امیر مینائی
نمونہ کلام
آنسو مری آنکھوں میں نہیں آئے ہوئے ہیں
آنسو مری آنکھوں میں نہیں آئے ہوئے ہیں
دریا تیری رحمت کے یہ لہرائے ہوئے ہیں
اللہ ری حیاء حشر میں اللہ کے آگے
ہم سب کے گناہوں پہ وہ شرمائے ہوئے ہیں
میں نے چمن خلد کے پھولوں کو بھی دیکھا
سب آگے ترے چہرے کے مرجھائے ہوئے ہیں
بھاتا نہیں کوئی ، نظر آتا نہیں کوئی
دل میں وہی آنکھوں میں وہی چھائے ہوئے ہیں
روشن ہوئے دل پر تو رخسار نبیﷺ سے
یہ ذرے اسی مہر کے چمکائے ہوئے ہیں
شاہوں سے وہیں کیا جو گدا ہیں ترے در کے
یہ اے شاہ خوباں تری شہ پائے ہوئے ہیں
آئے ہیں جو وہ بے خودی ءِ شوق کو سن کر
اس وقت امیر آپ میں ہم آئے ہوئے ہیں
اس آفتاب رخ سے اگر ہوں دو چار پھول
اس آفتاب رخ سے اگر ہوں دو چار پھول
حربا ہوں رنگ بدلیں ابھی بار بار پھول
دامن میں ہیں لیے ہوے بہر نثار شاہ
شبنم سے سینکروں گہر آبدار پھول
صیقل گر چمن ہو جو اس کی ہوائے لطف
پھر بلبلوں سے دل میں نہ رکھیں غبار پھول
اللہ ری لطافت تن جس سے مانگ کر
پہنے ہوئے ہیں پیرہن مستعار پھول
دستار پر اگر وہ گل کفش طرہ ہو
خورشید آسمان پہ کریں افتخار پھول
اللہ نے دیا ہے یہ اس کو جمال پاک
سنبل فدا ہے زلف پہ رخ پر نثار پھول
اللہ کیا دہن ہے کہ باتیں ہیں معجزہ
ہوتے ہیں ایک غنچہ سے پیدا ہزار پھول
وہ چہرہ وہ دہن کہ فدا جن پہ کیجئے
ستر ہزار غنچے بہتر زار پھول
امت کا بوجھ پشت پہ اپنے اٹھا لیا
طاقت کی بات ہے کہ بنا کو ہسا ر پھول
یہ فیض تھا اسی کا کہ حق میں خلیل کے
اخگر ہوئے تمام دم اضطرار پھول
ادنی یہ معجزہ تھا کہ اک چوب خشک میں
پتے لگے ہزار پھل آئے ہزار پھول
یا شاہ دیں ہیں تیری عنایت سے فیضیاب
جتنے ہیں رونق چمن روزگار پھول
امت پہ وقف باغ شفاعت ہے آپ کا
مجھ کو بھی اس چمن سے عنایت ہوں چار پھول
وقت دعا ہے ہاتھ دعا کو اٹھا امیر
جب تک کھلیں چمن میں سر شاخسار پھول
غنچے کی طرح آپکے دشمن گرفتہ دل
خنداں ہو دوست جیسے کہ روز بہار پھول