حسان بن ثابت

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


حسان بن ثابت "انصار مدینہ" میں سے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار میں سے تھے ۔ آپ 563 ء اور یثرب میں پیدا ہوئے <ref> ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی اپنے مقالے "برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری" میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اکثر عرب مورخین بشمول حافظ ابن عبد البر، علامہ ابن حجر، کے نزدیک یہی روایت درست ہے ۔ </ref> ۔ ہجرت مدینہ کے وقت آپ کی عمر قریبا 60 سال تھی۔

شوق شاعری

آپ نے یثرب کے شہری ماحول میں پرورش پائی ۔ وہاں شعر و شاعری کے تذکرے عام تھے ۔ آپ کا ذوق سلیم شاعری کے مطابق تھا ۔ شعر کہنا شروع کیا۔ اپنے قبیلے کا جوش و جذبہ بڑھانے کے لیے شعر کہتے اور بہت جلد نامور ہو کر اشعر اہل المدر کہلائے ۔ حضری شعراء میں تو کوئی ان کا مد مقابل نہ تھا ۔ بدوی شعراء سے بھی تعلق رہتا اورشعری مبازرت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔

ناقدین آپ کی دور جاہلیت کی شاعری کو بہترین اور قابل استناد جانتے ہیں ۔ آل جفنہ کی مدح میں آپ کے قصائد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ان قصائد کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ مالی اعانت یا انعام اکرام کے بجائے خلوص و محبت کے رنگ میں ڈھلے ہوئے تھے ۔

نعتیہ شاعری

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد سے فضا پر نور ہو گئ ۔ شعر کی فضا بدل گئی ۔ حسان بن ثابت نے اس بدلتے ہوئے ماحول کو کیسے قبول کیا اس کا اندازہ آپ کی بعد کی شاعری سے ہوتا ہے ۔ مکہ سے ہجرت نے مکی شاعروں کی لگامیں کھول دیں اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ہرزہ سرائی کرنے لگے ۔ دفاعی شاعری میں بیشتر صحابہ شامل تھے ۔ ان مدافعین میں حسان بن ثابت کو امتیازی مقام حاصل ہے ۔ آپ کو " اللھم ایدہ بروح القدس"<ref> اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما </ref> <ref>صحیح البخاری، ، کتاب الادب، باب ھہجا المشرکین جلد دوم ص 909 </ref> اور " اھجھم و جبرئیل معک " <ref> دشمنوں کی ہجو کر جبرئیل تیرے ساتھ ہے </ref> <ref> صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکہ ، جلد اول ، ص 457 </ref> کی بشارتیں ملیں ۔

اسلام قبول کرنے کے بعد کی شاعری میں مضامین سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عقیدت کے تابع رہے ۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور بیہودہ شعراء کی ہرزہ سرائی کا جواب آپ کا موضوع رہا ۔ مشہور محقق ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی فرماتے ہیں

آپ کے اکثر قصائد ارتجالا کہے گئے ۔ ان میں زہیر کے حولیات یا حطیہ کے متکلف قصائد کا سا انداز نہ پیدا ہو سکا کیونکہ طویل غور و فکر کے مواقع نصیب نہ ہوتے تھے ۔ ایسے قصائد میں کسی لفظی سقم ، اسلوبی کوتاہی کی نشاندہی ممکن ہے مگر ان کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہرگز مناسب نہیں کہ عہد اسلام میں آپ کی شاعری کمزور پڑ گئی تھی ۔

نمونہ ءِ کلام

اغر علیہ للنبوت خاتم

و احسن منک لم تر قط عینی

خانوادہ

آپ کی شادی ام المومنین ماریہ قبطیہ کی ہمشیرہ سرین سے ہوئی جن سے آپ کے صاحبزادے عبدالرحمن متولد ہوئے ۔

وفات

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردہ فرمانے پر غم و اندوہ کا رنگ آپ کی شاعری میں بھی نظر آیا ۔ آپ نےدل گداز مرثیے لکھے ۔ آپ نے 674 ء بمطابق ۵۴ ھ میں وفات پائی ۔

حواشی و حوالہ جات