سید طاہر کی نعت

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


"Wajid Ameer"

تحریر : واجد امیر

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سید طاہِر کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت اگرچہ بُہت عرصہ مذہبی عقیدت سے مُنسلِک صنفِ سُخن سمجھی جاتی رہی۔ہم اگراُردو شاعری کے کلاسیکی دور کا مطالعہ کریں تو دیوان کے دیوان اِس صِنفِ سُخن سے تہی نظر آئیں گے مگر قطع نظر اِس کے نعت بہ طرزِ قصیدہ کہنے والے الگ اور واضح دِکھائی دیں گے۔ میر وغالِب کاتو ذِکر ہی کیااِقبال کا اگرچہ تمام کلام مذہبی استعارات و خصائص سے مُزیّن سمجھا اور جانا گیا مگر وہاں بھی نعت باقاعدہ بہ عنوان نعت کہیں موجود نہیں۔اُس پہ عالم یہ تھا کہ اُس دور میں جُبہ ،قُبہ، کُلاہ،اور ظاہری پوشش مُکمل اسلامی رہن سہن تمدُن کی آئینہ دار تھی علوم و فنون عام بول چال میں عرَبی و فارسی کا بول بالا تھا اُس دورکا کوئی شخص اگر بہ حُکمِ اللہ زندہ ہو جائے اور آج کا مُسلم مُعاشرہ دیکھ لے تو پَرچمِ مذہب تھامے لوگ بھی قابِل گردن زنی ٹہریں ۔قدیم کلاسیکی اَدَب میں صَنفِ نعت کی عدم موجودگی کو باعثِ نِدامَت یاعیب میں ہرگِز نہیں گردانا جاسکتاکہ ابھی نعت کو بہ طرزِغزل کہنے کی مُعجزنُمائیوں کا وقت نہیں آیا تھا۔ لیکن ہم پانچ سات اشعار کی نعت کہنے والے سینکڑوں اشعار کے نعتیہ قصائد کہنے والوں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ بیشتر قصیدہ نَگار عربی اورفارسی کے طرزِ قصید ہ نِگاری کے مُقلِد تھے جِنہیں ہندوستان کے منظر نامے سے ہم آہنگ کیا گیاکہیں صدائے اِستغاثہ بُلند ہوئی کہیں طویل منظوم تھے جن میں مُسلم اُمہ کی زبوں حالی پر ماتَم کیا گیا ۔الغرض ملَتِ اسلامیہ نہ مدحتِ رسولﷺ سے غافِل رہی نہ مُسلمانوں کی ابتَر حالت سے ۔


ہندوستان تقسیم ہوا سیاسی منظر نامے کے ساتھ ساتھ ادبی منظر نامی بھی بدَل گیاایک نئے پاکِستانی اَدَب کی بُنیاد رکھی گئی جدید اُردو غزل کے خد و خال واضح ہونا شروع ہو گئے نظم کے نِت نئے آہنگ مُتعارف ہوئے۔


سیاسی اُکھاڑ پِچھاڑ بھی جاری رہی مارشل لا سیاسی قوّتوں کو مات دیتی رہی اور سیاسی سورما مِلٹری کو۔ایک عہد مذہب بیزاری کا آیا سوشل اِزم کا غلغہ اُٹھا دینی قوّتیں بھی تیّار بیٹھی تھیں معرکہ ہوا میدان فوجی قیادت کے ہاتھ رہا جِس کا سربراہ مذہبی رُحجانات کادعویٰ دار تھا اور تو کُچھ ہوا نہیں بَس نعت خوانوں کی بَن آئی سَرکاری و غیر سَرکاری تقریبات میں تِلاوّ ت اور نعت خوانی لازِم و ملزوم ہو گئیں۔


ادبی فضا بھی اِسی بَدلتے موسموں کے سَر دگرم سے مُتاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ اُن رسائل ،جرائد ، اخبارات کو بھی رنگ بدلتے دیکھا گیا جِن میں نعت یہ کِہہ کے شائع نہی کی جاتی تھی کہ ہم لِبرل ہیں اور ہماری پالیسی نہیں ہے ایسا ہی ریڈیو ، ٹیلی ویژن،میں ہواجہاں مذہبی پروگرام نہ ہونے کے برابر تھے سَب کُچھ مذہبی رنگ میں رنگا گیا۔جوپہلے سے نعت لِکھ رہے تھے ادبی بزرجمہروں نے پَلٹ کے اُن کی طرف دیکھا اور سَر جھُکا کےنعت کہنی شروع کی ۔ اچھے سُخن سازوں نے بہترین نعت کہی جیّد اور مُستنّد تخلیق کار نعت کی سعادَت سے بہرہ مند ہوئے اور نعت کے عہدِ زرّیں کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے۔


البتہ اِس سُرعت اور کثرت نے معیا رکو ذدّ پُہنچائی نعت خوانوں اور نعت نِگاروں نے مالی منفعت اور وقتی داد وتحسین کے لیے ایسے ایسے کلام کہے اور پڑھے جو یقیناگُستاخی کے ذُّمرے میں آتے تھے اور جِن پہ ِ گرِفت ہونی چاہیے تھی ! مگر کرتاکون؟


اِس تمام ہنگامہ ہائے زر و داد سے الگ بھی ایک جہان آباد تھا اور ہے جہاں مُحبَت، مودّت احترام ، اخلاص،احترام ،اور فنّی پُختہ کاری سے مُزیّن نعت نِگاری ہورہی ہے جہاں کا مطمعِ نظر دولَت، شہرت اور وقتی تحسین نہیں بلکہ بارگاہِ رِسالتَ مآب میں حاضری مقصود ہے۔ فیصل عجمی کا شعر ہے کہ ۔

آخری صَف بھی ہے معراجِ تمنّا فیصلؔ

پھِر بھی خواہِش ہے کہ ہو جائیں زرا سا آگے


اِسی آخری صف میں بیٹھے ہوئوں میں ایک نام سید طاہر کا بھی ہے وہ نعت کہہ رہے ہیں اور خوب کہہ رہے ہیں مگر وہ لوگوں کو چونکانے اور بِلا وجہ جدید نعت نِگار کہلانے کی خواہِشِ بے کار میں مُبتِلا نہیں ہیں ۔ اُن کی نعت میں وہی فضا موجود ہے جو ابتدائی اُردو نعت نِگاری سے لے کر آج کے ہر اُس نعت نِگار کے ہاں نظر آئے گی جو اَدَب قرینے اور سلیقے سے نعَت کہہ رہا ہے۔


سیّد طاہر کے بیشتَر نعتیں معروف نعَت نِگار شعُرا کے مصروں اور دبِستانِ وارثیہ کے مُنقعدہ کُل پاکِستان ردیفی مُشاعروں کے لیے کہی گئی ہیں۔وطن ِ عزیزمیں جہاں دوسرے بُہت سے اِدارے اور تنظیمیں فروغِ نعت کے لیے اپنا اپنا کِردار اَدا کر رہی ہیں اُن میں دبِستانِ وارثیہ اِس لحاظ سے مُنفرِد ہے کہ اِس تنظیم نے مُستقِل مزاجی ، لگن ،محنَت اور مُحبت سے واقعی نعت کے باب میں گراں قدر خدمات سَر انجام دی ہیںدبِستانِ وارثیہ سے جو لوگ مُستقِل مُنسلک ہیں وہ بِلا شُبہ کُہنہ مَشق اور سِکّہ بند شاعر ہیں اور بَرس ہا بَرس سے مُختلف شہروں میں سالانہ ردیفی مُشاعروں کا انعقادبہ اہتمام کر رہے ہیںردیفیں مُختلف شہروں کے لیے الگ الگ ہوتی ہیں طبع آزمائی کرنے والے مقبول و معروف شعُرا بھی ہوتے ہیں اور نو آموز بھی یوں اساتذہ کو نوواردانِ سُخن کو سُننے کا موقع مِلتا ہے اور نوجوانوں کوسیکھنے کا ۔


چونکہسید طاہِر کی بیشتر نعتیں انہی ردیفی اور طرحی مُشاعرں کے لیے کہی گئی ہیں اِس لیے یہ گُمان ہو سکتا ہے کہ لگے بندھے پیرائے میں نعت کہنے سے نعت نِگارکا طائرِ خیال محدود فضاؤں میں مقیّدہو جاتا ہے ایسا ہوتو سکتا ہے مگر ایسا ہے نہیں اگر شاعر کے پاس اپنی لفظیات ،تراکیب ،مضامین اور فَن پہ دسترس ہو تو ردیفی بندش اور طرحی مِصرے کی اسیری اُس کا راستہ نہیں روک سکتی ۔ بات صرف اِتنی ہے کہ کوئی شاعر یکلَخت بٹن دبا کے غزل یا نعت نہیں کہتا ظاہر ہے کوئی ردیف اُسے پسند آتی ہے یا کوئی مِصرعہ اتنا موزوں لگتا ہے کہ اُس پر اپنی تازہ تخلیق کی عمارت اُستوار کرنے کو تیّار ہو جاتا رہے یہی طرحی مِصرعہ سمجھ لیجے اور جوردیف کسی بھی مِصرعے کی ہے شاعر کو بہ ہرطور اُس کا پابند ہو ناپڑتاہے۔سو غزل گو یا نعت نِگار جو بھی کھٹن ریاضت کی کٹھالی سے گُزراہواُس کے لیے قافیہ ، ردیف، طرح مصرع سَدِّراہ نہیں ہو سکتے۔


نعت جِس احتیاط ، عجز،ا نکساری ، توجہ،ریاضَت ،ایمائیت ،خلوص،احترام او راَدب کی مُتقاضی ہے بِلا شُبہ سیّد طاہِر کی نعت نِگاری مذکورہ بالا معیا ر تک ( اپنے تئیں)پُہنچنے کی کاوش ہے۔اُنہوں نے مُستعمِل مضامین میں اپنی شعری حسِیّت سے رنگ بھرے ہیںاُن کی نعَت بے سبب ثقالت ، بے وجہ علمی تفاخُر ،بے محل مُشکل الفاظ اور اَدق مضامین کا مجموعہ ہر گِز نہیں بلکہ سلاسَت سے پُر اور عام فہم ہے۔میں اُن کی علمی ، اَدبی ، فَنّی ترقی کے لیے دُعا گو ہوں۔ آخِر میں کُچھ مُنتخب اشعار دیکھیے۔


یہ زمیں تو خاک تھی اور خاک کی اوقات کی

آپ آئے کھِل اُٹھا کیا کیا گُلستانِ زمیں


ہونے والا ہوں کِسی پَل میں بھی آقا رِزقِ خاک

کاش مِل جائے مجھے طیبہ کا دامانِ زمیں


سارے عالم سے الگ رکھتی ہے زیبائی زمیں

کاش مِل جائے مُجھے طیبہ کا دامانِ زمیں


کاش پھِر حسّان جیسا کوئی طیبہ میں مِلے

مُجھ کو وہ طاہِر ؔسُنائے داستانِ رنگ و بُو


مُسکرائے تھے شہِ کون و مکاں جَب زیرِ لَب

آسماں کے ساتھ پہلی بار مُسکائی زمیں


آنکھیں کھُلیں تو اُن کا مدینہ ہو سامنے

اِک خواب سی ہے دیدۂ بیدار کی طلَب

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات