مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ۔ اقبال عظیم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر : اقبال عظیم

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ


چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ

نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ


کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ

کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ


کہاں میں اور کہاں اس روضہ اقدس کا نظارہ

نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ


غلامانِ محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں

دلِ گرویدہ گرویدہ سرِ شوریدہ شوریدہ


مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں

ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ


بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے

مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ


وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر

فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ


مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ

جبیں افسرہ افسردہ قدم لرزیدہ لرزیدہ

نعت خوانوں کی پذیرائی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

| صدیق اسماعیل کی آواز میں

| احمد رضا قادری کی آواز میں

| سید زبیب مسعود کی آواز میں

| اویس رضا قادری کی آواز میں

| اقصی عبدالحق کی آواز میں

| حوریہ فہیم کی آواز میں

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اقبال عظیم