مولانا حسن رضا خان بریلوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


نمونہ کلام

آسماں گر ترے تلووں کا نظارا کرتا

آسماں گر ترے تلووں کا نظارا کرتا

روز اک چاند تصدق میں اتارا کرتا


طوف روضہ ہی پہ چکرائے تھے کچھ ناواقف

میں تو آپے میں نہ تھا اور جو سجدہ کرتا


صر صر دشت مدینہ جو کرم فرماتی

کیوں میں افسردگی بخت کی پرواہ کرتا


چھپ گیا چاند نہ آئی ترے دیدار کی تاب

اور اگر سامنے رہتا بھی تو سجدہ کرتا


آہ کیا خوب تھا گر حاضر در ہوتا میں

ان کے سایہ کے تلے چین سے سایا کرتا


صحبت داغ جگر سے کبھی جی بہلاتا

الفت دست و گریباں کا تماشا کرتا


کبھی کہتا کہ یہ کیا بزم ہے کیسی ہے بہار

کبھی انداز تجاہل سے میں توبہ کرتا


دل اگر رنج معاصی سے بگڑنے لگتا

عفو کا ذکر سنا کر میں سنبھالا کرتا


یہ مزے کوبی قسمت سے جو پائے ہوتے

سخت دیوانہ تھا گر خلد کی پروا کرتا


موت اس دن کو جو پھر نام وطن کی لیتا

خاک اس سر پر جو اس در سے کنارہ کرتا


اے حسن قصد مدینہ نہیں رونا ہے یہی

اور میں آپ سے کس بات کا شکوہ کرتا


تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو

تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو

اللہ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو


میں کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہو

وہ دو کہ ہمیشہ مرے گھر بھر کا بھلا ہو


جس بات میں مشہور جہاں ہے لب عیسی

اے جان جہاں وہ تری ٹھوکر سے ادا ہو


یوں جھک کے ملے ہم سے کمینوں سے وہ جس کو

اللہ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہو


مٹی نہ ہو برباد پس مرگ الہی

جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو


منگتا تو ہے منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے

جس کو میری سرکار سے ٹکرا نہ ملا ہو


اللہ یوں ہی عمر گذر جائے گدا کی

سر خم ہو در پاک پر اور ہاتھ اٹھا ہو


شاباش حسن اور چمکتی سی غزل پڑھ

دل کھول کر آئینئہ ایماں کی جلا ہو

شراکتیں

صارف:تیمورصدیقی