نعتیہ نظم ۔ نسبتیں
شاعر: ابو الحسن خاور
کلام شاعر بہ زبان شاعر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نسبتیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
میرے بیٹے نے سن تو رکھی تھیں
نسبتیں اس سنہری جالی کی
جس کی رنگت پہ صبح کی کرنیں
جان و دل سے نثار ہوتی ہیں
جس کےپہلو میں خلد سمٹی ہے
جس کے روزن سے نور چھنتا ہے
جس کو دیکھیں تو عشق آنکھوں سے
صورت ِ اشک آ ٹپکتا ہے
اس نے بچپن سے سن تو رکھی تھیں
نسبتیں اس سنہری جالی کی
ایک دن اذن حاضری جو ملا
ہم بھی پہنچے دیار ِ رحمت پر
ان کی جالی سے کچھ ادھر ہو کر
دونوں اشکوں میں نعت کہنے لگے
جانے کس وقت میرے بیٹے نے
پہریداروں کی بے خیالی میں
فقط اک لمس ِ شبنمی کے لیے
ماں کے چہرے کو جیسے چھوتے ہیں
چھو لیا اس سنہری جالی کو
پہریداروں سے تو رہا نہ گیا
ایک نے اس کا ہاتھ پکڑا اور
کھینچ کر میرے پاس لے آیا
وہ تھا دربان ِ سرور ِ عالم
وہ تو شاہوں کو ڈانٹ سکتا تھا
میں تو منگتا تھا ان کی چوکھٹ کا
اور منگتا بھی آخری صف کا
اس کی تالیف ِ قلب کی خاطر
اپنے چہرے کو سرخ کرتے ہوئے
آنکھوں آنکھوں میں اپنے بیٹے کو
خوب ڈانٹا ۔۔۔۔۔ اور اس کے جاتے ہی
اپنے بیٹے کے ہاتھ چوم لیے ۔