سیر ِ چمن رضا ۔ مولانا اسحاق رام پوری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از مولانا محمد اسحاق رضوی مصباحی ،رام پور

سیر چمن رضا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُردو شاعری میں تمام ہی شعراء نے وصف گل و سیرچمن وصبا ، بوئے گلستاں ، بلبل و قمری ، سرو سہی ، صیاد ، خار ، باغ باں ، بارش ، بہار ، نسیم کوئے جاناں ، کوچۂ معطر کی تشبیہ و استعارے میں جودت طبع دکھائی ہے ۔ امام احمد رضا خان بریلوی جہاں ایک جید عالم دین ماہر فلسفی شان دار نثر نگار ، عظیم مفسر ، بے مثال محدث تھے ، وہیں وہ ایک معتبر مرتبہ والے اور مسلم اسلوب رکھنے والے شاعر بھی تھے ۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں ان کی پیدائش ہوئی یہ زمانہ کہلاتا ہے داغؔ ، امیر ؔمینائی ، جلالؔ، تسلیم ؔ، حالی ،ؔ اکبر ،ؔ راسخؔ اور شادؔ کا زمانہ ۔ جب امام احمد رضا خان بریلوی نے اپنی شاعری شروع کی تو اس وقت ان بزرگ شاعروں کے شاگردوں کا دور شروع ہو چکا تھا ۔ جیسے سائل ؔ، سیمابؔ ، نوحؔ ، ریاضؔ ، جلیلؔ ، مضطرؔ ، آرزوؔ اس زمانہ میں مسلمانوں کی انگریزوں کے مقابلہ میں مکمل سیاسی شکست کے باعث اردو شاعری میں قدرے ضعف آچکا تھا ۔ خصوصی طور پر لکھنوی غزل مائل بہ ابتذال تھی ۔ جس کے کچھ عرصہ بعد فراق ؔ، جگرؔ ، اصغر ؔگونڈوی نے نیا لباس پہنایا اور اس کے خدو خال پر غازہ ٔروشن چمکایا ۔ داغ ؔ، اصغرؔ ، حسرتؔ کے بیچ کے دور میں اردو شاعری اور خصوصاً انداز غزل کو کس نے باقی رکھا ۔قدیم استعاروں میں نئی جان کس نے ڈالی ۔ زبان کی صفائی کا کام کس نے کیا ۔ قصیدے ، رباعی کی آبرو کس نے بچائی ، اُردو کو پاک عشق سے کس نے معطر کیا ۔ چمن غزل کی خاص کیاری یعنی نعت کے پھول کس نے کھلائے؟ مبالغہ نہ کرتے ہوئے ہم کو اتنا تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ سب اگر دوسرے شاعروں نے کیا تو ان سب سے زیادہ حصہ رضا ؔبریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔


شاعری کو عرش بریں تک پہنچایا ۔ نئے استعارہ بے مثال تخیل دِل کو بھاتی ہوئی صاف اور ستھری کوثرو تسنیم سے دُھلی ہوئی زبان میں عشق رسالت کی شراب طہور کو پیش کیا ۔ جس کے نشۂ وحدت سے آج تک پوری دُنیا کی فضائیں مخمور ہیں ۔ میدانِ سخن تنگ ہوتے ہوئے بھی ان کا تخیل اتنا وسیع ہے کہ اس میں عرش سے فرش تک کا سارا گلشن ہستی سما جاتا ہے ۔ کاکل و ابرو بھی ہیں ۔ گیسوئے دراز بھی ہیں ۔ سروسہی بھی ہیں ۔ لالہ زار بھی ہیں ۔ نور کے کٹورے بھی ہیں ۔ وہاں ابر رحمت کے جھالے برستے ہیں ۔ ہالۂ رُخِ قمر میں رُخ محبوب سے رحمت کی تمنا بھی ہے ، دامن محبوب کی ٹھنڈی ہوا بھی ، عاشقانِ سوختہ بھی، وہاں سخی کے در بھی اور فقیر بھی ہیں ۔ کوچۂ جاناں سے نسیم بھی آتی ہے ۔ وہاں عاشق صادق محبوب کے دیار کے خار کو بھی اپنے دل میں اُتارنا چاہتا ہے ان کے اشعار کی دُنیاے تخیل ایک حقیقت ہے ۔ ایک چمن ہے ۔ ایک زندگی ہے ۔ ان کا ایک محبوب ہے جس کا ادب ہر ادب سے بالا ہے ، اس کی شانِ ثنا اور راہِ وصف تلوار سے تیز اور بال سے باریک ہے ۔ رضا بریلوی اس ایک نقطہ کو وسعت دے کر چمن بنا دیتے ہیں اور اس میں اتنی بہاریں کہ اُردو کی تمام شاعری کو جمع کیا جائے تو بھی گل و بلبل و عطر بوئے کوچۂ جاناں کی اتنی مہک نہ رکھ سکے جتنی کہ چمن رضا میں ہے ۔ رضا بریلوی کے چمن میں گل ایسا گل ہے کہ اس کی خوشبونے تمام پھولوں کو چھپا لیا ، اور اپنی چمک ، نور ، خوشبوسے مہکایا ہے ۔

نہ رکھی گل کے جوش حسن نے گلشن میں جا باقی

چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغ رسالت کا

مگر اس گلشن میں اس روئے خوب کے سائے ہیں ۔ حسن و حسین ایسے غنچہ کھلے ہیں اور اس چمن کے مبارک پودے اپنی شاخ طوبیٰ کو بڑھاتے رہے یہاں تک کہ شجرۂ رحمت الٰہی ایک مبارک درخت ہے جس کی جڑ مدینہ شریف میں ہے اور شاخیں سارے عالم میں ہیں ۔ رضا بریلوی اس شجرۂ مبارک کی شاخوں کے سامنے چمن نبوت کے گل کی یاد میں جنت کے پھولوں کو روبہ رو کر کے ایک بلبل وارفتہ اور ایک عندلیب ہزار داستاں ہے ۔ اور ایسے ایسے دل گیر نغمے کی شیرینی ہمارے کانوں میں گھولتے ہیں کہ تمام اُردو شاعری کے گلستاں اس کی مہک سے جھوم جھوم اُٹھتے ہیں ۔ ؎

گونج گونج اُٹھے ہیں نغماتِ رضا ؔ سے بوستاں

کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وامنقار ہے

یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضاؔ کی طرح کوئی سحر بیاں

نہیں ہند میں واصف شاہ ہُدیٰ مجھے شوخیِ طبع رضاؔ کی قسم

تو اُردو شاعری میں چمن کا تخیل جو امام احمد رضا بریلوی نے نقش کیا ہے ۔ اس کی مثال شاید اُردو شاعری میں نہ مل سکے ، آیے آپ بھی میرے ساتھ اس باغ جناں کی سیر کو چلیے اور نعت کی مبارک خوشبو سے مہکتے جایے ۔ رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس چمن کی عطربیز فضائوں میں اپنے پیارے غوث یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے سرتاج ولایت کا سہرا باندھا ہے اور اس دِل گیر منظر کو عقیدت و اُلفت کے ساتھ پیش نظر کیا ہے کہ ساتھ میں قاری شعروں کے الفاظ میں مست نشۂ بہار ہوجاتے ہیں ۔ ؎

شجر سروسہی کس کے اُگائے تیرے

معرفت پھول سہی کس کا کھلایا تیرا

تو ہے نوشاہ براتی ہے یہ سارا گل زار

لائی ہے فصلِ سمن گوندھ کے سہرا تیرا

ڈالیاں جھومتی ہیں رقص خوشی جوش پہ ہے

بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا

گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں کی چہک

باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا

صف ہر شجرہ میں ہوتی ہے سلامی تیری

شاخیں جھک جھک کے بجا لاتی ہیں مجرا تیرا

کس گلستاں کو نہیں فصل بہاری سے نیاز

کون سے سلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قطب الاقطاب سردار اولیاے جہاں ہیں۔ اور تمام شجروں اور سلسلوں کی شاخوں میں آپ کی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے ۔ تمام سلسلوں کے عقیدت مندآپ کا نام ادب سے لیتے ہیں دُنیا میں لاکھوں محفلوں میں آپ کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ ان مجلسوں کو باغ ، عقیدت مندو ں کو بلبلیں ، سلسلوں کے فروع کو صف ہر شجرہ ، بیعت کے سلسلہ کو فصل گلستاں ، محبت سے سیّدالاولیا کے لقب کو فصل سمن باندھ لائی سہرا تیرا ، بزرگوں کے سلسلوں کی ان سے متعلق عقیدت مندوں کو آپ سے محبت کے اظہار کے جوشِ خوشی سے جھومنا ، کے خیال کو تخیل بنا کر چمن کی حقیقت بنانے کا کام رضا بریلوی کا ہے ۔ اس تخیل میں ہندوستانی فضائوں میں مست ہوجاتے ہیں ۔ چمن کی بہار ، ڈالیوں کا جھومنا ، بلبلوں کا جھولنا ، پھولوں کا سہرا ، قطار در قطار سروسہی کے تناوراور خوش قامت درخت ، گلستاں کا جوبن ،فصل بہار کی آمد ، ہزار پرندہ کا چہکنا ، بلبلوں کے گانے ، یہ تمام مناظر کو ہندوستان کے خالص روایت اور جغرافیہ، یہاں کے موسم اور عادات سے اخذ کیا گیا ہے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر سیّد الاولیا الجیلانی البغدادی کے قصیدہ میں ہندوستان کے فضائوں کا عطر رضا بریلوی نے لے کر تمام دُنیا کے سامنے پیش کیا ۔ محبت ، گل ، گلشن ، بہار ، نوشۂ سہرا ، وغیرہ وہ منظر ہیں جن سے پاک محبت میں بہار آتی ہے اور اسی تخیل کا سہارا رضا بریلوی نے عقیدت کے اظہار کے لیے اختیار فرمایا ہے ۔

انبیاے کرام کی مبارک جماعت کے ساتھ رضا بریلوی نے باغ رسالت کا تخیل دیا ہے ۔ اس تمام سلسلہ کو باغ رسالت کہا ہے ۔ بہت سے اشعار میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو گل باغ رسالت کا تصور دیا ہے ۔ ع

گل باغ رسالت پہ لاکھوں سلام

عقیدۂ ختم نبوت کو چمن سے منسلک کر کے ایسا تصور فرمایا ہے ۔ جو ان کی شاعری کی عظمت کو سلام کرنے پر قلم کو مجبور کرتا ہے ۔ ؎

نہ رکھی گل کے جوش حسن نے گلشن میں جا باقی

چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغ رسالت کا

مدینہ منورہ کو چمن محبوب اور سارے عرب کو گلشن کہنا یہ بھی رضا کا خاص تخیل ہے ۔ ؎

طیبہ کے سوا سب باغ پامال فنا ہوں گے

دیکھو گے چمن والو! جب عہد خزاں آیا

مدینہ شریف کی حاضری میں دیدار محبوب نہ ہوا صرف حاضری ہوئی ۔اس نامرادی اور ناکامی کی سوزش نے یہ کہنے پر مجبور کیا ۔ ؎

نہ روئے گل ابھی دیکھا نہ بوئے گل سونگھی

قضا نے لا کے قفس میں شکستہ بال کیا

بلبل خود رفتہ چمن کو روانہ ہوتی ہے ۔ ہزار تمنائوں کے ساتھ بے شمار جذبات اور مرادوں کے ساتھ صیاد قضا دیدار گل سے پہلے ہی گرفتار کر کے بال وپر سے شکستہ کر کے مبتلاے قفس کر دیتا ہے ۔ بغیر دیدار محبوب کے مدینہ سے واپس یہ تخیل ، چمن ، گل ، بال و پر سے شکستہ بلبل ، بوئے گل سے محرومی ، روئے گل سے نامرادی ، جس طرح عقیدت و محبت سوزش عشق و درد کی ٹیس کو بتاتی ہے اسی طرح تخیل چمن کی ایک لاجواب مثال ہے ۔ جس کا عکس کچھ جگر کے اس شعر میں آتا ہے ۔ ؎

جب چمن سے لے چلا صیاد کر کے ہم کو قید

دور تک مڑ مڑ کے کوئے گلستاں دیکھا کیے

پھرسوزش دردِ عشق حد کو پار کر جاتا ہے تو صیاد قضا سے عتابانہ انداز میں فرماتے ہیں ۔ ؎

چمن سے پھینک دیا آشیانۂ بلبل

اُجاڑا خانۂ بے کس بڑا کمال کیا

گلستان عرب اور چمن طیبہ ایسے چمن ہیں کہ کہیں بہار ہو نہ ہو وہاں بہار رہے گی ۔ خزاں کا ظالم ہاتھ سارے گلستاں کو خزاں رسیدہ کردے مگر چمن طیبہ کے پھولوں کی بہار اس کی خرد برد سے پاک اور محفوظ رہیں گے حدیث شریف کی کتابوںترمذی شریف ، بخاری شریف ، مشکوٰۃ شریف وغیرہ میں قرب قیامت بھی مدینہ طیبہ کو فتنوں سے محفوظ رہنے کی خوش خبری دی گئی ہے ۔ اس دینی خوش خبری کو شاعری میں تخیل کے موتیوں سے رضا بریلوی نے سجایا ہے ۔ ؎

فصل گل لاکھ نہ ہو وصل کی رکھ آس ہزار

پھولتے پھلتے ہیں بے فصل گلستانِ عرب

صدقے ہونے کو چلے آتے ہیں لاکھوں گل زار

کچھ عجب رنگ سے پھولا ہے گلستانِ عرب

چرچے ہوتے ہیں یہ کمھلائے ہوئے پھولوں میں

کیوں یہ دن دیکھتے پاتے جو بیابانِ عرب

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے بلبل شیدائی ہیں اور مدینہ چمن ہے ۔ ؎

جو بنوں پر ہے بہار چمن آرائی دوست

خلد کا نام نہ لے شیدائی دوست

شجرۃ القدس ، سیّد الکونین صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالم ، حضرت سیّدہ زہرا، امام حسن ، امام حسین ، حضرت صدیق و فاروق و عثمان و [[[ علی بن ابوطالب | حیدر]] رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ذاتِ اقدس سرکار کے قامت مبارک ، رخسار و لب مبارک و چہرۂ انور کی چمک اور بہار ، آل احمد سے عمر کے آخری حصہ میں مدد کی درخواست اِن تصورات و معتقدات کو چمن ، شاخ ، شاخِ قامت ، نخل دل ، میناں کا برسنا ، بہار کاآنا ، شاخ کا مہکنا ، آخری وقت جیسے کلمات سے چمن کا تخیل پرویا ہے ۔ اِس پورے سینریومیں عرش سے فرش تک، گل سے نخل تک اور بہار سے خزاں تک تصوراتی سفرکو قاری بڑی آہستہ روی سے طے کرتا ہے ۔ ؎

طوبیٰ میں جو سب سے اونچی نازک سیدھی نکلی شاخ

مانگوں نعت نبی لکھنے کو روحِ قدس سے ایسی شاخ

مولیٰ گلبن رحمت زہرا سبطین اس کی کلیاں پھول

صدیق و فاروق و عثماں ، حیدر ہر اک اس کی شاخ

شاخِ قامت شہ میں زلف و چشم و رخسار و لب ہیں

سنبل نرگس گل پنکھڑیاں قدرت کی کیا پھولی شاخ

اپنے ان باغوں کا صدقہ وہ رحمت کا پانی دے

جس سے نخلِ دل میں ہو پید اپیارے تیری ولا کی شاخ

یاد رخ میں آہیں کر کے بن میں مَیں رویا آئی بہار جھومیں نسیمیں نیساں برسا کلیاں چٹکیں مہکی شاخ

ظاہر وباطن اول و آخر زیب فروع و زین اصول

باغِ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑ پتی شاخ

آل احمد خذبیدی یا سیّد حمزہ کن مددی

وقت خزان عمرِ رضاؔ ہو برگ ہدیٰ سے نہ عاری شاخ

حضرت جبرئیل علیہ السلام مدینہ طیبہ میں عرش بریں سے نازل ہوتے تھے ، رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے تشریف لانے ، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل پاک میں عرض گزار ہونے کے خیال کو وسعت دے کر بڑی خوب صورتی سے چمن و بلبل کے تخیل سے ملا کر معراج عطا کردی ہے ۔ ؎

چمن طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ

برسوں چہکے ہیں جہاں بلبل شیدا ہوکر

چمن اور گل کے تخیل سے رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے مضامین میں جدت ، تخیل میں وسعت اور تشبیہات میں ندرت پید اکی ہے، جو ایک طرف حقیقت سے دور نہیں تو دوسری طرف ایک طرفہ جدت بھی ہے ۔ مندرجہ ذیل نعت شریف میں گل ، دل کو یاد میں گلِ شگفتہ و گل وبلبل ،غازۂ شوق ، شبنم ، برق جما ل گل ، عطر جمال گل ، عنادل جیسے مترنم کلمات سے ، نعت شریف ، عرض حال ، عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مفاہیم کو ایک مشتقانہ رنگینی عطا کی ہے ۔ اور الفاظ میں ہشت بہشت کی بہا ر اُتار دی ہے ۔ ؎

کیا ٹھیک ہو رخِ نبوی پر مثالِ گل

پامالِ جلوۂ کف پا ہے جمالِ گل

جنت ہے اُن کے جلوہ سے جویائے رنگ و بو

اے گل ہمارے گل سے ہے گل کو سوالِ گل

ان کے قدم سے سلعۂ غالی ہوئی جناں

واللہ میرے گل سے ہے جاہ و جلالِ گل

سنتا ہوں عشق شاہ میں دل ہوگا خوں فشاں

یارب یہ مژدہ سچ ہو مبارک ہو فالِ گل

بلبل حرم کو چل غم فانی سے فائدہ

کب تک کہے گی ہائے وہ غنچ و دلالِ گل

غمگیں ہے شوق غازۂ خاک مدینہ میں

شبنم سے دُھل سکے گی نہ گرد ملال گل

بلبل یہ کیا کہا مَیں کہاں فصل گل کہاں

اُمید رکھ کہ عام ہے جود و نوالِ گل

بلبل گھرا ہے اَبر ولا مژدہ ہو کہ اب

گرتی ہے آشیانہ پہ برقِ جمالِ گل

یارب ہرا بھرا رہے داغ جگر کا باغ

ہر مہ مہِ بہار ہو ہر سال سالِ گل

رنگ مژہ سے کر کے خجل یادِ شاہ میں

کھینچا ہے ہم نے کانٹوں پہ عطر جمالِ گل

میں یاد شہ میں روئوں عنادل کریں ہجوم

ہر اشک لالہ فام پہ ہو احتمالِ گل

ہیں عکس چہرہ سے لب گلگوں میں سرخیاں

ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل

نعت حضور میں مترنم ہے عندلیب

شاخوں کے جھومنے سے عیاں و جدو حالِ گل

بلبل گلِ مدینہ ہمیشہ بہار ہے

دو دن کی ہے بہار فنا ہے مآلِ گل

شیخین اِدھر نثار غنی و علی اُدھر

غنچہ ہے بلبلوں کا سمین و شمالِ گل

چاہے خدا تو پائیں گے عشقِ نبی میں خلد

نکلی ہے نامۂ دلِ پُر خوں میں فالِ گل

کر اس کی یاد جس سے ملے چین عندلیب

دیکھا نہیں کہ خار الم ہے خیالِ گل

دیکھا تھا خواب خارِ حرم عندلیب نے

کھٹکا کیا ہے آنکھ میں شب بھر خیال گل

ان دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں

کیجئے رضاؔ کو حشر میں خنداں مثالِ گل

پھول سے تشبیہ دینا کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ مگر باکمال شاعر کا کمال معنی و مفہوم کو جدت اور نئی جہت عطا کر کے بلندیوں تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ ہمارے شاعر نے پھول کے مفہوم کو کس کس طرح سے نئی جہتیں عطا کی ہیں اور اپنے محبوب کے سراپا میں کس کس رنگ کے پھول بھرے ہیں دیکھیے۔ ؎

سر تابقدم ہے تن سلطان زمن پھول

لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول

صدقے میں ترے باغ تو کیا لائے ہیں بن پھول

اس غنچۂ دِل کو بھی تو ایما ہو کہ بن پھول

تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا

تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہ محن پھول

واللہ جو مل جائے مرے گل کا پسینہ

مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دُلہن پھول

دل بستہ و خوں گشتہ نہ خوشبو نہ لطافت

کیوں غنچہ کہوں ہے مرے آقا کا دہن پھول

شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دم صبح

شوخانِ بہاری کے جڑائو ہیں کرن پھول

دندان و لب و زلف و رُخ شہ کے فدائی

ہیں درِّ عدن ، لعل یمن ، مشکِ ختن پھول

بو ہو کے نہاں ہو گئے تابِ رُخِ شہ میں

لو بن گئے ہیں اب تو حسینوں کا دہن پھول

ہوں بارِ گنہ سے نہ خجل دوش عزیزاں

للہ مری نعش کر اے جان چمن پھول

دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخن پا کا

اتنا بھی مہِ نو پہ نہ اے چرخ کہن پھول

دِل کھول کے خوں رو لے غم عارض شہ میں

نکلے تو کہیں حسرتِ خوں نا بہ شدن پھول

کیا غازہ ملا گرد مدینہ کا جو ہے آج

نکھرے ہوئے جوبن میں قیامت کی پھبن پھول

گرمی یہ قیامت ہے کہ کانٹے ہیں زباں پر

بلبل کو بھی اے ساقی صہبا و لبن پھول

ہے کون کہ گریہ کرے یا فاتحہ کو آئے

بے کس کے اُٹھائے تری رحمت کے بھرن پھول کیا بات رضاؔ اس چمنستانِ کرم کی

زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

اپنی اس سحر بیانی کا احساس خود رضا کو بھی تھا ۔ کیوں کہ وہ ذوق شعر رکھتے تھے اور تنقید وتنقیش کا شعور بھی ۔ لیکن اپنے اس جذبے کے ذکر کے لیے بھی ہمارے شاعر نے گلشن و بلبل و جناں و گلستاں کے استعارہ کو وسعت تخیل میں تبدیل کیا ۔ ؎

یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضاؔ کی طرح کوئی سحر بیاں

نہیں ہند میں واصف شاہِ ہدیٰ مجھے شوخیِ طبعِ رضاؔ کی قسم

گل چمن میں ہوتا ہے ۔ چمن میں ہی بہار اور خار دشت ہیں ، ہجر و وصال ، تمناے وصال کے مفہوم کو دشت چمن گل ، حرماں ، خار کے تخیل میں مناسبت اور پھر اس سے فسون تکلم و نکتہ سازی کی ہے ہمارے شاعر نے جس سے ہم جذبۂ شوق اور دل کی تڑپ کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ ؎

تجھ سے اے گل میں ستم دیدۂ دشتِ حرماں

خلش دل کی کہوں یا غم خارِ دامن

دل بستہ کہ امیدیں پوری نہ کر سکے،بے قرار کہ ہجر میںتپاں ہو، جگر چاک کہ محروم تسلی ہو، اشک بار کہ دیدۂ تررواں ہو ۔ اس مفہوم کو غنچۂ گل ، برق تپاں اور سحاب ، برسانے والے بادل کی تشبیہات سے ہجر میں دل عاشق پر صادق ہونے والے احوال کو ایسا مناسب پر ویا کہ وضاحت اور گہرائی سوزش و خوشی کا ملا جلا احساس اُبھرتا جاتا ہے ۔ ؎

دل بستہ بے قرار جگر چاک اشک بار

غنچہ ہوں گل ہوں برق تپاں ہوں سحاب ہوں

باغ میں شکر و صل تھا ، ہجر میں ہائے ہائے گل

کام ہے ان کے ذکر سے خیروہ یوں ہوا کہ یوں

باغ ، سرو ، قمری، گونجنا ، چہچہانا ، نسیم ، ہوا ، جان غم زدہ ، سوزش غم ،کسی جان غم زدہ سوزش میں مبتلا کے لیے آرام دہ جگہ باغ ہی ہے ۔ جب ٹھنڈی ٹھنڈی بھینی بھینی نسیم وصبا سے دل یوں ہی کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ جیسے صبح کو بستہ کلیاں اور غنچے اس مناسبات کو عشق اور دیدار ، یاد محبوب ، ذکر دیار ِ محبوب ، اور دوری میں تڑپنا ، ذکر محبوب سے اور دیدار حبیب سے دل غم زدہ کا کھل اُٹھنا ، کے مفاہیم کو ادا کرنے کے لیے رضا بریلوی نے استعمال فرمایا ہے چمن کے احوال کو ؎

باغ عرب کا سرو ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آج

قمری جانِ غم زدہ گونج کے چہچہائی کیوں

نام مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیم خلد

سوزش غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں

الغرض رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے گلشن ، گل ، بلبل ، عندلیب ، قمری ، سروِ جاں، غزل ، کلی ، باغ ، خاردشت ، نسیم ، چمن ، صبح کے وقت کی بہار ، جوبن ، مہک اُٹھنا ، خوشبو ، کوئے دوست جیسی اشیا کے تصورات سے نہایت بلند تخیل ترتیب دیے ہیں اور ان تمام تشبیہات سے اسلامی عقائد ، مرتبۂ رسالت ، عقیدۂ ختم نبوت ، نعتِ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ، ذکر الٰہی ، ذکر حبیب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ، ذکر شانِ اہل بیت ، ذکر شہادت سیّدنا امام حسین ، ذکر شانِ فاطمۃ الزہرا ، اہل عرب کی فضیلت ، دیارعرب کی فضیلت ، حبِ صحابۂ کرام ، حبِ اہل اسلام ، ذکر شانِ ملائکہ ، اپنی خطائوں کی معافی کی طلب، سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کی طلب ، شانِ شفاعت جیسے مفاہیم کو ادا کیا ہے ۔ جب کہ نعت شریف کہنے والے شعرا باوجود صفائی اور پاکی اور اُلفت و علم کے اس طرح کی وسعت تخیل تک نہیں پہنچ سکے ۔ گل و گلشن کے استعاروں میں جس طرح تصرف \\احمد رضا خان بریلوی | رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ]] نے کیا ہے اور جس طرح انھوں نے خالص اسلامی مفاہیم کو اس میں ادا کیا ہے یہ ان کا کمال ہی نہیں بلکہ شاعری میں عبقری ہونے کی دلیل ہے ۔ ذیل میں کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔ ؎

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

اُن کی مہک نے دِل کے غنچے کھلا دیے ہیں

جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں

غنچے مَا اَوْحیٰ کے جو چٹکے دَنیٰ کے باغ میں

بلبل سدرہ تک ان کی بُو سے بھی محرم نہیں

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں

ترا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سر و چماں نہیں

کہو اس کو گل کہے کیا کوئی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

جس نخل پاک میں ہیں چھیالیس ڈالیاں

اک شاخ ان میں سے ہے بنام ابوالحسین

چمن طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو

حور بڑھ کر شکن ناز پہ وارے گیسو

بھینی خوشبوسے مہک جاتی ہیں گلیاں واللہ

کیسے پھولوں میں بسائے ہیں تمہارے گیسو

زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہد گل کو

الٰہی طاقتِ پرواز دے پرہائے بلبل کو

اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے

یوں دل میں آکہ دیدۂ تر کو خبر نہ ہو

اس طرف روضہ کا نور اُس سمت منبر کی بہار

بیچ میں جنت کی پیاری پیاری کیاری واہ واہ

کیا مدینہ سے صبا آئی کہ پھولوں میں ہے آج

کچھ نئی بو بھینی بھینی پیاری پیاری واہ واہ

کوچۂ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم

بال و پر افشاں ہوں یارب بلبلانِ سوختہ

آتش گلہائے طیبہ پر جلانے کے لیے

گل کھلے گا آج یہ اُن کی نسیم فیض سے

جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ

خون روتے آئیں گے ہم مسکراتے جائیں گے

سرور کہوں کے مالک و مولیٰ کہوں تجھے

باغ خلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے

گل زار قدس کا گل رنگیں ادا کہوں

درمانِ درد بلبلِ شیدا کہوں تجھے

انھیں کی بو مایۂ سمن ہے انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے

انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں انھیں کی رنگت گلاب میں ہے

وہ گل ہیں لب ہائے نازک اُن کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے

گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے

ترا قد مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے

اسے بو کر ترے رب نے بنا رحمت کی ڈالی ہے

ابو بکر و عمر عثمان و حیدر جس کے بلبل ہیں

مقصود یہ ہیں آدم و نوح و خلیل سے


ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل

یہ پیاری پیاری کیاری ترے خانہ باغ کی

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

ترا سروسہی اس گلبن خوبی کی ڈالی ہے

تخمِ کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے

اس گل کی یاد میں یہ صدا بوالبشر کی ہے

سرد اس کی آب و تاب سے آتش سقر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے

بچا جو تلووں کا اُن کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ و روغن

جنھوں نے دولہا کی پائی اُترن وہ پھول گل زار نور کے تھے

وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اُٹھایا

گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے

گل و غنچہ کے استعارے اور نادر تشبیہات اُردو شاعری میں سب سے زیادہ حکیم مومن خاں مومنؔ دہلوی نے استعمال کیے ہیں ۔ مگر رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے نعت کے میدان میں چمن و گلستاں و گل و غنچہ ، عندلیب و باغ کے استعاروں سے نو بہ نوع معانی پیدا کیے ہیں ۔

ہمارے اس شاعر کا اُردو زبان پر احسان ہے اور انھوں نے جن تخیل کی بلندیوں تک اپنی فکر کو پہنچایا ہے اس سے نعت کا ادب عالمی ادب کے میدان میں عظیم مقام کا مستحق ہوتا ہے ۔ بہت سے حضرات نے آپ کی شاعری پر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔ مگر اب بھی ان کی شاعری کے بہت سے ایسے گوشے ہیں جن سے پردہ اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔

یہ چند صفحات جو مَیں نے باکمال شاعری کے تعلق سے تحریر کیے صرف محبت اور عقیدت کے پھول ہیں ۔ ورنہ ہمارا تو حال یہ ہے کہ نہ کوئی ذوق نہ کوئی علم یہ کام تو بڑے تنقید نگاروں کا ہے، محققین کا ہے ، علم عروض و قافیہ کی خوبیاں ،معانی و بیاں، بدیع کے کمالات ، تاثیر اسلوب ، دوسرے شعرا سے موازنہ کے طور پر مطالعہ ، نئی ترکیبوں کی ایجاد ، نئے مفہوم کا ادا کرنا ، زبان کی صفائی ، اصلاح ،بہت سے میدان ہیں ابھی ہمارے اس شاعر کی شاعری میں تحقیق کے لیے ۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

احمدرضا بریلوی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین | اسحاق رامپوری | احمد رضا خان بریلوی