نعتیہ گلدستہ’’سفینۂ نجات‘‘دہلی ۔ ڈاکٹر رفاقت علی شاہد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg


مضمون نگار : ڈاکٹررفاقت علی شاہد۔لاہور

نعتیہ گُل دستہ’’سفینۂ نجات‘‘،دہلی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Safina-e-Najat was a flowers' vase of Naatia poetry that was published in 1898 by Muhammad Hakim Khan Haziq. This article depicts some research comments on the date of publication and publishers name. This flowers' vase carry poetry of only 21 poets on the suggested pattern of expression i.e. 'Misra-e-Tarh'. Harmony could not prevail in judging quality of poetry for the purpose of publishing. Poetry of some poets' occupied much space than others.

اردو گُل دستوں کی روایت کے ساتھ ساتھ نعتیہ گلدستوں کی روایت بھی اردو ادب کی انفرای اوربے مثال پہچان ہے۔اردو میں متعدد نعتیہ گلدستے جاری ہوئے ۔ ان میں سے بعض تودیگر گُل دستوں کی طرح مختصر زندگی کے بعد اپنی یاد چھوڑ گئے لیکن کچھ گُل دستے ایسے بھی تھے جو تادیر اپنی مہک سے گلستان ِادب کومعطّر کرکے اپنی موجودگی کااحساس دلاتے رہے۔ایسے گُل دستوں میں سے ایک نعتیہ گُل دستہ دہلی کا’’سفینۂ نجات‘‘ہے۔

’’سفینۂ نجات‘‘کاذکر تواریخِ ادب وصحافت میں موجود نہیں۔صرف اسی گُل دستے کاکیا مذکور، ۱۸۸۸ء کے بعد شائع ہونے والے کئی گُل دستوں کے ذکر سے اردو ادب اوراردوصحافت کی تاریخیں خالی ہیں۔کیوںکہ اردو گُل دستوں اوراردو اخبارات ورسائل کی تاریخ پربنیادی کتاب’’اختر شہنشاہی‘‘ ہے جو۱۸۸۸ء میں شائع ہوئی اوراس میں اسی سنہ تک کے اخبارات،رسائل اور گُل دستوں کا ذکرہے۔امدادصابری مرحوم کی کتابیں ’’تاریخِ صحافت اردو‘‘پہلی تین جلدوں میں اور گُل دستۂ صحافت بیشتر اسی ماخذ پرمشتمل ہیں۔اسی وجہ سے ان دونوں کتابوں میں بھی’’سفینۂ نجات‘‘ کاذکر نہیں ہے۔

’’سفینۂ نجات‘‘کے ایک شمارے کاعکس میرے پیشِ نظر ہے۔یہ ساتویں جلد کا آٹھواں شمارہ ہے۔یہ شمارہ جامعہ پشاور کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔اس کا سرورق موجود نہیں۔البتہ پشت پر ورق موجود ہے جس کے دونوں صفحات پر کتابوں کے اشتہار ہیں۔پشت ورق پرسرخ رنگ کے کاغذ پرطبع ہواہے۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ سرورق بھی اسی رنگ کے کاغذ پرطبع ہواہوگا۔اس شمارے کی کل ضخامت سولہ صفحات ہے جس میں پشت ورق کے دوصفحات شامل نہیں۔ گُل دستوں کی روایت کے مطابق شروع میں مصرع درج ہے اس کے بعدشاعروں کے تخلّص کی الف بائی ترتیب سے طرحی کلام درج ہے۔اسی طرح روایت کے مطابق طرحی کلام کے آخر میں آئندہ کے لیے طرحی مصرعے درج ہیں۔


پیشِ نظر شمارے کے پہلے صفحے پرسب سے اوپر جلد وشمارے اوراس کے مطابق عیسوی وہجری مہینے وسال کااندراج ہے۔اندراج کے مطابق یہ جلد۷کاشمارہ۸بابت ’’ماہ اگست۱۹۰۴ء اورمطابق جمادی الثانی سنہ۱۳۳۳ھ‘‘ہے اس سے معلوم ہواکہ گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘نے اپنی اشاعت کے چھ سال مکمل کرلیے ہیں اوراب ساتویں سال میں اس کی اشاعت جاری ہے یوں معلوم ہواکہ گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘کاآغاز(۱۹۰۴ء۔۶)۱۸۹۸ء میں ہوا۔جلد شمارہ نمبر کے اس اندراج سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ ’’سفینۂ نجات‘‘کے شماروں کی نمبر شماری عیسوی سال اورمہینوں کے مطابق کی جاتی تھی اور اس کی نئی جلد کاآغاز جنوری سے ہوتاتھا۔اسی حساب سے یہ آٹھواں شمارہ بابت اگست ہے۔عیسوی سال اورمہینوں سے جلدوں اورشمارہ نمبروں کاحساب انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں عام تھا۔اردواخبارات میں تواس کاالتزام شروع سے تھا البتہ بعض رسائل خصوصاً مذہبی،اسلامی رسائل میںہجری سال اورمہینوں کے مطابق جلد اورشمارہ نمبر کاحساب درج ہوتا تھا۔


یہ تواندازہ ہوگیا کہ گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘۱۸۹۸ء میں دہلی سے شائع ہونا شروع ہوالیکن یہ طے ہونا مشکل ہے کہ یہ۱۸۹۸ء میں کس مہینے سے شائع ہونا شروع ہوا۔اردو کے قدیم رسائل اور گُل دستوں میں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر کوئی جریدہ جنوری کے بعداور دسمبر سے قبل کسی مہینے میں شروع ہواتوسال کے بارہ شمارے مکمل کرنے کے بجائے دسمبر تک کے شماروں پرمشتمل پہلی جلد مکمل کردی جاتی تھی اورنئے سال یعنی اگلے سال جنوری کے مہینے سے دوسری جلد کاآغاز کر دیا جاتا تھا۔ممکن ہے کہ ’’سفینۂ نجات‘‘کے سلسلے میں بھی یہی طرزِ عمل روارکھا گیاہو۔ایسی صورت میں یہ واضح ہونامشکل ہے کہ اس گُل دستوں کاآغاز جنوری۱۸۹۸ء سے ہوایااس کے بعد کے کسی مہینے سے۔


میرے گذشتہ مضمون’’اردو کے چند نعتیہ گُل دستے‘‘(مشمولہ مجلہ نعت رنگ کراچی،شمارہ ۲۳، صفحات ۲۰۷تا۲۲۹)میں ’’سفینۂ نجات‘‘کے اجرا کاسال۱۸۹۷ء درج ہوگیاہے۔۱؎ یہ درست نہیں کتابت کی غلطی ہے۔ گُل دستے کے پیشِ نظر شمارے میں کل۲۱شعرا کانعتیہ طرحی کلام شائع ہوا ہے ۔ ان میں سے بعض شعراکی نعتیہ غزلوں کے زیادہ شعرشامل کیے گئے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں بعض شعرا کے نسبتاً کم شعر درج ہیں اس کی تفصیل درج ذیل گو شوارے یافہرستِ شعرا سے معلوم ہوتی ہے۔


۱)ایرجؔ،نواب محمد شوکت علی خاں بہادر،شاگردحسان الہند(ص۱۔۱۱ شعرمع مطلع ومقطع)

۲)اخگرؔ،منشی محمد عبدالقادر،سوداگر کیا مٹی وسیکرٹری محفل نقشِ سخن،برادرزادہ وشاگرد سعید کیامٹوی (ص۲،۳۔۲۸ شعر مع مطلع اوّل ودوم اورمقطع)

۳)اسدؔ،منشی عطاجان تلمیذ حسان الہند رضوان علی خاں رضوانؔ(ص۳،۴۔۱۳شعر مع مطلع اوّل ودوم اورمقطع)

۴)اشرفؔ،نواب میاں جان خاں،شاگرد ایرجؔ(ص۴۔۸ شعر مع مطلع اوّل وثانی مقطع)

۵)الیاسؔ، محمد الیاس،ساکن چلیپانہ،شاگرد مولا بخش مدرس مدرسۂ پیپلسانہ،ضلع مرادآباد(ص۴،۵۔۹ شعرمع مطلع ومقطع)

۶)ازؔل،حکیم سید محمد برہان الحق،رئیس امروہہ،شاگرد حسان الہند(ص۵۔۵ شعر مع مطلع ومقطع)

۷)ارشدؔ،نواب محمد رشید الدین احمد خاں،رئیس مرادآباد،شاگردحسان الہند(ص۵،۶۔۱۳ شعر مع مطلع ومقطع)

۸)تمکینؔ،نواب محمد اکبر علی خاں،رئیس مرادآباد(ص۶،۷۔۲۲ شعرمع مطلع ومقطع)

۹)حاذقؔ،منشی شیخ بھیکن،ممبر بزم سرور سخن،از دھرن گاؤں،تلیمذ مولوی ناصرخاں نذرآبادی (ص ۷ ۔ ۷شعر مع مطلع ومقطع)

۱۰)خاقانؔ،شیخ محمد ابن شیخ بڑے صاحب،جمعدار تحصیل ساکن،ضلع باسم،حال مقیم تعلقہ پوسد،شاگرد حاذق الہند مہتم’’سفینۂ نجات‘‘دہلی(ص۷،۸۔۱۶شعر مع مطلع اوّل ودوم وسوم اورمقطع)

۱۱)رضوانؔ،حسان الہند نواب حاجی رضوان علی خاں بہادر(ص۸،۹۔۲۹ شعر مع مطلع اوّل تاپنجم اور مقطع )

۱۲)ریاضؔ،محمد ریاض الدین تاجر عطر عطر خلت اصغر مولوی عظیم اللہ مرحوم،تلمیذحاذق مہتم گل دستۂ ہذا(ص۱۰۔۷ شعر مع مطلع ومقطع)

۱۳)سعدیؔ،سعد اللہ خاں،ساکن پیلیسانہ،ضلع مرادآباد،شاگرد مولا بخش مدرس مدرسہ پیپلسانہ (ص۱۰ ۔۵شعرمع مطلع ومقطع)

۱۴)صادقؔ،منشی شیخ امیر،خلف الرشید بھیکن ممیر بزم سرور سخن،ازدھرن گاؤں(ص۱۰۔۳شعر)

۱۵)عاصیؔ،حافظ فتح یاب خاں،سوداگر ناگ پور،تلمیذشرقؔ مرحوم(ص۱۱۔۱۴شعر مع مطلع ومقطع)

۱۶)عرشیؔ،منشی عبدالقادر،مدرس مدرسہ جنڈ،ضلع جالندھر(ص۱۱،۱۲۔۶شعر)

۱۷)فروغؔ،منشی محمد حسین مرادآبادی،تلیمذتمکینؔ(ص۱۲۔۱۷شعرمع مطلع ومقطع)

۱۸)مشاہرؔ،منشی عبدالودود،فرزند محمد عبدالرحمن،از سلمیر،ضلع جنوبی ارکاٹ(ص۱۳۔۱۲شعر مع مطلعِ اوّل تاثالث اورمقطع

۱۹)مولاؔ،منشی مولابخش،مدرس مدرسۂ پیلسانہ،ضلع مرادآباد (ص ۱۳،۱۴۔۱۶شعر مع مطلعِ اوّل تاثالث اورمقطع)

۲۰)منیرؔ،منشی محمد منیر خاں،مولود خواں،سکنۂ جبل پور(ص۱۴،۱۵۔۱۳شعر مع مطلعِ اوّل تاثالث اورمقطع)

۲۱)نیرؔبرہما،سیّد محمد بدیع الرحمان برہماوی،ساکن ارکان ناہیرنگی،تلمیذ حسان الہند(ص۱۵۔۹شعر مع مقطع)

پیشِ نظر شمارے میں شامل مذکورہ بالا شعرا کی فہرست سے کئی باتوں کااندازہ ہوتاہے سب سے پہلے تواس امر کااندازہ ہوتا ہے کہ گُل دستے میں صرف دہلی کے شعرا کاکلام شائع نہیں ہوتاتھا بل کہ ہندوستان کے دوردراز کے علاقوں کے شعرا بھی اپناکلام اس میں اشاعت کے لیے بھیجتے تھے۔موجودہ شمارے میں زیادہ ترمرداآباد کے شعرا کاکلام بھی شامل ہے۔دہلی کے محض دوتین شعرا ہی اس میں شامل ہیں۔ان میں بھی گُل دستے کے مہتمم اوران کے شاگردکاہی اندازہ کیاجاسکتاہے۔ان کے علاوہ جالندھر،کیامٹی(کامٹی)ناگپور،جنوبی ارکاٹ اورارکان ناہیرنگی جیسے دوردراز مختلف علاقوں کاکلام گُل دستے میں شامل ہے۔اس امر کابھی اندازہ ہوتاہے کہ کسی شاعر کاحتیٰ کہ مہتمم گُل دستہ کا تعلق بھی خاص دہلی سے نہیں ہے۔معلوم ہوتاہے کہ مہتمم کاتعلق مضافات دہلی سے تھا۔غالباً اسی وجہ سے انیسویں صدی کے اواخر اوربیسویں صدی کے شروع کے زمانے میں دہلی اوراطراف دہلی کے معروف شعرا گُل دستے کے زیرِ نظر شمارے سے غیر حاضر ہیں۔

اردو گُل دستوں کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان میں موصولہ کلام کا انتخاب شائع کیا جاتا تھا ۔ تقریباً ہر گُل دستے کے ضوابط میں یہ تحریر ہوتاتھا کہ منتخب یااچھاکلام ہی گُل دستے میں شائع کیا جائے گا۔البتہ طرحی وغیر طرحی کلام اجرت پربھی درج کیاجاتا تھا۔ایسی صورت میںکلام کاانتخاب نہیںکیا جاتاتھا۔بل کہ فی شعرمقررہ اجرت کے حساب سے اجرت ادا کرکے غیر منتخب اشعار درج کرائے جاسکتے تھے۔یہ خصوصی طور پر گُل دستوں کاذریعۂ آمدن تھا۔ گُل دستہ’’سفینۂ نجات‘‘کے زیر نظرشمارے میںشامل کلام سے بھی اندازہ ہوتاہے کہ اس میں کچھ شعراکاکلام اجرت لے کر شائع ہواہے۔جیساکہ اوپر کی درج فہرست سے معلو م ہوتاہے کہ بعض شعرا کی غزلوں کے تو۳،۵،۷،۸،۹ شعر شائع ہوئے ہیں لیکن بعض شعرا کی غزلوں میں۱۶سے لے کر۲۹شعرتک درج ہیں۔تجزیہ کرنے سے اندازہ ہواکہ اس میںکمی بیشی کاتعلق کلام کے معیار سے ہرگز نہیں۔جن شعرا کی غزلوں میں ۹ سے زیادہ اشعار موجود ہیں ان کے تمام اشعار معیاری نہیں بل کہ عام اورکمزور شعر بھی ان غزلوں کاحصّہ ہیں۔اس سے یہی ثابت ہوتاہے کہ ان شعرا کی ایسی غزلیں اجرت لے کرشائع کی گئی ہیں۔ان شعرا کی فہرست میں سے حسان الہند رضوانؔ مرادآبادی کونکالا جاسکتاہے۔اوّل توانیسویں صدی کے قرب وجوار میں وہ ایک معروف نعت گوگردانے جاتے تھے دوسرے اُن کاحلقۂ تلامذہ بہت وسیع تھا۔’’سفینۂ نجات‘‘کے اس شمارے میں اُن کے سات شاگردوں کاکلام شامل ہے۔گویا موجود شمارے کے ایک تہائی شریک شعرا اُنھی کے شاگرد ہیں چناں چہ دونوں حیثیتوں سے اُن کاکلام تبرک کے طورپر اور گُل دستے کے لیے اعزاز سمجھ کر شامل ہوتاہوگا۔ مذکورہ بالا فہرست سے اس بات کابھی اندازہ ہوتاہے کہ پیش نظر شمارے میںمہتمم گُل دستہ کاکلام شامل نہیں لیکن اُن کے دوشاگردوں(خاقانؔ،ریاضؔ)کاطرحی کلام شامل ہے۔


طرحی کلام کے اختتام پرمطبع حقانی،دہلی کی آٹھ کتابوں اورایک’’نقشہ درگارہ خواجہ بزرگ اجمیری‘‘کااشتہار ہے(ص۱۵۔۱۶)اس کے بعدآئندہ دوشماروں کے لیے طرحی مصرعے درج ہیں۔ آخر میں پرچے گُل دستے کی بروقت اشاعت کے لیے معذرت خواہانہ بیان ہے جوممہتمم گُل دستہ کی جانب سے ہے۔ گُل دستہ’’سفینۂ نجات‘‘کا دہلی کے مالک اورمدیر کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں۔پیش نظر شمارے کے مندرجات سے بھی اس سلسلے میںکوئی مدد نہیں ملتی۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ مذکورہ شمارے کاسرورق موجود نہیں۔اس کا سرورق موجود ہوتا تو گُل دستے کے مدیر،مالک ، مطبع،مقام اشاعت اورشرائط وضوابط وغیرہ کے بارے میں معلوم ہوجاتا۔موجودہ صورت میں موجودہ شمارے کے اندراجات کے ذریعے اندازے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ان میں سے کچھ اندازوں کے حق میں مضبوط شواہد موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ اندازے یقین کی حد تک قائم کیے جاسکتے ہیں۔


عبدالحکیم خاں حاذقؔ کومتعدد جگہ گُل دستے کامہتمم لکھا گیاہے۔موجودہ شمارے کے پشت ورق پر ایک اندراج یوں ہے:[محمدعبدالحکیم خاں حاذقؔ مہتمم گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘،دہلی] ۲؎

اس کے علاوہ اس شمارے میں شیخ محمد خاقانؔ اورمحمد ریاض الدین ریاضؔ کو’’حاذقؔ مہتمم گُل دستہ ہذا‘‘اور مہتمم’’سفینۂ نجات‘‘،دہلی کاشاگردلکھاہے۔۳؎ دوجگہ محمد عبدالحکیم خاں حاذقؔ کومطبع حقانی،دہلی کامالک لکھا گیاہے۔۴؎ ایک جگہ’’مختصر فہرست کتب موجودہ دفتر’’سفینۂ نجات‘‘درج ہے اورآخر میں لکھا ہے کہ’’تمام درخواستیں بنام محمد عبدالحکیم خاں مالک مطبع حقانی،دہلی ہونی چاہئیں۔‘‘۵؎


ان تمام اندراجات سے معلوم ہواکہ گُل دستہ’’سفینۂ نجات‘‘کے مہتمم عبدالحکیم خاں حاذقؔ تھے۔ وہ مطبع حقانی،دہلی کے مالک بھی تھے۔آخری اندراج میں’’سفینۂ نجات‘‘کے دفتر کے عنوان کے آخر میں مطبع حقانی کانام وپتالکھاہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘کے دفتر اورمطبع حقانی کاپتاایک ہی تھا۔ آئندہ کے طرحی مصرعوں کے بعداعلان کے آخر میں’’راقم حاذقؔ‘‘کے اندراج سے پتاچلتاہے کہ گُل دستے کے مدیر ومرتب حاذقؔ ہی ہوں گے۔ گُل دستے کے دفتر مطبع حقانی کے پتے کامشترک ہونااس جانب اشارہ کناں ہے کہ مطبع حقانی اور گُل دستہ’’سفینۂ نجات‘‘کامالک ایک ہی شخص ہے۔مطبع حقانی کے مالک بھی حاذقؔ تھے یوں یہ اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ کے مالک بھی وہی ہوں گے۔


ان اندازوں اورشواہد سے معلوم ہواکہ گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘کے مالک،مدیر ومرتب اورمہتمم ایک ہی شخص محمد عبدالحکیم خاں حاذقؔ تھے۔حاذق کاجب مطبع اپنا تھا توفطری طورپر ان کا گُل دستہ بھی یہیں سے طبع ہوتاہوگا۔مطبع اور گُل دستے کے پتے ایک ہونا یہ بھی واضح کرتاہے کہ گُل دستہ’’سفینۂ نجات‘‘کی اشاعت مطبع حقانی،دہلی سے ہوتی تھی۔


گُل دستے کے موجودہ شمارے میں منشی شیخ بھیکن کاکلام بھی شائع ہواہے۔لیکن ان کا صرف تخلص ہی گُل دستے کے مہتمم عبدالحکیم خاں حاذقؔ سے ملتاہے۔شخصیت ان سے بالکل علاحدہ ہے ۔ دونوں کے نام میں واضح فرق ہے(محمد عبدالحکیم خاں۔ منشی بھیکن)دونوںکے توطن میں بھی فرق ہے۔ حاذق مہتمم گُل دستہ کاتعلق دہلی سے تھا جب کہ منشی شیخ بھیکن کاوطن دھرن گاؤں تھا۔اسی طرح منشی شیخ بھیکن کو حمیر بزم سرورسخن اور تلمیذ مولوی ناصر خاں نذرآبادی لکھا ہے لیکن محمد عبدالحکیم خاں کے ساتھ ایسا کوئی اندراج موجود نہیں۔ان سب سے بڑھ کر یہ کہ منشی شیخ بھیکن کاحوالہ مذکورہ شمارے میں دوجگہ آیاہے۔ایک خود ان کے ذکر میں اور دوسرے ان کے بیٹے منشی شیخ امیر صادق ؔ کے تعارف میں لیکن دونوں جگہ ان کا تعلق گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘سے ظاہر کیا گیاہے۔ان شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ محمد عبدالحکیم خاں حاذقؔ مہتمم گُل دستہ ’’سفینۂ نجات‘‘اورمنشی شیخ بھیکن حاذقؔ ممبر بزم سرورسخن دوعلیٰحدہ شخصیتیں ہیں اوردونوں میں تخلص کے سوا کوئی امر مشترک نہیں اس سے اُس ذرا سے امکان کی بھی نفی ہوتی ہے جس میں منشی شیخ بھیکن کومحمد عبدالحکیم خاں کی عرفیت میں باور کیاجاسکتاتھا۔


گُل دستہ’’سفینۂ نجات‘‘ انتہائی کم یاب ہے اورتواریخ ادب میں اس کامذکوربھی نہیں۔اب تک مجھے اس کے محض دوشماروں کی موجودگی کی اطلاع ہے۔ایک تو یہی پیش نظر شمارہ ہے۔ایک دوسرے شمارے کاحوالہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاںپوری نے دیاہے۔انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک نعت’’کلیاتِ آزاد‘‘میں شامل کی جس کاماخذ انھوں نے’’سفینۂ نجات،بمبئی ،اپریل سنہ ۱۹۰۰ء‘‘ کو لکھا ہے۔۶؎ یہ نعت انھیں افسر صدیقی امروہوی کے ذریعے دست یاب ہوئی۔چناں چہ انھوں نے اس کے لیے ان کا شکریہ بھی ادا کیاہے۔۷؎ اس اندراج میں گُل دستے کانام تودرست ہے لیکن شہر کا نام درست نہیں۔اسے بمبئی کے بجائے دہلی ہوناچاہیے۔معلوم ہوتاہے کہ یہ غلطی افسر امرہووی صاحب مرحوم سے ہوئی ہے۔


گُل دستہ’’سفینۂ نجات‘‘کی کم یابی اوراہمیت کے پیش نظر اُس ایک دست یاب شمارے کاعکس پیش کیا جارہاہے جومیرے پیش نظر ہے اورجس کی بنیاد پریہ تحقیقی مضمون تحریر کیا گیا۔

حواشی وکتابیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔اردو کے چند نعتیہ گُل دستے(مضمون)،مجلہ نعت رنگ کراچی،شمارہ اگست۲۰۱۲ء،ص۲۲۷

۲۔ سفینۂ نجات،دہلی،اگست۱۹۰۴ء،پشت ورق،ص۲ کاشروع

۳۔ایضاً،ص۷۔۱۰

۴۔ایضاً،ص۱۶ اورپشت ورق ص ۲ کاآخر

۵۔ایضاً،پشت ورق ص۲

۶۔کلیات آزاد،از:مولانا ابوالکلام آزاد،مرتب:ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری،کراچی ابوالکلام آزاد،انسٹی ٹیوٹ پاکستان،اشاعت اوّل،۱۹۹۷ء،ص۴۳،حاشیہ