"سامانِ بخشش ۔ نوری بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
م (Admin نے صفحہ سامانِ بخشش کو بجانب سامانِ بخشش ۔ نوری بریلوی منتقل کیا)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7: سطر 7:
تعارف کنندہ: [[ ڈاکٹر مشاہد رضوی ]]
تعارف کنندہ: [[ ڈاکٹر مشاہد رضوی ]]


===سامان بخشش عرف گلستان نعت نوری===
=== سامان بخشش عرف گلستان نعت نوری ===


یہ حضور مفتی اعظم قدس سرہ کا نعتیہ دیوان ہے جو ۱۲۴؍ صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔ جس میں حمدباری تعالیٰ، مناقب، غزل اور رباعی وغیرہ بھی ہیں۔ آپ کی شاعری میں جابجا امام احمدرضا قدس سرہ کا عکس جھلکتا ہے اور شاعری کی زبان جدلیاتی اورفکری اُپج سے وجود میں آتی ہے ۔ اختصار ، اشارہ ، پردہ داری اس کے اوصاف ہیں۔ جبکہ نثر وضاحت اور صراحت سے پہچانی جاتی ہے ۔ زبان کا جدلیاتی استعمال ، استعارہ سازی ، پیکر تراشی ، ترکیب سازی وغیرہ کی ہنر مندی کسبی کم ، عطائی زیادہ ہے اور یہ چیز جذبہ کی سچائی کی مرھون منت ہوتی ہے ۔ اس لئے کسی نے یہ کہا ہے کہ ’’ وہ شخص شاعر ہوہی نہیں سکتا جس نے عشق نہ کیا ہو۔‘‘
یہ حضور مفتی اعظم قدس سرہ کا نعتیہ دیوان ہے جو ۱۲۴؍ صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔ جس میں حمدباری تعالیٰ، مناقب، غزل اور رباعی وغیرہ بھی ہیں۔ آپ کی شاعری میں جابجا امام احمدرضا قدس سرہ کا عکس جھلکتا ہے اور شاعری کی زبان جدلیاتی اورفکری اُپج سے وجود میں آتی ہے ۔ اختصار ، اشارہ ، پردہ داری اس کے اوصاف ہیں۔ جبکہ نثر وضاحت اور صراحت سے پہچانی جاتی ہے ۔ زبان کا جدلیاتی استعمال ، استعارہ سازی ، پیکر تراشی ، ترکیب سازی وغیرہ کی ہنر مندی کسبی کم ، عطائی زیادہ ہے اور یہ چیز جذبہ کی سچائی کی مرھون منت ہوتی ہے ۔ اس لئے کسی نے یہ کہا ہے کہ ’’ وہ شخص شاعر ہوہی نہیں سکتا جس نے عشق نہ کیا ہو۔‘‘

نسخہ بمطابق 02:50، 20 اکتوبر 2017ء


10527488 725222090868230 6399530424689252633 n.jpg

تعارف کنندہ: ڈاکٹر مشاہد رضوی

سامان بخشش عرف گلستان نعت نوری

یہ حضور مفتی اعظم قدس سرہ کا نعتیہ دیوان ہے جو ۱۲۴؍ صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔ جس میں حمدباری تعالیٰ، مناقب، غزل اور رباعی وغیرہ بھی ہیں۔ آپ کی شاعری میں جابجا امام احمدرضا قدس سرہ کا عکس جھلکتا ہے اور شاعری کی زبان جدلیاتی اورفکری اُپج سے وجود میں آتی ہے ۔ اختصار ، اشارہ ، پردہ داری اس کے اوصاف ہیں۔ جبکہ نثر وضاحت اور صراحت سے پہچانی جاتی ہے ۔ زبان کا جدلیاتی استعمال ، استعارہ سازی ، پیکر تراشی ، ترکیب سازی وغیرہ کی ہنر مندی کسبی کم ، عطائی زیادہ ہے اور یہ چیز جذبہ کی سچائی کی مرھون منت ہوتی ہے ۔ اس لئے کسی نے یہ کہا ہے کہ ’’ وہ شخص شاعر ہوہی نہیں سکتا جس نے عشق نہ کیا ہو۔‘‘ مفتی اعظم قدس سرہ جیسی مایہ ناز ہستی کے حصہ میںیہ عشق ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں رونما ہوا۔ اور اس کے اظہار کے لئے آپ نے نعت گوئی کا سہارا لیا جہاں تک نعتیہ مواد کا تعلق ہے مفتی اعظم کی شخصیت بر صغیر میں آفتاب علم و کمال کی حیثیت رکھتی تھی ۔ قرآن ، حدیث ، تفسیر ، فقہ اور دیگر علوم کے علاوہ فلسفۂ اسلامی اور عقائددینی پران کی گرفت بڑی مضبوط تھی ۔ علوم مشرقیہ کے باریک سے باریک نکات ان پر واضح تھے ۔ نتیجے کے طورپر عشق کی آنچ نے جہاں جذبہ کو مہمیز کیا وہیں علمی تبحر نے احتیاط کو راہ دی اور پھر ان دونوںکی آمیزش نے مفتی اعظم کے کلام کو سادگی اور معنوی حسن عطا فرمایا۔ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار دل کی آواز میں پاکیزگی، لطافت اور دلوں کو منور کردینے والی وہ کیفیت ہے جو ایک صاحب دل بزرگ کے دل کے گداز کا پتہ دیتی ہے ۔ نمونہ شعر ملاحظہ ہوں ؎ حسرت دیدار دل میں ہے اور آنکھیں بہہ چلیں تو ہی والی ہے خدایا دیدۂ خوں بار کا چارہ گر ہے دل تو گھائل عشق کی تلوار کا کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہم زنگار کا ہائے اس دل کی لگی کو بجھائوں کیوں کر فرط غم نے مجھے آنسو بھی گرانے نہ دیا جو ہو قلب سونا تو یہ ہے سہاگہ تری یاد سے دل نکھارا کروں میں حضور مفتی اعظم قدس سرہ کی شاعری ازابتداتا انتہا تو حید ربانی اور فضائل ومحامد سید المرسلین میں ڈوبی ہوئی ہے اور آپ کے ماہر شاعر ہونے کا مبرھن ثبوت ہے ۔آپ کو شاعری ورثہ میں ملی ۔ زبان ان کے گھر کی باندی ہے ۔ آپ نے حمد ، نعت و منقبت سب کچھ کہا ہے ۔ ہر ایک میں رنگ تغزل جھلملاتا ہے ۔ رس اور نغمگی پڑھنے اور سننے والے کو مسحور کردیتی ہے۔ لطافت ، صداقت ، گہرائی ، استعارہ سازی ، پیکر تراشی ، تراکیب سازی ، بلند خیالی ،فلسفہ آمیزی اور بلاغت اشعار کی جان ہیں۔ اور سامانِ بخشش کا دوسرا نام ’’ گلستان نعت نوری ‘‘ ہے ۔ یہ دیوان ۱۳۴۷ھ سے ۱۳۵۴ھ کے درمیان مکمل ہوا ۔ اس لئے دونوں سنوات کے اعتبار سے حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے دو نام رکھے اور پورانام اسطرح رکھا۔ ’’سامان بخشش عرف گلستان نعت نوری‘‘

نوری بریلوی کی نعت گوئی اصحابِ نقد و نظر کے سوچ کینوس پر