"رسولِ اکرم نے کل زمانے کو زندگی کا شعور بخشا" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(«رسولِ اکرم نے کل زمانے کو زندگی کا شعور بخشا رہِ ہدیٰ سے بھٹکنے والوں کو راستی کا شعور بخشا عروج پر شرک کی تھی ظلمت، بسائی وحدت کی ہر سو طلعت حضور نے کفر کے اندھیروں کو روشنی کا شعور بخشا یتیموں بیواؤں مفلسوں کی، بندھائی ڈھارس دُکھے دلوں کی ن...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
شاعر:  [[مشاہد رضوی]]
==={{نعت }}===
رسولِ اکرم نے کل زمانے کو زندگی کا شعور بخشا
رسولِ اکرم نے کل زمانے کو زندگی کا شعور بخشا



نسخہ بمطابق 11:53، 30 اپريل 2024ء

شاعر: مشاہد رضوی

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

رسولِ اکرم نے کل زمانے کو زندگی کا شعور بخشا

رہِ ہدیٰ سے بھٹکنے والوں کو راستی کا شعور بخشا

عروج پر شرک کی تھی ظلمت، بسائی وحدت کی ہر سو طلعت

حضور نے کفر کے اندھیروں کو روشنی کا شعور بخشا

یتیموں بیواؤں مفلسوں کی، بندھائی ڈھارس دُکھے دلوں کی

نبیِ رحمت نے سارے عالم کو خوشدلی کا شعور بخشا

جو دشمنی پر جمے ہوئے تھے، عداوتوں پر ڈٹے ہوئے تھے

نبیِ اکرم نے دشمنوں کو بھی دوستی کا شعور بخشا

نہ کوئی ادنیٰ نہ کوئی اعلیٰ ، نہ کوئی برتر نہ کوئی بالا

مٹا کے تفریق رنگتوں کی برابری کا شعور بخشا

تھے سر خمیدہ جو پیشِ باطل، دکھا کے ان کو بھی خلقِ کامل

خدا کے بندے رسولِ اعظم نے بندگی کا شعور بخشا

جو راہِ حق سے بھٹک رہے تھے، سکوں کی خاطر ترس رہے تھے

صراطِ حق پہ چلا کے ان کو بھی رہبری کا شعور بخشا

نشاں ہوا ختم دہشتوں کا، بچا نہ کچھ نقش نفرتوں کا

پیمبرِ صلح و آشتی نے جو آشتی کا شعور بخشا

شکم پہ خود اپنے باندھے پتھر، رہا چٹائی کا سادہ بستر

قناعتوں کے امین آقا نے سادگی کا شعور بخشا

تھی ان کی باتوں میں ایسی لذت، دلوں میں اعدا کے جاگی الفت

خلیق آقا نے جابروں کو بھی چاشنی کا شعور بخشا

کیا مشاہدؔ پہ لطف ایسا، اسے دیا ذوق مدحتوں کا

ریاضِ فکر و قلم کو آقا نے تازگی کا شعور بخشا

۲؍رمضان المبارک 1443ھ/4 ؍اپریل 2022ء بروز اتوار

٭٭٭