آپ «صہبا اختر» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
{{#seo:
===صہبا اختر==
|title=صہبا اختر  
|keywords=صہبا اختر، نعت ، نعت گوئی، نعت خوانی ، نعتیہ شاعری ، نعت رسول، Sehba AKtar, Naat, Naat e pak
|description=صہبا اختر 30 ستمبر کو جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے لیکن کشمیری نہیں تھے بلکہ نسلا پنجابی تھے ۔ ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر تھا ۔
}}


[[ملف:Sehba Akhtar.jpg]]
[[ملف:Sehba Akhtar.jpg]]


صہبا اختر [ اصل نام :[[ اختر علی رحمت ]] ] [[30 ستمبر]]، [[1931]]ء کو [[:زمرہ :جموں و کشمیر| جموں]] ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔لیکن کشمیری نہیں تھے بلکہ نسلا پنجابی تھے ۔  ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق [[:زمرہ: امرتسر | امرتسر]] سے تھا،وہ [[آغا حشر کاشمیری]] کے ہم عصر ڈرامہ نویس ، شاعر اور ہدایت کار تھے ۔ [[صہبا اختر]] نے [[بریلی]] سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔ پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔


صہبا اختر (انگریزی: Sehba Akhtar) (پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء - وفات: 19 فروری، 1996ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر تھے۔


=== مزید تعارف ===
فہرست  [غائب کریں]


ازدواجی زندگی: شادی اگست [[1953]] بیگم سعیدہ اختر
1 حالات زندگی


اولاد: تین بیٹیاں :ڈاکٹر شہلا، ڈاکٹر ثمینہ، روبینہ بینکر
2 ادبی خدمات


تین بیٹے: انجینئر عظیم اختر، انجینئر اعظم اختر، ڈاکٹر  ندیم اختر
3 نمونہ کلام


صحافت: روزنامہ حریت۔ روزنامہ مشرق
4 اعزازات


ریڈیو :طویل غنائیے، غزلیں ، گیت، حمد اور نعتیں بہ حیثیت سٹاف آرٹسٹ پڑھیں ، قومی و ملی و جنگی نغمے نشر ہوئے۔
5 تصانیف


ٹی وی :ٹی وی کے لیے قومی نغمہ اور رزمیہ ترانے لکھے۔ سانحہ[[1971]]ء کی رات ٹی وی سے نظم ’’سنومیری ماؤ سنو میری بہنو‘‘ نشر کی گئی۔
6 وفات


=== نعت گوئی ===
7 حوالہ جات


==== نمونہء کلام ====
[[یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو ۔ صہبا اختر | یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو]]


[[نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں ۔ صہبا اختر | نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں]]
حالات زندگی[ترمیم]




==== نعتیہ مجموعے ====
صہبا اختر 30 ستمبر، 1931ء کو جموں، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2]۔ ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا،وہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے ۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم


[[1981]]ء اقراء  -نعتوں کا مجموعہ
یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی[1]۔ پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت


اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ [3]


=== معاصرین کی آرا ===
ادبی خدمات[ترمیم]


==== ڈاکٹر ابو الخیر کشفی ====
صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی[1]۔ صہبا اختر کی شاعری میں جس طرح بڑی جان تھی بڑا دم خم تھا اسی


’ مجھے اپنی زندگی میں صہبا اختر کے سوا کوئی اور آدمی ایسا نہیں ملا، جس سے کبھی کسی کی غیبت نہیں سنی۔ اب تو فضا میں اتنی کشیدگی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مذاق بھی نہیں کرتے۔ آج سے بیس سال پہلے فضا مختلف تھی مگر اکثر صہبا کی موجودگی میں اور کبھی کبھی اس کی غیر موجودگی میں لوگوں سے کہتا کہ صہبا اگرچہ مسلمان ہے اور پھر شیعہ ہے۔ کڑوا کریلا اور نیم چڑھا۔ مگر آج تک اس سے کس کی غیبت نہ سنی اور صہبا مسکرا کر رہ جاتا اور دوست میری تائید کرتے۔ آج تو پیار کی ان باتوں میں لوگ تعصب تلاش کر لیں ، ہمارا عہد وہ تھا کہ ایک دوسرے کو چھیڑتے، لیکن اس وسعتِ قلب کا یہ عالم تھا کہ دوسرے کے مسلک کے احترام میں بڑے بڑوں کو ٹوک دیتے۔ کسی کی اچھائیوں کو دہراتے۔ لوگوں کی غیبت میں ان کی عزت کی حفاظت کرتے۔ اگر کسی کی برائی ہو رہی ہوتی تو صہبا خاموش رہتے لیکن اگر یہ سمجھتے کہ اس شخص کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ جھوٹ اور غلط ہے تو صہبا اپنی رائے کا ضرور اظہار کرتے۔ <ref> صہبا اختر: شخصیت اور فن . ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ </ref>
طرح ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی بڑی گھن گرج تھی وہ کراچی کے مشاعروں میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے ان کی شاعری میں نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی بڑے  


==== احمد ندیم قاسمی ====
عمدہ شاعر تھے ، ریڈیو پاکستان کے لیے بڑی پابندی سے لکھتے تھے۔ صہبا اختر نے فلم کے لیے بھی لازوال گیت لکھے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی


" صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘ <ref>  احمدندیم قاسمی ، مجلہ خزینہ </ref>
تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا بہت مشہور ہوئے[4]۔ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔[1]


==== اعجاز بزمی ====


اعجاز بزمی نے ’’[[صنعتِ توشیع]]‘ میں صہبا اختر سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کا جانا اردو شاعری کے لیے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں۔
نمونہ کلام[ترمیم]


ص ۔    صہبائے شاعری کا سخن در نہیں رہا


ہ ۔      ہے یاد جس کی باقی وہ اختر نہیں رہا
غزل


ب ۔    بے کیف محفلیں ہیں وہ شاعر خموش ہے


ا ۔      اردو زبان کے نغموں کا ماہر خموش ہے
عہدِ حاضِر پر، مِرے افکار کا سایہ رہا


ا ۔      الفاظ کے خزینہ کا مالک چلا گیا
بِجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا


خ ۔    خود داریء خیال کا مالک چلا گیا


ت ۔    تھی جس کی ذات عین محبت کہاں ہے وہ
وہ خرابہ ہُوں، کہ جس پر روشنی رقصاں رہی


ر ۔      روح ِادب نہ پائے گی اس کو جہاں ہے وہ‘‘
وہ تہی دامن ہُوں جس کا فکر سرمایہ رہا




==== دلاور فگار ====
کیا حرِیفانہ گزُاری ہے حیاتِ نغمہ کار


” مجھے خوشی ہے کہ میرے دوست صہبا اختر صاحب غزلوں اور نظموں کے کئی مجموعے، سرکشیدہ، وغیرہ تخلیق کرنے کے بعد اب نعت پاک کا مجموعہ اقراء لا رہے ہیں۔ ان کی یہ تخلیق اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخص جو فراعینِ جہاں کے سامنے سرکشیدہ تھا۔ دربار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوتا ہے تو سرخمیدہ ہے اور اس کا دل عشقِ رسول سے سرشار ہے۔ خدا کرے کہ اقراء کو دُنیا میں شرف قبولیت حاصل ہو اور عقبیٰ میں یہ صہبا صاحب کی نجات کا ضامن ہو۔ <ref> مجلہ اقراء </ref>
میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹُھکرایا رہا


=== اعزازات ===


[[1974]]ء        ستارۂ ادب۔ جشنِ کورنگی، کراچی
ایک شب، اِک غیرتِ خورشید سے مِلنے کے بعد


[[1995]]ء        شاعرِ پاکستان۔ پیٹریاٹ پاکستانیز دبئی
اک اُجالا مُدّتوں آنکھوں میں لہرایا رہا


[[1996]] ء          صدارتی اعزاز برائے، حسنِ کارکردگی (بعدازوفات)


تلخیوں نے زِیست کی، کیا کیا نہ سمجھایا مگر


=== وفات ===
عمر بھر صہبا تری آنکھوں کا بہکایا رہا


صہبا اختر [[19 فروری]]، [[1996]]ء کو[[ کراچی]]، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے سبب انتقال کرگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ <ref> اردو ویکیپیڈیا  </ref> ۔ ان کی وفات پر [[جمیل جالبی]] نے فرمایا


’’ میں صہبا اختر کو کم و بیش چالیس پینتالیس سال سے جانتا تھا، ان کی شادی میں بھی شریک ہوا تھا اور آج ان کی وفات کی خبر سنی، جو یقیناََ بہت تکلیف دہ ہے۔ میں نے اس تمام عرصے میں صہبا اختر کو بہت وضع دار او رکھ رکھاؤ کا انسان پایا۔ وہ شعر و ادب کے لیے پیدا ہوئے تھے اور ساری عمر شعر و ادب میں ہی لگے رہے … ان کی آواز میں توانائی اور روانی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے، خاص طور پر ان میں طویل نظمیں لکھنے کی بڑی صلاحیت تھی۔ ‘‘  <ref>    جمیل  جالبی ، ۲۰ فروری۱۹۹۴ء کراچی روزنامہ جنگ  </ref>


===بیرونی روابط  ===
شعر


[[ اے آر وائی ڈیجیٹل ]] نے صہبا اختر پر ایک پرگرام پیش کیا تھا جس کےروا بط درج ذیل ہیں
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی


حصہ اول : https://www.youtube.com/watch?v=ftvmoAqDCIo
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے


حصہ دوم: https://www.youtube.com/watch?v=ANI7uNFwpOs


حصہ سوم: https://www.youtube.com/watch?v=PhNXwtvmqMY
شعر


=== شراکتیں ===
ثبوت مانگ رہے ہیں مری تباہی کا


[[صارف: ارم نقوی ]] نے شروع  کیا
مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے


[[ قرت العین طاہرہ ]] کے مقالے [[صہبا اختر: شخصیت اور فن ]] سے مدد لی گئی
شعر


=== مزید دیکھیے ===
صہبا بہت سیاہ سہی یہ شب ملال


{ٹکر 2 }}
گونجے گی پھر سحر کی اذان جاگتے رہو
{{ باکس شخصیات }}
{{ٹکر 1 }}
{{باکس 1 }}


شعر


=== حواشی و حوالہ جات ===
مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے


تو بھی جاگے، تو بھی تڑپے، تو بھی نیر بہائے


[[زمرہ: شعراء ]]
بادل گرجے بجلی چمکی، تڑپ تڑپ رہ جائے
[[Category: نعت گو شعراء ]]
 
[[زمرہ:کراچی ]]
پت جھڑ آئے چھائے اداسی، من میں آگ لگائے
[[زمرہ: جموں و کشمیر ]]
 
 
اعزازات[ترمیم]
 
 
حکومت پاکستان نے صہبا اختر کو ان کی وفات کے بعد ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ [2] صہبا اختر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں گلشن اقبال کراچی میں سڑک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا
 
ہے۔
 
 
تصانیف[ترمیم]
 
 
1977ء - سرکشیدہ
 
1981ء - اقرا
 
1984ء - سمندر
 
1995ء - مشعل
 
 
وفات[ترمیم]
 
 
صہبا اختر 19 فروری، 1996ء کو کراچی، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے سبب انتقال کرگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[1][2]
 
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
====نعتِ رسولِ مقبول====
 
 
نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں
 
دست بستہ لفظ بھی ہیں، دست بستہ میں بھی ہوں
 
 
میں سمو لایا ہوں شعروں میں بنامِ مصطفٰی(ص)
 
روشنی کا وہ سمندر جس کا پیاسا میں بھی ہوں
 
 
ایک بے سایہ کا سایہ ساتھ رہتا ہے سدا
 
ورنہ اپنی ذات کے صحرا میں تنہا میں بھی ہوں
 
 
وہ نہ ہوتے تو کہاں ہوتا مِرا اپنا وجود
 
زندگی یوں ہے کہ اُن کا ایک صدقہ میں بھی ہوں
 
 
خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والا ہے تُو
 
سُن اے شیشوں کے مسیحا! دل شکستہ میں بھی ہوں
 
 
جب سخن کی داد ملتی ہے سکوتِ عرش سے
 
تب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں بھی ہوں!
 
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
خوشبوئے حسان (رض)
 
شاعر : صہبا اختر 
 
پیشکش : اے آر وائی ڈیجیٹل
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
حصہ اول
https://www.youtube.com/watch?v=ftvmoAqDCIo
 
حصہ دوم
 
https://www.youtube.com/watch?v=ANI7uNFwpOs
 
حصہ سوم
 
https://www.youtube.com/watch?v=PhNXwtvmqMY
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
حوالہ جات[ترمیم]
 
^ 1.0 1.1 1.2 1.3 1.4 صہبا اختر ، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ
 
^ 2.0 2.1 2.2 ص 776، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
 
اوپر جائیں ↑ صہبا اختر تعارف، ریختہ ویب اردو، بھارت
 
اوپر جائیں ↑ صہبا اختر شاعری کا سمندر تھے، یونس ہمدم، ایکسپریس نیوز، ہفتہ 5 ستمبر 2015ء
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)