"گلستان نعت ۔ گل بخشالوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: {{بسم اللہ }} زمرہ: مجموعہ نعت شاعر: گل بخشالوی سرور انبالوی گلستانِ نعت کے بارے لکھتے ہیں...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4: سطر 4:
شاعر: [[ گل بخشالوی ]]
شاعر: [[ گل بخشالوی ]]


[[سرور انبالوی]] گلستانِ نعت کے بارے لکھتے ہیں
* [[محبتوں کا شاعر، گل بخشالوی ۔ سرور انبالوی ]]


"گلستانِ نعت‘‘اسی قسم کے خوبصورت گلہائے رنگارنگ کا حسین و جمیل مرقع ہے جس کی معطر و مطہر خوشبو اہل دل اور ادبی حلقوں کو تا دیر مسحور کرتی رہے گی۔ مری دعا ہے کہ ان کے اس نعتیہ مجموعہ کو ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہو اور بارگاہِ نبویﷺ میں شرفِ قبولیت کا حامل ہو ۔"
=== گلستانِ نعت اور مَیں ===


بقول حضرت سعدیؒ خدائے بزرگ و برتر کا ہزار احسان !جس کی اطاعت سے اس کے قرب کی نشانی اور جس کے شکر بجا لانے میں نعتوں کی فراوانی ہے ہرسانس جو اندر جاتا ہے زندگی بخش اور جب باہر آتا ہے تو فرحت بخش، پس ہر سانس میں دو نعمتیں ہیں اور ہر نعمت کے لیے اس کا شکر واجب ہے۔ رب ذوالجلال کی بے حساب رحمتوں کی بارش سب پر برس رہی ہے وہ نہ کبیرہ گناہ پہ گنہگاروں کی عزت کا پردہ چاک کرتا ہے اور نہ سرکشی پر سرکشوں کی روزی کم کرتا ہے۔ زندگی رب ذوالجلال کی دی ہوئی ایک بیش بہا و دلربا نعمت ہے اس نعمت سے سرفرازی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت اور نور سے سنوار کر حضرت انساں کی راہنمائی کے لیے اپنے محبوب محمدﷺ کا انتخاب کیا۔ آپﷺ جہانِ فانی میں تشریف لائے اور عطائے نبوت سے قبل اپنی عملی اور دنیاوی زندگی کے چالیس سال میں اپنے عمل و کردار اور حسنِ اخلاق سے خدا کے بابت ہر صاحب شعور کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور جب اُس وقت کے جاہل اور مشرک بھی کہنے لگے کہ آپﷺ صادق اور امین ہیں تو آپﷺ نے عالم انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا پیغام عام کر دیا اور شعورِ انساں میں یہ پیغام مہکنے لگا کہ اللہ ایک ہے وہی رازق و خالق ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ اُس کے آخری رسول ہیں۔


Search
یوں بھٹکی ہوئی دنیا کے شعورو فکر میں ایک انقلاب آ گیا۔ آپﷺ دنیا میں مختصر قیام کے لیے تشریف لائے اور اپنے حسن اخلاق اور کردار و عمل سے فانی دنیا میں انسان کو زندگی کے حسن سے مالا مال کر دیا۔ آج فرزندانِ توحید ایک خدا کی عبادت اور تعریف کے ساتھ ساتھ رسولِ خدا کے گیت گا رہے ہیں۔ نعت گوئی اسلامی تہذیب کی پہچان ہے شاعری فکر و شعور میں رب العزت کی عطاء کردہ ایک صلاحیت ہے یہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر اچھا نعت گوبھی ہو جس خوش بخت کو یہ اعزاز حاصل ہے وہ مذہبی دنیا میں ممتاز ہے۔ اُساتذہ کہتے ہیں کہ ایک اچھا غزل گو شاعر اگر اپنی شاعری کا رُخ نعت پر مرکوز کر دے تو وہ ایک بہترین نعت گو ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ غزل کا مرکز حسن ہے اگر یہ سچ ہے تو سرورِکائنات سے زیادہ خوبصورت کردار کا مالک کون ہو سکتا ہے ؟عشقِ انسان کی دنیا ہے اور رسول خدا سے عشق ابدی زندگی کا لافانی حسن ہے۔ ہر غزل گو شاعر جسے شاعری کی پاکیزگی کا احساس ہے اگر وہ شاعری کے رموز اپنے شعور و فکر واحساس میں بخوبی جان لے اور وہ کسی صاحب فن کی دہلیز سے واقف ہو تو اُس کی شاعری کا گلشن مہک سکتا ہے کیونکہ گلشن کی زینت مالی کی محتاج ہے اس لیے کہ وہی گلشن میں کیاریوں کی ردیف اور پودوں کا ردم جانتا ہے۔ اس لیے کہ شاعری ذہن کا نکھار مطالعہ اور شاگردی کی محتاج ہے شعری رموز، تلفظ، اوزان، ردم اُساتذہ ہی کی فکر و نظر سے نکھرتے ہیں اُساتذہ کی فکر و نظر کے بغیر شاعری کا حسن کسی مہ جبین کے رم جھم موسم میں بھیگے، بکھرے گیسوؤں کی طرح ہے۔ شعر کا ہر مصرع صاحب علم و فن کی نظر سے گزرنے کے بعد ہی کسی مہ جبین کے لال گلابی ہونٹوں کی طرح دلکش اور دل آویز ہوتا ہے۔
Logo
سرورق
ہمارے متعلق
تعاون
دین و مذہب
شعری ادب
نثری ادب
ادب اطفال
جریدے
مکمل فہرست کتب
پی ڈی ایف ڈاونلوڈ
آپ کی پسندیدہ کتابیں
آپ کے تاثرات


گلستانِ نعت ۔۔ گلؔ بخشالوی
نعت گوئی کے لیے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ لازمی ہے اس لیے کہ جب تک شاعر کے شعور میں محمدﷺ کی زندگی میں اُن کے کردار و عمل کا عکس نہ ہو گا تب تک وہ اپنی بصیرت کی نگاہ سے صورت مصطفیٰﷺ نہ دیکھے گا وہ شانِ مصطفیٰﷺ سے کیسے بہرہ ور ہو گا ؟وہی شاعر ایک اچھا نعت گو ہو سکتا ہے جسے نبیﷺ سے عشق کے ساتھ ساتھ نبیﷺ کی ذات با برکات اور آپﷺ کی زندگی کے ہر پہلو سے آشنائی ہو جب شاعر اُسوۂ حسنہ کو اپنانے اور آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی دلی اقرار کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی دنیا کو حب مصطفیٰﷺ کا محور بنا لے تو اُس کی تقدیر کا ستارہ فلک شاعری پر جگمگاسکتا ہے لیکن شرط یہ بھی ہے کہ سرکارﷺ کی محبت اور عقیدت کا اظہار اُس کے ذاتی عمل و کردار میں بھی ہو دین میں ہر مسلمان کی حضورﷺ سے محبت اُس کی عظمت ہے لیکن محبت میں خدا اور رسول خدا یعنی معبود اور محبوب کے مقام کا خیال رکھا جائے عشقِ نبیﷺ میں حدودِ عشق سے تجاوز شرک ہے اور شاعر کو اظہار فکر میں اس امر کا خیال رکھنا چاہیے۔ عشق کی دیوانگی میں اظہار عشق کے دوران مقام اشرف المخلوقات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اپنے آپ کو الفاظ کی لہر میں اس قدر نیچے نہ لایا جائے کہ عظمت انسان کی توہین ہو مسلم ذات کوئی معمولی ذات نہیں اگر اللہ تعالیٰ اس انسان کوا یک سجدہ نہ کرنے کے جرم میں ایک مقرب فرشتے کو شیطان قرار دے کر دھتکار سکتا ہے تو یہ عظمت انسان کی ایک واضح پہچان ہے۔ اس لیے اسے عشق اور اظہار عشق میں اپنے اور مقامِ محبوبﷺ کا خیال رکھنا لازم ہے۔ دورانِ تخلیق دامن احتیاط کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ کچھ شعراء اپنے آپ کو محبوب خدا سے عشق میں کم ترین درجے پر لا کر سگ درمصطفیٰﷺ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ میری نظر میں یہ انسان کی توہین ہے نبیﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جس گھر میں کُتا بھونکتا ہے وہاں فرشتوں کی آمد نہیں ہوتی۔ اگر حضورﷺ کو اس جانور سے نفرت ہے تو انسان خود کو اس مقام پر کیوں لے آتا ہے ؟عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے نعت گوئی سیرت مصطفیٰﷺ سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے
0 Comments
Favoriteپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں


گل شاہِ بحر و برکا اک ادنیٰ غلام ہے


اس سے بڑے کرم کا تصور حرام ہے


جس دلے کے آئینے میں محمدﷺ کا نام ہے


فہرست مضامین [show]
دوزخ کی آگ اُس پہ یقیناً حرام ہے
گلستانِ نعت


ضرورت اس امر کی ہے کہ نعت گو، اپنے کلام اور اظہار فکر و شعور میں نبیﷺ کی باطنی زندگی، حسن و جمال، سیرت و کردار اور اسوۂ حسنہ پر خاص توجہ دے تاکہ اگر وہ ایماندار جوراستے سے بھٹک گیا ہے اپنی اصلاح کر سکے اگر کسی بے ایمان کو نعت نبیﷺ پڑھنے کا اتفاق ہو تو اُس کے دل میں سرورِکائنات کی عظمت وقار مصطفیٰﷺ کی شمع روشن ہو اور تعریف مصطفیٰﷺ پر مجبور ہو اس طرح شاعر اپنے اظہار فکر اور عشق مصطفیٰﷺ میں دنیائے عالم میں اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دے سکتا ہے میرا مطلب ہے کہ نعت نبیﷺ میں حضور کی سیرت و کردار کو اُجاگر کر کے ہم نعت کو تبلیغ کا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔ مانگنا تو ہماری فطرت ہے لیکن یہ دیکھا جائے کہ دینے والا کون ہے دینے والے کی رحمت و کرم کا اندازہ بھی ہونا چاہیے اگر ہمارے کردار و عمل اور اپنے عشق کے طفیل زندگی کی رعنائیاں نصیب ہیں تو کیوں نہ ہم دینے والے اور دینے والے کے حبیب کے گن گائیں ہم معبود کے محبوب کے گیت گائیں گے تو معبود کرم کی بارش میں دیر نہیں کرے گا۔ جہاں تک شاعری، خاص کر نعت نگاری میں میری ذات کا تعلق ہے تو میری مثال اُس گڈرئیے کی ہے جو عشق خدا میں مدہوش کہے جا رہا تھا اے اللہ!تیری کوئی بیٹی، بیٹا اور بیوی نہیں تو اکیلا خدا ہے کون تیرے بال سنوارے گا؟آ جا میں تیرے بال سنواروں، تیرے بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کروں، حضرت موسٰیؑ نے گڈرئیے کی ان باتوں پر ناگواری کا اظہار کیا تو اللہ نے فرمایا ’’موسیٰؑ !گڈرئیے کے لفظوں پر نہ جا بلکہ اس کے دل میں اُتر کر عشقِ خدا کی بلندی دیکھ۔


اللہ تعالیٰ کو میرے سجدۂ جبیں کی نہیں سجدۂ دل کی ضرورت ہے وہ دلوں کے راز جانتا ہے اس لیے میں بھی اسی اُمید پر اپنے عشق کا احترام کر رہا ہوں۔ شاید میری بھی کوئی ادا میری خوش بختی کا سبب بن جائے۔ میری مادری زبان پشتو ہے یوں صاحب زبان نہیں کم علم بھی ہوں اس لیے کا، کے، کی کی کھینچ تان میں بعض اوقات لفظوں اور مصرعوں کا توازن کھو بیٹھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ میں اپنی تحریر اور شاعری اپنے سے کم عمر لیکن صاحب فن کو بھی دکھانے میں اپنی توہین نہیں سمجھتا۔ شاعری عمر کی نہیں فن کی محتاج ہے۔ پاکستان میں علامہ انیس لکھنوی صاحب، سرورانبالوی صاحب اور سلطان سکون صاحب میری شاعری دیکھ لیا کرتے تھے۔ امریکہ میں محترم صلاح الدین ناصر بھائی سے رابطہ ہوا آپ نے نعت گوئی میں مشورے دئیے اور اب بابائے اُردو پروفیسر مامون ایمن سے باقاعدہ اصلاح لیتا رہا ہوں۔ حضرت سعدیؒ کا قول ہے جو بات تم نہیں جانتے، پوچھ لو، پوچھنے کی یہ ذلت علم و عزت کے لیے تمہاری رہنمائی کرے گی میں نعت گوئی کی معراج کے پہلے زینے پر ہوں میرے شعور میں نام مصطفیٰﷺ اور عشق مصطفیٰﷺ مہک رہا ہے میں اپنے شعور کی تسکین کے لیے فکر کی بہار شاعری کے جھولے میں رب ذوالجلال سے عرض گزار ہوں۔


                گل بخشالوی
یارب مری حیات کا جب ہو چراغ گلؔ


بخشالوی، حرم میں کھڑا ہو اُٹھا کے ہاتھ


سرورِکائنات، فخرِ موجودات، رحمت انسانیت، انتخاب آدمیت، شافع روز جزا، قابل اطاعت رسول خدا، خوب رو، خوش خصال، حضرت محمدﷺ کے حضور نذرانہ’گلستانِ نعتﷺ ‘‘لے کر اہل علم و ہنر اور صاحب بصیرت و بصارت عاشقانِ مصطفیٰﷺ کے حضور حاضر ہوں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے صدقے میری اس کوشش کو جزائے خیر سے سرفراز کر دے۔ بے شک سب تعریفیں سب جہانوں کے مالک ہی کے لیے مخصوص ہیں رسول خدا اور آلِ رسول اللہ پر ہزاروں سلام ہوں


محبتوں کا شاعر گل بخشالوی
کیوں دوسروں کے نغمے، میں ساز پر سناؤں


                سرور انبالوی
محبوبﷺ کبریا کے، میں گیت کیوں نہ گاؤں


جس طرح ’’حمد ‘‘کا لفظ اللہ تعالیٰ کی ثناء کے لیے وقف ہو گیا ہے اُسی طرح ’’نعت ‘‘کا لفظ حضرت محمدﷺ کی تعریف اور مدح سرائی کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔ نعت گوئی حضور نبیﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی شروع ہو گئی تھی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور ابد الاباد تک جاری وساری رہے گا اور کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ خود کلامِ مجید میں فرماتا ہے ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ یعنی اے محمدﷺ ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا ہے آج تک ہزاروں نعتیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لکھی گئی ہوں گی جن کا شمار مشکل ہے۔ نعت کہنا ہر مسلمان شاعر اپنے لیے باعث فخر اور وسیلہ نجات سمجھتا ہے۔
احقرالعباد سبحان الدین گل بخشالوی


نعت گوئی میں مسلمان شعرا ہی نہیں بلکہ غیر مسلم خاص کر ہندو شعراء بھی شامل ہیں جن میں سرکشن پرشاد، امر چند قیس، دلو رام کوثری، جوش ملسیانی، عرش ملیسانی، ہری چند اختر، جگن نا تھ آزاد اور پنڈت تلوک چند کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ نعت ہر زبان میں کہی جا سکتی ہے جن میں عربی، فارسی، ہندی، اُردو، گجراتی، انگریزی اور دنیا کی بہت سی دیگر زبانیں شامل ہیں۔ شیخ سعدی کا نعتیہ قطعہ دنیا بھر میں مشہور ہے فرماتے ہیں۔
٭٭٭


بلغ العلیٰ بکمالہ


کشف الدجے بجمالہ
=== شانِ رسالت ۔  پروفیسر مامون ایمن (نیویارک) ====


حسنت جمیع خصالہ
گلستانِ نعت میں تین اصناف سخن شامل ہیں۔ حمد، نعت اور منقبت۔ شاعر سبحان الدین گل المعروف گل بخشالوی نے ان تینوں اصناف کو عقیدت، توصیف اور اعتراف سے سجانے کی پر خلوص سعی زبان اور متون کی آئینہ دار ہے۔ اس آئینہ داری میں نسبتوں کی طرح داری ہے یہ طرح داری قرابت کی پیاسی بھی ہے اور خواہاں بھی۔ یوں کہیے کہ یہ طرح داری اس مجموعہ کا انسلا کی عنصر ہے اس عنصر کے اساسی الفاظ ہیں۔ عطاء کرم، سجدہ، فردوس، بخشش اُمتی۔ گلستانِ نعت کی زبان واضح اور صاف ہے اس میں اضافتی تراکیب شامل ہیں۔ مثلاً وقت نزع، سد باب، کلامِ محمدﷺ ، محبوب جاں، نگاہِ عشق، عالم مستی، عشق محمدﷺ ، شب معراج، عظمت تقدیر، شب حیات، شعاعِ مہہ، ان اضافتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جمالِ فطرت، نور کعبہ، باغِ جنت، ان سہ لفظی اضافتی تراکیب میں اعتراف کی جھلک ہے۔ رحمت نورِ مجسم، بارش ابرِ کرم، چمن، بارش اور گل کے پس منظر میں، ذرا خود سپردگی کا یہ منظر ملاحظہ کیجئے۔


صلوعلیہ وآلہ
آپ کر دیں چمن دل پہ کرم کی بارش


علامہ اقبال کے یہ اشعار کتنے وجد آور ہیں
شاہِ کونین یہ گل آپﷺ کا شیدائی ہے


وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
شاہِ کونین در حقیقت شاہ نہیں کہ وہ شاہ ہونے کے باوجود خود کو دنیا خالقِ مطلق کے سامنے سادگی اور انکساری کا ایک مثالی نمونہ بناتا ہے وہ سادگی اور انکساری سے پیام اسلام کی راہ استوار کرتا ہے۔ وہ حاکم ہونے کے باوجود خود کو ایک بشر جانتا اور مانتا ہے۔ وہ خاک ہونے کے باوجود پر نور سے برتر ہے اس کی ذات کو انسانیت میں اوّلیت کا درجہ حاصل ہے اس پیارے محمدﷺ کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ خالق و مخلوق، رب اور بندے اس پر درود وسلام بھیجتے ہیں۔ بے شک وہ ذات اقدس کسی شبہ، کسی جھجک کے بغیر ہر آن درودوسلام کی مستحق ہے۔ یہی اعتراف گل سے مزید کہلواتا ہے میں خوش قسمت ہوں کہ آپ کی اُمت میں سے ہوں میں آپﷺ کا اُمتی ہوں۔ اس اعتراف میں وہ اپنی ایک تمنا کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اے کاش!روز حشر مجھے آپﷺ کی شفاعت ملے۔


غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا!
گلستانِ نعتﷺ میں متون گنجلک نہیں وہ براہِ راست سامنے آتے ہیں اور اپنے وجود کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ وہ گل کی شخصیت کے پاس دار بھی ہیں اور ترجمان بھی مثلاً رب اُس کی ہر ضرورت ہے تو وہ اس سے کوئی چیز کیوں مانگے، نظرِ لطف کی خاطر وہ اپنا سرسجدہ میں رکھنے کا متمنی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بوقت نزع اس کے لب پر احمدﷺ کا نام ہو، وہ رب کی بندہ نوازی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بے حساب خطا کاری کا مرتکب ہونا چاہتا ہے۔ وہ اس توفیق کا خواہاں ہے جس سے وہ اپنی ہر سد باب کر سکے اس کا دل بذاتِ خود ایک کعبہ ہے جس میں وہ اپنے رب کا جلوہ دیکھتا ہے وہ ظلمت دہر سے اس لیے نہیں گھبراتا کہ اُس کے دل میں محمدﷺ کا دیا ہے۔ وہ مدینہ میں موت کا خواہاں ہے۔ اُس کی آنکھ نم ہوتی ہے تو وہ فردوس کا دیدار کر لیتا ہے وہ محمدﷺ کا حوالہ دے کر اپنے ضمیر کو ملت کی دوستی سے ہمکنار کرنے کا دعا گو ہے۔ وہ اللہ سے محبوب کا سایہ مانگتا ہے۔ اُس کے ذہن میں پیغام نبیﷺ سے توحید رب کی وضاحت ہوتی ہے اُس کے خون میں آب زم زم ہے وہ ایک مسافر بھی اور ایک گداگر بھی، حجرِاسود کے تصور سے اس کے دل میں گلشن ایمان مہکنے لگتا ہے۔ حرم میں عالم مستی کا سجدہ اس کا یقین شاداب کرتا ہے اس کے نزدیک شانِ نبوتﷺ یہ ہے کہ رسولﷺ کی سیرت اور صورت دلنشین ہیں اُسے معلوم ہے کہ رسولﷺ پاک نے رنگ و زباں کی سب فصیلیں توڑ کر دین کی باہوں کو قوت بخشی تھی۔ بہ حیثیت اُمتی وہ اپنی تقدیر کی عظمت سے واقف ہے وہ شاہ میں سادگی کا جمال دیکھتا ہے۔


نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر
مرے نبیﷺ کی حیات رحمت، اُسی کے دم سے ہیں شان و شوکت


وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طہ
وہ شاہِ ارض وسما تھے پھر بھی، جمیل اُن کی وہ سادگی ہے


روایت ہے کہ ایک دن حضورﷺ نے بھری مجلس میں صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا، مخالف شعراء کی ہرزہ سرائیاں حد سے بڑھتی جا رہی ہیں تم لوگوں نے تلوار سے تحریری مدد کی ہے کیا کوئی ایسا بھی ہے جو زبان سے میری مدد کرے ۔
اسی نعت کے اس شعر میں صفت مشیہ (نفیس، جمیل، بر وزن فصیل) اور تفضیل (اقدس، اطہر، بر وزن افعل)کا امتزاج ملاحظہ کیجئے اور متن کی سرشاری پرسردھنیے


’’اس موقع پر حضرت حسانؓ اُٹھے اور کہنے لگے یارسول اللہﷺ اس خدمت کے لیے یہ ناچیز حاضر ہے۔ حضورﷺ اُن کے جذبہ خلوص سے خوش ہوئے ان میں سے کچھ لوگ اپنے قبیلے قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور میرے قریبی عزیز ہیں مثلاًابوسفیان میرا عم زاد ہے ان کے خلاف بھلا تم کس انداز سے کہو گے حضرت حسانؓ بولے حضورﷺ میں آپﷺ کو ان کے بیچ میں سے یوں الگ کر لوں گا جیسے گُندھے ہوئے آٹے میں سے بال کھینچ کر نکال لیا جاتا ہے ‘‘
نفیس اُن کی حیات ہے گل جمیل اُن کا کلام اقدس


گل بخشالوی بڑے پر خلوص انسان، دوست نواز، علم پرور اور پاکستان کے مشہور و معروف شاعر ہیں، وہ حمد، نعت، منقبت اور غزل کے میدان میں کافی عرصہ سے اپنی جولانیاں دکھا رہے ہیں اور اب وہ بارگاہِ رسالتﷺ میں اپنا نعتیہ مجموعہ ’’گلستانِ نعت ‘‘لے کر حاضر ہوئے ہیں جن میں ایمان افروز نعتیہ کلام شامل ہے۔ انہیں حج کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے اور ساتھ ہی دل گداز بھی رکھتے ہیں یہی حضورﷺ سے والہانہ عقیدت و  محبت اور دل گداز کی نغمہ سرائیاں ان کی نعت کا سرمایہ افتخار ہیں اس تناظر میں کہ
وجودِ اطہر کا ہے نہ سایہ، یہی تو فطرت کی شاعری ہے


گل شاہِ بحر و بر کا اک ادنیٰٰ غلام ہے
اس شعر میں لفظ ’’شاعری‘ ‘کو مروّج معنی سے الگ کیجئے اور اسے ’’آگاہی‘‘سے منسوب کیجئے تو ’’فطرت کی شاعری‘‘ کا مطلب بھی واضح ہو جائے گا اور مفہوم بھی ہمارے رب نے رسول پاکﷺ کے درود مبارک سے ہمارے دل و دماغ کو حقیقت ذات سے آگاہ ہونے کا اہتمام کیا ہے۔ حقیقت ذات سے آگاہی ہمیں باور کراتی ہے کہ ہم اُس رب کی مخلوق ہیں جس کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ کوئی ثانی، اسلام دین حق ہے۔ محمدﷺ اس دین کی پیغام بر ہیں۔ بلاشبہ ہماری زندگی رضائے رب کی عطا ہے ہم بندے ہیں اور اُس کی جانب لوٹ جانے والے ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے رسولﷺ نے ہمیں حقیقت ذات سے آگاہ کرایا اس شعر میں گل نے لفظ ’’شاعری‘‘ کو ایک مجرد انداز سے پیش کیا ہے۔


اس سے بڑے کرم کا تصور حرام ہے
گلستانِ نعتﷺ میں بحروں کا تنوع نظر آتا ہے مثلاً محبتث، رمل، ہزج، مضارع اور مقارب وغیرہ ہم، اس ضمن میں یہ نمائندہ مطلع ملاحظہ کیجئے۔


جس دل کے آئینہ میں محمدﷺ کا نام ہے
مرا نبیﷺ ہے جہاں کی رونق، جہاں کی رونق مرا نبیﷺ ہے


دوزخ کی آگ اُس پہ یقیناً حرام ہے
یہ سبزگنبد، یہ نور کعبہ، یہ سب اُسی کی تو روشنی ہے


ہے نور کے وجود میں وحدانیت کا راز
صنف نعت کے عنوانات اور متون متعین ہیں بجا لیکن یہ صنف، عقیدت، جذب اور سپردگی کی ایک جھیل ہے جسے ہر موسم مزید گہرائی سے ہمکنار کرتا ہے۔ یہ سلسلہ تقریباً ساڑھے چودہ سوسال سے جاری وساری ہے ہر شاعر کے کلام میں متعین متون بدل کر نئے زاویوں اور رنگوں سے سجے نظر آ سکتے ہیں، نظر آتے ہیں۔ گاہے نئے زاویے اور رنگ عیاں ہیں اور گہے پنہاں گاہے وہ قاری کے سامنے ان متون میں وضاحت کے دفتر کھولتے ہیں اور گہے چونکا دینے والے انداز پر تحسین و داد کا تقاضا کرتے ہیں۔ گل کی کاوشات میں بھی یہ روش نظر آتی ہے مثلاً نزع کے وقت گل کے لب پہ احمدﷺ کا نام ہو اور حشر کے روز وہ اُن کو بیش تر دیکھے۔ گل رب العزت سے اس توفیق کا خواہاں ہے جو اسے اپنی ہر برائی روکنے کی استطاعت عطا کرے۔ یہ حمد کے متون ہیں نعت کے ضمن میں ملاحظہ کیجئے۔ مدینہ سے آنے والی خوشبو فضا میں کھیلتی ہے جو دنیا میں ہنسنے جینے کا حسن ہے۔ اے مصطفیٰﷺ !میری ایک ہی خواہش ہے کہ اس جہان سے میری رخصت حرم کے زینے سے ہو۔ اس سادہ سی خواہش کا تجزیہ کیجئے۔ شاعر اپنی سادگی کو بے پایاں خلوص کی مدد سے مدینہ اور مکہ یکجا کرنے کا متمنی ہے کہ اس کی موت۔ ان دونوں مقامات کی برکات سے معمور ہو۔


گفتارِ مصطفیٰﷺ بھی خدا کا کلام ہے
بس اب تو ایک ہی خواہش ہے مصطفیٰﷺ میری


جہاں سے ہو مری رخصت حرم کے زینے میں


جو لوگ عشق، محمدﷺ سے کم نہیں کرتے
بلاشبہ گل کا یہ اعلان صنف نعت سے نسبت کا مظہر ہے


غم حیات کا کوئی بھی غم نہیں کرتے
آپﷺ کی حکمت و دانش کا ہے یہ بھی اعجاز


مرے حضورﷺ کی تعریف جو نہیں لکھتے
میرے جذبات میں جو قوت گویائی ہے


وہ اپنی اُنگلیاں پھر کیوں قلم نہیں کرتے
گل صاحب!تحریر ’’گلستانِ نعتﷺ ‘‘کی سعادت پر مبارک باد قبول کیجئے۔


اُنہیں حیات میں سکھ چین کب میسر ہے


نبیﷺ کی یاد میں جو آنکھ نم نہیں کرتے
شانِ رسالتﷺ


نبیﷺ کے عشق و محبت میں ڈوب جائیں گل
الفاظ کو جذبوں میں سمویابے شک


دعا خدا سے کوئی اور ہم نہیں کرتے !!!
اخلاص سے دامن کو بھگویا بے شک


حضور وجہ تخلیق کائنات ہیں وہ ہمارے لیے سرمایہ حیات ہیں وہ معلم اخلاق ہیں، وہ رحمت عالم ہیں جن و بشر ان کی تعریف و توصیف اپنے لیے باعث فخر اور وسیلہ نجات گردانتے ہیں انہوں نے انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلائی دنیا کی زیست کے آداب سے آگاہی دی وہ سب سے بڑے فلسفی، معلم اخلاق اور قانون دان ہیں انہوں نے دنیا کو امن و آتشی کا راستہ دکھایا اُن کی تعریف خود خدائے ذوالجلال کرے انسان کی کیا مجال ہے کہ اُن کی ثناء کا حق ادا کر سکے۔ غالب جیسے نابغہ روزگار کو بھی کہنا پڑا ہے :
قدرت کی عطا ہے کہ گل نے ایمن!


غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشیتم
اک خواب حقیقت میں پرویا بے شک


کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدﷺ است


اب گل بخشالوی کا ہدیہ عقیدت و محبت دیکھئے
ہر موڑ کو رستے سے نکالا بے شک


میری حیات ایسے نبیﷺ کی غلام ہے
ہر کام کو اُسوہ سے سنبھالا بے شک


جو انبیاء کا عرشِ بریں پر امام ہے
یہ خاص کرم رب کا ہے گل نے ایمن!


جس دل کے آئینہ میں محمدﷺ کا نام ہے
تقدیر کو مذہب سے اُجالا بے شک


دوزخ کی آگ اُس پہ یقیناً حرام ہے
پروفیسر مامون ایمن (نیویارک)


گونجے جہاں میں نعرۂ تکبیر مومنو!
٭٭٭


میلادِ مصطفیٰﷺ کا یہی اہتمام ہے


آؤ پڑھیں درود کہ گل جانتے ہیں ہم


میلادِ مصطفیٰﷺ بھی خدا کا کلام ہے
=== حمدیں ===


’’گلستانِ نعت‘‘اسی قسم کے خوبصورت گلہائے رنگارنگ کا حسین و جمیل مرقع ہے جس کی معطر و مطہر خوشبو اہل دل اور ادبی حلقوں کو تا دیر مسحور کرتی رہے گی۔ مری دعا ہے کہ ان کے اس نعتیہ مجموعہ کو ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہو اور بارگاہِ نبویﷺ میں شرفِ قبولیت کا حامل ہو ۔
ترے کرم تری رحمت کا کیا حساب کروں
میں حمد کہنے کی کیا فکر کامیاب کروں


ایں دعا از من و از جملہ جہاں امین باد
چمن میں چاروں طرف پھول تیرے جلووں کے


٭٭٭
ہوں کشمکش میں کہ کس گل کا انتخاب کروں


تجھے قریب سے دیکھا ہے دل کے کعبے میں


ترے جمال کا کیا کیا رقم نصاب کروں


میں تیری بندہ نوازی کا معترف ہوں بہت


میں آدمی ہوں، خطا کیوں نہ بے حساب کروں


گلستانِ نعت اور مَیں
ترے بغیر ہر اک سوچ ہے گناہ عظیم


بقول حضرت سعدیؒ خدائے بزرگ و برتر کا ہزار احسان !جس کی اطاعت سے اس کے قرب کی نشانی اور جس کے شکر بجا لانے میں نعتوں کی فراوانی ہے ہرسانس جو اندر جاتا ہے زندگی بخش اور جب باہر آتا ہے تو فرحت بخش، پس ہر سانس میں دو نعمتیں ہیں اور ہر نعمت کے لیے اس کا شکر واجب ہے۔ رب ذوالجلال کی بے حساب رحمتوں کی بارش سب پر برس رہی ہے وہ نہ کبیرہ گناہ پہ گنہگاروں کی عزت کا پردہ چاک کرتا ہے اور نہ سرکشی پر سرکشوں کی روزی کم کرتا ہے۔ زندگی رب ذوالجلال کی دی ہوئی ایک بیش بہا و دلربا نعمت ہے اس نعمت سے سرفرازی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت اور نور سے سنوار کر حضرت انساں کی راہنمائی کے لیے اپنے محبوب محمدﷺ کا انتخاب کیا۔ آپﷺ جہانِ فانی میں تشریف لائے اور عطائے نبوت سے قبل اپنی عملی اور دنیاوی زندگی کے چالیس سال میں اپنے عمل و کردار اور حسنِ اخلاق سے خدا کے بابت ہر صاحب شعور کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور جب اُس وقت کے جاہل اور مشرک بھی کہنے لگے کہ آپﷺ صادق اور امین ہیں تو آپﷺ نے عالم انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا پیغام عام کر دیا اور شعورِ انساں میں یہ پیغام مہکنے لگا کہ اللہ ایک ہے وہی رازق و خالق ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ اُس کے آخری رسول ہیں۔
میں ذکر غیر سے کیوں عاقبت خراب کروں


یوں بھٹکی ہوئی دنیا کے شعورو فکر میں ایک انقلاب آ گیا۔ آپﷺ دنیا میں مختصر قیام کے لیے تشریف لائے اور اپنے حسن اخلاق اور کردار و عمل سے فانی دنیا میں انسان کو زندگی کے حسن سے مالا مال کر دیا۔ آج فرزندانِ توحید ایک خدا کی عبادت اور تعریف کے ساتھ ساتھ رسولِ خدا کے گیت گا رہے ہیں۔ نعت گوئی اسلامی تہذیب کی پہچان ہے شاعری فکر و شعور میں رب العزت کی عطاء کردہ ایک صلاحیت ہے یہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر اچھا نعت گوبھی ہو جس خوش بخت کو یہ اعزاز حاصل ہے وہ مذہبی دنیا میں ممتاز ہے۔ اُساتذہ کہتے ہیں کہ ایک اچھا غزل گو شاعر اگر اپنی شاعری کا رُخ نعت پر مرکوز کر دے تو وہ ایک بہترین نعت گو ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ غزل کا مرکز حسن ہے اگر یہ سچ ہے تو سرورِکائنات سے زیادہ خوبصورت کردار کا مالک کون ہو سکتا ہے ؟عشقِ انسان کی دنیا ہے اور رسول خدا سے عشق ابدی زندگی کا لافانی حسن ہے۔ ہر غزل گو شاعر جسے شاعری کی پاکیزگی کا احساس ہے اگر وہ شاعری کے رموز اپنے شعور و فکر واحساس میں بخوبی جان لے اور وہ کسی صاحب فن کی دہلیز سے واقف ہو تو اُس کی شاعری کا گلشن مہک سکتا ہے کیونکہ گلشن کی زینت مالی کی محتاج ہے اس لیے کہ وہی گلشن میں کیاریوں کی ردیف اور پودوں کا ردم جانتا ہے۔ اس لیے کہ شاعری ذہن کا نکھار مطالعہ اور شاگردی کی محتاج ہے شعری رموز، تلفظ، اوزان، ردم اُساتذہ ہی کی فکر و نظر سے نکھرتے ہیں اُساتذہ کی فکر و نظر کے بغیر شاعری کا حسن کسی مہ جبین کے رم جھم موسم میں بھیگے، بکھرے گیسوؤں کی طرح ہے۔ شعر کا ہر مصرع صاحب علم و فن کی نظر سے گزرنے کے بعد ہی کسی مہ جبین کے لال گلابی ہونٹوں کی طرح دلکش اور دل آویز ہوتا ہے۔
خدا کبھی تو گلؔ ، ایسی عطا کرے توفیق


نعت گوئی کے لیے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ لازمی ہے اس لیے کہ جب تک شاعر کے شعور میں محمدﷺ کی زندگی میں اُن کے کردار و عمل کا عکس نہ ہو گا تب تک وہ اپنی بصیرت کی نگاہ سے صورت مصطفیٰﷺ نہ دیکھے گا وہ شانِ مصطفیٰﷺ سے کیسے بہرہ ور ہو گا ؟وہی شاعر ایک اچھا نعت گو ہو سکتا ہے جسے نبیﷺ سے عشق کے ساتھ ساتھ نبیﷺ کی ذات با برکات اور آپﷺ کی زندگی کے ہر پہلو سے آشنائی ہو جب شاعر اُسوۂ حسنہ کو اپنانے اور آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی دلی اقرار کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی دنیا کو حب مصطفیٰﷺ کا محور بنا لے تو اُس کی تقدیر کا ستارہ فلک شاعری پر جگمگاسکتا ہے لیکن شرط یہ بھی ہے کہ سرکارﷺ کی محبت اور عقیدت کا اظہار اُس کے ذاتی عمل و کردار میں بھی ہو دین میں ہر مسلمان کی حضورﷺ سے محبت اُس کی عظمت ہے لیکن محبت میں خدا اور رسول خدا یعنی معبود اور محبوب کے مقام کا خیال رکھا جائے عشقِ نبیﷺ میں حدودِ عشق سے تجاوز شرک ہے اور شاعر کو اظہار فکر میں اس امر کا خیال رکھنا چاہیے۔ عشق کی دیوانگی میں اظہار عشق کے دوران مقام اشرف المخلوقات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اپنے آپ کو الفاظ کی لہر میں اس قدر نیچے نہ لایا جائے کہ عظمت انسان کی توہین ہو مسلم ذات کوئی معمولی ذات نہیں اگر اللہ تعالیٰ اس انسان کوا یک سجدہ نہ کرنے کے جرم میں ایک مقرب فرشتے کو شیطان قرار دے کر دھتکار سکتا ہے تو یہ عظمت انسان کی ایک واضح پہچان ہے۔ اس لیے اسے عشق اور اظہار عشق میں اپنے اور مقامِ محبوبﷺ کا خیال رکھنا لازم ہے۔ دورانِ تخلیق دامن احتیاط کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ کچھ شعراء اپنے آپ کو محبوب خدا سے عشق میں کم ترین درجے پر لا کر سگ درمصطفیٰﷺ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ میری نظر میں یہ انسان کی توہین ہے نبیﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جس گھر میں کُتا بھونکتا ہے وہاں فرشتوں کی آمد نہیں ہوتی۔ اگر حضورﷺ کو اس جانور سے نفرت ہے تو انسان خود کو اس مقام پر کیوں لے آتا ہے ؟عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے نعت گوئی سیرت مصطفیٰﷺ سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے
ہر اک بُرائی کا میں خود ہی سد باب کروں


گل شاہِ بحر و برکا اک ادنیٰ غلام ہے
٭٭٭


اس سے بڑے کرم کا تصور حرام ہے


جس دلے کے آئینے میں محمدﷺ کا نام ہے


دوزخ کی آگ اُس پہ یقیناً حرام ہے
میرے ہر دم میں ترے دم سے بڑا دم خم ہے


ضرورت اس امر کی ہے کہ نعت گو، اپنے کلام اور اظہار فکر و شعور میں نبیﷺ کی باطنی زندگی، حسن و جمال، سیرت و کردار اور اسوۂ حسنہ پر خاص توجہ دے تاکہ اگر وہ ایماندار جوراستے سے بھٹک گیا ہے اپنی اصلاح کر سکے اگر کسی بے ایمان کو نعت نبیﷺ پڑھنے کا اتفاق ہو تو اُس کے دل میں سرورِکائنات کی عظمت وقار مصطفیٰﷺ کی شمع روشن ہو اور تعریف مصطفیٰﷺ پر مجبور ہو اس طرح شاعر اپنے اظہار فکر اور عشق مصطفیٰﷺ میں دنیائے عالم میں اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دے سکتا ہے میرا مطلب ہے کہ نعت نبیﷺ میں حضور کی سیرت و کردار کو اُجاگر کر کے ہم نعت کو تبلیغ کا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔ مانگنا تو ہماری فطرت ہے لیکن یہ دیکھا جائے کہ دینے والا کون ہے دینے والے کی رحمت و کرم کا اندازہ بھی ہونا چاہیے اگر ہمارے کردار و عمل اور اپنے عشق کے طفیل زندگی کی رعنائیاں نصیب ہیں تو کیوں نہ ہم دینے والے اور دینے والے کے حبیب کے گن گائیں ہم معبود کے محبوب کے گیت گائیں گے تو معبود کرم کی بارش میں دیر نہیں کرے گا۔ جہاں تک شاعری، خاص کر نعت نگاری میں میری ذات کا تعلق ہے تو میری مثال اُس گڈرئیے کی ہے جو عشق خدا میں مدہوش کہے جا رہا تھا اے اللہ!تیری کوئی بیٹی، بیٹا اور بیوی نہیں تو اکیلا خدا ہے کون تیرے بال سنوارے گا؟آ جا میں تیرے بال سنواروں، تیرے بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کروں، حضرت موسٰیؑ نے گڈرئیے کی ان باتوں پر ناگواری کا اظہار کیا تو اللہ نے فرمایا ’’موسیٰؑ !گڈرئیے کے لفظوں پر نہ جا بلکہ اس کے دل میں اُتر کر عشقِ خدا کی بلندی دیکھ۔
میرے ہر دم میں ترا دم ہے مجھے کیا غم ہے


اللہ تعالیٰ کو میرے سجدۂ جبیں کی نہیں سجدۂ دل کی ضرورت ہے وہ دلوں کے راز جانتا ہے اس لیے میں بھی اسی اُمید پر اپنے عشق کا احترام کر رہا ہوں۔ شاید میری بھی کوئی ادا میری خوش بختی کا سبب بن جائے۔ میری مادری زبان پشتو ہے یوں صاحب زبان نہیں کم علم بھی ہوں اس لیے کا، کے، کی کی کھینچ تان میں بعض اوقات لفظوں اور مصرعوں کا توازن کھو بیٹھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ میں اپنی تحریر اور شاعری اپنے سے کم عمر لیکن صاحب فن کو بھی دکھانے میں اپنی توہین نہیں سمجھتا۔ شاعری عمر کی نہیں فن کی محتاج ہے۔ پاکستان میں علامہ انیس لکھنوی صاحب، سرورانبالوی صاحب اور سلطان سکون صاحب میری شاعری دیکھ لیا کرتے تھے۔ امریکہ میں محترم صلاح الدین ناصر بھائی سے رابطہ ہوا آپ نے نعت گوئی میں مشورے دئیے اور اب بابائے اُردو پروفیسر مامون ایمن سے باقاعدہ اصلاح لیتا رہا ہوں۔ حضرت سعدیؒ کا قول ہے جو بات تم نہیں جانتے، پوچھ لو، پوچھنے کی یہ ذلت علم و عزت کے لیے تمہاری رہنمائی کرے گی میں نعت گوئی کی معراج کے پہلے زینے پر ہوں میرے شعور میں نام مصطفیٰﷺ اور عشق مصطفیٰﷺ مہک رہا ہے میں اپنے شعور کی تسکین کے لیے فکر کی بہار شاعری کے جھولے میں رب ذوالجلال سے عرض گزار ہوں۔
میرے اللہ !میں مانگوں تو بھلا کیا مانگوں


یارب مری حیات کا جب ہو چراغ گلؔ
میری پہچان محمدؐ ہے، بتا کیا کم ہے
 
رات جیون کی، مدین میں بسر ہو جائے


بخشالوی، حرم میں کھڑا ہو اُٹھا کے ہاتھ
تیرے عشاق کے اظہار کا یہ عالم ہے


سرورِکائنات، فخرِ موجودات، رحمت انسانیت، انتخاب آدمیت، شافع روز جزا، قابل اطاعت رسول خدا، خوب رو، خوش خصال، حضرت محمدﷺ کے حضور نذرانہ’گلستانِ نعتﷺ ‘‘لے کر اہل علم و ہنر اور صاحب بصیرت و بصارت عاشقانِ مصطفیٰﷺ کے حضور حاضر ہوں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے صدقے میری اس کوشش کو جزائے خیر سے سرفراز کر دے۔ بے شک سب تعریفیں سب جہانوں کے مالک ہی کے لیے مخصوص ہیں رسول خدا اور آلِ رسول اللہ پر ہزاروں سلام ہوں
ایک قرآن ہے احسان ترا آدم پر


کیوں دوسروں کے نغمے، میں ساز پر سناؤں
دوسرا عشق اگر ہے تو ترا پیہم ہے


محبوبﷺ کبریا کے، میں گیت کیوں نہ گاؤں
کون فردوس کے دیدار سے گلؔ روکے گا


احقرالعباد سبحان الدین گل بخشالوی
بس تیری یاد میں جو آنکھ فوراً بھی نم ہے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 195: سطر 180:
   
   


شانِ رسالت
   
   


                پروفیسر مامون ایمن (نیویارک)
نگاہ عشق نے در آگہی کا وا دیکھا
مرے یقین نے ہر ایک جا خدا دیکھا


گلستانِ نعت میں تین اصناف سخن شامل ہیں۔ حمد، نعت اور منقبت۔ شاعر سبحان الدین گل المعروف گل بخشالوی نے ان تینوں اصناف کو عقیدت، توصیف اور اعتراف سے سجانے کی پر خلوص سعی زبان اور متون کی آئینہ دار ہے۔ اس آئینہ داری میں نسبتوں کی طرح داری ہے یہ طرح داری قرابت کی پیاسی بھی ہے اور خواہاں بھی۔ یوں کہیے کہ یہ طرح داری اس مجموعہ کا انسلا کی عنصر ہے اس عنصر کے اساسی الفاظ ہیں۔ عطاء کرم، سجدہ، فردوس، بخشش اُمتی۔ گلستانِ نعت کی زبان واضح اور صاف ہے اس میں اضافتی تراکیب شامل ہیں۔ مثلاً وقت نزع، سد باب، کلامِ محمدﷺ ، محبوب جاں، نگاہِ عشق، عالم مستی، عشق محمدﷺ ، شب معراج، عظمت تقدیر، شب حیات، شعاعِ مہہ، ان اضافتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جمالِ فطرت، نور کعبہ، باغِ جنت، ان سہ لفظی اضافتی تراکیب میں اعتراف کی جھلک ہے۔ رحمت نورِ مجسم، بارش ابرِ کرم، چمن، بارش اور گل کے پس منظر میں، ذرا خود سپردگی کا یہ منظر ملاحظہ کیجئے۔
مرے شعور کو شاداب کر گیا منظر


آپ کر دیں چمن دل پہ کرم کی بارش
حرم میں عالم ہستی کا آسرا دیکھا


شاہِ کونین یہ گل آپﷺ کا شیدائی ہے
قسم ہے میرے خدا تیری پاک ہستی کی


شاہِ کونین در حقیقت شاہ نہیں کہ وہ شاہ ہونے کے باوجود خود کو دنیا خالقِ مطلق کے سامنے سادگی اور انکساری کا ایک مثالی نمونہ بناتا ہے وہ سادگی اور انکساری سے پیام اسلام کی راہ استوار کرتا ہے۔ وہ حاکم ہونے کے باوجود خود کو ایک بشر جانتا اور مانتا ہے۔ وہ خاک ہونے کے باوجود پر نور سے برتر ہے اس کی ذات کو انسانیت میں اوّلیت کا درجہ حاصل ہے اس پیارے محمدﷺ کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ خالق و مخلوق، رب اور بندے اس پر درود وسلام بھیجتے ہیں۔ بے شک وہ ذات اقدس کسی شبہ، کسی جھجک کے بغیر ہر آن درودوسلام کی مستحق ہے۔ یہی اعتراف گل سے مزید کہلواتا ہے میں خوش قسمت ہوں کہ آپ کی اُمت میں سے ہوں میں آپﷺ کا اُمتی ہوں۔ اس اعتراف میں وہ اپنی ایک تمنا کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اے کاش!روز حشر مجھے آپﷺ کی شفاعت ملے۔
ترے ہی ذکر سے بندوں کو جھُومتا دیکھا


گلستانِ نعتﷺ میں متون گنجلک نہیں وہ براہِ راست سامنے آتے ہیں اور اپنے وجود کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ وہ گل کی شخصیت کے پاس دار بھی ہیں اور ترجمان بھی مثلاً رب اُس کی ہر ضرورت ہے تو وہ اس سے کوئی چیز کیوں مانگے، نظرِ لطف کی خاطر وہ اپنا سرسجدہ میں رکھنے کا متمنی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بوقت نزع اس کے لب پر احمدﷺ کا نام ہو، وہ رب کی بندہ نوازی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بے حساب خطا کاری کا مرتکب ہونا چاہتا ہے۔ وہ اس توفیق کا خواہاں ہے جس سے وہ اپنی ہر سد باب کر سکے اس کا دل بذاتِ خود ایک کعبہ ہے جس میں وہ اپنے رب کا جلوہ دیکھتا ہے وہ ظلمت دہر سے اس لیے نہیں گھبراتا کہ اُس کے دل میں محمدﷺ کا دیا ہے۔ وہ مدینہ میں موت کا خواہاں ہے۔ اُس کی آنکھ نم ہوتی ہے تو وہ فردوس کا دیدار کر لیتا ہے وہ محمدﷺ کا حوالہ دے کر اپنے ضمیر کو ملت کی دوستی سے ہمکنار کرنے کا دعا گو ہے۔ وہ اللہ سے محبوب کا سایہ مانگتا ہے۔ اُس کے ذہن میں پیغام نبیﷺ سے توحید رب کی وضاحت ہوتی ہے اُس کے خون میں آب زم زم ہے وہ ایک مسافر بھی اور ایک گداگر بھی، حجرِاسود کے تصور سے اس کے دل میں گلشن ایمان مہکنے لگتا ہے۔ حرم میں عالم مستی کا سجدہ اس کا یقین شاداب کرتا ہے اس کے نزدیک شانِ نبوتﷺ یہ ہے کہ رسولﷺ کی سیرت اور صورت دلنشین ہیں اُسے معلوم ہے کہ رسولﷺ پاک نے رنگ و زباں کی سب فصیلیں توڑ کر دین کی باہوں کو قوت بخشی تھی۔ بہ حیثیت اُمتی وہ اپنی تقدیر کی عظمت سے واقف ہے وہ شاہ میں سادگی کا جمال دیکھتا ہے۔
ہر ایک آنکھ میں اشکوں کی کیا روانی تھی


مرے نبیﷺ کی حیات رحمت، اُسی کے دم سے ہیں شان و شوکت
بڑے بڑوں کو ترے در سے مانگتا دیکھا


وہ شاہِ ارض وسما تھے پھر بھی، جمیل اُن کی وہ سادگی ہے
لگا کچھ ایسے کہ جنت میں آ گیا ہوں گلؔ


اسی نعت کے اس شعر میں صفت مشیہ (نفیس، جمیل، بر وزن فصیل) اور تفضیل (اقدس، اطہر، بر وزن افعل)کا امتزاج ملاحظہ کیجئے اور متن کی سرشاری پرسردھنیے
حرم میں حسن کا منظر جو شام کا دیکھا


نفیس اُن کی حیات ہے گل جمیل اُن کا کلام اقدس
٭٭٭


وجودِ اطہر کا ہے نہ سایہ، یہی تو فطرت کی شاعری ہے


اس شعر میں لفظ ’’شاعری‘ ‘کو مروّج معنی سے الگ کیجئے اور اسے ’’آگاہی‘‘سے منسوب کیجئے تو ’’فطرت کی شاعری‘‘ کا مطلب بھی واضح ہو جائے گا اور مفہوم بھی ہمارے رب نے رسول پاکﷺ کے درود مبارک سے ہمارے دل و دماغ کو حقیقت ذات سے آگاہ ہونے کا اہتمام کیا ہے۔ حقیقت ذات سے آگاہی ہمیں باور کراتی ہے کہ ہم اُس رب کی مخلوق ہیں جس کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ کوئی ثانی، اسلام دین حق ہے۔ محمدﷺ اس دین کی پیغام بر ہیں۔ بلاشبہ ہماری زندگی رضائے رب کی عطا ہے ہم بندے ہیں اور اُس کی جانب لوٹ جانے والے ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے رسولﷺ نے ہمیں حقیقت ذات سے آگاہ کرایا اس شعر میں گل نے لفظ ’’شاعری‘‘ کو ایک مجرد انداز سے پیش کیا ہے۔


گلستانِ نعتﷺ میں بحروں کا تنوع نظر آتا ہے مثلاً محبتث، رمل، ہزج، مضارع اور مقارب وغیرہ ہم، اس ضمن میں یہ نمائندہ مطلع ملاحظہ کیجئے۔


مرا نبیﷺ ہے جہاں کی رونق، جہاں کی رونق مرا نبیﷺ ہے


یہ سبزگنبد، یہ نور کعبہ، یہ سب اُسی کی تو روشنی ہے


صنف نعت کے عنوانات اور متون متعین ہیں بجا لیکن یہ صنف، عقیدت، جذب اور سپردگی کی ایک جھیل ہے جسے ہر موسم مزید گہرائی سے ہمکنار کرتا ہے۔ یہ سلسلہ تقریباً ساڑھے چودہ سوسال سے جاری وساری ہے ہر شاعر کے کلام میں متعین متون بدل کر نئے زاویوں اور رنگوں سے سجے نظر آ سکتے ہیں، نظر آتے ہیں۔ گاہے نئے زاویے اور رنگ عیاں ہیں اور گہے پنہاں گاہے وہ قاری کے سامنے ان متون میں وضاحت کے دفتر کھولتے ہیں اور گہے چونکا دینے والے انداز پر تحسین و داد کا تقاضا کرتے ہیں۔ گل کی کاوشات میں بھی یہ روش نظر آتی ہے مثلاً نزع کے وقت گل کے لب پہ احمدﷺ کا نام ہو اور حشر کے روز وہ اُن کو بیش تر دیکھے۔ گل رب العزت سے اس توفیق کا خواہاں ہے جو اسے اپنی ہر برائی روکنے کی استطاعت عطا کرے۔ یہ حمد کے متون ہیں نعت کے ضمن میں ملاحظہ کیجئے۔ مدینہ سے آنے والی خوشبو فضا میں کھیلتی ہے جو دنیا میں ہنسنے جینے کا حسن ہے۔ اے مصطفیٰﷺ !میری ایک ہی خواہش ہے کہ اس جہان سے میری رخصت حرم کے زینے سے ہو۔ اس سادہ سی خواہش کا تجزیہ کیجئے۔ شاعر اپنی سادگی کو بے پایاں خلوص کی مدد سے مدینہ اور مکہ یکجا کرنے کا متمنی ہے کہ اس کی موت۔ ان دونوں مقامات کی برکات سے معمور ہو۔
میں تجھ کو دیکھ لوں اتنی تو زندگی دے دے


بس اب تو ایک ہی خواہش ہے مصطفیٰﷺ میری
مرے خدا مری ہستی کو روشنی دے دے


جہاں سے ہو مری رخصت حرم کے زینے میں
ترے کرم سے میں کعبہ تو دیکھ آیا ہوں


بلاشبہ گل کا یہ اعلان صنف نعت سے نسبت کا مظہر ہے
مجھے کلام محمدؐ کی دلکشی دے دے


آپﷺ کی حکمت و دانش کا ہے یہ بھی اعجاز
تو اپنے پیارے محمدؐ کے نام پر مولا


میرے جذبات میں جو قوت گویائی ہے
مرے ضمیر کو ملت سے دوستی دے دے


گل صاحب!تحریر ’’گلستانِ نعتﷺ ‘‘کی سعادت پر مبارک باد قبول کیجئے۔
ترے کرم کی نہیں مجھ پہ انتہا کوئی


مجھے قضائے شہادت کی شاعری دے دے


شانِ رسالتﷺ
یہ گلؔ غریب ہے عاصی مگر غنی دل کا


الفاظ کو جذبوں میں سمویابے شک
اسے علیؓ کے گھرانے کی چاکری دے دے


اخلاص سے دامن کو بھگویا بے شک
٭٭٭


قدرت کی عطا ہے کہ گل نے ایمن!


اک خواب حقیقت میں پرویا بے شک


   
   


ہر موڑ کو رستے سے نکالا بے شک
اک بھٹکتا سا مسافر ترے در پر آیا
میرے اللہ ! تیرے گھر کا گدا گر آیا
 
تیرے محبوبؐ کا پیغام ہے یہ اُمت کو
 
ہے معاف اُس کی خطا جو ترے گھر پر آیا
 
میں نے میلاد میں جب ذکر محمدؐ چھیڑا
 
میرے گھر میں تری رحمت کا سمندر آیا
 
میں بھی ملنے کو گیا تجھ سے ترے کعبے میں
 
رنگ آنکھوں میں ترے عشق کا میں بھر آیا
 
گلؔ مہکنے لگا ایمان کا گلشن دل میں


ہر کام کو اُسوہ سے سنبھالا بے شک
میرے ہونٹوں پہ جو وہ کالا سا پتھر آیا


یہ خاص کرم رب کا ہے گل نے ایمن!
٭٭٭


تقدیر کو مذہب سے اُجالا بے شک
میرا ایمان ہے اللہ کی بخشش ہے گلؔ


پروفیسر مامون ایمن (نیویارک)
اس لیے نام بھی بخشالویؔ رکھا میں نے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 274: سطر 272:
   
   


حمدیں
   
   


ترے کرم تری رحمت کا کیا حساب کروں
اُن پہ اللہ کرم کرتے ہیں
میں حمد کہنے کی کیا فکر کامیاب کروں
رات کو آنکھ جو نم کرتے ہیں


چمن میں چاروں طرف پھول تیرے جلووں کے
دل کی تختی پہ مقدس کعبہ


ہوں کشمکش میں کہ کس گل کا انتخاب کروں
اپنی آنکھوں سے رقم کرتے ہیں


تجھے قریب سے دیکھا ہے دل کے کعبے میں
کیسے دیکھیں کے وہ چہرہ ہم بھی


ترے جمال کا کیا کیا رقم نصاب کروں
میرے اللہ !یہ غم کرتے ہیں


میں تیری بندہ نوازی کا معترف ہوں بہت
زیر کرتے ہیں سدا دشمن کو


میں آدمی ہوں، خطا کیوں نہ بے حساب کروں
ہم تو اُونچا ہی علم کرتے ہیں


ترے بغیر ہر اک سوچ ہے گناہ عظیم
اپنے ہر زخم پہ مرہم کے لیے


میں ذکر غیر سے کیوں عاقبت خراب کروں
اپنے قرآن کا دم کرتے ہیں


خدا کبھی تو گلؔ ، ایسی عطا کرے توفیق
گلؔ عبادت کا ہے دعویٰ جن کو


ہر اک بُرائی کا میں خود ہی سد باب کروں
جو بھی کرتے ہیں وہ کم کرتے ہیں


٭٭٭
٭٭٭
سطر 306: سطر 303:
   
   


میرے ہر دم میں ترے دم سے بڑا دم خم ہے


میرے ہر دم میں ترا دم ہے مجھے کیا غم ہے


میرے اللہ !میں مانگوں تو بھلا کیا مانگوں


میری پہچان محمدؐ ہے، بتا کیا کم ہے


رات جیون کی، مدین میں بسر ہو جائے
میری بس ایک آرزو چمکے
تیرا محبو بؐ  رو برو چمکے


تیرے عشاق کے اظہار کا یہ عالم ہے
حمد تیری میں جب گلو چمکے


ایک قرآن ہے احسان ترا آدم پر
تیری رحمت بھی چار سُو چمکے


دوسرا عشق اگر ہے تو ترا پیہم ہے
کوئی مشکل نہیں تجھے پانا


کون فردوس کے دیدار سے گلؔ روکے گا
آرزو میں جو جستجو چمکے


بس تیری یاد میں جو آنکھ فوراً بھی نم ہے
جب تصور میں تو مہکتا ہے


٭٭٭
ذہن میں جیسے گل شبو چمکے


جو تصور میں ہے نبیؐ میرے


جب بھی چمکے وہ ہو بہو چمکے


ہو کرم تیرا تیری مدحت ہو


جان میری مرا لہو چمکے


دل میں ایمان کی حرارت ہو


نگاہ عشق نے در آگہی کا وا دیکھا
کیوں نہ پھر میری آبرو چمکے
مرے یقین نے ہر ایک جا خدا دیکھا


مرے شعور کو شاداب کر گیا منظر
تیری خوشبو ملے جو کعبے میں


حرم میں عالم ہستی کا آسرا دیکھا
حشر میں گلؔ بھی سُرخرو چمکے
 
قسم ہے میرے خدا تیری پاک ہستی کی
 
ترے ہی ذکر سے بندوں کو جھُومتا دیکھا
 
ہر ایک آنکھ میں اشکوں کی کیا روانی تھی
 
بڑے بڑوں کو ترے در سے مانگتا دیکھا
 
لگا کچھ ایسے کہ جنت میں آ گیا ہوں گلؔ
 
حرم میں حسن کا منظر جو شام کا دیکھا


٭٭٭
٭٭٭
سطر 367: سطر 352:
   
   


اگر جہان میں آتے نہ مصطفیٰؐ اللہ
تو میں فقیر بھلا کیسے جانتا اللہ


میں تجھ کو دیکھ لوں اتنی تو زندگی دے دے
بنا دیا ہے یہ عالم جو خوشنما اللہ


مرے خدا مری ہستی کو روشنی دے دے
جو یہ نہیں تھا تو موجود تو ہی تھا اللہ


ترے کرم سے میں کعبہ تو دیکھ آیا ہوں
ہوا یقین کہ واحد ہے اور حقیقت ہے


مجھے کلام محمدؐ کی دلکشی دے دے
ہو اجو طور پہ جلوے میں رونما اللہ


تو اپنے پیارے محمدؐ کے نام پر مولا
ترے حبیبؐ کی عظمت، تری محبت تھی


مرے ضمیر کو ملت سے دوستی دے دے
فلک پہ چاند جو ٹکڑوں میں دو ہوا اللہ


ترے کرم کی نہیں مجھ پہ انتہا کوئی
جلاتی کیسے نبیؐ کو وہ آتش نمرود


مجھے قضائے شہادت کی شاعری دے دے
گلوں کی سیج ہی اُس کو بنا دیا اللہ


یہ گلؔ غریب ہے عاصی مگر غنی دل کا
نگل لیا اُسے مچھلی نے تیری قدرت سے


اسے علیؓ کے گھرانے کی چاکری دے دے
نبیؐ تھا آپ کا زندہ ہی وہ رہا اللہ


٭٭٭
عصا میں آپ کی قدرت کے معجزے دیکھے


نبیؑ کو دے دیا پانی نے راستہ اللہ


میں جس مقام پہ سجدے میں تھا ملائک کے


وہی مقام پھر اک بار کر عطا اللہ


اک بھٹکتا سا مسافر ترے در پر آیا
مرے شعور کو بس ایسی روشنی دے دے
میرے اللہ ! تیرے گھر کا گدا گر آیا


تیرے محبوبؐ کا پیغام ہے یہ اُمت کو
لکھوں، میں آپ کی پڑھتا رہوں ثنا اللہ


ہے معاف اُس کی خطا جو ترے گھر پر آیا
جھلک رہا ہے تو پھولوں میں چاند تاروں میں


میں نے میلاد میں جب ذکر محمدؐ چھیڑا
ترا جمال ہوں ذروں میں دیکھتا اللہ


میرے گھر میں تری رحمت کا سمندر آیا
بس اب رئیس ہی یادوں میں گلؔ کو رہنے دے


میں بھی ملنے کو گیا تجھ سے ترے کعبے میں
میں کیا سے کیا بنوں آخر تو ہے فنا اللہ
 
رنگ آنکھوں میں ترے عشق کا میں بھر آیا
 
گلؔ مہکنے لگا ایمان کا گلشن دل میں
 
میرے ہونٹوں پہ جو وہ کالا سا پتھر آیا
 
٭٭٭
 
میرا ایمان ہے اللہ کی بخشش ہے گلؔ
 
اس لیے نام بھی بخشالویؔ رکھا میں نے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 430: سطر 403:
   
   


اُن پہ اللہ کرم کرتے ہیں
ہے حسن زندگی کا، حسن کلام تیرا
رات کو آنکھ جو نم کرتے ہیں
دنیا کے رنگ و بو میں قائم نظام تیرا


دل کی تختی پہ مقدس کعبہ
تو لا شریک خالق، رحمت وہ دوجہاں کا


اپنی آنکھوں سے رقم کرتے ہیں
جس ذات بے بدل پر اترا کلام تیرا


کیسے دیکھیں کے وہ چہرہ ہم بھی
مومن پہ تیری رحمت برسی، برس رہی ہے


میرے اللہ !یہ غم کرتے ہیں
بے دین پر کرم بھی ہوتا ہے عام تیرا


زیر کرتے ہیں سدا دشمن کو
گوشۂ مری نظر میں ایسا نہیں ہے کوئی


ہم تو اُونچا ہی علم کرتے ہیں
ہوتا نہیں ہے جس جا، مولا قیام تیرا


اپنے ہر زخم پہ مرہم کے لیے
میں گل کی خوش نمو میں تیری عطا ہے خالق


اپنے قرآن کا دم کرتے ہیں
مالک تُو زندگی کا، میں ہوں غلام تیرا
 
گلؔ عبادت کا ہے دعویٰ جن کو
 
جو بھی کرتے ہیں وہ کم کرتے ہیں


٭٭٭
٭٭٭
سطر 461: سطر 430:
   
   


میرے اشکوں میں مری فریاد، دل برسائے گا
ایک ’’اللہ ہو‘‘ مری رحمت کی برکھا لائے گا


دیکھنا اُس وقت بھی لب پر مرے حمد و ثنا


اس جہاں سے جب کبھی ہجرت کا لمحہ آئے گا


میری بس ایک آرزو چمکے
میرے دل پر نقش ہے کعبے کے منظر میں خدا
تیرا محبو بؐ  رو برو چمکے


حمد تیری میں جب گلو چمکے
اب بھلا اس دشت میں ہے کون جو بہکائے گا


تیری رحمت بھی چار سُو چمکے
ہے مرا ایمان، کر کے ذکر، جو سوجاؤں میں


کوئی مشکل نہیں تجھے پانا
خواب میں مولا مجھے، کعبہ بھی تو دکھلائے گا


آرزو میں جو جستجو چمکے
سامنے محشر میں مولا، سر اُٹھا کر آؤں میں


جب تصور میں تو مہکتا ہے
بس کرم، جوشِ شہادت کا جو تو فرمائے گا


ذہن میں جیسے گل شبو چمکے
ہو گی محبوبؐ خدا کی یاد میں جب نعت تو


جو تصور میں ہے نبیؐ میرے
میرا گھر گلؔ دیکھنا، جنت سماں بن جائے گا


جب بھی چمکے وہ ہو بہو چمکے
٭٭٭


ہو کرم تیرا تیری مدحت ہو


جان میری مرا لہو چمکے


دل میں ایمان کی حرارت ہو


کیوں نہ پھر میری آبرو چمکے


تیری خوشبو ملے جو کعبے میں
تیری قدرت کی خوشبو، ہر گل ہر ذرے میں تُو
اللہ اللہ اللہ ہو، لا الہٰ اللہ ہو


حشر میں گلؔ بھی سُرخرو چمکے
میں احمد کو پیارا ہوں تجھ کو احمد ہے پیارا


٭٭٭
میری دنیا ہے روشن، جیسے احمد کا چہرہ


یہ دنیا اور وہ دنیا تیرے جلوے میں ہر سُو            اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔


دنیا، دنیا کی ہر شے، سب کچھ تیری قدرت میں


تیرے احمد کے صدقے، ہوتا ہوں میں جنت میں


آدھی شب کے سجدوں میں، ہوتے ہیں جب میں اور تُو اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔


اگر جہان میں آتے نہ مصطفیٰؐ اللہ
دنیا داری میں بھٹکے، ہم اللہ ایسے نہ تھے
تو میں فقیر بھلا کیسے جانتا اللہ


بنا دیا ہے یہ عالم جو خوشنما اللہ
یہ دنیا اور وہ دنیا، اپنے احمد کے صدقے


جو یہ نہیں تھا تو موجود تو ہی تھا اللہ
ہم پر گلشن کر مولا، ہم بندے ہیں عاصی خُو          اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔


ہوا یقین کہ واحد ہے اور حقیقت ہے
تجھ کو ہے ضرورت کیا، میرے سجدے میرے ہیں


ہو اجو طور پہ جلوے میں رونما اللہ
میرا مرنا حق مولا، کعبے کے جو پھیرے میں


ترے حبیبؐ کی عظمت، تری محبت تھی
میں تُربت میں بس چاہوں، میرے احمد کی خوشبو              اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔


فلک پہ چاند جو ٹکڑوں میں دو ہوا اللہ
توحامد تو واحد ہے تومالک تو رازق ہے


جلاتی کیسے نبیؐ کو وہ آتش نمرود
تو قادر تو مطلق ہے ہم بندوں کا رازق ہے


گلوں کی سیج ہی اُس کو بنا دیا اللہ
تیری رحمت ہے برسی، جب بھی گل اک چاہے ہُو    اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔


نگل لیا اُسے مچھلی نے تیری قدرت سے
٭٭٭


نبیؐ تھا آپ کا زندہ ہی وہ رہا اللہ


عصا میں آپ کی قدرت کے معجزے دیکھے
 
 
پُر لطف زندگی ہے مری لاجواب ہے
مجھ پر مرے خدا کا کرم بے حساب ہے
 
رہتا ہے مرے دل میں خدا اور مصطفیٰؐ


نبیؑ کو دے دیا پانی نے راستہ اللہ
خوشبو مرے وجود میں مثلِ گلاب ہے


میں جس مقام پہ سجدے میں تھا ملائک کے
واحد تو لاشریک تری شان اے خدا


وہی مقام پھر اک بار کر عطا اللہ
تیری تجلیات میں میرے جناب ہے


مرے شعور کو بس ایسی روشنی دے دے
مٹی کے ہر وجود کو کیا کچھ نہیں عطا


لکھوں، میں آپ کی پڑھتا رہوں ثنا اللہ
یہ چاند ، کہکشاں یہ ترا آفتاب ہے


جھلک رہا ہے تو پھولوں میں چاند تاروں میں
ارض وسما میں تو ہے تری شانِ کبریا


ترا جمال ہوں ذروں میں دیکھتا اللہ
جینے کی ہر ادا کو عطا بھی نصاب ہے


بس اب رئیس ہی یادوں میں گلؔ کو رہنے دے
اللہ تیری شان کو دیکھوں میں رات دن


میں کیا سے کیا بنوں آخر تو ہے فنا اللہ
کعبے کے ہر طواف میں گل کامیاب ہے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 559: سطر 535:
   
   


ہے حسن زندگی کا، حسن کلام تیرا
دنیا کے رنگ و بو میں قائم نظام تیرا


تو لا شریک خالق، رحمت وہ دوجہاں کا
نبی سے عشق میں روشن کیے اللہ نے میرے
دئیے دو چار دن جو بھی دئیے اللہ نے میرے


جس ذات بے بدل پر اترا کلام تیرا
ملا ہے جو ملے گا جو، انہی سجدوں کے صدقے گل


مومن پہ تیری رحمت برسی، برس رہی ہے
جبینوں میں ہیں جو سجدے لکھے، اللہ نے میرے
 
میں دیکھوں زندگی میں بندگی سے حسن فطرت کو
 
بدن کی خاک میں رکھے دئیے اللہ نے میرے
 
مرے سپنے تمنائیں، مرے محبوب کے صدقے


بے دین پر کرم بھی ہوتا ہے عام تیرا
مرے اشکوں میں سب دیکھے سنے اللہ نے میرے


گوشۂ مری نظر میں ایسا نہیں ہے کوئی
کہا فردوس سے جاؤ مرے محبوب بندوں میں


ہوتا نہیں ہے جس جا، مولا قیام تیرا
کلام اپنا پڑھانے کے لیے اللہ نے میرے


میں گل کی خوش نمو میں تیری عطا ہے خالق
یہ دنیا اور وہ دنیا، بنائے جنت و عالم


مالک تُو زندگی کا، میں ہوں غلام تیرا
محمد مصطفیٰؐ کے واسطے اللہ نے میرے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 586: سطر 568:
   
   


میرے اشکوں میں مری فریاد، دل برسائے گا
نہیں دل کے مدینے میں کوئی جلوہ نہاں اُس کا
ایک ’’اللہ ہو‘‘ مری رحمت کی برکھا لائے گا
مرے اللہ نے جو ہے دیا، قابل کہاں اُس کا


دیکھنا اُس وقت بھی لب پر مرے حمد و ثنا
مرے اللہ کی ہے تحفتاً مجھ کو عنایت جو


اس جہاں سے جب کبھی ہجرت کا لمحہ آئے گا
جمالِ زندگی میں بندگی، دل کا جہاں اُس کا


میرے دل پر نقش ہے کعبے کے منظر میں خدا
لگے جب ضرب اللہ ہو، جو سینے میں تو مومن کا


اب بھلا اس دشت میں ہے کون جو بہکائے گا
بدن شاداب ہو اور کیوں نہ ہو دل شادماں اُس کا


ہے مرا ایمان، کر کے ذکر، جو سوجاؤں میں
میں سجدوں میں دعا مانگوں مرا رازق وہ خالق ہے


خواب میں مولا مجھے، کعبہ بھی تو دکھلائے گا
میں آدم اُس کی قدرت ہوں، ہے میرا آشیاں اُس کا


سامنے محشر میں مولا، سر اُٹھا کر آؤں میں
وہ گل موجود ہیں ذروں میں اپنی شانِ قدرت سے


بس کرم، جوشِ شہادت کا جو تو فرمائے گا
ہے دو عالم میں جو کچھ بھی عیاں ہے یا نہاں اُس کا
 
ہو گی محبوبؐ خدا کی یاد میں جب نعت تو
 
میرا گھر گلؔ دیکھنا، جنت سماں بن جائے گا


٭٭٭
٭٭٭
سطر 615: سطر 593:
   
   


میری ہر دھڑکن عبادت ہے تری، میرے خدا!
ہے عطا تیری کہ اب ہے شاعری میری وفا


صور اسرافیل کی جب قبر میں آئے ندا


تیری قدرت کی خوشبو، ہر گل ہر ذرے میں تُو
آنکھ میں کھولوں تو لب پر ہو درودِ مصطفیٰؐ
اللہ اللہ اللہ ہو، لا الہٰ اللہ ہو


میں احمد کو پیارا ہوں تجھ کو احمد ہے پیارا
تُو تو کہتا ہے، تجھے کوئی نہیں ہے دیکھتا


میری دنیا ہے روشن، جیسے احمد کا چہرہ
میں نے دیکھا ہے تجھے، اپنے ہی دل میں اے خدا


یہ دنیا اور وہ دنیا تیرے جلوے میں ہر سُو            اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔
تجھ سے پوشیدہ مرا، کوئی عمل ممکن نہیں


دنیا، دنیا کی ہر شے، سب کچھ تیری قدرت میں
تو جہاں ہوتا نہیں، ایسی جگہ کوئی بتا


تیرے احمد کے صدقے، ہوتا ہوں میں جنت میں
میں جبیں رکھ دو جہاں، ہوتے ہیں میرے سامنے


آدھی شب کے سجدوں میں، ہوتے ہیں جب میں اور تُو اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔
تیرے جلوے آشنا، قدرت تیر ی، تری عطا


دنیا داری میں بھٹکے، ہم اللہ ایسے نہ تھے
خالق ومسجود تو ہے، رازق و معبود تُو


یہ دنیا اور وہ دنیا، اپنے احمد کے صدقے
تو خدا، جلوے ترے، تیری عطا میری ضیا


ہم پر گلشن کر مولا، ہم بندے ہیں عاصی خُو          اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔
ہیں جبین ناز میں جلوے ترے، دل میں مرے


تجھ کو ہے ضرورت کیا، میرے سجدے میرے ہیں
نور کے جلوے ترے، محبوبؐ تیرے مصطفیٰؐ


میرا مرنا حق مولا، کعبے کے جو پھیرے میں
٭٭٭


میں تُربت میں بس چاہوں، میرے احمد کی خوشبو              اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔


توحامد تو واحد ہے تومالک تو رازق ہے


تو قادر تو مطلق ہے ہم بندوں کا رازق ہے


تیری رحمت ہے برسی، جب بھی گل اک چاہے ہُو    اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔


٭٭٭


=== نعوت رسولؐ===
   
   


سطر 660: سطر 639:
   
   


پُر لطف زندگی ہے مری لاجواب ہے
میں خالی ہاتھ تو آیا نہیں مدینے سے
مجھ پر مرے خدا کا کرم بے حساب ہے
ہوا بہار کی آنے لگی ہے سینے سے


رہتا ہے مرے دل میں خدا اور مصطفیٰؐ
نہا کے دھوپ میں آیا ہوں جب مدینے سے


خوشبو مرے وجود میں مثلِ گلاب ہے
مہک گلاب کی آئے نہ کیوں پسینے سے


واحد تو لاشریک تری شان اے خدا
مرے شعور میں موجود گر نہیں احمدؐ


تیری تجلیات میں میرے جناب ہے
مرے خدا مری تو بہ ہے ایسے جینے سے


مٹی کے ہر وجود کو کیا کچھ نہیں عطا
اُسے حیات کا ساحل نصیب ہو کیوں کر


یہ چاند ، کہکشاں یہ ترا آفتاب ہے
اُتر گیا ہو محمدؐ کے جو سفینے سے


ارض وسما میں تو ہے تری شانِ کبریا
نبیؐ تو آئے ہزاروں، ہے شانِ احمدؐ کی


جینے کی ہر ادا کو عطا بھی نصاب ہے
جہاں میں روشنی پھیلی تو اس نگینے سے


اللہ تیری شان کو دیکھوں میں رات دن
نبیؐ کے عشق میں کھو کر ذرا تو دیکھو گلؔ


کعبے کے ہر طواف میں گل کامیاب ہے
حیات کیسی گزرتی ہے پھر قرینے سے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 691: سطر 670:
   
   


ہمارے دل، ہمارے لب فدا ہوں، شاہ دوراں پر
بڑے احساں ہیں، اس انسانِ کامل کے ہر انساں پر


نبی سے عشق میں روشن کیے اللہ نے میرے
شہہ والا کا دیوانہ ہوں، یہ اعزاز کیا کم ہے
دئیے دو چار دن جو بھی دئیے اللہ نے میرے
 
محبت ناز کرتی ہے مرے چاکِ گریباں پر


ملا ہے جو ملے گا جو، انہی سجدوں کے صدقے گل
مدینے کی فضاؤں میں مہک تازہ گلوں کی ہے


جبینوں میں ہیں جو سجدے لکھے، اللہ نے میرے
بہارِ خلد حیراں ہے، مدینے کے گلستاں پر


میں دیکھوں زندگی میں بندگی سے حسن فطرت کو
ہے دو عالم میں رونق، آمنہ کے لالؐ کے دم سے


بدن کی خاک میں رکھے دئیے اللہ نے میرے
جمالِ دوجہاں قربان ہے، شاہ رسولاں پر


مرے سپنے تمنائیں، مرے محبوب کے صدقے
تری زلفوں میں دیکھا، سورہِ واللیل کا منظر


مرے اشکوں میں سب دیکھے سنے اللہ نے میرے
پَر جبریل نازاں ہے، تری صبح درخشاں پر


کہا فردوس سے جاؤ مرے محبوب بندوں میں
کلی کھل کھل کے ہنستی ہے، مہکتا ہے ہر اک غنچہ


کلام اپنا پڑھانے کے لیے اللہ نے میرے
ہوا جب جھوم کے آتی ہے، یثرب کے خیاباں پر


یہ دنیا اور وہ دنیا، بنائے جنت و عالم
محمدؐ سے عقیدت اصل میں، وجہہ شفاعت ہے


محمد مصطفیٰؐ کے واسطے اللہ نے میرے
شہہ دیں سے محبت، گلؔ ہے لازم ہر مسلماں پر


٭٭٭
٭٭٭
سطر 720: سطر 701:
   
   


فکر میں شان نبوت دیکھتا ہوں آپؐ کی
دلنشیں سیرت میں صورت دیکھتا ہوں آپؐ کی


آپؐ کے چہرے پہ روشن نور ہے توحید کا


نہیں دل کے مدینے میں کوئی جلوہ نہاں اُس کا
اور آنکھوں میں رسالت دیکھتا ہوں آپؐ کی
مرے اللہ نے جو ہے دیا، قابل کہاں اُس کا


مرے اللہ کی ہے تحفتاً مجھ کو عنایت جو
کون دیکھے آپؐ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر


جمالِ زندگی میں بندگی، دل کا جہاں اُس کا
سر خمیدہ ساری اُمت دیکھتا ہوں آپؐ کی
 
انگلیوں میں آپؐ کی شق القمر کا معجزہ
 
شمس لوٹا نے کی ندرت دیکھتا ہوں آپؐ کی


لگے جب ضرب اللہ ہو، جو سینے میں تو مومن کا
آپؐ نے رنگ و زباں کی سب فصلیں توڑ دیں


بدن شاداب ہو اور کیوں نہ ہو دل شادماں اُس کا
دین کی باہوں میں قوت دیکھتا ہوں آپؐ کی


میں سجدوں میں دعا مانگوں مرا رازق وہ خالق ہے
رشک کرتا ہوں میں اپنی عظمت تقدیر پر


میں آدم اُس کی قدرت ہوں، ہے میرا آشیاں اُس کا
خود پہ جب نظر عنایت دیکھتا ہوں آپؐ کی


وہ گل موجود ہیں ذروں میں اپنی شانِ قدرت سے
بر ملا کہتا ہے گل بخشالویؔ میرے نبیؐ


ہے دو عالم میں جو کچھ بھی عیاں ہے یا نہاں اُس کا
بے گماں شانِ رسالتؐ دیکھتا ہوں آپؐ کی


٭٭٭
٭٭٭
سطر 749: سطر 734:
   
   


میری ہر دھڑکن عبادت ہے تری، میرے خدا!
ہے عطا تیری کہ اب ہے شاعری میری وفا


صور اسرافیل کی جب قبر میں آئے ندا
جو لوگ عشق محمدؐ سے کم نہیں کرتے
غم حیات کا کوئی بھی غم نہیں کرتے


آنکھ میں کھولوں تو لب پر ہو درودِ مصطفیٰؐ
مرے حضورؐ کی تعریف جو نہیں لکھتے


تُو تو کہتا ہے، تجھے کوئی نہیں ہے دیکھتا
وہ اپنی انگلیاں پھر کیوں قلم نہیں کرتے


میں نے دیکھا ہے تجھے، اپنے ہی دل میں اے خدا
اُنہیں حیات میں سکھ چین کب میسر ہوں


تجھ سے پوشیدہ مرا، کوئی عمل ممکن نہیں
نبیؐ کی یاد میں جو آنکھ نم نہیں کرتے


تو جہاں ہوتا نہیں، ایسی جگہ کوئی بتا
چلیں جو عشق محمدؐ میں عظمتیں پانے


میں جبیں رکھ دو جہاں، ہوتے ہیں میرے سامنے
کسی بھی رزم میں پیچھے قدم نہیں کرتے


تیرے جلوے آشنا، قدرت تیر ی، تری عطا
در حبیب پہ جا کر بھی خالی ہاتھ آئے


خالق ومسجود تو ہے، رازق و معبود تُو
نبی کسی پہ بھی ایسا ستم نہیں کرتے


تو خدا، جلوے ترے، تیری عطا میری ضیا
ہے آرزو کے ملے جام سب کو کوثر کا


ہیں جبین ناز میں جلوے ترے، دل میں مرے
طلب کسی سے بھی تو جام جم نہیں کرتے
 
نور کے جلوے ترے، محبوبؐ تیرے مصطفیٰؐ


٭٭٭
٭٭٭
سطر 782: سطر 765:
   
   


مجھ پر میرے مولا کی ہے رحمت کی برسات


میرا جیون پاک نبیؐ کے قدموں میں سوغات


ہر سوایک اندھیر نگر تھا، جیون غم کی شام


نعوت رسولؐ
آپ محمدؐ کی آمد ہے دنیا میں شب برات


جو شیطان کے بہکاوے میں، جنت ہم نے کھوئی


آپؐ مدینے میں آئے وہ لے کر اپنے ساتھ


میں خالی ہاتھ تو آیا نہیں مدینے سے
جی کرتا ہے یثرب کے صحرا میں خوب نہاؤں
ہوا بہار کی آنے لگی ہے سینے سے


نہا کے دھوپ میں آیا ہوں جب مدینے سے
مجھ ناچیز قلندر کے بے قابو ہیں جذبات


مہک گلاب کی آئے نہ کیوں پسینے سے
میرے سجدوں کی منزل ہے، جنت دیس مدینہ


مرے شعور میں موجود گر نہیں احمدؐ
ایک مسافر گل بخشالی دن دیکھوں نا رات


مرے خدا مری تو بہ ہے ایسے جینے سے
٭٭٭


اُسے حیات کا ساحل نصیب ہو کیوں کر


اُتر گیا ہو محمدؐ کے جو سفینے سے


نبیؐ تو آئے ہزاروں، ہے شانِ احمدؐ کی
 
 
فضا میں کھیلتی خوشبو ہے جو مدینے کی
وہی تو حسن ہے دنیا میں ہنسنے جینے کی
 
نسیم صبح کے جھونکوں میں گیت گانے کو
 
شفیق ماں مجھے کہتی ہے جاگ جانے کو
 
شعور و فکر میں جو انقلاب آیا ہے
 
مرا نبیؐ ہی تو یہ انقلاب لایا ہے
 
خدا کی حکمت اعجاز کے وہؐ مظہر ہیں


جہاں میں روشنی پھیلی تو اس نگینے سے
نہیں ہے آپ کا ثانی نہ کوئی سایا ہے


نبیؐ کے عشق میں کھو کر ذرا تو دیکھو گلؔ
شب حیات کو ہم نور سے نکھاریں گے


حیات کیسی گزرتی ہے پھر قرینے سے
نبیؐ سے عشق میں گلؔ عاقبت سنواریں گے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 826: سطر 822:
   
   


ہمارے دل، ہمارے لب فدا ہوں، شاہ دوراں پر
دھڑک رہا ہے محمدؐ ہمارے سینے میں
بڑے احساں ہیں، اس انسانِ کامل کے ہر انساں پر
عجیب لطف ہے رمضان کے مہینے میں


شہہ والا کا دیوانہ ہوں، یہ اعزاز کیا کم ہے
غم حیات کی موجوں سے کہہ دیا میں نے


محبت ناز کرتی ہے مرے چاکِ گریباں پر
نبیؐ سے پیار مرے ساتھ ہے سفینے میں


مدینے کی فضاؤں میں مہک تازہ گلوں کی ہے
نبیؐ سے عشق مرے خون کی حرارت ہے


بہارِ خلد حیراں ہے، مدینے کے گلستاں پر
مرے یقین کی خوشبو مرے پسینے میں


ہے دو عالم میں رونق، آمنہ کے لالؐ کے دم سے
مرے وجود کو عالم کا ہوش ہو کیسے


جمالِ دوجہاں قربان ہے، شاہ رسولاں پر
نبیؐ سے عشق جو شامل ہے میرے پینے میں


تری زلفوں میں دیکھا، سورہِ واللیل کا منظر
مرے نبیؐ تری عظمت بیاں کروں کیسے


پَر جبریل نازاں ہے، تری صبح درخشاں پر
خدا سے عشق جگایا تو کس قرینے میں


کلی کھل کھل کے ہنستی ہے، مہکتا ہے ہر اک غنچہ
بس اب تو ایک ہی خواہش ہے مصطفیٰؐ میری


ہوا جب جھوم کے آتی ہے، یثرب کے خیاباں پر
جہاں سے ہو مری رخصت حرم کے زینے میں


محمدؐ سے عقیدت اصل میں، وجہہ شفاعت ہے
بہار رُت ہے مری روح، گلؔ عقیدت ہے


شہہ دیں سے محبت، گلؔ ہے لازم ہر مسلماں پر
کہاں سے گھوم کے آیا ہوں میں مدینے میں


٭٭٭
٭٭٭
سطر 857: سطر 853:
   
   


فکر میں شان نبوت دیکھتا ہوں آپؐ کی
دلنشیں سیرت میں صورت دیکھتا ہوں آپؐ کی


آپؐ کے چہرے پہ روشن نور ہے توحید کا
جہاں کی خاک کا ہر ذرہ اک نگینہ ہے
مری نگاہ میں بس ایک وہ مدینہ ہے


اور آنکھوں میں رسالت دیکھتا ہوں آپؐ کی
نظر ہے اُس پہ محمدؐ کی، غم نہیں کوئی


کون دیکھے آپؐ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
مری حیات کا لہروں پہ جو سفینہ ہے


سر خمیدہ ساری اُمت دیکھتا ہوں آپؐ کی
خدا سے ربط کا منشور جس میں آیا ہے


انگلیوں میں آپؐ کی شق القمر کا معجزہ
جہاں کاحسن وہ رمضان کا مہینہ ہے


شمس لوٹا نے کی ندرت دیکھتا ہوں آپؐ کی
نبیؐ کا فیض ہے، گرہیں وجود میں روشن


آپؐ نے رنگ و زباں کی سب فصلیں توڑ دیں
دل و دماغ کشادہ، جو میرا سینہ ہے


دین کی باہوں میں قوت دیکھتا ہوں آپؐ کی
مرے نبیؐ کی بدولت، کرم خدا کا ہے


رشک کرتا ہوں میں اپنی عظمت تقدیر پر
جو اس جہاں میں جینے کا اک قرینہ ہے


خود پہ جب نظر عنایت دیکھتا ہوں آپؐ کی
میں جانتا ہوں یہ بخشالویؔ کہ جنت کا


بر ملا کہتا ہے گل بخشالویؔ میرے نبیؐ
نبیؐ سے عشق ہی واحد ہمارا زینہ ہے


بے گماں شانِ رسالتؐ دیکھتا ہوں آپؐ کی
٭٭٭


٭٭٭


   
   
سطر 892: سطر 888:
   
   


جو لوگ عشق محمدؐ سے کم نہیں کرتے
باغ جنت سے محمدؐ کی خبر آئی ہے
غم حیات کا کوئی بھی غم نہیں کرتے
عید میلاد کا پیغام صبا لائی ہے


مرے حضورؐ کی تعریف جو نہیں لکھتے
بارشِ ابر کرم خشک زمیں پر ہو گی


وہ اپنی انگلیاں پھر کیوں قلم نہیں کرتے
رحمت نورِمجسم کی گھٹا چھائی ہے


اُنہیں حیات میں سکھ چین کب میسر ہوں
ایک مدت سے یہاں کفر کی تھی بادِ خزاں


نبیؐ کی یاد میں جو آنکھ نم نہیں کرتے
آپؐ آئے تو گلستاں میں بہار آئی ہے


چلیں جو عشق محمدؐ میں عظمتیں پانے
آپؐ کے سامنے ہر جھوٹ نے دم توڑ دیا


کسی بھی رزم میں پیچھے قدم نہیں کرتے
ضو فشاں چاروں طرف آپؐ کی سچائی ہے


در حبیب پہ جا کر بھی خالی ہاتھ آئے
آپؐ کی حکمت و دانش کا ہے یہ بھی اعجاز


نبی کسی پہ بھی ایسا ستم نہیں کرتے
میرے جذبات میں جو قوت گویائی ہے


ہے آرزو کے ملے جام سب کو کوثر کا
آپ کر دیں چمن دل پہ کرم کی بارش


طلب کسی سے بھی تو جام جم نہیں کرتے
شاہ کونین یہ گلؔ آپؐ کا شیدائی ہے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 921: سطر 917:
   
   


مجھ پر میرے مولا کی ہے رحمت کی برسات


میرا جیون پاک نبیؐ کے قدموں میں سوغات
 
نگاہ عشق نے گلزار جب ترا دیکھا
نگاہ دل نے بھی دربار مصطفیٰؐ دیکھا
 
مرے خدا وہ مدینے میں رات کا منظر
 
فلک پہ چاند ستاروں کو جھومتا دیکھا


ہر سوایک اندھیر نگر تھا، جیون غم کی شام
مرے حبیب نے مجھ کو امان میں رکھا


آپ محمدؐ کی آمد ہے دنیا میں شب برات
کبھی فقیر پہ مشکل جو مرحلہ دیکھا


جو شیطان کے بہکاوے میں، جنت ہم نے کھوئی
مرے سرور کے عالم کی انتہا تھی جب


آپؐ مدینے میں آئے وہ لے کر اپنے ساتھ
حرم شریف میں روضہ جو آپ کا دیکھا


جی کرتا ہے یثرب کے صحرا میں خوب نہاؤں
خدا نے آپؐ کو جس حسن سے نوازا ہے


مجھ ناچیز قلندر کے بے قابو ہیں جذبات
نبیؐ تو ایسا کسی نے نہ دوسرا دیکھا


میرے سجدوں کی منزل ہے، جنت دیس مدینہ
ہوئے تھے چاند کے دو ٹکڑے اک اشارے پر


ایک مسافر گل بخشالی دن دیکھوں نا رات
ہر ایک آنکھ نے دنیا میں معجزہ دیکھا


٭٭٭
٭٭٭
سطر 951: سطر 954:
   
   


فضا میں کھیلتی خوشبو ہے جو مدینے کی
جہاں میں یارسول اللہ ترا ثانی نہیں ہے
وہی تو حسن ہے دنیا میں ہنسنے جینے کی
کوئی تیری سی شخصیت کبھی آنی نہیں ہے


نسیم صبح کے جھونکوں میں گیت گانے کو
ترے اظہار پر ایمان جو لائی تھی پہلے


شفیق ماں مجھے کہتی ہے جاگ جانے کو
تری بی بی خدیجہؓ سی کوئی رانی نہیں ہے


شعور و فکر میں جو انقلاب آیا ہے
ملے جنت بھلا کیسے، یہ فرمایا نبیؐ نے


مرا نبیؐ ہی تو یہ انقلاب لایا ہے
خدا کے خوف سے جس آنکھ میں پانی نہیں ہے


خدا کی حکمت اعجاز کے وہؐ مظہر ہیں
نبی آئے تو ہیں لاکھوں یقیناً تھے مسلماں


نہیں ہے آپ کا ثانی نہ کوئی سایا ہے
مگر تجھؐ سا کوئی اسلام کا بانی نہیں ہے


شب حیات کو ہم نور سے نکھاریں گے
میں گل بخشالویؔ دیکھوں گا جا کر گل مدینہ


نبیؐ سے عشق میں گلؔ عاقبت سنواریں گے
بنا دیکھے تو میری جان بھی جانی نہیں ہے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 978: سطر 981:
   
   


دھڑک رہا ہے محمدؐ ہمارے سینے میں
عجیب لطف ہے رمضان کے مہینے میں


غم حیات کی موجوں سے کہہ دیا میں نے


نبیؐ سے پیار مرے ساتھ ہے سفینے میں
مہکی ہے فضا گیسوئے محبوب عرب سے
خوشبوئے سحر آنے لگی کاکل شب سے


نبیؐ سے عشق مرے خون کی حرارت ہے
دیکھے تو کوئی معجزہ گنبد خضریٰ


مرے یقین کی خوشبو مرے پسینے میں
تقدیر بدل جاتی ہے اک جنبش لب سے


مرے وجود کو عالم کا ہوش ہو کیسے
اللہ رے تہذیب مدینہ کی یہ عظمت


نبیؐ سے عشق جو شامل ہے میرے پینے میں
جنت کی ہوا بھی یہاں آتی ہے ادب سے


مرے نبیؐ تری عظمت بیاں کروں کیسے
دھڑکن جو مرے دل میں ہے الفت کی ہے دھڑکن


خدا سے عشق جگایا تو کس قرینے میں
یہ جلوۂ عالم ہے عقیدت کے سبب سے


بس اب تو ایک ہی خواہش ہے مصطفیٰؐ میری
گلؔ !اپنے تذبذب کا تو کچھ راز بتاؤ


جہاں سے ہو مری رخصت حرم کے زینے میں
کیوں رہتے ہو ہر بزم میں تم شکوہ بہ لب سے
 
بہار رُت ہے مری روح، گلؔ عقیدت ہے
 
کہاں سے گھوم کے آیا ہوں میں مدینے میں


٭٭٭
٭٭٭
سطر 1,011: سطر 1,010:
   
   


جہاں کی خاک کا ہر ذرہ اک نگینہ ہے
مری نگاہ میں بس ایک وہ مدینہ ہے


نظر ہے اُس پہ محمدؐ کی، غم نہیں کوئی


مری حیات کا لہروں پہ جو سفینہ ہے
شعور و فکر میں ارفع مقام آیا ہے
کمال شخص ہے کیا نور ساتھ لایا ہے


خدا سے ربط کا منشور جس میں آیا ہے
خدا نے نور سے اپنے اُسے سجایا ہے


جہاں کاحسن وہ رمضان کا مہینہ ہے
نہ اُس کے روپ سا کوئی نہ اُس کا سایا ہے


نبیؐ کا فیض ہے، گرہیں وجود میں روشن
جمال آپؐ کا !ہو پھول کوئی جنت کا


دل و دماغ کشادہ، جو میرا سینہ ہے
خدا نے نور کا جلوہ ہمیں دکھایا ہے


مرے نبیؐ کی بدولت، کرم خدا کا ہے
مری حیات نے لکھا ہے آپؐ کو دل پر


جو اس جہاں میں جینے کا اک قرینہ ہے
مرے شعور نے جب بھی قلم اُٹھایا ہے


میں جانتا ہوں یہ بخشالویؔ کہ جنت کا
زباں پہ ذکر رہے، بس تو یارسولؐ اللہ


نبیؐ سے عشق ہی واحد ہمارا زینہ ہے
یہ گلؔ کو فکر کی معراج نے سکھایا ہے


٭٭٭
٭٭٭
سطر 1,044: سطر 1,043:
   
   


باغ جنت سے محمدؐ کی خبر آئی ہے
امین فرش پہ پیغام لے کے آیا ہے
عید میلاد کا پیغام صبا لائی ہے
خدا نے عرش پہ محبوب کو بلایا ہے


بارشِ ابر کرم خشک زمیں پر ہو گی
ہمیں ہے فخر کہ ہم اُس نبیؐ کی اُمت ہیں


رحمت نورِمجسم کی گھٹا چھائی ہے
خدا نے عرش پہ جلوہ جسے دکھایا ہے


ایک مدت سے یہاں کفر کی تھی بادِ خزاں
نبی کھڑے ہیں قطاروں میں کل زمانوں کے


آپؐ آئے تو گلستاں میں بہار آئی ہے
نماز کے لیے اُن کا امام آیا ہے


آپؐ کے سامنے ہر جھوٹ نے دم توڑ دیا
مرے خدا ذرا اُن پر کرم کی بارش کر


ضو فشاں چاروں طرف آپؐ کی سچائی ہے
نبیؐ سے عشق کا جن کو خیال آیا ہے


آپؐ کی حکمت و دانش کا ہے یہ بھی اعجاز
مرا نبیؐ کہ نہ سایہ تھا جس کے پیکر کا


میرے جذبات میں جو قوت گویائی ہے
میں خوش نصیب ہوں گلؔ مجھ پہ اُن کا سایا ہے


آپ کر دیں چمن دل پہ کرم کی بارش
٭٭٭


شاہ کونین یہ گلؔ آپؐ کا شیدائی ہے
ہیں سر پہ مرے احمدؐ مشکل کشا کے ہاتھ


٭٭٭
دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ


منظر نظر کے سامنے ہوتا ہے نور کا


لیتا ہوں جب بھی نام مدینہ اُٹھا کے ہاتھ


میرے نبیؐ کے حسن میں کعبے کا نور ہے


جاتے ہیں اُس کی دید کو عاشق کٹا کے ہاتھ


نگاہ عشق نے گلزار جب ترا دیکھا
لب پر مرے درودِ محمدؐ ہو اُس گھڑی
نگاہ دل نے بھی دربار مصطفیٰؐ دیکھا


مرے خدا وہ مدینے میں رات کا منظر
زنجیر زندگی کی جو کھولے، قضا کے ہاتھ


فلک پہ چاند ستاروں کو جھومتا دیکھا
یارب مری حیات کا جب ہو چراغ گلؔ


مرے حبیب نے مجھ کو امان میں رکھا
محراب مصطفے میں کھڑا ہوں اُٹھا کے ہاتھ


کبھی فقیر پہ مشکل جو مرحلہ دیکھا
٭٭٭


مرے سرور کے عالم کی انتہا تھی جب
وہ آ گئے ہیں نبیؐ ہمارے یہ کہہ رہی ہے ہوا کی خوشبو


حرم شریف میں روضہ جو آپ کا دیکھا
وہ لے کے آئے عرب کے صحرا میں پھول بن کر خدا کی خوشبو


خدا نے آپؐ کو جس حسن سے نوازا ہے
اَزل اُسیؐ سے، ابد اُسیؐ سے، وہؐ نورِ اوّل، وہؐ نور آخر


نبیؐ تو ایسا کسی نے نہ دوسرا دیکھا
اُسیؐ سے ہے ابتداء کی خوشبو، اُسیؐ سے ہے انتہا کی خوشبو


ہوئے تھے چاند کے دو ٹکڑے اک اشارے پر
مہک رہی تھیں گلاب کلیاں، تو چاند چودہ کا چھپ گیا تھا


ہر ایک آنکھ نے دنیا میں معجزہ دیکھا
گلاب رحمت کا مسکرایا، جہاں میں بن کر خدا کی خوشبو


٭٭٭
سکون ہے وہؐ، قرار ہے وہؐ، چمن چمن کی بہار ہے وہؐ


وہؐ باغِ حق کا گلاب تازہ، اُسی سے قائم وفا کی خوشبو


مؤذنِ شاہ بحر و بَر نے، اذاں میں ایسی مٹھاس بھر دی


مہک رہی ہے ہمارے کانوں میں آج تک اُس صدا کی خوشبو


خوشی سے ہر شاخ جھومتی ہے، کلی کلی کو وہ چومتی ہے


جہاں میں یارسول اللہ ترا ثانی نہیں ہے
صبا چمن سے اُڑا کے لائی ہے آج صلِ علیٰ کی خوشبو
کوئی تیری سی شخصیت کبھی آنی نہیں ہے


ترے اظہار پر ایمان جو لائی تھی پہلے
وہ کالے پتھر، وہ سنگ ریزے، مہک اُٹھے تھے گلؔ اس طرح سے


تری بی بی خدیجہؓ سی کوئی رانی نہیں ہے
دلہن کے ہاتھوں سے جیسے آئے مہک مہک کر حنا کی خوشبو


ملے جنت بھلا کیسے، یہ فرمایا نبیؐ نے
٭٭٭


خدا کے خوف سے جس آنکھ میں پانی نہیں ہے


نبی آئے تو ہیں لاکھوں یقیناً تھے مسلماں


مگر تجھؐ سا کوئی اسلام کا بانی نہیں ہے
ذکر اللہ ہو ہے گر تسکین میرے روح کی


میں گل بخشالویؔ دیکھوں گا جا کر گل مدینہ
یانبیؐ کے ذکر میں ایمان کی ہے تازگی


بنا دیکھے تو میری جان بھی جانی نہیں ہے
دسترس میں کیا نہیں تھا، یا رسول اللہ تیرے


٭٭٭
کاش!میں اپنا سکوں جینے میں تیری سادگی


میں ہوا مدہوش دل جنت لگا اپنا مجھے


یاد جب سینے سے تیری یا محمدؐ آ لگی


دشمنوں نے بھی تجھے، دل سے کیا تسلیم تھا


کیا ترے لہجے میں تھی، اللہ قسم شائستگی


میں مدینے کی گلی کوچوں کا مجنوں آؤں گا


مہکی ہے فضا گیسوئے محبوب عرب سے
ہوا گر منظور گل بخشالویؔ کی دل لگی
خوشبوئے سحر آنے لگی کاکل شب سے


دیکھے تو کوئی معجزہ گنبد خضریٰ
٭٭٭


تقدیر بدل جاتی ہے اک جنبش لب سے


اللہ رے تہذیب مدینہ کی یہ عظمت
یارب مرے جیون کو مدینے کی ہوا دے


جنت کی ہوا بھی یہاں آتی ہے ادب سے
توحید کے نغمے مری ہستی کے سُنا دے


دھڑکن جو مرے دل میں ہے الفت کی ہے دھڑکن
رحمت تو تری عام ہے، لیکن مرے مولا


یہ جلوۂ عالم ہے عقیدت کے سبب سے
قدرت کے نظارے بھی مدینے میں دکھا دے


گلؔ !اپنے تذبذب کا تو کچھ راز بتاؤ
محبوبؐ مرے دل میں ہی رہتا تو ہے پھر بھی


کیوں رہتے ہو ہر بزم میں تم شکوہ بہ لب سے
بس رو ضۂ اقدس مرے سینے سے لگا دے


٭٭٭
میں گنبد خضریٰ کے نظاروں میں نہاؤں


مولا تو مرا گھر بھی مدینے میں بنا دے


ہے نور محمدؐ مری آنکھوں میں تو مولا!


خوشبوئے محمدؐ بھی مرے دل میں بسادے


بس ایک ہی خواہش ہے مرے پیارے نبیؐ سے


شعور و فکر میں ارفع مقام آیا ہے
جنت میں وہ کوثر مجھے ہاتھوں سے پلا دے
کمال شخص ہے کیا نور ساتھ لایا ہے


خدا نے نور سے اپنے اُسے سجایا ہے
اعزاز بڑا اس سے بھلا کیا ہو کسی کا


نہ اُس کے روپ سا کوئی نہ اُس کا سایا ہے
جیون کی اگر شام مدینے میں خدا دے


جمال آپؐ کا !ہو پھول کوئی جنت کا
برسات ہو رحمت کی مدینے میں خدا یا


خدا نے نور کا جلوہ ہمیں دکھایا ہے
لہروں میں کرم کے تو ذرا گلؔ کو بہا دے


مری حیات نے لکھا ہے آپؐ کو دل پر
٭٭٭


مرے شعور نے جب بھی قلم اُٹھایا ہے
گل کائنات حلقۂ خیر البشر میں ہے


زباں پہ ذکر رہے، بس تو یارسولؐ اللہ
دنیا کی دھوپ چھاؤں بھی اُن کی نظر میں ہے


یہ گلؔ کو فکر کی معراج نے سکھایا ہے
صدقہ مرے حضورؐ کا، اللہ کا ہے کرم


٭٭٭
جو حسن اس جہان کے شمس و قمر میں ہے


قدرت کا شاہکار ہے احمدؐ کی ذات پاک


میرے نبیؐ کا حسن، مرے بال و پر میں ہے


وعدہ یہ رب کل کا ہے دنیا اُسی کے نام


گر یاد مصطفیٰؐ بھی کسی چشم تر میں ہے


امین فرش پہ پیغام لے کے آیا ہے
قرآن ہے تو روپ ترا، رب ذوالجلال
خدا نے عرش پہ محبوب کو بلایا ہے
 
ہمیں ہے فخر کہ ہم اُس نبیؐ کی اُمت ہیں
 
خدا نے عرش پہ جلوہ جسے دکھایا ہے
 
نبی کھڑے ہیں قطاروں میں کل زمانوں کے
 
نماز کے لیے اُن کا امام آیا ہے
 
مرے خدا ذرا اُن پر کرم کی بارش کر
 
نبیؐ سے عشق کا جن کو خیال آیا ہے
 
مرا نبیؐ کہ نہ سایہ تھا جس کے پیکر کا
 
میں خوش نصیب ہوں گلؔ مجھ پہ اُن کا سایا ہے
 
٭٭٭
 
 
 
 
 
 
ہیں سر پہ مرے احمدؐ مشکل کشا کے ہاتھ
دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ
 
منظر نظر کے سامنے ہوتا ہے نور کا
 
لیتا ہوں جب بھی نام مدینہ اُٹھا کے ہاتھ
 
میرے نبیؐ کے حسن میں کعبے کا نور ہے
 
جاتے ہیں اُس کی دید کو عاشق کٹا کے ہاتھ
 
لب پر مرے درودِ محمدؐ ہو اُس گھڑی
 
زنجیر زندگی کی جو کھولے، قضا کے ہاتھ
 
یارب مری حیات کا جب ہو چراغ گلؔ
 
محراب مصطفے میں کھڑا ہوں اُٹھا کے ہاتھ
 
٭٭٭
 
 
 
 
وہ آ گئے ہیں نبیؐ ہمارے یہ کہہ رہی ہے ہوا کی خوشبو
وہ لے کے آئے عرب کے صحرا میں پھول بن کر خدا کی خوشبو
 
اَزل اُسیؐ سے، ابد اُسیؐ سے، وہؐ نورِ اوّل، وہؐ نور آخر
 
اُسیؐ سے ہے ابتداء کی خوشبو، اُسیؐ سے ہے انتہا کی خوشبو
 
مہک رہی تھیں گلاب کلیاں، تو چاند چودہ کا چھپ گیا تھا
 
گلاب رحمت کا مسکرایا، جہاں میں بن کر خدا کی خوشبو
 
سکون ہے وہؐ، قرار ہے وہؐ، چمن چمن کی بہار ہے وہؐ
 
وہؐ باغِ حق کا گلاب تازہ، اُسی سے قائم وفا کی خوشبو
 
مؤذنِ شاہ بحر و بَر نے، اذاں میں ایسی مٹھاس بھر دی
 
مہک رہی ہے ہمارے کانوں میں آج تک اُس صدا کی خوشبو
 
خوشی سے ہر شاخ جھومتی ہے، کلی کلی کو وہ چومتی ہے
 
صبا چمن سے اُڑا کے لائی ہے آج صلِ علیٰ کی خوشبو
 
وہ کالے پتھر، وہ سنگ ریزے، مہک اُٹھے تھے گلؔ اس طرح سے
 
دلہن کے ہاتھوں سے جیسے آئے مہک مہک کر حنا کی خوشبو
 
٭٭٭
 
 
 
ذکر اللہ ہو ہے گر تسکین میرے روح کی
یانبیؐ کے ذکر میں ایمان کی ہے تازگی
 
دسترس میں کیا نہیں تھا، یا رسول اللہ تیرے
 
کاش!میں اپنا سکوں جینے میں تیری سادگی
 
میں ہوا مدہوش دل جنت لگا اپنا مجھے
 
یاد جب سینے سے تیری یا محمدؐ آ لگی
 
دشمنوں نے بھی تجھے، دل سے کیا تسلیم تھا
 
کیا ترے لہجے میں تھی، اللہ قسم شائستگی
 
میں مدینے کی گلی کوچوں کا مجنوں آؤں گا
 
ہوا گر منظور گل بخشالویؔ کی دل لگی
 
٭٭٭
 
 
 
 
 
 
 
یارب مرے جیون کو مدینے کی ہوا دے
توحید کے نغمے مری ہستی کے سُنا دے
 
رحمت تو تری عام ہے، لیکن مرے مولا
 
قدرت کے نظارے بھی مدینے میں دکھا دے
 
محبوبؐ مرے دل میں ہی رہتا تو ہے پھر بھی
 
بس رو ضۂ اقدس مرے سینے سے لگا دے
 
میں گنبد خضریٰ کے نظاروں میں نہاؤں
 
مولا تو مرا گھر بھی مدینے میں بنا دے
 
ہے نور محمدؐ مری آنکھوں میں تو مولا!
 
خوشبوئے محمدؐ بھی مرے دل میں بسادے
 
بس ایک ہی خواہش ہے مرے پیارے نبیؐ سے
 
جنت میں وہ کوثر مجھے ہاتھوں سے پلا دے
 
اعزاز بڑا اس سے بھلا کیا ہو کسی کا
 
جیون کی اگر شام مدینے میں خدا دے
 
برسات ہو رحمت کی مدینے میں خدا یا
 
لہروں میں کرم کے تو ذرا گلؔ کو بہا دے
 
٭٭٭
 
 
 
 
 
گل کائنات حلقۂ خیر البشر میں ہے
دنیا کی دھوپ چھاؤں بھی اُن کی نظر میں ہے
 
صدقہ مرے حضورؐ کا، اللہ کا ہے کرم
 
جو حسن اس جہان کے شمس و قمر میں ہے
 
قدرت کا شاہکار ہے احمدؐ کی ذات پاک
 
میرے نبیؐ کا حسن، مرے بال و پر میں ہے
 
وعدہ یہ رب کل کا ہے دنیا اُسی کے نام
 
گر یاد مصطفیٰؐ بھی کسی چشم تر میں ہے
 
قرآن ہے تو روپ ترا، رب ذوالجلال


میرے نبیؐ کا ذکر بھی زیر و زبر میں ہے
میرے نبیؐ کا ذکر بھی زیر و زبر میں ہے
سطر 1,389: سطر 1,204:
٭٭٭
٭٭٭




جمالِ دوجہاں، محبوبؐ رب العالمین آئے


جمالِ دوجہاں، محبوبؐ رب العالمین آئے
عطائے کبریا ہو کر، وہ ختم المرسلین آئے
عطائے کبریا ہو کر، وہ ختم المرسلین آئے


سطر 2,773: سطر 2,580:
   
   


حمد و مناجات
=== حمد و مناجات ===
   
   


سطر 2,850: سطر 2,657:
   
   


کعبۃ اللہ میں
==== کعبۃ اللہ میں ====
   
   


سطر 2,888: سطر 2,695:
   
   


عشق مصطفیٰؐ
==== عشق مصطفیٰؐ ====
   
   


سطر 2,933: سطر 2,740:
   
   


گنبد خضریٰ کے سائے میں
=== گنبد خضریٰ کے سائے میں ===
   
   


سطر 2,962: سطر 2,769:
   
   


قطعات
==== قطعات ====
   
   


سطر 3,055: سطر 2,862:
   
   


غمِ حسینؑ
=== غمِ حسینؑ ===
   
   


قطعات
====  قطعات ====
   
   


سطر 3,105: سطر 2,912:
   
   


نواسۂ رسول اللہ
==== نواسۂ رسول اللہ ====
   
   



نسخہ بمطابق 19:02، 25 ستمبر 2017ء


شاعر: گل بخشالوی

گلستانِ نعت اور مَیں

بقول حضرت سعدیؒ خدائے بزرگ و برتر کا ہزار احسان !جس کی اطاعت سے اس کے قرب کی نشانی اور جس کے شکر بجا لانے میں نعتوں کی فراوانی ہے ہرسانس جو اندر جاتا ہے زندگی بخش اور جب باہر آتا ہے تو فرحت بخش، پس ہر سانس میں دو نعمتیں ہیں اور ہر نعمت کے لیے اس کا شکر واجب ہے۔ رب ذوالجلال کی بے حساب رحمتوں کی بارش سب پر برس رہی ہے وہ نہ کبیرہ گناہ پہ گنہگاروں کی عزت کا پردہ چاک کرتا ہے اور نہ سرکشی پر سرکشوں کی روزی کم کرتا ہے۔ زندگی رب ذوالجلال کی دی ہوئی ایک بیش بہا و دلربا نعمت ہے اس نعمت سے سرفرازی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت اور نور سے سنوار کر حضرت انساں کی راہنمائی کے لیے اپنے محبوب محمدﷺ کا انتخاب کیا۔ آپﷺ جہانِ فانی میں تشریف لائے اور عطائے نبوت سے قبل اپنی عملی اور دنیاوی زندگی کے چالیس سال میں اپنے عمل و کردار اور حسنِ اخلاق سے خدا کے بابت ہر صاحب شعور کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور جب اُس وقت کے جاہل اور مشرک بھی کہنے لگے کہ آپﷺ صادق اور امین ہیں تو آپﷺ نے عالم انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا پیغام عام کر دیا اور شعورِ انساں میں یہ پیغام مہکنے لگا کہ اللہ ایک ہے وہی رازق و خالق ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ اُس کے آخری رسول ہیں۔

یوں بھٹکی ہوئی دنیا کے شعورو فکر میں ایک انقلاب آ گیا۔ آپﷺ دنیا میں مختصر قیام کے لیے تشریف لائے اور اپنے حسن اخلاق اور کردار و عمل سے فانی دنیا میں انسان کو زندگی کے حسن سے مالا مال کر دیا۔ آج فرزندانِ توحید ایک خدا کی عبادت اور تعریف کے ساتھ ساتھ رسولِ خدا کے گیت گا رہے ہیں۔ نعت گوئی اسلامی تہذیب کی پہچان ہے شاعری فکر و شعور میں رب العزت کی عطاء کردہ ایک صلاحیت ہے یہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر اچھا نعت گوبھی ہو جس خوش بخت کو یہ اعزاز حاصل ہے وہ مذہبی دنیا میں ممتاز ہے۔ اُساتذہ کہتے ہیں کہ ایک اچھا غزل گو شاعر اگر اپنی شاعری کا رُخ نعت پر مرکوز کر دے تو وہ ایک بہترین نعت گو ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ غزل کا مرکز حسن ہے اگر یہ سچ ہے تو سرورِکائنات سے زیادہ خوبصورت کردار کا مالک کون ہو سکتا ہے ؟عشقِ انسان کی دنیا ہے اور رسول خدا سے عشق ابدی زندگی کا لافانی حسن ہے۔ ہر غزل گو شاعر جسے شاعری کی پاکیزگی کا احساس ہے اگر وہ شاعری کے رموز اپنے شعور و فکر واحساس میں بخوبی جان لے اور وہ کسی صاحب فن کی دہلیز سے واقف ہو تو اُس کی شاعری کا گلشن مہک سکتا ہے کیونکہ گلشن کی زینت مالی کی محتاج ہے اس لیے کہ وہی گلشن میں کیاریوں کی ردیف اور پودوں کا ردم جانتا ہے۔ اس لیے کہ شاعری ذہن کا نکھار مطالعہ اور شاگردی کی محتاج ہے شعری رموز، تلفظ، اوزان، ردم اُساتذہ ہی کی فکر و نظر سے نکھرتے ہیں اُساتذہ کی فکر و نظر کے بغیر شاعری کا حسن کسی مہ جبین کے رم جھم موسم میں بھیگے، بکھرے گیسوؤں کی طرح ہے۔ شعر کا ہر مصرع صاحب علم و فن کی نظر سے گزرنے کے بعد ہی کسی مہ جبین کے لال گلابی ہونٹوں کی طرح دلکش اور دل آویز ہوتا ہے۔

نعت گوئی کے لیے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ لازمی ہے اس لیے کہ جب تک شاعر کے شعور میں محمدﷺ کی زندگی میں اُن کے کردار و عمل کا عکس نہ ہو گا تب تک وہ اپنی بصیرت کی نگاہ سے صورت مصطفیٰﷺ نہ دیکھے گا وہ شانِ مصطفیٰﷺ سے کیسے بہرہ ور ہو گا ؟وہی شاعر ایک اچھا نعت گو ہو سکتا ہے جسے نبیﷺ سے عشق کے ساتھ ساتھ نبیﷺ کی ذات با برکات اور آپﷺ کی زندگی کے ہر پہلو سے آشنائی ہو جب شاعر اُسوۂ حسنہ کو اپنانے اور آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی دلی اقرار کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی دنیا کو حب مصطفیٰﷺ کا محور بنا لے تو اُس کی تقدیر کا ستارہ فلک شاعری پر جگمگاسکتا ہے لیکن شرط یہ بھی ہے کہ سرکارﷺ کی محبت اور عقیدت کا اظہار اُس کے ذاتی عمل و کردار میں بھی ہو دین میں ہر مسلمان کی حضورﷺ سے محبت اُس کی عظمت ہے لیکن محبت میں خدا اور رسول خدا یعنی معبود اور محبوب کے مقام کا خیال رکھا جائے عشقِ نبیﷺ میں حدودِ عشق سے تجاوز شرک ہے اور شاعر کو اظہار فکر میں اس امر کا خیال رکھنا چاہیے۔ عشق کی دیوانگی میں اظہار عشق کے دوران مقام اشرف المخلوقات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اپنے آپ کو الفاظ کی لہر میں اس قدر نیچے نہ لایا جائے کہ عظمت انسان کی توہین ہو مسلم ذات کوئی معمولی ذات نہیں اگر اللہ تعالیٰ اس انسان کوا یک سجدہ نہ کرنے کے جرم میں ایک مقرب فرشتے کو شیطان قرار دے کر دھتکار سکتا ہے تو یہ عظمت انسان کی ایک واضح پہچان ہے۔ اس لیے اسے عشق اور اظہار عشق میں اپنے اور مقامِ محبوبﷺ کا خیال رکھنا لازم ہے۔ دورانِ تخلیق دامن احتیاط کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ کچھ شعراء اپنے آپ کو محبوب خدا سے عشق میں کم ترین درجے پر لا کر سگ درمصطفیٰﷺ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ میری نظر میں یہ انسان کی توہین ہے نبیﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جس گھر میں کُتا بھونکتا ہے وہاں فرشتوں کی آمد نہیں ہوتی۔ اگر حضورﷺ کو اس جانور سے نفرت ہے تو انسان خود کو اس مقام پر کیوں لے آتا ہے ؟عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے نعت گوئی سیرت مصطفیٰﷺ سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے

گل شاہِ بحر و برکا اک ادنیٰ غلام ہے

اس سے بڑے کرم کا تصور حرام ہے

جس دلے کے آئینے میں محمدﷺ کا نام ہے

دوزخ کی آگ اُس پہ یقیناً حرام ہے

ضرورت اس امر کی ہے کہ نعت گو، اپنے کلام اور اظہار فکر و شعور میں نبیﷺ کی باطنی زندگی، حسن و جمال، سیرت و کردار اور اسوۂ حسنہ پر خاص توجہ دے تاکہ اگر وہ ایماندار جوراستے سے بھٹک گیا ہے اپنی اصلاح کر سکے اگر کسی بے ایمان کو نعت نبیﷺ پڑھنے کا اتفاق ہو تو اُس کے دل میں سرورِکائنات کی عظمت وقار مصطفیٰﷺ کی شمع روشن ہو اور تعریف مصطفیٰﷺ پر مجبور ہو اس طرح شاعر اپنے اظہار فکر اور عشق مصطفیٰﷺ میں دنیائے عالم میں اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دے سکتا ہے میرا مطلب ہے کہ نعت نبیﷺ میں حضور کی سیرت و کردار کو اُجاگر کر کے ہم نعت کو تبلیغ کا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔ مانگنا تو ہماری فطرت ہے لیکن یہ دیکھا جائے کہ دینے والا کون ہے دینے والے کی رحمت و کرم کا اندازہ بھی ہونا چاہیے اگر ہمارے کردار و عمل اور اپنے عشق کے طفیل زندگی کی رعنائیاں نصیب ہیں تو کیوں نہ ہم دینے والے اور دینے والے کے حبیب کے گن گائیں ہم معبود کے محبوب کے گیت گائیں گے تو معبود کرم کی بارش میں دیر نہیں کرے گا۔ جہاں تک شاعری، خاص کر نعت نگاری میں میری ذات کا تعلق ہے تو میری مثال اُس گڈرئیے کی ہے جو عشق خدا میں مدہوش کہے جا رہا تھا اے اللہ!تیری کوئی بیٹی، بیٹا اور بیوی نہیں تو اکیلا خدا ہے کون تیرے بال سنوارے گا؟آ جا میں تیرے بال سنواروں، تیرے بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کروں، حضرت موسٰیؑ نے گڈرئیے کی ان باتوں پر ناگواری کا اظہار کیا تو اللہ نے فرمایا ’’موسیٰؑ !گڈرئیے کے لفظوں پر نہ جا بلکہ اس کے دل میں اُتر کر عشقِ خدا کی بلندی دیکھ۔

اللہ تعالیٰ کو میرے سجدۂ جبیں کی نہیں سجدۂ دل کی ضرورت ہے وہ دلوں کے راز جانتا ہے اس لیے میں بھی اسی اُمید پر اپنے عشق کا احترام کر رہا ہوں۔ شاید میری بھی کوئی ادا میری خوش بختی کا سبب بن جائے۔ میری مادری زبان پشتو ہے یوں صاحب زبان نہیں کم علم بھی ہوں اس لیے کا، کے، کی کی کھینچ تان میں بعض اوقات لفظوں اور مصرعوں کا توازن کھو بیٹھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ میں اپنی تحریر اور شاعری اپنے سے کم عمر لیکن صاحب فن کو بھی دکھانے میں اپنی توہین نہیں سمجھتا۔ شاعری عمر کی نہیں فن کی محتاج ہے۔ پاکستان میں علامہ انیس لکھنوی صاحب، سرورانبالوی صاحب اور سلطان سکون صاحب میری شاعری دیکھ لیا کرتے تھے۔ امریکہ میں محترم صلاح الدین ناصر بھائی سے رابطہ ہوا آپ نے نعت گوئی میں مشورے دئیے اور اب بابائے اُردو پروفیسر مامون ایمن سے باقاعدہ اصلاح لیتا رہا ہوں۔ حضرت سعدیؒ کا قول ہے جو بات تم نہیں جانتے، پوچھ لو، پوچھنے کی یہ ذلت علم و عزت کے لیے تمہاری رہنمائی کرے گی میں نعت گوئی کی معراج کے پہلے زینے پر ہوں میرے شعور میں نام مصطفیٰﷺ اور عشق مصطفیٰﷺ مہک رہا ہے میں اپنے شعور کی تسکین کے لیے فکر کی بہار شاعری کے جھولے میں رب ذوالجلال سے عرض گزار ہوں۔

یارب مری حیات کا جب ہو چراغ گلؔ

بخشالوی، حرم میں کھڑا ہو اُٹھا کے ہاتھ

سرورِکائنات، فخرِ موجودات، رحمت انسانیت، انتخاب آدمیت، شافع روز جزا، قابل اطاعت رسول خدا، خوب رو، خوش خصال، حضرت محمدﷺ کے حضور نذرانہ’گلستانِ نعتﷺ ‘‘لے کر اہل علم و ہنر اور صاحب بصیرت و بصارت عاشقانِ مصطفیٰﷺ کے حضور حاضر ہوں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے صدقے میری اس کوشش کو جزائے خیر سے سرفراز کر دے۔ بے شک سب تعریفیں سب جہانوں کے مالک ہی کے لیے مخصوص ہیں رسول خدا اور آلِ رسول اللہ پر ہزاروں سلام ہوں

کیوں دوسروں کے نغمے، میں ساز پر سناؤں

محبوبﷺ کبریا کے، میں گیت کیوں نہ گاؤں

احقرالعباد سبحان الدین گل بخشالوی

٭٭٭


شانِ رسالت ۔ پروفیسر مامون ایمن (نیویارک) =

گلستانِ نعت میں تین اصناف سخن شامل ہیں۔ حمد، نعت اور منقبت۔ شاعر سبحان الدین گل المعروف گل بخشالوی نے ان تینوں اصناف کو عقیدت، توصیف اور اعتراف سے سجانے کی پر خلوص سعی زبان اور متون کی آئینہ دار ہے۔ اس آئینہ داری میں نسبتوں کی طرح داری ہے یہ طرح داری قرابت کی پیاسی بھی ہے اور خواہاں بھی۔ یوں کہیے کہ یہ طرح داری اس مجموعہ کا انسلا کی عنصر ہے اس عنصر کے اساسی الفاظ ہیں۔ عطاء کرم، سجدہ، فردوس، بخشش اُمتی۔ گلستانِ نعت کی زبان واضح اور صاف ہے اس میں اضافتی تراکیب شامل ہیں۔ مثلاً وقت نزع، سد باب، کلامِ محمدﷺ ، محبوب جاں، نگاہِ عشق، عالم مستی، عشق محمدﷺ ، شب معراج، عظمت تقدیر، شب حیات، شعاعِ مہہ، ان اضافتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جمالِ فطرت، نور کعبہ، باغِ جنت، ان سہ لفظی اضافتی تراکیب میں اعتراف کی جھلک ہے۔ رحمت نورِ مجسم، بارش ابرِ کرم، چمن، بارش اور گل کے پس منظر میں، ذرا خود سپردگی کا یہ منظر ملاحظہ کیجئے۔

آپ کر دیں چمن دل پہ کرم کی بارش

شاہِ کونین یہ گل آپﷺ کا شیدائی ہے

شاہِ کونین در حقیقت شاہ نہیں کہ وہ شاہ ہونے کے باوجود خود کو دنیا خالقِ مطلق کے سامنے سادگی اور انکساری کا ایک مثالی نمونہ بناتا ہے وہ سادگی اور انکساری سے پیام اسلام کی راہ استوار کرتا ہے۔ وہ حاکم ہونے کے باوجود خود کو ایک بشر جانتا اور مانتا ہے۔ وہ خاک ہونے کے باوجود پر نور سے برتر ہے اس کی ذات کو انسانیت میں اوّلیت کا درجہ حاصل ہے اس پیارے محمدﷺ کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ خالق و مخلوق، رب اور بندے اس پر درود وسلام بھیجتے ہیں۔ بے شک وہ ذات اقدس کسی شبہ، کسی جھجک کے بغیر ہر آن درودوسلام کی مستحق ہے۔ یہی اعتراف گل سے مزید کہلواتا ہے میں خوش قسمت ہوں کہ آپ کی اُمت میں سے ہوں میں آپﷺ کا اُمتی ہوں۔ اس اعتراف میں وہ اپنی ایک تمنا کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اے کاش!روز حشر مجھے آپﷺ کی شفاعت ملے۔

گلستانِ نعتﷺ میں متون گنجلک نہیں وہ براہِ راست سامنے آتے ہیں اور اپنے وجود کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ وہ گل کی شخصیت کے پاس دار بھی ہیں اور ترجمان بھی مثلاً رب اُس کی ہر ضرورت ہے تو وہ اس سے کوئی چیز کیوں مانگے، نظرِ لطف کی خاطر وہ اپنا سرسجدہ میں رکھنے کا متمنی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بوقت نزع اس کے لب پر احمدﷺ کا نام ہو، وہ رب کی بندہ نوازی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بے حساب خطا کاری کا مرتکب ہونا چاہتا ہے۔ وہ اس توفیق کا خواہاں ہے جس سے وہ اپنی ہر سد باب کر سکے اس کا دل بذاتِ خود ایک کعبہ ہے جس میں وہ اپنے رب کا جلوہ دیکھتا ہے وہ ظلمت دہر سے اس لیے نہیں گھبراتا کہ اُس کے دل میں محمدﷺ کا دیا ہے۔ وہ مدینہ میں موت کا خواہاں ہے۔ اُس کی آنکھ نم ہوتی ہے تو وہ فردوس کا دیدار کر لیتا ہے وہ محمدﷺ کا حوالہ دے کر اپنے ضمیر کو ملت کی دوستی سے ہمکنار کرنے کا دعا گو ہے۔ وہ اللہ سے محبوب کا سایہ مانگتا ہے۔ اُس کے ذہن میں پیغام نبیﷺ سے توحید رب کی وضاحت ہوتی ہے اُس کے خون میں آب زم زم ہے وہ ایک مسافر بھی اور ایک گداگر بھی، حجرِاسود کے تصور سے اس کے دل میں گلشن ایمان مہکنے لگتا ہے۔ حرم میں عالم مستی کا سجدہ اس کا یقین شاداب کرتا ہے اس کے نزدیک شانِ نبوتﷺ یہ ہے کہ رسولﷺ کی سیرت اور صورت دلنشین ہیں اُسے معلوم ہے کہ رسولﷺ پاک نے رنگ و زباں کی سب فصیلیں توڑ کر دین کی باہوں کو قوت بخشی تھی۔ بہ حیثیت اُمتی وہ اپنی تقدیر کی عظمت سے واقف ہے وہ شاہ میں سادگی کا جمال دیکھتا ہے۔

مرے نبیﷺ کی حیات رحمت، اُسی کے دم سے ہیں شان و شوکت

وہ شاہِ ارض وسما تھے پھر بھی، جمیل اُن کی وہ سادگی ہے

اسی نعت کے اس شعر میں صفت مشیہ (نفیس، جمیل، بر وزن فصیل) اور تفضیل (اقدس، اطہر، بر وزن افعل)کا امتزاج ملاحظہ کیجئے اور متن کی سرشاری پرسردھنیے

نفیس اُن کی حیات ہے گل جمیل اُن کا کلام اقدس

وجودِ اطہر کا ہے نہ سایہ، یہی تو فطرت کی شاعری ہے

اس شعر میں لفظ ’’شاعری‘ ‘کو مروّج معنی سے الگ کیجئے اور اسے ’’آگاہی‘‘سے منسوب کیجئے تو ’’فطرت کی شاعری‘‘ کا مطلب بھی واضح ہو جائے گا اور مفہوم بھی ہمارے رب نے رسول پاکﷺ کے درود مبارک سے ہمارے دل و دماغ کو حقیقت ذات سے آگاہ ہونے کا اہتمام کیا ہے۔ حقیقت ذات سے آگاہی ہمیں باور کراتی ہے کہ ہم اُس رب کی مخلوق ہیں جس کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ کوئی ثانی، اسلام دین حق ہے۔ محمدﷺ اس دین کی پیغام بر ہیں۔ بلاشبہ ہماری زندگی رضائے رب کی عطا ہے ہم بندے ہیں اور اُس کی جانب لوٹ جانے والے ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے رسولﷺ نے ہمیں حقیقت ذات سے آگاہ کرایا اس شعر میں گل نے لفظ ’’شاعری‘‘ کو ایک مجرد انداز سے پیش کیا ہے۔

گلستانِ نعتﷺ میں بحروں کا تنوع نظر آتا ہے مثلاً محبتث، رمل، ہزج، مضارع اور مقارب وغیرہ ہم، اس ضمن میں یہ نمائندہ مطلع ملاحظہ کیجئے۔

مرا نبیﷺ ہے جہاں کی رونق، جہاں کی رونق مرا نبیﷺ ہے

یہ سبزگنبد، یہ نور کعبہ، یہ سب اُسی کی تو روشنی ہے

صنف نعت کے عنوانات اور متون متعین ہیں بجا لیکن یہ صنف، عقیدت، جذب اور سپردگی کی ایک جھیل ہے جسے ہر موسم مزید گہرائی سے ہمکنار کرتا ہے۔ یہ سلسلہ تقریباً ساڑھے چودہ سوسال سے جاری وساری ہے ہر شاعر کے کلام میں متعین متون بدل کر نئے زاویوں اور رنگوں سے سجے نظر آ سکتے ہیں، نظر آتے ہیں۔ گاہے نئے زاویے اور رنگ عیاں ہیں اور گہے پنہاں گاہے وہ قاری کے سامنے ان متون میں وضاحت کے دفتر کھولتے ہیں اور گہے چونکا دینے والے انداز پر تحسین و داد کا تقاضا کرتے ہیں۔ گل کی کاوشات میں بھی یہ روش نظر آتی ہے مثلاً نزع کے وقت گل کے لب پہ احمدﷺ کا نام ہو اور حشر کے روز وہ اُن کو بیش تر دیکھے۔ گل رب العزت سے اس توفیق کا خواہاں ہے جو اسے اپنی ہر برائی روکنے کی استطاعت عطا کرے۔ یہ حمد کے متون ہیں نعت کے ضمن میں ملاحظہ کیجئے۔ مدینہ سے آنے والی خوشبو فضا میں کھیلتی ہے جو دنیا میں ہنسنے جینے کا حسن ہے۔ اے مصطفیٰﷺ !میری ایک ہی خواہش ہے کہ اس جہان سے میری رخصت حرم کے زینے سے ہو۔ اس سادہ سی خواہش کا تجزیہ کیجئے۔ شاعر اپنی سادگی کو بے پایاں خلوص کی مدد سے مدینہ اور مکہ یکجا کرنے کا متمنی ہے کہ اس کی موت۔ ان دونوں مقامات کی برکات سے معمور ہو۔

بس اب تو ایک ہی خواہش ہے مصطفیٰﷺ میری

جہاں سے ہو مری رخصت حرم کے زینے میں

بلاشبہ گل کا یہ اعلان صنف نعت سے نسبت کا مظہر ہے

آپﷺ کی حکمت و دانش کا ہے یہ بھی اعجاز

میرے جذبات میں جو قوت گویائی ہے

گل صاحب!تحریر ’’گلستانِ نعتﷺ ‘‘کی سعادت پر مبارک باد قبول کیجئے۔


شانِ رسالتﷺ


الفاظ کو جذبوں میں سمویابے شک

اخلاص سے دامن کو بھگویا بے شک

قدرت کی عطا ہے کہ گل نے ایمن!

اک خواب حقیقت میں پرویا بے شک


ہر موڑ کو رستے سے نکالا بے شک

ہر کام کو اُسوہ سے سنبھالا بے شک

یہ خاص کرم رب کا ہے گل نے ایمن!

تقدیر کو مذہب سے اُجالا بے شک

پروفیسر مامون ایمن (نیویارک)

٭٭٭



حمدیں

ترے کرم تری رحمت کا کیا حساب کروں میں حمد کہنے کی کیا فکر کامیاب کروں

چمن میں چاروں طرف پھول تیرے جلووں کے

ہوں کشمکش میں کہ کس گل کا انتخاب کروں

تجھے قریب سے دیکھا ہے دل کے کعبے میں

ترے جمال کا کیا کیا رقم نصاب کروں

میں تیری بندہ نوازی کا معترف ہوں بہت

میں آدمی ہوں، خطا کیوں نہ بے حساب کروں

ترے بغیر ہر اک سوچ ہے گناہ عظیم

میں ذکر غیر سے کیوں عاقبت خراب کروں

خدا کبھی تو گلؔ ، ایسی عطا کرے توفیق

ہر اک بُرائی کا میں خود ہی سد باب کروں

٭٭٭



میرے ہر دم میں ترے دم سے بڑا دم خم ہے

میرے ہر دم میں ترا دم ہے مجھے کیا غم ہے

میرے اللہ !میں مانگوں تو بھلا کیا مانگوں

میری پہچان محمدؐ ہے، بتا کیا کم ہے

رات جیون کی، مدین میں بسر ہو جائے

تیرے عشاق کے اظہار کا یہ عالم ہے

ایک قرآن ہے احسان ترا آدم پر

دوسرا عشق اگر ہے تو ترا پیہم ہے

کون فردوس کے دیدار سے گلؔ روکے گا

بس تیری یاد میں جو آنکھ فوراً بھی نم ہے

٭٭٭






نگاہ عشق نے در آگہی کا وا دیکھا مرے یقین نے ہر ایک جا خدا دیکھا

مرے شعور کو شاداب کر گیا منظر

حرم میں عالم ہستی کا آسرا دیکھا

قسم ہے میرے خدا تیری پاک ہستی کی

ترے ہی ذکر سے بندوں کو جھُومتا دیکھا

ہر ایک آنکھ میں اشکوں کی کیا روانی تھی

بڑے بڑوں کو ترے در سے مانگتا دیکھا

لگا کچھ ایسے کہ جنت میں آ گیا ہوں گلؔ

حرم میں حسن کا منظر جو شام کا دیکھا

٭٭٭






میں تجھ کو دیکھ لوں اتنی تو زندگی دے دے

مرے خدا مری ہستی کو روشنی دے دے

ترے کرم سے میں کعبہ تو دیکھ آیا ہوں

مجھے کلام محمدؐ کی دلکشی دے دے

تو اپنے پیارے محمدؐ کے نام پر مولا

مرے ضمیر کو ملت سے دوستی دے دے

ترے کرم کی نہیں مجھ پہ انتہا کوئی

مجھے قضائے شہادت کی شاعری دے دے

یہ گلؔ غریب ہے عاصی مگر غنی دل کا

اسے علیؓ کے گھرانے کی چاکری دے دے

٭٭٭




اک بھٹکتا سا مسافر ترے در پر آیا میرے اللہ ! تیرے گھر کا گدا گر آیا

تیرے محبوبؐ کا پیغام ہے یہ اُمت کو

ہے معاف اُس کی خطا جو ترے گھر پر آیا

میں نے میلاد میں جب ذکر محمدؐ چھیڑا

میرے گھر میں تری رحمت کا سمندر آیا

میں بھی ملنے کو گیا تجھ سے ترے کعبے میں

رنگ آنکھوں میں ترے عشق کا میں بھر آیا

گلؔ مہکنے لگا ایمان کا گلشن دل میں

میرے ہونٹوں پہ جو وہ کالا سا پتھر آیا

٭٭٭

میرا ایمان ہے اللہ کی بخشش ہے گلؔ

اس لیے نام بھی بخشالویؔ رکھا میں نے

٭٭٭




اُن پہ اللہ کرم کرتے ہیں رات کو آنکھ جو نم کرتے ہیں

دل کی تختی پہ مقدس کعبہ

اپنی آنکھوں سے رقم کرتے ہیں

کیسے دیکھیں کے وہ چہرہ ہم بھی

میرے اللہ !یہ غم کرتے ہیں

زیر کرتے ہیں سدا دشمن کو

ہم تو اُونچا ہی علم کرتے ہیں

اپنے ہر زخم پہ مرہم کے لیے

اپنے قرآن کا دم کرتے ہیں

گلؔ عبادت کا ہے دعویٰ جن کو

جو بھی کرتے ہیں وہ کم کرتے ہیں

٭٭٭







میری بس ایک آرزو چمکے تیرا محبو بؐ رو برو چمکے

حمد تیری میں جب گلو چمکے

تیری رحمت بھی چار سُو چمکے

کوئی مشکل نہیں تجھے پانا

آرزو میں جو جستجو چمکے

جب تصور میں تو مہکتا ہے

ذہن میں جیسے گل شبو چمکے

جو تصور میں ہے نبیؐ میرے

جب بھی چمکے وہ ہو بہو چمکے

ہو کرم تیرا تیری مدحت ہو

جان میری مرا لہو چمکے

دل میں ایمان کی حرارت ہو

کیوں نہ پھر میری آبرو چمکے

تیری خوشبو ملے جو کعبے میں

حشر میں گلؔ بھی سُرخرو چمکے

٭٭٭





اگر جہان میں آتے نہ مصطفیٰؐ اللہ تو میں فقیر بھلا کیسے جانتا اللہ

بنا دیا ہے یہ عالم جو خوشنما اللہ

جو یہ نہیں تھا تو موجود تو ہی تھا اللہ

ہوا یقین کہ واحد ہے اور حقیقت ہے

ہو اجو طور پہ جلوے میں رونما اللہ

ترے حبیبؐ کی عظمت، تری محبت تھی

فلک پہ چاند جو ٹکڑوں میں دو ہوا اللہ

جلاتی کیسے نبیؐ کو وہ آتش نمرود

گلوں کی سیج ہی اُس کو بنا دیا اللہ

نگل لیا اُسے مچھلی نے تیری قدرت سے

نبیؐ تھا آپ کا زندہ ہی وہ رہا اللہ

عصا میں آپ کی قدرت کے معجزے دیکھے

نبیؑ کو دے دیا پانی نے راستہ اللہ

میں جس مقام پہ سجدے میں تھا ملائک کے

وہی مقام پھر اک بار کر عطا اللہ

مرے شعور کو بس ایسی روشنی دے دے

لکھوں، میں آپ کی پڑھتا رہوں ثنا اللہ

جھلک رہا ہے تو پھولوں میں چاند تاروں میں

ترا جمال ہوں ذروں میں دیکھتا اللہ

بس اب رئیس ہی یادوں میں گلؔ کو رہنے دے

میں کیا سے کیا بنوں آخر تو ہے فنا اللہ

٭٭٭




ہے حسن زندگی کا، حسن کلام تیرا دنیا کے رنگ و بو میں قائم نظام تیرا

تو لا شریک خالق، رحمت وہ دوجہاں کا

جس ذات بے بدل پر اترا کلام تیرا

مومن پہ تیری رحمت برسی، برس رہی ہے

بے دین پر کرم بھی ہوتا ہے عام تیرا

گوشۂ مری نظر میں ایسا نہیں ہے کوئی

ہوتا نہیں ہے جس جا، مولا قیام تیرا

میں گل کی خوش نمو میں تیری عطا ہے خالق

مالک تُو زندگی کا، میں ہوں غلام تیرا

٭٭٭




میرے اشکوں میں مری فریاد، دل برسائے گا ایک ’’اللہ ہو‘‘ مری رحمت کی برکھا لائے گا

دیکھنا اُس وقت بھی لب پر مرے حمد و ثنا

اس جہاں سے جب کبھی ہجرت کا لمحہ آئے گا

میرے دل پر نقش ہے کعبے کے منظر میں خدا

اب بھلا اس دشت میں ہے کون جو بہکائے گا

ہے مرا ایمان، کر کے ذکر، جو سوجاؤں میں

خواب میں مولا مجھے، کعبہ بھی تو دکھلائے گا

سامنے محشر میں مولا، سر اُٹھا کر آؤں میں

بس کرم، جوشِ شہادت کا جو تو فرمائے گا

ہو گی محبوبؐ خدا کی یاد میں جب نعت تو

میرا گھر گلؔ دیکھنا، جنت سماں بن جائے گا

٭٭٭





تیری قدرت کی خوشبو، ہر گل ہر ذرے میں تُو اللہ اللہ اللہ ہو، لا الہٰ اللہ ہو

میں احمد کو پیارا ہوں تجھ کو احمد ہے پیارا

میری دنیا ہے روشن، جیسے احمد کا چہرہ

یہ دنیا اور وہ دنیا تیرے جلوے میں ہر سُو اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔

دنیا، دنیا کی ہر شے، سب کچھ تیری قدرت میں

تیرے احمد کے صدقے، ہوتا ہوں میں جنت میں

آدھی شب کے سجدوں میں، ہوتے ہیں جب میں اور تُو اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔

دنیا داری میں بھٹکے، ہم اللہ ایسے نہ تھے

یہ دنیا اور وہ دنیا، اپنے احمد کے صدقے

ہم پر گلشن کر مولا، ہم بندے ہیں عاصی خُو اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔

تجھ کو ہے ضرورت کیا، میرے سجدے میرے ہیں

میرا مرنا حق مولا، کعبے کے جو پھیرے میں

میں تُربت میں بس چاہوں، میرے احمد کی خوشبو اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔

توحامد تو واحد ہے تومالک تو رازق ہے

تو قادر تو مطلق ہے ہم بندوں کا رازق ہے

تیری رحمت ہے برسی، جب بھی گل اک چاہے ہُو اللہ اللہ اللہ ہو۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭




پُر لطف زندگی ہے مری لاجواب ہے مجھ پر مرے خدا کا کرم بے حساب ہے

رہتا ہے مرے دل میں خدا اور مصطفیٰؐ

خوشبو مرے وجود میں مثلِ گلاب ہے

واحد تو لاشریک تری شان اے خدا

تیری تجلیات میں میرے جناب ہے

مٹی کے ہر وجود کو کیا کچھ نہیں عطا

یہ چاند ، کہکشاں یہ ترا آفتاب ہے

ارض وسما میں تو ہے تری شانِ کبریا

جینے کی ہر ادا کو عطا بھی نصاب ہے

اللہ تیری شان کو دیکھوں میں رات دن

کعبے کے ہر طواف میں گل کامیاب ہے

٭٭٭





نبی سے عشق میں روشن کیے اللہ نے میرے دئیے دو چار دن جو بھی دئیے اللہ نے میرے

ملا ہے جو ملے گا جو، انہی سجدوں کے صدقے گل

جبینوں میں ہیں جو سجدے لکھے، اللہ نے میرے

میں دیکھوں زندگی میں بندگی سے حسن فطرت کو

بدن کی خاک میں رکھے دئیے اللہ نے میرے

مرے سپنے تمنائیں، مرے محبوب کے صدقے

مرے اشکوں میں سب دیکھے سنے اللہ نے میرے

کہا فردوس سے جاؤ مرے محبوب بندوں میں

کلام اپنا پڑھانے کے لیے اللہ نے میرے

یہ دنیا اور وہ دنیا، بنائے جنت و عالم

محمد مصطفیٰؐ کے واسطے اللہ نے میرے

٭٭٭




نہیں دل کے مدینے میں کوئی جلوہ نہاں اُس کا مرے اللہ نے جو ہے دیا، قابل کہاں اُس کا

مرے اللہ کی ہے تحفتاً مجھ کو عنایت جو

جمالِ زندگی میں بندگی، دل کا جہاں اُس کا

لگے جب ضرب اللہ ہو، جو سینے میں تو مومن کا

بدن شاداب ہو اور کیوں نہ ہو دل شادماں اُس کا

میں سجدوں میں دعا مانگوں مرا رازق وہ خالق ہے

میں آدم اُس کی قدرت ہوں، ہے میرا آشیاں اُس کا

وہ گل موجود ہیں ذروں میں اپنی شانِ قدرت سے

ہے دو عالم میں جو کچھ بھی عیاں ہے یا نہاں اُس کا

٭٭٭



میری ہر دھڑکن عبادت ہے تری، میرے خدا! ہے عطا تیری کہ اب ہے شاعری میری وفا

صور اسرافیل کی جب قبر میں آئے ندا

آنکھ میں کھولوں تو لب پر ہو درودِ مصطفیٰؐ

تُو تو کہتا ہے، تجھے کوئی نہیں ہے دیکھتا

میں نے دیکھا ہے تجھے، اپنے ہی دل میں اے خدا

تجھ سے پوشیدہ مرا، کوئی عمل ممکن نہیں

تو جہاں ہوتا نہیں، ایسی جگہ کوئی بتا

میں جبیں رکھ دو جہاں، ہوتے ہیں میرے سامنے

تیرے جلوے آشنا، قدرت تیر ی، تری عطا

خالق ومسجود تو ہے، رازق و معبود تُو

تو خدا، جلوے ترے، تیری عطا میری ضیا

ہیں جبین ناز میں جلوے ترے، دل میں مرے

نور کے جلوے ترے، محبوبؐ تیرے مصطفیٰؐ

٭٭٭






نعوت رسولؐ

میں خالی ہاتھ تو آیا نہیں مدینے سے ہوا بہار کی آنے لگی ہے سینے سے

نہا کے دھوپ میں آیا ہوں جب مدینے سے

مہک گلاب کی آئے نہ کیوں پسینے سے

مرے شعور میں موجود گر نہیں احمدؐ

مرے خدا مری تو بہ ہے ایسے جینے سے

اُسے حیات کا ساحل نصیب ہو کیوں کر

اُتر گیا ہو محمدؐ کے جو سفینے سے

نبیؐ تو آئے ہزاروں، ہے شانِ احمدؐ کی

جہاں میں روشنی پھیلی تو اس نگینے سے

نبیؐ کے عشق میں کھو کر ذرا تو دیکھو گلؔ

حیات کیسی گزرتی ہے پھر قرینے سے

٭٭٭




ہمارے دل، ہمارے لب فدا ہوں، شاہ دوراں پر بڑے احساں ہیں، اس انسانِ کامل کے ہر انساں پر

شہہ والا کا دیوانہ ہوں، یہ اعزاز کیا کم ہے

محبت ناز کرتی ہے مرے چاکِ گریباں پر

مدینے کی فضاؤں میں مہک تازہ گلوں کی ہے

بہارِ خلد حیراں ہے، مدینے کے گلستاں پر

ہے دو عالم میں رونق، آمنہ کے لالؐ کے دم سے

جمالِ دوجہاں قربان ہے، شاہ رسولاں پر

تری زلفوں میں دیکھا، سورہِ واللیل کا منظر

پَر جبریل نازاں ہے، تری صبح درخشاں پر

کلی کھل کھل کے ہنستی ہے، مہکتا ہے ہر اک غنچہ

ہوا جب جھوم کے آتی ہے، یثرب کے خیاباں پر

محمدؐ سے عقیدت اصل میں، وجہہ شفاعت ہے

شہہ دیں سے محبت، گلؔ ہے لازم ہر مسلماں پر

٭٭٭


فکر میں شان نبوت دیکھتا ہوں آپؐ کی دلنشیں سیرت میں صورت دیکھتا ہوں آپؐ کی

آپؐ کے چہرے پہ روشن نور ہے توحید کا

اور آنکھوں میں رسالت دیکھتا ہوں آپؐ کی

کون دیکھے آپؐ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر

سر خمیدہ ساری اُمت دیکھتا ہوں آپؐ کی

انگلیوں میں آپؐ کی شق القمر کا معجزہ

شمس لوٹا نے کی ندرت دیکھتا ہوں آپؐ کی

آپؐ نے رنگ و زباں کی سب فصلیں توڑ دیں

دین کی باہوں میں قوت دیکھتا ہوں آپؐ کی

رشک کرتا ہوں میں اپنی عظمت تقدیر پر

خود پہ جب نظر عنایت دیکھتا ہوں آپؐ کی

بر ملا کہتا ہے گل بخشالویؔ میرے نبیؐ

بے گماں شانِ رسالتؐ دیکھتا ہوں آپؐ کی

٭٭٭




جو لوگ عشق محمدؐ سے کم نہیں کرتے غم حیات کا کوئی بھی غم نہیں کرتے

مرے حضورؐ کی تعریف جو نہیں لکھتے

وہ اپنی انگلیاں پھر کیوں قلم نہیں کرتے

اُنہیں حیات میں سکھ چین کب میسر ہوں

نبیؐ کی یاد میں جو آنکھ نم نہیں کرتے

چلیں جو عشق محمدؐ میں عظمتیں پانے

کسی بھی رزم میں پیچھے قدم نہیں کرتے

در حبیب پہ جا کر بھی خالی ہاتھ آئے

نبی کسی پہ بھی ایسا ستم نہیں کرتے

ہے آرزو کے ملے جام سب کو کوثر کا

طلب کسی سے بھی تو جام جم نہیں کرتے

٭٭٭



مجھ پر میرے مولا کی ہے رحمت کی برسات

میرا جیون پاک نبیؐ کے قدموں میں سوغات

ہر سوایک اندھیر نگر تھا، جیون غم کی شام

آپ محمدؐ کی آمد ہے دنیا میں شب برات

جو شیطان کے بہکاوے میں، جنت ہم نے کھوئی

آپؐ مدینے میں آئے وہ لے کر اپنے ساتھ

جی کرتا ہے یثرب کے صحرا میں خوب نہاؤں

مجھ ناچیز قلندر کے بے قابو ہیں جذبات

میرے سجدوں کی منزل ہے، جنت دیس مدینہ

ایک مسافر گل بخشالی دن دیکھوں نا رات

٭٭٭





فضا میں کھیلتی خوشبو ہے جو مدینے کی

وہی تو حسن ہے دنیا میں ہنسنے جینے کی

نسیم صبح کے جھونکوں میں گیت گانے کو

شفیق ماں مجھے کہتی ہے جاگ جانے کو

شعور و فکر میں جو انقلاب آیا ہے

مرا نبیؐ ہی تو یہ انقلاب لایا ہے

خدا کی حکمت اعجاز کے وہؐ مظہر ہیں

نہیں ہے آپ کا ثانی نہ کوئی سایا ہے

شب حیات کو ہم نور سے نکھاریں گے

نبیؐ سے عشق میں گلؔ عاقبت سنواریں گے

٭٭٭




دھڑک رہا ہے محمدؐ ہمارے سینے میں عجیب لطف ہے رمضان کے مہینے میں

غم حیات کی موجوں سے کہہ دیا میں نے

نبیؐ سے پیار مرے ساتھ ہے سفینے میں

نبیؐ سے عشق مرے خون کی حرارت ہے

مرے یقین کی خوشبو مرے پسینے میں

مرے وجود کو عالم کا ہوش ہو کیسے

نبیؐ سے عشق جو شامل ہے میرے پینے میں

مرے نبیؐ تری عظمت بیاں کروں کیسے

خدا سے عشق جگایا تو کس قرینے میں

بس اب تو ایک ہی خواہش ہے مصطفیٰؐ میری

جہاں سے ہو مری رخصت حرم کے زینے میں

بہار رُت ہے مری روح، گلؔ عقیدت ہے

کہاں سے گھوم کے آیا ہوں میں مدینے میں

٭٭٭



جہاں کی خاک کا ہر ذرہ اک نگینہ ہے مری نگاہ میں بس ایک وہ مدینہ ہے

نظر ہے اُس پہ محمدؐ کی، غم نہیں کوئی

مری حیات کا لہروں پہ جو سفینہ ہے

خدا سے ربط کا منشور جس میں آیا ہے

جہاں کاحسن وہ رمضان کا مہینہ ہے

نبیؐ کا فیض ہے، گرہیں وجود میں روشن

دل و دماغ کشادہ، جو میرا سینہ ہے

مرے نبیؐ کی بدولت، کرم خدا کا ہے

جو اس جہاں میں جینے کا اک قرینہ ہے

میں جانتا ہوں یہ بخشالویؔ کہ جنت کا

نبیؐ سے عشق ہی واحد ہمارا زینہ ہے

٭٭٭





باغ جنت سے محمدؐ کی خبر آئی ہے عید میلاد کا پیغام صبا لائی ہے

بارشِ ابر کرم خشک زمیں پر ہو گی

رحمت نورِمجسم کی گھٹا چھائی ہے

ایک مدت سے یہاں کفر کی تھی بادِ خزاں

آپؐ آئے تو گلستاں میں بہار آئی ہے

آپؐ کے سامنے ہر جھوٹ نے دم توڑ دیا

ضو فشاں چاروں طرف آپؐ کی سچائی ہے

آپؐ کی حکمت و دانش کا ہے یہ بھی اعجاز

میرے جذبات میں جو قوت گویائی ہے

آپ کر دیں چمن دل پہ کرم کی بارش

شاہ کونین یہ گلؔ آپؐ کا شیدائی ہے

٭٭٭





نگاہ عشق نے گلزار جب ترا دیکھا نگاہ دل نے بھی دربار مصطفیٰؐ دیکھا

مرے خدا وہ مدینے میں رات کا منظر

فلک پہ چاند ستاروں کو جھومتا دیکھا

مرے حبیب نے مجھ کو امان میں رکھا

کبھی فقیر پہ مشکل جو مرحلہ دیکھا

مرے سرور کے عالم کی انتہا تھی جب

حرم شریف میں روضہ جو آپ کا دیکھا

خدا نے آپؐ کو جس حسن سے نوازا ہے

نبیؐ تو ایسا کسی نے نہ دوسرا دیکھا

ہوئے تھے چاند کے دو ٹکڑے اک اشارے پر

ہر ایک آنکھ نے دنیا میں معجزہ دیکھا

٭٭٭





جہاں میں یارسول اللہ ترا ثانی نہیں ہے کوئی تیری سی شخصیت کبھی آنی نہیں ہے

ترے اظہار پر ایمان جو لائی تھی پہلے

تری بی بی خدیجہؓ سی کوئی رانی نہیں ہے

ملے جنت بھلا کیسے، یہ فرمایا نبیؐ نے

خدا کے خوف سے جس آنکھ میں پانی نہیں ہے

نبی آئے تو ہیں لاکھوں یقیناً تھے مسلماں

مگر تجھؐ سا کوئی اسلام کا بانی نہیں ہے

میں گل بخشالویؔ دیکھوں گا جا کر گل مدینہ

بنا دیکھے تو میری جان بھی جانی نہیں ہے

٭٭٭






مہکی ہے فضا گیسوئے محبوب عرب سے خوشبوئے سحر آنے لگی کاکل شب سے

دیکھے تو کوئی معجزہ گنبد خضریٰ

تقدیر بدل جاتی ہے اک جنبش لب سے

اللہ رے تہذیب مدینہ کی یہ عظمت

جنت کی ہوا بھی یہاں آتی ہے ادب سے

دھڑکن جو مرے دل میں ہے الفت کی ہے دھڑکن

یہ جلوۂ عالم ہے عقیدت کے سبب سے

گلؔ !اپنے تذبذب کا تو کچھ راز بتاؤ

کیوں رہتے ہو ہر بزم میں تم شکوہ بہ لب سے

٭٭٭





شعور و فکر میں ارفع مقام آیا ہے کمال شخص ہے کیا نور ساتھ لایا ہے

خدا نے نور سے اپنے اُسے سجایا ہے

نہ اُس کے روپ سا کوئی نہ اُس کا سایا ہے

جمال آپؐ کا !ہو پھول کوئی جنت کا

خدا نے نور کا جلوہ ہمیں دکھایا ہے

مری حیات نے لکھا ہے آپؐ کو دل پر

مرے شعور نے جب بھی قلم اُٹھایا ہے

زباں پہ ذکر رہے، بس تو یارسولؐ اللہ

یہ گلؔ کو فکر کی معراج نے سکھایا ہے

٭٭٭





امین فرش پہ پیغام لے کے آیا ہے خدا نے عرش پہ محبوب کو بلایا ہے

ہمیں ہے فخر کہ ہم اُس نبیؐ کی اُمت ہیں

خدا نے عرش پہ جلوہ جسے دکھایا ہے

نبی کھڑے ہیں قطاروں میں کل زمانوں کے

نماز کے لیے اُن کا امام آیا ہے

مرے خدا ذرا اُن پر کرم کی بارش کر

نبیؐ سے عشق کا جن کو خیال آیا ہے

مرا نبیؐ کہ نہ سایہ تھا جس کے پیکر کا

میں خوش نصیب ہوں گلؔ مجھ پہ اُن کا سایا ہے

٭٭٭

ہیں سر پہ مرے احمدؐ مشکل کشا کے ہاتھ

دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ

منظر نظر کے سامنے ہوتا ہے نور کا

لیتا ہوں جب بھی نام مدینہ اُٹھا کے ہاتھ

میرے نبیؐ کے حسن میں کعبے کا نور ہے

جاتے ہیں اُس کی دید کو عاشق کٹا کے ہاتھ

لب پر مرے درودِ محمدؐ ہو اُس گھڑی

زنجیر زندگی کی جو کھولے، قضا کے ہاتھ

یارب مری حیات کا جب ہو چراغ گلؔ

محراب مصطفے میں کھڑا ہوں اُٹھا کے ہاتھ

٭٭٭

وہ آ گئے ہیں نبیؐ ہمارے یہ کہہ رہی ہے ہوا کی خوشبو

وہ لے کے آئے عرب کے صحرا میں پھول بن کر خدا کی خوشبو

اَزل اُسیؐ سے، ابد اُسیؐ سے، وہؐ نورِ اوّل، وہؐ نور آخر

اُسیؐ سے ہے ابتداء کی خوشبو، اُسیؐ سے ہے انتہا کی خوشبو

مہک رہی تھیں گلاب کلیاں، تو چاند چودہ کا چھپ گیا تھا

گلاب رحمت کا مسکرایا، جہاں میں بن کر خدا کی خوشبو

سکون ہے وہؐ، قرار ہے وہؐ، چمن چمن کی بہار ہے وہؐ

وہؐ باغِ حق کا گلاب تازہ، اُسی سے قائم وفا کی خوشبو

مؤذنِ شاہ بحر و بَر نے، اذاں میں ایسی مٹھاس بھر دی

مہک رہی ہے ہمارے کانوں میں آج تک اُس صدا کی خوشبو

خوشی سے ہر شاخ جھومتی ہے، کلی کلی کو وہ چومتی ہے

صبا چمن سے اُڑا کے لائی ہے آج صلِ علیٰ کی خوشبو

وہ کالے پتھر، وہ سنگ ریزے، مہک اُٹھے تھے گلؔ اس طرح سے

دلہن کے ہاتھوں سے جیسے آئے مہک مہک کر حنا کی خوشبو

٭٭٭



ذکر اللہ ہو ہے گر تسکین میرے روح کی

یانبیؐ کے ذکر میں ایمان کی ہے تازگی

دسترس میں کیا نہیں تھا، یا رسول اللہ تیرے

کاش!میں اپنا سکوں جینے میں تیری سادگی

میں ہوا مدہوش دل جنت لگا اپنا مجھے

یاد جب سینے سے تیری یا محمدؐ آ لگی

دشمنوں نے بھی تجھے، دل سے کیا تسلیم تھا

کیا ترے لہجے میں تھی، اللہ قسم شائستگی

میں مدینے کی گلی کوچوں کا مجنوں آؤں گا

ہوا گر منظور گل بخشالویؔ کی دل لگی

٭٭٭


یارب مرے جیون کو مدینے کی ہوا دے

توحید کے نغمے مری ہستی کے سُنا دے

رحمت تو تری عام ہے، لیکن مرے مولا

قدرت کے نظارے بھی مدینے میں دکھا دے

محبوبؐ مرے دل میں ہی رہتا تو ہے پھر بھی

بس رو ضۂ اقدس مرے سینے سے لگا دے

میں گنبد خضریٰ کے نظاروں میں نہاؤں

مولا تو مرا گھر بھی مدینے میں بنا دے

ہے نور محمدؐ مری آنکھوں میں تو مولا!

خوشبوئے محمدؐ بھی مرے دل میں بسادے

بس ایک ہی خواہش ہے مرے پیارے نبیؐ سے

جنت میں وہ کوثر مجھے ہاتھوں سے پلا دے

اعزاز بڑا اس سے بھلا کیا ہو کسی کا

جیون کی اگر شام مدینے میں خدا دے

برسات ہو رحمت کی مدینے میں خدا یا

لہروں میں کرم کے تو ذرا گلؔ کو بہا دے

٭٭٭

گل کائنات حلقۂ خیر البشر میں ہے

دنیا کی دھوپ چھاؤں بھی اُن کی نظر میں ہے

صدقہ مرے حضورؐ کا، اللہ کا ہے کرم

جو حسن اس جہان کے شمس و قمر میں ہے

قدرت کا شاہکار ہے احمدؐ کی ذات پاک

میرے نبیؐ کا حسن، مرے بال و پر میں ہے

وعدہ یہ رب کل کا ہے دنیا اُسی کے نام

گر یاد مصطفیٰؐ بھی کسی چشم تر میں ہے

قرآن ہے تو روپ ترا، رب ذوالجلال

میرے نبیؐ کا ذکر بھی زیر و زبر میں ہے

ختم الرسلؐ کی شان ثنا، رب کائنات

جو کچھ بھی اس جہاں کے گلؔ بحر و بر میں ہے

٭٭٭


جمالِ دوجہاں، محبوبؐ رب العالمین آئے

عطائے کبریا ہو کر، وہ ختم المرسلین آئے

مہک اُٹھی فضا غار حرا بھی جگمگا اُٹھا

معطر درس اقراء لے کے جبریل امیں آئے

حرا کی روشنی پھیلی اندھیرے ہو گئے رخصت

سراپا نور بن کر رہبر دنیا و دیں آئے

ظہور اُن کا ہوا جس دم، پکارے عرش والے بھی

مبارک ہو زمیں والو!شہؐ دنیا و دیں آئے

دَمک اُٹھی زمیں، تاریک شب رخصت ہوئی یک سر

جہاں کی بزم میں، گل !عرش کے مسند نشیں آئے

٭٭٭




فلک سے خوشبو بکھر رہی ہے، زمیں کا چہرہ دمک رہا ہے سحر نمودار ہو رہی ہے، نقاب رُخ سے سِرک رہا ہے

تری ولادت سے ریگ صحرا کا ذرہ ذرہ چمک رہا ہے

قلم قصیدہ سُنا رہا ہے، سُخن کا طائر چمک رہا ہے

بصارتوں کو ملی بصیرت، نبیؐ کی صورت تمام رحمت

احد کے شفاف آئینے میں، وہ نور احمدؐ دمک رہا ہے

کرم خدا کا ہماری قسمت، وہ نور بن کر کچھ ایسے آئے

کہ دشت و گلشن کا ذرہ ذرہ، مہک رہا ہے مہک رہا ہے

کلی کلی مسکرا رہی ہے، عرب کا صحرا چمن چمن ہے

وفور اُلفت میں نور یزداں، زمیں کی جانب لپک رہا ہے

نفس نفس میں ہے اُس کا نغمہ، نظر نظر میں ہے اُس کا جلوہ

ہماری آنکھوں کی پُتلیوں میں، وہ نور بن کر دمک رہا ہے

وہ جان ہستی اگر نہ ہوتے، نہ باغ ہوتے، نہ پھول کھلتے

اُسی کی خاطر جہاں بنا ہے، وہؐ گلؔ جہاں میں مہک رہا ہے۔

٭٭٭



باغِ جنت سے محمدؐ کی خبر آئی ہے

عید میلاد کا پیغام صبا لائی ہے

ایک مدت سے یہاں کفر کی تھی باد خزاں

آپؐ آئے تو گلستاں میں بہار آئی ہے

بارش ابر کرم خشک زمیں پر ہو گی

رحمت نور مجسم کی گھٹا چھائی ہے

آپؐ کے سامنے ہر جھوٹ نے دم توڑ دیا

ضو فشاں چاروں طرف آپؐ کی سچائی ہے

آپؐ کی حکمت و دانش کا ہے یہ بھی اعجاز

میرے اظہار میں جو قوت گویائی ہے

آپؐ کر دیں چمن دل پہ کرم کی بارش

شاہ کونین یہ گلؔ آپ کا شیدائی ہے

٭٭٭





مرا قیام مدینے میں عمر بھر کر دے

مرے خدا تو مدینے کو میرا گھر کر دے

حرم شریف کو دیکھوں میں خواب میں اکثر

مرے نبیؐ تو مجھے اتنا معتبر کر دے

مرے خدا کا بڑا اور کیا کرم ہو گا

اگر حیات مدینے میں مختصر کر دے

صدائے حق مری پہچان ہو نبیؐ میرے

رہ حیات میں اتنا مجھے نڈر کر دے

مہک اُٹھیں در و دیوار میرے گھر کے یوں

مری دعا کو مرے گھر میں با اثر کر دے

سدا بہار تری زندگی رہے گی گلؔ

نبیؐ سے عشق اگر اپنا ہم سفر کر دے

٭٭٭







حقیقت میں تو اس دنیا کی جو یہ شان و شوکت ہے

خدا کے ایک ہی محبوبؐ کی مرہون منت ہے

مدینے کی فضا میں زندگی کی ہے مہک لیکن

سکون قلب ہے جس میں وہ روضے کی زیارت ہے

نبیؐ کی زندگی اللہ کی قدرت کا آئینہ

ہماری زندگی تو عشق احمدؐ کی تلاوت ہے

دلبستانِ محمدؐ سے سند لے کر جو جیتا ہے

اُسے معلوم ہے دنیا کی کیا نظم و حقیقت ہے

محبت ایک ہے معبود کی محبوبؐ سے پہلی

اگر ہے دوسری کوئی تو وہ ماں کی محبت ہے

اگر ایمان ہے اپنا، کہ منزل موت ہے اپنی

ہمیں پھر موت سے ڈرنے کی آخر کیا ضرورت ہے

ہیں مومن جانتے جو موت پینے کو ترستے ہیں

حیات جاوداں کا خوشنما رستہ شہادت ہے

چلو سنتے ہیں گل بخشالویؔ کی نعت ہم چل کر

سُنا ہے نعت کہنے کی ملی اُس کو سعادت ہے

٭٭٭



مرے خدا کو جو پیارا ہے یارسولؐ اللہ

جہاں میں دین ہمارا ہے یارسولؐ اللہ

کرم میں دیر تو ہوتی نہیں ترے صدقے

طلب نے جب بھی پکارا ہے یارسولؐ اللہ

ترے وجود سے مہکا جو اک مدینہ ہے

زمیں کی آنکھ کا تارا ہے یارسولؐ اللہ

ترے لیے ہے زمیں پر جو رنگ فطرت کا

جہاں کو رب نے سنوارا ہے یار سولؐ اللہ

غم جہاں کا کہاں فکر ہم فقیروں کو

ہمیں جو تیرا سہارا ہے یارسولؐ اللہ

جہاں کی دھوپ بھلا کیا ہمیں جلائے گی

جو سر پہ ہاتھ تمہارا ہے یا رسولؐ اللہ

ہو خوش نصیب کہ پھر سے ملے مدینے میں

جو وقت گلؔ نے گزارا ہے یا رسولؐ اللہ

٭٭٭





گل شاہ بحر و بر کا اک ادنیٰ غلام ہے اس سے بڑے کرم کا تصور حرام ہے

جس دل کے آئینے میں محمدؐ کا نام ہے

دوزخ کی آگ اُس پر یقیناً حرام ہے

میری حیات ایسے نبیؐ کی غلام ہے

جو انبیاء کا عرش بریں پر امام ہے

ہے نور کے وجود میں وحدانیت کا راز

گفتار مصطفیٰؐ بھی خدا کا کلام ہے

گونجے جہاں میں نعرۂ تکبیر مومنو

میلاد مصطفیٰؐ کا یہی اہتمام ہے

خواہش ہے دیکھنے کی محمدؐ کے نام پر

قدرت خدا !جو تیری مدینے میں عام ہے

رکھ دو جبیں پہ ہاتھ کہو، شان انبیاء

ہم عاجزوں کے پیار کا، تجھ کو سلام ہے

تو فہم و فکر و عقل کی حد سے ہے ماورا

اے شاہ انبیاء !تجھے میرا سلام ہے

آؤ پڑھیں درود کہ گلؔ جانتے ہیں ہم

میلاد مصطفیٰؐ بھی وفا کا کلام ہے

٭٭٭




مجھے عنایت، جو زندگی ہے اسی کا محور مرا نبیؐ ہے جو ہے سلیقہ سجود رب کو، مرے نبیؐ کی ہی روشنی ہے

جمالِ فطرت نظام قدرت، بفیض احمدؐ ملا جہاں کو

عمل سے اُسؐ نے بتایا ہم کو، کہا ایک ہستی خدا کی بھی ہے

نبیؐ کے حسن عمل سے دنیا نے زندگی کی ضیا کو سوچا

حیاتِ اقدس سے اس جہاں کی شب قیامت میں لو لگی ہے

نبیؐ کی آمد، رضائے رب ہے، رئیس کل کے فقیر خالق

یہ راز کیا ہے، خدا ہی جانے، خطائے جنت جو آدمی ہے

ابد کی رونق جو روح چاہے، کرے عبادت بس اک خدا کی

کہا نبیؐ نے، نہیں ہے کوئی یہ زندگی جو جہاں کی ہے

ہمارا جیون تھا رات جیسے، نہ خود کو دیکھا، نہ رب کو سوچا

اُٹھی حرا سے ہے روشنی جو، ہمارے رب کی وہ بندگی ہے

میں سر جھکائے بڑے ادب سے یہ کہہ رہا ہوں عزیز لوگو!

میں گلؔ مہکتا نبیؐ کے گھر کا، مرا قبیلہ محمدیؐ ہے

٭٭٭


دربارِرسالتؐ کیا کہیے، احباب رسالتؐ کیا کہیے معراج پہ جا کے نبیوں کی وہ شان امامت کیا کہیے

طائر بھی تو اُڑنا بھول گئے، بندوں کی بھلا کیا بات کروں

وہ فتح مبیں کے لمحوں کی، مکے میں خطابت کیا کہیے

سونے کو ابد تک چاہوں میں، قدموں میں نبیؐ کے !اللہ

تقدیر کے میرے کاغذ پر، پر نور کتابت کیا کہیے

بیٹھے ہیں چٹائی پر لیکن، محبوبؐ خدا کی خدمت میں

شاہوں کی نگاہیں جھک جائیں، آداب عدالت کیا کہیے

جھکتی ہے جبیں تو سجدے میں، دنیا میں جہاں چاہوں لیکن

محبوبؐ خدا کی مسجد میں، اللہ کی عبادت کیا کہیے

کعبے کی تو اپنی عظمت ہے، ہے خوب مدینے کا منظر

گلزار نبیؐ میں قدرت کے، جلووں کی سخاوت کیا کہیے

ایمان مہکنے لگتا ہے گلزار مدینہ میں گلؔ کا

مینارِ نبیؐ کے گوشوں سے آذان تلاوت کیا کہیے

٭٭٭



مرا نبیؐ ہے جہاں کی رونق، جہاں کی رونق میرا نبیؐ ہے یہ سبز گنبد، یہ نور کعبہ، یہ سب اُسی کی تو روشنی ہے

جمالِ فطرت مرا نبیؐ ہے، مرا نبیؐ ہے کمالِ قدرت

جہاں کی رونق، دلوں کا محور، مرے نبیؐ ہی کی زندگی ہے

مرے نبیؐ کی حیات رحمت، اُسی کے دم سے ہے شان و شوکت

وہ شاہ ارض وسما تھے پھر بھی، جمیل اُن کی وہ سادگی ہے

جمالِ فطرت کے ہیں وہ مظہر، مرے نبیؐ ہیں جہاں کی ارحم

زمیں پہ رحمت ہماری قسمت، خدا کی اُن سے وہ دلبری ہے

حیات افضل ہے اس جہاں کی اگر ہے دل میں نبیؐ کی عظمت

شعور میں گر نبیؐ نہیں ہے، یہ زندگی بس تو نام کی ہے

میں نعت کہنے کو کہہ رہا ہوں، مگر حقیقت میں یا محمدؐ !

حیات تیری میں گنگناؤں ترا ادب ہی تو شاعری ہے

چلو وہاں پر حیات دیکھیں، جہاں ہے میرے نبیؐ کی بستی

سحر کی کرنوں سے نور برسے، مہکتی جنت سی شام بھی ہے

کلام ربی میں گفتگو ہے حیات مثل نظام قرآن

نبیؐ کی سنت میں زندگی کی، ہر ایک لمحے میں دلکشی ہے

نفیس اُن کی حیات افضل، جمیل اُن کا کلام اقدس

وجودِ اطہر کا ہے نہ سایا، یہی تو فطرت کی شاعری ہے

نبیؐ کے در پر دیارِ رب پر لکھوں قصیدہ جو مدحتوں کا

کہیں گے محشر میں جن وانساں، یہ گلؔ نبیؐ کا ہی اُمتی ہے

٭٭٭





دل کے نگر میں رہتے ہیں میرے خدا اور میں میرے پیارے، میرے محمدﷺ ، اُن کی ضیاء اور میں

میری دنیا، میری دولت، اس سے بڑھ کر کیا

شہرِ مدینہ، جنت منظر، بادِ صبا اور میں

منظر ہے کیا دید کے قابل، میرے خدا کی شان

رِم جھم رِم جھم جذب کی بارش، کوہِ صفا اور میں

پاس ہمارے ہوتے ہیں وہ اپنے رب کے ساتھ

عشق نبیﷺ میں مل کر جاگیں، رات دیا اور میں

گم ہو جائیں میرے مولا، عشق نبیﷺ کے صدقے

طیبہ کی گلیوں میں جا کر، میری صدا اور میں

یہ اعزاز ملے گر مجھ کو پھر میں مانگوں کیا

عشق محمدﷺ میں رقصاں گل، مست ہوا اور میں

٭٭٭





جھکا میں سجدے میں اپنا سر دیکھوں سدا میں خود پہ ترے لطف کی نظر دیکھوں

مرے شعور میں روشن ہو معجزہ تیرا

فلک پہ چودھویں کی رات جو قمر دیکھوں

مری حیات تو مولا تری امانت ہے

میں تیرے در پہ ہی بس اس کو مختصر دیکھوں

میں زندگی کا مسافر بھٹک بھی جاؤں اگر

مرے خدا تری قدرت کو ہم سفر دیکھوں

ترے حبیبﷺ سا کوئی، نہ کوئی تجھ سا ہے

میں تیری یاد میں بس خود کو معتبر دیکھوں

بوقت نزع ہو گل لب پر نام احمد کا

لحد میں روپ کے جلوے، میں بے بصر دیکھوں

٭٭٭






روز روشن بھی ترا لوحِ سیہ بھی تیری تو ہے موعود کل عالم پر نگہ بھی تیری

ابر باراں پہ نہ کر ناز کہ اے دست کریم

کشت بے دانہ و بے آب و گیاہ بھی تیری

ہم نے دیکھے ہی بنا تجھ کو بنایا معبود

ہم تو اس دشت میں مانگے ہیں پنہ بھی تیری

جشن میلاد میں خوش بو ہے تری فطرت کی

تیرے محبوبﷺ کی ہے سالگرہ بھی تیری

زندگی روپ میں جنت کا سماں ہو جائے

گل پہ ہو جائے اگر ایک نگہ بھی تیری

٭٭٭





سجدہ گاہِ عالم میں، ایک ہو بھی ہو جائے عرضِ مدعا اپنی، رُوبرو بھی ہو جائے

شکر ہے خدا تیرا پی رہا ہوں زم زم میں

پیاس بھی بجھے میری، جاں رفو بھی ہو جائے

آنکھ دیکھ لے کعبہ، ہو جبین سجدے میں

دل میں اپنے خالق سے گفتگو بھی ہو جائے

دید مصطفیٰﷺ چاہوں، ہے خدا دعا میری

زندگی کی یہ پوری آرزو بھی ہو جائے

آنکھ جو لگے میری، تیرے روبرو مولا!

دید مصطفیٰﷺ کی پھر دوبدو بھی ہو جائے

ہو خدا عنایت جو روشنی مدینے کی

عشق مصطفیٰﷺ میں گل، خوب رو بھی ہو جائے

٭٭٭





تیرے بندوں کے خدا، خود پر ستم اپنی جگہ قادر مطلق ہے تو تیرا کرم اپنی جگہ

ہے سعادت یہ مجھے کہتا ہوں میں حمد و ثنا

میں تو خود میں مست ہوں، میرا قلم اپنی جگہ

روز محشر کیسے آؤں گا، میں تیرے سامنے

یہ ہے غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ

طالب رحم و کرم، بندے ترے روتے ہیں ہم

اپنی اُمت کے لیے شاہِ اُمم اپنی جگہ

ہو خطا مجھ سے کوئی، آخر خدا آدم ہے گل

درگزر ٹھہری عطا، تیرا کرم اپنی جگہ

٭٭٭





فطرت حق کے اشارے دل بے تاب سمجھ سر ہے سجدے میں تو سجدے کے بھی آداب سمجھ

وہ ہے معبود، تو بندہ ہے ذرا سوچ کبھی

اک اشارے پہ جو ٹکڑے ہوا مہتاب سمجھ

گر ہے خواہش کہ نظر آئیں مقدس جلوے

ایک خالق کے ہیں جتنے بھی وہ القاب سمجھ

دل! اگر تجھ میں نہیں خوف خدا، خوف ابد

دیکھتا تو ہے کوئی خواب، تو وہ خواب سمجھ

لکھ دے سجدے میں جبیں پر تو خدا واحد گل

زندگی دشت و خزاں میں بھی تو شاداب سمجھ

٭٭٭





فلک پہ مل کے نجوم اک، قمر کو دیکھتے ہیں کمال ہیں ترے جلوے جدھر کو دیکھتے ہیں

حسین اس سے بھی فردوس ہو گی کیا، مولا؟

یہ تیرے گھر کے جو دیوار و در کو دیکھتے ہیں

نبیﷺ کے حسن سے روشن ہوا ہے یہ عالم

جہاں پہ تیرے کرم کی نظر کو دیکھتے ہیں

ہیں تیرے نور کی کرنیں، سکونِ دل اس میں

مثالِ عرشِ بریں تیرے گھر کو دیکھتے ہیں

نشے میں مست ثنا کے، بچشم نم ہے، گل

طوافِ کعبہ میں جس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

٭٭٭





میں خاک ہوں مولا، تو مرا پھول بدن کر قندیلِ محمدﷺ ، سے تو روشن مرا من کر

تُو ہر جگہ موجود ہے، لیکن مرے مولا!

کعبہ و مدینہ کو تو میرا ہی وطن کر

شاداب کروں دل کو نگاہوں سے کرم ہو

دیکھوں ترے کعبے کو میں تصویر سا بن کر

میں حمد پڑھوں اور کہوں نعت محمدﷺ

تُو اپنی تجلی سے منور مرا من کر

گلزارِ مدینہ کی ہوا سے، مرے مولا!

خوش بو میں معطر دلِ صحرا کو چمن کر

مہکا مرے لفظوں کو پڑھوں، حمد و ثنا، تُو

بس گل ہی سا مولا مرا یہ خاک بدن کر

٭٭٭





حسن قدرت میں جہاں مجھ سے سجانے والا مجھ کو مٹی سے تُوانسان بنانے والا

تیری رحمت کے برسنے کا نہیں ہے موسم

تو ہے مخلوق پہ رحمت ہی لٹانے والا

سامنے عرش پہ محبوبﷺ کے سِرکا کے نقاب

اپنے جلوے کو تُو جلوہ ہے دکھانے والا

اپنی فردوس کے پہلو میں محمدﷺ کے لیے

رشک جنت تو مدینے کو سجانے والا

مشت اِک خاک ہوں، لیکن تری قدرت سے خدا

گل ہوں، خوش بو ہوں میں دنیا کو سجانے والا

٭٭٭





کہوں میں نعت نبیﷺ اور گنگناؤں اُسے جو میرا دل ہے مدینہ، تو میں سجاؤں اُسے

کہوں میں نعت نبیﷺ ، یہ مری سعادت ہے

میں دل میں عشقِ نبیﷺ کا دیا بناؤں اُسے

جو میں نے دیکھا ہے منظر نبیﷺ ترے گھر کا

مری مجال، یہ ممکن نہیں بھلاؤں اُسے

مرا نبیﷺ تو سراپا ہے میری اُلفت کا

وہ میرا گیت ہے، سیرت میں کیوں نہ گاؤں اُسے

کمالِ حسن کی تعمیر گل مدینہ ہے

کہوں میں نعت تو پہلے نظر میں لاؤں اُسے

٭٭٭






سنا ہے شب میں فرشتے اُتر کے دیکھتے ہیں تو دن میں اُڑتے پرندے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے نور برستا ہے شب میں رحمت کا

چلو کہ رات وہاں ہم ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آتی ہے خوش بو وہاں کی گلیوں سے

گلی گلی سے چلو ہم گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آتی ہے خوش بو حریم جنت سے

چلو کہ شبنمی قطرے سحر کے دیکھتے ہیں

ہیں خوش نصیب جو رہتے ہیں گل مدینے میں

نظارے لطف میں شام وسحر کے دیکھتے ہیں

٭٭٭





دیارِ احمد ﷺ مختار چل کے دیکھتے ہیں نبیﷺ کے روپ کا گلزار چل کے دیکھتے ہیں

دلوں کو جس سے سکون و قرار ہیں حاصل

چلو وہ روضۂسرکارﷺ چل کے دیکھتے ہیں

ثنا سے نعت مہکتی ہے میری دنیا میں

سماں وہ محفل اذکار چل کے دیکھتے ہیں

جہاں میں دوسرا اک پاک گھر نبیﷺ کا ہے

چلو وہ گنبد و مینار چل کے دیکھتے ہیں

خدا کے نور کی برسات ہے مدینے میں

چلو وہ منظرِ گلنار چل کے دیکھتے ہیں

عجب سماں ہے مدینے میں گل عقیدت کا

فلک سے بارش انوار چل کے دیکھتے ہیں

٭٭٭






جشن انوار میں گلزار کو تکتے جاویں دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں

نعت کہتا ہوں کہ اعزاز کا طالب ہوں میں

لفظ میرے تری اُلفت میں دمکتے جاویں

تیرے در پر ہے گداؤں کے گداؤں کی دعا

شامِ رُخصت تری خوش بو میں مہکتے جاویں

رُت ہو کوئی بھی مدینہ کے دمکتے منظر

عشق احمدﷺ میں وہ غنچوں سے چٹختے جاویں

رشک عالم ہیں مدینے کے حسیں منظر، گل

جیسے جگنو مری آنکھوں میں چمکتے جاویں

٭٭٭






لائے کوئی تو نبیﷺ ایک ہمارے کی مثال وہ کہ نبیوں میں نبیﷺ قطب ستارے کی مثال

میرے محبوبﷺ کا ثانی تو بڑی دور کی بات

کوئی عالم میں نہیں اُن کے اشارے کی مثال

عشق احمدﷺ میں عطا ہے مجھے تحفہ کیسا

زندگی ساتھ ہے میرے کسی پیارے کی مثال

ہم تو بس ذکر محمدﷺ میں مہکنا چاہیں

نعت گوئی تو ہے بس اپنی گزارے کی مثال

شکر اللہ!کہ رحمت ہے نظر بھی گل پر

رات شبنم کی طرح، صبح ستارے کی مثال

٭٭٭






ہیں سرپہ مرے احمدﷺ مشکل کشا کے ہاتھ دیکھے تو مجھ کو نار جہنم لگا کے ہاتھ

لب پر مرے درود محمدﷺ ہو اُس گھڑی

زنجیر زندگی کی جو کھولے قضا کے ہاتھ

شبنم گلوں پہ جیسے مدینہ میں ہوں نبیﷺ

میرے بدن کو جب سے لگے ہیں صبا کے ہاتھ

نقش و نگار، حسن، نظارے بدل گئے

جب سے لگے جہان کو خیر الوریٰ کے ہاتھ

یارب مری حیات کا جب ہو چراغ گل

مسجد میں مصطفیٰﷺ کے کھڑا ہوں اُٹھا کے ہاتھ

٭٭٭






نعت گلزار مدینہ میں سناتے، جاتے ہم بھی خوش بوئے محمدﷺ میں نہاتے جاتے

در پہ محبوبﷺ کے کوثر کے تمنائی کو

ہم بھی پیالے اُنہیں زم زم کے پلاتے جاتے

کوئی مشکل تو نہیں تھا مرے محبوبﷺ خدا

جلوہ گر ہوتے یہاں، عرش پہ آتے جاتے

دل میں جلوے ہیں فروزاں ترے محبوب نبیﷺ

پیاس آنکھوں کی مدینہ میں بجھاتے جاتے

تیرے قدموں کے نشاں دیکھتے گلیوں میں ترے

خاک پلکوں پہ مدینہ کی اُٹھاتے، جاتے

٭٭٭





جلوے مرے محبوبﷺ دکھانے کے لیے آ یہ بزم جہاں پھر سے سجانے کے لیے آ

یہ عالمِ ہستی تو سجی ترے لیے ہے

اس بار جو آئے تو نہ جانے کے لیے آ

رہتا ہوں مدینہ میں، مدینہ ہے مرا دل

آنکھوں کی مری پیاس بجھانے کے لیے آ

دیکھیں ترے کردار و عمل میں تری اُمت

آنکھوں پہ ہیں پردے جو، اُٹھانے کے لیے آ

جیون کی کڑی دھوپ میں پیاسے ہیں نبیﷺ گل

ایمان ہمیں پھر سے پلانے کے لیے آ

٭٭٭





درِ حبیبﷺ پہ رکھے خدا، گدا مجھ کو میں کیا سے کیا ہوا، آخر تو ہے فنا مجھ کو

خدا کے بعد ہے اک آسرا ترا مجھ کو

میں خود کو بھول بھی جاؤں، نہ بھولنا مجھ کو

جہان ایک ہی سجدہ میں مل گیا مجھ کو

شعور آپﷺ نے اتنا تو دے دیا مجھ کو

مری حیات پہ برسے ہیں جذب کے بادل

حب احمدﷺ کا بڑا ایک ہے دعویٰ مجھ کو

لبوں پہ دیکھنا اعزاز گل مدینے میں

نظر تو آئے کوئی ایک نقش پا مجھ کو

٭٭٭





رنگ بکھرے ہیں مدینہ میں وہ سرکار کہ بس ! ہم نے دیکھا ہے مدینہ کا وہ گلزار کہ بس!

رات ہوتی تو مدینہ میں نہ دیکھی ہم نے

یوں برستے ہیں مدینہ میں وہ انوار کہ بس!

بھول جاتی ہے خودی آپﷺ کے قدموں میں حضورﷺ

ہے وفا آپﷺ کے قدموں میں وہ سرکار کہ بس!

دل تو مدہوش ہی رہتا ہے در اُلفت پر

ذکر و اذکار میں ہوتا ہے وہ دیدار کہ بس!

آنکھ لگنے کو بھی فرصت نہیں دیتی ہے نگاہ

خوب دن رات دمکتے ہیں وہ مینار کہ بس!

ذکر کرتے تو ہیں لیکن وہ مدینہ سا کہاں

واں عجب نور میں ہوتے ہیں گل اذکار کہ بس!

٭٭٭





مجھے چاہیے مرے مصطفیٰﷺ ترا پیار، پیار کے شہر کا جو بدل کے رکھ دے نظام کو، دل بے قرار کے شہر کا

سبھی تیرے در کے فقیر ہیں، ہو نظر ہمارے بھی حال پر

کوئی چھاؤں ہے، نہ نظام ہے ترے غمگسار کے شہر کا

میں ہو مست ذکر حبیب میں، ہے نشہ ہی ایسا فضاؤں میں

ہے قسم خدا کی، میں کیا کہوں، شب گل بہار کے شہر کا

ترا دم ہی میرا شعور ہے، مری فکر میں جو کمال ہے

تری شان ہی کا جمال ہے، دل نوبہار کے شہر کا

تری جستجو بھی عظیم ہے یہ کرم ہے رب کریم کا

ہے نکھار جو یہ بہار ہے ترے یار غار کے شہر کا

مرے دل کی بستی بہار گل، ہے سکون اس میں قرار بھی

مرے دل کی بستی نبیﷺ کی ہے، نہیں دور پار کے شہر کا

٭٭٭





کیا خوب مدینہ کے گلستاں میں پھرے تھا محبوبﷺ کے جلوؤں کے چراغاں میں پھرے تھا

پہچان لیا خود کو محمدﷺ کی بدولت

پہلے تو بس اک صورت انساں میں پھرے تھا

کیا عشق فروزاں تھا مرے آلِ نبیﷺ میں

کیا نورِ نبیﷺ خونِ شہیداں میں پھرے تھا

بس ایک اشارے پہ بدن چاک ہوا وہ

کیا عشق کا جذبہ مہ تاباں میں پھرے تھا

کیا لطف تھا مت پوچھیے، گل شہرِ نبیﷺ میں

اخلاق و محبت کے دبستاں میں پھرے تھا

٭٭٭





عالم کو حقیقت کی ہوا تک نہیں آئی محبوب سے پہلے تو ندا تک نہیں آئی

محبوبﷺ کے قدموں میں لگی آنکھ تو ایسی

آواز کبھی، بانگ درا تک نہیں آئی

فیضانِ نبیﷺ سے یہ سلیقہ ہے وگرنہ

عالم کو تو جینے کی ادا تک نہیں آئی

سوچا تھا کہ جائیں گے تو مانگیں گے بہت کچھ

روضے پہ جو آئے تو دعا تک نہیں آئی

سجدے میں سلیقہ بھی تو گل فیض نبیﷺ ہے

پہلے تو ہمیں ایسی ادا تک نہیں آئی

٭٭٭






وہ زندگی میں نظارے سحر کے دیکھتے ہیں نبیﷺ کو دل میں جو اپنے اُتر کے دیکھتے ہیں

نبیﷺ کے حسن اشارے میں اک حرارت ہے

کہ دل میں آج بھی شق القمر کو دیکھتے ہیں

چلے ہیں قافلے حج کے لیے خدا کے گھر

چلو کہ ہم بھی ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حمد و ثنا ہی سے دید ملتی ہے

کچھ اپنے ہم بھی کرشمے ہنر کے دیکھتے ہیں

در رسولﷺ پہ جب نعت پڑھ رہا ہو گل

فضا میں اُڑتے پرندے اُتر کے دیکھتے ہیں

٭٭٭






آنکھوں میں منور مرے غمخوار کی صورت اعزاز مجھے نعت ہے اظہار کی صورت

میلاد محمدؐ کا ہے اعزاز یہ خالق

مہکا ہے جو عالم گل و گلزار کی صورت

الفاظ مرے گل ہیں، مہک سانس میں مہکے

دل میں ہے محمد مرے گلزار کی صورت

دیکھا جو مدینہ ہے، تمنا اُسے دیکھوں

صورت کوئی نکلے کئی سوبار کی صورت

لاؤ تو ذرا عرش پہ خالق نے کہا گلؔ

دیکھوں میں ذراسامنے دلدار کی صورت

٭٭٭







خیال و فکر میں اپنے قریب پاؤں نبیؐ پڑھوں میں نعت نبیؐ اور گنگناؤں نبیؐ

دل و نگاہ میں جلوے تری نبوت کے

جہاں میں آپ کو دیکھوں، جہاں بھی جاؤں نبیؐ

دکھایا آپؐ نے جلوؤں میں اک خدا مجھ کو

اُسی کے سامنے اپنی جبیں جھکاؤں نبیؐ

جہاں میں آپ کی آمد ہے رحمتوں کا نزول

ہے میرا عشق جو میلاد میں مناؤں نبیؐ

ہے میرے روح کو تسکین، قلب بھی روشن

جمال آپ کا شام وسحر مناؤں نبیؐ

٭٭٭





چلے آئے زمیں پر عرش سے جب مصطفیٰؐ میرے دلوں میں زندگی کے رنگ نکھرے کیا خدا میرے

مری ماں نے کہا بیٹے پڑھو، صلیِ علیٰ جب تو

تصور نے نبی کی شان دیکھی دلربا میرے

گئے تھے عرش پہ ملنے کو خالق سے وہ لمحوں میں

جہانوں میں کہاں کوئی نبیؐ کی شان کا میرے

محمد مصطفیٰؐ صدقے تیرے بس ہے دعا میری

مرے ایمان کا دل میں رہے روشن دیا میرے

تصور میں جو گل دیکھوں کبھی میں گنبد خضریٰ

گلے لگتی ہے ایسے میں مدینے کی ہوا میرے

٭٭٭





نبی کی نعت پڑھتا ہوں کہ ہے یہ دل کشی میری سجائی آپ نے دار العمل میں زندگی میری

محمد مصطفیٰؐ سے عشق میں اعزاز ہے مجھ کو

مرے اللہ نے بیت اللہ میں لکھی حاضری میری

مرے دل کی ہر اک دھڑکن میں دھڑکے یارسول اللہ

صدا دل شاد ہو جو عاشقی ہے آپ کی میری

میں کیا مانگوں مرے مولا مجھے بس ہے عطا تیری

درودِ مصطفیٰؐ ہے زندگی کی ہر خوشی میری

محمد مصطفیٰؐ کی شان گر دل میں نہیں روشن

تو گل بخشالوی کس کام کی ہے بندگی میری

٭٭٭



ہے حبیب رب کا مرا نبیؐ وہ جہانِ جشن میں روشنی پڑھوں نعت کیوں نہ میں شان کی، ہے حبیب رب کا مرا نبیؐ

ہمیں علم تھا کوئی ہے خدا، لاشریک ہے نہیں علم تھا

ہمیں آپ ہی نے بتا دیا، ہے کریم لائق بندگی

بس اک آپ تھے تو کوئی نہ تھا، کوئی تھا تو بس اک خدا ہی تھا

وہ محب تھے آپ حبیب تھے، یہ جہاں ہے عشق کی زرگری

وہ وحی سے پہلے مثال تھے، وہ عمل میں اپنے کمال تھے

وہ مثالِ حسن جمال تھے، پڑھی نعت اُن کی خدا نے بھی

پڑھوں نعت عشق حبیب میں، یہ لکھا ہے گل کے نصیب میں

ہوں نبیؐ کے اپنے قریب میں، یہ ضیاء ہے رب کریم کی

٭٭٭




نہیں ہے ارض وسما میں کوئی شریک خدا نبی کے مثل جہاں میں جو ہے کوئی تو بتا

خدا کا عرشِ معلی سجا ہے جنت سے

جہاں کا حسن مدینے میں گنبد خضریٰ

میں جانتا ہوں دیا جو مجھے خدا نے دیا

درِ رسول سے مومن کو کیا نہیں ہے ملا

دلوں میں عشق خدا سے دئیے ہوئے روشن

جہاں کے بزم میں جب نور مصطفیٰؐ دیکھا

زمیں پہ جشن میں میلاد مصطفیٰؐ کا سماں

فلک پہ چاند ستاروں کو جھومتا دیکھا

زمین نصیب کہاں ہو تجھے کبھی ایسا

نبی سے عشق میں جو تھا حسین کا سجدہ

نبی کے دین میں چاہوں بلال ہو جاؤں

نبی کے عشق میں واحد غلام تھا دیکھا

٭٭٭



جشن میلاد النبیؐ ہے صاحب قرآن کا عید کا دن آج ہے گل صاحب ایمان کا

کھل گئیں آنکھیں فرشتوں اور ملائک کی حسیں

عرش پہ دیکھا ہے استقبال جو مہمان کا

آپ نے محبوب کا تحفہ جہاں کو دے دیا

شکرہے مولا ترا انسان پر احسان کا

ہم غلامانِ نبی گل شاد ہیں دل شاد ہیں

جشن ہے گل کل زمانوں کے نبیؐ سلطان کا

ہے اگر پینے کو اپنے پاس تو پھر کیا ہے غم

عشقِ احمدؐ کا نشہ! زادِ سفر انسان کا

کس قدر گل رنگ ہے چہرہ نبی سے عشق میں

جشنِ میلاد النبی میں میرے پاکستان کا

٭٭٭




خدا کے نور نے جب گودِ آمنہ دیکھا جہانِ حسن نے محبوب کبریا دیکھا

بڑی ہے مست مدینے سے آئی کعبہ تو

بتا مجھے بھی تو، کیا تو نے اے ہوا دیکھا

دلوں سے گرد ہٹی اور ہوئے منور وہ

نبی کو سامنے جس نے بھی تھا سنا دیکھا

امام آپ تھے سارے نبی امامت میں

خدا نے سامنے سجدہ رسول کا دیکھا

نبی تھے سارے جہانوں کے رونقِ محفل

خدا نے عرش پہ میلاد مصطفیٰؐ دیکھا

گلوں کے ساتھ میں بادِ صبا بھی تھی رقصاں

وجود پاک جو دنیا نے آپ کا دیکھا

عظیم جشن پہ میلاد مصطفیٰؐ ہے گلؔ

جہاں پہ کیا ترا احسان اے خدا دیکھا

٭٭٭


تیرے در پہ آ گیا چاہوں، بڑا اعزاز ہو

زندگی میری اگر دہلیز پر سونے لگی مصطفیٰؐ ہیں آپ میرے، آپ کا، میں آپ کا

آپ ہی کے دم سے دنیا، زندگی کھلنے لگی

گنبد خضریٰ کو جب دیکھا تصور میں نبیؐ

میرے سینے سے مدینے کی ہوا لگنے لگی

یہ جہاں اور وہ جہاں، چاہوں میں تیرا ساتھ ہو

محفلِ دل میں مرے بس یہ دعا ہونے لگی

کھل گئے گلشن تو کیا، پربت بھی روشن ہو گئے

جشن میلاد النبیؐ میں ہر کلی کھلنے لگی

عشق احمدؐ میں ترا کردار روشن گلؔ رہے

زندگی میری مجھے ایسی دعا دینے لگی

٭٭٭





کل بھی تھا ہوں آج بھی ہوں گا بھی آئندہ فقیر مصطفیٰؐ سے عشق میں ہوں خوب تابندہ فقیر

مصطفیٰؐ سے عشق میں دیکھو مرا ایمان تُو

حشر میں بھی دیکھتا ہوں گا میں گل شندہ فقیر

اے خدا!دکھ دے مجھے لیکن ذرا یہ دیکھنا

میں نبی تیرا نہیں، بندوں میں ہوں بندہ فقیر

کیوں مرے دل کی دعا آئے پلٹ کر عرش سے

پیر کامل ہے مرا کوہاٹ میں زندہ فقیر

مصطفیٰؐ سے عشق میں تیرا ہوں اک ادنیٰ غلام

آپ کے ہوتے بھلا کیوں ہو گا شرمندہ فقیر

تیری خوشبو یہ جہاں گل ہے مدینہ آپ کا

کاش! میں ہوتا مدینے کا ہی باشندہ فقیر

٭٭٭




=== حمد و مناجات ===


لحد چاہوں مدینے میں خدا، تیری عبادت میں

امانت جان میں دے دوں مدینے کی زیارت میں

نہیں ہے خوف مرنے کا، تُو جانے کب سجے محشر

مدینہ گر نہیں ہو گا، رہوں گا کیسے راحت میں

جبیں بے چین ہے میری تڑپ دل میں تجھے دیکھوں

کروں سجدے بہ چشم نم، رہوں تیری عدالت میں

یہ دل کعبہ تو ہے مرا، نگاہوں میں مدینہ ہے

مری ہستی میں تُو مہکے، تیر چاہوں عنایت میں

مجھے توفیق دے ایسی، جبیں رکھ دوں جو کعبے میں

مجھے اُٹھنے نے دے سجدہ، کروں ایسی عبادت میں

مرے ماں باپ گل رشتے، شریک ہم سفر بیوی

بہن بھائی، مرے بچے، رہیں تیری حفاظت میں

سجے گا جب ترا محشر، میں آؤں گلؔ مدینے سے

ترے ہو روبرو سجدہ، محمدؐ کی امامت میں

٭٭٭





تو رازق ہے میں اس سے باخبر ہوں

تو خالق ہے میں تیرا اک بشر ہوں

میں راہی ہوں ،نبیؐ ہے ساتھ میرے

کہا کب ہے خدا میں در بدر ہوں

کرم ہو اک ہو فقیر مصطفیٰؐ پر

غلام مصطفیٰؐ بس مشتہر ہوں

مرے معبود ہے اعزاز میرا

محمد مصطفیٰؐ کے دین پر ہوں

فلک پر چاند تارے تیری قدرت

خدا میں دیکھتا تو رات بھر ہوں

چلا ہوں میرے مولا گلؔ مدینے

یہی کہنے تو آیا تیرے گھر ہوں

٭٭٭





کعبۃ اللہ میں

جانوں ترا جلال سنہرے ترے اصول

در پر ترے فقیر کی ہو حاضری قبول

سجدے میں ہوں مطاف میں کعبہ ہے سامنے

دھونے لگا ہوں روح و بدن سے خطا کی دھول

لپٹا غلاف کعبہ سے مانگوں ترا کرم

یارب! میں زندگی کی حقیقت گیا ہوں بھول

آئی صدا غلاف سے ایسے لگا مجھے

جھولے میں زندگی کے ذرا دل لگا کے جھول

رمضان میں سمیٹنے آیا ہوں برکتیں

ہوتا رہا قرآن کا اس ماہ میں نزول

یارب! مری حیات کا جب ہو چراغ گلؔ

کعبہ ہو میرے سامنے یا روضۂ رسولؐ

٭٭٭





عشق مصطفیٰؐ

ہے میرا سینہ، مرا مدینہ

مرے نبیؐ ہیں مکین اس میں

مرے خدا کا حبیب ہے وہ

نہ اُسؐ کے جیسا کوئی نبی ہے

نہ اُس کے جیسا ہے کوئی آیا

نہ آنے والا

وہؐ نور لے کر زمیں پہ آئے

کسی نے دیکھا نہ اُن کا سایا

گئے زمیں سے فلک پہ اپنے

خدا سے ملنے

اُٹھی جو میرے نبیؐ کی انگلی

تو چاند ٹکڑوں میں بَٹ گیا تھا

زمیں پہ رحمت وہ بن کے آئے

بہ روز محشر ہیں سر پہ سایا

مرا قبیلہ محمدیؐ ہے

مہک ہے میری جہاں میں افضل

میں عشق احمدؐ کا ایک گلؔ ہوں

٭٭٭




گنبد خضریٰ کے سائے میں

آیا تھا مجھے میرے محمدؐ کا بُلاوا

میں گنبد خضریٰ کے نظاروں میں نہایا

ہونٹوں پہ مجھے روضۂ اقدس نے ہے چُوما

آنکھوں سے مجھے گنبد خضریٰ نے لگایا

مدہوش ہوں بیٹھا ہوا میں صحن حرم میں

اے ماں !مجھے کیا عشقِ محمدؐ ہے پِلایا

کعبہ تو ترا گھر ہے جو معراج سکون ہے

دنیا میں مدینہ تری جنت ہے خدایا

قدموں میں جگہ دے کے مجھے میرے نبیؐ نے

ہے گنبد خضریٰ کو مرے سرپہ سجایا

آیا ہوں ترے در پہ گداؤں کا گدا گلؔ

کیا عشقِ محمدؐ ہے مقدر نے پِلایا ٭٭٭


قطعات

ترا اخلاق جو، عالم نے دیکھا

نہیں ثانی محمد مصطفیٰؐ کا

بدل دے گا نظام آدمیت

نبیؐ یہ آخری واحد خدا کا

٭٭٭



محمدؐ نام میں وہ نور لائے

ہوئی روشن شب تاریک، سائے

ثنا پڑھنے لگے ذرے شجر بن

زمین وآسماں بھی مسکرائے

٭٭٭



پڑے غفلت میں تھے گوتھے دئیے ہم

شعورِ ذات میں روشن ہوئے ہم

خدا واحد کے جلوے وہ دکھائے

کہ بس تصویر جنت ہو گئے ہم

٭٭٭



کہوں میں نعت تو لگتا ہے ایسے

نبیؐ کے سامنے بیٹھا ہوں جیسے

میں دیکھوں چہرۂ اطہر مبارک

کہاں ہے تاب کھولوں آنکھ کیسے

٭٭٭



نبیؐ کی شان ہے دنیا کا منظر

فلک پر ہیں جو مہر و ماہ و اختر

وہ جنت چھوڑ جو آئے تھے آدمؑ

مدینے میں چلی آئی زمین پر

٭٭٭


بسایا میں نے دل میں مصطفیٰؐ ہے

اُسی کے ساتھ اک ذات خدا ہے

رہ دنیا سے پائی راہ عقبیٰ

مری ہستی پہ یہ دہری عطا ہے

٭٭٭


جو عالم مدینے میں ہم دیکھتے ہیں

فرشتے بھی جنت میں کم دیکھتے ہیں

مدینے کے منظر میں فردوسِ خالق

خدا کا یہ خود پہ کرم دیکھتے ہیں ٭٭٭


غمِ حسینؑ

قطعات

حسینؑ عظمت خیرالوریٰ کا مظہر ہے

حسینؑ جادۂ جمہوریت کا رہبر ہے

حسینؑ جس نے بجھایا یزیدیت کا چراغ

علم اُسی کا بلند آج تک فلک پر ہے

٭٭٭


فضا اُداس ہے شبیرؑ کے پسینے پر

غم حسینؑ ہے اک قرض میرے جینے پر

اے کر بلا کی زمیں تو ہی میری جنت ہے

لہو گرا ہے محمدؐ کا تیرے سینے پر

٭٭٭



حسینؑ گلشن مذہب کا ایک گل ہے نفیس

حسین کرب و بلا کے مسافروں کا رئیس

یزید عالم انسانیت کی گالی ہے

کہ جیسے حور و ملائک میں ایک ہے ابلیس

٭٭٭





نواسۂ رسول اللہ

جہاں سے نقش ظلمت کا مٹانا کس کو آتا ہے

چراغ دین دنیا میں جلا نا کس کو آتا ہے

رضائے رب کی خاطر گھر لٹا نا کس کو آتا ہے

قضا کی چھاؤں میں بھی مسکرانا کس کو آتا ہے

یزیدی ظلمتوں میں کفر و باطل کے اندھیرے میں

مثال مہر تاباں جگمگانا کس کو آتا ہے

زمین کربلا آواز دے گی یہ قیامت تک

خدا کے نام پر قربان جانا کس کو آتا ہے

وہ منظر دیکھ کر ماتم کیے ہیں آسمانوں نے

غم شبیرؓ میں آنسو بہانا کس کو آتا ہے

زمانہ کب بھلا سکتا ہے سقائے سکینہ کو

وفاداری میں یوں بازو کٹانا کس کو آتا ہے

اُسی نانا کے سجدوں کی یہی تعلیم تھی ورنہ

برستی آگ میں سجدے میں جانا کس کو آتا ہے

زمین نینوا گلنار ہے، خون شہیداں سے

لہو رگ رگ کا گلؔ ، حق پر بہانا کس کو آتا ہے

٭٭٭