آپ «حسّان الہند علامہ سید میر غلام علی آزادؔ بلگرامی-ڈاکٹر مشاہد رضوی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:ANL Mushahid Razvi.jpg|200px]]
[[ملف:ANL Mushahid Razvi.jpg|200px]]
{{ ٹکر 1 }}


[[ مشاہد رضوی  | ڈاکٹر مشاہد رضوی ( مالیگاؤں )]]
[[ مشاہد رضوی  | ڈاکٹر مشاہد رضوی ( مالیگاؤں )]]


مطبوعہ: [[ دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]
مطبوعہ: [[ دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]
{{ ٹکر 1 }}


=== حسان الہند علامہ سیدمیر غلام علی آزادؔ بلگرامی ===
=== حسان الہند علامہ سیدمیر غلام علی آزادؔ بلگرامی ===
سطر 70: سطر 68:


اللہ اللہ! عز و شان و احترامِ بلگرام
اللہ اللہ! عز و شان و احترامِ بلگرام
{{ ٹکر 3 }}
عبدِ واحد کے سبب جنت ہے نامِ بلگرامروزِ عرس آوارگانِ دشتِ غربت کے لیے
عبدِ واحد کے سبب جنت ہے نامِ بلگرامروزِ عرس آوارگانِ دشتِ غربت کے لیے


{{ ٹکر 3 }}
 
من و سلویٰ ہیں مگر خْبز و اَدامِ بلگرام
من و سلویٰ ہیں مگر خْبز و اَدامِ بلگرام


سطر 93: سطر 92:
مغل بادشاہ اکبر کے عہد سے بلگرام شریف کی مذہبی و دینی اور علمی و ادبی خدمات کاپوری دنیا میں طوطی بول رہا ہے۔ یہاں کے علما و صلحا، فقہا و صوفیہ، حکماو کملا اور شعرا و ادبا کی خدماتِ جلیلہ کا ایک جہاں معترف ہے۔ انھیں بلند پایا شخصیات میں ایک قد آور اور مایۂ ناز نام حضرت حسان الہند علامہ سید میر غلام علی آزادؔچشتی واسطی بلگرامی قدس سرہٗ کا بھی ہے۔  
مغل بادشاہ اکبر کے عہد سے بلگرام شریف کی مذہبی و دینی اور علمی و ادبی خدمات کاپوری دنیا میں طوطی بول رہا ہے۔ یہاں کے علما و صلحا، فقہا و صوفیہ، حکماو کملا اور شعرا و ادبا کی خدماتِ جلیلہ کا ایک جہاں معترف ہے۔ انھیں بلند پایا شخصیات میں ایک قد آور اور مایۂ ناز نام حضرت حسان الہند علامہ سید میر غلام علی آزادؔچشتی واسطی بلگرامی قدس سرہٗ کا بھی ہے۔  


==== نام و نسب اور والدین ====
نام و نسب اور والدین  


حضرت حسان الہند علامہ غلام علی آزادچشتی واسطی بلگرامی قدس سرہٗ نسباً حسینی، اصلاً واسطی، مذہباً حنفی، مشرباً چشتی اور مولداً و منشاً بلگرامی ہیں۔آپ اپنے زمانے کی مشہور علمی و رحانی شخصیت حضرت سید نوح حسینی بلگرامی کے جلیل القدر فرزند ہیں۔حسان الہندعلامہ آزادؔبلگرامی کے والدِ گرامی تقوا و پرہیزگاری اور استقامت فی الدین میں آپ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔حسان الہندعلامہ آزادؔبلگرامی کی والدہ ماجدہ حضرت میر سید عبدالجلیل بلگرامی قدس سرہٗ بن سید احمد قدس سرہٗ کی دخترِ نیک اختر تھیں، آپ قائم اللیل اورصائم النہار خاتون تھیں۔ حسان الہندعلامہ آزادؔبلگرامی کا شجرۂ نسب اس طرح ہے۔  
حضرت حسان الہند علامہ غلام علی آزادچشتی واسطی بلگرامی قدس سرہٗ نسباً حسینی، اصلاً واسطی، مذہباً حنفی، مشرباً چشتی اور مولداً و منشاً بلگرامی ہیں۔آپ اپنے زمانے کی مشہور علمی و رحانی شخصیت حضرت سید نوح حسینی بلگرامی کے جلیل القدر فرزند ہیں۔حسان الہندعلامہ آزادؔبلگرامی کے والدِ گرامی تقوا و پرہیزگاری اور استقامت فی الدین میں آپ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔حسان الہندعلامہ آزادؔبلگرامی کی والدہ ماجدہ حضرت میر سید عبدالجلیل بلگرامی قدس سرہٗ بن سید احمد قدس سرہٗ کی دخترِ نیک اختر تھیں، آپ قائم اللیل اورصائم النہار خاتون تھیں۔ حسان الہندعلامہ آزادؔبلگرامی کا شجرۂ نسب اس طرح ہے۔  


==== پدری شجرۂ نسب ====
پدری شجرۂ نسب


علامہ غلام علی آزادؔ بن سید نوح بن سید فیروز بن اللہ داد بن سید امان اللہبن محمود ثانی بن سیدحسین بن سید نوح بن سید محمود اول بن سید خداداد بن سید لطف اللہ بن سید سالار بن سید حسین بن سید نصیر بن سید حسین بن سید عمر بن سید محمد صاحب الدعوۃ الصغرا بن سید علی بن سید حسین بن سید ابولفرح ثانی بن سید ابولفراس بن سید ابوالفرح واسطی بن سید داود بن سید حسین بن سید یحییٰ بن سید زید بن سید علی بن سید حسن بن سید علی عراقی بن سید حسین بن سید علی بن سید محمد بن سید عیسیٰ موتم الاشبال بن سید زید شہید بن امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہیدِ کربلا بن سیدنا علیِ مرتضیٰ زوجِ دخترِ رسول فاطمۃ الزہراء۔
علامہ غلام علی آزادؔ بن سید نوح بن سید فیروز بن اللہ داد بن سید امان اللہبن محمود ثانی بن سیدحسین بن سید نوح بن سید محمود اول بن سید خداداد بن سید لطف اللہ بن سید سالار بن سید حسین بن سید نصیر بن سید حسین بن سید عمر بن سید محمد صاحب الدعوۃ الصغرا بن سید علی بن سید حسین بن سید ابولفرح ثانی بن سید ابولفراس بن سید ابوالفرح واسطی بن سید داود بن سید حسین بن سید یحییٰ بن سید زید بن سید علی بن سید حسن بن سید علی عراقی بن سید حسین بن سید علی بن سید محمد بن سید عیسیٰ موتم الاشبال بن سید زید شہید بن امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہیدِ کربلا بن سیدنا علیِ مرتضیٰ زوجِ دخترِ رسول فاطمۃ الزہراء۔


==== مادری شجرۂ نسب ====
مادری شجرۂ نسب


علامہ غلام علی آزاد بن دخترِ علامہ میر عبدالجلیل بلگرامی بن سید احمد بن سید عبداللطیف بن سید محمود ثانی بن سید حسین بن سید نوح بن سید محمود اول بن سید خداداد بن سید لطف اللہ بن سیدسالار بن سید حسین بن سید نصیر بن سید حسین بن سید عمر بن سید محمد صاحب الدعوۃ الصغرا بن سید علی بن سید حسین بن سید ابولفرح ثانی بن سید ابولفراس بن سید ابوالفرح واسطی بن سید داود بن سیدحسین بن سید یحییٰ بن سید زید بن سید علی بن سید حسن بن سید علی عراقی بن سید حسین بن سید علی بن سید محمد بن سید عیسیٰ موتم الاشبال بن سید زید شہید بن امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہیدِ کربلا بن سیدنا علیِ مرتضیٰ زوجِ دخترِ رسول فاطمۃ الزہراء۔
علامہ غلام علی آزاد بن دخترِ علامہ میر عبدالجلیل بلگرامی بن سید احمد بن سید عبداللطیف بن سید محمود ثانی بن سید حسین بن سید نوح بن سید محمود اول بن سید خداداد بن سید لطف اللہ بن سیدسالار بن سید حسین بن سید نصیر بن سید حسین بن سید عمر بن سید محمد صاحب الدعوۃ الصغرا بن سید علی بن سید حسین بن سید ابولفرح ثانی بن سید ابولفراس بن سید ابوالفرح واسطی بن سید داود بن سیدحسین بن سید یحییٰ بن سید زید بن سید علی بن سید حسن بن سید علی عراقی بن سید حسین بن سید علی بن سید محمد بن سید عیسیٰ موتم الاشبال بن سید زید شہید بن امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہیدِ کربلا بن سیدنا علیِ مرتضیٰ زوجِ دخترِ رسول فاطمۃ الزہراء۔


==== ولادتِ باسعادت ====
ولادتِ باسعادت  


حضرت حسان الہند میر سید غلام علی آزاد چشتی و اسطی بلگرامی کی ولادتِ باسعادت 25صفر المظفر 1116ھ /1704ء بروزاتوار کو بلگرام شریف میں فاتح بلگرام حضرت سید محمد صغرا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مقدس خانوادہ میں ہوئی۔حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی کی نشوونَما اسی مقد س دیار میں ہوئی۔ آپ نے روحانیت و عرفانیت سے مملو ایسے ماحول میں بچپن اور عنفوانِ شباب کی منزلیں طَے کیں جہاں علم و فضل اور زہد و تقوا کا چشمۂ جاری تھا۔ آپ دادیہال اور نانیہال دونوں ہی طرف سے فاتحِ بلگرام حضرت سید محمددعوۃ الصغرا نور اللہ مرقدہٗ کی نسبت سے صغروی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ جس خاندان میں بڑے بڑے شریعت و طریقت، حقیقت و معرفت اور علوم و فنون کی شخصیات نے جنم لیاتھا۔ ایسے دینی، اسلامی اور روحانی ماحول نے حسان الہند علامہ آزادؔبلگرامی کو بچپن ہی سے خوب نکھارا اور کندن بنادیا۔  
حضرت حسان الہند میر سید غلام علی آزاد چشتی و اسطی بلگرامی کی ولادتِ باسعادت 25صفر المظفر 1116ھ /1704ء بروزاتوار کو بلگرام شریف میں فاتح بلگرام حضرت سید محمد صغرا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مقدس خانوادہ میں ہوئی۔حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی کی نشوونَما اسی مقد س دیار میں ہوئی۔ آپ نے روحانیت و عرفانیت سے مملو ایسے ماحول میں بچپن اور عنفوانِ شباب کی منزلیں طَے کیں جہاں علم و فضل اور زہد و تقوا کا چشمۂ جاری تھا۔ آپ دادیہال اور نانیہال دونوں ہی طرف سے فاتحِ بلگرام حضرت سید محمددعوۃ الصغرا نور اللہ مرقدہٗ کی نسبت سے صغروی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ جس خاندان میں بڑے بڑے شریعت و طریقت، حقیقت و معرفت اور علوم و فنون کی شخصیات نے جنم لیاتھا۔ ایسے دینی، اسلامی اور روحانی ماحول نے حسان الہند علامہ آزادؔبلگرامی کو بچپن ہی سے خوب نکھارا اور کندن بنادیا۔  
{{ ٹکر 4 }}
{{ ٹکر 4 }}
==== تعلیم و تربیت ====
تعلیم و تربیت


علوم و فنون کے مرکزی شہر بلگرام سے تعلق رکھنے والے اس عظیم فرزند نے زیادہ تر اپنے خاندانی علمأ و اولیا کی آغوش میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اپنے عہد کے مشہور و معروف اور قابل استاذ، عالمِ جلیل حضرت علامہ سید طفیل محمد ابن شکر اللہ حسینی اترولوی ثم بلگرامی علیہم الرحمہ (م1151ھ) سے بھی علامہ آزادؔ بلگرامی نے درسیات کی جملہ منقولات و معقولات کی کتابیں پڑھیں۔ اور اپنے نانا حضرت علامہ سید عبدالجلیل ابن سید میر احمد حسینی واسطی بلگرامی علیہم الرحمہ سے لغت و سیرتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) احادیثِ طیبہ کی اسناد اور عربی و فارسی کے اشعار کا درس لیا۔ آپ سے حدیث’’المسلسل بالآ و لی‘‘اور حدیث ’’الآ سود ین التمر والماء ‘‘ سماعت کی، اس درس میں آپ کے خالہ زاد بھائی علامہ میر سید یوسف قدس سرہٗ ( ولادت 1116ھ ) بھی آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ چناں چہ اپنی کتاب ’’ماثرالکرام ‘‘ میں ناناحضور علامہ سید میرعبدالجلیل بلگرامی قدس سرہٗ کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ آزاد لکھتے ہیں کہ :
علوم و فنون کے مرکزی شہر بلگرام سے تعلق رکھنے والے اس عظیم فرزند نے زیادہ تر اپنے خاندانی علمأ و اولیا کی آغوش میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اپنے عہد کے مشہور و معروف اور قابل استاذ، عالمِ جلیل حضرت علامہ سید طفیل محمد ابن شکر اللہ حسینی اترولوی ثم بلگرامی علیہم الرحمہ (م1151ھ) سے بھی علامہ آزادؔ بلگرامی نے درسیات کی جملہ منقولات و معقولات کی کتابیں پڑھیں۔ اور اپنے نانا حضرت علامہ سید عبدالجلیل ابن سید میر احمد حسینی واسطی بلگرامی علیہم الرحمہ سے لغت و سیرتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) احادیثِ طیبہ کی اسناد اور عربی و فارسی کے اشعار کا درس لیا۔ آپ سے حدیث’’المسلسل بالآ و لی‘‘اور حدیث ’’الآ سود ین التمر والماء ‘‘ سماعت کی، اس درس میں آپ کے خالہ زاد بھائی علامہ میر سید یوسف قدس سرہٗ ( ولادت 1116ھ ) بھی آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ چناں چہ اپنی کتاب ’’ماثرالکرام ‘‘ میں ناناحضور علامہ سید میرعبدالجلیل بلگرامی قدس سرہٗ کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ آزاد لکھتے ہیں کہ :
سطر 118: سطر 117:


’’مدینہ منورہ علیہ التحیۃ والثناء میں شیخنا و استاذنا مولانا شیخ محمد حیات سندھی مدنی حنفی قدس سرہٗ کی خدمت میں بخاری کی قراء ت کی اور صحاحِ ستہ اور مولاناکی تمام مفردات کی اجازت بھی حاصل کی۔‘‘( ص 441)  
’’مدینہ منورہ علیہ التحیۃ والثناء میں شیخنا و استاذنا مولانا شیخ محمد حیات سندھی مدنی حنفی قدس سرہٗ کی خدمت میں بخاری کی قراء ت کی اور صحاحِ ستہ اور مولاناکی تمام مفردات کی اجازت بھی حاصل کی۔‘‘( ص 441)  
{{ٹکر 5 }}


==== اساتذہ کی عنایتیں ====
اساتذہ کی عنایتیں  


حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی نے جن جن اساتذۂ کرام سے اکتسابِ فیض کیا انھوں نے آپ پر بے انتہا شفقت و مہربانی فرمائی۔ دراصل خود علامہ آزادؔ اپنے اساتذہ کا بے حد ادب و احترام سے کرتے تھے اور آپ کو علوم وفنون کی تحصیل میں جو لگن اور دلچسپی تھی اس کے سبب بھی آپ اپنے اساتذہ کے منظورِ نظر تھے۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت میر سید محمد طفیل بلگرامی قدس سرہٗ آپ سے بے پناہ محبت اور خاص عنایت فرماتے تھے۔ حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی اور آپ کے حقیقی خالہ زاد بھائی حضرت علامہ میر سیدمحمد یوسف قدس سرہم دونوں ہی ہم سبق تھے، ان دونوں خالہ زاد بھائیوں سے اساتذہ کی شفقتیں اور محبتیں نیز ان حضرات کا اپنے اساتذہ کے تئیں احترام و عقیدت کے جذبات فی زمانہ مفقود ہوتے جارہے ہیں۔  
حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی نے جن جن اساتذۂ کرام سے اکتسابِ فیض کیا انھوں نے آپ پر بے انتہا شفقت و مہربانی فرمائی۔ دراصل خود علامہ آزادؔ اپنے اساتذہ کا بے حد ادب و احترام سے کرتے تھے اور آپ کو علوم وفنون کی تحصیل میں جو لگن اور دلچسپی تھی اس کے سبب بھی آپ اپنے اساتذہ کے منظورِ نظر تھے۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت میر سید محمد طفیل بلگرامی قدس سرہٗ آپ سے بے پناہ محبت اور خاص عنایت فرماتے تھے۔ حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی اور آپ کے حقیقی خالہ زاد بھائی حضرت علامہ میر سیدمحمد یوسف قدس سرہم دونوں ہی ہم سبق تھے، ان دونوں خالہ زاد بھائیوں سے اساتذہ کی شفقتیں اور محبتیں نیز ان حضرات کا اپنے اساتذہ کے تئیں احترام و عقیدت کے جذبات فی زمانہ مفقود ہوتے جارہے ہیں۔  
سطر 138: سطر 136:
علامہ آزادؔ سے ان اساتذہ نے جو محبتیں کیں آپ نے اپنی اکثر تصانیف میں ان کا ذکرکیا ہے ساتھ ہی بعض اساتذہ کے لیے عربی میں شان دار مدحیہ قصائد بھی ارقام فرمائے ہیں۔ یہ قصائد شعر و ادب کا گنجینہ ہونے کے ساتھ اپنے ممدوحین سے سچی محبت و عقیدت کا اظہاریہ ہیں۔ نانا جان میر سید عبدالجلیل بن سید احمد بلگرامی کی شان میں لکھے گئے قصیدے کے بارے میں مولانا سید مصطفی سورتی فرماتے ہیں کہ: ’’ یہ قصیدہ حق رکھتا ہے کہ اس پر رشک کیا جائے۔‘‘(مآثر، ص:394)
علامہ آزادؔ سے ان اساتذہ نے جو محبتیں کیں آپ نے اپنی اکثر تصانیف میں ان کا ذکرکیا ہے ساتھ ہی بعض اساتذہ کے لیے عربی میں شان دار مدحیہ قصائد بھی ارقام فرمائے ہیں۔ یہ قصائد شعر و ادب کا گنجینہ ہونے کے ساتھ اپنے ممدوحین سے سچی محبت و عقیدت کا اظہاریہ ہیں۔ نانا جان میر سید عبدالجلیل بن سید احمد بلگرامی کی شان میں لکھے گئے قصیدے کے بارے میں مولانا سید مصطفی سورتی فرماتے ہیں کہ: ’’ یہ قصیدہ حق رکھتا ہے کہ اس پر رشک کیا جائے۔‘‘(مآثر، ص:394)
{{ ٹکر 5 }}
{{ ٹکر 5 }}
 
بیعت و خلافت  
==== بیعت و خلافت ====


حسّان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی جس عالی نسب خاندان کے چشم و چراغ تھے اس کی میدانِ تصوف میں خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ آپ کو بچپن ہی سے تصوف و روحانیت اور معرفت و طریقت سے گہرا لگاو تھا۔ آپ کم عمری ہی سے ذکر وفکر اور تزکیہ و مجاہدہ میں مصروف رہا کرتے تھے۔ تصوف و معرفت کی اسی تشنگی کو بجھانے کے لیے آپ نے تصوف کے دو مشہور سلاسل چشتیہ و قادریہ کے حسین سنگم شیخِ کامل سید العارفین سندالکاملین حضرت علامہ شاہ سید لطیف اللہ شاہ عرف لدہا بلگرامی نور اللہ مرقدہٗ (م1143ھ) کے دست ِ حق پرست پر 1137ھ میں بیعت ہوکر سلسلہ چشتیہ و قادریہ میں داخل ہوئے۔ اور حضرت شیخ لدہا قدس سرہٗ کی جانب سے سلسلے کی اجازت و خلافت سے بھی سرفراز ہوئے۔ سیدالعارفین حضرت علامہ شاہ سید لطیف اللہ شاہ عرف لدہا بلگرامی کی شخصیت شریعت و طریقت کے رازوں کا سر چشمہ تھی۔ آپ کواپنے زمانے کے علما و مشائخ اور صوفیہ کے مرکزکی حیثیت حاصل تھی۔ بڑے بڑے فْضَلا آپ کی روحانی و عرفانی تربیت پر فخر کیا کرتے اور شرَ ف ِبیعت حاصل کیا کرتے تھے۔ چناں چہ حضرت شاہ فضل اللہ کالپوی قدس سرہٗ نے بھی آپ سے ایک مدت تک اکتسابِ فیض کیا اور خانقاہِ مارہرہ مطہرہ کی عظیم روحانی و علمی شخصیت حضرت سید شاہ برکت اللہ عشقی و پیمی مارہروی قدس سرہٗ نے بھی حضرت سید العارفین قدس سرہٗ سے تربیت پائی اور اجازت حاصل کی۔
حسّان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی جس عالی نسب خاندان کے چشم و چراغ تھے اس کی میدانِ تصوف میں خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ آپ کو بچپن ہی سے تصوف و روحانیت اور معرفت و طریقت سے گہرا لگاو تھا۔ آپ کم عمری ہی سے ذکر وفکر اور تزکیہ و مجاہدہ میں مصروف رہا کرتے تھے۔ تصوف و معرفت کی اسی تشنگی کو بجھانے کے لیے آپ نے تصوف کے دو مشہور سلاسل چشتیہ و قادریہ کے حسین سنگم شیخِ کامل سید العارفین سندالکاملین حضرت علامہ شاہ سید لطیف اللہ شاہ عرف لدہا بلگرامی نور اللہ مرقدہٗ (م1143ھ) کے دست ِ حق پرست پر 1137ھ میں بیعت ہوکر سلسلہ چشتیہ و قادریہ میں داخل ہوئے۔ اور حضرت شیخ لدہا قدس سرہٗ کی جانب سے سلسلے کی اجازت و خلافت سے بھی سرفراز ہوئے۔ سیدالعارفین حضرت علامہ شاہ سید لطیف اللہ شاہ عرف لدہا بلگرامی کی شخصیت شریعت و طریقت کے رازوں کا سر چشمہ تھی۔ آپ کواپنے زمانے کے علما و مشائخ اور صوفیہ کے مرکزکی حیثیت حاصل تھی۔ بڑے بڑے فْضَلا آپ کی روحانی و عرفانی تربیت پر فخر کیا کرتے اور شرَ ف ِبیعت حاصل کیا کرتے تھے۔ چناں چہ حضرت شاہ فضل اللہ کالپوی قدس سرہٗ نے بھی آپ سے ایک مدت تک اکتسابِ فیض کیا اور خانقاہِ مارہرہ مطہرہ کی عظیم روحانی و علمی شخصیت حضرت سید شاہ برکت اللہ عشقی و پیمی مارہروی قدس سرہٗ نے بھی حضرت سید العارفین قدس سرہٗ سے تربیت پائی اور اجازت حاصل کی۔


==== سیر وسیاحت ====
سیر وسیاحت  


ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی ( مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، حیدرآباد ) کے مطابق علامہ آزادؔ بلگرامی کے بعض سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ نے بلگرام میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے دہلی کا قصد کیا تھا۔ لیکن وہاں انھوں نے کیا پڑھا اور کس سے پڑھا س ضمن میں سوانح نگاروں کی زبانیں خاموش ہیں۔ بہ ہرحال! تعلیم سے مکمل فراغت کے بعد اپنے ماموں حضرت سید محمد بلگرامی کے بلانے پر آپ نے سندھ کا سفر اختیار فرمایا، جہاں علامہ آزادؔ کے ماموں ایک سرکاری منصب پر فائز تھے۔ آپ کے وہاںپہنچنے پر ان کے ماموں نے انھیں اپنا قائم مقام بناکر بلگرام واپس آگئے جہاں وہ چار سال تک مقیم رہے۔ اس دوران علامہ آزادؔ نے ان کی تمام تر ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔ سندھ سے جب علامہ آزادؔ نے واپسی اختیار فرمائی تو انھیں دہلی میں یہ اطلاع ملی کہ ان کا خاندان عارضی طور پر الٰہ آباد میں قیام پذیر ہے تو انھوں نے دہلی سے الٰہ آباد کا سفر کیا اور وہاں کچھ عرصہ مقیم بھی رہے۔  
ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی ( مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، حیدرآباد ) کے مطابق علامہ آزادؔ بلگرامی کے بعض سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ نے بلگرام میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے دہلی کا قصد کیا تھا۔ لیکن وہاں انھوں نے کیا پڑھا اور کس سے پڑھا س ضمن میں سوانح نگاروں کی زبانیں خاموش ہیں۔ بہ ہرحال! تعلیم سے مکمل فراغت کے بعد اپنے ماموں حضرت سید محمد بلگرامی کے بلانے پر آپ نے سندھ کا سفر اختیار فرمایا، جہاں علامہ آزادؔ کے ماموں ایک سرکاری منصب پر فائز تھے۔ آپ کے وہاںپہنچنے پر ان کے ماموں نے انھیں اپنا قائم مقام بناکر بلگرام واپس آگئے جہاں وہ چار سال تک مقیم رہے۔ اس دوران علامہ آزادؔ نے ان کی تمام تر ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔ سندھ سے جب علامہ آزادؔ نے واپسی اختیار فرمائی تو انھیں دہلی میں یہ اطلاع ملی کہ ان کا خاندان عارضی طور پر الٰہ آباد میں قیام پذیر ہے تو انھوں نے دہلی سے الٰہ آباد کا سفر کیا اور وہاں کچھ عرصہ مقیم بھی رہے۔  


==== سفرِ حج و زیارتِ حرمین شریفین ====
سفرِ حج و زیارتِ حرمین شریفین


حسان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جنھیں بچپن ہی میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کا شرَف حاصل ہو چکا تھا۔ تب سے ہی علامہ آزادؔ مکۂ معظمہ اور روضہؔ رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے بے تاب و بے قرار رہاکرتے تھے کہ کسی طرح پرِ پرواز مل جائے اور اْڑ کر یہ غلام و شیدامکۂ معظمہ اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوجائے، اس سلسلے میں خود علامہ آزادؔ نے یوں روشنی ڈالی ہے:  
حسان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جنھیں بچپن ہی میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کا شرَف حاصل ہو چکا تھا۔ تب سے ہی علامہ آزادؔ مکۂ معظمہ اور روضہؔ رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے بے تاب و بے قرار رہاکرتے تھے کہ کسی طرح پرِ پرواز مل جائے اور اْڑ کر یہ غلام و شیدامکۂ معظمہ اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوجائے، اس سلسلے میں خود علامہ آزادؔ نے یوں روشنی ڈالی ہے:  
سطر 155: سطر 152:
کون ومکاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک تبسم کی یاد زیارتِ حرمین شریفین کے لیے شوق اور تڑپ کو بڑھاتی رہی۔جب حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی میں صبر و قرار کی تاب نہ رہی تو اِس عاشق و شیدا پر رحمتِ رب اور عنایتِ رسول ( جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم) ہوہی گئی اوررجب المرجب بروز پیر 1150ھ مطابق بہ عدد ’’ سفرِ خیر‘‘ پیدل اور تنہاآپ گھر سے کوچہ جاناں صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بغیر کچھ سامانِ سفر لیے چل پڑے۔ آپ نے اپنے اس عزم بالجزم کی کسی کو مطلق خبر بھی نہ ہونے دی اور دیوانگیِ شوق کے مارے سوے حرم نکل پڑے۔ لیکن آپ کا یہ جوش بے ہوش جوش نہیں تھا بل کہ یہ جوش باہوش تھا۔ آپ نے مشہور و معروف شاہراہوں کے بجاے غیر معروف راستوں صحراوں اور بیابانوں کا انتخاب کیا تاکہ کوئی ان کی راہِ محبت میں رکاوٹ نہ بن جائے اور ایسا ہی ہوگیا جب آپ کے گھر والوں کو اس بات کا علم ہوا کہ آزادؔ تنِ تنہا اور بے سروسامانی کے عالم میں عازمِ حج بیت اللہ ہوئے ہیں تو ان کے بھائی میر سید غلام حسین ان کی تلاش میں نکلے، لیکن وہ ان ہی راستوں پر چل رہے تھے جو حج کے مشہور راستے تھے کئی منزلوں تک ان کی تلاش جاری رہی، لیکن علامہ آزادؔ کو نہ ملنا تھا وہ نہ ملے۔ بالآخر میر سید غلام حسین درمیان ہی سے واپس آگئے۔ علامہ آزادؔ نے بے خودی اور بے تابی کے عالم میں جو یہ مبارک سفر اختیار فرمایا تھا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خوب مدد کی۔ آپ نے خود اپنے اس سفر کی روداد لکھی ہے، سفر میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ یہ رودا د عربی و فارسی نثر و نظم دونوں میں ہے، آپ نے اپنے سفر نامے کو بڑے ہی مؤثر، دل پذیر، رقت انگیز اسلوب اور خوب صورت پیرایہؔ بیان میں رقم کیا ہے جو بہت خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنی مشہور تصنیف ’’ سبحۃ المرجان فی تاریخِ ہندوستان‘‘میں جو اپنی خود نوشت سوانح تحریر کی ہے اس میں بھی سفرِ حرمین شریفین کا حصہ ہی غالب ہے۔ فارسی میں ’’طلسمِ اعظم‘‘ کے نام سے آپ کی ایک طویل مثنوی ہے جو خاص اس مبارک و مسعود سفر کے احوال و آثار پر مشتمل ہے۔ اور یہی عنوان اس سفر کا مادۂ تاریخ بھی ہے۔ عربی و فارسی کے متعدد قصائد میں بھی آپ نے اپنے اس جذب وشوق کا والہانہ اظہار کیا ہے۔
کون ومکاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک تبسم کی یاد زیارتِ حرمین شریفین کے لیے شوق اور تڑپ کو بڑھاتی رہی۔جب حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی میں صبر و قرار کی تاب نہ رہی تو اِس عاشق و شیدا پر رحمتِ رب اور عنایتِ رسول ( جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم) ہوہی گئی اوررجب المرجب بروز پیر 1150ھ مطابق بہ عدد ’’ سفرِ خیر‘‘ پیدل اور تنہاآپ گھر سے کوچہ جاناں صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بغیر کچھ سامانِ سفر لیے چل پڑے۔ آپ نے اپنے اس عزم بالجزم کی کسی کو مطلق خبر بھی نہ ہونے دی اور دیوانگیِ شوق کے مارے سوے حرم نکل پڑے۔ لیکن آپ کا یہ جوش بے ہوش جوش نہیں تھا بل کہ یہ جوش باہوش تھا۔ آپ نے مشہور و معروف شاہراہوں کے بجاے غیر معروف راستوں صحراوں اور بیابانوں کا انتخاب کیا تاکہ کوئی ان کی راہِ محبت میں رکاوٹ نہ بن جائے اور ایسا ہی ہوگیا جب آپ کے گھر والوں کو اس بات کا علم ہوا کہ آزادؔ تنِ تنہا اور بے سروسامانی کے عالم میں عازمِ حج بیت اللہ ہوئے ہیں تو ان کے بھائی میر سید غلام حسین ان کی تلاش میں نکلے، لیکن وہ ان ہی راستوں پر چل رہے تھے جو حج کے مشہور راستے تھے کئی منزلوں تک ان کی تلاش جاری رہی، لیکن علامہ آزادؔ کو نہ ملنا تھا وہ نہ ملے۔ بالآخر میر سید غلام حسین درمیان ہی سے واپس آگئے۔ علامہ آزادؔ نے بے خودی اور بے تابی کے عالم میں جو یہ مبارک سفر اختیار فرمایا تھا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خوب مدد کی۔ آپ نے خود اپنے اس سفر کی روداد لکھی ہے، سفر میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ یہ رودا د عربی و فارسی نثر و نظم دونوں میں ہے، آپ نے اپنے سفر نامے کو بڑے ہی مؤثر، دل پذیر، رقت انگیز اسلوب اور خوب صورت پیرایہؔ بیان میں رقم کیا ہے جو بہت خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنی مشہور تصنیف ’’ سبحۃ المرجان فی تاریخِ ہندوستان‘‘میں جو اپنی خود نوشت سوانح تحریر کی ہے اس میں بھی سفرِ حرمین شریفین کا حصہ ہی غالب ہے۔ فارسی میں ’’طلسمِ اعظم‘‘ کے نام سے آپ کی ایک طویل مثنوی ہے جو خاص اس مبارک و مسعود سفر کے احوال و آثار پر مشتمل ہے۔ اور یہی عنوان اس سفر کا مادۂ تاریخ بھی ہے۔ عربی و فارسی کے متعدد قصائد میں بھی آپ نے اپنے اس جذب وشوق کا والہانہ اظہار کیا ہے۔
{{ ٹکر 6 }}
{{ ٹکر 6 }}
==== مالوہ میں آمد ====
مالوہ میں آمد


سفرِ حرمین کے لیے جب حسان الہند حضرت علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ وطن سے نکلے تو راستے کے مصائب و آلام اور تکالیف سے دوچار ہوتے ہوئے مالوہ پہنچے۔ آپ کے پیروں میں آبلے پڑ چکے تھے۔ چناں چہ اس کا ذکر اپنے فارسی قصیدے میں اس طرح نظم کیا ہے۔ ؎
سفرِ حرمین کے لیے جب حسان الہند حضرت علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ وطن سے نکلے تو راستے کے مصائب و آلام اور تکالیف سے دوچار ہوتے ہوئے مالوہ پہنچے۔ آپ کے پیروں میں آبلے پڑ چکے تھے۔ چناں چہ اس کا ذکر اپنے فارسی قصیدے میں اس طرح نظم کیا ہے۔ ؎
سطر 255: سطر 252:
{{ باکس 1 }}
{{ باکس 1 }}


==== دکن میں قیام اور وصالِ پْر ملال ====
دکن میں قیام اور وصالِ پْر ملال


علامہ آزادؔجدہ سے جمادی الاولیٰ 1152ھ میں سورت کے راستے ہندوستان واپس آئے۔ جہاں سے دکن کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپ دکن تشریف لائے تو نظام آصف جاہ حیدرآبادی نے آپ کا شان دار استقبال کیا اور اپنے ہم راہ دیارِ دکن کے مختلف مقامات کی سیر کرائی۔ بالآخر 1169ھ میں آپ اورنگ آباد شہر آئے اور یہاں ’’روضہ‘‘ نامی علاقے میں قیام کیا جسے اب ’’خلدآباد‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر آپ نے دنیا و مافیہا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ (روضہ )خلدآباد شریف میں آپ نے سلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہٗ( م725ھ) کے خلیفہ صاحبِ فواد الفوادحضرت مولانا نجم الدین امیر حسن علا سنجرقدس سرہٗ ( 737ھ) کی مزارِ پاک کے احاطہ واقع ’’سولی بھنجن، خلدآباد شریف‘‘ میں مستقل سکونت اختیار کرلی، حتیٰ کہ آپ نے اپنی آخری آرام گاہ کے لیے یہیں پر ایک قطعۂ اراضی بھی خرید لی اور اس کا نام ’’عاقبت خانہ‘‘ رکھا۔ 24ذی قعدہ1200ھ /1785ء کوآپ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ ان للہ وانا الیہ راجعون۔
علامہ آزادؔجدہ سے جمادی الاولیٰ 1152ھ میں سورت کے راستے ہندوستان واپس آئے۔ جہاں سے دکن کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپ دکن تشریف لائے تو نظام آصف جاہ حیدرآبادی نے آپ کا شان دار استقبال کیا اور اپنے ہم راہ دیارِ دکن کے مختلف مقامات کی سیر کرائی۔ بالآخر 1169ھ میں آپ اورنگ آباد شہر آئے اور یہاں ’’روضہ‘‘ نامی علاقے میں قیام کیا جسے اب ’’خلدآباد‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر آپ نے دنیا و مافیہا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ (روضہ )خلدآباد شریف میں آپ نے سلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہٗ( م725ھ) کے خلیفہ صاحبِ فواد الفوادحضرت مولانا نجم الدین امیر حسن علا سنجرقدس سرہٗ ( 737ھ) کی مزارِ پاک کے احاطہ واقع ’’سولی بھنجن، خلدآباد شریف‘‘ میں مستقل سکونت اختیار کرلی، حتیٰ کہ آپ نے اپنی آخری آرام گاہ کے لیے یہیں پر ایک قطعۂ اراضی بھی خرید لی اور اس کا نام ’’عاقبت خانہ‘‘ رکھا۔ 24ذی قعدہ1200ھ /1785ء کوآپ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ ان للہ وانا الیہ راجعون۔
سطر 275: سطر 272:
وفات : 24 ذی قعدہ1200ھ  
وفات : 24 ذی قعدہ1200ھ  


==== عرسِ حسان الہند ====
عرسِ حسان الہند


حضرت علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کی مزارِ پْرانوار سے متعلق بیش تر مورخین اور علما و مشائخ یہی کہا کرتے تھے کہ آپ کا مزار علاقۂ دکن میں کہیں واقع ہے، حتمی طور پر لوگ اس بات سے نابلد تھے کہ آپ کی آخری آرام گاہ ’’ سولی بھنجن، خلدآباد شریف‘‘ میں ہے۔ 1967ء میں شہزادۂ خاندانِ برکات حضور سید العلماء سیدآلِ مصطفی سیدؔ میاں مارہروی قدس سرہٗ مالیگاؤں تشریف لائے، یہاں سے آپ جالنہ اپنے تبلیغی و دعوتی دورے پر گئے۔ جالنہ سے واپسی پر اورنگ آباد اور خلدآباد زیارت کے لیے آئے، جب آپ نے علامہ آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کے مزارِ پاک کی زیارت کی اور تربتِ خاکی پر لگی ہوئی تختی کو ملاحظہ کیا تو رونے لگے اور حاضرین کو بتایا کہ یہ ہمارے خاندان کی ایک جلیل القدر ہستی ’’حضور حسان الہند علامہ سید میر غلام علی آزادؔحسینی واسطی بلگرامی ‘‘ کا مزارِ پاک ہے۔ حضور سید العلماء نے جب اس بات کی تصدیق و توثیق کی تو اس موقع پر مجاہدِ سنیت حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی علیہ الرحمہ ( م1984ء) بھی وہاں موجود تھے۔اس واقعہ کے بعد سے مالیگاؤں کے خوش عقیدہ مسلمان علامہ آزادؔ بلگرامی کے آستانے پر جاکر خصوصاًفیوض حاصل کیا کرتے ہیں۔ کیوں کہ آپ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ مستجاب الدعوات تھے اور آپ کی مزار پر دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں، خود راقم کوبھی اس کا کئی مرتبہ تجربہ ہوچکا ہے۔  
حضرت علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کی مزارِ پْرانوار سے متعلق بیش تر مورخین اور علما و مشائخ یہی کہا کرتے تھے کہ آپ کا مزار علاقۂ دکن میں کہیں واقع ہے، حتمی طور پر لوگ اس بات سے نابلد تھے کہ آپ کی آخری آرام گاہ ’’ سولی بھنجن، خلدآباد شریف‘‘ میں ہے۔ 1967ء میں شہزادۂ خاندانِ برکات حضور سید العلماء سیدآلِ مصطفی سیدؔ میاں مارہروی قدس سرہٗ مالیگاؤں تشریف لائے، یہاں سے آپ جالنہ اپنے تبلیغی و دعوتی دورے پر گئے۔ جالنہ سے واپسی پر اورنگ آباد اور خلدآباد زیارت کے لیے آئے، جب آپ نے علامہ آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کے مزارِ پاک کی زیارت کی اور تربتِ خاکی پر لگی ہوئی تختی کو ملاحظہ کیا تو رونے لگے اور حاضرین کو بتایا کہ یہ ہمارے خاندان کی ایک جلیل القدر ہستی ’’حضور حسان الہند علامہ سید میر غلام علی آزادؔحسینی واسطی بلگرامی ‘‘ کا مزارِ پاک ہے۔ حضور سید العلماء نے جب اس بات کی تصدیق و توثیق کی تو اس موقع پر مجاہدِ سنیت حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی علیہ الرحمہ ( م1984ء) بھی وہاں موجود تھے۔اس واقعہ کے بعد سے مالیگاؤں کے خوش عقیدہ مسلمان علامہ آزادؔ بلگرامی کے آستانے پر جاکر خصوصاًفیوض حاصل کیا کرتے ہیں۔ کیوں کہ آپ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ مستجاب الدعوات تھے اور آپ کی مزار پر دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں، خود راقم کوبھی اس کا کئی مرتبہ تجربہ ہوچکا ہے۔  
سطر 285: سطر 282:
الہند علامہ آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ نے سنتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ پر عمل کرتے ہوئے نکاح فرمایا۔ علامہ آزاد کے صرف ایک فرزند حضرت سید نورالحسین علیہ الرحمہ تھے۔ اور ان کے بھی صرف ایک ہی بیٹے حضرت مفتی امیر حیدر علیہ الرحمہ ہوئے۔ مفتی صاحب کی تین اولادیں ہوئیں۔ ایک صاحب زادی جو حضرت ابو محمد بن ابوتراب کو منسوب ہوئیں اور دوسری دخترحضرت آلِ حسن بن دربان علی کو منسوب ہوئیں اور ایک صاحب زادے حضرت امیر حسن علیہ الرحمہ تھے جو لاولد وصال فرماگئے۔ اس طرح علامہ آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ کی نسلِ نرینہ پوتے پر جاکر ختم ہوگئی۔  
الہند علامہ آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ نے سنتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ پر عمل کرتے ہوئے نکاح فرمایا۔ علامہ آزاد کے صرف ایک فرزند حضرت سید نورالحسین علیہ الرحمہ تھے۔ اور ان کے بھی صرف ایک ہی بیٹے حضرت مفتی امیر حیدر علیہ الرحمہ ہوئے۔ مفتی صاحب کی تین اولادیں ہوئیں۔ ایک صاحب زادی جو حضرت ابو محمد بن ابوتراب کو منسوب ہوئیں اور دوسری دخترحضرت آلِ حسن بن دربان علی کو منسوب ہوئیں اور ایک صاحب زادے حضرت امیر حسن علیہ الرحمہ تھے جو لاولد وصال فرماگئے۔ اس طرح علامہ آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ کی نسلِ نرینہ پوتے پر جاکر ختم ہوگئی۔  


==== درس و تدریس اور تلامذہ ====
درس و تدریس اور تلامذہ  


حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی تعلیم و تدریس میں بسر فرمائی۔ آپ کے علم و فضل سے بے شمار لوگوں نے اکتسابِ فیض کیا۔ لیکن مواد کی عدم دستیابی سے حتمی طور پر آپ کے تلامذہ اور فیض یافتگان کے نام نہیں بتائے جاسکتے۔ البتہ آپ کے بعض سوانح نگاروں نے آپ کے جن شاگردوں کا ذکر کیا ہے اْن میں میر عبدالقادر مہربانؔ اورنگ آبادی، عبدالوہاب افتخارؔدولت آبادی، مصنف تذکرۂ بے نظیر، لچھمی نرائن شفیقؔ صاحب گلِ رعنا، اور ضیاء الدین پروانہؔ وغیرہ قابلِ ذکرہیں۔  
حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی تعلیم و تدریس میں بسر فرمائی۔ آپ کے علم و فضل سے بے شمار لوگوں نے اکتسابِ فیض کیا۔ لیکن مواد کی عدم دستیابی سے حتمی طور پر آپ کے تلامذہ اور فیض یافتگان کے نام نہیں بتائے جاسکتے۔ البتہ آپ کے بعض سوانح نگاروں نے آپ کے جن شاگردوں کا ذکر کیا ہے اْن میں میر عبدالقادر مہربانؔ اورنگ آبادی، عبدالوہاب افتخارؔدولت آبادی، مصنف تذکرۂ بے نظیر، لچھمی نرائن شفیقؔ صاحب گلِ رعنا، اور ضیاء الدین پروانہؔ وغیرہ قابلِ ذکرہیں۔  


==== اخلاق و عادات ====
اخلاق و عادات  


سیدالعارفین حضرت علامہ شاہ سید لطیف اللہ شاہ عرف لدہا بلگرامی جیسے عظیم المرتبت ولیِ کامل اور مرشدِ برحق کے فیضِ صحبت اثر اور نگاہِ کیمیا اثر نے حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی کی شخصیت کو خوب نکھارا اور سنوارا۔ خاندانِ نبوت سے تعلق رکھنے والے علامہ آزادؔ بلگرامی یوں تو بچپن ہی سے نیک سیرت اور اچھے اخلاق و عادات کا مجموعہ تھے۔ جید اساتذہ، علماو مشائخ، فقہا و صوفیہ اور بالخصوص پیر ومرشد کی تربیت سے آپ ہمیشہ بڑوں کا ادب و احترام کرتے، آپ کا کردار رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کاپرتَو تھا۔ آپ فقر و تصوف کے پوشیدہ رازوں سے واقف تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کا دل یادِ الٰہی کا گنجینہ بن گیا تھا۔ آپ کا کوئی لمحہ ذکرِ الٰہی سے غفلت میں نہ گذرتا۔ آپ عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ اولیا ے کاملین اور صوفیاے عظام سے بھی محبت فرماتے تھے۔ آپ کے پیرومرشد حضرت سیدالعارفین کے حکم کے مطابق آپ نے تادمِ حیات تعلیم و تعلم، تصنیف و تالیف اور خدمت خلق میں اپنے آپ کو مصروف رکھا۔  
سیدالعارفین حضرت علامہ شاہ سید لطیف اللہ شاہ عرف لدہا بلگرامی جیسے عظیم المرتبت ولیِ کامل اور مرشدِ برحق کے فیضِ صحبت اثر اور نگاہِ کیمیا اثر نے حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی کی شخصیت کو خوب نکھارا اور سنوارا۔ خاندانِ نبوت سے تعلق رکھنے والے علامہ آزادؔ بلگرامی یوں تو بچپن ہی سے نیک سیرت اور اچھے اخلاق و عادات کا مجموعہ تھے۔ جید اساتذہ، علماو مشائخ، فقہا و صوفیہ اور بالخصوص پیر ومرشد کی تربیت سے آپ ہمیشہ بڑوں کا ادب و احترام کرتے، آپ کا کردار رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کاپرتَو تھا۔ آپ فقر و تصوف کے پوشیدہ رازوں سے واقف تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کا دل یادِ الٰہی کا گنجینہ بن گیا تھا۔ آپ کا کوئی لمحہ ذکرِ الٰہی سے غفلت میں نہ گذرتا۔ آپ عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ اولیا ے کاملین اور صوفیاے عظام سے بھی محبت فرماتے تھے۔ آپ کے پیرومرشد حضرت سیدالعارفین کے حکم کے مطابق آپ نے تادمِ حیات تعلیم و تعلم، تصنیف و تالیف اور خدمت خلق میں اپنے آپ کو مصروف رکھا۔  


==== شانِ استغنا ====
شانِ استغنا


حسان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی صرف چشتی نسبت نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنی عادات و اطوار اور اخلاق و کردار میں سرتاپا حقیقی چشتی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ وہ صوفیاے کے زہد و فقرکے اعلیٰ نمونہ تھے۔ دنیا اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ان کے چاروں طرف بکھری ہوئی تھی لیکن انھوں نے کبھی بھی اس کی طرف نگاہِ التفات نہیں کی۔حسان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی کے تعلقات بڑے بڑے امراے سلطنت اور شاہانِ زمانہ سے رہے۔ لیکن خاندانِ سید محمد دعوۃ الصغرا کا یہ پروردہ فرزندِ جلیل کبھی بھی ان تعلقات اورمراسم کو دنیا طلبی اور حصولِ منصب و امارت کے لیے استعمال نہ فرمایا۔بے شمار ایسے مواقع آپ کی زندگی میں پیش آئے مگر آپ نے ہمیشہ مسلکِ صوفیہ پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی جاہ و منصب کو ٹھکرادیا۔آپ کی شانِ استغنا سے متعلق بیش تر واقعات و حکایات کتبِ تواریخ میں ملتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک واقعہ خود علامہ آزادؔ کی زبانی پیش کرنا غیر مناسب نہ ہوگا :
حسان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی صرف چشتی نسبت نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنی عادات و اطوار اور اخلاق و کردار میں سرتاپا حقیقی چشتی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ وہ صوفیاے کے زہد و فقرکے اعلیٰ نمونہ تھے۔ دنیا اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ان کے چاروں طرف بکھری ہوئی تھی لیکن انھوں نے کبھی بھی اس کی طرف نگاہِ التفات نہیں کی۔حسان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی کے تعلقات بڑے بڑے امراے سلطنت اور شاہانِ زمانہ سے رہے۔ لیکن خاندانِ سید محمد دعوۃ الصغرا کا یہ پروردہ فرزندِ جلیل کبھی بھی ان تعلقات اورمراسم کو دنیا طلبی اور حصولِ منصب و امارت کے لیے استعمال نہ فرمایا۔بے شمار ایسے مواقع آپ کی زندگی میں پیش آئے مگر آپ نے ہمیشہ مسلکِ صوفیہ پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی جاہ و منصب کو ٹھکرادیا۔آپ کی شانِ استغنا سے متعلق بیش تر واقعات و حکایات کتبِ تواریخ میں ملتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک واقعہ خود علامہ آزادؔ کی زبانی پیش کرنا غیر مناسب نہ ہوگا :
سطر 306: سطر 303:
حسان الہند علامہ غلام علی آزاد بلگرامی نے اربابِ اقتدار اور اصحابِ اختیار سے تعلقات و مراسم تو استوار رکھے لیکن تاحیات کبھی بھی اپنی ذاتی غرض ان سے پوری نہ کی بل کہ روابط کا فائدہ خلقِ خدا کی غم گساری اور دل جوئی میں استعمال کرتے رہے۔ ان کا یہ طرزِ عمل جو سلف صالحین کا نمونہ ہے دورِ حاضر کے علما و مشائخ اور فقرا و صوفیہ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔  
حسان الہند علامہ غلام علی آزاد بلگرامی نے اربابِ اقتدار اور اصحابِ اختیار سے تعلقات و مراسم تو استوار رکھے لیکن تاحیات کبھی بھی اپنی ذاتی غرض ان سے پوری نہ کی بل کہ روابط کا فائدہ خلقِ خدا کی غم گساری اور دل جوئی میں استعمال کرتے رہے۔ ان کا یہ طرزِ عمل جو سلف صالحین کا نمونہ ہے دورِ حاضر کے علما و مشائخ اور فقرا و صوفیہ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔  


==== تصنیفات ====
تصنیفات


علامہ آزادؔ بلگرامی کی عربی و فارسی میں بہت سی شعری و نثری کتابیں تصنیف فرمائیں۔ اردو کے بعض اعمال بھی آپ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچ سکی۔ لیکن یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ آپ نے اردو(ہندوی) میں کچھ لکھا ہو یا کہا ہو۔ کیوں کہ یہ آپ کی خاندانی روایت اور طبیعت دونوں سے ہم آہنگ ہے۔ آپ کی تصانیف میں درج ذیل شعری ونثری اثاثے اپنی اہمیت اور عظمت کے اعتبار سے بلندپایا ہیں۔ جن کے مطالعہ سے آپ کی گراں قدر علمی شخصیت کا کماحقہٗ عرفان کیا جاسکتا ہے۔  
علامہ آزادؔ بلگرامی کی عربی و فارسی میں بہت سی شعری و نثری کتابیں تصنیف فرمائیں۔ اردو کے بعض اعمال بھی آپ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچ سکی۔ لیکن یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ آپ نے اردو(ہندوی) میں کچھ لکھا ہو یا کہا ہو۔ کیوں کہ یہ آپ کی خاندانی روایت اور طبیعت دونوں سے ہم آہنگ ہے۔ آپ کی تصانیف میں درج ذیل شعری ونثری اثاثے اپنی اہمیت اور عظمت کے اعتبار سے بلندپایا ہیں۔ جن کے مطالعہ سے آپ کی گراں قدر علمی شخصیت کا کماحقہٗ عرفان کیا جاسکتا ہے۔  
سطر 339: سطر 336:
٭ مثنوی سراپاے عشق، وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔  
٭ مثنوی سراپاے عشق، وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔  
{{ ٹکر 9 }}
{{ ٹکر 9 }}
===== عربی =====
عربی


٭ سبحۃ المرجان فی آثارِ ہندوستان:یہ حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ کی بہت ہی مشہور تصنیف ہے۔ علامہ آزادؔ کی حیات ہی میں اس کتاب کو شہرت مل چکی تھی۔ یہ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں تفسیر و حدیث میں وارد ہندوستان کے تذکرے کا بیان ہے۔ علامہ آزادؔ بلگرامی نے اس موضوع پر پہلے ایک مختصر رسالہ قلم بند فرمایا تھا، جسے بعد میں مزید اضافے کے ساتھ اس کتاب میں ضم کردیا۔ دوسری فصل میں ہندوستان کے چند علما کا تذکرہ ہے۔ تیسری فصل محسناتِ کلام کے عنوان پر ہے۔ جب کہ چوتھی فصل عشاق و معشوقات اور ان کے انواع و اقسام پر مشتمل ہے، یہ اپنی نوعیت کا بالکل منفرد اور اچھوتا موضوع ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ممبئی سے 1303ھ /1885ء میں شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن ادارۂ علومِ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے 1967ء میں ڈاکٹر فضل الرحمن سیوانی ندوی کی تحقیق کے ساتھ طبع ہوا۔  
٭ سبحۃ المرجان فی آثارِ ہندوستان:یہ حسان الہند علامہ آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ کی بہت ہی مشہور تصنیف ہے۔ علامہ آزادؔ کی حیات ہی میں اس کتاب کو شہرت مل چکی تھی۔ یہ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں تفسیر و حدیث میں وارد ہندوستان کے تذکرے کا بیان ہے۔ علامہ آزادؔ بلگرامی نے اس موضوع پر پہلے ایک مختصر رسالہ قلم بند فرمایا تھا، جسے بعد میں مزید اضافے کے ساتھ اس کتاب میں ضم کردیا۔ دوسری فصل میں ہندوستان کے چند علما کا تذکرہ ہے۔ تیسری فصل محسناتِ کلام کے عنوان پر ہے۔ جب کہ چوتھی فصل عشاق و معشوقات اور ان کے انواع و اقسام پر مشتمل ہے، یہ اپنی نوعیت کا بالکل منفرد اور اچھوتا موضوع ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ممبئی سے 1303ھ /1885ء میں شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن ادارۂ علومِ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے 1967ء میں ڈاکٹر فضل الرحمن سیوانی ندوی کی تحقیق کے ساتھ طبع ہوا۔  
سطر 347: سطر 344:
٭ تسلیۃ فواد فی قصائدِ آزاد : یہ حسان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کی عربی شاعری میں بعض قصائد و مراثی کا مجموعہ ہے اور ساتھ ہی جن شخصیات کے لیے یہ قصائد اور مراثی نظم کیے گئے ہیں اْن کے سوانحی خاکے بھی کتاب میں شامل ہیں۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مسلم یونی ورسٹی میں ’’آزاد لائبریری‘‘ کے شعبۂ مخطوطات (جواہر میوزیم 70 اوراق) اور مکتبۂ عارف بک مدینۂ منورہ میں موجود ہے۔  
٭ تسلیۃ فواد فی قصائدِ آزاد : یہ حسان الہند علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ کی عربی شاعری میں بعض قصائد و مراثی کا مجموعہ ہے اور ساتھ ہی جن شخصیات کے لیے یہ قصائد اور مراثی نظم کیے گئے ہیں اْن کے سوانحی خاکے بھی کتاب میں شامل ہیں۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مسلم یونی ورسٹی میں ’’آزاد لائبریری‘‘ کے شعبۂ مخطوطات (جواہر میوزیم 70 اوراق) اور مکتبۂ عارف بک مدینۂ منورہ میں موجود ہے۔  


==== حسان الہند لقب ====
حسان الہند لقب


جیسا کہ گذشتہ صفحات میںذکر کیا گیا کہ علامہ آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ نے خلدآباد میں جب مستقل سکونت اختیار کرلی تو تصنیف و تالیف کے کاموں میں مسلسل جٹے رہے۔ دراصل آپ کو تحقیق و تفحص، تصنیف و تالیف اور شعر وادب سے بے انتہا لگاو تھا۔ آپ کو عربی و فارسی نظم و نثر پر عالمانہ و فاضلانہ دست رَس حاصل تھی۔نظم نگاری پر تو آپ کوایسا ملکۂ کامل حاصل تھا کہ ایک دن بل کہ دن کے ایک حصے میں پورا پورا قصیدہ ارقام فرمادیتے تھے۔ آپ نہ صرف فارسی بلکہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبان یعنی عربی میں بھی بہت عمدہ اشعار لکھا کرتے تھے۔ آپ کی زود گوئی اور زود نویسی سے آپ کے معاصر علما و حکما اور شعرا و ادبا متحیر رہا کرتے تھے۔ آپ کے نعتیہ قصائد میں جذبات و خیالات کی سچائی وصداقت کے جوہر پنہاں ہیں، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بے پناہ وارفتگی و شیفتگی کو دیکھتے ہوئے ایک جہان نے آپ کو ’’حسان الہند‘‘ جیسے عظیم المرتبت لقب سے نوازاہے۔ بہ قول ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی (مولانا آزاد نیشنل یونی ورسٹی، حیدرآباد) :’’ فارسی شاعر خاقانی متوفی595ھ/1198ء کو اہلِ ایران نے اس کی نعتیہ شاعری کے سبب حسان العجم کا لقب دیا، اور آزادؔ کو اہلِ ہند نے حسان الہند سے ملقب کیا، اور بلاشبہ خاقانی کے مقابلے میں وہ اس لقب کے زیادہ حق دار ہیں کیوں کہ خاقانی کے برخلاف انھوں نے حضرت حسان(رضی اللہ عنہ) کی زبان بھی استعمال کی۔‘‘
جیسا کہ گذشتہ صفحات میںذکر کیا گیا کہ علامہ آزادؔ بلگرامی قدس سرہٗ نے خلدآباد میں جب مستقل سکونت اختیار کرلی تو تصنیف و تالیف کے کاموں میں مسلسل جٹے رہے۔ دراصل آپ کو تحقیق و تفحص، تصنیف و تالیف اور شعر وادب سے بے انتہا لگاو تھا۔ آپ کو عربی و فارسی نظم و نثر پر عالمانہ و فاضلانہ دست رَس حاصل تھی۔نظم نگاری پر تو آپ کوایسا ملکۂ کامل حاصل تھا کہ ایک دن بل کہ دن کے ایک حصے میں پورا پورا قصیدہ ارقام فرمادیتے تھے۔ آپ نہ صرف فارسی بلکہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبان یعنی عربی میں بھی بہت عمدہ اشعار لکھا کرتے تھے۔ آپ کی زود گوئی اور زود نویسی سے آپ کے معاصر علما و حکما اور شعرا و ادبا متحیر رہا کرتے تھے۔ آپ کے نعتیہ قصائد میں جذبات و خیالات کی سچائی وصداقت کے جوہر پنہاں ہیں، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بے پناہ وارفتگی و شیفتگی کو دیکھتے ہوئے ایک جہان نے آپ کو ’’حسان الہند‘‘ جیسے عظیم المرتبت لقب سے نوازاہے۔ بہ قول ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی (مولانا آزاد نیشنل یونی ورسٹی، حیدرآباد) :’’ فارسی شاعر خاقانی متوفی595ھ/1198ء کو اہلِ ایران نے اس کی نعتیہ شاعری کے سبب حسان العجم کا لقب دیا، اور آزادؔ کو اہلِ ہند نے حسان الہند سے ملقب کیا، اور بلاشبہ خاقانی کے مقابلے میں وہ اس لقب کے زیادہ حق دار ہیں کیوں کہ خاقانی کے برخلاف انھوں نے حضرت حسان(رضی اللہ عنہ) کی زبان بھی استعمال کی۔‘‘
سطر 441: سطر 438:


علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر اس مضمون میں اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ورنہ حضرت کی متنوع صفات ذاتِ والا مرتبت کے کارہاے نمایاں پر کئی ضخیم کتب بھی ناکافی ثابت ہوں گی۔اللہ کریم جل شانہٗ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس کاوش کو شرفِ قبول بخشے۔اور ہمیں علامہ آزادؔ کے فیوض سے مالامال فرمائے۔(آمین)
علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی علیہ الرحمہ کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر اس مضمون میں اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ورنہ حضرت کی متنوع صفات ذاتِ والا مرتبت کے کارہاے نمایاں پر کئی ضخیم کتب بھی ناکافی ثابت ہوں گی۔اللہ کریم جل شانہٗ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس کاوش کو شرفِ قبول بخشے۔اور ہمیں علامہ آزادؔ کے فیوض سے مالامال فرمائے۔(آمین)
 
{{ باکس 1 }}
=== مزید دیکھیے ===
{{ٹکر 1 }}
{{ باکس شخصیات }}
{{ باکس 2 }}
{{ باکس 2 }}
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)