ہے تابانیاں تیری لعل و گہر میں ۔ تنویر پھول

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: تنویر پھول

حمدِ باری تعالی جل جلالہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہیں تابانیاں تیری لعل و گہر میں

تو ہی جلوہ افشاں ہے نورِ سحر میں


ہیں مصروف تسبیح میں سارے طائر

ترا ذکر ہوتا ہے نخل و شجر میں


کیا تو نے مخلوق کا رزق پیدا

نہاں تیری قدرت ہے برگ و ثمر میں


ہر اِک شے ہے محتاج مرضی کی تیری

خدایا ہے تو حکم راں بحر و بر میں


سمائی مِرے دل میں ہے تیری وسعت

نہیں لا سکا میں حصارِ نظر میں


لکھا لوحِ محفوظ میں تو نے یا رب

ازل سے ابد تک جو ہے خشک و تر میں


زیارت کروں میں ترے گھر کی اکثر

عطا کر وہ قوت مِرے بال و پر میں


اُنھیں چُن لیا رب نے موتی سمجھ کر

وہ آنسو جو تھے دامنِ چشم ِ تر میں


وہی میرا حافظ ، وہی میرا ناصر

وہی آسرا ہے سفر میں ، حضر میں


چھُپی برگِ گل میں ہے نرمی اُسی کی

نہاں ہے جلال اُس کا برق و شرر میں


تعلق وہی حمد اور نعت میں ہے

تعلق ہے جیسا کہ شمس و قمر میں


کرم کی نظر پھول پر ہو الٰہی

فنا ہو گیا عشق ِ خیر البشر میں


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ازل سے یہی ایک سودا ہے سر میں ۔ شبنم رومانی