آپ «صہبا اختر» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 1: | سطر 1: | ||
[[ملف:Sehba Akhtar.jpg]] | [[ملف:Sehba Akhtar.jpg]] | ||
سطر 24: | سطر 20: | ||
ٹی وی :ٹی وی کے لیے قومی نغمہ اور رزمیہ ترانے لکھے۔ سانحہ[[1971]]ء کی رات ٹی وی سے نظم ’’سنومیری ماؤ سنو میری بہنو‘‘ نشر کی گئی۔ | ٹی وی :ٹی وی کے لیے قومی نغمہ اور رزمیہ ترانے لکھے۔ سانحہ[[1971]]ء کی رات ٹی وی سے نظم ’’سنومیری ماؤ سنو میری بہنو‘‘ نشر کی گئی۔ | ||
=== نعتیہ مجموعے === | |||
[[1981]]ء اقراء -نعتوں کا مجموعہ | [[1981]]ء اقراء -نعتوں کا مجموعہ | ||
سطر 47: | سطر 35: | ||
" صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘ <ref> احمدندیم قاسمی ، مجلہ خزینہ </ref> | " صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘ <ref> احمدندیم قاسمی ، مجلہ خزینہ </ref> | ||
=== اعجاز بزمی === | |||
اعجاز بزمی نے ’’[[صنعتِ توشیع]]‘ میں صہبا اختر سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کا جانا اردو شاعری کے لیے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں۔ | اعجاز بزمی نے ’’[[صنعتِ توشیع]]‘ میں صہبا اختر سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کا جانا اردو شاعری کے لیے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں۔ | ||
سطر 66: | سطر 54: | ||
ر ۔ روح ِادب نہ پائے گی اس کو جہاں ہے وہ‘‘ | ر ۔ روح ِادب نہ پائے گی اس کو جہاں ہے وہ‘‘ | ||
=== اعزازات === | === اعزازات === | ||
سطر 79: | سطر 62: | ||
[[1996]] ء صدارتی اعزاز برائے، حسنِ کارکردگی (بعدازوفات) | [[1996]] ء صدارتی اعزاز برائے، حسنِ کارکردگی (بعدازوفات) | ||
=== نمونہء کلام === | |||
====یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو ==== | |||
{{ نعت }} | |||
یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو | |||
کسی کے لال ہو تو آمنہ کے لال کو دیکھو | |||
وفا داری کے اس آئینِ اعلیٰ پر نظر ڈالو | |||
جو شوہر ہو تو سر تاجِ خدیجہ پر نظر ڈالو | |||
امین ہو تو عرب کے اس امانت دار کو دیکھو | |||
جو صادق ہو تو اس مردِ صداقت کار کو دیکھو | |||
جو تاجر ہو تو سیکھو اس سے انداز تجارت بھی | |||
شرافت بھی صداقت بھی امانت بھی | |||
مفکر ہو تو اس کی فکر کے عنوان کو دیکھو | |||
حرا کی خامشی میں آمدِ قرآن کو دیکھو | |||
اگر مظلوم ہو تو اہلِ طائف پر عطا دیکھو | |||
جبیں پر زخم کھا کر بھی لبوں پر وہ دعا دیکھو | |||
مسافر ہو تو اس کے جاوۂ غربت کو بھی سمجھو | |||
مہاجر ہو تو اس کے مقصدِ ہجرت کو بھی سمجھو | |||
جو ناظم ہو تو دیکھو اس کی تنظیمِ عدالت کو | |||
جو حاکم ہو تو دیکھو اس کے اندازِ حکومت کو | |||
ذرا اس فاتحِ عالم کا انداز ظفر دیکھو | |||
وہ سارے دشمنوں پر ایک رحمت کی نظر دیکھو | |||
اسے جس طور سے چاہو اسے جس ڈھنگ میں دیکھو | |||
وہ اک انسان ِکامل ہے اسے جس رنگ میں دیکھو | |||
==== نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں ==== | |||
{{نعت }} | |||
نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں | |||
دست بستہ لفظ بھی ہیں، دست بستہ میں بھی ہوں | |||
میں سمو لایا ہوں شعروں میں بنامِ مصطفٰی {{ص}} | |||
روشنی کا وہ سمندر جس کا پیاسا میں بھی ہوں | |||
ایک بے سایہ کا سایہ ساتھ رہتا ہے سدا | |||
ورنہ اپنی ذات کے صحرا میں تنہا میں بھی ہوں | |||
وہ نہ ہوتے تو کہاں ہوتا مِرا اپنا وجود | |||
زندگی یوں ہے کہ اُن کا ایک صدقہ میں بھی ہوں | |||
خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والا ہے تُو | |||
سُن اے شیشوں کے مسیحا! دل شکستہ میں بھی ہوں | |||
جب سخن کی داد ملتی ہے سکوتِ عرش سے | |||
تب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں بھی ہوں! | |||
=== وفات === | === وفات === | ||
سطر 100: | سطر 163: | ||
[[صارف: ارم نقوی ]] نے شروع کیا | [[صارف: ارم نقوی ]] نے شروع کیا | ||