حسرت حسین حسرت - واجد امیر کا ایک کالم
کالم نگار : واجد امیر
اخبار : روزنامہ دن
حسرت حسین حسرت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
انسان کی زندگی کا سارا عرصہ تجربات کی نذر ہوجاتا ہے لوگوں کو دیکھنے ،سمجھنے ، پرکھنے اور نقصان اٹھانے پھر اس کی تلافی کرنے میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا ،اس تگ ودو میں جوانی گزر جاتی ہے جسمانی نشو نما رک جاتی ہے مگر ذہنی ارتقا کا سفر جاری رہتا ہے ۔بہت کچھ واضح ہوتا جاتا ہے مگر بینائی کمزور ہونے لگتی ہے آخر کار چہروں کا اندروں ایسا کھلتا ہے کہ بڑے بڑے بت دھڑام سے نیچے جاگرتے ہیں ،بڑے لوگوں سے ملنے کا شوق کسے نہیں ہوتا ہمیں بھی تھا سو صحافی ، کھلاڑی ، فنکار ، شاعر ، ادیب سب سے ملے انہیں قریب سے دیکھا چند ایک کو چھوڑ کے اور بشری تقاضوں کو مدِ نظر رکھنے کے باوجود کبھی کبھارخفت اٹھانی پڑتی ۔
خیر صورت حال اب ایسی بھی دگرگوں نہیں ہمیں زندگی میں اتنے لوگ ملے جنہیں مل کے بہت اطمینان ہوتا ہے کہ ،،ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں،، ایسے ہی کچھ افراد میں حسرت حسین حسرت بھی ہیں حسرت صاحب سے ملاقات کس مشاعرے میں ہوئی یاد نہیں ان کی نعت نگاری کے قائل ہم ہی نہ تھے جنابِ حفیظ تائب بھی تھے جنہوں نے حسرت صاحب کے نعتیہ مجموعے میں لکھا اور خوب لکھا اسی میں وہ رقم طراز ہیں کہ،،انہوں نے( حسرت حسین حسرت) اپنا نعتیہ مجموعہ مجھے مقدمہ لکھنے کے لیے دیا اور مجھ سے مقدمہ لکھنے میں غیر معمولی تاخیرہوئی لیکن انہوں نے میری کوتاہی کبھی نہیں جتائی ، بلکہ جب کبھی اتفاقاً ملاقات ہو جاتی تو یہی کہتے ،، میرے مجموعے کا طبییعت پہ بوجھ نہ ڈالیے گا مجھے معلوم ہے کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں مجھے مجموعہ چھپوانے کی کوئی جلدی نہیں ،،، تائب صاحب کہتے ہیں کہ مجھے زندگی میں اس طبیعت کے دوسرے شخص سے واسطہ نہیں پڑا ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ مجموعہ حسرت حسین حسرت کی زندگی میں نہ چھپ سکا ۔ان کی نعت کا ایک شعر دیکھیئے۔۔ بلا شبہ تائب صاحب نے درست فرمایا ہمیں بھی زندگی میں ایسا آدمی دیکھنے کو نہیں ملا ۔
بنایا جب تجھے خالق نے میہماں اپنا
ہٹا لیا ترے رستے سے آسماں اپنا
حسرت صاحب سے جیسے جیسے ملاقاتیں بڑھتی گئیں ان کے فن اور ان کی شخصیت کے در وا ہوتے رہے ان کی عاجزی ایسی تھی کہ ہر شخص کو اپنا گرویدہ کر لیتی تھی وہ اپنے سے بہت جونیر کو بے حد توقیر دیتے تھے جبکہ آ ج بڑوں کو بڑا ماننامحال ہے۔۔
حسرت حسین حسرت کا تعلق بہار کے ضلع سارن کے گاؤںکلیان پور سے تھا احسان دانش ہی ان کے لیے سب کچھ تھے میں نے ان کی زبان سے ہر وقت احسان دانش کا نام سنا اوراحسان صاحب کے شاگردوں کی زبانی سنا کہ انہوں نے حسرت صاحب کے علاوہ کم ہی کسی کو اپنا شاگرد مانا۔۔ حسرت صاحب کا نعتیہ مجموعہ(سماوات) ان کی زندگی میں نہ چھپ سکا بعد میں ان کے ایک شاگرد اور بیٹے نے شائع کیا وہ بہت باکمال نعت گو تھے ۔ تائب صاحب نے بھی لکھا ہے کہ ،، وہ غزل کے بھی بہت عمدہ شاعر تھے مگر ان کے جوہر نعت نگاری میں کھل کے سامنے آتے ہیں،،،ان اشعار کا مفہوم بتانے کی ضرورت تو نہیں ۔
اب مری نیند پہ بیدار نگاہی ہے نثار
خواب میں، میں نے کبھی کی تھی زیارت ان کی
مبارک ہو تجھے یہ بخت کی معراج اے حسرت
کہ خوابوں میں رسول اللہ کا دیدار کرتے ہو
انہو ں نے ساری زندگی ریلوے کی ملازمت کی اور کلرک سے ہیڈ کلرک ریٹائرڈ ہو گئے پرانی انارکلی نابھہ روڈ پہ انکا مکان تھا جس کی اوپری منزل پہ وہ رہتے تھے ہمیشہ سفید کرتا پاجامہ زیب تن کرتے بہت چھوٹے قد کے منحنی وجود کے حسرت حسین حسرت ٹیوشن پڑھاتے تھے اور وہ بھی انگلش کی ۔۔ انہی کا شعرہے نعت کا
تری رحمت نے وہ آسودگی بخشی ہے حسرتؔ کو
کہ میں نے پاؤں سے چادر کو کم ہوتے نہیں دیکھا
احسان دانش کو جب بھی کوئی انگریزی سے متعلق کام ہوتا تو ہمیشہ حسرت صاحب کے ذمہ ہی لگاتے اورانکی انگلش دانی کی تعریف بھی کرتے حسرت صاحب نے انگریزی میں نعتیں بھی کہیں جو ان کی کتاب سماوات میں موجود ہیں جس کی تعریف جناب حفیظ تائب نے کی ہے سماوات کا مقدمہ تئیس صفحات پہ مشتمل ہے یہ تائب صاحب کا بہترین مقدمہ قرار دیا جاسکتا ہے جس میں تائب صاحب نے ان کی نعت نگاری پہ تفصیلاً روشنی ڈالی ہے ۔
حسرت صاحب کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھنے اور ان کے ساتھ پیدل اور سواری پہ سفر کرنے کے مواقع ملے ان جیسی منکسرا لمزاجی کم ہی دیکھنے کو ملے انہیں جہاں کہیں کسی کا شعر اچھا لگتا تو اسی تخلیق کار کے ہاتھ سے شعر تحریر کروا کے اپنے پاس رکھتے اپنے مبتدی حضرات کی ازحد حوصلہ افزائی کرتے ۔ حسرت حسین حسرت بہت عمدہ غزل گو بھی تھے مگر ان کے لیے نعت پہلی ترجیح لگتی ہے یہ شعر دیکھیئے ،
سجا کے دل میں پیمبر کی آرزو آئے
یہ بزمِ نعت ہے جو آئے باوضو آئے
حبِ رسول اور وطن سے محبت ان کے لیے لازم و ملزوم رہے چونکہ ان کا تعلق اس نسل سے تھا جس نے آزادی ، تقسیم ، ہجرت ، اور بربادیاں دیکھ رکھی تھی اور وہ نظریاتی طور پہ پاکستان اور مسلم لیگ سے مطابقت رکھتے تھے اس لیے انہوں نے کہا۔
یہ و طن ہم نے کیا حاصل نبی کے نام پر
اس وطن کو حشر تک رکھے خدا آراستہ
ان کے موضوعات میں ملت کی زبوں حالی اور بے عملی پہ تنقید شامل رہے یہی موضوعات اقبال کے بعد کی نسل کے اذہان میں سرایت کر چکا تھا یہی موضوعات ان کے استاد کے بھی پسندیدہ تھے ان کی غزلیات کا مجموعہ دشت وچمن کے نام سے منظر عام پہ آیا یہ شعر دیکھیے ۔
مرگ و ہستی کے لوازم کی ہمیں کیوں فکر ہو
پیرہن مغرب سے آتا ہے کفن بھی آئے گا
غلط بخشی تمہی نے عام کررکھی ہے دنیا میں
کسی زرے کو سورج کے برابر دیکھنے والو
حسرت حسین حسرت خود کہتے تھے کہ میں تو احسان دانش کی منشی گیری کرتے کرتے شاعر بن گیا ہوں ،،
خدا کا شکر حسرتؔ کو ملا اسلوب دانش کا
جو ہے اسلوب دانش کا تو پھر یہ بے زباں کیوں ہو
یہ تو ان کی انکساری تھی ورنہ اچھے اچھوں سے بھی بہتر شعر کہہ رہے تھے جب ایک مرتبہ ہم انہیں شہزاد صاحب کے پاس لے گئے تو شہزاد صاحب بھی ان انگریزی ادب سے متعلق گفتگوپہ خوش ہوئے ۔ معاشرتی نفسا نفسی پہ ان کا بہترین شعر دیکھیے ،۔
حرص کا وہ بھی دور آئے گا
جیب لگ جائے گی کفن میں بھی
خالص غزل کا شعر دیکھیے؛
اس نے اک پل کے لیے محفل میں الٹا تھا نقاب
لوگ گھبرا کے شبِ غم کو سحر کہنے لگے
انہوں نے بتایا کہ جب وہ احسان دانش سے مرض الموت میں ملنے گئے تو احسان صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تو میں نے کہا کہ استاد آپ کا شعر ہے ۔۔
دانش میں فکر مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز
میں جانتا ہوں موت ہے سنت رسول کی
اور یہ بھی کہ احسان دانش نے انہیں اس پہ مقررفرمایا تھا کہ میری تدفین پہ فلاں غزل حسرت حسین حسرت پڑھیں گے ۔پھر ایک دن یہ روشن ستارہ بھی اپنے استاد کے نقش قدم پہ چلتے ہو ئے دنیا چھوڑ گیا -
مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
نئے صفحات | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
|