بیکل اتساہی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

بیکل اتساہی کا اصل نام محمد شفیع خان تھا۔ پہلے وہ بیکل وارثی بنے پھر بیکل اتساہی بن گئے۔ بیکل اتساہی اترپردیش کے قصبے بلرام پور میں سنہ 1928 میں پیدا ہوئے تھے۔

بیکل اتساہی بننے کا واقعہ

ان کے بیکل اتساہی بننے کا واقعہ قدرے سیاسی ہے۔ انھوں نے انڈیا کے پہلے وزیر اعظم کے سامنے ایک نظم 'کسان بھارت کا' پڑھی اور اس قدر جوش کے ساتھ پڑھی کہ جواہر لال نہرو یہ کہہ اٹھے کہ 'یہ ہمارا اُتساہی (جوشیلا) شاعر ہے' اور اس کے بعد بیکل وارثی بیکل اتساہی بن گئے۔ <ref> الاخبار </ref>

نعت گوئی

محقق نعت ڈاکٹر مشاہد رضوی فرماتے ہیں

"بیکلؔ اتساہی کی نعتوں ، سلام ، مناقب ، قصائد، نظموں ، غزلوں اور گیتوں میں فطری مناظر سے والہانہ شیفتگی اور لگاؤ پایا جاتا ہے۔ بیکل ؔاتساہی عہدِ حاضر کے اُس مہان بھارتیہ شاعر کا نام ہے جن کے نطق سے بیک وقت خسروؔ ، جائسیؔ ، تلسیؔ ، کبیرؔ، سورؔ ، میراؔ اور رسکھانؔ کی سُر لہری سنائی دیتی ہے۔ بیکلؔ کا طرزِ بیان دیس کی مٹی سے عقیدت، دیش واسیوں سے محبت ، پاکیزہ انسانی جذبوں اور محسوسات کی مرقع آفرینی اور سماج میں پھیلی ناانصافی ، نابرابری اور ظلم و استحصال کے خلاف صداے حق بن کر رسیلے نغموں میں ڈھل جاتا ہے۔"

حمدیہ و نعتیہ کلام

شراکتیں

حواشی و حوالہ جات

صارف:تیمورصدیقی