بہزاد لکھنوی کی نعتیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

بہزاد لکھنوی کا مرکزی صفحہ

بہزاد لکھنوی

نمونہ کلام

پھر در مصطفی کی یاد آئی

پھر در مصطفی کی یاد آئی

کعبہ مدعا کی یاد آئی


کھل گیا جس سے دائمی گل دل

اس صبا اس ہوا کی یاد آئی


جو تھا ورد زماں مواجہہ میں

اس درد وفا کی یاد آئی


ہے جو تزئین مسجد نبوی

پھر اسی نقش پا کی یاد آئی


جالیوں کی قریں جو مانگی تھی

اس مرادوں و دعا کی یاد آئی


دیکھ کر اپنا عالم مسرور

ان کے لطف و عطا کی یاد آئی


ہوگئی پھر جبین دل بیتاب

قبلتیں و قبا کی یاد آئی


بن گیا قلب منبع انوار

گنج نور و ضیا کی یاد آئی


پھر مچلنے لگا ہے دل بہزاد

خاتم الانبیاءﷺ کی یاد آئی


تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے

تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے

کہ جیسے وہ روضہ قریب آ رہا ہے


جسے دیکھ کر روح یہ کہہ رہی ہے

مرے درد دل کا طبیب آ رہا ہے


یہ کیا راز ہے مجھ کو کوئی بتائے

زباں پر جو اسم حبیب آ رہا ہے


الہی میں قربان تیرے کرم کے

مرے کام میرا نصیب آ رہا ہے


وہی اشک ہے حاصل زندگانی

جو ہر آنسو پہ یاد حبیبﷺ آ رہا ہے


جسے حاصل کیف کہتی ہے دنیا

خوشا اب وہ عالم قریب آ رہا ہے


جو بہزاد پہنچا تو دنیا کہے گی

در شاہ پر اک غریب آ رہا ہے


تصور میں مدینہ آ گیا ہے

تصور میں مدینہ آ گیا ہے

فضا پر نور سا چھا گیا ہے


خوشا دل کو ملا عشق محمدﷺ

مراد زندگانی پا گیا ہے


وسیلے سے انہیں کے بڑھ رہی ہیں

دعاعں کا سلیقہ آ گیا ہے


وہ نقش پا ہے محراب النبی میں

مزا سجدوں کا اس جا آ گیا ہے


نظر میں اس کی کیا مستی کونین

جو دل کیف حضوری پا گیا ہے


جوڑتا ہے محمدﷺ ہی محمدﷺ

وہی راز محبت پا گیا ہے


کوئی ہی کان میں کہتا ہے بہزاد

مدینے سے بلاوا آ گیا ہے


جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے

جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے

مسلماں نہیں ہے، مسلماں نہیں ہے


نہ ہوں جس میں نور نبیﷺ کی ضیائیں

وہ ایماں نہیں ہے وہ ایماں نہیں ہے


نہ ہو جس میں دید مدینہ کا اماں

وہ دل دل نہیں ہے، وہ جاں جاں نہیں ہے


وہی تو ہیں وجہ بنائے دو عالم

بھلا ان کا کس شے پہ احساں نہیں ہے


رسائی نہیں اس کی ذات خدا تک

جسے ذات احمدﷺ کا عرفاں نہیں ہے


انہیں کی ضیائیں ہیں کون و مکاں میں

کہاں یہ تجلی فروزاں نہیں ہے


پڑھوں نعت بہزاد طیبہ میں جا کر

بجز اس کے اب کوئی ارماں نہیں ہے


جن کا ہے طیبہ مقام، اُن پہ درود اور سَلام

جن کا ہے طیبہ مقام، اُن پہ درود اور سَلام

جو ہیں رسولِ انام، اُن پہ درود اور سَلام


حامیء عالم ہیں وہ، ہادیء اعظم ہیں وہ

کیوں نہ کہیں خاص و عام، اُن پہ درود اور سَلام


جو ہیں حبیب خدا، جو ہیں شہِ دوسرا

جن کی ہے دنیا غلام، اُن پہ درود اور سَلام


جن کے ہیں یہ دوجہاں، جن کے ہیں کون و مکاں

جن کے ہیں یہ صبح و شام، اُن پہ درود اور سَلام


مالکِ جنّ و بشر، باعثِ نورِ قمر

میم سے ہے جن کا نام، اُن پہ درود اور سَلام


زائر ارضِ رسول، التجا کرلے قبول

اتنا ہے میرا پیام، اُن پہ درود اور سَلام


روتا ہوں بہزاد میں، کرتا ہوں فریاد میں

بھیجتا ہوں صبح و شام، اُن پہ درود اور سَلام

شکر صد شکر کہ رہتی ہے مجھے یاد مدینہ

شکر صد شکر کہ رہتی ہے مجھے یاد مدینہ

دل رہتا ہے ہر وقت مرا شاد مدینہ


ہر وقت نگاہوں میں تصور میں توہی ہے

اللہ رے اے حسن خداداد مدینہ


اس کے ہی تصدق میں سنور جاتا ہے کردار

سب سے بڑی نعمت ہی فقط یاد مدینہ


وہ کیف تو لفظوں میں بیاں ہو نہیں سکتا

جس کیف میں رکھتی ہے مجھے یاد مدینہ


اب مشکلیں آتی ہی نہیں زیست میں کوئی

صدقے ترے قرباں ترے اے یاد مدینہ


صدقے میں ترے دامن رحمت ہے مرا پر

اب اور طلب کیا کروں اے یاد مدینہ


اب لکھنوی رہنے کی تمنا نہیں مجھ کو

اللہ بنا دے مجھے بہزاد مدینہ


ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے

ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے

قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی

دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی

خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی


اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام

اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام

اللہ اللہ وہاں کا وہ کیفِ دوام

وہ صلاۃِ سکوں آفریں رہ گئی


جس جگہ سجدہ ریزی کی لذت ملی

جس جگہ ہر قدم اُن کی رحمت ملی

جس جگہ نور رہتا ہے شام و سحر

وہ فلک رہ گیا وہ زمیں رہ گئی


پڑھ کے نصر من اللہ فتح قریب

جب ہوئے ہم رواں سوئے کوئے حبیب

برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں

بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی


یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر

وہ سکونِ دل و جاں وہ روح و نظر

یہ اُنہی کا کرم ہے اُنہی کی عطا

ایک کیفیتِ دل نشیں رہ گئی​


زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر

کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر

اور پوری ہوئی ہر تمنا مگر

یہ تمنائے قلبِ حزیں رہ گئی


مدینے دل روح و جاں لے کے جاوں

مزید دیکھیے

بہزاد لکھنوی

شراکتیں

صارف:تیمورصدیقی