نعت نگارشعراء کا اظہار عجز ۔ ڈاکٹر عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مصنف: ڈاکٹر عزیز احسن

نعت نگار شعراء کا اظہار عجز[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایک محفل میں اجمل سراج سے میرے مضمون’’تخلیقی ادب اور نعتیہ ادب کی موجودہ صورتِ حال‘‘ کے حوالے سے گفتگو چلی تو انہوں نے ڈاکٹر خورشید رضوی کا یہ شعر سنایا:

شان ان کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے

نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے


وہ محفل تو برہم ہوگئی لیکن اجمل سراج کے سنائے ہوئے شعر نے مجھے فکر و خیال کے نئے سفر پر روانہ کردیا۔

اس شعر میں رضوی صاحب نے کہنا یہ چاہا ہے کہ نعت کہتے ہوئے اپنی محدودات، زبان کی بے بضاعتی، مقامِ رسالت کا عدم عرفان اور آپؐ کے شایانِ شان الفاظ رقم کرنے کی صلاحیت کا فقدان، یہ احساس بیدار کرتا ہے کہ اس منزل پر خاموشی ہی بہتر ہے۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ نعت کہنا ہی نہیں چاہیے۔ جیسا کہ ہمارے کرم فرما احمد صغیر صدیقی نے اپنے طنزیہ لہجے میں ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ’’شاعر کیا یہ کہنا چاہتا ہے کہ نعتیہ شاعری مت کرو؟‘‘

’’چپ ہوجائیے‘‘ میں جو بات کی گئی ہے اس کا اصل مقصد سوچ میں کھو جانا ہے۔

کارل پوپر نے کہا تھا ’’معنی اور صداقت کے مابین ایک گہری مماثلت ہے‘‘۔ (فلسفہ، سائنس اور تہذیب ص 75)

یہاں ہمیں ’’چپ ہوجائیے‘‘ کے مشورے کا ماخذ صوفیانہ روایت کے اندر تلاش کرنا ہوگا۔ انتظار حسین نے بڑے پتے کی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

’’خاموشی کی واردات تصوف میں اپنی منزل آپ ہے۔ خاموشی کی واردات ادب میں ایک نئے کلام کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘

(علامتوں کا زوال)


چنانچہ رضوی صاحب کے مشورے کو تخلیقی ادب میں نئے کلام کا خیمہ سمجھنا چاہیے۔

بات یہ ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے حوالے سے جو بات بھی کی جاتی ہے اس کو سند کی کسوٹی پر کسا جاتا ہے یا ایسا کرنا چاہیے۔ جبکہ شاعر صرف اپنے لمحاتی رجحان یا موڈ کو شعری جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ اُس وقت اس کے سامنے نہ تو مذہبی روایات ہوتی ہیں اور نہ ہی تاریخ و سِیَر کی کتب کے اسباق اسے ازبر ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کا مطالعہ بھی ہر شاعر کا علماء کی سطح کا نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے بیشتر شعراء نے نعتیہ ادب تخلیق کرتے ہوئے اظہارِ عجز کا نقش بھی شعری صورت میں قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ اہلِ علم کے سامنے اپنی کسی نادانستہ لغزشِ بیاں کا جواز پیش کرسکیں اور حشر میں بھی اپنی قلم کاری کی بے احتیاطیوں کے معاملے میں کچھ رعایت حاصل کرسکیں۔

ڈاکٹر خورشید رضوی تو ماشاء اللہ دینی اسکالر ہیں۔ انہیں تو عربی زبان و بیان پر غیر معمولی عبور حاصل ہے۔ عربی کے توسط سے قرآن ِ کریم اور احادیثِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مضامین کی آگاہی اور مدحِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں انہیں خاص بصیرت بھی حاصل ہے۔ اس لیے وہ اپنے ’’تنقیدی شعور‘‘ کا بھرپور اظہار کرنے کے لیے یہ فرما رہے ہیں کہ

نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے

یعنی ذرا سوچیے کہ آپ کو کیا لکھنا ہے اور کیسے لکھنا ہے؟

یہ مصرع اگر خودکلامی کے انداز میں پڑھا جائے تو شاعر کی خود احتسابی یا خود ترغیبی (self suggestion)کا غماز ہے، اور اگر شاعر کی طرف سے مشورہ تصورکیا جائے تو یہ ایسے قارئین کے لیے قولِ زریں ہے جو شعر کہنے کی صلاحیت کو کافی سمجھ کر نعتیہ ادب تخلیق کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گویا خورشید رضوی کے اس مصرع میں ادب کی سماجی حیثیت کا بھرپور اظہار ہوا ہے، کیوں کہ ادب ’’روحِ عصر‘‘ کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ آج نعتیہ ادب کی تخلیق، تخلیقی ادب کی نمایاں صفت ہے اور اسی لیے اس کی تخلیق میں تربیت کا عنصر داخل کرنے کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

چنانچہ ان کے مشورے سے جو نعتیہ ادب تخلیق ہوگا وہ حقیقی معانی میں نیا کلام ہوگا۔ جدید ذہنوں کو حُبِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے جوڑنے والا کلام!

ڈاکٹر خورشید رضوی کے ایک شعر سے گفتگو آگے بڑھی تو مجھے خیال آیا کہ میں ان کی مذکورہ نعت کے اشعار بھی نقل کردوں اور اپنے پچھلے مضمون کی فکری رو کو آگے بڑھاتے ہوئے ایسے کچھ اشعار بھی پیش کردوں جن میں شعراء نے اپنے عجزِ بیاں کا اظہار کیا ہے۔

مطلع کے بعد خورشید رضوی کہتے ہیں:

سونپ دیجے دیدۂ تر کو زباں کی حسرتیں

اور اس عالم میں جتنا بن پڑے رو جایئے

یا حصارِ لفظ سے باہر زمینِ شعر میں

ہوسکے تو سرد آہوں کے شجر بو جائیے

اے زہے قسمت کسی دن خواب میں پیشِ حضورؐ

فرطِ شادی سے ہمیشہ کے لیے سو جائیے

اے زہے قسمت اگر دشتِ جہاں میں آپؐ کے

نقشِ پا پر چلتے چلتے نقشِ پا ہوجائیے

پچھلے مضمون میں میرا روئے سخن ان شعراء یا تُک بند مدح گزاروں کی طرف تھا جو صرف اپنے جذبات کو رہنما بناکر شعر گوئی کرتے رہتے ہیں اور زبان، بیان اور موضوع کی جان کاری کی بالکل پروا نہیں کرتے…آج میرا ارادہ ہے کہ کچھ شعراء کا تنقیدی شعور ان کے شعروں کی روشنی میں پیش کروں تاکہ میرے مخاطب کچھ فنی بصیرت حاصل کرنے کی طرف بھی دھیان دے سکیں!

چنانچہ اب ایسے اشعار کا انتخاب پیشِ خدمت ہے جن میں شعراء نے عجزِ بیاں کا پیرایہ اپنایا ہے۔

نزاکتِ خیال اور لفظوں میں شبیہ تراشی (imagery) کا عمل دیکھنا ہو تو ذرا صبیح رحمانی کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمالیجیے جس میں ثنائے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال نے شاعر کے آبگینۂ فکر کو پگھلا کے رکھ دیا ہے:

صبیح ان کی ثنا اور تُو کہ جیسے برف کی کشتی

کرے سورج کی جانب طے سفر آہستہ آہستہ

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے منسوب یہ مشہور شعر تو آپ نے سنا ہی ہوگا:

لا یمکن الثناء کما کانہ حقہٗ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اس شعر کے پہلے مصرع میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناء و توصیف کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے…دوسرے مصرع میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ کریم کی ذات کے بعد کائنات کی سب سے بزرگ ہستی صرف حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذاتِ والا صفات ہے۔ آج کے موضوع کے حوالے سے درجِ بالا شعر کا صرف پہلا مصرع ہی پیشِ نظر رکھنا ہوگا کیوں دوسرے مصرع کی شعری تمثیلات پیش کرنے کے لیے تو دفتر درکا ر ہیں۔

تو آئیے نعتیہ ادب کے خزانے سے اظہارِ عجز کے چند موتیوں کی تاب و تب دیکھتے ہیں:

خدا در انظار حمد ما نیست

محمدؐ چشم بر راہِ ثنا نیست


خدا مدح آفرینِ مصطفیٰؐ بس

محمد حامد حمدِ خدا بس


مناجاتے اگر باید بیاں کرد

بہ بیتے ہم قناعت میتواں کرد


محمد از تو می خواہم خدا را

الٰہی از تو حب مصطفیٰؐ را


دگر لب وا مکن مظہر فضولیست

سخن از حاجت افزوں تر فضولیست


حضرت میرزا مظہر جانِ جاناں کے درجِ بالا اشعار کامنظوم ترجمہ پروفیسر سحر انصاری نے بڑی خوبی سے کیا ہے۔ دل چاہتا ہے وہ بھی آپ ملاحظہ فرمالیں:

ہماری حمد کا طالب خدا نئیں

محمد چشم بر راہِ ثنا نئیں


خدا ہے محوِ حمد مصطفے بس

محمد حامدِ حمدِ خدا بس


دعا کی ہو اگر خواہش ہی ایسی

قناعت چاہیے اس شعر پر ہی


رہوں خواہاں محمد سے خدا کا

خدا سے وصف حب مصطفیٰ کا


نہیں مظہر مناسب بالارادہ

سخن کرنا ضرورت سے زیادہ

(میرزا مظہر جانِ جاناں؍سحر انصاری…نعت رنگ 3)

میرزا مظہر جانِ جاناں، تصوف کی روایت کے علم بردار تھے، اس لیے وہ بھی نعتیہ شعر کہنے کے لیے کچھ پابندیاں لگانے کے حق میں تھے۔ امت کا زوال اسی طرح شروع ہوا تھا کہ دعوے بہت تھے لیکن عمل ناپید تھا اور مظہر جان جاناں باتوں کے آدمی نہیں تھے۔ وہ حقیقی معانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی استدعا کرتے تھے کہ حضور! مجھے اللہ تک پہنچادیجیے!…اور اللہ تعالیٰ سے ان کی دعا یہی ہوا کرتی تھی کہ ’’میرے دل کو حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھردے!‘‘۔یہ بھی خیال رہے کہ ان کے ہاں حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد قلب و روح میں بس جانے والی خوشبو کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی وہ شکل بھی تھی جو ’’حبِ رسولؐکا خود اظہار ہوا کرتی ہے۔ان کی فکر عملی جامہ پہن کر ان کی ذات اور ان کے حلقے کے لوگوں کے لیے تحریک (movement) بن چکی تھی۔وہ صرف نظری طورپر حبِ رسولؐ کے خواہاں اور پِرْچارَک یا مُبَلِّغْ نہیں تھے۔ ان کی مثال اقبال کے اس شعر سے دی جاسکتی ہے:

آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق

شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نَم

بہرحال نعتیہ شاعری میں عجزِ بیاں کے مظاہر دیکھیے!

لکھوں نعت اس کی میں کس طرح ساری

براق ایک ادنیٰ تھا جس کی سواری ( سعادت یار خاں رنگین دہلوی)


خدا تیرا معرف ہے ملک تیرے موصف ہیں

نہیں حد بشر کہنا ترے اوصافِ بے حد کا

(شیخ امام بخش، ناسخ لکھنوی)


غالبؔ ثنائے خواجہ بیزداں گزاشتم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

ترجمہ:

غالب، خدا پہ چھوڑ دی مدحت رسولؐ کی

آگاہ بس وہی تو ہے شانِ حضورؐ سے

(اسلم انصاری)


حریف نعت پیمبر نہیں سخن حالی

کہاں سے لائیے اعجاز اس بیاں کے لیے

(الطاف حسین حالی)


حق گزار مدح او کس نیست جز یزدان پاک

رائے من ایں شد و شد روح الامیں ہم رائے من

کارِ نعت مصطفیؐ را بر خدا بگزاشتم

نعت شہؐ او خوب کردن میتواند جائے من

(میرا خیال تھا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کا حق سوائے اللہ کے کوئی ادا نہیں کرسکتا۔تو جبریلِ امین نے بھی میری رائے کی تائید فرمائی۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کا کام اللہ پر چھوڑا، کیوں کہ وہی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت خوب بیان فرماتا ہے …میں نہیں)

(مولیٰنا احمد حسن محدث بچھرایونی نیازی)


ارادہ جب کروں اے ہم نشیں مدح پیمبر کا

قلم لے آؤں پہلے عرش سے جبریل کے پر کا


(قزلباش دہلوی)


مدحت شاہِ دو سرا مجھ سے بیاں ہو کس طرح

تنگ مرے تصورات پست مرے تخیلات

(نواب بہادر یار جنگ، خلق)


ہفت افلاک سے یا کاہکشاں سے لاؤں

نعت کہنے کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں

دل میں ہے مدحتِ حضرتؐ کی تمنا لیکن

روئے قرطاس پہ کیا عجزِ بیاں سے لاؤں

(رفعت سلطان)


ثنا تیری بیاں کیا ہو، صفت تیری رقم کیا ہو

نہ اس قابل زباں نکلی، نہ اس لائق قلم نکلا

(آزاد بیکانیری)


مرے بیان و زباں کی بساط ہی کیا ہے

ترے جمال کی تعریف خود خدا نے کی

(ازہر درانی)


عجز ادراک سے ہے تیری ثنا کا آغاز

کس کو دعویٰ ہے کہ سمجھا ہے وہ رتبہ تیرا

کس عبارت سے کریں تیرے شمائل کا بیاں

کون لکھ سکتا ہے لفظوں میں سراپا تیرا

(اسلم انصاری)


مجھ کو اس بزم میں کیا جرأت گویائی ہو

جس میں حسانؓ کی گفتار بھی شرمائی ہو

(محمد افضل کوٹلوی)


شرط لازم ہے جو اوصافِ نبیؐ کی خاطر

وہ جزالت نہ فصاحت نہ بلاغت اپنی

ہاتھ آیا کوئی پیرایۂ اظہار کہاں

ہوسکی قید نہ الفاظ میں چاہت اپنی

(سید انور ظہوری)


نعت کہنے کو جب بھی اٹھایا قلم

میرے جذبات کو جانے کیا ہوگیا

خامشی لب پہ مدحت سرا ہوگئی ا شک آنکھوں میں حرفِ دعا ہوگیا

(انور جمال)


یہاں پھر ذرا ’’خاموشی‘‘ کا ادراک کیجیے اور اس بنیادی نکتے کوذہن میں لائیے کہ ’’خاموشی کی واردات، ادب میں ایک نئے کلام کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘۔

ثنا خواں کس طرح ہو کوئی اس محبوبؐ یکتا کا

زباں میں یہ کہاں قدرت، قلم کو یہ کہاں یارا

(صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

ورائے فکر و نظر اس کی رفعتوں کے مقام

جو ایک گام میں طے کرگیا نظر کی حدود

ثنائے خواجہؐ کروں یہ کہاں بساط مری

کہ میرا فکر بھی عاجز، خیال بھی محدود

(حافظ لدھیانوی)

کیوں کر حیاتؔ اس کی تعریف کوئی لکھے

خلاق ہر دو عالم خود جس کا مدح خواں ہے

(حیات وارثی لکھنوی)


میری کہاں بساط، کہوں نعت مصطفیٰؐ

جو شعر بھی ہوا ہے، ہوا آپ کے طفیل

(خالد شفیق)


کس رخ سے تیری مدح ترے مدح جو کریں

کس تار سے حروف کے دامن رفو کریں

(خالد احمد)

ان کا کرم نہ کرتا اگر رہبری خلیل

مقدور کب تھا مجھ کو ثنائے حضورؐ کا

(خلیل خاں برکاتی)


ثنا کس منہ سے ہو خورشیدؔ ان کی

خدائے پاک جن کا مدح خواں ہے

(خورشید ایلچ پوری)


کہاں سے لاؤں زبان و قلم کے پیمانے

ہے بیکراں تری عظمت، مری نظر محدود

(احسان دانش)

تری نعت اور روحیؔ تہی فکر

تری محفل میں کیا بندہ چلے گا

(روحی کنجاہی)


نعت اس کی کہاں، کہاں یہ زباں

ہاں نکلتی ہے صرف دل کی بھڑاس

(صبا اکبر آبادی)

تیری توصیف کہاں اور کہاں میرا قلم

فکر ناقص مرا، تو مظہر اسرار قدم

(طاہر شادانی)


یوں تو کہنے کو کہیں سینکڑوں نعتیں طاہرؔ

کون سی نعت کہی آپ نے شایانِ رسولؐ

(طاہر سردھنوی)


ذکرِ پاک ان کا اور تو فضلیؔ

بے ادب سیکھ عشق کے آداب

(فضل احمد کریم فضلی)


دامنِ نعت کے قابل کوئی گوہر لائے

کون ایسا ہے جو مٹھی میں سمندر لائے

(قیصر بارہوی)


تصویر تحیر ہے عالم یارائے بیاں زیبا ہی نہیں

امکان ثنائے ختم رسلؐ لفظوں میں سما سکتا ہی نہیں

(ہوش ترمذی)


دل نعتِ رسولِ عربی کہنے کو بے چین

عالم ہے تحیر کا زباں ہے نہ قلم ہے

(مولیٰنا مفتی محمد شفیع)


بندۂ عاجز، فقیرِ کج بیاں

کیا کرے گا مدح ممدوح خدا

(ڈاکٹر سید انعام احسن، فقیر)


منزلِ نعتِ نبی افسرؔ نہ ہم سے طے ہوئی

پاؤں رکھتے ہی یہاں ہوش اڑ گئے ادراک کے

(منظور احمد صدیقی، افسر امروہوی)


مدحِ سرکارؐ ہے کس کے امکان میں

آپؐ کی مدحتیں تو ہیں قرآن میں

(محشر بدایونی)


نعت سرکارِ دو عالم کی میں لکھوں کیونکر

میں گنہگار، وہ معصوم، میں عامی، وہ رسول

(راغب مرادآبادی)


ان کی مدحت کا جریدہ نہ مکمل ہو گا

جتنے ممکن ہیں شماروں پہ شمارے لکھنا

(رازؔ کاشمیری)


جب ان کی ثنا کا وقت آیا

لفظوں کا وجود ڈگمگایا

(شمس قادری)


تیری توصیف کو تحریر میں لاؤں کیسے

حسن خورشید کو آئینہ دکھاؤں کیسے

(صفدر صدیق رضیؔ)


مجال انسان کی کیا ہے کہ ہو مداح حضرت کا

کلام اللہ جب ناطق ہوا خوئے محمدؐ کا

(شیخ امیر الدین آزاد)


لکھوں کس طرح نعتِ مصطفٰےؐ کیا میرا رتبہ ہے

خدا قرآن میں تعریف ان کی آپ کرتا ہے

(محمد اشفاق علی اشفاق)


جز خداوند دو عالم کس سے مدحت ہوسکے

وصف میں ان کے سبھی جن و بشر ناچار ہیں

(خواجہ احمد شمسؔ)


رفعت کو دیکھتے ہوئے اٹھتی نہیں نگاہ

کیا وصفِ حدِ عظمتِ آقاؐ کریں گے ہم

(محمد سعادت حسین، شیداؔ)


یہ نام وہ ہے کہ جس کی ثنا نہیں ممکن

کہ آپ کہتا ہے سبحان، یارسول اللہ

(مرزا عباس بیگ، عباس)


نور ہے خالق کا اور ممدوح خالق کا ہے وہ

خلق کا منہ مدح کہنے کے بھی کب قابل ہوا

(محمد حسن علمیؔ)


صفت لکھنے کو نور مصطفیٰؐ کی

زباں لاؤں کہاں سے میں خدا کی

(سید محسن علی، محسنؔ)


جو ان کا حق تعالیٰ مدح خواں ہے

لکھوں میں نعت، کیا تاب و تواں ہے؟

(سید سلطان احمد، نامی)


نعتیہ ادب کی تخلیق کے اس میدان میں شاعرات بھی پیش پیش رہی ہیں اس لیے ان کے بھی کچھ اشعار ملاحظہ فرمالیجیے:

میں کس طرح سے نام شہ دو سرا کا لوں

بہر کلام لفظ نہ طاقت سخن میں ہے

(بیگم سلطانہ ذاکر، اداؔ)


بشر کیا خدا بھی ہے جس کا ثنا خواں

کروں اس کی توصیف میں کس زباں سے

(قمر سلطانہ سید)


ہو بشر سے کس طرح وصف محمدؐ کا بیاں

کس طرح سے بند کوزے میں ہو بحرِ بے کراں

(نور بدایونی)

ادا حق مدحت خیرالبشر ہو کس طرح نوریؔ

تُو حافظ ہے نہ رومی ہے نہ سعدی ہے نہ جامی ہے

(مسرت جہاں نوری)


اوصاف بیاں آپؐ کے کس طرح ہوں مجھ سے

کیا منہ جو کروں مدحت سردارِ دو عالم

(شاہد سلطانہ، نازؔ)


نعتیہ شاعری میں عجزِ بیاں کے بے شمار اشعار ملے۔ تقریباً ہر شاعر نے نعت کہنے میں اپنی بے بضاعتی کا اظہار کیا ہے۔لیکن عاصیؔ کرنالی نے ایک جدا انداز اور منفرد آہنگ میں اپنی بے بضاعتی کو فکری اور تخلیقی سطح پر اجاگر کیا ہے۔ اردو نعتیہ شعری سرمائے میں اس سے بہتر عجزِ بیاں کی مثال ملنا مشکل ہے۔وہ کہتے ہیں:


ثنائے خواجہ میں اے ذہن! کوئی مضموں سوچ

جناب! وادیٔ حیرت میں گم ہوں، کیا سوچوں!

زبان! مرحلۂ مدح پیش ہے، کچھ بول

مجالِ حرف زدن ہی نہیں ہے کیا بولوں؟

قلم! بیاضِ عقیدت میں کوئی مصرع لکھ

بجا کہا، سر تسلیم خم ہے کیا لکھوں؟

شعور! ان کے مقامِ پیمبری کو سمجھ

میں قید حد میں ہوں وہ بے کراں میں کیا سمجھوں؟

خرد! بقدرِ رسائی تو ان کے علم کو جان

میں نا رسائی کا نقطہ ہوں ان کو کیا جانوں؟

خیال! گنبدِ خضریٰ کی سمت اُڑ پر کھول

یہ میں ہوں اور یہ مرے بال و پر ہیں، کیا کھولوں؟

طلب مدینے چلیں نیکیوں کے دفتر باندھ

یہاں یہ رختِ سفر ہی نہیں ہے کیا باندھوں؟

نگاہ دیکھ ! کہ ہے روبرو دیارِ جمال

ہے ذرہ ذرہ یہاں آفتاب، کیا دیکھوں؟

دل! ان سے حرفِ دعا، شیوۂ تمنا مانگ

بِلا سوال وہ دامن بھریں تو کیا مانگوں؟

حضورؐ! عجزِ بیاں کو بیاں سمجھ لیجے

تہی ہے دامنِ فن، آستاں پہ کیا لاؤں؟

(ڈاکٹرعاصی کرنالی)

عجز ِ بیاں کی شعری بنت میں ہر شاعر کے ہاں ایک ہی خیال الفاظ کا جامہ پہن کر نمودار ہوتا ہے یعنی ’’میں اس قابل نہیں ہوں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کہہ سکوں‘‘۔

درجِ بالا اشعار میں چونکہ ایک ہی خیال کی تکرار ہے اس لیے یاس یگانہ چنگیزی جیسے مزاج کے ناقدینِ فن فوراً تاریخِ ادب کی ورق گردانی پر توجہ دیں گے اور پھر متقدمین کی شعری نظیریں ملاحظہ فرما کر متاخرین پر سرقے کا الزام لگا دیں گے۔ لیکن آج کے شعری ذوق اور تنقیدی رجحان سے آگاہ اہلِ نظر اس شعری سرمائے کو متنی ہم رشتگی یا بین متنیت (intertextuality)کے تناظر میں دیکھیں گے۔

اظہارِ عجز کے اتنے مظاہر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی لاشعور تقریباً ہر شاعر کو نعتیہ ادب تخلیق کرنے کے مرحلے پر متنبہ کرتا ہے کہ ’’نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے‘‘…اور جو لوگ اس روایت سے انحراف کرتے ہیں وہ ادبی روایت سے عدم آگاہی کا ثبوت دیتے ہیں۔ان کا یہ رویہ خود ان کے لیے باعث ِخسران اور نعتیہ ادب کی تخلیق کے لیے انتہائی غیر مناسب ہے۔