"الغیاث ۔ عروس فاروقی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: {{ بسم اللہ }} '''الغیاث '' عروس فاروقی کا پہلا باقاعدہ حمدیہ، نعتیہ اور منقبتیہ مجموعہ ہے جو دسمبر[...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 86: سطر 86:
یاں جنبشِ  لب خارج از آہنگ خطا ہے
یاں جنبشِ  لب خارج از آہنگ خطا ہے


قارئین کرام!السلام علیکم !یہ کتاب ’’الغیاث‘‘ میرا نعتیہ مجموعہ ہے۔ اگر آپ  اِس میں کوئی ایسی بات دیکھیں جوآپ کے خیال میں بارگاہِ رسالت کے لائق نہیں تو برائے مہربانی مجھے آگاہ فرمائیں۔ نوازش ہوگی !
قارئین کرام!السلام علیکم !یہ کتاب ’’الغیاث‘‘ میرا نعتیہ مجموعہ ہے۔ اگر آپ  اِس میں کوئی ایسی بات دیکھیں جوآپ کے خیال میں بارگاہِ رسالت کے لائق نہیں تو برائے مہربانی مجھے آگاہ فرمائیں۔ نوازش ہوگی !
یہ بات اس لئے عرض کررہا ہوں کہ مجھ سا کم علم اور بے بس آدمی بارگاہِ رسالت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا،یقیناً کئی مقامات پر خامیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
جب الطاف حسین حالی کا مذکورہ شعر یاد آتا ہے تویقین جانیں ہمت ہی نہیں پڑتی کہ اُس بارگاہ میں کچھ عرض کروںجو عرش سے نازک تر ہے اور جہاں حضرت  جنید بغدادی اور حضرت بایزیدبسطامی جیسی ہستیاں بھی دم سادھ کر حاضر ہوتی ہیں۔
میں نے ممدوحِ یزداں صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عقیدت کے نذرانےاگر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تو علامہ عارف جاوید نقشبندی اوردیگردوستوں کی ہمت افزائی کی وجہ سے۔ ورنہ نعت کہنا صاحبِ حال لوگوں کا کام ہے۔ مجھ سے بے عمل انسان کا کام نہیں جو صاحبِ قال بھی نہیں۔
نعت گو شعراء کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ روزِ قیامت اُس صف میں کھڑے ہوں جس میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود ہوںگے ۔ لیکن مجھے تو اس بات کی خواہش کرتے ہوئے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے کہ ایسی خواہش کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ حضرت شیخ سعدی ، حضرت امام بوصیری اور مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہم جیسے بزرگوں کے ساتھ کھڑے ہونا کیا کوئی چھوٹی بات ہے؟؟؟
ہاں ! مجھے اگر قیامت کے دن امامِ نعت گویاں الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے قدموں میں جگہ مل جائے تو اپنے لئے بہت بڑی سعادت گردانوں گا۔
اگر قارئین سمجھیں کہ یہ کتاب، مستطاب اور لائق تحسین ہے تو یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کرم ہے۔ میرا کوئی کمال نہیں۔


یہ بات اس لئے عرض کررہا ہوں کہ مجھ سا کم علم اور بے بس آدمی بارگاہِ رسالت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا،یقیناً کئی مقامات پر خامیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
جب الطاف حسین حالی کا مذکورہ شعر یاد آتا ہے تویقین جانیں ہمت ہی نہیں پڑتی کہ اُس بارگاہ میں کچھ عرض کروںجو عرش سے نازک تر ہے اور جہاں حضرت  جنید بغدادی اور حضرت بایزیدبسطامی جیسی ہستیاں بھی دم سادھ کر حاضر ہوتی ہیں۔


=== تقاریظ ===
میں نے ممدوحِ یزداں صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عقیدت کے نذرانےاگر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تو علامہ عارف جاوید نقشبندی اوردیگردوستوں کی ہمت افزائی کی وجہ سے۔ ورنہ نعت کہنا صاحبِ حال لوگوں کا کام ہے۔ مجھ سے بے عمل انسان کا کام نہیں جو صاحبِ قال بھی نہیں۔


==== نجمِ چرخِ ثنا  : [[عباس عدیم قریشی]] کی تقریظ ====
  نعت گو شعراء کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ روزِ قیامت اُس صف میں کھڑے ہوں جس میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود ہوںگے ۔ لیکن مجھے تو اس بات کی خواہش کرتے ہوئے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے کہ ایسی خواہش کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ حضرت شیخ سعدی ، حضرت امام بوصیری اور مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہم جیسے بزرگوں کے ساتھ کھڑے ہونا کیا کوئی چھوٹی بات ہے؟؟؟


  ایک اقتباس :
ہاں ! مجھے اگر قیامت کے دن امامِ نعت گویاں الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے قدموں میں جگہ مل جائے تو اپنے لئے بہت بڑی سعادت گردانوں گا۔
عروسؔ فاروقی کی زیرِ نظر تصنیف ’’الغیاث‘‘ در اصل حمد و نعت اور مناقب اولیاء پر مشتمل مجموعۂ کلام ہے جو نہ صرف انکی ادبی ثقاہت، قادر الکلامی، خوش گوئی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انکے فکری زاویوں اور جہتوں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ ’’الغیاث‘‘ کی ابتداء میں انھوں نے اپنا فارسی کلام شامل کیا ہے اور اس کے بعد اردو کلام۔ ہر دوزبانوں میں ان کی صلاحیتیں قابلِ رشک بھی ہیں اور قابلِ تحسین بھی کہ جہاں اردو زبان پر ان کی گرفت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں فارسی زبان میں ان کا بے ساختہ کلام اور انتہائی رواں ، سادہ سلیس طرزِ نگارش تحسین طلب ہے۔  
  اگر قارئین سمجھیں کہ یہ کتاب، مستطاب اور لائق تحسین ہے تو یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کرم ہے۔ میرا کوئی کمال نہیں۔




==== پروفیسر[[فیض رسول فیضان]] کی تقریظ  ====
=== تقاریظ ===


  ایک اقتباس :
====  نجمِ چرخِ ثنا : عباس عدیم قریشی  ====
عقیدہ و عقیدت کا خوش گوار امتزاج اور فکر وفن کا حیرت انگیز انطباق، حضرتِ عروسؔ کے تابناک مستقبل کی گواہی دے رہا ہے، بندش کی چستی اور عروضی مہارت سونے پر سہاگے کے مترادف ہے۔ روایت کی زمین میں جدت کے گلکاریاں بھی فرحت افزا ہیں۔ مزید برآں شاعر کی فارسی قادر الکلامی خانقاہی نظام کے ساتھ اُن کے رچے ہوئے ربط و رسوخ کا پتہ دے رہی ہے اور بعض فارسی اشعار تو بلا مبالغہ ایسے کیف آور اور روح پرور ہیں کہ [[سعدی]] و [[حافظ]] اور [[رومی]] و [[جامی]] جیسے اساتذہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
<blockquote>
عروسؔ فاروقی کی زیرِ نظر تصنیف ’’الغیاث‘‘ در اصل حمد و نعت اور مناقب اولیاء پر مشتمل مجموعۂ کلام ہے جو نہ صرف انکی ادبی ثقاہت، قادر الکلامی، خوش گوئی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انکے فکری زاویوں اور جہتوں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ ’’الغیاث‘‘ کی ابتداء میں انھوں نے اپنا فارسی کلام شامل کیا ہے اور اس کے بعد اردو کلام۔ ہر دوزبانوں میں ان کی صلاحیتیں قابلِ رشک بھی ہیں اور قابلِ تحسین بھی کہ جہاں اردو زبان پر ان کی گرفت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں فارسی زبان میں ان کا بے ساختہ کلام اور انتہائی رواں ، سادہ سلیس طرزِ نگارش تحسین طلب ہے۔  [[عباس عدیم قریشی ]]
</blockquote>


==== پروفیسرفیض رسول فیضان  ====


==== [[سید شاکر القادری چشتی نظامی]] کی تقریظ ====
<blockquote>
عقیدہ و عقیدت کا خوش گوار امتزاج اور فکر وفن کا حیرت انگیز انطباق، حضرتِ عروسؔ کے تابناک مستقبل کی گواہی دے رہا ہے، بندش کی چستی اور عروضی مہارت سونے پر سہاگے کے مترادف ہے۔ روایت کی زمین میں جدت کے گلکاریاں بھی فرحت افزا ہیں۔ مزید برآں شاعر کی فارسی قادر الکلامی خانقاہی نظام کے ساتھ اُن کے رچے ہوئے ربط و رسوخ کا پتہ دے رہی ہے اور بعض فارسی اشعار تو بلا مبالغہ ایسے کیف آور اور روح پرور ہیں کہ [[سعدی]] و [[حافظ]] اور [[رومی]] و [[جامی]] جیسے اساتذہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
</blockquote>


ایک اقتباس:
==== سید شاکر القادری چشتی نظامی ====
<blockquote>
زیر نظر مجموعہ ان کا اولین اظہاریہ ہے جو ان کے اندرایک مدت سے مستور اور منتظر ظہور تھا۔ انہیں اپنےفن شعر گوئی کےاس ظہورِ اول کا شدت سے احساس ہے اور وہ اس کواللہ رب العزت کا کرم خاص مانتے اور سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت ورافت کا عکس جانتے ہیں اپنے فن شعر کے اس اولین اظہاریہ سے ان کا مقصد نمود و نمائش نہیں ،مطمح نظر داد خواہی نہیں اور نہ ہی وہ کسی دنیاوی واہ واہ اورستائش و آفرین کے رسیاہیںبلکہ ان کا مقصدتو اطمینان قلبی کی دولت فراواں کا حصول ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس اظہار فن کے ذریعے دل جگمگا اٹھیں اور بغض و نفرت کی ظلمتیں دور ہوجائیں۔ ایسی ہی تمناؤں کو دل میں سموئے ہوئےوہ مکینِ گنبد خضرا کے حضور دامن التجا پھیلائے ”الغیاث“ ”الغیاث“ کی دردمندانہ صدا بلند کر رہے ہیں۔
زیر نظر مجموعہ ان کا اولین اظہاریہ ہے جو ان کے اندرایک مدت سے مستور اور منتظر ظہور تھا۔ انہیں اپنےفن شعر گوئی کےاس ظہورِ اول کا شدت سے احساس ہے اور وہ اس کواللہ رب العزت کا کرم خاص مانتے اور سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت ورافت کا عکس جانتے ہیں اپنے فن شعر کے اس اولین اظہاریہ سے ان کا مقصد نمود و نمائش نہیں ،مطمح نظر داد خواہی نہیں اور نہ ہی وہ کسی دنیاوی واہ واہ اورستائش و آفرین کے رسیاہیںبلکہ ان کا مقصدتو اطمینان قلبی کی دولت فراواں کا حصول ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس اظہار فن کے ذریعے دل جگمگا اٹھیں اور بغض و نفرت کی ظلمتیں دور ہوجائیں۔ ایسی ہی تمناؤں کو دل میں سموئے ہوئےوہ مکینِ گنبد خضرا کے حضور دامن التجا پھیلائے ”الغیاث“ ”الغیاث“ کی دردمندانہ صدا بلند کر رہے ہیں۔
</blockquote>


====بیک ٹائیٹل پیج ====
====بیک ٹائیٹل پیج ====


[[سید شاکر القادری چشتی نظامی]]کا ایک جملہ
[[سید شاکر القادری چشتی نظامی]]کا ایک جملہ
<blockquote>
ان کی نعت کے موضوعات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ، حسن صورت و حسن سیرت کا بیان، طیبہ مقدسہ کا تذکرہ ، مدینے حاضری کی شدید تمنا، اسلام کے غلبے کی خواہش، امت مسلمہ کی زبوں حالی کا تذکرہ اور استغاثہ اور نعت سرمایۂ زندگی جیسے عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ان کی نعت کے موضوعات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ، حسن صورت و حسن سیرت کا بیان، طیبہ مقدسہ کا تذکرہ ، مدینے حاضری کی شدید تمنا، اسلام کے غلبے کی خواہش، امت مسلمہ کی زبوں حالی کا تذکرہ اور استغاثہ اور نعت سرمایۂ زندگی جیسے عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
 
</blockquote>
=== کلاموں کی تفصیل ===
=== کلاموں کی تفصیل ===


===== فارسی کلام =====
===== فارسی کلام =====
حمد : 1 |  نعت :  7 |  منقبت: 4  |  قطعہ : 2
حمد : 1 |  نعت :  7 |  منقبت: 4  |  قطعہ : 2


===== اردو کلام =====
===== اردو کلام =====
حمد : 5  |  نعت :  37 |  منقبت: 15
حمد : 5  |  نعت :  37 |  منقبت: 15


=== کتاب کے بارے دیگر آراء اور مضامین ===   
=== کتاب کے بارے دیگر آراء اور مضامین ===   


==== الغیاث۔ محبت اور مناجات کا اظہاریہ : ایک مطالعہ === =
[[الغیاث۔ محبت اور مناجات کا اظہاریہ : ایک مطالعہ ۔ محمد یونس تحسین ]]
 
تحریر: [[محمد یونس تحسین]]
 
عروس فاروقی صاحب نے اصحاب و اسلاف کی سنت کو اپناتے ہوئے حضورﷺ سے محبت کے اظہار والہانہ انداز میں " الغیاث" کی شکل میں کیا ہے۔ جسے اکادمی فروغِ نعت اٹک پاکستان نے نشر کر کے بہت سے عشاق کے دلوں کی تسلی کا سامان کیا ہے۔
الغیاث ۔۔ کتاب کیا  حمد ، ثنا ، محبت ، عقیدت، نسبت ، تیقن اور مناجات کا بھر پور اظہاریہ ہے۔ زبان کے اعتبار سے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا حصہ فارسی اور دوسرا حصہ اردو تخلیقات پر مشتمل ہے۔ اور تخلیقات کے لحاظ سے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، حمد ، نعت اور منقبت ۔ کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری میں استغاثہ کا پہلو زیادہ ہے مگر استغاثہ کے ساتھ ساتھ محبت اور ایقان کی جھلک بہت شاندار ہے۔  اشعار دیکھیں:
 
غلام از خوف یکسر دور باشد
 
کہ آقا رحمۃ للعالمیں است
 
عروسا ! می رسد نعتم بہ طیبہ
 
یقیں است و یقیں است و یقیں است
 
 
میرا ایقان ہے، خیال نہیں
 
مصطفیٰ کی کوئی مثال نہیں
 
 
غم کے طوفاں ہمارا بگاڑیں گے کیا
 
ناؤ مضبوط ہے ، ناخدا خوب ہے
 
 
وہ خدا کے لاڈلے ہیں نبی انہیں اختیار ملےسبھی
 
وہ حرام کہہ دیں حرام ہے، وہ حلال کہہ دیں حلال ہے
 
یہ بات تو طے ہے کہ جناب عروس فاروقی صاحب کو عروض اور زبان پر پوری گرفت حاصل ہےاور یہ سب علمی وراثت ، اسلاف سے نسبت اور عمیق مطالعہ کا نتیجہ ہے ۔ ان کے اشعار ہی ان کی اس صفت پر دلالت کرتے ہیں جس کی مثال دینے کی ضرورت بھی نہیں الغیاث اس کا واضح نمونہ ہے ۔ اشعار زیادہ تر چھوٹی بحروں میں ہیں مگر عام رواج سے ہٹ کر ارکان کا استعمال انہیں منفرد کرتا ہے۔ ایک مثال فعلاتن  فعلاتن پر ایک پر کیف حمد "والیٰ ربک فارغب" ہے جس نفاست سے انہوں نے اسے نبھایا ہے وہ  داد طلب ہے۔ شعر میں جب تک نغمگی نہ ہو شعر بے کیف سا لگتا ہے مگر عروس صاحب نے کہیں بھی نغمگی کو اپنے کلام سے جدا ہونے نہیں دیا ۔ اشعار دیکھیں:
 
غم زمانے نے بار بار دیا
 
آپ نے پیار پیار پیار دیا
 
آپ کے ذکر نے  سکوں بخشا
 
آپ کی یاد نے قرار دیا
 
آدمی کھو چکا تھا ساکھ  اپنی
 
آپ نے آ کے اعتبار دیا
 
  ایک نعت جس میں ان کا فن ِشاعری پوری آب و تاب  سے چمک کر سامنے آتا ہے۔ قافیہ اور الفاظ کی بنت بہت خوبصورت ہے اور تلفظ کو جس خوش اسلوبی سے نبھایا ہے اس پر وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ پھر اس میں ایسے مضامین لائے ہیں جو ان کہ علم اور فہم و فراست کے عکاس ہیں۔  اس نعت کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔
 
کیوں نہ سارے فصحا و بلغا کی بس ہو
 
جبکہ امی لقبی شاہ دقیقہ رس ہو
 
نہ تنافر، نہ غرابت، نہ ہی ضعفِ تالیف
 
ایسا معجز ہے بیاں ، کس لئے پیش و پس ہو
 
ان کے فرمان کی تردید کی جرات کس کو
 
وقت کا بو علی سینا ہو کہ اقلیدس ہو
 
باغِ ہستی میں بہ ہر سمت ہے جلوہ ان کا
 
لالہ ہو ، گل ہو کہ چنبیلی ہو یا نرگس ہو
 
دن نکلتا ہو تو "والصبح "مرے لب پہ رہے
 
رات ڈھلتی ہو تو " والیل اذا عسعس" ہو
 
فارسی ہو یا اردو انہوں نے ہر دو زبان میں قرآنی آیات سے اقتباسات کو  اس نفاست اور سلیقے سے اپنے اشعار میں پرویا ہے گویا  زیور میں موتی جڑے ہیں۔گو یہ سلیقہ ہمارے پرکھوں سے روایت ہے مگر اسے خوش اسلوبھی سے شعر کرنا کوئی کوئی جانتا ہے۔ الغیاث میں جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدحت اور ان کی یاد کا پہلو نمایاں ہے وہاں ان کے کلام میں مناجات کا پہلو بھی زور و شور سے جلوہ فرما ہے۔ رحمتِ دو جہاں کی یاد اور محبت میں آنسو بہانا امتِ محمدی کا خاصہ ہےآپ کے روضہ پر حاضری اور مدینہ طیبہ کی خاکِ شفا کے لئے کون مسلمان ہے جو دعا گو نہیں ۔ عشاق کی دعا ئیں شروع ہی ان کے روضے کے دیدار سے ہوتی ہیں انہیں دنیا و ما فیہا کے خزانوں سے کیا غرض انہیں تو حضور کی ایک جھلک درکار ہے ۔ اپنی اسی طلب کے پیش نظر عاشق مناجات بجا لاتا ہے:
 
صیا نے ! یا نبی اللہ ! صیانے!
 
کہ شیطانِ لعیں اندر کمیں است
 
 
وقت رحلت بود نامِ او بر زباں
 
ایں مناجات صبح و مسا می کنم
 
 
قرب اپنا خدا را مجھے بخش دو
 
دوریوں کو گھٹا دو شہِ دوسرا
 
 
یا نبی نور کا بقعہ دیکھوں
 
ہو اجازت کہ مدینہ دیکھوں
 
تیرے نعلین کو چوما جس نے
 
وہ گلی دیکھوں وہ کوچہ دیکھوں
 
آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت تو اولین ہے ہی ان کے لئے مگر اصحاب رسول اور اولیاء کرام سے محبت کی سرشاری ان کے کلام میں ایک سرمدی احساس کو اجاگر کرتی ہے اور یہی وہ نسبت ہے جو ان کے لئے وسیلہ سخن بھی ہے اور یقینا وسیلہ بخشش بھی۔
 
راہِ سعدی و جامی طریقِ من است
 
روحِ حسان را پیشوا می کنم
 
حمد اور نعت کے ساتھ منقبتِ اصحاب اکرام اور اولیا عظام سے بھی انہوں نے اپنے دامن کو خوب بھرا ہے اور یہی طریقہ  ایک سچے مسلمان کا شیوہ ہے۔ خلفا ءِ راشدین ، شیخ عبدالقادر جیلانی، علم دین فاروقی،  امام احمد رضا خان، مولانا حسن رضا خان ، خواجہ فخر الدین سیالوی، پیر سید مراتب علی شاہ ،  مولانا الیاس عطار قادری اور اپنے والدِ محترم صاحبزادہ پیر فیض الامین فاروقی صاحب  ان کی منقبت کا خاص جزو ہیں ۔"الغیاث  " میں کئی ایسے اشعار ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کی جا سکتی ہے مگر طوالت بے زاری کو جنم دیتی ہے ۔ میں اسی لئے اوراق کو ان خوبیوں کے بیان سے تشنہ رکھنا چاہتا ہوں تا کہ احباب اس کتاب کو خود پڑھ کر استفادہ  کریں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ " الغیاث" نظر انداز ہونے والی کتاب نہیں دعا ہے کہ اللہ کریم ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔  اللھم آمین ۔۔انہیں کا ایک شعر ہے:
 
در لحد جسمِ من سلامت بود
 
بہرِ نعتِ نبی فنا نہ شدم
 
==== الغیاث۔ محبت و عقیدت کی زبان  ====
 
تحریر: ڈاکٹر احسان اللہ طاہر
 
اردو نعت آئے دن نت نئے انداز میں سامنے آرہی ہے۔ صنفی و ہیئتی اور اسلوبیاتی تجربات سے ہٹ کر اب اس میں فکری حوالے سے جدت آ رہی ہے۔ ہر نئی تخلیقی نعتیہ کتاب ایسے موضوعات لئے ہوئے ہوتی ہے کہ دل سکون اور راحت پاتا ہے۔ آنکھوں میں چمک آتی ہے کہ ہمارے نعت گو شعراء روایت سے آگے نکل کر ایک نئی روایت کی بنا ڈال رہے ہیں اور وہ روایت غور و فکر اور محبت و عقیدت کو عمل کے معنی دینے کی روایت ہے۔ نعت اب صورت سے بڑھ کر سیرت کی باتیں کرتی ہے اور وہ بھی جدید دور کے تقاضوں کو مدّنظر رکھ کر۔جدید اردو نعت کے روشن امکانات اب جدید اور سلجھے ہوئے وسیع مطالعہ کے مالک عربی و فارسی اور اردو شاعری کی مکمل روایت سے شناسا لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ نعت گو نعت خوانوں نے جو عامیانہ سا ماحول بنا رکھاہے وہ جلد ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔یہ بات میں "الغیاث" کے مطالعے کے بعد بڑے وثوق اوریقین سے لکھ رہا ہوں۔عروس کی نعت کو پڑھ کر[[نصیر]] و [[رضا]] کی فکری بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ہم اپنے آپ کو [[ظفر علی خاں]] و [[محسن کاکوروی]] کی نعتوں کے ماحو ل میں سانس لیتا محسوس کرنے لگتے ہیں۔بلکہ بعض اشعار تو مذکورہ شعراء کی نعتوں کی سلیس نظر آتےہیں مگر اندازِ بیاں کی انفرادیت تخلیق کے حسن کو بھی نمایاں رکھتی ہے۔ اور تخلیق کار کے رنگِ مدحت کو بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ٹھہراتی ہے۔ موصوف کے دو مضامین دیکھیں کہ کیسے عالمانہ انداز ٹھہری ہوئی طبیعت کے ساتھ اور جذبات میں توازن رکھتے ہوئے محبت و عقیدت کو زبان دیتے ہیں۔
 
فضلِ حق سے نمک حلال ہیں ہم
 
جن کا کھاتے ہیں ان کا گاتے ہیں
 
جن کے دل میں نہیں محبتِ دیں
 
سرورِ دیں کا دل دکھاتے ہیں
 
نورِ حبِ نبی سےچہروں کے جگمگانے کی باتیں کرنے والا عروس، ساقئ کوثر کی ترکیب سے آگے بڑھ کر شاہِ کوثر کا نام لے کر روح کی تشنگی مٹانے کی باتیں کرتا اپنے نئے پن کے ساتھ اردو نعت میں "الغیاث" کے ساتھ حاضر ہوا ہے۔ مگر اس حاضری سے پہلے اس نے عشقِ رسالت اور حب رسول سےبھری ہر کتاب کواپنی روح میں اتارا ہے کہ اپنے عشق کو تازگی دے کر بات حوالوں سے کر سکے۔ اگر ہم صاحبزادہ نجم الامین عروس فاروقی کی نعت کےمآخذ ومصادر تلاش کرنا چاہیں تو وہ ہمیں قرآن و حدیث سےہی ملیں گے۔ مگر ان کے سرسری مطالعے سے نہیں بلکہ ان کے افکار کی روح میں اتر کر۔ اس کے علاوہ الشمائل النبویہ اور کنز العمال جیسی کتابوں کے حوالوں سے نسبت و محبت کی باتیں بھی ہماری اردو نعت کے اجزائے ترکیبی میں سےہیں۔ مگر عروس فاروقی نے جو بات بھی کرنا چاہی ہےوہ مکمل ہے۔ کوئی بات بھی آیات کے ٹکڑوں کے حوالوں سےفی بطن شاعر نہیں رہتی۔ بلکہ ان کی نعت کو پڑھ کرپھر سے ان آیات کےترجمے کو پڑھنےکیلئے دل مچلتاہے۔ موصوف نے اپنی نعت کو مختلف صنعتوں کے استعمال سے خوبصورت بنایا ہے۔اس نے نعت میں نئےموضوعات پیدا کرنے کیلئے یا نئے انداز کی تخلیق کیلئے جو بن پڑا، کیا۔اور یہی بات خوش آئند ہے کہ ا س کے ہاں اسلو ب و بیاں اور فکر و فن کے وسیع امکانات ہیں۔
 
عشقِ احمد ملے جو بگڑوں کو
 
دیکھتے دیکھتے سنورتے ہیں
 
صاحبزادہ محمد نجم الامین عروس فاروقی نے جو بات بھی کہی ہےپورے ایقان اور مکمل ایمان سے کہی ہے۔یوں لگتا ہے جیسے وہ شاعری نہیں کر رہے بلکہ گواہی دے رہے ہیں۔ سچی گواہی، جسے سن کرہمیں ان کے عقیدے اور مسلک کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کی نسبت کا بھی کہ کلامِ عروس اس پر دال ہے۔ موصوف اس نسبت، عشق،سچائی اور نورِ حب نبی کو جو کہ انہیں وراثت میں ملا ہے اپنےبچوں، نسلِ نو اور اپنے قا ری میں بانٹ رہے ہیں۔ اور بڑے وقار سے اس بات کا اظہار بھی کرتےہیں:
 
ہم سکھاتے ہیں بچوں کو عشق نبی
 
یہ بزرگوں سےہم کو وراثت ملی
 
الغیاث کے خالق نےجو کچھ بھی خلق کیاہے وہ مشعلِ الفتِ سرکار کی روشنی میں کیا ہے۔ وہ اسی لَو کو ہر اک دل میں جگانے کیلئے نعت لکھ رہے ہیں۔ان کا یقینِ کامل ہےکہ ان کو بڑی نسبت حاصل ہے تو یقینا وہ کام بھی بڑا ہی کریں گے۔اپنی اس کتاب میں انہوں نےجہاں نعتیں لکھی ہیں وہاں"چارے یار رسول دے چار گوہر"، مناقب بھی لکھے ہیں اور" مدح پیر دی حب دے نال کریے"بزرگوں کی سنت پہ بھی عمل کیا ہے۔ منقبت لکھتے ہوئے تخلیق کار نےخلفائےراشدین کے فرمانِ رسول پر عمل کےنقوش کو یوں ابھارا ہےکہ شعر میں جان پڑ گئی ہے۔
 
کہا مصطفےٰ نے جو بن پڑے کرو خرچ دین کے واسطے
 
کہا یارِ غار نے:لیجیے مِرے گھر کا جتنا بھی مال ہے
 
اسی طرح اپنے پیرو مرشد کی تعریف کرتے ہوئے بھی انہوں نے شمس و قمر کےدو الفاظ سے اپنی عقیدتوں کا اظہار کر دیا ہے۔ سلام لکھتے ہوئے بھی ان کے قلم نے اپنی انفرادیت کو یوں قائم رکھنے کی کوشش کی ہے
 
فخرِ اسحق و براہیم ،درود


رشک دائود و سلیمان ،سلام


جگر و جان و زر و مالِ عروس


تیرے صدقے ترے قربان، سلام
=== مزید دیکھیے ===


عروس فاروقی کی نعت پر نور الفاظ سے مزین اور فکر سے بھری پڑی ہے۔ ہو بھی کیوں نہ کہ ان کی پرورش بھی پرنور علمی ماحول، نعتیہ ترانوں، درود و سلام کی صدائوں، صحابہ کرام کے عقیدت بھرے ذکر اور اہلبیت کی محبت کی باتوں کے نور میں ہوئی ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی نعت مستقبل کے نعتیہ دور کاعنوان ہو گی۔
[[ چراغ ۔ شاکر القادری ]] | [[ لا شریک ۔ مظفر وارثی ]]، [[ باریاب ۔ انور مسعود]]، [[ نسبتیں ۔ خورشید رضوی ]]

نسخہ بمطابق 11:52، 8 جولائی 2017ء


'الغیاث عروس فاروقی کا پہلا باقاعدہ حمدیہ، نعتیہ اور منقبتیہ مجموعہ ہے جو دسمبر2015 میں شائع ہوا۔

جملہ حقوق اور اشاعت

شاعر : عروس فاروقی

کتاب : الغیاث۔ حمدیہ، نعتیہ اور منقبتیہ مجموعہ

تاریخی نام : ’’گلشنِ منظوم‘‘ 1436ھ

سال اشاعت : دسمبر2015

سرورق : سید شاکر القادری

کمپوزنگ : عروس فاروقی

صفحات کی تعداد : 128

قیمت : 200 روپے

ناشر : اکادمی فروغ ِ نعت ، اٹک

اہداء

بحضور صاحبزادہ پیر فیض الامین فاروقی چشتی سیالوی

انتساب

بنام حضرت پیر سید محمد مراتب علی شاہ چشتی سیالوی رحمۃ اللہ علیہ

قطعہ تاریخِ اشاعت

مل رہا ہے مِرے سخن کو ظہور

ایک مدّت سے جو کہ تھا مستور


ہاں جبھی تو میں آج ہوں شاداں

ہاں جبھی تو میں آج ہوں مسرور


مہربانی ہے شاہِ بطحا کی

اور فضل و عطائے ربّغفور


ذی مراتب قمرکا فیض ہے سب

ورنہ مجھ میں کہاں یہ عقل و شعور


ٹھہریں صفحات دیدہ زیب اِس کے

جانفزا اِس کے ہوں حروف و سطور


کاش حاصل ہو اِس سے کیف وسکوں

کاش اِس سے ملے نشاط و سرور


حُبِّ احمد سے جگمگائیں دل

بغض و نفرت کی ظلمتیں ہوں دور


سوچتا کیا ہے اِس کا سالِ ظہور

کہہ عروس ؔ ’’۱لغیاث ہے پُر نور‘‘

              2015

بقلم صاحب کتاب


پیش لفظ

عرض و گذارش

الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الامین

ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب

یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے

قارئین کرام!السلام علیکم !یہ کتاب ’’الغیاث‘‘ میرا نعتیہ مجموعہ ہے۔ اگر آپ اِس میں کوئی ایسی بات دیکھیں جوآپ کے خیال میں بارگاہِ رسالت کے لائق نہیں تو برائے مہربانی مجھے آگاہ فرمائیں۔ نوازش ہوگی !

یہ بات اس لئے عرض کررہا ہوں کہ مجھ سا کم علم اور بے بس آدمی بارگاہِ رسالت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا،یقیناً کئی مقامات پر خامیاں دیکھنے کو ملیں گی۔

جب الطاف حسین حالی کا مذکورہ شعر یاد آتا ہے تویقین جانیں ہمت ہی نہیں پڑتی کہ اُس بارگاہ میں کچھ عرض کروںجو عرش سے نازک تر ہے اور جہاں حضرت  جنید بغدادی اور حضرت بایزیدبسطامی جیسی ہستیاں بھی دم سادھ کر حاضر ہوتی ہیں۔ 

میں نے ممدوحِ یزداں صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عقیدت کے نذرانےاگر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تو علامہ عارف جاوید نقشبندی اوردیگردوستوں کی ہمت افزائی کی وجہ سے۔ ورنہ نعت کہنا صاحبِ حال لوگوں کا کام ہے۔ مجھ سے بے عمل انسان کا کام نہیں جو صاحبِ قال بھی نہیں۔

نعت گو شعراء کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ روزِ قیامت اُس صف میں کھڑے ہوں جس میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود ہوںگے ۔ لیکن مجھے تو اس بات کی خواہش کرتے ہوئے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے کہ ایسی خواہش کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ حضرت شیخ سعدی ، حضرت امام بوصیری اور مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہم جیسے بزرگوں کے ساتھ کھڑے ہونا کیا کوئی چھوٹی بات ہے؟؟؟

ہاں ! مجھے اگر قیامت کے دن امامِ نعت گویاں الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے قدموں میں جگہ مل جائے تو اپنے لئے بہت بڑی سعادت گردانوں گا۔

اگر قارئین سمجھیں کہ یہ کتاب، مستطاب اور لائق تحسین ہے تو یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کرم ہے۔ میرا کوئی کمال نہیں۔


تقاریظ

نجمِ چرخِ ثنا  : عباس عدیم قریشی

عروسؔ فاروقی کی زیرِ نظر تصنیف ’’الغیاث‘‘ در اصل حمد و نعت اور مناقب اولیاء پر مشتمل مجموعۂ کلام ہے جو نہ صرف انکی ادبی ثقاہت، قادر الکلامی، خوش گوئی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انکے فکری زاویوں اور جہتوں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ ’’الغیاث‘‘ کی ابتداء میں انھوں نے اپنا فارسی کلام شامل کیا ہے اور اس کے بعد اردو کلام۔ ہر دوزبانوں میں ان کی صلاحیتیں قابلِ رشک بھی ہیں اور قابلِ تحسین بھی کہ جہاں اردو زبان پر ان کی گرفت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں فارسی زبان میں ان کا بے ساختہ کلام اور انتہائی رواں ، سادہ سلیس طرزِ نگارش تحسین طلب ہے۔ عباس عدیم قریشی

پروفیسرفیض رسول فیضان

عقیدہ و عقیدت کا خوش گوار امتزاج اور فکر وفن کا حیرت انگیز انطباق، حضرتِ عروسؔ کے تابناک مستقبل کی گواہی دے رہا ہے، بندش کی چستی اور عروضی مہارت سونے پر سہاگے کے مترادف ہے۔ روایت کی زمین میں جدت کے گلکاریاں بھی فرحت افزا ہیں۔ مزید برآں شاعر کی فارسی قادر الکلامی خانقاہی نظام کے ساتھ اُن کے رچے ہوئے ربط و رسوخ کا پتہ دے رہی ہے اور بعض فارسی اشعار تو بلا مبالغہ ایسے کیف آور اور روح پرور ہیں کہ سعدی و حافظ اور رومی و جامی جیسے اساتذہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

سید شاکر القادری چشتی نظامی

زیر نظر مجموعہ ان کا اولین اظہاریہ ہے جو ان کے اندرایک مدت سے مستور اور منتظر ظہور تھا۔ انہیں اپنےفن شعر گوئی کےاس ظہورِ اول کا شدت سے احساس ہے اور وہ اس کواللہ رب العزت کا کرم خاص مانتے اور سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت ورافت کا عکس جانتے ہیں اپنے فن شعر کے اس اولین اظہاریہ سے ان کا مقصد نمود و نمائش نہیں ،مطمح نظر داد خواہی نہیں اور نہ ہی وہ کسی دنیاوی واہ واہ اورستائش و آفرین کے رسیاہیںبلکہ ان کا مقصدتو اطمینان قلبی کی دولت فراواں کا حصول ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس اظہار فن کے ذریعے دل جگمگا اٹھیں اور بغض و نفرت کی ظلمتیں دور ہوجائیں۔ ایسی ہی تمناؤں کو دل میں سموئے ہوئےوہ مکینِ گنبد خضرا کے حضور دامن التجا پھیلائے ”الغیاث“ ”الغیاث“ کی دردمندانہ صدا بلند کر رہے ہیں۔


بیک ٹائیٹل پیج

سید شاکر القادری چشتی نظامیکا ایک جملہ

ان کی نعت کے موضوعات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ، حسن صورت و حسن سیرت کا بیان، طیبہ مقدسہ کا تذکرہ ، مدینے حاضری کی شدید تمنا، اسلام کے غلبے کی خواہش، امت مسلمہ کی زبوں حالی کا تذکرہ اور استغاثہ اور نعت سرمایۂ زندگی جیسے عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

کلاموں کی تفصیل

فارسی کلام

حمد : 1 | نعت : 7 | منقبت: 4 | قطعہ : 2

اردو کلام

حمد : 5 | نعت : 37 | منقبت: 15

کتاب کے بارے دیگر آراء اور مضامین

الغیاث۔ محبت اور مناجات کا اظہاریہ : ایک مطالعہ ۔ محمد یونس تحسین


مزید دیکھیے

چراغ ۔ شاکر القادری | لا شریک ۔ مظفر وارثی ، باریاب ۔ انور مسعود، نسبتیں ۔ خورشید رضوی