الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے ۔ محسن نقوی
شاعر : محسن نقوی
نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے
کلیوں کے کٹوروں پہ ترا نام لکھا ہے
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
کونین کی وسعت تو تہ دستِ دعا ہے
وہ یوں کہ مرا قریہ جاں گونج اُٹھا ہے
مہتاب ترا ریزہ نقشِ کفِ پا ہے
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
صدیوں میں بکھر کر بھی ترا عشق نیا ہے
یا دھوپ نے سایہ ترا خود اُوڑھ لیا ہے
یا دن ترے اندازِ صباحت پہ گیا ہے
جب جب بھی پریشان مجھے دنیا نے کیا ہے
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے
حاصل ہو ترا لطف تو صرصر بھی صبا ہے
اپنوں پہ نوازش کا بھی انداز جدا ہے
ہر سو ترا دامانِ کرم پھیل گیا ہے
ہے موسم گل یا تری خیراتِ قبا ہے
بے زر کو ابوذر تیری بخشش نے کیا ہے
عالم کا مقدر ترے ہاتھوں پہ لکھا ہے
قرآن تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے
محسؔن ترے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے |
|