راشد طراز کی ایک مشک بار غزل کا تجزیاتی مطالعہ - پروفیسر فاروق احمد صدیقی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 12:32، 22 مارچ 2018ء از 182.185.201.135 (تبادلۂ خیال) (نیا صفحہ: پروفیسر فاروق احمد صدیقی ( مظفر پور) راشد طراز کی ایک مشک بار غزل کا تجزیاتی مطالعہ مجھے یہ اعتراف...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

پروفیسر فاروق احمد صدیقی ( مظفر پور) راشد طراز کی ایک مشک بار غزل کا تجزیاتی مطالعہ

مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ راشد طراز کا نام اور کلام اردو رسائل میں دیکھتا تو تھا، مگر اک طائرانہ نظر ڈال کر آگے بڑھ جاتا تھا۔ کبھی ان کو سنجیدگی سے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر ابھی حال ہی میں انہوں نے اپنی غزلوں کا تازہ ترین مجموعہ ’’جہاں تک روشنی ہوگی‘‘ بھجوایا تو میں نے اپنا اخلاقی و ادبی فریضہ سمجھا کہ اسے جی لگاکر پڑھا جائے اور واقعی پڑھ ڈالا اور اب پورے وثوق کے ساتھ اپنے اس خیال کا برملا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ راشد طراز یقینی طور پر جدید اردو غزل کا ایک اہم نام ہے۔ انہوں نے فکر و اسلوب دونوں سطحوں پر جو تجربے کئے ہیں ان میں احساس کی ندرت کے ساتھ نئی فضا بندی بھی ہے۔ نئی لفظیات کا بھی التزام ہے اور اس کا استعاراتی نظام بھی جدید و لذیذ ہے۔ اپنے ان اوصاف کی بدولت وہ اپنے ہم عصروں اور ہم سفروں میں دور سے ہی پہچان لئے جاتے ہیں اور یہ امتیاز و شرف ان کے اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی ہے۔ جناب شمس الرحمن فاروقی جیسے بالغ نظر نقاد اور بلندپایہ دانشور نے بجاطور پر ان کو ’’تازہ گو، مضمون ساز‘‘ اور بلند جست لگانے والا‘‘ شاعر قرار دیا ہے۔ ایک بڑی شخصیت کی طرف سے ابنے لئے ان توصیفی کلمات پر راشد طراز جس قدر بھی ناز و افتخار کریں کم ہے۔ خوش ہوں، مگر اتنا ہی پر مطمئن نہ ہوجائیں سفر جاری رہے۔ پیش نظر مجموعہ میں فکر و فن کی شادابی نے بار بار مجھے قرأت پر مجبور کیا اور ہر بار اس میں ایک خاص لذت اور کیفیت محسوس کی۔ مگر ترتیب کے اعتبار سے اس مجموعہ کی دوسری غزل نے نسبتاً زیادہ ہی اہتراز بخشا۔ گلشنِ مدینہ کے مشکبار جھونکے بار بار میری بلائیں لیتے رہے اور میں اپنی خوبیٔ قسمت پر مچلتا رہا۔ ایک عاشق رسول کا یہ خیال قابل رشک ہے کہ۔ ؎


یاد آتی ہے جب مدینے کی

میں زمانہ کو بھول جاتا ہوں

چنانچہ راشد طراز کی یہ پُرنور غزل پڑھتے وقت کچھ اس طرح کیف وسرور سے ہمکنار ہوا کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے گرد و پیش سے بیگانہ ہوگیا۔ میرے نزدیک اس غزل کا ہر شعر اک مقام سے ہے۔ اس میں کل سات اشعار ہیں اور ہر شعر کو پرمعنی، تہہ دار اور طرحدار بنانے میںشاعر نے اپنے فکری بلوغ اور فنی شعور کا شاندار مظاہرہ کیا ہے۔ مطلع ملاحظہ ہو۔ ؎


رہے گا کیوں نہیں جذبات دائمی کا امام

بنادیا ہے، اسے حق نے روشنی کا امام

یہ امر محتاجِ وضاحت نہیں کہ غزل رمز و ایما کا فن ہے۔ یہاں اشاروں اشاروں میں گفتگو ہوتی ہے۔ برہنہ گفتاری اس کی شریعت میں ممنوع ہے۔ راشدطراز غزل کے ان فنّی تقاضوں سے باخبر ہیں۔ اس لئے نعت گوئی کی عام روش سے ہٹ کر انہوں نے یہ غزل کہی ہے۔ جس میں یہ ظاہر کوئی نعتیہ رنگ و آہنگ نہیں۔ مگر فکر بلند اور فن لطیف سے آراستہ یہ بہترین نعت ہے جس میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو روشنی کا امام قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ خود ربِّ کریم نے اپنے کلام بلاغت نظام میں اپنے رسول کو ’’سراج منیر‘‘ کا لقب عطا فرمایا ہے۔ ’’وداعیا الی اللّٰہ باذنہ و سراجاً منیرا‘‘۔ (پ:22، احزاب، آیت:46) یعنی آپ وہ آفتاب ِ نبوت و ہدایت ہیں جس کے طلوع ہونے کے بعد کسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں۔ تمام روشنیاں اسی نوراعظم میں محو و مدغم ہوگئیں۔ اسی لئے ساری دائمی ہدایت و رہنمائی انہیں کے اتباع میں ہے۔‘‘ دوسرا شعر: ؎


میں کیوں نہ چوموں گا آنکھوں سے اس کا نام وجود

وہی ازل سے ہے آداب بندگی کا امام

بلاشبہ ان کا نام پاک ااتنا مقدس، مطہر، منور اور متبرک ہے کہ اس کو بہ نظر عقیدت دیکھنا اور چومنا ہمارے لئے باعثِ نجات و مغفرت ہے۔ اس سلسلہ میں ایک ایمان افروز واقعہ ملاحظہ ہو۔ ’’بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی دو سو سال نافرمانی کی۔ پھر وہ مر گیا تو لوگوں نے اسے پائوں سے پکڑا اور کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دیا۔ پس وحی فرمائی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کہ اسے باہر نکالیں اور اس پر نماز پڑھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی کہ اے رب تعالیٰ! بنی اسرائیل کے لوگ اس پر گواہ ہیں کہ اس بندے نے دوسو برس تک تیری نافرمانی کی ہے۔ اللہ کریم جل شانہٗ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ ایسا ہی تھا مگر جب جب یہ (شخص) تورات کھولتا تھا اور اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرتا تو اس کو چوم لیتا اور اپنی آنکھوں سے لگا لیتا اور ان پر درود بھیجتا۔ بس اسی بات پر میں نے اس کے گناہ معاف فرمادیئے۔ اور ستر حوروں سے اس کی شادی کردی۔‘‘ (ص:42، ج حلیۃ الاولیاء، للحافظ ابی نعیم احمد بن عبداللہ الاصبہانی المتوفی، 430ہجری، طبع اول 1354ہجری 1935ء، مطبعۃ السعادۃ مصر) بحوالہ نعت اور آدابِ نعت از مولانا کوکب نورانی (پاکستان) بلاشبہ ان کا نام و مقام اتنا محترم اور متبرک ہے کہ اس کو بہ نظر عقیدت دیکھنا اور چومنا ہمارے مقدر کی معراج ہے۔آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے غیر معمولی تعظیم و تکریم کا اہتمام خود رب کریم نے کیا ہے۔ اور اس کا نورانی سلسلہ روز ازل ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خصوصی اعزاز و اکرام کا عہد لیا جیسا کہ آیت میثاق سے ظاہر ہے۔ واقعہ کی پوری تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ سورہ آل عمران: پارہ-3، آیت-81) تیسرا شعر ہے: ؎


ظہور اس کے لئے ہی ہوا نظام خدا

وہی جو دہر میں ثابت ہوا خودی کا امام

یہ تو امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ نظام خدا کا ظہور نہیں ہوتا، یعنی بزم کائنات وجود میں نہیں آتی اگر رب تعالیٰ کو اپنے محبوب رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق مقصود نہیں ہوتی۔ معروف و متوارث الفاظ میں۔ ؎


محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا

اس سلسلہ میں کتب سیرت سے استناد کا یہ موقع نہیں۔ آٹھویں صدی ہجری کے ایک مصری عالم علامہ بوصیری اپنے شہرۂ آفاق ’’قصیدہ بردہ‘‘ میں فرماتے ہیں۔ ؎


وَکَیْفَ تَدْعُوْا اِلٰی الدُّنْیَا ضَرُوْرَۃُ مَنْ

لَولَاْہُ لَمْ تَخْرجِ الدُّنْیِا مِنَ الْعَدَمِ

وہ دنیا کی طرف کیسے مائل ہوتے ہیں جن کی شان یہ ہے کہ اگر ان کی پیدائش نہیں ہوتی تو دنیا وجود میں نہیں آتی۔

ہندوستانی عالم مولانا قاسم نانوتوی ابنے ’’قصیدہ بہاریہ‘‘ میں بڑے تیقن کے ساتھ کہتے ہیں۔ ؎


جو تو اسے نہ بناتا تو سارے عالم کو

نصیب ہوتی نہ دولت وجود کی زینہار

سواد اعظم اہلسنّت کے دینی پیشوا اور معروف محب رسول مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں۔ ؎


ہے انہیں کے دم قدم سے باغ عالم کی بہار

وہ نہ تھے عالم نہ تھا اگر وہ نہ ہوں عالم نہ ہو

علامہ اقبالؔ اپنے اس عقیدۂ راسخ کا یوں برملا اظہار کرتے ہیں۔ ؎


ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمنِ دہر میں، کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

ہو نہ یہ ساقی، تو پھر مئے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

علامہ اقبالؔ ایک اور شعر میں یوں زمزمہ سرا ہیں۔ ؎


چشمِ ہستی صفتِ دیدہ اعمیٰ ہوتی

دیدۂ کن میں اگر نور نہ ہوتا تیرا

اس لئے راشد طراز نے اپنے اسلاف و اکابر کے اتباع میں بہت صحیح کہا ہے کہ۔ ؎


ظہور اس کے لئے ہی ہوا نظام خدا

اور جب اسی کے لئے ہوا تو اس ذات والا صفات کو تو خودی کا امام دوسرے لفظوں میں خودشناسی، عزت نفس، وقار حیات اور انسانی شرافت کا پیامبر ہونا ہی چاہئے۔

چوتھا شعر ہے۔ ؎


زمین و عرش ہے اس کے طفیل میں قائم

کہ وہ ظہور سے پہلے بھی تھا صدی کا امام

اس شعر کا پہلا مصرع تو ماقبل کے شعر سے فکری طور پر پوری طرح مربوط ہے۔ دوسرے مصرع میں شاعر نے اس تاریخی صداقت کا اظہار کیا ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلا م ظہور کے اعتبار سے یقینا نبی آخرالزماں ہیں مگر وجود کے اعتبار سے پہلے نبی آپ ہی ہیں۔ آپ کو اس وقت منصب نبوت پر سرفراز کردیا گیا تھا جب حضرت سیدنا آدم علیہ السلام آب و گل کی منزلیں طے کررہے تھے۔ خود ارشاد نبوت ہے۔ کنت نبیاً والآدم بین الروح والجسد۔ یعنی میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم جسم و روح کے درمیان تھے۔

"جب جامع ترمذی کی حدیث۔ ’’کنت نبیاً والآدم بین الروح والجسد‘‘ کے موافق آپ اول الانبیاء ہیں تو اول المسلمین ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔‘‘

(بحوالہ ترجمہ قرآن از مولانا محمودالحسن و تفسیر مولانا شبیراحمد عثمانی۔ مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم، پرنٹنگ کمپلیکس سعودی عربیہ، ص:200)

زیر تجزیہ غزل کا پانچواں شعر۔ ؎


دکھائی اس سے یہاں دے رہا ہے شرع حیات

وہی ہے بندۂ مومن کی آگہی کا امام

یعنی اس نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کو شریفانہ زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا اور ایسی کامل و اکمل شریعت عطا فرمائی جس میں پیدائش سے لے کر موت تک کی زندگی بسر کرنے کے بہترین آداب و اصول مقرر ہیں۔ اس لئے بجاطور پر وہی بندۂ مولا صفات مومنین کی آگہی کا امام ہے۔ اس کی لائی ہوئی شریعت سے سرمو انحراف اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔


خلاف پیمبر کسے رہ گزید

کہ ہرگز بہ منزل نخواہد رسید

سعدیؔ

چھٹا شعر ہے۔ ؎


یہ اور بات کہ آنکھوں سے اس کو دیکھا نہیں

مگر وہی ہے ہماری بھی زندگی کا امام

یعنی یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ ہم نے اس رسول معظم ﷺکا زمانہ پاک نہیں پایا اور ان کے جمال زیبا کی زیارت سے محروم رہے۔ مگر اس کے باوجود ہم ان کو اپنا آئیڈل تسلیم کرتے ہیں۔ اور ہمیں انہیں کے بے مثل اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرنا ہے اور سچی عقیدت بھی رکھنی ہے۔ بقول علامہ اقبالؔ۔ ؎


کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

آخری شعر ہے۔ ؎


غلام کیوں نہ رہے گا طراز اس کا تمام

جہاں میں سید لولاک ہے نبی کا امام

وہ محبوب مکرم جس کی اطاعت خود خدا کی اطاعت ہے۔ اس کی غلامی پر ہمیں فخر کرنا چاہئے۔ شاعر سراپا عجز ونیاز بن کر کہتا ہے کہ میں کیا اور میری غلامی کیا۔ ان کی شان عظیم تو یہ ہے کہ وہ نبی الانبیاء ہیں۔ سارے نبیوں نے ان کی عظمت و امامت تسلیم کی جس کا روح پرور عملی مظاہرہ سفرِ معراج کے دوران بیت المقدس میں ہوا۔

اس شعر کے دوسرے مصرع میں ’’سیدلولاک‘‘ کی ترکیب استعمال کرکے راشدطراز نے ایک بار پھر اپنے اس عقیدۂ محکم کا برملا اظہار کیا ہے کہ ساری خلقت حضور سیدالکونین کے طفیل ہی وجود میں آئی۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے ایک شعر میں اس ترکیب کو یوں نظم کیا ہے۔ ؎


عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث

مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے

اقبالؔ یہ یہ محض شاعرانہ تخیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کی اساس اس حدیث قدسی پر ہے۔ ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ اے محبوب اگر آپ کو پیدا کرنا مقصد نہیں ہوتا تو میں آسمانوں کو (مرادکائنات) کو وجود میں نہیں لاتا۔ ہر قرن و صدی میں تمام اہل ایمان کا یہی عقیدہ و مسلک رہا ہے۔ اس لئے راشدطراز نے اپنی خوش عقیدگی کے اظہار میں اپنے بزرگوں کی متابعت کی ہے۔

یہ تو مسلم ہے کہ نعت گوئی بڑے شرف و سعادت کی بات ہے۔ اس سعادت عظمیٰ کو راشدطراز نے بھی حسبِ توفیق حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس طرح عصر حاضر میں وہ بھی شاعر بارگاہ رسالت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قبیلہ کے ایک ممتاز فرد بن گئے ہیں۔ مبارکباد۔