آپ «اُردو کی ابتدائی ملی شاعری میں نعتیہ موضوعات ۔ ڈاکٹر محمد طاہر قریشی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg|200px|link=نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27]]
[[طاہر قریشی: | (ڈاکٹر محمد طاہر قریشی)]]
 
{{بسم اللہ }}
مضمون نگار : [[طاہر قریشی | ڈاکٹر محمد طاہر قریشی]]
 
مطبوعہ : [[ نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27 ]]




سطر 13: سطر 8:




==== (الف) ابتدائی ملّی شاعری میں ذکرِ خیرالانامﷺ:====
(الف) ابتدائی ملّی شاعری میں ذکرِ خیرالانامﷺ:




ملّی شاعری عبارت ہے ملّت اسلامیہ اور اس کے معاملات سے۔اردو شعراء کے ہاںملّی شعور ہمیشہ سے موجود تھا اگر چہ اس کا اظہار بے شک تسلسل سے نہیں ہوا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ شعراء اپنے منفرد ملّی تشخص کو بالکل ہی فراموش کر چکے ہوں۔عرصے تک الطاف حسین حالی کو اردو کا پہلا ملّی شاعر قرار دیا جاتا رہا لیکن بعد کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ [[حالی]] سے پہلے [[مومن خان مومن]] ملّی معاملات پر سخن آرائی کر چکے تھے۔لیکن ڈاکٹر طاہرہ نگہت نیّر نے اپنے پی ایچ۔ ڈی۔ کے مقالے’’اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار‘‘ میں محمد شاہی عہد کے ایک واقعے پر،جو ۱۷۲۹ ء میں وقوع پذیر ہوا، بے نوا نامی ایک شاعر کا ایک بند نقل کیا ہے جسے انھوں نے ملّی شاعری کا اوّلین نمونہ قرار دیاہے جو  درست نہیں ہے۔  
ملّی شاعری عبارت ہے ملّت اسلامیہ اور اس کے معاملات سے۔اردو شعراء کے ہاںملّی شعور ہمیشہ سے موجود تھا اگر چہ اس کا اظہار بے شک تسلسل سے نہیں ہوا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ شعراء اپنے منفرد ملّی تشخص کو بالکل ہی فراموش کر چکے ہوں۔عرصے تک الطاف حسین حالی کو اردو کا پہلا ملّی شاعر قرار دیا جاتا رہا لیکن بعد کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ حالی سے پہلے مومن خان مومن ملّی معاملات پر سخن آرائی کر چکے تھے۔لیکن ڈاکٹر طاہرہ نگہت نیّر نے اپنے پی ایچ۔ ڈی۔ کے مقالے’’اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار‘‘ میں محمد شاہی عہد کے ایک واقعے پر،جو ۱۷۲۹ ء میں وقوع پذیر ہوا، بے نوا نامی ایک شاعر کا ایک بند نقل کیا ہے جسے انھوں نے ملّی شاعری کا اوّلین نمونہ قرار دیاہے جو  درست نہیں ہے۔  




اردو میں ملّی شاعری کی کئی مثالیں بے نوا سے بھی بہت پہلے نظر آتی ہیں۔ راقم کی تحقیق کے مطابق ملّی شاعری کے ابتدائی نمونے دسویں صدی ہجری یعنی سولھویں صدی عیسوی میں نظر آتے ہیں  ۱؎۔  دکن کی مشہور جنگ تالیکوٹ (یاتلی کوٹہ۹۷۲ھ بمطابق۱۵۶۴ء) کی فتح پر [[حسن شوقی]] (۹۴۸ھ [۱۵۴۱ء ]۔۱۰۴۲ ھ [ ۱۶۳۲ء ]تا ۱۰۵۰ھ[۱۶۴۰ ء])نے ’’فتح نامہ نظام شاہ‘‘ [[مثنوی]] کی شکل میں لکھا جو موجودہ شکل میں ۶۲۱  اشعار پر مشتمل ہے۔ ۱؎ اس فتح نامے میں حسن شوقی نے واضح طور پر تالیکوٹ کی جنگ کو کفر و اسلام کی جنگ قرار دیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’’اس مثنوی کے مطالعہ سے ہندو اور مسلم تہذیبوں کے مزاج کا فرق بھی سامنے آتا ہے‘‘۔ ۲؎  
اردو میں ملّی شاعری کی کئی مثالیں بے نوا سے بھی بہت پہلے نظر آتی ہیں۔ راقم کی تحقیق کے مطابق ملّی شاعری کے ابتدائی نمونے دسویں صدی ہجری یعنی سولھویں صدی عیسوی میں نظر آتے ہیں  ۱؎۔  دکن کی مشہور جنگ تالیکوٹ (یاتلی کوٹہ۹۷۲ھ بمطابق۱۵۶۴ء) کی فتح پر حسن شوقی (۹۴۸ھ [۱۵۴۱ء ]۔۱۰۴۲ ھ [ ۱۶۳۲ء ]تا ۱۰۵۰ھ[۱۶۴۰ ء])نے ’’فتح نامہ نظام شاہ‘‘ مثنوی کی شکل میں لکھا جو موجودہ شکل میں ۶۲۱  اشعار پر مشتمل ہے۔ ۱؎ اس فتح نامے میں حسن شوقی نے واضح طور پر تالیکوٹ کی جنگ کو کفر و اسلام کی جنگ قرار دیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’’اس مثنوی کے مطالعہ سے ہندو اور مسلم تہذیبوں کے مزاج کا فرق بھی سامنے آتا ہے‘‘۔ ۲؎  




یہ مثنوی نہ صرف ملّی شاعری کا اوّلین نمونہ ہے بلکہ ملّی شاعری میں نعتیہ عناصر بھی پہلی بار اسی مثنوی میں نظر آتے ہیں۔ ویسے تو اردو میں جتنی قدیم مثنویاں لکھی گئی ہیں بیشتر میں روایتی طور پر حمد و نعت سے ہی آغاز کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ بھی [[حسن شوقی]] نے فتح نامہ میں نبی کریمﷺ کا ذکرِ مبارک چند مقامات پر کیا ہے۔ مثلاً:
یہ مثنوی نہ صرف ملّی شاعری کا اوّلین نمونہ ہے بلکہ ملّی شاعری میں نعتیہ عناصر بھی پہلی بار اسی مثنوی میں نظر آتے ہیں۔ ویسے تو اردو میں جتنی قدیم مثنویاں لکھی گئی ہیں بیشتر میں روایتی طور پر حمد و نعت سے ہی آغاز کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ بھی حسن شوقی نے فتح نامہ میں نبی کریمﷺ کا ذکرِ مبارک چند مقامات پر کیا ہے۔ مثلاً:


یوکا فیر سگلے ہوئے برطرف
یوکا فیر سگلے ہوئے برطرف
سطر 59: سطر 54:




گولکنڈہ کے حکمران [[قلی قطب شاہ | محمد قلی قطب شاہ]] (۱۵۶۵ء ۔۱۶۱۱ء)، جسے اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر کہا جاتا ہے، عموماً وطنی محبت میں مبتلا نظر آتا ہے اور اس کی شاعری کا بیشتر حصہ اپنے ملک کے رسم و رواج، تقریبات، میلوں، تہواروں، پھلوں اور موسموں وغیرہ کے والہانہ اظہار پر مشتمل ہے۔ ۴؎ اس کے ہاں ملّی شاعری نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وینکٹ پتی راج سے جنگ کے وقت اس کی ملّی عصبیت عود کر آتی ہے اور وہ دکنی یا ہندوستانی بن کر نہیں بلکہ مسلمان بن کر اپنی فوجوں کو اس طرح جوش دلاتا ہے۔
گولکنڈہ کے حکمران محمد قلی قطب شاہ (۱۵۶۵ء ۔۱۶۱۱ء)، جسے اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر کہا جاتا ہے، عموماً وطنی محبت میں مبتلا نظر آتا ہے اور اس کی شاعری کا بیشتر حصہ اپنے ملک کے رسم و رواج، تقریبات، میلوں، تہواروں، پھلوں اور موسموں وغیرہ کے والہانہ اظہار پر مشتمل ہے۔ ۴؎ اس کے ہاں ملّی شاعری نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وینکٹ پتی راج سے جنگ کے وقت اس کی ملّی عصبیت عود کر آتی ہے اور وہ دکنی یا ہندوستانی بن کر نہیں بلکہ مسلمان بن کر اپنی فوجوں کو اس طرح جوش دلاتا ہے۔


محمدؐ دین قائم ہے، ہندو بھاراں بھگادو تم
محمدؐ دین قائم ہے، ہندو بھاراں بھگادو تم
سطر 66: سطر 61:




[[قاضی حمد بحری | قاضی محمود بحری]] ( م۱۷۱۷ء)کی مثنوی ’’من لگن‘‘ میں  چند اشعار اورنگ زیب کی مدح میں ہیں۔ ایک شعر میں بحری نے اورنگ زیب کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے اسے نبی ﷺکی شریعت نافذ کرنے میں سرگرداں دکھایا ہے۔
قاضی محمود بحری ( م۱۷۱۷ء)کی مثنوی ’’من لگن‘‘ میں  چند اشعار اورنگ زیب کی مدح میں ہیں۔ ایک شعر میں بحری نے اورنگ زیب کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے اسے نبی ﷺکی شریعت نافذ کرنے میں سرگرداں دکھایا ہے۔


دیکھیا نھیں حکم بن کسی دھر
دیکھیا نھیں حکم بن کسی دھر
سطر 95: سطر 90:




[[قائم چاند پوری]] کی کلیات میں مخمّس کی صورت میں ایک ہجو بعنوان ’’در ہجو قاضی‘‘ ملتی ہے جس میں قاضی کو شریعت کا سوداگر اور دینِ نبیؐﷺکی مخالفت میں تلوار اٹھانے والا کہا گیا ہے۔ ۹؎  مندرجہ ذیل اشعار میں شاعر نے نبی کریم  ﷺ کی نیابت کا فرض ادا نہ کرنے پر قاضی کو لعن طعن کی ہے، ہجو کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
قائم چاند پوری کی کلیات میں مخمّس کی صورت میں ایک ہجو بعنوان ’’در ہجو قاضی‘‘ ملتی ہے جس میں قاضی کو شریعت کا سوداگر اور دینِ نبیؐﷺکی مخالفت میں تلوار اٹھانے والا کہا گیا ہے۔ ۹؎  مندرجہ ذیل اشعار میں شاعر نے نبی کریم  ﷺ کی نیابت کا فرض ادا نہ کرنے پر قاضی کو لعن طعن کی ہے، ہجو کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:


ع    اے قاضیٔ بے مہر، ترے طور پر لعنت
ع    اے قاضیٔ بے مہر، ترے طور پر لعنت
سطر 136: سطر 131:




==== (ب)  شہر آشوب میں نعتیہ عناصر:====
(ب)  شہر آشوب میں نعتیہ عناصر:




سطر 142: سطر 137:




[[میراں جی]] حق نما نے ایک مثنوی ’’در بیان شکایت روزگار‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی جس میں تنزّل پذیر معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے اور زیادہ تر ایسے مسلمانوں کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ جو دین سے دور ہوتے جارہے ہیں:
میراں جی حق نما نے ایک مثنوی ’’در بیان شکایت روزگار‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی جس میں تنزّل پذیر معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے اور زیادہ تر ایسے مسلمانوں کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ جو دین سے دور ہوتے جارہے ہیں:


نا اون کو خدا رسولؐ سے کام
نا اون کو خدا رسولؐ سے کام
سطر 231: سطر 226:




==== (ج)            ٹیپو سلطان پر لکھی گئی منظومات: ====
(ج)            ٹیپو سلطان پر لکھی گئی منظومات:




سطر 308: سطر 303:




==== (د)  تحریکِ مجاہدین:====
(د)  تحریکِ مجاہدین:




سطر 567: سطر 562:




==== (ہ)  واقعۂ ہنومان گڑھی:====
(ہ)  واقعۂ ہنومان گڑھی:


شاہِ اودھ نواب واجد علی شاہ کے دور میں مسجد ہنو مان گڑھی کا واقعہ پیش آیا۔ اجودھیا میں قائم چار مساجد میں سے ایک مسجدِ  عالمگیری کی متعلقہ زمین پر ہندوؤں نے ایک کوٹھڑی بنا کر اس میں ہنو مان کی مورتی رکھ لی اور اس کا نام ہنومان بیٹھک رکھ دیا۔ بعد میں ملحقہ زمین پر چار دیواری قائم کر کے قلعہ بنا لیا اور اس کا نام ہنومان گڑھی رکھا۔ ۷۴؎  بقیہ مساجد میں سے قلعے کی مسجد پہلے سے ہی بند تھی، بابری مسجد میں بُت خانہ قائم کردیا گیا اور فدائی خاں کی مسجد کو بھی خراب کیا۔ ۱۲۷۱ھ میں شاہ غلام حسین نے مولوی محمد صالح کی مدد سے اجودھیا کی مساجد کو ہندوؤں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کا اعلان کردیا۔ واجد علی شاہ نے تحقیقات کروائیں۔ ۷۵؎  انگریز بھی بیچ میں پڑے مگر عیاری سے شاہ غلام حسین اور ان کے ساتھیوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ہندوؤں نے اچانک حملہ کر کے شاہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔ بعد میں مولوی امیر الدین علی نے جہاد کی قیادت سنبھالی اور نواب واجد علی شاہ کے دربار میں مولوی برہان الحق، مولوی عبدالرزاق اور مولوی تراب علی کو ایک منظوم عرض داشت کے ساتھ روانہ کیا۔ ۷۶؎
شاہِ اودھ نواب واجد علی شاہ کے دور میں مسجد ہنو مان گڑھی کا واقعہ پیش آیا۔ اجودھیا میں قائم چار مساجد میں سے ایک مسجدِ  عالمگیری کی متعلقہ زمین پر ہندوؤں نے ایک کوٹھڑی بنا کر اس میں ہنو مان کی مورتی رکھ لی اور اس کا نام ہنومان بیٹھک رکھ دیا۔ بعد میں ملحقہ زمین پر چار دیواری قائم کر کے قلعہ بنا لیا اور اس کا نام ہنومان گڑھی رکھا۔ ۷۴؎  بقیہ مساجد میں سے قلعے کی مسجد پہلے سے ہی بند تھی، بابری مسجد میں بُت خانہ قائم کردیا گیا اور فدائی خاں کی مسجد کو بھی خراب کیا۔ ۱۲۷۱ھ میں شاہ غلام حسین نے مولوی محمد صالح کی مدد سے اجودھیا کی مساجد کو ہندوؤں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کا اعلان کردیا۔ واجد علی شاہ نے تحقیقات کروائیں۔ ۷۵؎  انگریز بھی بیچ میں پڑے مگر عیاری سے شاہ غلام حسین اور ان کے ساتھیوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ہندوؤں نے اچانک حملہ کر کے شاہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔ بعد میں مولوی امیر الدین علی نے جہاد کی قیادت سنبھالی اور نواب واجد علی شاہ کے دربار میں مولوی برہان الحق، مولوی عبدالرزاق اور مولوی تراب علی کو ایک منظوم عرض داشت کے ساتھ روانہ کیا۔ ۷۶؎
سطر 637: سطر 632:




=== حواشی و کتابیات ===
==حواشی و کتابیات==
----------------------------------




براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: