نعت گوئی اور ہندو شعرأ - خورشید ملک

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

خورشید ملک ( کلکتہ)

نعت گوئی اور ہندو شعراء

لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے۔ اس کے معنی کسی شخص میں قابلِ تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ لیکن اب اس لفظ کو حضور سرورِ کائنات ﷺ کی تعریف و توصیف کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ اردو شاعری کی شاید ہی کوئی ایسی صنف ہو جس میں نعت نہ کہی گئی ہو۔ اسی لئے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ یوں تو زمانہ ٔ قدیم سے ہی نعت کہنے کی روایات ہمارے سامنے ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانے میں ہی عربی زبان کے شعرأ نے نعت کہنا شروع کر دیا تھا. ان شعرأ میں سب سے نمایا ں نام حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کاہے جن کی نعت گوئی حضور خود سنتے اور داد سے بھی نوازتے تھے۔ مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ایک جگہ بھی مخصوص کی گئی تھی جہاں حضور کے سامنے بیٹھ کر وہ نعت سناتے تھے۔ قرآن میں جا بجا اللہ خود اپنے محبوب کی تعریف کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَک ( اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کیا )

جس کی تخلیق پر اللہ خود نازاں ہواور مدح سرائی فرما ئی ہواس کی تعریف ہم سے کہاں ہو سکتی ہے تا ہم اردو زبان کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جس نے حضور ﷺ کی شان میں نعت نہ کہی ہو۔ نعت گوئی آسان نہیں۔ یہ دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔ ایک اچھا نعت گو وہی ہو سکتا ہے جو حضور کی ذات سے لگاؤ اور عشقِ رسول ﷺ میں ڈوبا ہوا ہو۔حضور کی ساری زندگی کا مطالعہ ، دین کی باریکیاں اور قرآن کی سمجھ اور حدیث سے واقفیت ہو۔ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ نعت گوئی کا محرک قرآن ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب کی شان میں جن الفاظ کا استعمال کیا ہے اس کا ثانی تو ہو ہی نہیں سکتا۔ حضرت احمد رضا خان بریلوی جنکا نام لئے بغیر کوئی بھی نعتیہ مضمون مکمل نہیں ہو سکتا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ:

’’ قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی۔‘‘

مولانا رؤف ؔامروہوی کہتے ہیں۔ ؎

لکھوں کیا وصف شاہ انس و جاں سے زباں اللہ کی لاؤں کہاں سے

اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔ یعنی ’’ نعت گوئی اور ہندو شعرأ‘‘ یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان میں نعت گوئی کا سلسلہ کب سے شروع ہوا لیکن جو تحریریں سامنے آئی ہیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کبیر ؔ کے زمانے میں بھلے ہی دوہے کی شکل میں مگر نعت کہی جاتی تھی۔ کبیر ؔ نے ایک جگہ اپنے دوہے میں لکھا ہے۔ ؎


عدد نکالو ہر چیز سے چو تن کر لو دائے

دو ملا کے پچگن کر لو بیس کا بھاگ لگا ئے

باقی بچے کے نو تن کر لو دو اس میں دو اور ملائے

کہت کبیرؔ سنو بھائی سادھو نام محمد آئے

اس طرح گرو گرنتھ میں آتا ہے۔


میم محمد من تو من کتابہ چار

من خدائے رسول نوں سچا یہ دربار

ویسے تو غیر مسلم شعرأ کی نعت گوئی کا آغاز جنوبی ہند سے ہو چکا تھا۔ ان شعرأ نے عقیدت و محبت کے اظہار کے لئے حضور اکرم ﷺ کی سیرت و نعت کو اپنی تخلیقات کاموضوع بنایا۔لیکن حقیقی دور ۱۸۵۷ ؁ ء کی جنگ آزادی کے بعد سے شروع ہوا۔

عصر جدید میں ہمیں متعدد ایسے غیر مسلم شعرأ ملتے ہیں جنہوں نے اس میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس کے مختلف اسباب رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی پُر کشش ذاتِ مبارک اور آپ کا دنیا پر بلا تفریق قوم و ملت کے احسانات سے متاثر ہوکر ان شعرأ نے آپ کو نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔ دوسری بڑی وجہ رواداری کی وہ فضا ہے جو جنگِ آزادی کے بعد ہندو مسلم قوموں میں پہلے کی بہ نسبت کچھ زیادہ نمایاں ہو گئی تھی۔ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی خواہش نے بھی اس میں اہم کردار نبھایا۔ مخلوط معاشرے میں اگرچہ ہند و مسلم تعلقات میں ایک کشیدگی ہمیشہ رہی اور دونوں قوموں کے تہذیب و تمدن میں واضح اختلاف رہا ، اس کے باوجود اہل فکر و قلم کے حلقوں میں رواداری کی ایک انوکھی فضا ملتی ہے۔

غیر مسلم شعرأ کی نعتوں کو جمع کرنے کی سب سے پہلی کوشش مشہور شاعر مرحوم والی ؔ آسی نے کی تھی اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں تو اردو میں غیر مسلم نعت گو شعرأ کی تعداد کئی سو تک پہنچتی ہے۔ لیکن نور ؔ میرٹھی نے جو کتاب ’’ بہ ہر زماں بہ ہر زماں ‘‘ مرتب کی وہ بہت اہمیت کی حامل ہے اس میں انہوں نے تین سو چھتیس (۳۳۶) ہندو شعرأ کی نعتوں کو یک جا کیا ہے۔ چند مشہور ہندو نعت گو شعرأ درج ذیل ہیں۔

٭عصر جدید میں پہلے غیر مسلم اہم نعت گو شاعر منشی شنکر لال ساقیؔ ۱۸۹۰؁ء ہیں۔ انہوں نے اردو و فارسی دونوں زبان میں اشعار کہے۔


جیتے جی روضۂ اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا

روح جنت میں بھی ہوگی تو ترستی ہوگی

نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے

کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہوگی

( محمد دین فوق، اذانِ بت کدہ ص ۳۵۔۳۳)

٭مہاراجہ سر کشن پرشاد شادؔ ( م ۱۳۵۹ ؁ھ ) پہلے معروف ہندو نعت نگار تھے جنہوں نے کثیر تعداد میں نعتِ رسول ﷺ کہی۔ آپ کے اشعار جذب و شوق اور حب رسول سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کسی غیر مسلم کا کلام ہے۔ آپ نے نبی کریم ﷺ کے ظاہری جمال کے بارے میں متعدد اشعار لکھے ہیں جن میں آپ کے زلف و عارض ، خد و خال اور ابروقامت کے حسن کو تشبیہ اور استعارہ کی شکل میں پیش کیا ہے اور ان میں عربی الفاظ و تراکیب بھی ملتی ہیں۔ آپ کا مجموعہ دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔


کافر ہوں کہ مومن ہوں خدا جانے میں کیا ہوں

پر بندہ ہوں اس کا جو ہے سلطان مدینہ

مدینہ کو چلوں دربار دیکھوں

رسول اللہ کی سرکار دیکھوں

( کشن پرشاد شادؔ ، ہدیۂ شاد ص ۹۲ )

٭دلو رام کوثری ( ۱۳۶۵؁ھ ) بھی نعت گوئی میں بہت مشہور ہوئے۔ برِصغیر کے مشہور صوفی پیر جماعت علی شاہ نے آپ کی شاعری سے متاثر ہوکر آپ کو’’ حسان الہند ‘‘کا لقب دیا تھا۔آپ نبی کریم ﷺکی محبت و شفقت اور حلم و در گزر سے بہت متاثر تھے اس لئے آپ نے انہیں ہی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ جیسے۔ ؎


کچھ عشق محمد میں نہیں شرط مسلماں

ہے کوثری ہندو بھی طلب گار محمد

( محمد دین فوق، اذان بتکدہ ص ۲۴)

٭عرشؔ ملیسانی بھی صا حب دیوان نعت گو شعرأ میں سے ہیں۔ آپ کے مجموعہ کا نام ’’آہنگ حجاز ‘‘ ہے۔ آپ کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے اپنی شاعری کے ذرریعہ مسلم ہندو کے مخلوط معاشرے میں مذہبی تعصب سے اوپر اٹھ کر با ہمی محبت و یگانگت کو فروغ دیا۔ آپ کی شاعری میں نبی کی ذات سے عقیدت و محبت دلی تڑپ اور خلوص کی چاہت پائی جاتی ہے۔ جیسے۔ ؎


تیرے عمل کے درس سے گرم ہے خون ہر بشر حسن نمود زندگی ، رنگ رخ حیات ِ نو

( عرش ؔ ملیسانی ،آہنگ حجاز ص ع)

دیگر ہندو نعت گو شعرا ٔ کرام میں منشی بالا سہائے متصدی ( پرچہ در شان محمد مصطفی ۱۹۰۵؁ء، جلسہ مولود شریف مع غزلیات و نعت محمد مصطفی ۱۹۰۷؁ء ) ، پنڈت شیو ناتھ چک کیف ؔ م ۱۹۱۴؁ء مناجات ِ کیف ۱۸۹۸؁ ء ، دیوان ِ کیف ۱۹۰۷؁ء) ، منشی لتا پرشاد شادؔ ۱۹۵۹؁ء۔ ۱۸۸۶؁ء( مخزن اسرار معرفت ، نالۂ دل خراش ۱۹۴۹؁ء ، پنجہ ٔ پنجتن ) ، پربھو دیال رقم ؔ ( پ ۱۸۹۱؁ء ( تحفہ ٔ عید میلاد النبی ۱۹۵۸؁ء ) ، پنڈت دیا شنکر نسیم ؔ لکھنوی ۱۸۱۱؁ء۔ ۱۸۴۴؁ ء۔ ( مثنوی گلزار نسیم ) ، شیو پرشاد وہبی ؔ لکھنوی ( مرقع از ژنگ ۱۸۸۰؁ء ) منشی درگا سہائے سرور ؔ جہان آبادی ۱۸۷۳؁ء سے ۱۹۱۰؁ء ( جام سرور ، خم خانہ ٔ سرور ) ، مہر لال سونی ضیا ؔ ( پ ۱۹۱۳؁ء ) ( طلوع ۱۹۳۳؁ء ، نئی صبح ۱۹۵۱؁ء، گردِ راہ ۱۹۶۲؁ء چاند بہاری لال ماتھرصبا(پ ۱۸۸۵ء) جگن ناتھ آزادؔ (۱۹۱۸ء) کنور مہندر سنگھ بیدی (پ ۱۹۱۰ء) منشی روپ چند ،پیارے لال رونقؔ، چندی پرشاد شیدؔا،مہاراج بہادر برقؔ، منشی لچھمی نرائن سخاؔ، تربھون شنکر عارفؔ،پنڈت ہری چند اخترؔ ، پنڈت لبھو رام جوشؔ ملیسانی ، علامہ تربھون ناتھ زار ؔ ژ تشی دہلوی ، تلک چند محروم ؔ ، گوپی ناتھ امنؔ، پنڈت نوبت رائے نظر ؔ ، پنڈت امر ناتھ آشفتہ ؔ دہلوی، بھگوت رائے راحت ؔ کاکوروی ، مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ ، پنڈت برج نراین دتا تریا کیفی ؔ ، رگھو پتی سہائے فراقؔ گورکھ پوری ، کرشن موہن ، چندر پرکاش جوہر ؔبجنوری، آنند موہن ژتشی ، گلزار ؔدہلوی ، پندٹ دیا پرشاد گوری ، اوما شنکر شاداں ؔ ، اشونی کمار اشرف ؔ ، ہری مہتا ہری ؔ اور چند ر بھان خیال ؔ جیسے شعرأ کے نام قابل ذکر ہیں۔

ہندستان میں آج بھی کئی ہندو شعرأ ہیں جو با ضابطہ نعت کہتے ہیں۔ ان میں ایک نام جو سب سے نمایاں ہے وہ تلک راج پارسؔ کا ہے۔ ان کا تعلق ہندوستان کے مدھ پردیش کے جبل پور سے ہے۔ کئی برسوں سے صرف نعت کہتے آ رہے ہیں۔ ابتدائی زمانہ میں انہوں نے غزلیں بھی لکھیں لیکن اب اپنے آپ کو صرف نعت کے لئے ہی مخصوص کر رکھا ہے۔ روزانہ ایک نئی نعت لکھنا کسی بھی شاعر کے لئے مشکل ہے لیکن تلک راج پارسؔ یہ کام بخوبی کرتے ہیں۔ ان کی نعت سے چند اشعار رقم کرتا ہوں۔ ؎


رسول پاک کا عاشق ہوں یہ تمثیل ہو جاؤں

خدا ایسا کرے باطن سے میں تبدیل ہو جاؤں

مری خواہش ہے جب میں خاک میں تبدیل ہو جاؤں

ہوا کے دوش پر طیبہ نگر ترسیل ہو جاؤں

مقدر میں لکھا ہوگا مدینہ جاؤنگا پارسؔ

وہاں جاکر وہاں کی خاک میں تحلیل ہو جاؤں


آخر میں میں یہ کہتا چلوں کہ ہندستان میں نعت پہ اتنا کام نہیں ہوا جتنا پاکستان میں ہوا ہے۔ کراچی میں باضابطہ ایک نعت ریسرچ سینٹر ہے جہاں ریسرچ کے علاوہ بہت سے دوسرے ایسے کام کئے جاتے ہیں جس سے نعت کہنے والے مستفیض ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ایسے ایک سنٹر کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں کوئی نعت سے محبت رکھنے والا اس طرف توجہ دے۔