"صہبا اختر" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: ===صہبا اختر== ملف:Sehba Akhtar.jpg صہبا اختر (انگریزی: Sehba Akhtar) (پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء - وفات: 19 فروری، 1996ء)...)
 
 
(3 صارفین 41 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
===صہبا اختر==
{{#seo:
|title=صہبا اختر
|keywords=صہبا اختر، نعت ، نعت گوئی، نعت خوانی ، نعتیہ شاعری ، نعت رسول، Sehba AKtar, Naat, Naat e pak
|description=صہبا اختر 30 ستمبر کو جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے لیکن کشمیری نہیں تھے بلکہ نسلا پنجابی تھے ۔ ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر تھا ۔
}}


[[ملف:Sehba Akhtar.jpg]]
[[ملف:Sehba Akhtar.jpg]]


صہبا اختر [ اصل نام :[[ اختر علی رحمت ]] ] [[30 ستمبر]]، [[1931]]ء کو [[:زمرہ :جموں و کشمیر| جموں]] ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔لیکن کشمیری نہیں تھے بلکہ نسلا پنجابی تھے ۔  ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق [[:زمرہ: امرتسر | امرتسر]] سے تھا،وہ [[آغا حشر کاشمیری]] کے ہم عصر ڈرامہ نویس ، شاعر اور ہدایت کار تھے ۔ [[صہبا اختر]] نے [[بریلی]] سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔ پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔


صہبا اختر (انگریزی: Sehba Akhtar) (پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء - وفات: 19 فروری، 1996ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر تھے۔


فہرست  [غائب کریں]
=== مزید تعارف ===


1 حالات زندگی
ازدواجی زندگی: شادی اگست [[1953]] بیگم سعیدہ اختر


2 ادبی خدمات
اولاد: تین بیٹیاں :ڈاکٹر شہلا، ڈاکٹر ثمینہ، روبینہ بینکر


3 نمونہ کلام
تین بیٹے: انجینئر عظیم اختر، انجینئر اعظم اختر، ڈاکٹر  ندیم اختر


4 اعزازات
صحافت: روزنامہ حریت۔ روزنامہ مشرق


5 تصانیف
ریڈیو :طویل غنائیے، غزلیں ، گیت، حمد اور نعتیں بہ حیثیت سٹاف آرٹسٹ پڑھیں ، قومی و ملی و جنگی نغمے نشر ہوئے۔


6 وفات
ٹی وی :ٹی وی کے لیے قومی نغمہ اور رزمیہ ترانے لکھے۔ سانحہ[[1971]]ء کی رات ٹی وی سے نظم ’’سنومیری ماؤ سنو میری بہنو‘‘ نشر کی گئی۔


7 حوالہ جات
=== نعت گوئی ===


==== نمونہء کلام ====
[[یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو ۔ صہبا اختر | یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو]]


حالات زندگی[ترمیم]
[[نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں ۔ صہبا اختر | نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں]]




صہبا اختر 30 ستمبر، 1931ء کو جموں، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2]۔ ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا،وہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے ۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم
==== نعتیہ مجموعے ====


یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی[1]۔ پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت
[[1981]]ء اقراء  -نعتوں کا مجموعہ


اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ [3]


ادبی خدمات[ترمیم]
=== معاصرین کی آرا ===


صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی[1]۔ صہبا اختر کی شاعری میں جس طرح بڑی جان تھی بڑا دم خم تھا اسی
==== ڈاکٹر ابو الخیر کشفی ====


طرح ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی بڑی گھن گرج تھی وہ کراچی کے مشاعروں میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے ان کی شاعری میں نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی بڑے
’ مجھے اپنی زندگی میں صہبا اختر کے سوا کوئی اور آدمی ایسا نہیں ملا، جس سے کبھی کسی کی غیبت نہیں سنی۔ اب تو فضا میں اتنی کشیدگی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مذاق بھی نہیں کرتے۔ آج سے بیس سال پہلے فضا مختلف تھی مگر اکثر صہبا کی موجودگی میں اور کبھی کبھی اس کی غیر موجودگی میں لوگوں سے کہتا کہ صہبا اگرچہ مسلمان ہے اور پھر شیعہ ہے۔ کڑوا کریلا اور نیم چڑھا۔ مگر آج تک اس سے کس کی غیبت نہ سنی اور صہبا مسکرا کر رہ جاتا اور دوست میری تائید کرتے۔ آج تو پیار کی ان باتوں میں لوگ تعصب تلاش کر لیں ، ہمارا عہد وہ تھا کہ ایک دوسرے کو چھیڑتے، لیکن اس وسعتِ قلب کا یہ عالم تھا کہ دوسرے کے مسلک کے احترام میں بڑے بڑوں کو ٹوک دیتے۔ کسی کی اچھائیوں کو دہراتے۔ لوگوں کی غیبت میں ان کی عزت کی حفاظت کرتے۔ اگر کسی کی برائی ہو رہی ہوتی تو صہبا خاموش رہتے لیکن اگر یہ سمجھتے کہ اس شخص کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ جھوٹ اور غلط ہے تو صہبا اپنی رائے کا ضرور اظہار کرتے۔ <ref> صہبا اختر: شخصیت اور فن . ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ </ref>


عمدہ شاعر تھے ، ریڈیو پاکستان کے لیے بڑی پابندی سے لکھتے تھے۔ صہبا اختر نے فلم کے لیے بھی لازوال گیت لکھے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی
==== احمد ندیم قاسمی ====


تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا بہت مشہور ہوئے[4]۔ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔[1]
" صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘ <ref>  احمدندیم قاسمی ، مجلہ خزینہ </ref>


==== اعجاز بزمی ====


نمونہ کلام[ترمیم]
اعجاز بزمی نے ’’[[صنعتِ توشیع]]‘ میں صہبا اختر سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کا جانا اردو شاعری کے لیے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں۔


ص ۔    صہبائے شاعری کا سخن در نہیں رہا


غزل
ہ ۔      ہے یاد جس کی باقی وہ اختر نہیں رہا


عہدِ حاضِر پر، مِرے افکار کا سایہ رہا! بِجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا
ب ۔    بے کیف محفلیں ہیں وہ شاعر خموش ہے


وہ خرابہ ہُوں، کہ جس پر روشنی رقصاں رہی وہ تہی دامن ہُوں جس کا فکر سرمایہ رہا
ا ۔      اردو زبان کے نغموں کا ماہر خموش ہے


کیا حرِیفانہ گزُاری ہے حیاتِ نغمہ کار میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹُھکرایا رہا
ا ۔      الفاظ کے خزینہ کا مالک چلا گیا


ایک شب، اِک غیرتِ خورشید سے مِلنے کے بعد اک اُجالا مُدّتوں آنکھوں میں لہرایا رہا
خ ۔    خود داریء خیال کا مالک چلا گیا


تلخیوں نے زِیست کی، کیا کیا نہ سمجھایا مگر عمر بھر صہبا تری آنکھوں کا بہکایا رہا
ت ۔    تھی جس کی ذات عین محبت کہاں ہے وہ


ر ۔      روح ِادب نہ پائے گی اس کو جہاں ہے وہ‘‘


شعر


یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے
==== دلاور فگار ====


شعر
” مجھے خوشی ہے کہ میرے دوست صہبا اختر صاحب غزلوں اور نظموں کے کئی مجموعے، سرکشیدہ، وغیرہ تخلیق کرنے کے بعد اب نعت پاک کا مجموعہ اقراء لا رہے ہیں۔ ان کی یہ تخلیق اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخص جو فراعینِ جہاں کے سامنے سرکشیدہ تھا۔ دربار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوتا ہے تو سرخمیدہ ہے اور اس کا دل عشقِ رسول سے سرشار ہے۔ خدا کرے کہ اقراء کو دُنیا میں شرف قبولیت حاصل ہو اور عقبیٰ میں یہ صہبا صاحب کی نجات کا ضامن ہو۔ <ref> مجلہ اقراء </ref>


ثبوت مانگ رہے ہیں مری تباہی کا مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے
=== اعزازات ===


شعر
[[1974]]ء        ستارۂ ادب۔ جشنِ کورنگی، کراچی


صہبا بہت سیاہ سہی یہ شب ملال گونجے گی پھر سحر کی اذان جاگتے رہو
[[1995]]ء        شاعرِ پاکستان۔ پیٹریاٹ پاکستانیز دبئی


شعر
[[1996]] ء          صدارتی اعزاز برائے، حسنِ کارکردگی (بعدازوفات)


مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے تو بھی جاگے، تو بھی تڑپے، تو بھی نیر بہائے


بادل گرجے بجلی چمکی، تڑپ تڑپ رہ جائے پت جھڑ آئے چھائے اداسی، من میں آگ لگائے
=== وفات ===


صہبا اختر [[19 فروری]]، [[1996]]ء کو[[ کراچی]]، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے سبب انتقال کرگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ <ref> اردو ویکیپیڈیا  </ref> ۔ ان کی وفات پر [[جمیل جالبی]] نے فرمایا


اعزازات[ترمیم]
’’ میں صہبا اختر کو کم و بیش چالیس پینتالیس سال سے جانتا تھا، ان کی شادی میں بھی شریک ہوا تھا اور آج ان کی وفات کی خبر سنی، جو یقیناََ بہت تکلیف دہ ہے۔ میں نے اس تمام عرصے میں صہبا اختر کو بہت وضع دار او رکھ رکھاؤ کا انسان پایا۔ وہ شعر و ادب کے لیے پیدا ہوئے تھے اور ساری عمر شعر و ادب میں ہی لگے رہے … ان کی آواز میں توانائی اور روانی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے، خاص طور پر ان میں طویل نظمیں لکھنے کی بڑی صلاحیت تھی۔ ‘‘  <ref>    جمیل  جالبی ، ۲۰ فروری۱۹۹۴ء کراچی روزنامہ جنگ  </ref>


===بیرونی روابط  ===


حکومت پاکستان نے صہبا اختر کو ان کی وفات کے بعد ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ [2] صہبا اختر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں گلشن اقبال کراچی میں سڑک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا
[[ اے آر وائی ڈیجیٹل ]] نے صہبا اختر پر ایک پرگرام پیش کیا تھا جس کےروا بط درج ذیل ہیں


ہے۔
حصہ اول : https://www.youtube.com/watch?v=ftvmoAqDCIo


حصہ دوم: https://www.youtube.com/watch?v=ANI7uNFwpOs


تصانیف[ترمیم]
حصہ سوم: https://www.youtube.com/watch?v=PhNXwtvmqMY


=== شراکتیں ===


1977ء - سرکشیدہ
[[صارف: ارم نقوی ]] نے شروع  کیا


1981ء - اقرا
[[ قرت العین طاہرہ ]] کے مقالے [[صہبا اختر: شخصیت اور فن ]] سے مدد لی گئی


1984ء - سمندر
=== مزید دیکھیے ===


1995ء - مشعل
{ٹکر 2 }}
{{ باکس شخصیات }}
{{ٹکر 1 }}
{{باکس 1 }}




وفات[ترمیم]
=== حواشی و حوالہ جات ===




صہبا اختر 19 فروری، 1996ء کو کراچی، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے سبب انتقال کرگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[1][2]
[[زمرہ: شعراء ]]
 
[[Category: نعت گو شعراء ]]
 
[[زمرہ:کراچی ]]
حوالہ جات[ترمیم]
[[زمرہ: جموں و کشمیر ]]
 
^ 1.0 1.1 1.2 1.3 1.4 صہبا اختر ، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ
 
^ 2.0 2.1 2.2 ص 776، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
 
اوپر جائیں ↑ صہبا اختر تعارف، ریختہ ویب اردو، بھارت
 
اوپر جائیں ↑ صہبا اختر شاعری کا سمندر تھے، یونس ہمدم، ایکسپریس نیوز، ہفتہ 5 ستمبر 2015ء

حالیہ نسخہ بمطابق 20:51، 2 ستمبر 2018ء


Sehba Akhtar.jpg

صہبا اختر [ اصل نام :اختر علی رحمت ] 30 ستمبر، 1931ء کو جموں ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔لیکن کشمیری نہیں تھے بلکہ نسلا پنجابی تھے ۔ ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا،وہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر ڈرامہ نویس ، شاعر اور ہدایت کار تھے ۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔ پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔


مزید تعارف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ازدواجی زندگی: شادی اگست 1953 بیگم سعیدہ اختر

اولاد: تین بیٹیاں :ڈاکٹر شہلا، ڈاکٹر ثمینہ، روبینہ بینکر

تین بیٹے: انجینئر عظیم اختر، انجینئر اعظم اختر، ڈاکٹر ندیم اختر

صحافت: روزنامہ حریت۔ روزنامہ مشرق

ریڈیو :طویل غنائیے، غزلیں ، گیت، حمد اور نعتیں بہ حیثیت سٹاف آرٹسٹ پڑھیں ، قومی و ملی و جنگی نغمے نشر ہوئے۔

ٹی وی :ٹی وی کے لیے قومی نغمہ اور رزمیہ ترانے لکھے۔ سانحہ1971ء کی رات ٹی وی سے نظم ’’سنومیری ماؤ سنو میری بہنو‘‘ نشر کی گئی۔

نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نمونہء کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یتیمی جس نے پائی، اس بلند اقبال کو دیکھو

نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں


نعتیہ مجموعے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1981ء اقراء -نعتوں کا مجموعہ


معاصرین کی آرا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر ابو الخیر کشفی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’ مجھے اپنی زندگی میں صہبا اختر کے سوا کوئی اور آدمی ایسا نہیں ملا، جس سے کبھی کسی کی غیبت نہیں سنی۔ اب تو فضا میں اتنی کشیدگی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مذاق بھی نہیں کرتے۔ آج سے بیس سال پہلے فضا مختلف تھی مگر اکثر صہبا کی موجودگی میں اور کبھی کبھی اس کی غیر موجودگی میں لوگوں سے کہتا کہ صہبا اگرچہ مسلمان ہے اور پھر شیعہ ہے۔ کڑوا کریلا اور نیم چڑھا۔ مگر آج تک اس سے کس کی غیبت نہ سنی اور صہبا مسکرا کر رہ جاتا اور دوست میری تائید کرتے۔ آج تو پیار کی ان باتوں میں لوگ تعصب تلاش کر لیں ، ہمارا عہد وہ تھا کہ ایک دوسرے کو چھیڑتے، لیکن اس وسعتِ قلب کا یہ عالم تھا کہ دوسرے کے مسلک کے احترام میں بڑے بڑوں کو ٹوک دیتے۔ کسی کی اچھائیوں کو دہراتے۔ لوگوں کی غیبت میں ان کی عزت کی حفاظت کرتے۔ اگر کسی کی برائی ہو رہی ہوتی تو صہبا خاموش رہتے لیکن اگر یہ سمجھتے کہ اس شخص کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ جھوٹ اور غلط ہے تو صہبا اپنی رائے کا ضرور اظہار کرتے۔ <ref> صہبا اختر: شخصیت اور فن . ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ </ref>

احمد ندیم قاسمی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

" صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘ <ref> احمدندیم قاسمی ، مجلہ خزینہ </ref>

اعجاز بزمی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اعجاز بزمی نے ’’صنعتِ توشیع‘ میں صہبا اختر سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کا جانا اردو شاعری کے لیے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں۔

ص ۔ صہبائے شاعری کا سخن در نہیں رہا

ہ ۔ ہے یاد جس کی باقی وہ اختر نہیں رہا

ب ۔ بے کیف محفلیں ہیں وہ شاعر خموش ہے

ا ۔ اردو زبان کے نغموں کا ماہر خموش ہے

ا ۔ الفاظ کے خزینہ کا مالک چلا گیا

خ ۔ خود داریء خیال کا مالک چلا گیا

ت ۔ تھی جس کی ذات عین محبت کہاں ہے وہ

ر ۔ روح ِادب نہ پائے گی اس کو جہاں ہے وہ‘‘


دلاور فگار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

” مجھے خوشی ہے کہ میرے دوست صہبا اختر صاحب غزلوں اور نظموں کے کئی مجموعے، سرکشیدہ، وغیرہ تخلیق کرنے کے بعد اب نعت پاک کا مجموعہ اقراء لا رہے ہیں۔ ان کی یہ تخلیق اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخص جو فراعینِ جہاں کے سامنے سرکشیدہ تھا۔ دربار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوتا ہے تو سرخمیدہ ہے اور اس کا دل عشقِ رسول سے سرشار ہے۔ خدا کرے کہ اقراء کو دُنیا میں شرف قبولیت حاصل ہو اور عقبیٰ میں یہ صہبا صاحب کی نجات کا ضامن ہو۔ <ref> مجلہ اقراء </ref>

اعزازات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1974ء ستارۂ ادب۔ جشنِ کورنگی، کراچی

1995ء شاعرِ پاکستان۔ پیٹریاٹ پاکستانیز دبئی

1996 ء صدارتی اعزاز برائے، حسنِ کارکردگی (بعدازوفات)


وفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صہبا اختر 19 فروری، 1996ء کوکراچی، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے سبب انتقال کرگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ <ref> اردو ویکیپیڈیا </ref> ۔ ان کی وفات پر جمیل جالبی نے فرمایا

’’ میں صہبا اختر کو کم و بیش چالیس پینتالیس سال سے جانتا تھا، ان کی شادی میں بھی شریک ہوا تھا اور آج ان کی وفات کی خبر سنی، جو یقیناََ بہت تکلیف دہ ہے۔ میں نے اس تمام عرصے میں صہبا اختر کو بہت وضع دار او رکھ رکھاؤ کا انسان پایا۔ وہ شعر و ادب کے لیے پیدا ہوئے تھے اور ساری عمر شعر و ادب میں ہی لگے رہے … ان کی آواز میں توانائی اور روانی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے، خاص طور پر ان میں طویل نظمیں لکھنے کی بڑی صلاحیت تھی۔ ‘‘ <ref> جمیل جالبی ، ۲۰ فروری۱۹۹۴ء کراچی روزنامہ جنگ </ref>

بیرونی روابط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اے آر وائی ڈیجیٹل نے صہبا اختر پر ایک پرگرام پیش کیا تھا جس کےروا بط درج ذیل ہیں

حصہ اول : https://www.youtube.com/watch?v=ftvmoAqDCIo

حصہ دوم: https://www.youtube.com/watch?v=ANI7uNFwpOs

حصہ سوم: https://www.youtube.com/watch?v=PhNXwtvmqMY

شراکتیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صارف: ارم نقوی نے شروع کیا

قرت العین طاہرہ کے مقالے صہبا اختر: شخصیت اور فن سے مدد لی گئی

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

{ٹکر 2 }}

نعت کائنات پر نئی شخصیات

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات


حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]