آپ «بر سبیل نعت - تحقیق و تنقید ۔ ڈاکٹر ریاض مجید» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 11: سطر 11:
                    
                    
آج کل نعت کے حوالے سے ایک مسئلہ ان طلبہ و طالبات کا سامنے آرہا ہے ۔جو ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے تحقیقی و تنقیدی مقالہ لکھنا چاہتے ہیں اور جنہیں کسی نعتیہ موضوع کی تلاش ہے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ نعت کے ذیل میں موضوعات کم کم ہیں یہ بات صحیح نہیں ذرا سا غور کیا جائے تو صرف اردو نعتیہ شاعری کے حوالے سے سینکڑوں نہیں ہزاروں موضوعات مل جاتے ہیں__ایسے موضوعات جو قابل تحقیق (Re-searchable) ہیں۔
آج کل نعت کے حوالے سے ایک مسئلہ ان طلبہ و طالبات کا سامنے آرہا ہے ۔جو ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے تحقیقی و تنقیدی مقالہ لکھنا چاہتے ہیں اور جنہیں کسی نعتیہ موضوع کی تلاش ہے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ نعت کے ذیل میں موضوعات کم کم ہیں یہ بات صحیح نہیں ذرا سا غور کیا جائے تو صرف اردو نعتیہ شاعری کے حوالے سے سینکڑوں نہیں ہزاروں موضوعات مل جاتے ہیں__ایسے موضوعات جو قابل تحقیق (Re-searchable) ہیں۔
 
عام طور پر قابل تحقیق موضوعات کے لیے مقتصیات میں دو باتیں اہم ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ وہ موضوع واقعی اہم، نادر اور قابل تحقیق ہو اس کے بارے میں اتنا اور ایسا مواد دستیاب ہو کہ اس پر ایک مقالے لائق حجم کے برابر کام ہو سکے ایم فل کے لیے قریباً اڑھائی تین سو صفحے اور پی ایچ ڈی کے لیے چار پانچ سو یا کچھ کم و بیش صفحات__( واضح رہے کہ ہر موضوع ریسرچ سکالر کی تحقیق استعداد اور دستیاب مواد و وسائل کے اعتبار سے اپنے مقالے کا پھیلاؤ رکھتا ہے اس کی ضخامت کے لیے کوئی طے شدہ یا لگا بندھا اصول نہیں ہو تا)۔
 
عام طور پر قابل تحقیق موضوعات کے لیے مقتصیات میں دو باتیں اہم ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ وہ موضوع واقعی اہم، نادر اور قابل تحقیق ہو اس کے بارے میں اتنا اور ایسا مواد دستیاب ہو کہ اس پر ایک مقالے لائق حجم کے برابر کام ہو سکے ایم فل کے لیے قریباً اڑھائی تین سو صفحے اور پی ایچ ڈی کے لیے چار پانچ سو یا کچھ کم و بیش صفحات__( واضح رہے کہ ہر موضوع ریسرچ سکالر کی تحقیق استعداد اور دستیاب مواد و وسائل کے اعتبار سے اپنے مقالے کا پھیلاؤ رکھتا ہے اس کی ضخامت کے لیے کوئی طے شدہ یا لگا بندھا اصول نہیں ہو تا)۔




سطر 28: سطر 26:




نعت کی تنقیدات کے بارے میں اگرگزشتہ چار پانچ دہائیوں کا گراف بنایا جائے تو اندازہ ہو گا کہ یہ صنف ایک باقاعدہ تنقیدی نظام میں اسی زمانے میں شامل ہوئی ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے ۱۹۵۵ء کے زمانے میں ناگپور یونیورسٹی سے اردو کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے جو مقالہ لکھا وہ پاکستان میں اسی بہارِ نعت کے زمانے میں ۱۹۷۶ء میں شائع ہُوا اشفاق صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل اردو نعت کے باب میں تحقیق و تنقید کا اولّین، وقیع اور اہم کام پی ایچ ڈی کے مقالے کی صورت میں عظیم استاد غلام مصطفیٰ خاں کی نگرانی میں پیش کیا اس کے قریبا ۳۰ سال بعد ۱۹۷۵ء میں میں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاد گرامی وحید قریشی کی نگرانی میں ’اردو نعت‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے مقالے کا خاکہ جمع کروایا جس کی منظوری غالباً مئی ۱۹۷۶ میں ہوئی ۱۹۸۰ء میں اس مقالہ کی تکمیل ہوئی اور قریباً ایک سال بعد اس پر ڈگری تفویض کی گئی۔  ان دہائیوں میں نعت کے بارے میں ملنے والے تحقیقی و تنقیدی مواد کا اگر آج سے مقابلہ کریں تو یہی  اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق، ترتیب، تنقید اور تحقیق ہر حوالے سے نعت گزشتہ صدی کی آخری ربع صدی ہی میں توجہ پذیر صنف قرار پائی۔
نعت کی تنقیدات کے بارے میں اگرگزشتہ چار پانچ دہائیوں کا گراف بنایا جائے تو اندازہ ہو گا کہ یہ صنف ایک باقاعدہ تنقیدی نظام میں اسی زمانے میں شامل ہوئی ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے ۱۹۵۵ء کے زمانے میں ناگپور یونیورسٹی سے اردو کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے جو مقالہ لکھا وہ پاکستان میں اسی بہارِ نعت کے زمانے میں ۱۹۷۶ء میں شائع ہُوا اشفاق صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل اردو نعت کے باب میں تحقیق و تنقید کا اولّین، وقیع اور اہم کام پی ایچ ڈی کے مقالے کی صورت میں عظیم استاد غلام مصطفیٰ خاں کی نگرانی میں پیش کیا اس کے قریبا ۳۰ سال بعد ۱۹۷۵ء میں میں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاد گرامی وحید قریشی کی نگرانی میں ’اردو نعت‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے مقالے کا خاکہ جمع کروایا جس کی منظوری غالباً مئی ۱۹۷۶ میں ہوئی ۱۹۸۰ء میں اس مقالہ کی تکمیل ہوئی اور قریباً ایک سال بعد اس پر ڈگری تفویض کی گئی۔  ان دہائیوں میں نعت کے بارے میں ملنے والے تحقیقی و تنقیدی مواد کا اگر آج سے مقابلہ کریں تو یہی  اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق، ترتیب، تنقید اور تحقیق ہر حوالے سے نعت گزشتہ صدی کی آخری ربع صدی ہی میں توجہ پذیر صنف قرار پائی۔




براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: