احمد رضا کے نعتیہ کلام کی شعری جمالیات ۔ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 06:54، 22 مارچ 2018ء از 182.185.201.135 (تبادلۂ خیال) (نیا صفحہ: پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین( نئی دہلی) احمد رضا کے نعتیہ کلام کی شعری جمالیات اردو شاعری...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین( نئی دہلی)

احمد رضا کے نعتیہ کلام کی شعری جمالیات

اردو شاعری کی تنقید میں کئی اصطلاحیں ایسی ہیں جن کی خود تعریف وتعبیر حتمی طور پر نہیں ہوسکی ہے۔ انہی اصطلاحوں میں جمالیات کی اصطلاح ہے۔ اس کی الگ الگ تعبیریں پیش کی گئی ہیں اور جتنی تعبیریں ہیں اسی قدر انتشار بھی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جمالیاتی اقدار تہذیب وتمدن کے اقدار سے ماخوذ ہوتے ہیں۔حسن کو جمالیات کا مظہر مانا جاتا ہے لیکن حُسن کے معیارات طے کرنے میں انتشار ہے۔کیونکہ حسن کا معیار علاقے ، خطے ،تہذیب و تمدن کے لحاظ سے تبدیل ہوتے ہیں۔عموماً حسن کو عشق کی ابتدا مانا جاتا ہے۔اور عشق کو ہی کائنات کا حاصل تصور کیا جاتا ہے۔لیکن عشق کے معیارات بھی مختلف ہوتے ہیں۔لیکن حُسن و عشق کو جمالیات کی بنیاد مانتے ہیں۔اسی لیے جمالیات کی تعبیر مفکروں نے اپنے اپنے انداز سے کی ہیں۔ ویکی پیڈیا کے مطابق ‘‘جمالیات فلسفے کی ایک صنف ہے جو فن کے حسن اور فن تنقید کی قدروں اور معیاروں سے بحث کرتی ہے۔جمالیات کی اصطلاح پہلی بار باؤم گارٹن نے1 750میں استعمال کی اور اس سے مراد علم حیسات لی ، جس کا بنیادی مقصد حسن کی تلاش قرار دیا۔ کانٹ نے ماورائی جمالیات کی ترکیب استعمال کی جس سے حیساتی تجربے کے بنیادی اصول لیے۔ اس اصطلاح کے جدید معنی ہیگل نے1820ء میں متعین کیے۔ پرانے زمانے میں جمالیات سے مراد وہ علم تھا جو حسن یا جمال اور رفعت کی ہیئت سے متعلق مجرد تصورات پر بحث کرتا تھا۔ مگر جدید فلسفہ کے نزدیک جمالیات وہ سائنس ہے جو تخلیقی تجربہ ، تجربۂ حسن اور نقدونظر کی قدروں اور معیاروں سے بحث کرتی ہے اور نوعیت اور عمل کے اعتبار سے منطق اور نفسیات سے مختلف ہے۔’’ ادب میں ان اقدار کو بنیاد بنا کر ادبی شہ پاروں پرنقد و تبصرہ کیا جاسکتا ہے یا نہیں یہ بھی ایک بڑا سوال رہا ہے اور یہاں بھی اختلافات کی گنجائش موجود ہے۔ اس حوالے سے نصیر احمد ناصرنے لکھا ہے کہ : ’’ ادب کو جمالیاتی بنیادوں پر پرکھنا مناسب ہے یا فلسفیانہ اور اخلاقی قدروں پر، اس بات کا تعلق فلسفہ فن سے ہے، جس کی بحث ادب میں بہت قدیم ہے۔ محض فلسفیانہ اور اخلاقی نہیں بلکہ اس بحث کے افادی، علمی، ادراکی، فکری، معاشی، معاشرتی، عمرانیاتی، سائنسی اور کئی دیگر پہلو بھی ہیں۔ جمالیاتی معروض کا تعلق صرف جسمانی یا مرئی مظاہر سے نہیں، غیر مرئی اور داخلی محسوسات اور اظہارات سے بھی ہوتا ہے۔ جمالیاتی تصور آفاقی ہے اور اسے علمی طور پر بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ فلسفے اور اخلاق کی اعلی اقدار جمالیاتی سیاق و سباق ہی میں ادب پارے کا روپ دھار سکتی ہیں۔ اس لحاظ سے ادب کو جمالیاتی بنیادوں پر پرکھنا زیادہ مناسب ہے۔ ‘‘ (نصیر احمد ناصر۔۔۔ اداریہ تسطیر جولائی 2010 "ادبی جمالیات، مواد، اثرات اور دائرہ کار" سے مقتبس) بات درست بھی یہی ہے کہ ادب کے قاری ادب کو اپنے ذوقِ مزاج اور تہذیبی تناظر میں دیکھتے ہیں۔شاعری جو جذبہ ٔ و دل کی ترجمان ہے ،اس کو بھی دیکھنے ، کہنے اور سننے کا اپنا اپنا جمالیاتی ذوق ہوتا ہے۔ کیونکہ عشق جو جمالیات کا مظہر ہے اس کے رنگ بھی ہزار ہیں اور جلوے بھی بے شمار ہیں۔ یہ عشق فرزانگی بھی سیکھاتا ہے اور دیوانگی بھی۔ لیکن ایک عشق ایسا بھی ہے جو حدِ ادب کو ملحوظ رکھنے کا درس دیتا ہے۔جی ہاں یہ بات ذار عقل و فہم سے دور ہے کہ عشق اور ادب ایک ساتھ ممکن نہیں۔ کیونکہ عشق دیوانگی سیکھاتا ہے تو عقل سنجیدگی کا درس دیتا ہے۔ اسی لیے عشق و عقل ہمیشہ برسرپیکار رہتے ہیں۔کبھی عقل حاوی ہوتی ہے تو کبھی عشق کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ اقبال جیسے شاعر نے بھی عشق کو عقل پر ترجیح دی ہے اور یہ کہا کہ :

تازہ میر ے ضمیر پر معرکۂ کہن ہوا

عشقِ تمام مصطفی، عقلِ تمام بولہب

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل ِ راہ

کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ِادراک

اقبال یہ کہتے ہیں کہ عقل تو گو مگو کی کیفیت میں میں رہتی ہے اور سود وزیاں کا حساب لگاتی ہے اسی لیے عقل ہمیشہ پیچھے رہتی ہے اور عشق اپنے ایک ہی جست سے کائنات کی کئی پہنائیاں طے کر لیتا ہے۔ تاریخ نے عشق کے بدولت ہی ایسے کارنامے درج کیے ہیں جو عقل سے ممکن نہیں تھا۔ اگر عشق نہ ہوتا تو حضرت ابراہیم خلیل کے مرتبے تک نہ پہنچتے۔ یہ عشق ہی تو تھا کہ جس نے آتش کوگلزار بنا یا :

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لب ِبام ابھی

عشق کی جلوہ طرازیوں سے انسانی تمدن کی تاریخ بھری پڑی ہے۔زندگی کے جس چاک کو عقل نہیں سی سکتی اس کو عشق اپنی طاقت سے بے سوزن اور بغیر تارِ رفو سی سکتا ہے:

وہ پُرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں

عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رفو

اس مقابلے عقل سود وزیان کے پیمانے کو سامنے رکھتا ہے۔ اسی لیے عقل طرح طرح کے حربے اپناتا ہے،عقل کی عیاری اور عشق کی سادگی اور اخلاص کو اقبال نے اس طرح ظاہر کیا ہے:

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے

عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم

لیکن اسلامی زندگی کے شعار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں کو معتدل انداز میں رکھا جائے اسی لیے اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ :

بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑیئے

کیونکہ عقل سے شرع محمدی کی تعمیل ہوگی اور دل سے عشق محمدﷺ کی محفل سجائی جائے گی کیونکہ :

عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدۂ تصورات

لیکن بات اگر یہاں آکر ٹھہرتی ہے تو ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دنیا کا حاصل بھی عشق رسول ﷺہی ہے۔بغیر عشقِ رسول ﷺکے کچھ نہیں مل سکتا ، نہ تو دنیا میں امن ممکن ہے اور نہ آخرت کا حصول ممکن۔ لیکن یہ عشق یعنی عشق رسول ﷺ ایسا عشق ہے جس میں دیوانگی نہیں فرازانگی کی ضروت ہے کیونکہ یہ عشق دنیا کے عشق سے نرالا ہے۔ اسی لیے تو شاعر نے کہا ہے کہ :

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آئید جنید و بایزید اینجا

عشق کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دیوانہ وار خود کو نچھارو کر دیں لیکن امام احمد رضا اس عشق کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہتے ہیں :

پیش ِنظر وہ نورِ بہار سجدے کو دل ہے بیقرار

روکئے سر کو روکئے ہاں یہی امتحان ہے

یہاں شاعری میں عشق کی جس جمالیات کا ذکر ہے وہ دنیا کی شاعری میں اور کہیں نظر نہیں آئے گا۔ کیونکہ عشق کا یہ ادب در ِ رسول ﷺکے علاوہ اور کہیں مل ہی نہیں سکتا۔یہ عشق حاصل کلُ ہے۔

روکئے سر کو روکئے ہاں یہی امتحان ہے

کہہ کر احمد رضا عشق ِمصطفی ﷺ کی تڑپ کو بھی بر قرار رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور عشق ِمصطفی ﷺ کے آداب کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ لیکن عشق مصطفی ﷺ کا معاملہ یہ ہے کہ بغیر عشق الٰہی کے حاصل نہیں کرسکتے۔اور یہاں اجازت ہے کہ عشق کی دیوانگی کو بے محار چھوڑ سکتے ہیں :

با خدا دیوانہ باش و با محمد ﷺ ہوشیار

عشق حقیقی اللہ کا ایک نایاب تحفہ ہے یہ عشق دولت و ثروت سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یادِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تپش میں اپنے آپ کو جلانے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔اور جب یہ دولت لازوال حاصل ہوتی ہے تب وہ مدحت رسول ﷺکرنے کا حقدار ہوتا ہے اور ایسے عشاق کی مدحت پھر صرف شاعری نہیں رہتی اور نہ ساحری بنتی ہے، بلکہ حیاتِ جاودانی کا درس دیتی ہے اور زندگی میں ایسی تازگی کا رس گھولتی ہے جو دائمی ہوتا ہے۔لیکن جب ہم نعتیہ شاعری میں جمالیاتی عناصر کی تلاش کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں ادب کے وہی بندھے ٹکے معیار نظر آتے جو عشق مجازی کے معیار ہیں۔نعتیہ شاعری میں اس معیار کی تلاش بے سود ہے کیونکہ یہاں تو وہ معیار نظر آئیں گے جس میں پاکیزگی اورتقدس کے عناصر ملیں گے۔اسی لیے شاعری کی تنقید کرنے والوں کی نظر عموماً ان عناصر کی تلاش کرتے ہیں جوعشق مجازی کی خصوصیات ہیں۔لہٰذا وہ نعتیہ شاعری کو فنی جمالیات سے خالی تصور کرتے ہیں۔اور یہ بھی کہتے ہیں کہ نعتیہ شاعری میں فنی اعتبار سے جدت و ندرت دیکھنے کو نہیں ملتی کیونکہ یہاں بے شمار پابندیاں ہیں اور موضوعات بھی طے ہیں۔ یہاں حد ادب کو ملحوظ رکھنا ہوتا اور نعتیہ شاعری میں مبالغہ اور تخیل کی کار فرمائی کی گنجائش بھی نہیں۔نعت گو شاعر کے ذہن میں ہمہ وقت یہ بات رہتی ہے کہ شان رسول ﷺ میں کوئی گستاخی نہ ہوجائے۔ نعتیہ شاعری میں ذرا سی لغزش شاعر کو گمرہی اور ضلالت کی طرف لے جا سکتی ہے۔اسی لیے شاعر محض اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے۔ لہٰذا اس طرح کی شاعری میں اسلوب وبیان کی جولانیوں کے بجائے سیدھا سادہ بیان اور اسلوب دیکھنے کو ملتا۔ فن کی نیرنگیاں اور زبان و بیان کی لطافتیں نعتیہ شاعری میں عموماًمفقود ہیں۔جو لوگ بھی نعت کو پسند کرتے ہیں وہ محض عقیدت کی بنیاد پر۔لیکن یہ تمام باتیں یکسر غلط ثابت ہو جاتی ہیں جب ہم نعتیہ کلام کابغائر مطالعہ کرتے ہیں۔ صرف احمد رضا کی شاعری کو دیکھیں تو یہ تمام مفروضات غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔ مثال میں یہاں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

طوبیٰ میں جو سب سے اونچی، نازک شاخ

مانگوں نعت نبی لکھنے کو، روح القدس سے ایسی شاخ

ظاہر و باطن ، اول و آخر، زیبِ فروغ و زین ِاصول

باغِ رسالت میں ہے توہی گل ، غنچہ ، جڑ ، پتی شاخ

ان اشعار میں ایسی شعری جمالیات کی مثالیں موجود ہیں جن کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی کیونکہ یہاں صرف اسلوب کی ندرت ہی نہیں ہے بلکہ حقیقت کے بیان میں وہ جدت ہے کہ عقیدت ومحبت کے ساتھ نعت کی عظمت بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ اسلوب بھی رنگین ہے اور بیان بھی جدید ہے۔ شاخ طوبیٰ کی اونچی اور نازک شاخ کہہ کرامام احمد رضا نے نعتیہ شاعری کی عظمت کے ساتھ ساتھ اس کے آداب کو جس خوبی سے بیان کیا ہے ایسا دلکش اور دلپذیر نمونۂ شاعری عشقیہ کلام میں نظر نہیں آتی۔ان دو اشعار میں اختصار و ایجاز کے ساتھ جس طرح عظمت نعت کے ساتھ ساتھ رسول اکرم ﷺکی اس کائنات گیتی میں آمد اور تما م رسول وانبیا میں آپ کی اولیت کو ظاہر کیا ہے وہ ان کاانوکھا اسلوب اور نادر انداز بیان ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ نعت رسول ﷺ لکھنے اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔ سعدی شیرازی جب نعت نبی ﷺکہنے کا ارادہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں :

ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست

یا کوئی یہ کہہ کر خاموش ہوگیا:

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

لیکن امام احمد رضا نے عجز بیان ظاہر نہیں کرتے بلکہ نعت نبی ﷺلکھنے کے لیے انتہائی عظیم وسیلے کو ڈھونڈتے ہیں اور تب یہ کہتے ہیں :

مانگوں نعت نبی لکھنے کو، روح القدس سے ایسی شاخ

اب آپ زمانہ قدیم کے اس رواج کو نظر میں رکھیں جب قلم کی جگہ سر کنڈے کے قلم کا استعمال کرتے تھے۔ اس عہد میں قلم تراشنے کے لیے شاخ طوبیٰ کی تمنا کرنا بھی اپنے آپ میں بڑی عظمت کا متحمل ہے۔

ان تمام صفات کے باوجود اگر اردو تنقید میں نعتیہ شاعری کو نظر انداز کیا گیاہے تویہ اردو تنقید کا المیہ ہے نعتیہ شاعری کا المیہ نہیں کیونکہ نعت و حمد تو دنیا کے ہر خطے میں گنگنائے جاتے رہیں گے۔اور عشق رسول ﷺ کے متوالے اس سے سرور و کیف حاصل کرتے رہیں گے۔ اردو شاعری میں نعتیہ سرمائے کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔لیکن بہت کم ہی شاعر ہیں جن کو نعتیہ شاعری کے سبب اردو ادب میں مناسب جگہ دی گئی ہو۔ اس حوالے سے اگر کسی کا ذکر ہوتا ہے تواکثر حفیظؔ جالندھری اور محسن ؔکاکوروی کا نام آتا ہے۔ محسنؔ کاکوروی کو ان کے مدحیہ قصیدے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے جس کا مطلع یہ ہے :

سمتِ کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

خبر اُڑتی ہوئی آئی ہے مہا بن میں ابھی

کہ چلے آئے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل

جانبِ قبلہ ہوئی ہے یورش ِابر ِسیاہ

کہیں پھر کعبے میں قبضہ نہ کریں لات و ہبل

یہ وہی قصیدہ معراجیہ ہے جسے محسنؔ کاکوروی اپنا یہ قصیدہ سنانے کے لئے امام احمد رضا کی خدمت میں حاضرہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد محسن ؔ کاکوروی نے اشعار سنانے شروع کیا۔ ابھی دو اشعار ہی پڑھ سکے تھے کہ امام احمد رضا نے کہا اب بس کیجیے عصر کی نماز کے بعد بقیہ اشعار سنے جائیں گے۔ اسی ظہر و عصر کے درمیان امام احمد رضا نے بھی ایک قصیدہ معراجیہ لکھا اور جب مجلس بیٹھی تو پہلے آپ نے اپنا قصیدہ سنایا۔ اسے سن کر محسن ؔکاکوروی نے کہا:

’’مولانا اب بس کیجیے اس کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا‘‘

محدث اعظم ہند حضرت مولانا سید محمد اشرفی میاں بیان فرماتے ہیں کہ لکھنو کے ادیبوں کی ایک شاندار محفل میں حضرت رضا رحم اللہ علیہ کا قصیدہ معراجیہ میں نے اپنے مخصوص انداز میں پڑھ کے سنایا تو سب جھومنے لگے۔ میں نے اعلان کیا کہ اردو ادب کے نقطہ نظر سے میں ادیبوں کا فیصلہ اس قصیدہ کی زبان کے متعلق سننا چاہتا ہوں تو سب نے کہا:

’’اس کی زبان کوثر و تسنیم کی دھلی ہوئی ہے۔‘‘

اب ذرا اس قصیدے کے بھی چند اشعار ملاحظہ کریں:

وہ سرورِ کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے

وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں

اِدھر سے انوار ہنستے آتے اُدھر سے نفحات اٹھ رہے تھے

اتار کر ان کے رخ کا صدقہ وہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا

کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جو بن ٹپک رہا ہے

نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے

تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی

کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے

خرد سے کہہ دو کہ سر جھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے

پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے

سراغ این و متٰی کہاں تھا نشان کیف و الیٰ کہاں تھا

نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگ ِمنزل نہ مرحلے تھے

ادھر سے پیہم تقاضے آنا ادھر تھا مشکل قدم بڑھانا

جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت ابھارتے تھے

قصیدے کے یہ اشعار کسی بھی اردو طرح اردو کے نمائندہ قصائد سے کم نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قصیدے کی اصل روح لب ولہجے کا پُر شکوہ ہونا ہے اور مبالغہ اس کی جان ہے ، تخیلات کے سہارے شاعر اپنے کلام کو دلکش و دلفریب بناتا ہے۔امام احمد کے اس قصیدہ ٔ معراجیہ میں صنف قصیدہ کی تمام خوبیاں اپنے خا ص آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ یہاں شعری جمالیات کے وہ عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کاسرِ ا اگر ایک طرف اگر انتہائی عقیدت ومحبت کی طرف جاتا ہے تو دوسرا سرِ ا قرآن و حدیث سے ملتا ہے۔ اس لیے اس قصیدے میں جن کی جو جلوہ طرازیاں اور جولانیاں موجود ہیں ان کو مئے دو آتشہ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اردو شاعری میں پیکر تراشی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ پیکر تراشی کا ملکہ ہر کوئی کو حاصل نہیں کیونکہ پیکر تراشی کا مطلب یہ ہے کہ لفظوں کے ذریعے کسی تصور یا خیال کو اس طرح پیش کرنا کہ اس کی شکل وصورت سامنے آجائے۔ نعتیہ شاعری میں یہ تو نہیں کر سکتے۔ البتہ مراثی میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ نعت میں چونکہ حضور اکرم ﷺ کی مدحت ہوتی ہے۔اور اس حوالے سے پیکر تراشی کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ لیکن امام احمد رضا کا شعری اسلوب دیکھئے کہ انھوں نے اپنے اشعار میں ان کے صفات کواس طرح پیش کیا ہے کہ پیکر تراشی کا شائبہ ہوتا ہے۔ مثال ملاحظہ فرمائیں :

سر تا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول

لب پھول، دہن پھول، ذقن پھول، بدن پھول

ایک اور مثال دیکھیں:

خوار و بیمار و خطا وار وگنہ گار ہوں میں

رافع و نافع وشافع لقب آقا تیرا

اس شعر میں حضور کے صفات والا کمال کے ساتھ ساتھ جو انداز بیان اور اسلوب ہے اس میں لفظی تلازمے قابل دید ہیں۔پہلے مصرعے کے مقابل دوسرے مصرعے میں ویسے ہی الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے جو درد کا مداوا ہے اور علاج عاصیاں ہے۔ اس طرح کے اشعار وہی کہہ سکتا ہے جس کو زبان کے ساتھ ساتھ فن پر پوری مہارت حاصل ہو۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں امام احمد رضا کو نعتیہ شاعری میں جو رتبہ حاصل ہے اس مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔کیونکہ انھوں نے نعتیہ شاعری کو اپنی فکر سے نئی جہات سے آشنا کرایا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد تنگ و تاریک قبر ہی سب کا ٹھکانہ ہونے والا ہے۔لیکن عشق رسول ﷺ کے دیوانے قبر میں جانے سے ڈرنتے نہیں بلکہ قبر میں جانے کی حسرت رکھتے ہیں کیونکہ قبر میں نور محمدی ﷺکا دیدار ہونے والا ہے۔ اب اعلیٰ حضرت کا یہ شعر دیکھیں کہ انھوں نے اسی موضوع کو کس انوکھے انداز سے باندھا ہے :

لحد میں رخِ شہ کا داغ لے کے چلے

اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے

اس طرح کے اشعار وہی کہہ سکتا ہے جو سچا عاشق رسول ﷺ ہو کیونکہ اسے معلوم ہے کہ جس قبر میں نور محمدی ﷺ آجائے وہاں پھر اندھیرا کیسا؟یا اس شعر کو دیکھیں جو عشق کے انوکھے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے :

کاش آویزۂ قندیل مدینہ ہو وہ دل

جس کی سوزش نے کیا رشک چراغاں ہم کو

جان ہے عشقِ مصطفی روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں

مورا تن من دھن سب پھونک دیا

یہ جان بھی پیارے جلا جانا

اب چند ایسے اشعار بھی ملاحظہ کریں جو امام احمد رضا کی فکری و فنی عظمت کی دلیل ہیں :

پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائیں کیوں

دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں

آنکھیں ٹھنڈی ہو ں جگر تازے ہوں جانیں سیراب

سچیّ سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا

دل عبث خوف سے پتہ سا اُڑا جاتا ہے

پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا

عصائے کلیم اژدہائے غضب تھا

گِروں کا سہار عصائے محمد ﷺ

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

جو ترے در سے یار پھرتے ہیں

در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں

اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلادیے ہیں

جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیئے ہیں

ان اشعار کے مطالعے سے بس یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ :

ملک ِسخن کی شاہی تم کو رضا مسلم

جس راہ چل گئے ہو سکے بیٹھا دئے ہیں