آپ «گوئٹے کی نظم نغمۂ محمدی کے تین تراجم ۔ خان حسنین عاقب» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 1: | سطر 1: | ||
[[ | [[خان حسنین عاقب ؔ ]] | ||
===گو ئٹے کی نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ کے تین تراجم=== | |||
ABSTRACT: The world renowned German poet GOETHE, JOHANN WORLFGANG was very much influenced by Eastern thoughts and languages plus Religions. He learnt Arabic and read Persian language and impressed by Hafiz of Shiraz so much that he named his collection of poems a West-östlicher DIWAAN. Presented here are three poetic translations of his famous poem MAHOMAET'S GESANG originally written in German and translated in English by Leslie Norris. Persian version was brought out by Allama Iqbal which found place in his collection of Persian poems Payam-e-Mashriq and Urdu translation was done by Shan ul Haq Haqqi. All the three translations have been placed with poem in its original language Germany. This effort has been done to show different dimensions of cultural and literary values of variant linguistic groups of creative world. No comments offered by the writer of the article in order to leave the matter on the readers to form an opinion and generate dialogue if felt necessary. | ABSTRACT: The world renowned German poet GOETHE, JOHANN WORLFGANG was very much influenced by Eastern thoughts and languages plus Religions. He learnt Arabic and read Persian language and impressed by Hafiz of Shiraz so much that he named his collection of poems a West-östlicher DIWAAN. Presented here are three poetic translations of his famous poem MAHOMAET'S GESANG originally written in German and translated in English by Leslie Norris. Persian version was brought out by Allama Iqbal which found place in his collection of Persian poems Payam-e-Mashriq and Urdu translation was done by Shan ul Haq Haqqi. All the three translations have been placed with poem in its original language Germany. This effort has been done to show different dimensions of cultural and literary values of variant linguistic groups of creative world. No comments offered by the writer of the article in order to leave the matter on the readers to form an opinion and generate dialogue if felt necessary. | ||
جان وولف گانگ گوئٹے GOETHE, JOHANN WOLFGANG عیسوی سنہ 1749 میں جر منی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا اس نے اہل ِ علم کے خاندان میں آنکھیں کھو لیں وہ یوں کہ اس کا باپ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور اس کی ماں حا کم ِ شہر کی بیٹی تھی۔ گوئٹے جرمن ادب کا سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ ابتداء ہی سے، بلکہ اپنی نو جوانی ہی سے گوئٹے کو اسلام اور مشرق سے بے حد دلچسپی تھی۔ اسی لیے اس نے عربی زبان بھی سیکھی تھی۔ گوئٹے کے خیال میں نئی ثقافتوں کی دریافت کے لیے ادب اور مذہب سے زیادہ کار آمد کو ئی اور ذرائع نہیں ہوسکتے اس لیے اس نے مشرقی ادب میں رومی ؔ اور حافظؔ کی شاعری کا اور ساتھ ہی ساتھ مذاہب کے ذیل میں زرتشت کی تعلیمات اور دینِ اسلام کا مطا لعہ کیا ۔مشرق اور اسلام سے گوئٹے کی دل چسپی اور مطالعہ کا دورانیہ ۱۸۱۴ء سے ۱۸۲۷ء عیسوی تک محیط ہے ۔ گوئٹے کی معرکۃ الآرا ء کتاب ’ دیوانِ مغرب ‘ جس کا جرمن نام Divan West-östlicher ہے، اسے جرمن ۔فارسی عہد کا ایک آغاز ہی کہا جاسکے گا جس کی ابتداء ۱۸۱۴ء میں ہوئی جب اسے دیوانِ حافظؔ کی جرمن زبان میں آسٹر یائی مستشرق جوزف وون ہیمار پرگستال کی ترجمہ کردہ دو جلدیں مو صول ہوئیں۔ جوزف کے تراجم اور تبصروں نے جرمن عوام کی دلچسپی مشرق کے مطالعہ میں بڑھانے میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ حافظ کے مطالعے نے جہاں ایک جانب گوئٹے کے جوش میں اضافہ کیا وہیں اس نے مشرق کے ساتھ فکری transaction and dialogues کی راہیں بھی ہموار کیں۔ گوئٹے نے اپنی اس کتاب کے کئی عنوانات بدلے لیکن ہر عنوان میں اس نے لفظ ’دیوان‘ بر قرار رکھا، یہ اس کی علمیت اور شخصیت پر حافظؔ کے اثرات کا عکاس ہے۔ اس دیوان میں سو نظمیں ہیں جو جرمن زبان میں لکھی گئی ہیں کہ یہی گوئٹے کی مادری اور تخلیقی زبان تھی۔ گوئٹے کے اس دیوان کو مشرق و مغرب کے ادب کا حسین امتزاج کہا جاتاہے۔ اس کتاب میں کئی ابواب شامل ہیں اور ہر باب کے لیے فارسی اور جرمن ، دونوں زبانوں میں متبادلات دیے گئے ہیں۔ زیرِ مطالعہ نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ گوئٹے کی شہرہ ٔ آفاق نظم ہے جس نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ چوں کہ گوئٹے کو جر منی کے قومی شاعر جیسی اہمیت حاصل تھی، اور اسے سارے عالم میں بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے اس کی اس نظم نے ایک بڑے طبقے کو اپنے دام ِ اثر میں لے لیا۔ اس نظم کے کئی زبانو ں میں تراجم ہوئے ۔ یہ نظم گو ئٹے نے غالباً ۱۷۷۲ء یا ۱۷۷۳ء میں لکھی تھی جوسب سے پہلے Göttinger Musenalmanach میں ۱۷۷۴ء میں شائع ہو ئی تھی۔ اس نظم میں ایک نا بغہ ٔ روزگار شخصیت، حضرت محمد ؐ کے لیے ایک’ جوئے آب‘ کی علامت اور استعارہ استعمال کیا گیا ہے جسے دھیرے دھیرے ایک عظیم دریا کی شکل اختیار کر تے دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم در اصل آپ ؐ کی سیرت پر گوئٹے کے ایک غیر مطبوعہ ڈرامے کا حصہ تھی جسے پلے کر نے کا اس کا ارادہ تھا۔ لیکن وہ ڈرامہ اسٹیج ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نظم نے ٖضرور گوئٹے کے اخلاص کو شرف ِ قبولیت بخش دیا۔ اور اسے نہ صرف یہ کہ عالمگیر شہرت عطا کردی بلکہ اگلے وقت میں اسے عموماً مشرق اور خصو صاً علامہ اقبال ؔ سے نزدیک کر دیا۔ وولف گانگ گو ئٹے جرمنی کا وہ عظیم شاعر ہے جس کی تصنیف ’ پیغامِ مغرب‘ کے مطالعے نے اقبالؔ کو غور و فکر پر مجبور کیا اور پھر جواباً اقبالؔ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’ پیامِ مشرق‘ تخلیق کی۔اقبال ؔ نے گو ئٹے کے بارے میںیہ مشہور جملہ بھی کہا ہے کہ گو ئٹے ’’ نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘۔ اقبال نے گوئٹے کی نظم ـ ’ Mohamet's Gesang‘ کا آزاد ترجمہ بعنوان ’ جوئے آب‘ کیا ہے۔ پھر دوسرا ترجمہ اردو میں شان الحق حقی ؔ نے کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم آ پ کو جر من زبان کے فورا ً بعد انگریزی میں لیسلی نو رِس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں تا کہ آپ اس شہرہ ٔ آفاق نظم کا لطف چار زبانوں میں لے سکیں۔ سب سے پہلے اصل جرمن زبان میں یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔ | جان وولف گانگ گوئٹے GOETHE, JOHANN WOLFGANG عیسوی سنہ 1749 میں جر منی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا اس نے اہل ِ علم کے خاندان میں آنکھیں کھو لیں وہ یوں کہ اس کا باپ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور اس کی ماں حا کم ِ شہر کی بیٹی تھی۔ گوئٹے جرمن ادب کا سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ ابتداء ہی سے، بلکہ اپنی نو جوانی ہی سے گوئٹے کو اسلام اور مشرق سے بے حد دلچسپی تھی۔ اسی لیے اس نے عربی زبان بھی سیکھی تھی۔ گوئٹے کے خیال میں نئی ثقافتوں کی دریافت کے لیے ادب اور مذہب سے زیادہ کار آمد کو ئی اور ذرائع نہیں ہوسکتے اس لیے اس نے مشرقی ادب میں رومی ؔ اور حافظؔ کی شاعری کا اور ساتھ ہی ساتھ مذاہب کے ذیل میں زرتشت کی تعلیمات اور دینِ اسلام کا مطا لعہ کیا ۔مشرق اور اسلام سے گوئٹے کی دل چسپی اور مطالعہ کا دورانیہ ۱۸۱۴ء سے ۱۸۲۷ء عیسوی تک محیط ہے ۔ گوئٹے کی معرکۃ الآرا ء کتاب ’ دیوانِ مغرب ‘ جس کا جرمن نام Divan West-östlicher ہے، اسے جرمن ۔فارسی عہد کا ایک آغاز ہی کہا جاسکے گا جس کی ابتداء ۱۸۱۴ء میں ہوئی جب اسے دیوانِ حافظؔ کی جرمن زبان میں آسٹر یائی مستشرق جوزف وون ہیمار پرگستال کی ترجمہ کردہ دو جلدیں مو صول ہوئیں۔ جوزف کے تراجم اور تبصروں نے جرمن عوام کی دلچسپی مشرق کے مطالعہ میں بڑھانے میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ حافظ کے مطالعے نے جہاں ایک جانب گوئٹے کے جوش میں اضافہ کیا وہیں اس نے مشرق کے ساتھ فکری transaction and dialogues کی راہیں بھی ہموار کیں۔ گوئٹے نے اپنی اس کتاب کے کئی عنوانات بدلے لیکن ہر عنوان میں اس نے لفظ ’دیوان‘ بر قرار رکھا، یہ اس کی علمیت اور شخصیت پر حافظؔ کے اثرات کا عکاس ہے۔ اس دیوان میں سو نظمیں ہیں جو جرمن زبان میں لکھی گئی ہیں کہ یہی گوئٹے کی مادری اور تخلیقی زبان تھی۔ گوئٹے کے اس دیوان کو مشرق و مغرب کے ادب کا حسین امتزاج کہا جاتاہے۔ اس کتاب میں کئی ابواب شامل ہیں اور ہر باب کے لیے فارسی اور جرمن ، دونوں زبانوں میں متبادلات دیے گئے ہیں۔ زیرِ مطالعہ نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ گوئٹے کی شہرہ ٔ آفاق نظم ہے جس نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ چوں کہ گوئٹے کو جر منی کے قومی شاعر جیسی اہمیت حاصل تھی، اور اسے سارے عالم میں بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے اس کی اس نظم نے ایک بڑے طبقے کو اپنے دام ِ اثر میں لے لیا۔ اس نظم کے کئی زبانو ں میں تراجم ہوئے ۔ یہ نظم گو ئٹے نے غالباً ۱۷۷۲ء یا ۱۷۷۳ء میں لکھی تھی جوسب سے پہلے Göttinger Musenalmanach میں ۱۷۷۴ء میں شائع ہو ئی تھی۔ اس نظم میں ایک نا بغہ ٔ روزگار شخصیت، حضرت محمد ؐ کے لیے ایک’ جوئے آب‘ کی علامت اور استعارہ استعمال کیا گیا ہے جسے دھیرے دھیرے ایک عظیم دریا کی شکل اختیار کر تے دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم در اصل آپ ؐ کی سیرت پر گوئٹے کے ایک غیر مطبوعہ ڈرامے کا حصہ تھی جسے پلے کر نے کا اس کا ارادہ تھا۔ لیکن وہ ڈرامہ اسٹیج ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نظم نے ٖضرور گوئٹے کے اخلاص کو شرف ِ قبولیت بخش دیا۔ اور اسے نہ صرف یہ کہ عالمگیر شہرت عطا کردی بلکہ اگلے وقت میں اسے عموماً مشرق اور خصو صاً علامہ اقبال ؔ سے نزدیک کر دیا۔ وولف گانگ گو ئٹے جرمنی کا وہ عظیم شاعر ہے جس کی تصنیف ’ پیغامِ مغرب‘ کے مطالعے نے اقبالؔ کو غور و فکر پر مجبور کیا اور پھر جواباً اقبالؔ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’ پیامِ مشرق‘ تخلیق کی۔اقبال ؔ نے گو ئٹے کے بارے میںیہ مشہور جملہ بھی کہا ہے کہ گو ئٹے ’’ نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘۔ اقبال نے گوئٹے کی نظم ـ ’ Mohamet's Gesang‘ کا آزاد ترجمہ بعنوان ’ جوئے آب‘ کیا ہے۔ پھر دوسرا ترجمہ اردو میں شان الحق حقی ؔ نے کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم آ پ کو جر من زبان کے فورا ً بعد انگریزی میں لیسلی نو رِس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں تا کہ آپ اس شہرہ ٔ آفاق نظم کا لطف چار زبانوں میں لے سکیں۔ سب سے پہلے اصل جرمن زبان میں یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔ | ||
MAHOMAET'S GESANG | MAHOMAET'S GESANG | ||
Johanne Wolfgong van Goethe | Johanne Wolfgong van Goethe | ||
Seht den Felsenquell, | Seht den Felsenquell, | ||
Freudehell, | Freudehell, | ||
Wie ein Sternenblick; | Wie ein Sternenblick; | ||
Über Wolken | Über Wolken | ||
Nährten seine Jugend | Nährten seine Jugend | ||
Gute Geister | Gute Geister | ||
Zwischen Klippen im Gebüsch. | Zwischen Klippen im Gebüsch. | ||
Jünglingsfrisch | Jünglingsfrisch | ||
Tanzt er aus der Wolke | Tanzt er aus der Wolke | ||
Auf die Marmorfelsen nieder, | Auf die Marmorfelsen nieder, | ||
Jauchzet wieder | Jauchzet wieder | ||
Nach dem Himmel. | Nach dem Himmel. | ||
Durch die Gipfelgänge | Durch die Gipfelgänge | ||
Jagt er bunten Kieseln nach, | Jagt er bunten Kieseln nach, | ||
Und mit frühem Führertritt | Und mit frühem Führertritt | ||
Reißt er seine Bruderquellen | Reißt er seine Bruderquellen | ||
Mit sich fort. | Mit sich fort. | ||
Drunten werden in dem Tal | Drunten werden in dem Tal | ||
Unter seinem Fußtritt Blumen, | Unter seinem Fußtritt Blumen, | ||
Und die Wiese | Und die Wiese | ||
Lebt von seinem Hauch. | Lebt von seinem Hauch. | ||
Doch ihn hält kein Schattental, | Doch ihn hält kein Schattental, | ||
Keine Blumen, | Keine Blumen, | ||
Die ihm seine Knie umschlingen, | Die ihm seine Knie umschlingen, | ||
Ihm mit Liebesaugen schmeicheln: | Ihm mit Liebesaugen schmeicheln: | ||
Nach der Ebne dringt sein Lauf | Nach der Ebne dringt sein Lauf | ||
Schlangenwandelnd. | Schlangenwandelnd. | ||
Bäche schmiegen | Bäche schmiegen | ||
Sich gesellig an. Nun tritt er | Sich gesellig an. Nun tritt er | ||
In die Ebne silberprangend, | In die Ebne silberprangend, | ||
Und die Ebne prangt mit ihm, | Und die Ebne prangt mit ihm, | ||
Und die Flüsse von der Ebne | Und die Flüsse von der Ebne | ||
Und die Bäche von den Bergen | Und die Bäche von den Bergen | ||
Jauchzen ihm und rufen: Bruder! | Jauchzen ihm und rufen: Bruder! | ||
Bruder, nimm die Brüder mit, | Bruder, nimm die Brüder mit, | ||
Mit zu deinem alten Vater, | Mit zu deinem alten Vater, | ||
Zu dem ewgen Ozean, | Zu dem ewgen Ozean, | ||
Der mit ausgespannten Armen | Der mit ausgespannten Armen | ||
Unser wartet | Unser wartet | ||
Die sich, ach! vergebens öffnen, | Die sich, ach! vergebens öffnen, | ||
Seine Sehnenden zu fassen; | Seine Sehnenden zu fassen; | ||
Denn uns frißt in öder Wüste | Denn uns frißt in öder Wüste | ||
Gierger Sand; die Sonne droben | Gierger Sand; die Sonne droben | ||
Saugt an unserm Blut; ein Hügel | Saugt an unserm Blut; ein Hügel | ||
Hemmet uns zum Teiche! Bruder, | Hemmet uns zum Teiche! Bruder, | ||
Nimm die Brüder von der Ebne, | Nimm die Brüder von der Ebne, | ||
Nimm die Brüder von den Bergen | Nimm die Brüder von den Bergen | ||
Mit, zu deinem Vater mit! | Mit, zu deinem Vater mit! | ||
Kommt ihr alle! - | Kommt ihr alle! - | ||
Und nun schwillt er | Und nun schwillt er | ||
Herrlicher; ein ganz Geschlechte | Herrlicher; ein ganz Geschlechte | ||
Trägt den Fürsten hoch empor! | Trägt den Fürsten hoch empor! | ||
Und im rollenden Triumphe | Und im rollenden Triumphe | ||
Gibt er Ländern Namen, Städte | Gibt er Ländern Namen, Städte | ||
Werden unter seinem Fuß. | Werden unter seinem Fuß. | ||
Unaufhaltsam rauscht er weiter, | Unaufhaltsam rauscht er weiter, | ||
Läßt der Türme Flammengipfel, | Läßt der Türme Flammengipfel, | ||
Marmorhäuser, eine Schöpfung | Marmorhäuser, eine Schöpfung | ||
Seiner Fülle, hinter sich. | Seiner Fülle, hinter sich. | ||
Zedernhäuser trägt der Atlas | Zedernhäuser trägt der Atlas | ||
Auf den Riesenschultern; sausend | Auf den Riesenschultern; sausend | ||
Wehen über seinem Haupte | Wehen über seinem Haupte | ||
Tausend Flaggen durch die Lüfte, | |||
Zeugen seiner Herrlichkeit. | Zeugen seiner Herrlichkeit. | ||
Und so trägt er seine Brüder, | Und so trägt er seine Brüder, | ||
Seine Schätze, seine Kinder | Seine Schätze, seine Kinder | ||
Dem erwartenden Erzeuger | Dem erwartenden Erzeuger | ||
Freudebrausend an das Herz. | Freudebrausend an das Herz. | ||
حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر قارئین کا جرمن زبان کو سمجھ پانا نا ممکنات میں سے ہے لیکن میں نے صرف اس لیے | حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر قارئین کا جرمن زبان کو سمجھ پانا نا ممکنات میں سے ہے لیکن میں نے صرف اس لیے جر من زبان کو بھی شامل کر دیا ہے تاکہ اصل بھی موجود رہے اور کسی صورت اس مضمون کے ذریعے محفوظ ہوجائے۔چوں کہ جرمن زبان کے بہت سے الفاظ کو انگریزی الفاظ سے مناسبت ہے اس لیے جر من زبان میں اس اصل نظم کی پیش کش اتنی غیر متعلق بھی نہیں ہے جتنی ہم میں سے کو ئی صاحب اسے تصور کر تے ہوں۔ | ||
اب اس نظم کا انگریزی تر جمہ حاضر ہے جو مشہور عالمی شخصیت لیسلی نورِس نے کیا ہے۔ یہ انگریزی ترجمہ میں نے انگریزی میں اس نظم کے بہت سے اچھے تراجم میں سے منتخب کیا ہے۔ میں ان تینوں زبانوں میں اس نظم کے تر جمہ کو اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ نظم کا موضوع ہمارے لیے جتنا اہم ہے، اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ تین مختلف زبانوں کے معنوی ابعاد کے باوجود وہ روانی، اور خیالات کا وہ تسلسل جو اصل جرمن نظم کا خاصہ ہے، وہ ان تراجم میں پایا جاتا ہے یا نہیں۔ | |||
Mahomet’s Song | |||
Leslie Norris | Leslie Norris | ||
See the mountain spring | See the mountain spring | ||
Sparkle with joy, | Sparkle with joy, | ||
Like the light of stars! | Like the light of stars! | ||
Above the clouds | Above the clouds | ||
Generous spirits | Generous spirits | ||
Nourished his freshets | Nourished his freshets | ||
In thickets among crags. | In thickets among crags. | ||
Brisk with young vigor | Brisk with young vigor | ||
From the clouds he dances | From the clouds he dances | ||
Down to marble boulders, | Down to marble boulders, | ||
Exultant, he leaps again | Exultant, he leaps again | ||
Up toward heaven. | Up toward heaven. | ||
Through gaps between peaks | Through gaps between peaks | ||
He rolls his bright pebbles, | He rolls his bright pebbles, | ||
And with a leader’s strides | And with a leader’s strides | ||
Carries his sibling streams | Carries his sibling streams | ||
Onwards and downwards. | Onwards and downwards. | ||
And then, in the valley, | And then, in the valley, | ||
Flowers blaze in his footsteps, | Flowers blaze in his footsteps, | ||
And the green fields breathe | And the green fields breathe | ||
With the life of his breath | With the life of his breath | ||
No dark valley can hold him, | No dark valley can hold him, | ||
Nor can flowers | Nor can flowers | ||
Bent at his knees | Bent at his knees | ||
Contain him with adoring glances; | Contain him with adoring glances; | ||
He bursts his way to the flat land | He bursts his way to the flat land | ||
Like a snake uncoiling. | Like a snake uncoiling. | ||
Little streams nestle, | Little streams nestle, | ||
Flocking to his side; and now | Flocking to his side; and now | ||
He enters, glittering, | He enters, glittering, | ||
Into his meadows | Into his meadows | ||
And the land shines with his light, | And the land shines with his light, | ||
The lowland rivers | The lowland rivers | ||
The mountain brooks | The mountain brooks | ||
Cheer for him, shouting: Brother, | Cheer for him, shouting: Brother, | ||
Brother, take us with you, | Brother, take us with you, | ||
Take us to your ancient Father, | Take us to your ancient Father, | ||
To the everlasting ocean, | To the everlasting ocean, | ||
Who waits for us | Who waits for us | ||
With open arms; | With open arms; | ||
Open, alas, in vain | Open, alas, in vain | ||
To embrace his eager ones: | To embrace his eager ones: | ||
For in the avid desert | For in the avid desert | ||
Dry sand eats us, | Dry sand eats us, | ||
The sun above us | The sun above us | ||
Will suck our blood, a hill | Will suck our blood, a hill | ||
Dams us to a pond! Brother, | Dams us to a pond! Brother, | ||
Take your lowland brothers with you, | Take your lowland brothers with you, | ||
Take your brothers from the mountains | Take your brothers from the mountains | ||
With you, with you, to your father! | With you, with you, to your father! | ||
Come, all of you! | Come, all of you! | ||
Majestically | Majestically | ||
He rises; a noble family, | He rises; a noble family, | ||
They bear aloft this royal lord, | They bear aloft this royal lord, | ||
And on he rolls, triumphant, | And on he rolls, triumphant, | ||
Naming whole countries, the cities | Naming whole countries, the cities | ||
Which come to life at his feet. | Which come to life at his feet. | ||
Unstoppable now, he rides in thunder, | Unstoppable now, he rides in thunder, | ||
Leaving behind him turrets tipped | Leaving behind him turrets tipped | ||
With flame, marble palaces, | With flame, marble palaces, | ||
Evidence of his abundance | Evidence of his abundance | ||
Like Atlas, he carries great ships | Like Atlas, he carries great ships | ||
On his giant shoulders. The flutter | On his giant shoulders. The flutter | ||
Of a thousand whistling sails | Of a thousand whistling sails | ||
Testify to his might and majesty. | Testify to his might and majesty. | ||
So he carries his brothers, | So he carries his brothers, | ||
His children, his treasures, | His children, his treasures, | ||
In roaring tides of joy | In roaring tides of joy | ||
To their father’s waiting heart | To their father’s waiting heart | ||
انگریزی زبان میں یہ ترجمہ ایک نئے فکری زاویہ کو دعوت دیتا ہے۔ اس ترجمہ نے اپنی حتی الامکان | انگریزی زبان میں یہ ترجمہ ایک نئے فکری زاویہ کو دعوت دیتا ہے۔ اس ترجمہ نے اپنی حتی الامکان کو شش کی ہے کہ وہ اصل سے قریب تر ہوجائے اور لیسلی نورِس کافی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ | ||
اب ا س مشہور ترجمہ کی طرف آئیے جسے ایک عالمی شاہکار کا درجہ حا صل ہوا۔ یہ تر جمہ علامہ محمد اقبال ؔ نے کیا ہے ، جو آزاد تر جمے کی بہترین مثال ہے ۔ یہ ترجمہ پیام ِ مشرق میں ’ جو ئے آب ‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ | اب ا س مشہور ترجمہ کی طرف آئیے جسے ایک عالمی شاہکار کا درجہ حا صل ہوا۔ یہ تر جمہ علامہ محمد اقبال ؔ نے کیا ہے ، جو آزاد تر جمے کی بہترین مثال ہے ۔ یہ ترجمہ پیام ِ مشرق میں ’ جو ئے آب ‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ | ||
جوئے آب از : علامہ اقبال ؔ | |||
سطر 355: | سطر 203: | ||
صد جو ئے دشت و مرغ و کہستان و باغ و راغ | صد جو ئے دشت و مرغ و کہستان و باغ و راغ | ||
گفتند اے بسیط زمیں با توسازگار | گفتند اے بسیط زمیں با توسازگار | ||
ما را کہ راہ از تنک آبی نبردہ ایم | ما را کہ راہ از تنک آبی نبردہ ایم | ||
سطر 388: | سطر 236: | ||
اقبال ؔ کے اس تر جمہ کے بعد اردو میں کافی عر صہ بعد شان الحق حقی ؔ نے رواں آزاد نظم میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ نظم بھی حقی ؔصا حب کی دو زبانوں کے فطری بعد کو دور کر نے کی ایک کامیاب کو شش کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ | اقبال ؔ کے اس تر جمہ کے بعد اردو میں کافی عر صہ بعد شان الحق حقی ؔ نے رواں آزاد نظم میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ نظم بھی حقی ؔصا حب کی دو زبانوں کے فطری بعد کو دور کر نے کی ایک کامیاب کو شش کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ | ||
نغمہ ٔ محمدیؐ : ترجمہ اُردو: شان الحق حقی | |||
ترجمہ اُردو: | |||
وہ پاکیزہ چشم | وہ پاکیزہ چشم | ||
جو، اوجِ فلک سے چٹانوں پر اُترا | جو، اوجِ فلک سے چٹانوں پر اُترا | ||
سطر 420: | سطر 258: | ||
بہت سے سسکتے ہوئے، رینگتے ،سست، کم مایہ سوتوں کو | بہت سے سسکتے ہوئے، رینگتے ،سست، کم مایہ سوتوں کو | ||
چونکاتا، | چونکاتا، للکار تا، ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا | ||
بے نمو وادیاں جاگ اٹھیں، لہلہا نے لگیں | بے نمو وادیاں جاگ اٹھیں، لہلہا نے لگیں | ||
سطر 456: | سطر 294: | ||
اپنی منزل وہیں آسمانوں میں ہے | اپنی منزل وہیں آسمانوں میں ہے | ||
گرد آلود | گرد آلود ہیں ، پاک کر دے ہمیں | ||
آ ! ہم آغوشِ افلاک کر دے ہمیں | آ ! ہم آغوشِ افلاک کر دے ہمیں | ||
سطر 493: | سطر 331: | ||
یہاں تک تو ایک شہرہ ٔ آفاق تخلیق کے تین مختلف زبانوں میں تراجم ہم نے پیش کیے ہیں تا کہ آپ اس نظم کی تین مختلف ثقافتی اور ادبی جہتوں سے متعارف ہوسکیں ۔ ہم اس معاملے میں آپ کو غور و فکر کے لیے آزاد چھوڑتے ہوئے اپنی جانب سے کسی رائے کا اظہار نہیں کر نا چاہتے۔ یہ کام آپ خود کریں اور اگر مناسب محسوس کریں تو ا س مو ضوع پر مکالمہ قائم کریں تاکہ لکیر پر لکیر پیٹنے والی ذہنیت سے بچا جاسکے اور ادب میں نئے رویوں کو فروغ دیتے ہوئے تحقیق کو نئی سمتوں سے متعارف کر وایا جاسکے۔ | یہاں تک تو ایک شہرہ ٔ آفاق تخلیق کے تین مختلف زبانوں میں تراجم ہم نے پیش کیے ہیں تا کہ آپ اس نظم کی تین مختلف ثقافتی اور ادبی جہتوں سے متعارف ہوسکیں ۔ ہم اس معاملے میں آپ کو غور و فکر کے لیے آزاد چھوڑتے ہوئے اپنی جانب سے کسی رائے کا اظہار نہیں کر نا چاہتے۔ یہ کام آپ خود کریں اور اگر مناسب محسوس کریں تو ا س مو ضوع پر مکالمہ قائم کریں تاکہ لکیر پر لکیر پیٹنے والی ذہنیت سے بچا جاسکے اور ادب میں نئے رویوں کو فروغ دیتے ہوئے تحقیق کو نئی سمتوں سے متعارف کر وایا جاسکے۔ | ||
=حوالہ جات= | |||
سطر 502: | سطر 341: | ||
۲۔ قند ِ پارسی۔ رایزنی فر ہنگی جمہوری اسلامی ایران۔ نئی دہلی۔ شمارہ ۔۹۱۔ ستمبر۔دسمبر ۲۰۰۲۔ | ۲۔ قند ِ پارسی۔ رایزنی فر ہنگی جمہوری اسلامی ایران۔ نئی دہلی۔ شمارہ ۔۹۱۔ ستمبر۔دسمبر ۲۰۰۲۔ | ||
۳۔ عالمی نعتیہ انتخاب۔ | ۳۔ عالمی نعتیہ انتخاب۔ اطیب اعجاز۔ حیدر آباد۔ | ||
1. Oxford Companion to German literature. | 1. Oxford Companion to German literature. | ||
2. Wikisource. | 2. Wikisource. | ||
3.A Leslie Norris Translation of Selected Poems by | 3.A Leslie Norris Translation of Selected Poems by | ||
Johann Wolfgang von Goethe : Leslie Norris and Alan F. Keele | Johann Wolfgang von Goethe : Leslie Norris and Alan F. Keele | ||
4.Yearbook of the Goethe Society of India, 1999-2000, S. 184-201. | 4.Yearbook of the Goethe Society of India, 1999-2000, S. 184-201. | ||
5.<http://www.goethezeitportal.de/db/wiss/goethe/bhatti_iqbal.pdf> | 5.<http://www.goethezeitportal.de/db/wiss/goethe/bhatti_iqbal.pdf> | ||
6. Annemarie Schimmel, Gabriel's Wing. A Study into the Religious Ideas of Sir Mohammad Iqbal. | 6. Annemarie Schimmel, Gabriel's Wing. A Study into the Religious Ideas of Sir Mohammad Iqbal. | ||
7. Anil Bhatti: Iqbal and Goethe. J.N.U. New Delhi. | 7. Anil Bhatti: Iqbal and Goethe. J.N.U. New Delhi. | ||
٭٭٭ | ٭٭٭ |