نصرؔتی کے معراج نامے ۔ ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

NAAT KAINAAT YAHYA NASHEET.jpg

مضمون نگار: ڈ اکٹر سیّد یحییٰ نشیط

مطبوعہ: نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

نصرؔتی کے معراج نامے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Nusrati was a poet of court of King Aadil Shah, who wrote various Mathnavies (poem consisting each couplet of two similar sound's word i.e. Qafiya). He narrated Maeraj-e-Nabavi (S.A.W) in his poems "Gulshan-e-Ishq" and "Ali Nama" in detail. The article placed below showers light over style and textual treasure of poems containing narrative of sacred journey of Prophet Muhammad (S.A.W). Nusrati used terms of astronomy to elaborate different mile stones of that sacred journey.

نصرتی عادل شاہی دربار کا ملک الشعراء تھا ۔اس نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ عوام الناس ہی کا نہیں خود بادشاہ کا دل جیت لیا تھا۔ اس نے بیجاپور کے تین بادشاہوں کا دور دیکھا اور ہرایک کے دربار سے اس کی وابستگی رہی تھی ۔ مصنف ’’تذکرۂ شعراء دکن ‘‘ نے ان کا نام محمد نصرت تحریر کیا ہے ۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے والد عادل شاہی فوج میں سلحدار تھے اور بادشاہ کی نظر میں ان کی قدر و منزلت تھی ۔انھوں نے نصرتی کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھا ۔نصرتیؔ نے اپنے احوال خود ’’گلشنِ عشق ‘‘میں بیان کر دیئے ہیں۔وہ کہتا ہے ؎

کہ تھا مج پدر سو شجاعت مآب

قدیم یک سلحدار جمع رکاب

وہ شہ کام پر زندگانی منے

کمر بستہ تھا جاں فشانی منے

نظر دھر کے مج تربیت میں سدا

رکھا نیں کدھیں مج اپس تے جدا

سکچ مج تے جانے کوں نس دن منے

پھرے لے بزرگاں کی مجلس منے

معلم جو میرے جتے خاص تھے

دھرن ہار وہ مج پہ اخلاص تھے

کچ یک میں سنبھالیا جب اپنا شعور

کیا کر کتاباں پہ اکثر عبور

نجھایا ہر یک طرح کا پھول بن

رکھیا دل میں تس باغباناں کے فن

دکھیا کیوں جو ہر بزم میں کر خیال

حریفاں گئے ہیں ہو سر مست حال

صفائی دسی ان دنوں میں مجے

ولے بھید کیا ہے سو نہ دل بجے

(نصرتیؔ:مرتبہ سید محمد ،ایم ،اے،’’گلشن عشق‘‘ سلسلۂ یو سفیہ شمارہ ۸ ھیدر آباد ص۴۰)


اس سے پتہ چلتا ہے کہ نصرتی کو حصول تعلیم کا بڑا شوق تھا اور اسی کی بنیاد پر اس نے علوم متداولہ اور فنون عصریہ پر دست رس حاصل کر لی تھی ۔نصرتی ؔ کی بعض تصانیف سے اس کے حالات زندگی پتہ چلتا ہے مگر ان واقعات سے اس کی مکمل زندگی سامنے نہیں آتی ۔جیسا کہ اس کی ولادت ،اس کی عمر ، اس کے خاندانی حالات وغیرہ ۔عبد الحق نے اس کے والد کا نام شیخ مخدوم اور دادا کا نام شیخ ملک بتایا ہے ۔لچھمی نرائن شفیقؔ نصرتی کو حاکم کرنا ٹک کے قرابت داروں میں شمار کرتے ہیں۔نصیرالدین ہاشمی نے نصرؔ تی کو ارکاٹ کا متوطن بتایا ہے ۔


محققین کو نصرتیؔ کے مذہب میں بھی مغالطہ ہے ۔بعض اسے مسلمان خاندان کا ایک فرد سمجھتے ہیں تو بعض کے نزدیک وہ برہمن الاصل ہے ۔مراٹھی ادب کے نامور محقق پنڈھری ناتھ رانڈے کا کہنا ہے کہ ’’اسے مراٹھی زبان و ادب اور ہندو دیو مالا پر اتنا عبور حاصل تھا کہ سر جارج لائل کو شبہ ہوا کہ وہ پہلے ہندو برہمن رہا ہوگا ۔‘‘لیکن خارجی شہادتیں اس کے غیر مسلم ہونے کا پتہ نہیں دیتیں۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے اس کے آبا و اجداد سے چلی آرہی عقیدت سے بھی اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ نصرتی اور اس کے اہل خاندان مسلمان ہی رہے تھے ۔ ’’گلشن عشق‘‘ میں خود نصرتی ؔ نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ ؎ بحمد اللہ کرسی بہ کرسی میری

چلی آ ئی ہے بندگی میں تیری


نصرتیؔ کی دونوں کتابوں ’’گلشن عشق ‘‘ اور ’’علی نامہ‘‘ میں منقبتی منظومات میں خلفائے راشدین کی مدحت طرازی نہایت والہانہ انداز میں کی گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سنّٰی المسلک تھا۔ اس کی تقدیسی شاعری میں حمد و مناجات ، نعت و منقبت کے علاوہ معراج نامے بھی ملتے ہیں۔ اس نے نعتوں میں جس حسنِ عقیدت کا اظہار کیا ہے معراج ناموں میں وہی عقیدت جلوہ گر ہے ،بلکہ فزوں تر ہے ۔

اردو میں خالص معراج نامے بھی لکھے گئے ہیں اور مثنویوں کے جزو کے طور پر بھی انھیں لکھنے کے جتن کئے گئے ہیں۔دکنی ادب کی تاریخ میں نصرتیؔ کے خالص معراج نامے کا ذکر ملتا ہے لیکن وہ تاحال دستیاب نہیں ہوا ،البتہ اس نے ’’گلشن عشق اور علی نامہ‘‘ میں صفت معراج کی سرخی لگا کر معراج کے واقعات کو قلم بند کیا ہے ۔ دکن کے خالص معراج ناموں میں اولین معراج نامہ، بلاقیؔ کی مثنوی ِ معراج ہے ۔ اردو میں معراج ناموں کی روایت میں خاکسار نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔میرا یہ مضمون نعت رنگ کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے ۔ اس کے علاوہ مختار ؔ کا معراج نامہ، معظمؔ کا معراج نامہ ، معراج نامۂ امینؔ گجراتی اور فتاؔحی کا معراج نامہ قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان معراج ناموںمیں علم نجوم کو کہیں برتا نہیں گیا۔ مثنوی کے اسلوب میں لکھا گیا صرف ایک معراج نامہ لچھمی نرائن شفیقؔ کا ہے جس میں علوی سفر رسول ؑ کے واقعہ کو نجومی اصطلاحو ںکے سہارے آگے بڑھایا گیا ہے۔ دکنی ادب میں سفر معراج پر یہی ایک مستقل مثنوی ہے ،جس میںعلم نجوم کا استعمال ہوا ہے۔ جہاں تک نصرتیؔ کی مثنویوں کا تعلق ہے تو ان میں واقعۂ معراج کو جزو مثنوی کے طور پر درج کیا گیا ہے ۔

ذکر معراج ،’’مثنوی گلشن عشق ‘‘ میں :[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نصرتی ؔ نے یہ مثنوی ۱۰۶۸ھ ؍۱۶۵۷ء میں لکھی تھی ۔اس کی تاریخ تصنیف والے شعر میں نصرتی کہتا ہے

کہا اس کی تاریخ یو ں ہجرتی

مبارک یو ہے ہدیۂ نصرتی


یہ ایک عشقیہ مثنوی ہے جس میں مد مالتی اور راج کمار منوہر کا قصہ بیان ہوا ہے ۔قصے میں روایتی انداز میں عشق کی داستان بیان کی گئی ہے ۔مثنوی حمد و نعت اور منقبت سے شروع ہوتی ہے ۔ نعتِ رسولVکے بعد شاعر نے اسّی اشعار پر مشتمل ایک معراج نامہ قلم بند کیا ہے ۔نصرتی نے ؔ اپنی مثنوی میں جتنی بھی ذیلی سرخیاں قائم کی ہیں وہ ایک ایک شعر میں ہیں ۔سرخیوں کے ان تماام اشعار کو جمع کردیا جائے تو مثنوی کا خلاصہ بن جاتا ہے ۔واقعۂ معراج کے لیے اس نے سرخی کا یہ شعر لکھا ہے ؎

صفت معراج کی جس نس ترنگ چڑھ یو حبیبِ حق

پھر آیا لا مکاں تک جا کرے لگ وہم جنبانی

(نصرتی ؔ [مرتبہ سید محمد ]’’گلشنِ عشق‘‘ ،سلسلۂ یوسفیہ شمارہ ۸ حیدر آباد ،ص۱۷)


یعنی معراج کی رات میں آپ V ترنگ (گھوڑے مراد برّاق) پر سوار ہو کر لا مکاں تک پہنچے تھے جہاں تک انسان کا وہم و گماں بھی نہیں پہنچ سکتا۔ نصرتی ؔ کہتا ہے کہ جب سورج چھپ گیا اور حجلۂ راز کے لیے شب نقاب بن گئی تو طالب کے دل میں مطلوب کی یاد گھر کر گئی ۔مقاماتِ وصل دل پذیر ہوئے ۔طالب و مطلوب کے دل میں جو خواہش تھی وہ آج پوری ہونے والی تھی ۔ادھر (حضرت محمدV) ملنے کی خواہش ابھری ،ادھر ( بارگاہِ الٰہ )جذبۂ محبت پروان چڑھا ۔اللہ رب العزت جو ہستی ِ کل کا باغباں ہے ، اس نے کونین کا باغ سجایا ۔اور باغ ِ ہستی و گلشن کونین دونوں کا ایک خاص پھول ، حضرت محمد V کو پیدا فرمایا اور لامکاں کے محل (مندھر) کو معطر کرنے کے لیے آپV کو اپنے پاس بلایا ۔


اللہ تعالیٰ نے جبرئیلؑ کو حکم دیا کہ میرے حبیب V کو بلا لائوَ۔یہ سنتے ہی نو افلاک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سارے ملائک ایک دوسرے کو بدھائی دینے لگے ۔بہشتوں کو سنوارا گیا اور دوزخیوں سے عذاب اٹھا لیا گیا۔ رحمت کے در بے حجاب کر دیئے گئے اور شر کو اٹھا لیا گیا ؎

ہوئے بے حجابانہ رحمت کے در

اٹھیا خیر ہور شر جو تھا سر بسر

اس شعر میں حرف ’ر‘ کی تکرار سے نغمگی پیدا کی گئی ہے یہ تجنیسِ زائد کی عمدہ مثال ہے ۔شاعر آگے کہتا ہے کہ اللہ کے حکم سے جبرئیلؑ جنت سے ایک برق جیسا تیز رفتار براق پکڑ لائے ۔وہ براق پرند کی پرواز ہی نہیں تیر ہی نہیں آدمی کے وہم و گماں سے بھی تیز تر تھا۔ اس کی رفتار کے کیا کہنے کہ پل بھرمیں وہ کونین کی سیر کرسکتا ہے ۔ایسے گھوڑے کو سر سے پیر تک سنوارا گیا اور فرشتوں کی ہزار ہا صفیں آپV کے استقبال کے لیے کھڑی کر دی گئیں، تاکہ بہ یک لخت سارے راستوں کو قطع کرنے والے رسول پاکV کی بارگاہ میں حاضری دی جا سکے اور عالم خلوت و الہام میں بھی حاضری کا حق ادا ہو جائے ۔فنا کا خیال دل سے نکال کر بقا کی رغبت دلائی گئی تھی ۔حضرت جبرئیل ؑ ادب کے ساتھ آپ V کے قریب پہنچے اور آپ کو جلدی اٹھنے کا کہا ۔آپ سے یہ بھی کہا کہ حق سبحانہ تقدس آپ سے ملنے کے لیے مشتاق ہیں تاکہ آپ کا دیدار ہو جائے ۔یہ شعر اگر چہ نصرتی کی آپ V سے حسن عقیدت کا نمونہ ہے مگر اس میں رب العزت کی شان میں استخفاف کا پہلو نکلتا ہے ۔بہر کیف !جبرئیل ؑ آپ V سے کہتے ہیں کہ اس گھوڑے پر سوار ہو کر میرے ساتھ چلئے، آج کی رات بڑی سہانی ہے ۔آپ کے لیے تمام آسمانوں کو مرصع کر دیا گیا ہے اور ہر فلک پر ملائکہ کی مجلسیں لگی ہوئی ہیں ۔ سارے راستے سورج کے مانند روشن ہیں جنت کی حور و قصور اور غلمان سارے سجے سنورے ہوئے ہیں۔ آسمانوں میں ہر طرف مسرت و شادمانی ہے طبل بجائے جا رہے ہیں۔ آج ،اے اللہ کے رسول آپ جتنا کام کریں گے دونوں عالم پر وہ بار نہیں ہو گا بلکہ اس کام کے تو دونوں عالم محتاج ہیں۔ حضرت جبرئیل کی زبانی یہ خوش خبری سن کر آپ V جلدی سے اٹھے اور وضو کیا ۔اس کے بعد آپ براق پر ایسے سوار ہوئے جیسے کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھتا ہے ۔ براق ایسی شوخی کر رہا تھا مانو پانی کا فوارہ ابل رہا ہو ۔براق ایسا تیز رفتار ہے کہ ہوا سے بھی قبل آسمان پر پہنچ گیا ۔

جب براق پہلے فلک پر پہنچا تو چاند کے جسم پر اس نے اپنے سم کا نشان مرتسم کر دیا ۔ یاد رہے کہ معراج کی شب بالعموم چھبیسویں مانی جاتی ہے۔ اس رات چاند نعل نما ہوتا ہے ۔شاعر نے اسی مناسبت سے اس رات کے چاند کے لیے چہرے پر براق کے سم کا استعارہ استعمال کیا ہے ۔ بعد کے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ نشانی چاند کے چہرے پر ایسی دکھائی دے رہی مانو وہ نعل ہو یا سم کے مانند ہو۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ براق کے سم کی خاک چاند کے لیے چاندی کی مانند تھی ۔چاند پارے کے مانند تھا مگر اس خاک سے وہ نقرئی بن گیا۔فلک اول پر آپ V نے بیت معمور میں نبیوں کی روحوںسے ملاقات کی ۔تھوڑی دیر ٹھہر کر آپ V نے وہاں امامت فرمائی ۔پہلا فلک از روئے نجوم فلکِ قمر ہے۔ اس اعتبار سے شاعر نے پہلے آسمان پر قمر کا تذکرہ کیا ہے ۔

یہاں سے آپV دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے ۔نجوم کی رو سے اس فلک کا مالک سیارہ عطارد مانا جاتا ہے ۔شاعر کہہ رہا ہے کہ آپ V نے دوسرے فلک پر قدم رکھتے ہی عطارد کو دیکھا۔ غالبؔ نے دوسرے فلک پر آپ کی آمد کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ یہاں آپ کا خدنگ ِ نظر عطارد تھا ۔عطارد کو فارسی میں ’’تیر ‘‘ کہتے ہیں ۔اسی مناسبت سے غالب ؔ نے خدنگ ،تیر اور عطارد میں نسبت پیدا کی ہے۔ دوسرے آسمان پر پہنچنے کے ساتھ ہی آپ Vکی نظر خیر سے عطارد (حکیم فلک دوم ) دبیر ِ فلک بن گیا ۔یاد رہے کہ عطارد کو نجوم میں دبیر فلک کہا جاتا ہے ۔اس کے ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے ہاتھ میں بیاض ہے ۔ساتوں آسمانوں کے احوال قلم بند کرنا اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ عطارد کے زائچہ بچوں پر اس سیارے کے اثرات پڑتے ہیں ۔نجوم کی رو سے ان کے احوال بھی عطارد قلم بند کرتا ہے ۔ دوسرے فلک سے آپ V کی سواری تیسرے آسمان پر پہنچی ۔یہاں آپ V کو سیارہ ٔ زہرہ دکھائی دیا ۔زہرہ علم نجوم میں رقاصۂ فلک ہے اس کے ہاتھ میں دف ہے اور موسیقی سے اسے نسبت ہے ۔حضرت محمد V کے فلک سوم پر پہنچتے ہی زہرہ اپنا دف بجاکر اور نغمے گا کر آپ کا استقبال کرنے لگی ۔شاعرنے دف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دف ماہ (چاند) کے دائرے کی بنی ہوئی تھی ۔شفیقؔ اور غاؔلب نے بھی زہرہ کی دف کو چاند کی دف کہا ہے ۔آپؐ کی آمد پر نصرتی ؔ نے زہرہ کے دف بجانے کا ذکر کیا ہے جبکہ غالبؔکی مثنوی معراج میں فلک سوم پر آپؐ کی آمد سے گھبرائی ہوئی زہرہ چاند کی دف کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے ۔اس آسمان سے نکل کر آپؐ چوتھے آسمان کی طرف بڑھتے ہیں۔یہاں سورج آپ کو سایہ دینے کے لیے چھپ جاتا ہے ۔ آپ ،ؐ اس کی اس ادا پر اسے سات کھنڈوں کی نورانی بادشاہت عطا کر دیتے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل لحاظ ہے کہ علم نجو م میں سورج چوتھے فلک کا مالک ہے۔ چوتھے آسمان سے آپ ؐ کی سواری پانچویں فلک پر جاتی ہے۔اس چرخ کا مالک مریخ ہے یہ سرخ رو سیارہ شجاعت کی علامت ہے ۔اس کے ہاتھ میں خنجر ہے۔ آپؐ نے مریخ کی جانب دیکھا تو وہ اور سرخ ہو گیا ۔آپ ؐ نے اس کے حق میں شجاعت کی دعا کی اور آگے بڑھ گئے ۔چھٹے آسمان پر آپؐ کی ملاقات مشتری سے ہوتی ہے ۔یہ سیارہ نجومی پیکر میں ایک پیر سن مرد ہے ۔اس کے ہاتھ میں کتاب ہے اور فلسفہ ،آرٹ اور قانون سے اس کی نسبت ہے ۔اس سیارے کا ایک نام برجیس بھی ہے ۔آپ ؐ کے دیدار سے وہ فیضیاب ہوا اوراسے قاضی ِمسند آسماں بنا دیا گیا۔ وہاں سے آپؐ کی سواری ساتویں فلک کی سمت روانہ ہوئی ۔اس فلک کا حاکم زحل ہے ۔ یہ منحوس اکبر مانا جاتا ہے اور ہندوستان سے اس کی نسبت ہے۔اسے جگ کا کال بھی کہا جاتا ہے ۔آپؐ نے اس کی نحوست کو کم کیا اور وہاں سے آگے بڑھے ۔آپ کا اگلا پڑائو سدرۃ المنتہیٰ تھا۔ یہاں جبرئیل ؑ نے آپ ؐ کا ساتھ چھوڑ ا اور سواری کے لیے رفرف کو پیش کیا ۔رفرف پر سوار ہو کر آپ سیکڑوں مقامات سے گزرے اور عرش کے قریب پہنچے ۔اس سفر میں آپؐ نے بارہ بروج طے کر لیے ۔عرش الٰہی کو دیکھ کرجب آپ نعلین اتارنے لگے تو اس کے بعد جو واقعات نصرتیؔ بیان کرتا ہے اس میں عرش ،آپ ؐ سے یہ التماس کرتا ہے کہ اے خدا کے رسولV آپ اپنی نعلین مبارکہ کے ساتھ تشریف لایئے اور مجھے آپ کی خاک پائی سے سرفراز کیجیے ۔ نصرتیؔ اس واقعہ کی تصویر کشی یوں کرتا ہے ؎ کیا عرش در حال یوں التماس

کہ ہے اے حبیب خدا تج سوں آس

جھٹک گرد تج پگ کی نعلین کی

کہ ہو روشنی دل کی مج نین کی

(ایضاً ، ’’گلشنِ عشق‘‘ ، ص ۲۱ )

یعنی عرش الٰہی آپؐسے یہ التماس کر رہا ہے کہ آپؐ اپنے پیروں اور نعلین کی دھول جھٹک دیں تاکہ اس سے میری آنکھ اوور دل روشن ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی شانِ استغنا میں یہ کلام گستاخی نہیں بلکہ آپ ؐ کی آمد سے عرش الٰہی کے مرتبے کے بلند ہوجانے کی طرف شاعر کا اشارہ ہے ۔ سمند ہوا آپ ؐ کا رہ رو بنا اور آپ ؐ کو اللہ رب العزت نے لا مکان کی سیر کرا ئی ۔نصرتی کہتا ہے کہ لامکاں کی صفت کو ئی کیا بیان کرے ۔اس کی شرح میں ہمارا سخن گویا گونگا ہے ،اس میں اتنی بھی سکت نہیں ہے ۔یہ لامکاں ذات اقدس کا مکان ہے ۔اس کی مثال دی نہیں جا سکتی ۔یہ ایسی جگہ ہے ،جس کی کوئی سمت نہیں ۔اس مقام پر آپ ؐ اور رب کریم کے درمیان قاب قوسین کا فاصلہ رہ گیا تھا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں واسطے کا پردہ بھی اٹھا لیا گی ۔اب محب و محبوب میں کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اسی مقام پر آپؐ کو رویتِ عین حاصل ہوا اور حرف وصوت کے بغیر حبیب و محبوب کے درمیان گفتگو ہوئی ۔نبی ِپاک ؐ کی جانب سے رب قدیر پر تحیّت پڑھی گئی تو رب کی طرف سے سلام ہیش کیا گیا۔ آپ ؐ پر قسمہا قسم کی نوازشوں اور رحمتوں کی بارش ہوئی ۔ محبت کا دریا یہاں موجزن تھااور اس میں اخلاص کی موجیں اُٹھ رہی تھیں ۔اس بزم کا ساقی بڑا فیاض تھا ،اس نے نبی اور نبیؐ کی امت پر بڑا کرم کا معاملہ کیا ۔ یہاں جتنے بھی راز ہاے پنہاں کا نزول ہوا وہ سب آپؐ کے قلب اطہر کے خزانے میں محفوظ ہوگئے ۔اس رازہاے پنہاںکے گوہر معنی سنج آپؐ خود ہیں اور راز ہاے مخفی کے گنج گوہر بھی آپؐ ہی ہیں۔آپ ؐ نے یہاں جتنا فیض پایا وہ تمام امت کے لیے ہدیہ رہا ۔آپ ؐ کا یہ علوی سفر اتنا سریع و سہل تھا کہ جگ والے سن کر ہکا بکا رہ گئے ۔آپ V کے محبان ابوبکرؓ،عمرؓ ،عثمانؓ اور حضرت علی ؓ آپؐ کی لائی ہوئی نعمتوں سے سرفراز ہوئے ۔تمغۂ صداقت ابوبکرکو عدالت حضرت عمرؓ کو ،حضرت عثمان ؓ کو حیا اور حضرت علیؓ کو شجاعت کے تمغہ ہاے نعمۃ ملے۔آخر میں ان صحابہ کی مدحت بیان کرکے اس معراج نامے کا خاتمہ کیا ہے

واقعۂ معراج ’’علی نامہ ‘‘ میں :[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نصرتیؔ نے ’’علی نامہ ‘‘ ۱۶۶۵ء میں مکمل کی تھی۔اردو کی رزمیہ نظموں میں اس کی کلیدی اہمیت ہے ۔چونکہ یہ مثنوی بادشاہ علی عادل شاہ ثانی کی ایما پر لکھی گئی تھی ،اس لیے نصرتی ؔ خود اسے فردوسی کے ’’شاہ نامہ‘‘ کا ہم پلہ قرار دیتا ہے ۔در اصل علی عادل شاہ ثانی بادشاہ بیجا پور بچپن ہی سے نصرتی کو جانتا تھا ۔تخت نشین ہوتے ہی اس نے نصرتی کو اپنا درباری شاعر بنا دیا ۔ دریں اثناء ملک میں جنگوں کا سلسلہ دراز ہو گیا ۔نصرتی چونکہ شاہ نامہ لکھنے میں طاق تھا ،اس لیے جنگی واقعات کا مواد اس کے ہاتھ آگیا اور بادشاہ کے اشارے اور مصاحبین کے اصرار پر اس نے ’’علی نامہ ‘‘ لکھنا شروع کیا ۔نصرتیؔ کے ان مصاحبین میں قاضی کریم اللہ،نور اللہ ، ابو المعانی وغیرہ کا اصرار سب سے زیادہ تھا۔ اس رزمیہ مثنوی میں دکن کے بادشاہ علی عادل شاہ ثانی کے زمانہ ٔ سلطنت کے سیاسی حالات بیان ہوئے ہیں نصرتی نے زیادہ تر اس وقت کی جنگوں کے واقعات ہی کو پیش نظر رکھا ہے۔مثلاً شیواجی اور دیگر مراٹھوں کے ساتھ عادل شاہی جنگوں کی روداد اس میں شامل ہے ۔


مروجہ طریقے کے مطابق علی نامہ کا آغاز بھی حمد سے ہوتا ہے ۔نصرتی نے گلشن عشق میں عشقیہ عناصر کو اپنی حمدیہ شاعری میں جگہ دی تھی ،چونکہ علی نامہ ایک رزمیہ مثنوی ہے اس لیے شاعر نے اس میں رجزیہ عناصر کو شامل کیا ہے ۔شجاعت و بہادری کے جذبات کو اس میں جگہ دی گئی ہے ۔مثلاً اپنے حمدیہ اشعار میں وہ یہ بھی لکھتا ہے

دیا تونچ پنجے کے شہباز کوں

کھرک شاہ پر تیز پرواز کوں

نصرتی ؔ [مرتبہ :پروفیسر عبد المجید صدیقی ]’’ علی نامہ ‘‘ سالار جنگ دکنی پبلی کیشنز کمیٹی حیدر آباد ۱۹۵۹ء ص۱)


حمد کے بعد مناجات پھر نعت رسول V اس کے بعد اسّی اشعار پر مشتمل واقعۂ معراج ہے۔بعد میں مناقب اور شاہ کی مدح میں اشعار ہیں اس کے بعد اصل مثنوی شروع ہوتی ہے ۔واقعہ ٔ معراج کو شاعر نے بڑے ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے ۔’’گلشنِ عشق‘‘ کی طرح اس مثنوی کو بھی منظوم جزوی سرخیوں میں بانٹا گیا ہے ۔معراج نامے کی منظوم سرخی میں شاعر کہہ رہا ہے

ذکر معراجِ شہنشاہِ زماں عالم گیر

لامکاں لگ جنے ِ جا ملک لیا پل میں کھندل (ایضاً : ۱۴)


خیال آفرینی اور اور لفظ و معنی کے رشتے پر غور کرنے والے ذرا اس شعر کے مصرعِ ثانی پر غور فرمائیں۔شاعر کہہ رہا ہے کہ یہ ذکر اس شہنشاہ زماں عالم گیر کی معراج کا ہے جس نے پل بھر میں لامکاں تک تمام علاقے کھندل (روند ) ڈالے ۔یہاں روند نے کی بجائے ’کھندلنے ‘ کا فعل استعمال کیا ہے جس سے روندنے کے فعل کی شدت کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس فعل کی معنوی وسعت کا اندازہ دکنی زبان سے واقفیت رکھنے والے ہی لگا سکتے ہیں۔شاعر نے معراج کے علوی سفرکے اثرات کی شدت کو لفظ کھندلنے میں سمیٹ لیا ہے ۔ پھر ’لا مکاں لگ‘ کے فقرے میں معراج کے سفر کی وسعت کو بیان کر دیا ہے ۔شعر کے مصرع ِ اولیٰ میں لفظ ’ذکر ‘ کو بجائے زیر اضافت کے قومہ لگا کر پڑھا جائے تو معراج کے پورے واقعے سے شاعر کی عقیدت اور اس کے اظہار میں اس کے خلاق تخیل کی کار پردازی کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔


اس منظوم سرخی کے بعد شاعر نے شب معراج کے اوصاف بیان کیے ہیں ۔یہاں صنائع بدائع کے استعمال میں شاعر کی فن کاری کا اندازہ ہوتا ہے ۔شاعر کہتا ہے کہ اس شب کو مرصع لباس میں سنوارا گیا اور اس کے آگے چاند کی آرسی (آئینہ) رکھ دی گئی ۔یہاں چاند اور شب (نس) میں نسبت لفظی ہے ۔اس شب کے لباس کو سورج اپنی روشن آنکھ سے نہ دیکھے اس لیے سورج کی آنکھ اندھیرے کی موج میں چلی گئی ہے ۔ یعنی سورج چھپ گیا ہے ۔غالبؔ کے یہاںاسی خیال کو نہایت پیچیدہ طریقے سے پیش کیا گیاتھاکہ ان کے بعض احباب بھی اس کا مفہوم نہیں سمجھ سکے تھے ،اس لیے غالب کو اس شعر کی شرح لکھنی پڑی ۔ غالب کی مثنویِ معراج کا شعر تھا

کہ گوئی مگر مہر زیرِ نگیں

فروزاں فوہ بودد پشت ِ نگیں


اس شعر کے متعلق غالبؔ منشی نبی بخش حقیرؔ کے نام ۱۹ نومبر ۱۸۵۲ء کے خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’یہ شعر شب معراج کی توصیف میں ہے کہ وہ شب ایسی روشن تھی کہ بہ سبب روشنی کے زمین ایسی چمکتی تھی جیسے ڈانک سے نگینہ چمک جا تا ہے ۔آفتاب رات کو تحت الارض ہوتا ہے اور ڈانک بھی نگینے کے تلے لگاتے ہیں اور نگینہ بقدر ڈانک کی حقیقت کے چمکتا ہے ۔پس جس نگینے کے نیچے آفتاب ڈانک ہوگا ، وہ نگیں کتنا درخشاں ہوگا ۔‘‘ ( مرزا غالب [مرتبہ خلیق انجم ] ؔ ’’غالب ؔ کے خطوط ‘‘ غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی ۱۹۸۷ء جلد ۳ ص۱۱۱۵)


الغرض اس شب میں اللہ رب العزت اپنے مقرب فرشتے حضرت جبرئیلؑ کو حکم دیتے ہیں کہ شہ مرسلاں، آقائے دوجہاں ،صاحب قرآں ،وجہ تخلیق کائنات حضرت محمد ؐ کو بلا لا ۔ ان کی سواری کے لیے یہاں سے ایک تیز رفتار گھوڑا لے جا ،تاکہ وہ ساتوں فلک بہ آسانی طے کر کے یہاں آ سکیں۔عرش و کرسی سے گزر کر لامکاں میں مکان بنا سکیں۔اللہ تعالیٰ کا حکم سنتے ہی جبرئیل علیہ السلام ایک براق اور ہزار فر شتوں کی جلو میں نکل پڑے اور ایک پل میں کئی برس کی راہ طے کرکے رسالت پناہ حضرت محمدجہاں استراحت فرما رہے تھے وہاں پہنچے ۔ادھر آپ V گہری نیند سو رہے تھے ۔ ادھر حضرت جبرئیل ؑ با ہوش و حواس مستعد کھڑے تھے ۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کا حکم حضور ر V کوسنایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد کیا ہے اور دونوں جہاں آپ کو عطا کئے ہیںنیز لامکاں تک کے سفرکی نوید آپ کو سنائی ہے تو آپ ؐ نے اٹھ کر وضو کیا اور جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔بھورے رنگ کے براق پر سوار ہو کر سم نما چاند کے عارض پر گرد اڑاتے ہوئے آپ ؐپہلے فلک پر پہنچے ۔وہاں فرشتوں سے آپؐ نے ملاقات کی اور دوسرے آسمان کی سمت روانہ ہو گئے ۔وہاں عطارد آپؐ کی آمد کا منتظر تھا ۔آپؐ کے پہنچتے ہی اس نے بحیثیت دبیرِفلک اپنی کرسی سنبھالی ۔وہاں سے آپؐ تیر کی مانند (تیز رفتار) تیسرے آسمان پر پہنچے ۔اس شعر میں عطارد ،دبیر اور تیر میں لفظی نسبت ہے یہ تینوں نام دوسرے فلک کے حاکم کے ہیں۔تیسرے آسمان پر زہرہ نے آپؐ کا استقبال کیا ۔اس سیارے کا تعلق رقص و نغمہ سے ہے ۔ نجوم کی رو سے اس کے ہاتھ میں چاند کے دائرے کا دف ہے زہرہ اپنے نغمے اسی دف پر چھیڑتی ہے۔شاعر کہتا ہے کہ زہرہ نے آپؐ کا استقبال نغمہ سنجی سے کیا ۔اس کے بعد آپ ؐ چوتھے آسمان کی جانب محو پرواز ہوئے۔ یہاں شاعر نے نجومی نکتوں کے ذریعہ شعری حسن بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ


کیا واں تے جب گرم اچپل ترنگ

لیا قلعۂ چار میں بے درنگ

دیکھت مکھ پہ حضرت اِتا آب وتاب

لگیا لوٹنے چشمۂ آفتاب

مسیحا کے گھر کا چراغ اس پچھان

پھر اس کا اسی پر رکھیا بادبان

(علی نامہ ایضاً ص ۱۵)


واقعۂ معراج میں چوتھے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑسے آپ ؐکی ملاقات کا ذکر ہے ۔نصرؔتی نے اسی مناسبت سے آپ کو مسیحا کے گھر کا چراغ کہا ہے ۔ازروئے نجوم چوتھے فلک کا حاکم شمس ہے ۔فلکیات کے ماہرین کے نزدیک شمس کی روشنی ہی سے نظام شمسی کے تمام سیارے اور ستارے کسب فیض کرتے ہیں۔لیکن شاعر کا کہنا ہے کہ آپؐ کے چہرہ انور کو دیکھ کر سورج کی آنکھیں روٹھ گئیں یعنی بے نور ہوگئیں ۔آپ کے رخ انور کو سورج نے مسیحا کے گھر کا چراغ سمجھا ۔چوتھے فلک سے آپ ؐ پانچویں آسمان پر پہنچے ۔اس فلک کا حاکم علم نجوم کی رو سے مریخ ہے لیکن وہ آپ ؐ سے اس کی بھرم رکھ لینے کی درخواست کرتا ہے ۔وہاں سے حضرت محمد V چھٹے آسمان کی جانب پرواز کرتے ہیں اس فلک کا حاکم مشتری ہے آپؐ نے اس کی مستعدی دیکھ اسے فضیلت سے سرفراز کیا ۔شریعت کی قضا و رضا مشتری کو سونپ کر آپ ؐ ساتویں آسمان کی طرف بڑھ گئے ۔وہاں کا حاکم زحل منحوس سیارہ ہے آپ ؐ کا یوں تسلط دیکھ کر وہ گھبرا گیا اور اپنی سدھ بدھ کھو دی ۔وہ کہنے لگا کہ آہ ! برجش سے بھی بلند سلطنت کا مالک ہونے کے بعد بھی میں داغدار ہوں ،حالانکہ میں اس علاقے کا مالک ہوں کہ یہاں سے اوپر جبرئیل ؑ بھی نہیں جا سکتے ۔یہاں پہنچ کر جبرئیل ؑ نے آپ سے واپسی کی اجازت چاہی اور کہا کہ میں اس جگہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔وہاں سے آپ ؐ اکیلے نکل پڑے اور عرش کے قریب جا کر ٹھہر گئے۔عرش پر چڑھنے کے لیے جب آپ ؐ نعلین اتارنے لگے تو عرش نے یہ التماس کیا کہ اپنے قدم اپنی نعلین اور اس کی گرد کے ساتھ مجھ پر رکھیں۔


تاکہ میرا مقدر جاگ جائے ۔ عرش کی یہ عرض و نیاز سن کر آپ ؐ نے مع نعلین عرش پر قدم رکھا ۔ جس کی وجہ سے لامکاں تک منور ہو گئے ۔اس کے بعد آپ ؐ کو وہاں تک لے جایا گیا جہاں تک خیال نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں آپ کو رویت اصل کا شرف حاصل ہوا اور آپ نے اس نور کو بے حجاب دیکھا ،جس نور کے ذرے کئی آفتاب سے زیادہ روشن ہیں۔شاعر کہتا ہے کہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح شمع فانوس میں نہیں چھپتی اسی طرح نور الٰہی آپ کے روبرو ہو گیا ۔دونوں کے درمیاں فاصلہ قاب قوسین کے برابر رہ گیا تھ۔ یہ وہ مقام تھا جہاں اکیلی ذات کے سوا کوئی نہیں تھا۔ وہاں غیر ذات کے لیے کوئی جگہ نہ تھی ۔اس جگہ نور میں نور مل گیا ۔جس طرح دیپک اور شمع یکجا رکھ دی جائے تو اس کے اجالے میں فرق کرناناممکن ہوتا ہے اسی طرح یہ دونوں نور آپس میں مل گئے ۔آپ ؐ نے دیدار الٰہی کی فرح بخش مے نوش فرمائی اور اللہ سے ہم کلام بھی ہوئے ۔آپ نے بارگاہ ایزدی میں تحیات کا نذرانہ پیش کیا تو جواباً آپ V پر صلوٰۃ و سلام بھیجے گئے اور اسی تحفہ کو امت کے لیے پسند فرمایا ۔اللہ رب العزت کی جانب سے اب رحمتوں کی بارش ہونے لگی اور کرم کا دریا بہنے لگا۔ اس کے بعد آپV عرش سے لوٹ کر زمین پر تشریف لائے اور اپنے احباب میں اس واقعے کو سنایا ۔ابوبکر ؓ نے سنتے ہی آپ کو مبار ک باد پیش کی۔ حضرت عمرؓ بھی یہ مژدہ سنتے ہی خوش ہو ئے ۔اسی طرح حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ بھی خوش ہوگئے۔

یہاں قصۂ معراج ختم ہوتا ہے ۔نصرتی ؔ کی ان دونوں معراجیہ نظموں کا موازنہ کیا جائے تو دونوں میں لفظیات کے استعمال کے علاوہ کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہو تا ۔خیالات کا دھارا دونوں جگہ یکسا ں رواں ہے ۔ دونوں منظومات میں واقعہ ٔ معرج کو نجومی اصطلاحات سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس فارسی روش کو غالب اور شفیق نے بھی اپنایا ہے ۔ ملک خوشنود کی ’’جنت سنگار ‘‘ میں بھی معراج کے واقعے کو نجوم سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے مگر خوشنود کے یہاں اجمال اس قدر ہے مانو وہ اپنے خیالات کو معراج کے سفر کی رفتار سے جوڑ رہے ہوں ۔علم نجوم اور واقعۂ معراج کو باہم مربوط کرنے کی یہ روایت دکن میں زیادہ قائم رہی ،شمال کی مثنویوں میں البتہ یہ کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے ۔

٭٭٭