حسن علی خاتم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

تعارف

نام: حسن علی تخلص: خاتم عرفیت: حسن ولدیت: جمشید علی تاریخ_ پیدائش: ٣٠ جون سن_ پیدائش: ١٩٩٥ شہر، ضلع، ملک: لاھور، پاکستان موجودہ قیام: لاھور

تعلیم

ابتدائ تعلیم: اپنے والد سے حاصل کی اسکول: گیریژن بوائز ھائ سکول، لاھور کالج: گیریژن کالج براۓ طلباء، لاھور یونیورسٹی: یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاھور، کالا شاہ کاکو کیمپس اعلی تعلیم: ایم.ایس.سی الیکٹریکل انجینیئرنگ، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد (پڑھائ جاری ھے) پیشہ/کاروبار: زیر_ تعلیم

شاعری کی ابتدا

شاعری کی ابتداء: سات سال کی عمر میں ایک نعتیہ شعر کہا. پہلا نعتیہ شعر: اور کیا چاھیے مصطفی جو مل گۓ دیکھتے ہی دیکھتے فیضانی پھول کھل گۓ پہلے نعتیہ شعر کے وقت عمر: سات سال پہلا نعتیہ مشاعرہ: کسی مشاعرے میں کبھی شرکت نہیں کی نعت گوئ کی طرف رجحان کی وجہ: گھر کا ماحول

پسند

اساتذہ_ فن: کسی استاد سے باقاعدہ اصلاح نہیں لی. پسندیدہ نعت گو شعراء: اعلیحضرت بریلوی، امیر مینائ، مظفر وارثی، محمد علی ظہوری، پیر نصیر الدین نصیر (رحمھم اللہ تعالی) پسندیدہ نعت خواں: فصیح الدین سہروردی پسندیدہ کلام: وہ کمال_ حسن_ حضور ھے کہ گمان_ نقص جہاں نہیں یہی پھول خار سے دور ھے، یہی شمع ھے کہ دھواں نہیں.... الخ (رضا رحمت اللہ علیہ)

سن

پہلے نعتیہ شعر کا سن: ٢٠٠٤ پہلے عمرہ یا حج کا سن: ھنوز منتظر ھوں پہلے بیرون_ ملک مشاعرے کا سن: کبھی مشاعرہ میں نہیں گیا پہلی شادی کا سن: غیر شادی شدہ ھوں . .

تخلیقات

١. حمد

......

عالم کو میری آنکھ سے دیکھا کرے کوئ

اشکوں سے حمد_ باری تعالی کرے کوئ


خم اس کے آگے شاہ_ دو عالم کا سر ھے جب

کیونکر نہ اس کی ذات کو سجدہ کرے کوئ


دے کر زبان بخشا اسی نے شعور بھی

کس منہ سے اب کریم کا شکوہ کرے کوئ


اس کے حضور جنبش_ لب کی بھی کس کو تاب؟

آنسو بہا کے عرض_ تمنا کرے کوئ


گو چشم_ نم کو تاب_ تجلی نہیں مگر

یہ نور وہ نہیں کہ نہ دیکھا کرے کوئ


دیدار اس کا آنکھ سے ممکن کہاں حسن؟

دل میں تڑپ کلیم کی پیدا کرے کوئ


٢. ھدیہ_ درود و سلام


ان کو آتا ھے رب العلی کا سلام

سب ملائک کا کل انبیاء کا سلام

اصفیا، اتقیا، اولیا کا سلام

ان پہ ہر اہل_ قلب و سخا کا سلام

یا رسول معظم علیک سلام


وہ ھمارے نبی، وہ خدا کے نبی

لوح_ محفوظ و عرش العلی کے نبی

وہ رسل کے رسول، انبیا کے نبی

آپ ہیں ساری خلق_ خدا کے نبی

آپ پر ساری خلق_ خدا کا سلام


مصطفی، خلق_ اعظم، صلوت و سلام

مجتبی، رشک_ آدم، صلوت و سلام

وہ رسول_ مکرم، صلوت و سلام

ان کی خدمت میں ہر دم، صلوت و سلام

ان پہ جنت کی آب و ھوا کا سلام


ھے سلام ان کی عظمت پہ پڑھتا سلام

عرض کرتا ھے خدمت میں کعبہ سلام

ان کے تلووں کو کرتی ھے سدرہ سلام

ان کی راہ_ گذر ھے سراپا سلام

ان کو روح الامیں دیں خدا کا سلام


جن کے سب ناز نخرے اٹھاۓ خدا

جن کی مرضی سے کعبہ بناۓ خدا

جن کو عرش_ بریں پر بلاۓ خدا

جن سے ملنے کو دھرتی پہ آۓ خدا

ان کی دہلیز کو منتہی کا سلام


جن کو محشر کا دولھا بناۓ خدا

ھو مدثر، مزمل نواۓ خدا

جن کی زلفوں کے کنڈھل بناۓ خدا

جن کے چہرے کی قسمیں اٹھاۓ خدا

ان پہ حسن و جمال و ادا کا سلام


جس نظر پر عیاں ہیں زمان و مکاں

یہ زمیں، وہ زمیں، سات سات آسماں

کیا بہشت و ملک، عرش، کیا لامکاں

جس پہ ھر دم عیاں، خالق_ دو جہاں

اس نظر پہ جمال_ خدا کا سلام

اس کمال_ نظر پہ خدا کا سلام


یونہی ہنستا رھے مصطفی کا چمن

ذکر ان کا رھے رونق_ انجمن

ان کی نعتوں سے روشن ھو میرا سخن

حشر میں بھی اٹھوں تو ھو لب پر، حسن

یا رسول_ معظم علیک سلام


٣. نعت

.....

در_ نبی پہ نظر، ہاتھ میں سبوۓ رسول

گدا سے پوچھیے شان_ گداۓ کوۓ رسول


ھے شمع شمع فروزاں، بہ فیض_ نور_ نبی

مہک گلوں میں ھے رقصاں بہ لطف_ بوۓ رسول


خدا کو کیسے گوارا ھو آپ کی توھین

ھے آبروۓ خدا اصل_ آبروۓ رسول


رھے جو ان سے گریزاں، خدا کا ھو نہ سکے

محال، الفت_ حق ھے بے آرزوۓ رسول


وہ رشک_ عرش_ علی میں فقیر_ خاک_ عجم

کہاں جبین_ عقیدت، کہاں وہ کوۓ رسول


ھے حیف تجھ پہ جو اک جاں نثار کر نہ سکے

خدا نے کر دی خدائ نثار_ روۓ رسول


حسن نہ خوف سے محشر کے ایسا غمگیں ھو

کہ تجھ سے لاکھ کو کافی ھے ایک موۓ رسول


٤. غیر منقوط نعت

.....

سرور کہوں کہ مھدی و مرسل کہوں اسے

ھر سعد، ھر کمال کا حامل کہوں اسے


اصل_ اصول، روح_ سلاسل کہوں اسے

مرد_ مراد_ عامی و کامل کہوں اسے


مسدود ھوں، کہ مہر_ مدور لکھوں اسے

محدود ھوں، کہ ماہ_ مکمل کہوں اسے


کس رو مدح_ سرور_ ھر دو سرا کروں

کس دل سے اصل و محور_ ہر دل کہوں اسے


احمد، محمد، آدمی، امی، رسول، ماح

ھر طور، ھر ادا سے مکمل کہوں اسے


٥. نعت

.....

غزل سناتا ھوا، میں کدھر نکل آیا؟

لبوں سے نغمہ_ خیر البشر نکل آیا

یہ میرے دل کو غم_ مصطفی سے کیا نسبت؟

یہ میری آنکھ سے کیسا گہر نکل آیا؟

خوشی سے روۓ کہ شرمندگی سے چیخ اٹھے؟

عجم کا بھٹکا، در_ شاہ پر نکل آیا

کسے خبر کہ سیاھی کے نعت ھونے تک

شب_ سیاہ سے نور_ سحر نکل آیا

حسن، جہاں میں ہماری کوئ شناخت نہ تھی

در_ نبی پہ جھکایا تو سر نکل آیا