایا۔سندھ سے واپسی کے دوران انھیں دہلی میں یہ اطلاع ملی کہ ان کا خاندان عارضی طور پر الہ آباد میں مقیم ہے ، لہذا انھوں نے دہلی سے الہ آباد کا سفر کیا اور وہاں کچھ عرصہ قیام بھی کیا۔

سفر حج و زیارت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بچپن میں آزاد کو خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کا شرف ملا تھا ،اور وہ اسی وقت سے بارگاہ نبوی میں حاضری اور کعبۃاللہ کی زیارت کے لئے بے چین و مضطرب رہتے تھے۔ ان کے روح کی تڑپ اور شوق کی سوزش بڑھتی رہی یہاں تک کہ انھیں یارائے صبرو شکیب نہ رہا ، اور ۱۱۵۰ھ میں وہ گھر سے دیار حبیب کی طرف نکل پڑے ، نہ کچھ زاد سفر ، نہ کسی کو اطلاع و خبر اور نہ کوئی رفیق و راہبر، لیکن اس دیوانگی میں بھی ہشیاری کا یہ مظاہرہ کیا کہ سفر کے معروف راستے کو چھوڑ کر صحراؤں اور بیابانوں کا راستہ اختیار کیا تاکہ کوئی ان کی راہ محبت میں رکاوٹ نہ بن سکے، اور کوئی ان کے سفر شوق میں حائل نہ ہونے پائے۔اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی ، جب ان کے گھر والوں کو ان کے اس سفر بے سروسامانی کا پتہ چلا تو ان کے بھائی میر سید غلام حسین نے حج کے معروف راستے پر تین منزل تک ان کی تلاش کی ، لیکن جب ان کا کوئی سراغ نہیں ملا تو واپس آگئے۔

آزاد نے اپنے اس سفر اور اس کی حکایات کو عربی و فارسی اور نظم و نثر میں بے حد دل آویز اور رقت انگیز اسلوب میں بیان کیا ہے ، اور ’’ ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے ‘‘ کے تحت بار بار اور مختلف انداز میں کیا ہے، حتی کہ سبحہ وغیرہ میں ان کی خود نوشت سوانح حیات کا بیشتر حصہ سفر حرمین شریفین کے ذکر ہی پر مشتمل ہے۔فارسی میں ’’طلسم اعظم ‘‘کے نام سے ان کی ایک مثنوی ہے جو خاص اس مبارک و مسعود سفرکے احوال پر مشتمل ہے، اور یہی عنوان اس سفر کا مادۂ تاریخ بھی ہے۔عربی کے بھی متعدد قصائد میں انھوں نے اپنے جذب و شوق کو نظم کیا ہے۔


ھاج البکاء إلی منازل رحمۃ

مسقیۃ بالدیمۃ الھطلاء

ما لاح من نحو الأبارق بارق

إلا و أزکی النار في أحشائی

و جلست في کمدٍ علی بعد المدی

شتان بین الہند و الزوراء

لوکنتُ أُخبر جیرتی و عشیرتی

لتزاحموا بینی و بین رجائی

لو لا إعانۃ جذبۃ نبویۃ

أصبحت في یدھم من الأسراء

جذبۂ شوق و محبت کی یہ دلنشین تعبیر اور ایمان افروز تصویر کشی آزاد ہی کا حصہ ہے ، فللہ درہ، علماء نے اس کی دو توجیہات بیان کی ہیں : ایک تو ہندوستانی ثقافت ، اور دوسرے اس ملک کی دیار مقدسہ سے دوری ، لیکن اس کا ایک اور بھی سبب ہے جس کی طرف ان کے کسی سوانح نگار کی نظر نہیں گئی اور وہ ہے ان کی چشتی نسبت کیونکہ اس کا محرک سلسلہ ہی عشق ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

طویل صحرا نوردی اور دشت پیمائی، اور بے شمار تکلیفوں اور مصیبتوں کے بعد وہ مالوہ پہنچے جہاں نواب آصف جاہ ایک مہم کے سلسلے میں اپنے لشکر و سپاہ کے ساتھ خیمہ زن تھا۔ اب آزاد اپنے گھر اور اہل خانہ سے اتنی دور پہنچ چکے تھے کہ ان کے لئے سفر کو پوشیدہ رکھنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، علاوہ ازیں ان پر ’’تزودوا‘‘ کی حقیقت بھی پوری طرح آشکارہ ہوچکی تھی ، چناچہ انھوں نے اپنی غنی طبیعت کے باوجود محض سفر میں تعاون حاصل کرنے کے لئے نواب کی شان میں ایک رباعی کہی :


اے حامی دیںمہبط جود و احساں

حق داد ترا خطاب آصف شاہاں

از تخت بہ درگاہ سلیماں آورد

تو آل نبی را بہ در کعبہ رساں

مآثر الکرام میں خود فرماتے ہیں کہ :

’’ فقیر نے قدرت کلام اور موزونیٔ طبع کے با وجود تمام عمر امراء و رؤساء کی مدح سرائی کے لئے کبھی زبان نہیں کھولی لیکن یہ رباعی محض اس سفر میں استعانت کے خیال سے نوک زبان پر آگئی‘‘

نواب نے رخت سفر اور سواری کا انتظام کر دیا۔ محرم ۱۱۵۱ھ میں آزاد جدہ پہنچے جہاں ان کی ملاقات حضرت سید محمد فاخر زائر الہ آبادی متوفی ۱۱۶۴ھ سے ہوئی ، دونوں ہم مشرب بھی تھے اور غائبانہ متعارف بھی۔آزاد عمرہ کرتے ہوئے مدینۂ طیبہ پہنچے اپنی تمناؤں اور آرزؤں کی منزل ،اور بارگاہ رسول میں عرض گزار ہوئے:


قد جئتُ بابکَ خاشعاً متضرعاً

مالی وراء ک کاشفُ الضراء

أحسن إلی ضیفٍ ببابک واقفٍ

شأنُ الکرام ضیافۃ الغرباء

اور وہاں ان کا قیام آٹھ ماہ کے قریب رہا، جس میں انھوں نے شیخ محمد حیات سندی سے درس حدیث لیا ، اور تمام اماکن مقدسہ کی زیارت کی ، مدینے میں اپنے اس طویل قیام سے بھی انھیں سیرابی نہیں حاصل ہوئی ، اور حج کا موسم آیا توبارگاہ رسول ﷺ میں اذن سفر طلب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں :


علیک سلامُ اللہ یا أشرفَ الوری

لقد سالَ دمعی في فراقک فانیا

وماأناکالذيجاء منہلا

فذاقَ و لکن عادَ ظمآنَ باکیا

آزاد شوال میں مکہ مکرمہ حاضر ہوئے ،اور حج کے بعد بھی وہاں کئی ماہ مقیم رہے، اس درمیان انھوں نے وہاں کے تاریخی مقامات کی زیارت اور وہاں کے علماء و مشائخ کی صحبت سے فیض حاصل کیا ، بالخصوص شیخ طنطاوی کے علم و فضل اور ان کی صحبتوںسے استفادہ کیا۔ ایک بار جب آزاد نے شیخ کو اپنے تخلص(آزاد) اور اس کے معنی سے مطلع کیا تو شیخ نے برجستہ فرمایا کہ: ’’یاسیدی أنتَ من عتقاء اللہ‘‘ یعنی : جناب آپ اللہ تعالی کے آزاد کردہ میں سے ہیں۔شیخ کی زبان سے نکلے اس جملے کو آزاد نے اپنے لئے بشارت خیر سمجھا، اور اپنے تخلص سے ان کا انس مزید بڑھ گیا۔

۳؍جمادی اولیٰ کو آزاد جدہ سے روانہ ہوئے ، راستے میں مخا کی بندرگاہ پر ان کا جہاز لنگر اندازہوا ،وہاں آزاد نے سلسلۂ شاذلیہ کے مؤسس حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی متوفی ۶۵۶ھ کے مزار پر حاضری دی۔۲۹ جمادی اولی ۱۱۵۲ھ کو ان کا جہاز سورت پہنچا، اور اس طرح ان کا سفر حج و زیارت اختتام کو پہنچا، انھوں نے اس کے خاتمے کی تاریخ ’’ سفر بخیر‘‘ سے نکالی ہے۔

قیام دکن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سورت سے آزاد اورنگ آبادپہنچے اور باباشاہ مسافر متوفی ۱۱۲۶ھ کی خانقاہ میں اقامت گزیں ہوئے۔ ۱۱۵۹ھ میں ان کی ملاقات نظام آصف جاہ کے صاحبزادے نواب ناصر جنگ سے ہوئی ،اور دونوں میںگہرے مراسم پیدا ہوگئے۔ فقروشاہی کے درمیان یہ ربط و تعلق بڑا پائدار اور دیرپا رہا، جس میں ناصر جنگ کی علم دوستی اور نیاز کے ساتھ ساتھ آزاد کے استغناء و بے نیازی کا برابر کاحصہ تھا۔آزاد نے ان کی رفقت و معیت میں دکن کے کئی شہروں کی سیاحت کی۔ ۱۱۶۵ھ سے ۱۱۶۸ھ تک آزاد نے حیدرا باد میں قیام کیا اور پھر اورنگ آباد واپس لوٹ آئے ،اور باقی عمر وہیں گزاردی ، ان کی بیشتر تصنیفات اسی عہدکی یاد گار ہیں۔اس عرصے میں تصنیف و تالیف کے علاوہ تدریس و افادہ اور خدمت خلق ان کی مشغولیت کا حصہ تھے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

۱۱۹۵ھ میں وہ باقی ماندہ دنیوی علائق سے بھی کنارہ کش ہوگئے، اور اپنے آخری سفر کی تیاری شروع کردی۔ انھوں نے خلد آباد میں محبوب الٰہی کے خلیفہ برہان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد کے قریب اپنی آخری آرامگاہ کے لئے ایک قطعہ زمین خریدا اور اس کا نام عاقبت خانہ رکھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک تقریب برپاکی جس میں علماء و مشائخ اور دوست و احباب کو مدعو کیا اور فردا فردا تمام حاضرین سے معافی مانگی ، ان کے اس طرز عمل سے ساری محفل سوگوار ہوگئی ، مگر وہ خود پوری طرح ہشاش و بشاش اور ــ’’ یار خندا رود بجانب یار‘‘ کا مصداق بنے رہے۔اس کے بعد آزاد پانچ سال مزید بقید حیات رہے اور ۲۴؍ ذیقعدہ ۱۲۰۰ھ ؍ ۱۵ ستمبر ۱۷۸۵ء کو اس دار فانی سے رحلت کرگئے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ ان کے لوح مزار پر مرقوم ہے:


ھو الحیٔ القیوم

حسان الہند غلام علی آزاد حسینی واسطی بلگرامی

’’ آہ غلام علی آزاد‘‘

وفات : ۲۴؍ذیقعدہ ۱۲۰۰ھ

اخلاق وعادات!

آزاد کو فقر و تصوف کی روایت گھر سے ملی تھی، وہ اس روایت کے امین بھی تھے اور علمبردار بھی۔ وہ صرف چشتی نسبت ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنے عادات و اطوار اور اخلاق وکردار میں سر تا پا حقیقی چشتی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ وہ صوفیائے کرام کی شان استغناء کے مجسم نمونہ تھے۔ دنیا اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ ان کے چاروں طرف بکھری ہوئی تھی لیکن انھوں نے کبھی بھی اسے در خور اعتناء نہیں سمجھا۔ اور ان کایہ استغناء اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا۔ انھیں حصول دنیا کے بے شمار مواقع حاصل تھے لیکن وہ ہمیشہ اس سے کنارہ کش رہے۔ نواب ناصر جنگ سے اپنے گہرے مراسم و تعلقات کو بھی انھوں نے کبھی دنیاطلبی کے لئے استعمال نہیں کیا۔ اس سلسلے میں احباب و اقرباء کا شدید ترین اصرار بھی ان کے استقامت کو متزلزل نہیں کر سکا۔ سبحہ میں فرماتے ہیں کہ :

’’ بہتوں نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں کوئی شاہی منصب اختیارکروں، اور دنیا کے لبریز جاموں کو نوش کروں ، لیکن میں نے اپنے دامن کو دنیوی گرد و غبار سے کبھی آلودہ ہونے نہیں دیا ، اور کبھی جادۂ استقامت کو چھوڑ کر اس دنیائے پر فریب کے جال میں نہیں پھنسا۔ اپنے احباب سے میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ اس دنیا کی مثال دریائے طالوت کی طرح ہے جس کا ایک چلو تو حلال ہے لیکن اس سے زیادہ حرام ہے۔‘‘

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

آزاد ساری زندگی خدمت خلق میں مصروف رہے ، اصحاب اختیار اور اہل ثروت سے اپنے روابط کو خلق خدا کی غمگساری اور چارہ جوئی میں استعمال کرتے رہے۔ ان کا یہ طرز عمل ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے عہد زریں کے بزرگوں کی یاد دلاتاہے۔

تلامذہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بے شمار لوگوں نے آزاد کے علم و فضل سے استفادہ کیا۔ اہم شاگردوں میں میر عبد القادر مہربان اورنگ آبادی ، لچھمی نرائن شفیقؔ صاحب گل رعنا ، عبد الوہاب افتخار دولت آبادی مصنف تذکرۂ بے نظیر ، اور ضیاء الدین پروانہ وغیرہ شامل ہیں۔

تصنیفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آزاد نے عربی و فارسی میں بہت سی نثری اور شعری کتابیں تصنیف کیں ،اردو کے بعض اعمال بھی ان کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں لیکن ان کی صحت مشکوک ہے ، البتہ یہ ہرگز بعید از قیاس نہیں ہے کہ انھوں نے اردو؍ ہندوی میں کچھ لکھا یا کہا ہوکیونکہ یہ ان کی خاندانی روایت اور طبیعت دونوں سے ہم آہنگ ہے۔

فارسی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آزاد کی فارسی کی نثری تصنیفات میں : مآثرالکرام(ڈیڑھ سو سے زائد علماء و مشائخ بلگرام کا تذکرہ، چند غیر بلگرامی حضرات کا بھی ذکر ہے) ، خزانۂ عامرہ ( تقریبا ۱۳۵ شعرائے فارسی کا تذکرہ) ، سرو آزاد(تذکرۂ شعرائے فارسی و ہندوی) ، روضۃ الاولیاء( خلد آباد میں مدفون دس اولیاء اللہ کا تذکرہ) و غیرہ (مطبوعات)،اور سند السعادات في حسن خاتمۃ السادات (رضالائبریری ، رامپور ، سیرت و مناقب ؍۱۱) غزلان الہند(سبحۃ المرجان کے آخری دو بابوں کا فارسی ترجمہ) ، ید بیضاء (فارسی شعراء کی سوانح عمریاں) ، شجرۂ طیبہ(سادات و شیوخ بلگرام کا شجرہ) ، انیس المحققین(آزاد کے شیخ اور دوسرے تین صوفیاء کی سیرت) ،اور تذکرہ صوبہ داران اودھ ، وغیرہ (مخطوطات) ہیں۔

فارسی شاعری میں دیوان آزاد ، بیاض آزاد (ترتیب) ، قصائد آزاد ، مثنوی تتمہ امواج خیال، مثنوی سراپائے معشوق وغیرہ ہیں۔

عربی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱- سبحۃ المرجان في آثار ہندوستان ، آزاد کی سب سے مشہور تصنیف ہے ،اور آزاد کی زندگی میں ہی اسے شہرت مل گئی تھی۔ یہ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے، فصل اول : تفسیر و حدیث میں وارد ہندوستان کے تذکرے سے عبارت ہے۔ آزاد نے اس موضوع پر پہلے ایک مستقل رسالہ لکھا تھا جسے بعد میں کچھ اضافات کے ساتھ اس کتاب میں ضم کردیا۔ دوسری فصل : ہندوستان کے چند علماء کا تذکرہ ہے۔ تیسری فصل : محسنات کلام کے موضوع پر ہے۔ اور چوتھی فصل : عشاق و معشوقات اور ان کے انواع و اقسام پر مشتمل ہے ،یہ اپنی نوعیت کا بالکل انوکھا موضوع ہے۔کتاب کی پہلی طباعت ممبئی سے ۱۳۰۳ھ ؍ ۱۸۸۵ء میں ہوئی ، دوسری طباعت ادارۂ علوم اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ۱۹۷۶ء میں ڈاکٹر فضل الرحمان سیوانی ندوی کی تحقیق کے ساتھ ہوئی۔

۲- ضوء الدراري شرح صحیح البخاري ، بخاری شریف کی کتاب الزکاۃ تک کی شرح ہے ، جسے امام قسطلانی کی ارشاد الساری سے ملخص کیاہے ، اور بہت سے علمی نکات و فوائد کا اضافہ کیا ہے۔اس کا قلمی نسخۃ ندوہ لائبریری ( مجموعہ نور الحسن ، نمبر: ۳۶۴)میں موجود ہے۔

۳ ـ۔ تسلیۃ فواد في قصائد آزاد ، بعض قصائد و مراثی کا مجموعہ ہے اور جن شخصیات کے لئے یہ کہے گئے ہیں ان کے سوانحی خاکے بھی کتاب میں شامل ہیں ، اس کا قلمی نسخہ مسلم یونیورسٹی میں آزاد لائبریری کے شعبۂ مخطوطات (جواہر میوزیم؍ ۷۰ اوراق )،اور مکتبہ عارف بک مدینہ منورہ میں موجودہے۔

۴۔ شفاء العلیل، اس کتاب میں مشہور عربی شاعر متنبی متوفی ۳۵۴ھ کی شاعری پر آزاد کی تنقیدات و اصلاحات ہیں۔ آزاد نے اس کتاب میں ناقد اور مصلح دونوں کا کردار ادا کیا ہے اور اس لحاظ سے متنبی پر اپنے نوعیت کی یہ واحد کتاب ہے۔ آزاد نے اس میں واحدی کی شرح پر اعتماد کیا ہے۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی صاحب نے اس کا ایک معتد بہ حصہ اپنی عالمانہ تحقیقات کے ساتھ مرکزی حکومت کے عربی رسالے ’ثقافۃ الہند‘ میں شائع کیا ہے۔ قلمی نسخہ آصفیہ، حیدرآباد(رقم : ۱۱۱۳)میںموجود ہے۔

۵۔ کشکول ، آصفیہ ، حیدراباد (رقم : ۲۴۲)۔

اسماعیل پاشابغدادی ، کحالہ ، اور ڈاکٹر جمیل احمد نے ان کی کچھ اور نثری تصنیفات کے نام دئے ہیں ، جیسے الأمثلۃ المترشحۃ من القریحۃ ، نصاب القصیدۃ في التغزل ، اور تعلیق علی مرآۃ الجمال لنفسہ۔لیکن اول الذکر غالبا ًکوئی کتاب نہیں ہے بلکہ سبحہ میں موجود ان کی خود نوشت سوانح کی ایک عبارت سے یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ بھی کسی تصنیف کا نام ہے۔

عربی شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عربی شاعری آزاد کا اصلی میدان ہے ، عربی میں ان کے ایک دو نہیں بلکہ دس دواوین ہیں، جن میں سے صرف چار مطبوعہ ہیں ، پہلا اور تیسرا مطبع کنز العلوم ، حیدرآباد سے شائع ہوا ہے ، اور دوسرا حیدر آباد ہی کے ایک مطبع لوح محفوظ سے شائع ہواہے ، ان میں سے کسی پر تاریخ طباعت مذکور نہیں ہے۔چوتھا دیوان فارسی کے طرز پر مردف اور پانچواں مستزاد ہے، چھٹا دیوان ۹۳۔۱۱۹۲ھ میں کہے جانے والے قصائد پر مشتمل ہے جبکہ ساتویں میں ۹۴۔۱۱۹۳ھ کے قصائد ہیں۔ ان ساتوں دواوین کو خود آزاد نے ایک جلد میں جمع کرکے اسے ’السبعۃ السیارۃ‘ کا نام دیا تھا جو قلمی نسخے کی شکل میں ندوہ کی لائبریری کے شعبہ مخطوطات میں(زیر رقم:۱۴۴۴ ) موجود ہے۔آٹھواں دیوان کا قلمی نسخہ آزاد لائبریری علی گڑھ کے سبحان اللہ کلکشن میں موجود ہے ، نواں دیوان مطبوعہ ہے اور شاعر کے تجویز کردہ ’تحفۃ الثقلین ‘ کے نام سے ۱۲۹۴ھ میں مطبع نور الانوار آرہ سے شائع ہوا ہے۔دسواں دیوان بھی علی گڑھ میں ہے۔ بعض مصادر کے مطابق انھوں نے اپنے نعتیہ قصائد کو ’ أرج الصبا في مدح المصطفیٰ‘ کے نام سے ایک جلد میں جمع بھی کیا تھا۔ڈاکٹر عبد العلیم نظامی حیدرابادی نے راقم کے اشراف میں اس کتاب کی تحقیق و تدوین کا کام ۲۰۱۶ء میں مکمل کیا ہے، اور ان کامقالہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے جمع کیا جاچکا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ان دواوین کے علاوہ ’مرآۃ الجمال ‘ کے نام سے ۱۰۵ اشعار کا ایک نونیہ قصیدہ ہے جس میں سر سے پیر تک محبوب کا وصف بیان کیا ہے اور ہر عضو کا چار مصرعوں میں ذکر کیا ہے ، یہ قصیدہ شاعر کی ندرت بیانی کا ایک شاہکار ہے ،جس میں کوئی شاعر ان کا شریک نہیں۔ مثلا ًمحبوب کے ابرو ، آنکھیں اور اس کی گندھی زلفوں کے بارے میں علی الترتیب فرماتے ہیں کہ :


أبصر حواجبہا و أدرک کنہہا

غصنان منحنیان وسط البان

أوکافران یشاوران لیوقعا

آمالنا في موقع الحرمان

طرفا الحبیبۃ ماکران تعارضا

و تغافلا عن رؤیۃ الجیران

أو نرجسان علی غصین واحد

و ہما بماء مسکر نضران

آ ضفیرتان علی بیاض خدودہا

أو في کتاب الحسن سلسلتان

أو لیلۃ العیدین أقبلتا معا

أو من قصائدہم معلقتان

آزاد کو خود بھی اپنی اس اختراع کے انوکھے پن کا خوب ادراک و احساس تھا ، فرماتے ہیں:


ما إن سمعنا مثلہا عن شاعر

آزاد للطرز المنشّط بان

اس قصیدے کا ایک قلمی نسخہ خدا بخش لائبریری بانکی پور (پٹنہ) میںہے (نمبر:۲۶۴۱)۔

ان کی ایک طویل عربی نظم مظہر البرکات کے نام سے بھی ہے جو ۳۵۰۰ اشعار پر مشتمل ہے، یہ نظم مثنوی کے وزن پر ہے ، اور نازک خیالی ، شیریں مقالی اور سادہ بیانی کا ایک خوبصورت نمونہ ہے ، اس مثنوی میں سات دفتر ہیں ہر ایک کا آغاز حمد سے ہوتاہے ، اور اس کا موضوع صوفیانہ حکایتیں اور اخلاقی کہانیاں ہیں۔ یہ مثنوی مطبعہ عزیزیہ ، حیدر آباد سے ۱۹۷۹ء میں شائع ہو چکی ہے۔ڈاکٹر شلقامی کے مطابق ان کے تمام عربی اشعار کی تعداد تقریبا ۱۷۰۰۰ ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حسان الہند!

فارسی شاعر خاقانیؔ متوفی۵۹۵ھ ؍۱۱۹۸ء کو اہل ایران نے اس کی نعتیہ شاعری کے سبب حسان العجم کا لقب دیا ہے، اور آزاد کو اہل ہند نے حسان الہند سے ملقب کیا ، اور بلاشبہ خاقانیؔ کے مقابلے میںوہ اس لقب کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ خاقانیؔ کے برخلاف انھوں نے حضرت حسان کی زبان بھی استعمال کی ہے۔

آزاد ایک عبقری فنکار اور فطری شاعر تھے۔ نازک خیالی ، احساس جمال کی قوت، عشق کا جوش و خروش ، بلیغ استعارات اور خوبصورت تشبیہات کے استعمال پر قدرت ، ادبی شعری اور بلاغی علوم و فنون میں مہارت ان کے وہ اوصاف ہیں جس میں ہندوستان کا کوئی عربی شاعر اور یہاں کی کسی زبان کا کوئی بھی نعت گو شاعر ان کا شریک و سہیم نہیں ہے۔

وہ پہلے شاعر ہیں جس نے اپنی شاعری میں ہندوستان کی عظمتوں کے نغمے گائے ہیں ، انھوں نے عربی شاعری میں ہیئت ، صنف ، اور وزن کے نئے نئے تجربے کئے ، اور متعدد عجمی موضوعات و صنائع کو عربی زبان کا لباس دیا۔اس تجدیدی و اختراعی رجحان کے باوجود انھوں نے اپنے موضوعات ، اسلوب بیان ، وصف اور تشبیہ سبھی میں عام طور پر قدماء ہی کی تقلید کی ہے اور ان کے شعری مناہج ہی کی اتباع کی ہے۔ عرب شعراء کی طرح وہ بھی منزل محبوب اور اس کے آثار و کھنڈرات (اطلال)کے ذکر کے ساتھ اپنے قصائد کا آغاز کرتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ ان شعراء سے ایک قدم آگے بڑھ کر وہ اس موضوع کو مستقل صنف بنادیتے ہیں ، چنانچہ ’القصیدۃ الطللیۃ‘ کے نام سے ان کا ایک قصیدہ ہے جو ابتداء تا انتہاء منزل محبوب کے آثار کے ذکر پر مشتمل ہے۔

آزاد نے مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کی لیکن نعت اور غزل ان کا بنیادی میدان ہے، بلکہ حقیقت تو یہ کہ ان کی غزلیں بھی ان کی نعتیہ شاعری ہی کا تسلسل ہیں ، جنھیں رمزی نعتیہ شاعری کا نام دیا جاسکتا ہے ، اور اس طرح ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری صرف نعتیہ شاعری سے عبارت ہے۔اور یہ ان کا ایسا وصف ہے جس کی رو سے بھی وہ خاقانی ؔکے مقابلے میں ’’ لقب حسان‘‘ کے زیادہ مستحق قرار دئے جا سکتے ہیں۔ مداحی رسول کی غیرت نے کبھی گوارا نہیں کیا کہ وہ اہل دول کی مدح سرائی کریں۔ان کے مطابق نعت گوئی ہی شاعر کا اصلی وظیفہ ہے اور مدح رسول کے بعدکسی کی مدح ایسا عیب ہے جو میری شاعری کو بھی عیب دار بنا دیتا ہے:


حصّلتُ بالمدح الکریم سعادۃً

ھذا أخص عبادۃ الشعراء

توصیف غیرک بعد مدحک مشبہ

بیتا تضمن وصمۃ الإقواء

ناصر جنگ کی مدح میں کہے گئے ان کے چار مصرعے ان کے ہزاروں ہزار عربی اشعار میں ناقابل شمار ہیں، اور وہ بھی مدح کے ارادے سے نہیں بلکہ صرف اور صرف اظہار تفنن کے طور پر ہو گئے تھے، ہوا یوںتھا کہ ایک دن آزادنواب ناصر جنگ کے ساتھ سفر میں تھے، اور مختلف النوع علمی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا ، اثنائے کلام احد پہاڑ کے سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ کے فرمان مبارک ’’ ھذا جبل یحبنا و نحبہ ‘‘ (یہ ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں)کی بات آگئی تو آزاد نے برجستہ یہ دو شعر کہے ۔ ؎


ھو ناصر الإسلام سلطان الوری

أبقاہ في العیش المخلد ربہ

حاز المناقب و المآثر کلہا

جبل الوقار ـ’یحبنا و نحبہ‘

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سبحہ میں فرماتے ہیں کہ : ’’و ما نظمتُ في مدحِ غني إلا ھذین البیتین‘‘

آزاد نے اپنی نعتیہ شاعری میں حضرت کعب بن زہیر’ صاحب قصیدہ بردہ ‘ رضی اللہ عنہ کے طریقے کو اختیارکرنے کا دعوی کیا ہے، بلکہ انھیں اپنا معنوی استاذ قرار دیا ہے :


نَسجتُ کابن زہیر برد مدحتہ

لقد غدا قلم الأستاذ منوالی

آزاد کو اپنی شاعرانہ عظمت اور ہندوستان میں اپنی انفرادیت کا پورا ادراک و شعور تھا ، مثنوی مظہر البرکات کے دفتر اول میں فرماتے ہیں کہ :


بارک اللہ فیک یا آزاد

قد أرحت السماع بالإنشاد

قد تجلی سناک بالہند

أین شمع سواک بالہند

أنت سیف مہند و اللہ

للمعانی مجدد و اللہ

بلکہ کبھی کبھی تو وہ خود کو عظمائے مداحین رسولﷺ کی صف میں شمار کرتے ہیں ، بے حد شاعرانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ :


أثنی علیک فحول فاق ألسُنُہم

کلامہم في مقام المدح یاصول

لا ضیر إن کنت في الإخوان منتقصا

یرمی الوغی أحسن الأرماح مہزول

و رب ذي کبرٍ یعلوہ ذي صغر

لا یبلغُ الخالَ في الإعجاب ثؤلول

اور آزاد کا یہ دعوی محض شاعرانہ تعلّی نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اور بعض جہتوں سے وہ اکابرین پر فوقیت لے جاتے ہیں ، مثلا روضۂ شریفہ علی صاحبہا الصلاۃ و السلام کا ذکر دنیا کی تمام زبانوں میں کی جانے والی نعتیہ شاعری کا مشترکہ وصف ہے ،بالخصوص عربی ، فارسی اور اردو کا شاید ہی ایسا کوئی نعت گو شاعر ہو جس نے سبز گنبد اور سنہری جالیوں کو اپنا موضوع نہ بنایا ہو۔ اور آزاد روضۂ انور کے وصف میں اگلوں سے بھی آگے نظر آتے ہیں :

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

روحي الفداء لروضۃ قدسیۃ

مملوء ۃ بلطافۃ و صفاء

بلغ المغارب و المشارق ضوئہا

ترنو إلیہا الشمس کالہرباء

ما أحسن القبر الذي في حجرہ

خیر البریۃ سید البطحاء

طوبی لطیبۃ حیث ضم ضریحہا

جسما تنسم فوق سبع سماء

ولہا شبابیک بأحسن صنعۃ

صادت قلوبا من أہیل ولاء

مدینۂ طیبہ کا یہ محبت آمیز اور یقین افروز وصف بھی ملاحظہ فرمائیے:


سوح المدینۃ ما أجل ترابہا

تجد البصائر فیہ فعل الأثمد

و غبارہا المحسوس فوق ہوائہا

کحل الیقین لمقلۃ المتردد

نصب لمَن ضل الطریق بسوحہا

عَلم الہدی من إصبع المتشہد

أشجارہا قامت علی ساق الہدی

و طلالہا مأوی الرجال السُجد

أملاک أطباق السماء طیورہا

و صفیرہا ذکر الإلہ السرمد

بارگاہ رسولﷺ کی عظمت کی یوں تصویر کشی کرتے ہے:


سکن الملائک في حوائط بیتہ

مثل الحمائم في کوی الجدران

وقفوا کما تقف الشموع بسوحہ

ودموعہم في غایۃ الہملان

جلسوا علی بسط الوقار تأدبا

نسی الجناح طریقۃ الطیران

ان اشعار میں شاعر نے ملائکہ کی تین خیالی تصویریں بنائی ہیں : پہلی کبوتروں کی تصویرہے جو نہایت سکون کی حالت میں دیوار کے روشندانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ، دوسری شمعوں کی تصویر ہے ،جن سے حرارت کے سبب شفاف سائل موتیوں کی شکل میں لگاتار گر رہا ہے۔اورتیسری تصویرمیں فرشتوں کی جماعت ہے جوحالت خشوع و خضوع میں ایسی خموشی اور خود فراموشی کے ساتھ بیٹھی ہے، گویا ان کے پرطریقۂ پرواز بھول گئے ہوں۔

ڈاکٹر شلقامی عربی رسالے ’ الأزہر‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس نے بھی بوصیری وغیرہ کے روضۂ انور کے وصف کو پڑھ رکھا ہے وہ پائیگا کہ آزاد کا ’’روضہ‘‘ زیادہ متحرک ، زندگی سے زیادہ بھرپور ، زیادہ معنویت کا حامل اور اپنے روحانی پس منظر کے اعتبار سے زیادہ غنی ہے۔‘‘

نئے صفحات

آزاد نے اپنے نعتیہ قصائد میں سیرت نبوی کے تمام گوشوں کا احاطہ کیا ہے رسول کریمﷺ کی ولادت سے وصال تک کے احوال و احداث کو نظم کیا ہے۔ نعت کے فنی تقاضوں کی رعایت میں معجزات کے ذکر و بیان کا خاص اہتمام کیا ہے ، اور انھیں مختلف پیرایوں میں نظم کیا ہے۔ اور اس ضمن میں ان کا شاعرانہ تخیل اور فکری پرواز اس بلندی تک پہنچ جاتی ہے جہاں کسی ناظم یا ناثر کے طائر فکر و سخن کا گزر نہیں۔معجزۂ شق القمر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں ایک کے بجائے دو خرق عادت کا مظاہرہ ہوا ہے، کیونکہ جس طرح چاند کا دو ٹکڑے ہونا معجزہ ہے اسی طرح اس کا دوبارہ مل جانا بھی معجزہ ہے :


أشار فانشق صدر البدرمؤتمرا

و الالتیام لعَمری خارق ثان

غزوۂ خیبر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آنکھوں کی شفا یابی کا یوں ذکر کرتے ہیں :


طابت شقائق صارت نرجسا نضرا

لما شفیت مریض الطرف من رمد

اسی موضوع کو امام بوصیری رحمہ اللہ نے اس طرح نظم کیا ہے:


و عیون مررت بہا وہی رمد

فأرتہا ما لا تری الزرقاء

آزاد نے بیمار آنکھوں کو سوزش و ورم کے پیش نظر ’شقائق نعمان‘ پھول (Windflower) قرار دیا ہے، جب کہ بوصیری نے مرض کا صریح ذکر کیا ہے جو بلا شبہ آزاد کے وصف سے فروتر ہے۔ پھر صحت یاب آنکھوں کے بیان میں دونوں نے الگ الگ پہلو کو اختیار کیا ہے آزاد نے اگر جمالیاتی پہلو کو چنا ہے اور اسے نرگس سے تشبیہ دی ہے تو بوصیری نے قوت بصارت کو ترجیح دی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ، آزاد کی غزلوں کو بھی ان کی نعتیہ شاعری میں شمار کیا جانا چاہئے۔ ایسی بے شمار داخلی و خارجی شہادتیں موجود ہیں جن کی بنیاد پر ان کی غزلیہ شاعری کو کسی بھی صورت غزل واقعی نہیں قرار دیا جاسکتا ہے، ان کی غزلیں اپنے قالب میں نعت کی روح کو سموئے ہوئے ہیں ، اور حقیقت کو مجاز کے پیرائے میں بیان کرنا صوفیائے کرام بالخصوص چشتی بزرگوں کا متوارث طریقہ رہا ہے۔ ان کی غزلوں میں جس طرح کثرت سے صوفیانہ رموز و اشارات ملتے ہیں وہ بھی ان کے غزل واقعی ہونے کی نفی کرتے ہیں۔اور اگر ان کی غزلوں کے خاتموں کا مطالعہ کیا جائے تو وہی اس بات کے ثبوت کو کافی ہیں مثلا اپنی ایک غزل کے اختتام میں کہتے ہیں کہ :


إذا أخذ اللہ الخلائق في غد

فمن لی سوی العشق المقدس شافع

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

وہ اپنی غزلوںمیں محبوب کی جو تصویر کشی کرتے ہیں اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ ان کا محبوب اس عالم خاک و باد کا نہیں بلکہ کسی اور عالم کا ہے۔ فرماتے ہیں کہ : ’’ میرا مقام تو محبوب کی پاپوش کی جگہ ہے اور اس کی بساط تو وہ صرف بڑوں کے لئے مخصوص ہے ۔‘‘


ما موضعی إلا محل نعالہا

أما البساط فموضع العظماء

اور ان سب سے بڑھ کر خود آزاد کی اپنی تصریحات ہیں جن میں کسی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اپنے ایک غزلیہ قصیدے میں کہتے ہیں کہ : ’’ (یا رسول اللہ) میں نے اخلاص کے ساتھ آپ کی مدح سرائی کی ہے ، اور صرف آپ کی رضا کا طالب ہوں ، اگرچہ بظاہرحسن تغزل میں مشغول ہوں ‘‘۔


مدحتک إخلاصا و وجہک مقصدی

و إن کنت مشغولا بحسن التغزل

آزاد دوسروں کو بھی مجاز کے سہارے حقیقت تک پہنچنے کی تلقین کرتے ہیں :


عش یا أخانا بالحقیقۃ شاغلا

إن لم یکن فاشغل بحسن مجاز

لا تنتہج إلا طریق صبابۃ

إن کنت تطلب أقوم المعجاز

توارد یا سرقہ!

آزاد کی عربی شاعری کا نہ کوئی قدر دان تھا نہ نگہبان ، چنانچہ وہ لفظی اور معنوی ہر دو سرقات کا شکار ہوئی۔ نواب صدیق حسن خاں کی کتاب اتحاف النبلاء میں ایسے بہت سے اشعار صاحب کتاب کی طرف منسوب ملتے ہیں جو آزاد کے اشعار سے اس قدر مشابہ ہیں کہ انھیں بتکلّف بھی توارد خاطر نہیں قرار دیا جاسکتاہے ، مثلا مندرجہ ذیل مطلع و شعر :


یا غادۃ فتنثنی أین مرعاک

و حیثما أنتِ عین اللہ ترعاک

إنی عشقت و ما عشقی بمبتدع

الإنس و الجن و الأملاک تہواک

جبکہ آزاد کا قول یوں ہے :


یا ظبیۃ فتنثنی أین مرعاک

و حیث أصبحت عین اللہ ترعاک

إنی ھممت و ما أمری بمبتدع

الآس و البان و الغزلان تہواک

اور اسی طرح پورے قصیدے کا حال ہے ، جو ظاہر ہے کہ توارد نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس طرح کا عمل ہمیشہ کے لئے چھپا یا نہیں جا سکتا ، بقول آزاد کہ اندھیرے میں چراغ چرانے والا خود کو بھلا کیسے پوشیدہ رکھ سکتا ہے :


حاز الجواہر من کنزی و یکتمہا

ہل یختفی سارق المصباح في الظلم

تنقید آزاد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کسی بھی شاعر کی طرح آزاد کی شاعری بھی تنقید سے با لا تر نہیں ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کا کلام ہر عیب سے پاک اور ان کا ہر شعر معیاری ہو۔ اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ وہ ایک پر گو اور کثیر الکلام شاعر ہیں اور ان کی شاعری عربی کے اصحاب منتخبات وحولیات کی شاعری بھی نہیں ہے۔ لیکن بایں ہمہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہندوستانی ناقدین (إن سلمنا وجودہم جدلاً) نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیاہے ،اور ان کی ایسی تصویر پیش کی ہے گویا ان کے یہاں کچھ بھی قابل اعتناء نہیں ہے اور ان کا کوئی شعر عیب بلکہ عیوب سے خالی نہیں ہے۔

آزاد پر اس غیر متوازن تنقید کا آغاز ـ میری معلومات کے مطابق علامہ ـ شبلی نعمانی صاحب سے ہوا ، اور بعد میں آنے والے بغیر کسی غور و فکرکے شبلی کے اقوال ہی کو دہراتے رہے ہیں۔ لطف تویہ ہے کہ شبلی کی تنقید کی باز گشت ان حضرات کی تحریروں میں بھی سنائی پڑتی ہے جو شاید آزاد کے اشعار کو اچھی طرح سمجھ بھی نہ سکتے ہوں۔ شبلی وغیرہ کی آزاد پر تنقید کا خلاصہ یہ ہے: کہ ان کی شاعری پر عجمیت غالب ہے ، وہ عربی اسالیب بیان کا التزام نہیں کرتے ہیں ، اور ان کی شاعری صنائع و بدائع کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔اور بقول شبلی آزاد اپنی شاعری کی ان صفات پر بڑے نازاں تھے ’’ لیکن نکتہ سنج جانتے ہیں کہ یہ ہنر نہیں بلکہ عیب ہے‘‘ اوران کا کلام ’’ اگرچہ کثرت سے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انکے چہرۂ کمال کا داغ ہے‘‘ اور ان کی شاعری میں عجمی اثرات اس قدر ہیں کہ ’’ اس کو عربی کہنا مشکل ہے۔‘‘

بلا شبہ شبلی بہت بڑے ادیب و ناقدتھے ، اور عربی زبان و ادب میں بڑی مہارت رکھتے تھے لیکن بایں ہمہ ان کی آراء و افکار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ خود اس خوش رسمی کی بناء ڈالنے والوں میں سے ایک ہیں۔ آزاد پر ان کی اور دوسروں کی یہ تنقید دو جہتوں سے قابل تنقید ہے : پہلی یہ کہ ان کے ناقدین کی تعمیم مبالغہ آمیز ہے اور ان کا اطلاق مطلقاً خلاف واقعہ ہے۔

آزاد ایک عجمی شاعر تھے اور ان کی شاعری میں عجمیت کا اثر بالکل فطری بات ہے ، لیکن ان کے ایسے اشعار کی تعداد بہت مختصر ہے جن میں انھوں کبھی بطور تفنن ،کبھی عصری تقاضوں کے زیر اثر،اور کبھی عربی شاعری میں اضافے کی غرض سے عجمی اثرات کو قصدا عربی شاعری میں منتقل کرنے کی کو شش کی ہے، جیسا کہ اعشی اور ابو نواس وغیرہ نے کیا ہے ،ورنہ ان کے کلام کا غالب حصہ لفظا و معنا اور قلبا و قالبا عرب شعراء کے طرز پر ہے۔انھوں نے عربی تراکیب ، تشبیہات اور استعارات کو استعمال کیا ہے ، عربی کے اسالیب کو برتا ہے ، عربی کی بحروں، ہیئتوں ، وزنوں اور صنفوں میں شاعری کی ہے، موضوعات میں بھی عموما قدماء ہی کی تقلید کی ہے۔اس کے بعد ان کی تمام شاعری کو عجمیت کے زیر اثر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔آج کے عرب ادباء و ناقدین کو بھی اس بات کا اعتراف ہے ان کا بیشتر کلام ’عربی السلیقہ ‘ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

آزاد پر دوسرا الزام خالص عربی اسالیب بیان کا التزام نہ کرنے کا ہے ، اس سلسلے میں صرف یہی کہنا چاہونگا کہ یہ وہ الزام ہے جس میں متنبی اور ابو العلا معری بھی آزاد کے شریک ہیں ، بقول ابن خلدون :

’’إن نظم المتنبی و المعری لیس ھو من الشعر في شییٔ لأنہما لم یجریا علی أسالیب العرب من الأمم‘‘۔

ظاہر ہے کہ جس عیب سے متنبی اور معری جیسے بڑے شعراء خود کو نہیں بچاسکے اس کی بنیاد پر آزاد جیسے متاخرین اور عجمی شعراء کو ہدف تنقید بنانا کیونکر معروضی تنقید ہو سکتی ہے۔تیسرا الزام ان کی شاعری میں لفظی اور معنوی صنعتوں کی کثرت کا ہے ، گزشتہ دونوں الزامات کی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن اسی درجے کی حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی جملہ شاعری کو اسیر صنعت گری قرار دینا صحیح نہیں ہے۔

اطلاق و تعمیم کے علاوہ اس تنقید کا دوسرا قابل گرفت پہلو یہ کہ اس میں شاعر کے عہد اور ماحول کی قطعی رعایت نہیں کی گئی ہے۔ آزاد کا عہد فکری تفنن کا عہد تھا، اور ان پر کی جانے والی تنقید میں عہد اور اس کے رجحانات کی رعایت ہونی چاہئے۔لیکن شبلی کی مشکل یہ تھی کہ ان کے سامنے عربی شاعری کا جو نمونہ تھا وہ صرف اصحاب معلقات اور صدر اسلامی کی شاعری تھی اور انھوں نے اسی معیارپر آزاد کو پرکھنے کی کوشش کی ، اگر وہ آزاد کا مقارنہ ان کے معاصر ممکوکی و عثمانی شعراء سے کرتے تو کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچتے۔پھر ان کی طبیعت میں ’’عظمت پسندی‘‘ کا عنصر جس طرح غالب تھا کہ اگروہ آزاد کے ہم عصر شعراء سے واقف بھی ہوتے تو بھی وہ عصور اولی کے معیار سے کم پر راضی ہونے والے نہیں تھے۔

متاخرین نے بھی آزاد کی شاعری کے مثبت و معروضی مطالعے کے بجائے صرف شبلی کی تنقیدات پر ہی بھروسہ کیا۔ اور اگرشبلی نے انھیں اصحاب معلقات کے معیار پر تولنے کی کوشش کی تھی تو ان حضرات نے جدید شعراء جیسے بارودی ، شوقی اور حافظ وغیرہ سے ان کا مقابلہ و موازنہ کیا۔ اور یہ معیا ربھی اتنا ہی غیر مناسب تھا جتنا شبلی کا معیار۔ کسی شاعر اور اس کے فن کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ تو اس کے معاصرین ہی سے اس کا موازنہ کر کے لگایا جاسکتا ہے۔ اور اگر ہم عصر مملوکی و عثمانی کے شعراء سے آزاد کا موازنہ کریں تو پائینگے کہ ان کی حالت بہتوں سے اچھی ہے، اور اگرچہ لفظی صناعی اور تکلف و آورد کا ان کی شاعری پرکہیں کہیں گہرا اثر ہے لیکن بایں ہمہ وہ عموما قوی معنویت اور گہرائی و گیرائی کی حامل ہے۔

آزاد کے ساتھ اس ناانصافی کا ایک سبب ان کا ایک ایسے عہد میں ہونا ہے جسے ’’ دانشوران مغرب‘‘ نے اتفاقِ رائے سے عہد زوال و انحطاط قرار دے دیا ہے، حتی کہ عربی ادب کی کتابوں میں بھی عہد جاہلی، اسلامی ،اموی ، عباسی اور عہد زوال کے نام ہی ادبی عصور کی تقسیم ملتی ہے۔ حالانکہ قاعدے کی رو سے پہلے چار عہدوں کی مانند آخری عہد کو عہد زوال کے بجائے عہد ترکی یا عہد مملوکی و عثمانی ہونا چاہئے، اور یہی بات زیادہ قرین انصاف ہے۔یہ اکثردیکھا گیا ہے کہ ہم اپنے حزم و احتیاط اور استشراق شناسی کے دعووں کے باوجود استشراقی و مغربی پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور ایسا ہی کچھ یہاں بھی ہوا ہے۔ اور جب آزاد کا پورا عہد ہی عہد زوال ٹھہرا تو اس میں کسی صاحب کمال کی توقع اور کسی موازنے کی حاجت ہی نہ رہی ،اور بے چوں وچرا شبلی کی رائے کو حرف آخر مان لیا گیا۔

اس میں شک نہیں کہ عربی ادب کے اس دور میں اپنے ما سبق دور کے مقابلے میں کسی قدر کمزوری در آئی تھی لیکن یہ ضعف و کمزوری اس کو دور زوال سے موسوم کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ورنہ دور جاہلی یا زیادہ سے زیادہ جاہلی اور اسلامی دورکے علاوہ عربی ادب کے تمام ادوار کو اسی نام سے موسوم کیا جا نا چاہئے۔

آخر اس تسمیہ کی وجہ کیا ہے ؟ ڈاکٹر بکری شیخ امین اپنی کتاب ’’ مطالعات في الشعر المملوکی و العثمانی ‘‘ میں اس کی بنیادی وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ :

’’و لسنا ندری لذلک سببا ، اللہم إلا أن یکون ھذا لعصر ھو الذي قاوم جحافل الغرب التي استحکمت حینا من الدھر في ھذہ البلاد، و دفع الوثنیہ التي جاء ت علی سیوف التتار و رماحہم ، و ملأ المکتبۃ العربیۃ التي خوت بمصیبۃ بغداد و سواھا بالتراث العربيو الإسلاميالمشرقین ، و أعاد إلی النفس العربیۃ عزتہا و ثقتہا‘‘۔

( ہم اس (تسمیہ )کی کوئی وجہ نہیں جانتے ہیں ، سوائے اس کے کہ یہی وہ دور ہے جس نے مغرب کے ان عظیم لشکروں کا مقابلہ کیا جو ایک عرصے تک سرزمین عرب میں مضبوطی سے جمے ہوئے تھے ، اور (عرب سے) اُس وثنیت اور بت پرستی کو دور کیا جو تاتاریوں کے شمشیر و نیزوں کے سہارے داخل ہوئی تھی ، اور یہی وہ دور ہے جس نے عربی کتب خانوں کو ،جوکہ بغداد وغیرہ کے سانحوںمیں خالی ہو گئے تھے ، عربی و اسلامی کتابوں سے بھر دیا ، اور عربوں کی ضمیر کے عزت و اعتماد کو بحال کیا)

اس نام کی شہرت و قبولیت میں عربی ادب کے دور جدید میں الحاد و دہریت کی کثرت اور ترکی دور سے سیاسی و فکری اختلافات کا بھی نمایاں کردار رہا ہے۔

یہ دور ابن خلدون ، ابن عربی ، ابن فارض ، سیوطی، سرخسی ، ابن منظور ، قلقشندی اور نویری وغیرہ کا دور ہے ، اور جس دور میں ایسے افاضل ہوں اسے دور زوال کہناکسی طرح جائز نہیں ہے۔شیخ ابن تیمیہ ، ابن جوزی اور ابن قیم بھی اسی دور کے ہیں۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

مغرب کا دوہرا معیار کوئی نئی چیز نہیں ہے پورے دور ترکی کو دور زوال کہنے والوں کے نزدیک عظمت و عبقریت کا معیا رکیا ہے اس کے لئے ڈاکٹر بکری کی مذکورہ کتاب سے صرف مندرجہ ذیل مثال کافی ہے:

مشہور اسپینی نژا دفرانسیسی مصور و نقاش پابلو پیکاسو(۱۸۸۱۔ ۱۹۷۳ء ) نے از راہ مزاح ایک دن خچر کی دم کو رنگ میں ڈبوکر اسے کینوس کے سامنے کردیا خچر کی دم ہلنے سے کینوس پر آڑی ترچھی لکیریں ابھر نے لگیں ، رنگ بدلتے رہے ، دم ہلتی رہی اور لکیریں بنتی رہیں تھوڑی دیر میں مختلف رنگوں اور لکیروں سے کینوس کی سطح بھر گئی۔ اب ’’فنکاری‘‘ کے اس نمونے کے لئے ایک عنوان کی ضرورت تھی ، پیکاسونے کئی نام سونچے جیسے : شکست خوردہ سپاہی ، فکر کی مکڑی ، اشک محبوبہ اور تتلی کا نغمہ وغیرہ لیکن وہ خود ان ناموں سے راضی نہیں ہوا اور اس کے لئے ایک بے معنی عنوان ’’ بچیوں کی کائی‘‘ تجویز کیا۔

اگلے دن یہ تصویر نمائش کے لئے پیش کی گئی اور ناقدین فن اس کے مطالعے ، تحلیل و تجزیہ اور اس سے معانی کے استخراج و استنباط میں لگ گئے ، کسی نے اسے بیسویں صدی کامعجزہ قرار دیا تو کسی نے اسے عصر حاضر کا بے مثال نمونہ بتایا ، بعض کو اس کی تعریف و توصیف کے لئے مناسب الفاظ نہیں ملے تو اس نے حیرت وسکوت کے ذریعے اس ’نادرۂ روزگار‘ کو خراج تحسین پیش کیا۔اخبار و رسائل نے ناقدین کے ان تبصروں کو شہ سرخیوں میں شائع کیا اور دنیا کی ایک زبان سے دوسری زبان میں یہ تبصرے منتقل ہوئے ،یہاں تک کہ کوئی بھی ’محب فن ‘ایسا نہیں بچا جس نے ’’ بچیوں کی کائی‘‘ کے بارے میں کچھ پڑھا یا سنا نہ ہو ، اور ایک عاشق فن نے اس تصویر کو ساڑھے تین لاکھ اسٹرلنگ پاؤنڈ میں خرید لیا۔

یہ مغربی’’عبقریت‘‘ کا معیار ہے ، دوسری طرف پورا عہد مملوکی و عثمانی عہد زوال ہے۔یہ عہد، جیسا کہ عرض کیا گیا، ادبی تفنن اورلفظی صناعی کا دورتھا، اوراس وقت عرب وعجم یا مشرق و مغرب کوئی بھی ان سے مستثناء نہیں تھا،مثلا ایک مملوکی شاعر کہتا ہے:


لقلبی حبیب ، ملیح ، طریف

بدیع، جمیل، رشیق، لطیف

اس شعر کے مفردات کے باہمی تبادل سے چالیس ہزار تین سو بیس شعر بنتے ہیں ، عثمانی دور کے ایک شاعر نے کسی شادی کا مادۂ تاریخ اس طرح نکالا ہے کہ آخری شعر کے تمام حروف ــــمہمل اور تمام حروف معجم سے الگ الگ وہی تاریخ نکلتی ہے ، علاوہ ازیں اسی شعر میں اس تاریخ کا صراحتاً بھی ذکر موجودہے۔ ؎


أیہا الکامل یا من أخبَرَت

عن علاہ فئۃ بعد فئۃ

خذ تواریخا ثلاثا جُمِعَت

لک في مفردِ بیتٍ مُنبِئۃ

بصریح ، و حروف أعجِمَت

و حروف أھمِلَت مُختَبِئۃ

عَمّ حولٌ وسرور العرس وھُـ

وَ ، ثلاثون و ألفٌ و مِئۃ

اس دور میں صنعت مہملہ اور معجمہ میں کتابیں تصنیف ہوئیں اور قصائد نظم کئے گئے، فیضی کی ضخیم بے نقط تفسیر قرآن ’’سواطع الإلہام‘‘ بھی اسی عہد کا ایک نمونہ ہے اس کی افادیت سے قطع نظر یہ زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت کا ایک شاہکار ہے، اس میں ایسی تحریریں اور نظمیں لکھی گئیں جنھیں افقی طور پر پڑھئے تو مدح ہے اور عمودی طور پر پڑھئے تو ہجو ہے ، یا انھیں عکسا وطردا پڑھنے پر الگ الگ معنی نکلتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ان نمونوں کی تعریف مقصود نہیں ہے لیکن یہ انسانی عقل کی پیداواراور غور فکر کا نتیجہ ہیں۔انھیں ادبی و معنوی اعتبار سے کم قیمت ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن ان میں پیکاسو کے ’’شاہکار‘‘جیسا کوئی نہیں ہے۔علاوہ ازیں اسی دور نے ہمیں مقدمۂ ابن خلدون ، لسان العرب ، صبح الأعشی اور نہایۃ الأرب جیسی ادبی کتابیں بھی دی ہیں جن کے بغیر کوئی عربی کتب خانہ مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔

آزاد کو بھی اسی دور کے تناظر میں دیکھنا چاہئے اوراسی کے معیار پر پرکھنا چاہئے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہندوستانی ناقدین کے بر خلاف عرب ادباء وناقدین میں سے جس نے بھی آزاد کا مطالعہ کیا اس نے ان کے فضل و کمال کا اعتراف کیا۔

استاد شلقامی نے تو انھیں اپنے معاصرین میںسب سے بہتر و بلندتر قرار دیا ’’إذا قارناشعر آزاد بغیرہ من معاصریہ۔ العصر الترکي۔ وجدنا أنہ القمہ لایکاد شاعر من معاصریہ أن یسمو إلیہ‘‘ انھیںعظیم و پیشرو قرار دیتے ہوئے بارودی سے تشبیہ دی ہے ــ ’’ لقد کان شاعرنا آزاد فحلا رائدا من طراز البارودي ‘‘اور آزادکی گمنامی یا کمنامی کی بے حد واقعیت پر مبنی توجیہ کی ہے کہ وہ ایک ایسے ماحول میں ہوئے جو (علمی وفکری) طور پر ان کے استقبال کے لئے تیار نہیں تھا ’’ولکن لم تسلط علیہ الأضواء حیث وجد في بیئۃ غیر مستعدۃ لاستقبالہ ‘‘۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نعت کائنات پر نئی شخصیات
نئے صفحات