مختلف شعری ہیئتوں میں نعتیہ تجربے ۔ ڈاکٹر حقانی القاسمی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 10:53، 22 مارچ 2018ء از 182.185.201.135 (تبادلۂ خیال) (نیا صفحہ: ڈاکٹر حقانی القاسمی (نئی دہلی) مختلف شعری ہیئتوں میں نعتیہ تجربے ہزاربار بشویم دہن ز مشک و گلاب...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

ڈاکٹر حقانی القاسمی (نئی دہلی)

مختلف شعری ہیئتوں میں نعتیہ تجربے


ہزاربار بشویم دہن ز مشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است

خوشبوذہن سے ہی معطرخیالات وجود میں آتے ہیں!

باطنی وجود میں جتنی روشنی ہوگی،ظاہری سطح پر اس کا اتنا ہی انعکاس ہوگا۔ جب باطن میں الوہی طلعت اترتی ہے توذہن کے تمام منطقوں کو اس طرح منورکردیتی ہے کہ سارے تاریک خیالات دور بھاگنے لگتے ہیں اور صحت مندخیالات کا نمو ہونے لگتا ہے اور پھر انسان تاریکی سے روشنی، ظلمت سے نور کے حلقے میں شامل ہوجاتاہے۔اس کے وجود میں ایک ایساسورج طلوع ہوتاہے جو مدام اس کے ذہنی اور روحانی وجود کے ساتھ سفر کرتارہتاہے۔

یہی روشنی سچائی کا استعارہ ہوتی ہے اور روشنی کایہی شجر اپنی تمام ترشاخوں کے ساتھ زمین احساس پر پھیلنے لگتا ہے تو اظہارات کی نت نئی کونپلیں کھلنے لگتی ہیں۔

عظیمؔ امروہوی کے وجود میں بھی وہی خوشبواورروشنی بسی ہوئی ہے۔اسی لیے انھوں نے مختلف شعری ہیئتوں میں نعتیہ کلام لکھتے ہوئے اسی عقیدت، محبت اور جذب ووارفتگی کا ثبوت دیاہے جو نعتیہ فضا کے لیے ضروری ہیں:


کھو کے ان کی یاد میں پڑھتاہوں جب بھی نعت میں

یہ سمجھتا ہوں کہ سر پر سائباں خوشبو کا ہے

ان کے روضے کی ہواؤں کا تصور جب کیا

یہ لگا جیسے کہ یہ سارا جہاں خوشبو کا ہے

پھول کیا خاروں کے دل بھی خوشبوؤں سے بھردیے

سارے عالم سے جدا وہ گلستاں خوشبو کا ہے

روضہ پرنور سے مس ہو کے جب آتے ہیں لوگ

ایسا لگتا ہے کہ جیسے کارواں خوشبو کا ہے

عظیم اؔمروہوی نے مختلف ہیئتوں میں جوعطربیزتجربے کیے ہیں،وہ اس اعتبار سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ نعتیہ شاعری زیادہ تر غزلیہ ہیئت میں ہوتی رہی ہے کیونکہ نعت کی کوئی ہیئت مخصوص نہیں ہے اورنہ ہی اسے صنف سخن کا درجہ حاصل ہے۔ موضوعی اعتبار سے اسے صنف کہاجاسکتاہے مگر ہیئتی اعتبار سے کسی مخصوص صنف کے لوازمہ میں قید نہیں ہے۔ عظیم ؔامروہوی نے نعتیہ نظمیں، نعتیہ آزادنظمیں، نعتیہ قطعات، نعتیہ رباعیات، نعتیہ ہائیکو، نعتیہ دوہے، نعتیہ گیت، نعتیہ ترائیلے، نعتیہ لوریاں، نعتیہ پنج بھجی، نعتیہ مرثیہ، نعتیہ تضمین کہے ہیں۔ متنوع ہیئتوںمیں یہ نعتیہ شاعری فکری اور لسانی اعتبار سے ان کی جدتِ طبع اورلسانی استعداد کا مظہر ہے۔

ماضی میں مثنوی، قصائد، گیت اور آزاد نظموںمیں نعت کہنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہی ہے۔خاص طور پر ملاوجہی کی مثنوی قطب مشتری،غواصی کی سیف الملوک، ابن نشاطی کی ’پھول بن‘ اور نصرتی کی ’علی نامہ‘ اور ’گلشن عشق‘ میں نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔ولی دکنی نے بھی نعتیہ قصائد لکھے ہیں۔ رباعیات، مخمّس، مستزاد میں بھی نعتیں لکھی ہیں۔ اس طرح نعت گویوں کا ایک پورا قافلہ ہے جس میں کرامت علی شہیدی،ؔ لطف علی خاں لطف ؔبریلوی، امیرؔ مینائی، محسنؔ کاکوروی، مولانا ظفرعلی خان، مولانا احمدرضاخان بریلوی اور دیگر لوگوں کے نام آتے ہیں جنھوں نے اردو میں نعت کو ایک نئی توانائی عطا کی اور اسے شوکت ورعنائی سے روشناس کیا، مگرجدید ترین اصناف میں نعتیہ کلام کہنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے، خاص طور پر ہائیکو، ترائیلے اورسانیٹ میں نعتیہ تجربے کم کیے گئے۔عظیمؔ امروہوی کایہ انفراد ی اختصاص کہاجاسکتاہے کہ انھوں نے ترائیلے میں نعتیں کہی ہیں، جس کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے:


ہے جو انساں صاحب خلق عظیم

اس پہ صبح و شام ہوں لاکھوں سلام

اس نے دکھلائی ہے راہِ مستقیم

ہے جو انساں صاحب خلق عظیم

در حقیقت ہے وہ کل عقل سلیم

امن کا اس نے دیا سب کو پیام

ہے جو انساں صاحب خلق عظیم

اس پہ صبح و شام ہوں لاکھوں سلام

ترائیلے ایک فرانسیسی صنف سخن ہے۔ عظیم ؔامروہوی نے اس پر ایک مختصر سا نوٹ لکھاہے کہ: ترائیلے آٹھ مصرعوں پر مشتمل ایک مختصر نظم کو کہتے ہیں۔اس میں ردیفوں کا پیٹرن ہوتاہے۔ پہلے دونوں مصرعوں کی تکرار آخری دونوں مصرعوں میں ہوتی ہے۔ پہلا مصرع پھر چوتھا اور ساتواں مصرع بن کر جلوہ گر ہوتاہے۔ یعنی پہلے مصرع کی تین مرتبہ تکرار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس صنف سخن کا نام Trioletرکھاگیاہے۔ اس صنف سخن کی ابتدا فرانس میں ہوئی۔ فرانسیسی شاعرAdenes Le Roiنے پہلی بار اپنی نظم Cleomadesمیں اس کا تجربہ کیا۔ Patrek Kerayنے پہلی بار 1651میں اسے انگریزی زبان میں داخل کیا۔ Fadrik Rasmanنے جرمن زبان میں اس صنف سخن کو بہت فروغ دیا۔ اردو میں احمدندیم قاسمی، نریش کمار شاد، قاضی سلیم اور فرحت کیفی وغیرہ نے مختلف موضوعات پر ترائیلے کہے ہیں۔ لیکن نعتیہ ترائیلے راقم کی نظر سے نہیں گزرے۔‘‘

اردومیں جو شعری ہیئتیں جدید دور میں وضع کی گئیں یا دوسری زبانوں سے مستعار لی گئی ہیں، ان میں ایک ہائیکو بھی ہے۔یہ جاپانی صنف سخن ہے، جس میں نہ تو ردیف قافیہ کی پابندی ہوتی ہے اورنہ ہی مخصوص بحر کی قید، یہ صرف تین مصرعوں پرمحیط ہوتی ہے۔ اردو میں ہائیکو لکھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور اس پر کافی تحقیق بھی ہوچکی ہے۔ روز بہ روز ہائیکو سے جڑنے والوں کاقافلہ بڑھتا ہی جارہاہے۔ عظیمؔ امروہوی نے اس جاپانی صنف سخن میں بھی نعتیہ تجربہ کیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:


وہ خلق پیکر عظیم رہبر

جو درسِ اخلاق دے گیا ہے

وہی ہے سب سے بڑا پیمبر

جو بشیر ہے ، جو نذیر ہے، وہی دوجہاں کاامیرہے

جو رسول آئے ہیں دہر میں وہ عظیم سب، یہ بجا مگر

نہ مرے نبی ﷺ کی مثال ہے نہ مرے نبی کی نظیر ہے

نعتیہ ہائیکو پر نوٹ لکھتے ہوئے انھوں نے یہ واضح کیاہے کہ ’اردو میں گزشتہ 50-60سال میں چندشعرا نے ہائیکوکہی ہے لیکن نعتیہ ہائیکو راقم کی نظر سے نہیں گزری۔ ‘

یہاں اس بیان کے تعلق سے تھوڑی وضاحت ضروری ہے کہ اطلاعاتی ذرائع اور وسائل کی فراوانی کے باوجود اس امکان سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اردو کائنات میں جو تجربے کیے جارہے ہیں، ان تک ہماری رسائی نہ ہو۔ شاید اسی عدم رسائی کی وجہ سے عظیم ؔامروہوی نے یہ بات کہی ہوگی۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہائیکو میں اس سے پہلے بھی تجربے ہوچکے ہیں۔ بہت پہلے علیم صبانویدی کا ایک مجموعہ ’ترسیلے‘ کے نام سے شائع ہواتھا، جس کے بارے میں پروفیسرسیدسجادحسین صدرشعبہ اردو مدراس یونیورسٹی نے لکھاہے کہ ’ترسیلے علیم صبا کے جدیدانداز کی نعتوں پرمشتمل مجموعہ ہے جو قدیم جاپانی صنف شاعری ہائیکو کے رنگ میں 1986ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں دوقسم کی ہائیکو نظمیں شامل ہیں۔ پابندہائیکو، نثری ہائیکو، اردو میں صنف ہائیکو کو پہلی بار صبانویدی نے نعت گوئی کے مقدس اظہار سے مالامال کیا۔ ’شعاع شرق‘ترسیلے ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔اس میں سارے کے سارے پابند ہائیکو شامل ہیں۔‘

علیم صبا نویدی نے ہی نعتیہ سانیٹ کا سب سے پہلا تجربہ کیا جو ’نورالسموات‘ کے نام سے سامنے آیا۔

ڈاکٹرعظیم ؔامروہوی نے ’رسولیات‘ میں جس طرح کے فنی تجربے کیے ہیں، وہ ان کی قدرت کلامی کا مظہر ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ ان کی زبان میں کوثروتسنیم ملی ہوئی ہے۔ اپنے خیالات کے اظہار میں انھوں نے زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کا خیال رکھاہے۔ خاص طور پر انھوں نے جو نعتیہ قصیدے کہے ہیں،ان میں جو شان وشوکت اور جزالت ہے وہ بڑے کلاسیکی قصیدہ نگاروں کی یاددلاتی ہے۔ ان کا آہنگ اتنابلنداورپرشکوہ ہے اور بلاغت بیان اس قدر کہ میرانیس کے آہنگ کی بازگشت کا احساس ہوتاہے۔


قصیدئہ بعثت‘ سے چندشعرملاحظہ ہوں:

اس کی بعثت جس پہ اترا ہے کلام اللہ کا

دے گیا ہے حشر تک جو اک ہدایت کا چراغ

اس کی بعثت ہے کہ جو دنیا کو یہ بتلا گیا

کس قدر پرنور ہے ایماں کی طاقت کا چراغ

اس کی بعثت ہے کہ جو اللہ کا محبوب ہے

دے گیا دنیا کو الفت کا محبت کا چراغ

اس کی بعثت ہے کہ جوہے اک مدینہ علم کا

جس کے آگے گل ہوا ظلم و جہالت کا چراغ

یہ مدحت رسول صرف سیرت وشمائل تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ حالی کی طرح عظیم ؔامروہوی نے حضورﷺکے پیغام اور تعلیمات کا سلسلہ عہد حاضر کے آشوب سے بھی جوڑاہے۔ جس طرح حالی نے کہا تھا :


اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

اسی طرح عظیمؔ امروہوی نے آج کے اخلاقی زوال اور انسانی بحران کو اپنی نعتیہ شاعری میں پیش کیا ہے اور پھر حضور ﷺ کی سیرت سے اپنارشتہ جوڑنے کی بات یوں کہی ہے کہ وہی چراغ ہدایت ہے جس سے آج کی تاریکیاں دور ہوسکتی ہیں:


آج کے انسان کا کردار بے حد پست ہے

آج انساں کا شرافت سے بھی کچھ رشتہ نہیں

آج انساں کے دلوں میں بھر گیا اتنا نفاق

دل کی سچی بات کوئی لب پہ لاتا ہی نہیں

رسولیات‘پاکیزہ احساسات اور خیالات کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس سے حضورﷺ کی ذات وصفات کے تمام روشن نقوش سامنے آتے ہیں۔ عظیم ؔامروہوی نے کوشش کی ہے کہ خیالات میں افراط وتفریط نہ ہو اور شاید انھوں نے مشروع اور غیرمشروع کا بھی خیال رکھاہوگا مگرپھربھی دیوانہ محبت میں مبالغہ کا شکار ہوہی جاتاہے کہ نعت گوئی ہے ہی مشکل فن۔یہ پل صراط پر چلنے جیسا ہے۔ بہت پہلے عرفی نے کہاتھا:


عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا ست

آہستہ کہ رہ بردم تیغ است قدم را

عظیم ؔامروہوی نے اس نعتیہ مجموعہ میں اپنی تازہ کاری اور جودت طبع کا مکمل ثبوت دیا ہے کیونکہ ان کی نعتیں صرف ایک ہی ہیئت میں مقید نہیں ہیں بلکہ متنوع شعری ہیئتوں میں ان کا ظہور ہواہے۔حقیقت یہ ہے کہ عقیدت ایک ہیئت میں قید نہیں ہوسکتی بلکہ عقیدت اپنے اظہار کے مختلف رنگ اور راستے تلاش کرتی رہتی ہے۔ عظیمؔ امروہوی نے ’رسولیات‘ کے ذریعہ اپنے خیالوں کی خوشبو کو آج کے عہد کی مسموم فضا کے حوالہ کیا ہے، اس امید کے ساتھ کہ:


اتحادباہمی قائم ہو پورے ملک میں

اب رہے روشن سدا مالک محبت کا چراغ

اے خدا ظلم وستم روئے زمیں پر اب نہ ہو

امن کو پھونکے نہ دنیا میں سیاست کا چراغ