آپ «نعتیہ برکات (فارسی) ماہنامہ صوفی کے آئینے میں ۔ پروفیسر محمد اقبال جاوید» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 15: سطر 15:


زباں کو شعلہ، دل کو راکھ کر لو
زباں کو شعلہ، دل کو راکھ کر لو


ماضی قریب میں ،میں نے جب اُن سے ایک غزل سنی تو میں ایک گونہ تحیر کے ساتھ انھیں دیکھتا رہا اور جب نعت سنی تو ایک رشک آفریں اور حسرت آمیز کیفیت کے ساتھ خود کو دیکھنے میں محو ہو گیا کہ      ؎
ماضی قریب میں ،میں نے جب اُن سے ایک غزل سنی تو میں ایک گونہ تحیر کے ساتھ انھیں دیکھتا رہا اور جب نعت سنی تو ایک رشک آفریں اور حسرت آمیز کیفیت کے ساتھ خود کو دیکھنے میں محو ہو گیا کہ      ؎
سطر 51: سطر 50:




اپنے منہ سے اپنی تعریف، توہینِ انسانیت ہے اور خود اپنی تعریف سننے کی آرزو، اندھا اور بہرہ ہونے کی واضح دلیل ہے اور یوں جبینِ ناز پر بل پڑنے کا اندیشہ ہے جب کہ حمدونعت ہی وہ مقام ہے جہاں محبت، غیرت کے گرد گھومتی ہے اور دوئی کا کوئی سا نقش بھی گوارا نہیں کرتی۔ تحسین طلبی اور ذاتی فخروناز سے سعادتوں کا قافلہ رک جاتا، فکروخیال کا چشمہ سوکھ جاتا اور اعمال کا حسن یوں سلب ہو جاتا ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا، میں یہ بات فرمودۂ رسولﷺ کی روشنی میں لکھ رہا ہوں کہ وہ زبانِ مبارک کھُلتی ہی صداقتوں کے لیے تھی۔ نعت گوئی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ستائش باہمی کی انجمنوں سے بچنا ضروری ہے، ___ ویسے تحسینِ ناشناس سے سکوتِ قدر شناس کہیں بہتر ہوتا ہے کہ کم از کم اس سے نہ فخر ابھرتا ہے، نہ عُجب بال و پر لیتا ہے اور نہ صلاحیتوں کو زنگ لگتا ہے    ؎
اپنے منہ سے اپنی تعریف، توہینِ انسانیت ہے اور خود اپنی تعریف سننے کی آرزو، اندھا اور بہرہ ہونے کی واضح دلیل ہے اور یوں جبینِ ناز پر بل پڑنے کا اندیشہ ہے جب کہ حمدونعت ہی وہ مقام ہے جہاں محبت، غیرت کے گرد گھومتی ہے اور دوئی کا کوئی سا نقش بھی گوارا نہیں کرتی۔ تحسین طلبی اور ذاتی فخروناز سے سعادتوں کا قافلہ رک جاتا، فکروخیال کا چشمہ سوکھ جاتا اور اعمال کا حسن یوں سلب ہو جاتا ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا، میں یہ بات فرمودئہ رسول V کی روشنی میں لکھ رہا ہوں کہ وہ زبانِ مبارک کھُلتی ہی صداقتوں کے لیے تھی۔ نعت گوئی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ستائش باہمی کی انجمنوں سے بچنا ضروری ہے، ___ ویسے تحسینِ ناشناس سے سکوتِ قدر شناس کہیں بہتر ہوتا ہے کہ کم از کم اس سے نہ فخر ابھرتا ہے، نہ عُجب بال و پر لیتا ہے اور نہ صلاحیتوں کو زنگ لگتا ہے    ؎




سطر 75: سطر 74:




___ اورپھر خیال و جمال اُس ذات گرامی قدرﷺ کا، جو مسکرائی تو چمنستانِ کونین کے غنچوں نے ہنسنا سیکھا، جس کے خرامِ ناز نے ریت کو ریشم کا لوچ دیا، جس کی گردِ سفر نے فضائے کہکشاں کو نورانی بنا دیا، رفتار سے لے کر کردار تک جس کا ایک ایک رخ اور ایک ایک زاویہ، تاریخ انسانی کا ایک دل آویز موڑ بن گیا، جس کے کوچے میں پہنچ کر، خود وقت کو سکون ملتا اور گردشِ ایام رک جاتی ہے، جس کے سایۂ دیوار میں ہر آبلہ پا، سستا سکتا ہے اور جس کے سانسوں کی مہک کا فیض ہے کہ عرب کا ریگستان، ایک عالم کو نکہتیں بانٹتا چلا جا رہا ہے                            ؎
___ اورپھر خیال و جمال اُس ذات گرامی قدر V کا، جو مسکرائی تو چمنستانِ کونین کے غنچوں نے ہنسنا سیکھا، جس کے خرامِ ناز نے ریت کو ریشم کا لوچ دیا، جس کی گردِ سفر نے فضائے کہکشاں کو نورانی بنا دیا، رفتار سے لے کر کردار تک جس کا ایک ایک رخ اور ایک ایک زاویہ، تاریخ انسانی کا ایک دل آویز موڑ بن گیا، جس کے کوچے میں پہنچ کر، خود وقت کو سکون ملتا اور گردشِ ایام رک جاتی ہے، جس کے سایۂ دیوار میں ہر آبلہ پا، سستا سکتا ہے اور جس کے سانسوں کی مہک کا فیض ہے کہ عرب کا ریگستان، ایک عالم کو نکہتیں بانٹتا چلا جا رہا ہے                            ؎




سطر 89: سطر 88:


موجِ صبا کے ہاتھ میں ان کا سراغ ہے
موجِ صبا کے ہاتھ میں ان کا سراغ ہے


اس رواں دواں خوشبو کے ذکر نے، اگر پروفیسر محمدعبداللہ جمال کے نعتیہ مجموعے کو حرف حرف خوشبو بنا دیا ہو تو یہ شعری مبالغہ نہیں بلکہ واقعاتی حقیقت ٹھہرے گی۔
اس رواں دواں خوشبو کے ذکر نے، اگر پروفیسر محمدعبداللہ جمال کے نعتیہ مجموعے کو حرف حرف خوشبو بنا دیا ہو تو یہ شعری مبالغہ نہیں بلکہ واقعاتی حقیقت ٹھہرے گی۔


 
میں یہ بات تعریف کے رنگ میں نہیں بلکہ تعارف کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ اُن کی نعت گوئی میں سوچ کے نئے زاویے اور اسلوب کے جدید انداز ہیں، سیرت پاک V کا جمال لفظ لفظ لَو دے رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ نعت، جب سے ممدوح عظیم و جلیل V کی سیرت کا آئینہ بنی ہے، تب سے وہ ذہنی تطہیر اور فکری تہذیب کا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔ کیوں کہ سیرت کے یہی وہ نقوش ہیں جن کی روشنی ہر دور کے بھٹکتے انسان کے لیے منزل نشاں ہے اور زیرنظر نعتیہ مجموعے میں، محبت و عقیدت کے سلسلے، تحسینِ سیرت ہی سے پھلتے، پھولتے اور پھیلتے دکھائی دیتے ہیں                                ؎
میں یہ بات تعریف کے رنگ میں نہیں بلکہ تعارف کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ اُن کی نعت گوئی میں سوچ کے نئے زاویے اور اسلوب کے جدید انداز ہیں، سیرت پاکﷺ کا جمال لفظ لفظ لَو دے رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ نعت، جب سے ممدوح عظیم و جلیﷺ کی سیرت کا آئینہ بنی ہے، تب سے وہ ذہنی تطہیر اور فکری تہذیب کا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔ کیوں کہ سیرت کے یہی وہ نقوش ہیں جن کی روشنی ہر دور کے بھٹکتے انسان کے لیے منزل نشاں ہے اور زیرنظر نعتیہ مجموعے میں، محبت و عقیدت کے سلسلے، تحسینِ سیرت ہی سے پھلتے، پھولتے اور پھیلتے دکھائی دیتے ہیں                                ؎




سطر 114: سطر 111:




اور یہ بھی مقامِ شکر ہے کہ اُن کے ذہن کی بیداری نے کسی مقام پر بھی جنوں کو تماشا نہیں بننے دیا، ہر گام پر عقیدت، عقیدے کی انگلی تھام کر چل رہی ہے اور جذب و سرور کے والہانہ پن کے ساتھ ساتھ ان کے ایمائی لہجے کی فنکارانہ گرفت، یقینا اہلِ دل کو مدتوں مسحورِ لذت رکھے گی۔ چوں کہ پروفیسر محمدعبداللہ جمال غزل گو بھی ہیں اور غزل ، قطرے میں سمندر سمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے جب ایک غزل گو اپنی تمام تر ایمائی بلاغت آفرینیوں کے ساتھ نعت کہتا ہے تو نعت میں بھی تاثر کی ایک دنیا سمٹ جاتی ہے کہ وہاں بات ذہن سے اُبھرتی ہے اور یہاں د ل کی گہرائیوں سے، غزل شاعری کی ایک بے ساختہ اور لطیف شکل ہے۔ یہ ایک تصوراتی دنیا ہے اور اس کا محبوب بھی ایک تخیلاتی پیکر اور اس کی یاد بھی محض شاعرانہ بات، یاد کی تڑپ بھی ایک مصنوعی جذبہ اور تڑپ کا گداز بھی ایک خودساختہ کیفیت، اسی لیے شاعر تصورات کی بے نام وادیوں میں خود بھی بہکتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں، قرآن نے اسی بنیاد پر شعر کی مخالفت کی۔ مگر وہ اشعار جو واقعیت اور صداقت کے گرد گھومتے ہوں، جو گم کردہ راہ، انسانیت کو نشان منزل دیں، اسلام انھیں قدر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب غزل میں متصوفانہ افکار کی آمیزش ہوئی تو غزل سنور گئی، اس کا تیکھا پن دل میں ترازو ہونے لگا اور اس کا مبالغہ، گداز بن کر، نشاطِ روح ہو گیا، اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جب سے غزل گو شعرا میں نعت گوئی کا شوق اُبھرا ہے، اس وقت سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے صدیوں سے بھٹکنے والے مسافر کو ایک ساعت میں منزل مل گئی ہو، جیسے جبینِ شوق کو ایک واضح چوکھٹ نظر آ گئی ہو، جیسے جذبے کو کیف، کیف کو گداز اور گداز کو رنگ و نکہت کی ایک ایسی نظر افروز کہکشاں نصیب ہو گئی ہو، جو فی الواقع تمناؤں کا حاصل ہواور یہ صرف حضورﷺ کی مدحت کا فیض ہے  ؎
اور یہ بھی مقامِ شکر ہے کہ اُن کے ذہن کی بیداری نے کسی مقام پر بھی جنوں کو تماشا نہیں بننے دیا، ہر گام پر عقیدت، عقیدے کی انگلی تھام کر چل رہی ہے اور جذب و سرور کے والہانہ پن کے ساتھ ساتھ ان کے ایمائی لہجے کی فنکارانہ گرفت، یقینا اہلِ دل کو مدتوں مسحورِ لذت رکھے گی۔ چوں کہ پروفیسر محمدعبداللہ جمال غزل گو بھی ہیں اور غزل ، قطرے میں سمندر سمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے جب ایک غزل گو اپنی تمام تر ایمائی بلاغت آفرینیوں کے ساتھ نعت کہتا ہے تو نعت میں بھی تاثر کی ایک دنیا سمٹ جاتی ہے کہ وہاں بات ذہن سے اُبھرتی ہے اور یہاں د ل کی گہرائیوں سے، غزل شاعری کی ایک بے ساختہ اور لطیف شکل ہے۔ یہ ایک تصوراتی دنیا ہے اور اس کا محبوب بھی ایک تخیلاتی پیکر اور اس کی یاد بھی محض شاعرانہ بات، یاد کی تڑپ بھی ایک مصنوعی جذبہ اور تڑپ کا گداز بھی ایک خودساختہ کیفیت، اسی لیے شاعر تصورات کی بے نام وادیوں میں خود بھی بہکتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں، قرآن نے اسی بنیاد پر شعر کی مخالفت کی۔ مگر وہ اشعار جو واقعیت اور صداقت کے گرد گھومتے ہوں، جو گم کردہ راہ، انسانیت کو نشان منزل دیں، اسلام انھیں قدر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب غزل میں متصوفانہ افکار کی آمیزش ہوئی تو غزل سنور گئی، اس کا تیکھا پن دل میں ترازو ہونے لگا اور اس کا مبالغہ، گداز بن کر، نشاطِ روح ہو گیا، اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جب سے غزل گو شعرا میں نعت گوئی کا شوق اُبھرا ہے، اس وقت سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے صدیوں سے بھٹکنے والے مسافر کو ایک ساعت میں منزل مل گئی ہو، جیسے جبینِ شوق کو ایک واضح چوکھٹ نظر آ گئی ہو، جیسے جذبے کو کیف، کیف کو گداز اور گداز کو رنگ و نکہت کی ایک ایسی نظر افروز کہکشاں نصیب ہو گئی ہو، جو فی الواقع تمنائوں کا حاصل ہواور یہ صرف حضورV کی مدحت کا فیض ہے  ؎




فرمانروائے قلب و نظر، رحمتِ تمام
فرمانروائے قلب و نظر، رحمتِ تمام


مردِ جلیل، خضر ملل، والئ انام
مردِ جلیل، خضر ملل، والیء انام


تو نے خیال و ذہن کو بخشا ہے وہ مقام
تو نے خیال و ذہن کو بخشا ہے وہ مقام
سطر 128: سطر 125:


حیرت شکستہ آئینے لائی خراج کو
حیرت شکستہ آئینے لائی خراج کو


غزل نے شاعری کو محض کیفیات کا ترجمان بنایا جب کہ نعت نے دل کو ایسا محبوب دیا جو حُسنِ کائنات بھی ہے اور کائناتِ حُسن بھی۔ جو ازل  انوار بھی ہے اور ابد آثار بھی    ؎
غزل نے شاعری کو محض کیفیات کا ترجمان بنایا جب کہ نعت نے دل کو ایسا محبوب دیا جو حُسنِ کائنات بھی ہے اور کائناتِ حُسن بھی۔ جو ازل  انوار بھی ہے اور ابد آثار بھی    ؎
سطر 136: سطر 132:


زمانِ ماضی و عصرِ روان و آیندہ
زمانِ ماضی و عصرِ روان و آیندہ


دیارِ ناز میں حاضر ی کی آرزو، پروفیسر محمدعبداللہ جمال کے اشعار میں جابجا مچل رہی ہے۔ یہ تمنا، بجائے خود حُسن کی ایک دنیا ہے، تصور کی جنت اور سوچ کی ایک حسین دھنک ہے اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ کسے، کب باریاب فرمانا ہے اور کسے انتظار کی شدت میں رکھنا ہے کہ انتظار میں جوشِ آرزو تیزتر ہوتا رہتا ہے اور آرزو کا یہی وہ سوز ہے جس سے شعر کی تاثیر، قاری کے دل کو یوں نوازتی ہے جیسے بادِسحرگاہی کا نم، شاخِ گل کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے    ؎
دیارِ ناز میں حاضر ی کی آرزو، پروفیسر محمدعبداللہ جمال کے اشعار میں جابجا مچل رہی ہے۔ یہ تمنا، بجائے خود حُسن کی ایک دنیا ہے، تصور کی جنت اور سوچ کی ایک حسین دھنک ہے اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ کسے، کب باریاب فرمانا ہے اور کسے انتظار کی شدت میں رکھنا ہے کہ انتظار میں جوشِ آرزو تیزتر ہوتا رہتا ہے اور آرزو کا یہی وہ سوز ہے جس سے شعر کی تاثیر، قاری کے دل کو یوں نوازتی ہے جیسے بادِسحرگاہی کا نم، شاخِ گل کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے    ؎
سطر 145: سطر 140:
کیا ہر ستارہ اہلِ طلب کی جبیں نہیں
کیا ہر ستارہ اہلِ طلب کی جبیں نہیں


 
یاد رہے کہ نعت گوئی ایک انتہائی مشکل صنف سخن ہے، یہ عبادت ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ، فرشتوں کی ہم زبانی بھی ہے۔ یہ محض ترکیب سازی اور قافیہ بندی نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں لفظ لفظ شریعت اور عقیدت کے پہرے ہیں۔ غزل گوئی ذوق اور ظرف کا امتحان ہے جب کہ نعت گوئی عقیدت اور عقیدے کی کڑی آزمائش ہے۔ اسی منزل پر شعری دنیا میں، جولانی ٔ گفتار کے جلوے دکھانے والے انگشت بدنداں اور سر بہ گریباں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ درُود و سلام کی ایک نغماتی شکل ہے اور درُودوسلام مقصودِ فطرت بھی ہے اور رمزِ مسلمانی بھی۔ یہ امر، احقر کے لیے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کہ زیرنظر نعتوں میں عقیدے کے افتخار اور عقیدت کے نکھار کے ساتھ ساتھ عجز کا وقار بھی ہے اور عجز ہی وہ عبادت ہے جو ادا ہونے سے پہلے ہی مقبول ہو جاتی ہے۔ عجز، بندوں ہی کی متاعِ ناز ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو اللہ کے ہاں نہیں ہے۔ عجزونیاز ہی میں نیت کا حسن اور دل کا خلوص، منتہائے کمال کو پہنچ کر ہم آہنگ ہو جاتا ہے                      ؎
یاد رہے کہ نعت گوئی ایک انتہائی مشکل صنف سخن ہے۔ یہ عبادت ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ فرشتوں کی ہم زبانی بھی ہے۔ یہ محض ترکیب سازی اور قافیہ بندی نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں لفظ لفظ شریعت اور عقیدت کے پہرے ہیں۔ غزل گوئی ذوق اور ظرف کا امتحان ہے جب کہ نعت گوئی عقیدت اور عقیدے کی کڑی آزمائش ہے۔ اسی منزل پر شعری دنیا میں، جولانی ٔ گفتار کے جلوے دکھانے والے انگشت بدنداں اور سر بہ گریباں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ درُود و سلام کی ایک نغماتی شکل ہے اور درُودوسلام مقصودِ فطرت بھی ہے اور رمزِ مسلمانی بھی۔ یہ امر، احقر کے لیے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کہ زیرنظر نعتوں میں عقیدے کے افتخار اور عقیدت کے نکھار کے ساتھ ساتھ عجز کا وقار بھی ہے اور عجز ہی وہ عبادت ہے جو ادا ہونے سے پہلے ہی مقبول ہو جاتی ہے۔ عجز، بندوں ہی کی متاعِ ناز ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو اللہ کے ہاں نہیں ہے۔ عجزونیاز ہی میں نیت کا حسن اور دل کا خلوص، منتہائے کمال کو پہنچ کر ہم آہنگ ہو جاتا ہے                      ؎




سطر 153: سطر 147:
میں آسماں پہ سہی، پھر بھی رہ گزر میں ہوں
میں آسماں پہ سہی، پھر بھی رہ گزر میں ہوں


 
حضرت حسانؓ کی نعت گوئی کے لیے خود حضور V روح القدس سے تائید طلب فرمایا کرتے تھے۔ چوں کہ نعت، ارشادِ خداوندی کی تعمیل کی ایک سعی ٔجمیل ہے۔ اس لیے جب کوئی شاعر اپنے دل کی ساری عقیدتوں، روح کی ساری لرزشوں، نگاہوں کی ساری تمنائوں کو سمیٹ کر اور نوکِ مژگاں پر حیات و کائنات کی ساری رعنائیوں کو تول کر، نعت کے لیے قلم اُٹھاتا ہے تو محبوبِ حقیقی کے ملکوتی ہونٹوں پر تبسم سا بکھر جاتا ہے اور یہی وہ تبسم ہے جو فکر کو لذت و حلاوت، اظہاروادا کو نیرنگی و طرفگی اور دل کی دنیا کو سوزوتڑپ کا ایک حسین انداز دے جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سطور بالا میں نعت گوئی کو عبادت کی ایک شکل قرار دیا ہے۔
حضرت حسانؓ کی نعت گوئی کے لیے خود حضور روح القدس سے تائید طلب فرمایا کرتے تھے۔ چوں کہ نعت، ارشادِ خداوندی کی تعمیل کی ایک سعی ٔجمیل ہے۔ اس لیے جب کوئی شاعر اپنے دل کی ساری عقیدتوں، روح کی ساری لرزشوں، نگاہوں کی ساری تمناؤں کو سمیٹ کر اور نوکِ مژگاں پر حیات و کائنات کی ساری رعنائیوں کو تول کر، نعت کے لیے قلم اُٹھاتا ہے تو محبوبِ حقیقی کے ملکوتی ہونٹوں پر تبسم سا بکھر جاتا ہے اور یہی وہ تبسم ہے جو فکر کو لذت و حلاوت، اظہار و ادا کو نیرنگی و طرفگی اور دل کی دنیا کو سوزوتڑپ کا ایک حسین انداز دے جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سطور بالا میں نعت گوئی کو عبادت کی ایک شکل قرار دیا ہے۔


جمالِ صورت کے ساتھ ساتھ کمالِ سیرت کے بیان نے، اس مجموعۂ نعت کو ایک واقعاتی تاثر اور ایک تہذیبی وقار بخش دیا ہے۔
جمالِ صورت کے ساتھ ساتھ کمالِ سیرت کے بیان نے، اس مجموعۂ نعت کو ایک واقعاتی تاثر اور ایک تہذیبی وقار بخش دیا ہے۔


پروفیسر رشید احمد صدیقی کے الفاظ میں:
پروفیسر رشید احمد صدیقی کے الفاظ میں:


’’عشقِ رسولﷺ آئین ملت ہی نہیں، تعبیر و تعمیر انسانیت بھی ہے۔‘‘
’’عشقِ رسولﷺ آئین ملت ہی نہیں، تعبیر و تعمیر انسانیت بھی ہے۔‘‘


 
اور سچ یہ ہے کہ نعت ،حضور Vسے قلبی وابستگی کا ایک خوب صورت اظہار ہے اور اسی سے شوق وطلب کو محبت کا وہ معیار ملتا ہے کہ ہر ماسوا، سراپائے استحقا پر ہوتا ہے  ؎
اور سچ یہ ہے کہ نعت ،حضور ﷺسے قلبی وابستگی کا ایک خوب صورت اظہار ہے اور اسی سے شوق وطلب کو محبت کا وہ معیار ملتا ہے کہ ہر ماسوا، سراپائے استحقا پر ہوتا ہے  ؎




سطر 172: سطر 162:
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت


حق یہ ہے کہ ذکرِ حضور نے شاعری ہی کو نہیں،جملہ اصناف ادب کو تعمیروتطہیر کے لافانی نقوش عطا کیے ہیں                              ؎
حق یہ ہے کہ ذکرِ حضور V نے شاعری ہی کو نہیں،جملہ اصناف ادب کو تعمیروتطہیر کے لافانی نقوش عطا کیے ہیں                              ؎




آہ و فغاں بھی، شعروادب بھی ہے، ان کا فیض
آہ و فغاں بھی، شعروادب بھی ہے، ان کا فیض


پیشِ حضورﷺاپنی متاعِ ہنر کریں
پیشِ حضورؓ اپنی متاعِ ہنر کریں


اکبر، حالی، اور اقبال کی روح پرور غزل میرے اس خیال کی مؤید ہے اور یہ ایک ناقابلِ تردید صداقت ہے کہ اقبال کے بالواسطہ وبلاواسطہ اثرات سے اُردو شعروادب صدیوں مستنیر رہے گا۔ صرف اس لیے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے لیے اُس پیغام کو چن لیا تھا جو صدہا صداقتوں کا صدف اور بے خزاں بہاروں کا امین ہے ___ اور یہی وہ ذکر ہے جس سے خود زبان و قلم کو آبرو اور قلب و نظر کو کیف ملتا ہے، یہی وہ تذکرہ ہے جس نے ہر دور کی سرگرداں عقل کو سکونِ منزل، بھٹکتے ہوئے شعور کو قلبی بینائی اور بے ذوق سجدوں کو روحانی زیبائی عطا کی ہے اور اس مجموعۂ نعت میں یہی سکون، یہی رعنائی اور یہی زیبائی، دامن کش قلب ونظر ہے اور یہ خصوصیات عام نہیں، خاص ہیں۔ معمولی نہیں، غیرمعمولی ہیں۔


اکبر، حالی، اور اقبال کی روح پرور غزل میرے اس خیال کی مؤید ہے اور یہ ایک ناقابلِ تردید صداقت ہے کہ اقبال کے بالواسطہ و بلا واسطہ اثرات سے اُردو شعر و ادب صدیوں مستنیر رہے گا۔ صرف اس لیے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے لیے اُس پیغام کو چن لیا تھا جو صدہا صداقتوں کا صدف اور بے خزاں بہاروں کا امین ہے ___ اور یہی وہ ذکر ہے جس سے خود زبان و قلم کو آبرو اور قلب و نظر کو کیف ملتا ہے، یہی وہ تذکرہ ہے جس نے ہر دور کی سرگرداں عقل کو سکونِ منزل، بھٹکتے ہوئے شعور کو قلبی بینائی اور بے ذوق سجدوں کو روحانی زیبائی عطا کی ہے اور اس مجموعۂ نعت میں یہی سکون، یہی رعنائی اور یہی زیبائی، دامن کش قلب ونظر ہے اور یہ خصوصیات عام نہیں، خاص ہیں۔ معمولی نہیں، غیرمعمولی ہیں۔
میں نے نعت گوئی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ دراصل محمدعبداللہ جمال کے نعتیہ اشعار کے مطالعہ ہی سے اُبھرے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ ان خیالات کے پردے میں بات اُنھی کے مضامین و مقاصد کی ہے کیوں کہ میں فن ہی سے نہیں، فنکار سے بھی بہ خوبی آشنا ہوں اور خود کو بجاطور پر ’’محرمِ رازدرونِ میخانہ‘‘ کہہ سکتا ہوں۔ یہ امر میرے لیے وجہِ تشکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ ایسے غیرشاعر اور بے مایہ انسان کو نعت گو حضرات کے قلم چومنے کی توفیق ارزانی فرمائی ہے۔ میں اسی نسبت کو، اپنے لیے وثیقۂ آخرت سمجھتا ہوں    ؎
 
 
میں نے نعت گوئی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ دراصل محمدعبداللہ جمال کے نعتیہ اشعار کے مطالعہ ہی سے اُبھرے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ ان خیالات کے پردے میں بات اُنھی کے مضامین و مقاصد کی ہے کیوں کہ میں فن ہی سے نہیں، فنکار سے بھی بہ خوبی آشنا ہوں اور خود کو بجاطور پر ’’محرمِ راز درونِ میخانہ‘‘ کہہ سکتا ہوں۔ یہ امر میرے لیے وجہِ تشکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ ایسے غیرشاعر اور بے مایہ انسان کو نعت گو حضرات کے قلم چومنے کی توفیق ارزانی فرمائی ہے۔ میں اسی نسبت کو، اپنے لیے وثیقۂ آخرت سمجھتا ہوں    ؎




سطر 193: سطر 181:


یہ میری سوچ کا محور نہیں کہ کیا ہوں میں
یہ میری سوچ کا محور نہیں کہ کیا ہوں میں


میں نے اپنے اِس مضمون میں نعت گو کے اشعار کا کوئی حوالہ ارادتاً نہیں دیا کہ میں اپنا انتخاب قارئین پر مسلط نہیں کرنا چاہتا اور نہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ کتاب میں صرف اتنے ہی اشعار قابلِ ذکر ہیں۔ یوں قاری اور شاعر دونوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ویسے بھی تعارفی سطور کا مقصد، قاری کے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز لگانا ہے، نہ کہ اُس پر اپنی پسند ٹھونسنا۔
میں نے اپنے اِس مضمون میں نعت گو کے اشعار کا کوئی حوالہ ارادتاً نہیں دیا کہ میں اپنا انتخاب قارئین پر مسلط نہیں کرنا چاہتا اور نہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ کتاب میں صرف اتنے ہی اشعار قابلِ ذکر ہیں۔ یوں قاری اور شاعر دونوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ویسے بھی تعارفی سطور کا مقصد، قاری کے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز لگانا ہے، نہ کہ اُس پر اپنی پسند ٹھونسنا۔


نعتیہ مجموعہ ’’مہرِجہاں فروز‘‘۔
نعتیہ مجموعہ ’’مہرِجہاں فروز‘‘۔
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)