نعت کی نو دریافت دُنیا ۔ زاہد ہمایوں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: زاہد ہمایوں

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

نعت کی نو دریافت دنیا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Devotional poetry i.e. NAAT has now been recognized as literary genre on the basis of written treasure that has invited attention of modern poets and critics simultaneously. It contains Zeitgeist in its narrative in various forms of poetic genres in vogue in Urdu. Modern sensibility has also been reflected in most of the couplets of naatia poetry. This article cites some examples of classical and modern poets' poetic works to paint contemporary literary scenario.


نعت کا موضوع تو رسولؐ کی ذات ہے لیکن اس کی جہتیں ہر عہد میں نو دریافت دنیائوں کی طرح افقِ نعت پر روشن رہی ہیں ۔"ولی دکنی "سے لے کر عصرِ حاضر تک شعر اور غزل کے لہجے میں جو تبدیلیاں آئیں ، اسالیب میں جو نکھار پیدا ہوا اور موضوعات میں جو وسعت آئی ، اس سے نعتیہ لب و لہجہ بھی بدلا ۔ نعت کی دنیا بظاہر سادہ نظر آتی ہے مگر اس کی حدود حیران کن حد تک وسیع ہیں ۔جب نبوتِ محمدیہؐ کا اعلان ہوا تو مشرکینِ مکہ نے حضورؐ کی ذاتِ با برکات کے خلاف طرح طرح سے منصوبہ بندیاں کیں ۔جنگ میں کفار کے ہم نوا شاعر بھی برابر شریک تھے۔ حضورؐ کے صحابہؓ نے معاندانہ شاعری کے جواب میں نعتِ رسولؐ کا آغاز کیا ۔لسانی جہاد میں شامل شعرا نے اوصافِ پیغمبرؐ کے بیان کو اپنا شعری اسلوب بنایا:

نہ کوئی اس کا مشابہ ہے نہ ہم سر نہ نظیر

نہ کوئی اس کا مماثل نہ مقابل نہ بدل

اوجِ رفعت کا قمر نخلِ دو عالم کا ثمر

بحرِ وحدت کا گہر چشمۂ کثرت کا کنول (محسنؔ کاکوروی )


وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا(حالیؔ)


مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع ِ بزمِ ہدایت پہ لا کھوں سلام

جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا

اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام( احمد رضا خان )


لسانی جہا د کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں نعت ہر دور میں ہر بڑے شاعر کے لیے ایک الگ تشخص اور تفاخر کا باعث بنی رہی :


’’نعتیہ شاعری میں شعرا نے ہر صنفِ سخن کو مدحتِ آقاؐ کے لیے برتا ۔سی حرفی کو مختار صدیقی نے اردو میںمتعارف کروایا اور اس صنف میں نعت حفیظ تائب نے لکھی۔ ثلاثی کے موجد حمایت علی شاعر ٹھہرے اور سہ مصرعی نعتیہ نظمیں حنیف اسعدی نے لکھیں۔ یک مصرعی نظم سید ابوالخیر کشفی کی جدت پسند طبیعت کی اختراع قرار پائی اور انہوں نے اس کی ابتداء نعتیہ مضامین ہی سے کی۔ جمیل عظیم آبادی نے نعتیہ دوہے لکھے۔نثری نظم میں نعتیہ شاعری کرنے والوں میں احمد ہمیش اور ابواخیر کشفی کے نام نمایاں ہیں۔،نعتیہ ہائیکو لکھنے والوں میں اکرم کلیم، محمد اقبال نجمی، مظفر وارثی، سرشار صدیقی، صبیح رحمانی،وضاحت نسیم، سہیل غازی پوری، طاہر سلطانی، احمد صغیر صدیقی، سید معراج جامی، آفتاب مضطر، شفیق الدین شارق، سید ابوالخیر کشفی،سلیم کوثر،محسن بھوپالی، شبنم رومانی، اقبال حیدر، رضی الدین رضی،مقبول نقش، انجم اعظمی ، اختر شمار، معراج حسن عامر اور رونق حیات وغیرہم کے اسما شامل ہیں۔ـ‘‘ (۱)


۱۸۵۷ء سے پہلے نعتیہ سرمائے میں میلاد نامے ،معراج نامے اور وفات نامے ملتے ہیں ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد کی نعتوں میں حضورؐ کی پیغمبرانہ شان کے ساتھ ساتھ انسانِ کامل کے طور پر بشری خصوصیات اور معاشرت و تمدن میں آپؐ کے انقلاب آفریں اقدامات و اصلاحات وغیرہ کا فروغ ملتا ہے ۔

اگر غزل اردو شاعری کی آبرو ہے تو نعت اردو شاعری کا تفاخر ہے ۔نعت میںروحِ عصر Zeitgeist)) اسی طرح جاری و ساری ہے جس طرح کسی زندہ ادب میں ہونی چاہیے۔

در پیش مسائل سے خاتمے کے لیے جب نعت میں فریاد اور استغاثہ و استمداد کے پہلو شامل ہوئے تو نعت کی دنیا ناقابلِ بیان وسعت سے ہم کنار ہوئی :

اے خاصۂ خاصان ِ رسل ؐ  ! وقتِ دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے

پر دیس میں وہ آج غریب الغربا ہے (حالیؔ)


حالیؔ نے جس نعت کو قومی و ملّی امور سے جوڑنے کی طرح ڈالی اس نے اردو نعت نگاری کو موضوعات کے اعتبار سے دنیا کی تمام زبانوں سے بلند تر سطح تک پہنچا دیا ہے ۔ بقولِ گوہر ملسیانی :


"نعتیہ کلام کے مجموعے صوری اور معنوی رعنائیاں لیے ہوئے ہیں ۔شاعری کی سلطنت کو وسیع کر رہے ہیں ۔پھر نعت صرف روایت کے تابع نہیں رہی ، بلکہ ایک فن کے طور پر سامنے آئی ہے کیوںکہ نعت اب ثواب کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اس میں عصرِ حاضر کے تقاضے کے مطابق نئے نئے مضامین شامل ہوئے ہیں۔" (۲)


نعت کی نو دریافت دنیا میں موضوعات اور اسالیب کا تنوّع قابل دیدنی ہے ۔انقلابِ روس،انقلابِ فرانس ،جمہوریت کی تحریک،امریکا کی آزادی کی تحریک، ڈیکارٹ کا اعلان(I am thinking therefore I am) جو جدیدیت Modernism)) کے بطن سے پھوٹا ۔آزادی ، خود مختاری اور روشن خیالی کی یہ دنیا بھی انسان کو دلی سکون اور اطمینان نہ عطا کر سکی :

حضور ؐ دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی (اقبال ؔ)


جد یدیت کی آڑ میں انسان نے روشن خیالی کا سفر طے کیا مگر وہ اپنی منزل پھر بھی نہ پا سکا :

منزلیں گم ہو گئیں

راستے کھو گئے

راہِ سیرت سے ہم ایسے بھٹکے شہا

خود کو پہچاننا

کارِ دشوار ہے زندگی

ریت کی جیسے دیوار ہے

آپ ؐ کا در ہمیں

پھر سے درکار ہے۔ (۳)


گویا کہ ہمارے اس گم شدہ سفر میں راہِ سیرت کو پانے کی تڑپ اور بڑھ گئی ۔نائن الیون اورسقوطِ ڈھاکہ جیسے واقعات نے ایک نئی بے بسی ،افسردگی ، بے چارگی اور بے چینی کو جنم دیا ۔ہماری ساری روشن خیالی اندھیروں اور کھوکھلے دعوئوں کی نذر ہو گئی ۔اس صورت ِحال نے ایک نئی کروٹ لی ۔چارلس ڈارون ،کارل مارکس اور فرائیڈ کے مہا بیانیوں کو چیلنج کیا گیا ۔رولاں بارتھ ،ژاک دریدا ،مثل فوکو ،لیو تار اور جولیا کرستیوا نے پسِ ساختیات تکثیریت اور بین المتنیت جیسی اصطلاحات وضع کیں ۔اب نعتیہ ادب کی نو دریافت دنیا کا انسان، مذہب،روحانیت اور روایات کا احیاء کرنے لگا :

انسانیت کا اوج ہے معراجِ مصطفی

یہ روشنی کی سمت سفر روشنی کا ہے (صبیح رحمانی)

محسوس ہو رہا ہے کہ دل کا معاملہ

دربا رِ مصطفیؐ سے خدا تک پہنچ گیا ( جمیل یوسف )


نعت نے عہد بہ عہد فکری توانائیوں کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ :


" اردو کا دامن نعتیہ شاعری کے اتنے بڑے ذخیرے سے بھرا ہوا ہے کہ وہ دنیا کی کسی بھی بڑی زبان کے سامنے اس دعوے کے ساتھ سینہ تان کے کھڑی ہو سکتی ہے ۔ اردو شاعری کا منفرد اعزاز ہے کہ ہر شاعر نے نعت ضرور کہی ہے ۔" (۴)


یہ نعت کا اعجاز ہے کہ ایک ہی موضوع پر مختلف مضامین کو اسلوب کی نیرنگی کے ساتھ ادا کیا گیا ۔ اس سے ایک طرف جہاں تخلیق کار کا مخصوص شخصی ادراک برقرار رہا وہاں دوسری طرف اُن کا یہ منفرد اسلوب پڑھنے اور سننے والوں کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکا :

بنے ہیں مدحتِ سلطان ِ دو جہاں ؐ کے لیے

سخن زبان کے لیے او ر زباں دہاں کے لیے (حالی)

نہ ہوا معجزہ ٔ حق کا ظہو ر آ پ کے بعد

چپ ہے جبریل تو خاموش ہے طور آپ کے بعد (فراؔز)

رسولِ مجتبیٰؐ کہیے محمد مصطفیؐ کہیے

خدا کے بعد بس وہ ہیں پھر اس کے بعد کیا کہیے (ماہر القادری)


پھر نعت کا ایک اپنا جہاں ہے ایک ایسا جہاں جو خدائے کریم کی خصوصی عنایات کاثمر ہے ۔اس جہاں کا بشر بحرِ بیکراں کی طرح ہے :

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں( اقبال ؔ )


نعت کی دنیا غزل کی دنیا سے وسیع ہے کیوں کہ نعت اور غزل کے محبوب میں زمین آسمان کا فرق ہے :


"نعت کا محبوب قرآن و احادیث اور دیگر صحائف ِ آسمانی کے آئینے میں نظر آتا ہے ۔ اس محبوب کو مجاز در مجاز کی صورت میں دیکھنا خداوندِ کریم کے غضب کو دعوت دینا ہے کیوں کہ یہاں قدم قدم پر توہین کا اندیشہ رہتا ہے ۔نعت کے محبوب کی مثال کہاں ،وہ تو خود اپنی مثال آپ ہیں جسے خدانے اپنا محبوب بنایا اور اسے محبوبیتِ کبریٰ کے منصب پر فائز کیا اور اسی کی محبوبیت کو میزان قرار دیا ۔ یعنی جو محبوب کو محبوب ہوا وہی رب کا محبوب ،جس کی ہر ایک ادا کو قرآن کی صورت میںمحفوظ کر دیا۔ غزل کا محبوب ہما شما کا محبوب، مادیت کے خمیر سے ابھرا ہوا پیکر ،نفسانیات،خواہشات اور تکلفات کے جھولے میں جھولنے والا ،خاک کو افلاک سے کیا نسبت ، ہمیں ہر اس خیال سے بچنا ہے جو خدا کے محبوب کے شایانِ شان نہ ہو۔" (۵)


یہی وجہ ہے کہ نعت کی دنیا میں موجود نئے نئے استعارے ،اچھوتی تشبیہات و تلمیحات جدید شعری آہنگ کو جنم دیتی ہیں :

رُخِ مصطفی ؐ ہے وہ آئینہ کہ اب دوسرا آئینہ

نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکا نِ آئینہ ساز میں (عارف عبد المتین )

کوئی مثل مصطفی ؐ کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا

کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا (صبیح رحمانی)

میں نے ہر دور کی تا ریخ میں جھانکا فخری

کوئی انسان محمد ؐ سا مثالی نہ ہوا (زاہدؔفخری)


یہ حضورؐ کی شخصیت کا معجزہ ہے کہ شعرا نے نعتیہ ادب میں تازہ اسلوب اور فکری اجتہاد کی قابلِ قدر مثالیں پیش کیں ۔مثلاً علیم صبا نویدی نے اردونعتیہ ادب کو پہلا سانیٹ کا مجموعہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نعتیہ دنیا میں روایت سے گریز کے قائل ہیں اور نعت کو محض حصولِ ثوا ب کے لیے نہیں بلکہ ادبی صنف کی حیثیت سے لکھتے ہیں :

ظلمتوں کی دھرتی پر رحمتوں کا ڈیرا ہے

عطر بیز جلوے ہیں کہکشانی راہوں میں

نور کی شفق پھوٹی آسمانی بانہوں میں

منظروں کے ہونٹوں نے مسکراہٹیں پائیں

بے زبان لمحوں نے گنگناہٹیں پائیں


اسی طرح عاصی کرنالیؔ لفظوں کے معنیاتی پرت کھولتے ہیں:

جب دشنہ دشنہ دشنہ مژگانِ تیز تھا

جب شعلہ شعلہ شعلہ برقِ ستیز تھا

جب خیمہ خیمہ خیمہ مرگ و فساد تھا

جب قریہ قریہ قریہ کفر و عناد تھا

جب فتنہ فتنہ فتنہ شداد وقت تھا

جب نالہ نالہ نالہء بیدادِ وقت تھا

اب پردہ پرد ہ پردہ سازِ جمال ہے

اب بادہ بادہ بادہ عرفانِ حال ہے


نعتیہ دنیائے ادب میں موضوع کی تقدیس کے خدو خال اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ توانا رجحانات کا فروغ اور صحت مند روایات کی ترویج اور نو دریافت دنیاکی جدت و ندرت کے نشانات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔


ڈاکٹر حافظ محمد صفوان چوہان کے والدِ گرامی پروفیسر عابد صدیق اپنے مجموعہ" پانی میں ماہتاب " میں نعتیں معرّا اور پابند نظمیں پیش کرتے ہیں :


’’انہوں نے حمد ہی میں نعت کے جو قرینے ڈھونڈے ہیں وہ بلاشبہ نعتیہ دنیائے ادب میں اپنے افکار کی ندرت کے آئینے میں یکہ و تنہا ،قابل ِ تحسین و مستحقِ داد ہیں ۔ ان کا لہجہ، اسلوبِ حمد میں نعت کی بے مثل گریز بن کر سامنے آتا ہے :

راستہ تیرا ہمیشہ کے لیے

شرک و توحید کے مابین لکیر

تیرے اصحاب ؓستاروں کی طرح

ہیں ہدایت کے مدار اور مدیر۔ ‘‘ (۶)

مسلمان چھٹی صدی عیسوی میں اپنے انقلاب آفریں عقائد کے ساتھ عرب کی سر زمین سے نکلے اور بہت جلد دنیا کے گوشے گوشے میں آباد ہو گئے ۔توحید و رسالت پر عقیدہ نے انہیں تمدنی لحاظ سے دوسروں سے ممتاز رکھا اور آج بھی جب دنیا سیکولررجحانات کی طرف سرگرداں ہے وہاں نعتیہ ادب کی دنیا اسلامی روایت اور ایمانی ورثے کو پختہ بنائے ہوئے ہے ۔فرد کے ذاتی احساس سے لے کر اجتماعی یا تہذیبی رویے تک مذہبی جذبے کا اظہار نو بہ نو پرتوں میں جلوہ گر ملتا ہے:


"اس حقیقت کے پیشِ نظر اگر یہ کہا جائے کہ شعر و سخن میں مذہبی رجحان کا جس طور سے اظہار ہوتا ہے فنونِ لطیفہ یا ادب کے کسی دوسرے شعبے میں ایسی کوئی اور مثال باید و شاید تو یہ کو ئی دعویٰ نہیں ۔" (۷)


اردو نعت روایت سے جدیدیت اور ما بعد جدیدیت تک معروضات،موضوعات،معنیات اور اسالیب کی ایک وسیع دنیا پیش کرتی ہے۔ایک ایسی دنیا جو کبھی وادیٔ طائف میں دھکیل دیتی ہے :

؎ جو لگتا ہے کوئی کنکر بدن پر دین کی خاطر

تو دل کو وادیٔ طائف کے پتھر یاد آتے ہیں ( ازہر درانی )


اور کبھی ایسی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جہاں سے روشنی کا ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے :

دیارِ جاں میں

سنہرے موسم اتر رہے ہیں

میں زرد لمحوں

سیاہ سایوں سے اپنا پیچھا

چھڑا چکا ہوں

پناہ میں ان کی

آ چکا ہوں

میں روشنی میں

نہا رہا ہوں ( صبیح رحمانی )

حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ عزیز احسن ، ڈاکٹر : " پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر "نعت ریسرچ سنٹر ،کراچی ، ۲۰۱۴ء ،ص نمبر ۲۱۲

۲۔ گوہر ملسیانی، " عصرِ حاضر کے نعت گو " بیت الحکمت ، لاہور ،۲۰۱۳ء ، ص نمبر ۹۳

۳۔ صبیح رحمانی ،" سرکار V کے قدموں میں ـ"نعت ریسرچ سنٹر ،کراچی ، ۲۰۱۲ ء ص نمبر ۱۱۹

۴۔ راشد حمید ، ڈاکٹر  : " نعت گوئی کی روایت کا ارتقاء " مشمولہ "تخلیقی ادب " شمارہ سات ،نیشنل یونیورسٹی ،اسلام آباد ، جون ۲۰۱۰ء ، ص نمبر ۵۵۸

۵۔ حلیم حاذق: " اصولِ نعت گوئی "نعت ریسرچ سنٹر ، کراچی ، ۲۰۱۶ء ص نمبر ۵۸

۶۔ حزیں کاشمیری : عابد صدیق کی شاعری کے ملّی ، مذہبی اور ثقافتی رنگ " مشمولہ سہ ماہی "پیغام آشنا"شمارہ ۴۹ اپریل تا جون ، ثقافتی قونصلیٹ اسلامی جمہوریہ ایران ،۲۰۱۲ء ص نمبر ۱۸۹

۷۔ مبین مرزا: "نعت اور اردو کی شعری دنیا "مشمولہ "اردو نعت کی شعری روایت " مرتبہ : صبیح رحمانی ، اکادمی بازیافت پاکستان ،جون ۲۰۱۶ء ص نمبر ۴۳۰

٭٭٭