نظرؔ لکھنوی ایک گم نام ، قادرالکلام نعت گو ۔ ڈاکٹر عزیز اؔحسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ڈاکٹر عزیز احسن ( کراچی )

نظر ؔلکھنوی ایک گمنام ، قادرالکلام نعت گو

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب رسول ﷺ کے ذکر کو بلندی بخشی تو عالم آب و گِل میں جس ذی نفس نے بھی آپ ﷺ کا محبت، خلوص اور ایمانی حرارت سے مملو تذکرہ کیا اس کو بھی دوام بخش دیا۔ نعت گوئی کا مقدس عمل بھی ایسا ہی عمل ہے کہ جس کسی نے بھی مبداء فیاض سے طبعِ موزوں پائی اور اپنی فکر کومطہر کرکے بارگاہِ نبوی علیٰ صاحبا الصلوٰۃ والسلام میں فنِّ سخن کا نذرانہ پیش کرنے کی پُرخلوص کوشش کی، شہرت و نام وری نے اس کے قدم چومے، چاہے وہ خود گمنام رہنے کی کتنی ہی تدابیر کیوں نہ اختیار کرلے۔ محمد عبدالحمید صدیقی نظر لکھنوی نے۳؍ جولائی ۱۹۲۷ء کو لکھنؤ موضع چنہٹ میں آنکھ کھولی اور ۳؍ جنوری ۱۹۹۴ء کو اسلام آباد میں راہیٔ ملکِ بقا ہوئے۔ اپنے ترکے میں چند نعتیہ بیاضیں چھوڑیں، جنھیں ان کے اکلوتے فرزند محمد احسن صدیقی نے حرزِ جاں بنا لیا۔ نظر لکھنوی مرحوم کو قدرت نے جس فیاضی سے سخن گوئی کی استعدادعطا کی تھی، شہرت و نام وری کی طرف سے اسی قدر بے نیازی ان کی طبیعت کا خاصہ ٹھہری۔ چناںچہ مشاعرہ بازی اور طباعتِ کلام کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے انھوں نے عزلت گزینی کوترجیح دی۔ نتیجتاً وہ اس دارِفانی سے گمنام ہی رُخصت ہوئے۔ وہ خود فرماتے ہیں :

اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں

عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہائو ہُو نہیں

اسپِ سخن ہے میرا بقیدِ زمامِ دیں

دادِ سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں

محمد احسن صدیقی خلف الرشید نظر لکھنوی کا بیان ہے کہ’’ ان کے ابو، روایت پسند تھے اور شاعری کے دبستان کے لیے ایک خاص تعصب رکھتے تھے۔ دبستانِ لکھنؤ پر کی گئی تنقید پڑھتے ضرور تھے لیکن تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ حسنِ شعری کے وہ سارے ظاہری لوازم جو لکھنؤدبستان کی پہچان ہیں، شاعری کی مقصدیت کے ساتھ برتے جاسکتے ہیں۔‘‘ نظر لکھنوی کی قائم کردہ شعری فضا پر بلاشبہ لکھنوی دبستانِ سخن کی روایت کا پرتو ہے۔ انھوں نے محسن کاکوروی کے تتبع میں نشاطیہ شعری مزاج کو مقصدیت سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ محسن کاکوروی نے لکھنوی شاعری کی صنعت گری اور ٹھٹھول بازی کو نعتیہ مضامین کی اعلیٰ مقصدیت سے ہم کنار کیا تھا اور سخن گوئی کی تمام تر صلاحیتیں مدحِ سیدالکونین ﷺ کے لیے وقف کردی تھیں اور اس طرح وہ منفرد لہجے میں نعت کہنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ نظر لکھنوی نے بھی مدحتِ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے اور قادرالکلامی، ردیف و قوافی کی ندرت، فن کی تازہ کاری‘ لفظیاتی مرصع سازی اور فکری طہارت کے جواہر سرکارِ رسالت مآب ﷺ کی نذر کیے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ شعری بنت پر بھرپور توجہ صرف کرنے کے باوجود متن سخن (Poetic text) کو کہیں بھی درجۂ استناد سے کم نہیں ہونے دیا ہے۔ نظر لکھنوی کا شعری عمل (Poetic work) اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ قصیدہ نگاری کی طرف مائل ہوتے تو اس صنفِ سخن میں امتیازی حیثیت حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن ان کے شعری ارژنگ میں قصیدہ کا کوئی مرقع نہیں۔یہاں تو نعتیہ غزلوں کے نقش و نگار اپنی چھب دکھلا رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے قلم کو سپردِ سیل طبع رواں کردیا تھا۔ قصیدے کی فنی ضرورت کے لیے تشبیب کی مصنوعی فضا پیدا کرنا، شاعرانہ غرَّا ظاہر کرنا اور گریز کی گرانی کے مرحلوں سے گزرنا نظر لکھنوی کے طبعی عجزِ ہنر کے منافی تھا۔ اس لیے انھوں نے قصیدے کا کبھی قصد نہیں کیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روایت پسند اور قادرالکلام ہونے کے باوجود قصیدے کو نظر لکھنوی نے فرسودہ صنف سخن گردانا ہو۔ یہ الگ بات کہ قصیدہ نگاری کے ہیئتی نمونے ان کی شاعری میں نہ ہونے کے باوجود ان کی نعتیہ غزلوں میں شکوہ ِلفظی اور نشاطیہ لہجے کی گونج ویسی ہی ہے ‘جیسی قصیدے کا طُرَّۂ امتیاز ہے۔ لکھنوی دبستانِ سخن کی پاسداری ان کے لفظ لفظ سے نمایاں ہے وہ قوافی برتنے اور ردیفیں چمکانے کا ہنر جانتے ہیں۔حبِّ رسول ﷺ کے جذبۂ صادقہ نے ان کے لہجے کو ادب سے ہم کنار کیا ہے۔

ع عشق بن یہ ادب نہیں آتا (میرؔ)

اور فنی اخلاص نے ان کے کلام کو سنوارا ہے۔

نظر لکھنوی نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور ملٹری اکائونٹس راولپنڈی میں تعینات ہوئے اور بیشتر وقت یہیںگزارا۔ علاوہ ازیں اپنی عمرِ عزیز کے آخری دس برس اسلام آباد میں بسر کیے۔ اس شہر کی فضا الحمدللہ نعتیہ شاعری کے لیے بڑی سازگار ہے کیوںکہ یہاں ’’محفلِ نعت‘‘ کے نام سے ایک بزم باقاعدگی سے ہر ماہ نعتیہ مشاعرے منعقد کراتی ہے اور الحمدللہ اس عمل کے استمرار کو بلا تعطل سولہ سال ہو گئے ہیں۔ لیکن اس بزم کے اربابِ بست و کشاد جناب عرشؔ ہاشمی اور جناب سبطین شاہجہانی بھی نظر لکھنوی مرحوم کو دریافت نہیں کرسکے۔ علاوہ ازیں حال ہی میں علامہ قمر رعینی نے ’’تذکرۂ نعت گویانِ راولپنڈی، اسلام آباد‘‘ مرتب فرمایا ہے، یہ تذکرہ بھی نظر لکھنوی کے ذکر سے خالی ہے، راقم الحروف کوخود بڑا افسوس ہورہاہے کہ مرحوم سے شرفِ نیاز حاصل نہیں کر سکا حالاں کہیہ ناچیز ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۲ء تک اسلام آباد ہی میں تھا اور جناب محمد احسن صدیقی خلف الرشید نظر لکھنوی سے ارادت مندی کاشرف بھی اس خاکسارکو حاصل تھا۔ بہرحال نظر لکھنوی مرحوم کے شہرت بیزاری نے انھیں متعارف نہیں ہونے دیا۔ اور اب بقول غالبؔ:

ع شہرتِ شعرم بگیتی بعدِ من خواہد شدن

ان کے کلام کی شہرت ان شاء اللہ پوری دنیا میں ہوگی۔

الحمدللہ ! اب راقم الحروف کی تحریک پر جناب محمد احسن صدیقی اپنے والد گرامی کا نعتیہ کلام مرتب کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ یہ مجموعہ بہت جلد منصہ شہود پرآجائے گا۔ نظر لکھنوی کی نعتوں میں حضور اکرم ﷺ کا حسن صوری بھی منعکس ہے اور حسنِ سیرت بھی، ختمِ نبوت کے مضامین بھی ضوبار ہیں اور عظمتِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی جھلکیوں سے بھی یہ نعتیں مملو ہیں۔ حضور ﷺ کے پیغام کا تحرک (Dynamism) اور دعوتِ عمل کا راست جذبہ بھی ان نعتوں میں لمعہ ریز ہے اور حاضری کی تمنا بھی اشعار کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ اہم بات یہ کہ نعتوں میں شعری محاسن سمونے کے باوجود شاعرانہ تعلی کے بجائے عجزِ ہنر کے مضامین زیادہ ہیں جو اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ شاعر اپنی شعری دانش کے اظہار کو اپنے فن کے حوالے سے کوئی کارنامہ نہیں سمجھتا اور یقینا یہی راہِ صواب ہے، اخلاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔