آپ «قصیدہ» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 13: سطر 13:
قصیدے کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔ (1)تشبیب(2)گریز(3)مدح(4) دعا یا حُسنِ طلب۔
قصیدے کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔ (1)تشبیب(2)گریز(3)مدح(4) دعا یا حُسنِ طلب۔


پہلا شعر قصیدے کا مطلع کہلا تا ہے یہاں سے قصیدے کا پہلا جز تشبیب شروع ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے تعلق سے فخر و امتنان پر مشتمل اشعار کہتا ہے۔ دوسرا جز گریز جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاعر اپنی تعریف ترک کر کے ممدوح کی مدح و توصیف کی سمت رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد مدح کا مرحلہ آتا ہے جو تشبیب سے طویل تر ہوتا ہے اگرچہ ذوقؔ و غالبؔ کے قصیدوں میں مدح کے اشعار کم تعداد میں ملتے ہیں۔ حُسنِ طلب اس کے بعد کی منزل ہے جس میں قصیدہ خواں اپنے ممدوح کی جانب سے لطف و اکرام کی توقع ظاہر کرتا ہے، پھر ممدوح کے لیے دعا پر قصیدہ ختم ہو جاتا ہے۔ جس قصیدے میں اس کے تمام اجزائے ترکیبی موجود ہوں اور جس میں راست ممدوح سے خطاب کیا گیا ہو اسے خطابیہ قصیدہ کہتے ہیں۔ قصیدے میں یوں تو صرف مدح خوانی مقصود ہوتی ہے لیکن اکثر قصائد میں ہجویہ، واعظانہ، اور دوسرے بیانیہ مضامین بھی نظم کیے گئے ملتے ہیں۔ اس اعتبار سے انھیں مدحیہ، ہجویہ، واعظانہ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔
پہلا شعر قصیدے کا مطلع کہلا تا ہے یہاں سے قصیدے کا پہلا جز تشبیب شروع ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے تعلق سے فخر و امتنان پر مشتمل اشعار کہتا ہے۔ دوسرا جز گریز جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاعر اپنی تعریف ترک کر کے ممدوح کی مدح و توصیف کی سمت رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد مدح کا مرحلہ آتا ہے جو تشبیب سے طویل تر ہوتا ہے اگرچہ ذوقؔ و غالبؔ کے قصیدوں میں مدح کے اشعار کم تعداد میں ملتے ہیں۔ حُسنِ طلب اس کے بعد کی منزل ہے جس میں قصیدہ خواں اپنے ممدوح کی جانب سے لطف و اکرام کی توقع ظاہر کرتا ہے، پھر ممدوح کے لیے دعا پر قصیدہ ختم ہو جاتا ہے۔ جس قصیدے میں اس کے تمام اجزائے ترکیبی موجود ہوں اور جس میں راست ممدوح سے خطاب کیا گیا ہو اسے خطابیہ قصیدہ کہتے ہیں۔ قصیدے میں یوں تو صرف مدح خوانی مقصود ہوتی ہے لیکن اکثر قصائد میں ہجویہ، واعظانہ، اور دوسرے بیانیہ مضامین بھی نظم کیے گئے ملتے ہیں۔ اس اعتبار سے انھیں مدحیہ، ہجویہ، واعظانہ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اردو میں سوداؔ ، انشائؔ ، ذوقؔ اور غالبؔ کے قصائد معروف ہیں۔ مدح و توصیف کے مقصد سے بعض شعرا نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و سلم ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، اور دیگر اکابرِ دین کے بھی قصیدے لکھے ہیں جن میں مومنؔ ، [[محسن کاکوروی]]، [[امام احمد رضا خان بریلوی ]]، [[عبدالعزیز خالد]] اور بہت سے دوسرے نئے شعرا کے نام آتے ہیں۔
 
===مشہور قصائد ===
===مشہور قصائد ===


براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: