نعت خوانی کی روایت ۔ نور درویش
مضمون نگار : نور درویش
نعت خوانی کی روایت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
جس گھر میں میرا بچپن گزرا وہاں ہمارے محلے میں ایک پیر صاحب ہوا کرتے تھے، مریدوں کی بہت بڑی تعداد ہوا کرتی تھی اُن کی۔ ہر برس اُن کے ہاں ایک سالانہ عرس منعقد ہوتا تھا، جو شاید مغرب کی نماز سے شروع ہوکر اگلے روز فجر تک جاری رہتا تھا۔ نعت خوانی ہوا کرتی تھی، لنگر ہوا کرتا تھا اور پھر یہ لوگ تمام رات یک زبان ہوکر مختلف اذکار کیا کرتے تھے۔ چونکہ یہ سب کچھ میرے گھر کے بالکل عقب میں ہورہا ہوتا تھا، اس لئے مجھ سب کچھ اب تک بہت اچھی طرح یاد ہے۔ ان پیر صاحب کے بیٹے میرے بہت اچھے دوست تھے، اُنہیں معلوم تھا کہ میں بھینعت پڑھتا ہوں اس لئے عرس سے پہلے مجھے یاد دلا دیتے تھے کہ نعت خوانی شروع ہونے سے پہلے تم بھی آکر نعت پڑھ لینا۔ لہذا مائک پر نعت پڑھنے کے شوق میں، میں سر پر جناح کیپ سجا کر نعت پڑھنے پہنچ جایا کرتا تھا۔ چونکہ بچہ تھا، اس لئے محترمہ ام حبیبہ سے لیکر وحید ظفر قاسمی صاحب تک، کسی بھی نعت خوان کی نعت پڑھ لیا کرتا تھا۔
میرے سکول کی بس اکثر و بیشتر خراب ہوجایا کرتی تھی، اس لئے جب کب سکول بس خراب ہوجاتی تھی، میرے والد صاحب اپنے دفتر کے ایک صاحب، برکت چاچا کو مجھے سکول چھوڑنے اور واپس لانے کی ذمہ داری سونپ دیا کرتے تھے۔ برکت چاچا کی کُل کائنات “کالی کملی” اور”نعت شریف”تھی۔ یہ سائکل پر مجھے سکول لے جاتے ہوئے اور واپس لاتے ہوئے بہت خوبصورت آواز میں نعت پڑھتے جاتے تھے، کبھی کوئی پنجابی کلام بھی پڑھتے تھے، جو شاید صوفی کلام ہوا کرتا تھا۔ مجھ سے عمر میں کئی گناہ بڑے تھے لیکن شاہ جی کہہ کر بلاتے تھے۔ اُن کی آواز اور اُن کی شکل اب بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔
سکول میں ربیع الاول میں میلاد منعقد ہوا کرتا تھا جس میں میں اپنے پڑی بہن کے ساتھ حصہ لیا کرتا تھا۔ میرے دادا مرحوم کسی زمانے میں سوزخوانی کیا کرتے تھے، یو پی سے تعلق تھا، وہاں وقت گزارا تھا لہذا تلفظ، الفاظ کی ادائیگی اور طرز وغیرہ کی باریکیوں کو خوب جانتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے جب میں سکول میں میلاد کیلئے مشہورِ زمانہ نعت” مدینے کا سفر ہے اور میں رنجیدہ رنجیدہ” کی تیاری کررہا تھا، اور اُنہوں نے مجھ سے پوری نعت سن کر بہت سے الفاظ کا تلفظ درست کروایا تھا۔
میں کچھ دن پہلے اپنی ایک تحریر میں اپنی ایک کلاس ٹیچر کا ذکر کیا تھا جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ اُنہیں معلوم ہوگیا تھا کہ میں نعت پڑھتا ہوں، اس لئے ہر روز اسمبلی میں مجھ سے نعت پڑھوایا کرتی تھیں۔ رمضان میں عین افطاری کے وقت سے کچھ پہلے پی ٹی وی پر مشہور نعت خواں حضرات کی نعتیں نشر ہوا کرتی تھیں۔ مرغوب احمد ہمدانی، قاری وحید ظفر قاسمی, منظور الکونین،خورشید احمد،فصیح الدین سہروردی، مظفر وارثی، اعظم چشتی، اور صدیق اسماعیل وغیرہ جیسے پائے کے نعت خواں حضرات کی آوازوں نے دلوں کو اب تک ایسا مسحور کررکھا ہے کہ آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی ان کی آواز سن کر ذہن اسی زمانے میں پہنچ جاتا ہے جو اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔
“یا رسول اللہ تیرے در کی فضاؤں کو سلام”،”خود ربِ جہاں ہے مدح سرا، سبحان اللہ”،” کوئی سلیقہ ہے آرزو کا”، ”فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر”، ”بنے ہے دونوں جہاں شاہِ دوسرا(ص) کیلئے” ، میں تو پنجتنؑ کا غلام ہوں”، ”جب مسجدِ نبوی کے مینار نظر آئے”،” کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی”۔ اِن جیسی کتنی ہی نعتیں ہیں جن کا فقط ایک جملہ سن کر دل مسحور ہوکر رہ جاتا ہے۔نعت خوانوں کے جو چند نام میں نے اوپر لکھے، یہ فنِ نعت خوانی کی مرکزیت کے استعارے ہیں، یعنی آپ انہیں کسی بھی مخصوص مکتب فکر کے ساتھ بریکٹ نہیں کر سکتے۔ ان کی حیثیت ایک مشترکہ اثاثے کی سی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو مرکزیت ان تمام نعت خواں حضرات کے فنِ نعت خوانی کا خاصہ ہے۔
آج بھی ان کے شاگرد یا فنِ نعت خوانی کی اس قدیمی ثقافت کو لیکر آگے بڑھنے والے نئے نعت خوان اُسی انداز میں آگے لیکر بڑھ رہے ہیں۔ سر پر جناح کیپ سجائے، شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے انتہائی ادب کے ساتھ بے انتہا خوبصورت انداز میں نعت پڑھتے ہوئے ان نعت خوانوں کو دیکھ کر یہ خیال چھو کر بھی نہیں نہیں گزرتا کہ ان کا مسلک کیا ہے، ان کا فرقہ کیا ہے۔ خیال رہتا ہے تو بس یہ کہ یہ شانِ رسالت (ص) بیان کرنے والے بہت خوبصورت اور پیارے انسان ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مرحوم حفیظ تائب کے جنازے میں کیا شیعہ اور کیا سنی، سب ہی روتے ہوئے شریک ہوئے تھے۔ مجھ سے پوچھیں تو مجھ پر جتنا زیادہ اثر مرحوم الحاج خورشید احمد کی آواز کا ہے، اتنا شاید کسی اور کا نہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی خوبصورت آواز نہیں سنی۔ خدا اُن کی قبر کو منور فرمائے۔
اس تمام تر تمہید کا مقصد دراصل نعت خوانی کے حوالے سے اپنا ایک مشاہدہ بیان کرنا تھا، جو یقینا غلط بھی ہوسکتا ہے۔ مجھے ٹھیک سن تو معلوم نہیں لیکن میرا گمان ہے کہ غالبا نوے کے اواخر اور یا سنہ ۲۰۰۰ کے بعد ہم نے دیکھا کہ نعت خوانی میں ایک نئے انداز کا اضافہ ہوا۔ اس انداز کے بانی اویس رضا قادری ہیں۔ فنِ نعت خوانی کی ترویج میں ان کے کردار سے انکار ممکن نہیں ہے اور نہ ہی جدت کوئی بری چیز ہے۔ خود ہم اہلِ تشیع کے ہاں نوحہ و مرثیہ خوانی کے مختلف انداز رائج ہیں۔ سچے بھائی مرحوم کا ایک زمانہ اور انداز تھا اور پھر ندیم سرور نے آکر ٹرینڈ کر تبدیل کردیا۔ لاہور میں”بزن کا ماتم” مشہور تھا، بابا نثار حیدری مرحوم کی شاعری اور بزن کا ماتم لازم و ملزوم تصور کیے جاتے تھے لیکن پھر ٹرنڈ بدلا، مرحوم خان تصدق خان نے نیا رجحان متعارف کروایا۔ آج یہ دونوں طریقے موجود ہیں۔
بہرحال، اویس رضا قادری نے جو انداز متعارف کروایا، آج اُسی انداز میں نعت پڑھنے والے لاتعداد نعت خوانوں کی تعداد سامنے آچکی ہے۔ ان سب کا لباس، حلیہ اور انداز بھی تقریبا ایک جیسا ہے۔ نعت کے بیک گراونڈ میں”اللہ ہو اللہ”کی آواز کو بطور افیکٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سب یقینا جدت ہے اور جدت بری چیز نہیں البتہ جو مشاہدہ میں نے کیا وہ یہ ہے کہ اویس رضا قادری اور اُن جیسے تمام نعت خوانوں میں اُس مرکزیت کا فقدان ہے، جو مرکزیت ہمیں اُن نعت خواں حضرات میں نظر آتی ہے جن کا تذکرہ میں نے اوپر کیا۔ جملہ شاید تھوڑا سخت ہوجائے گا لیکن لگتا کچھ یوں کہ جیسے نعت خوانی کی اِس صنف نے خود کو ایک مخصوص مکتب میں بریکٹ کر لیا ہے۔ وہ منفرد احساس جو منظور الکونین صاحب، خورشید احمد صاحب، قاری وحید ظفر قاسمی و دیگر کو سن کر پیدا ہوتا ہے، وہ احساس یہاں موجود نہیں۔ کوئی شک نہیں اویس رضا قادری اور ان جیسے دیگر نعت خواں حضرات کی نعتیں بے انتہا خوبصورت ہوتی ہیں، لیکن مرکزیت کا فقدان ہے۔ یہ نعت خوانی کی مقید صنف ہے، آزاد اور آفاقی نہیں۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت ہمارے ہاں نعت خوانی کے دو متوازی طریقے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، ایک طریقہ وہ جو آج بھی مسلک و مکتب کی قید سے آزاد، سر پر جناح کیپ سجائے، شلوار قمیض و واسکٹ پہنے، بہت ہی خوبصورت انداز میں نعت پڑھتا نظر آتا ہے۔ وہ طریقہ جسے سُن کر یہ خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا کہ اِس نعت خواں کا مسلک کیا ہے، سوائے اس کے کہ یہ بس ایک مداحِ رسولِ خدا(ص) ہے۔ اور ایک وہ جو اپنی وضع قطع اور مخصوص اندازکی وجہ سے بلاشبہ فنِ نعت خوانی میں منفرد مقام رکھتا ہے لیکن بہرحال خود کو مخصوس مکتب کی بریکٹ میں پابند کرتا بھی نطر آتا ہے۔ ۔ آخر میں برسبیلِ تذکرہ یہ بھی لکھتا چلوں کہ نعت خوانی بہرحال ایک فن ہے، بالکل اُسی طرح جیسے سوزخوانی و نوحہ خوانی ایک فن ہے۔ یہ لوگ ریاضات کرتے ہیں، اس متبرک ذکر کو شایانِ شان انداز میں لوگوں تک پہچانے کیلئے اپنا وقت لگاتے ہیں، برس ہا برس محنت کرتے ہیں۔ لہذا ان کو اس متبرک ذکر کا ہدیہ یا نذرانہ پیش کرنا، دراصل ان کا حق ہے۔ مرحوم الحاج خورشید احمد سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ پروفیشنل نعت خواں سے کیا مراد ہے، تو اُنہوں نے جواب دیا تھا کہ” یہ تو نذرانہ یا ہدیہ ہے جو محبت و احترام کرنے والے اپنی عقیدت کی وجہ سے دیتے ہیں۔ یہ لوگوں کی محبت ہے۔ باقی اگر ایک نعت خواں کا بچہ سائکل کی بجائے موٹر سائکل خرید لے، کسی اچھے سکول میں داخلہ لے لے، تو اس میں کیا برا ہے۔ کیا صرف گلوکاروں کے بچوں کا ہی حق ہے کہ وہ اچھے سکولوں میں پڑھیں۔”
آپ یقینا یہ سوچ رہے ہونگے کہ سیاسی کشیدگی اور جے آئی ٹی پر جاری تلخ ابحاث کے درمیان مجھے نعت خوانی کے بارے میں لکھنے کا خیال کیوں آگیا؟ دراصل میں نے عرب میں دیکھا تھا کہ جب دو آدمی آپس میں لڑ پڑتے تھے تو ایک تیسرا شخص بچ بچاو کروانے کیلئے عربی میں “صلو علی محمد(ص)”کہہ کر بات ختم کروانے کی کوشش کیا کرتا تھا، ایک جملہ اور بھی بولا کرتے تھے، شاید “صلح النبی” جس کا معنی مجھے معلوم نہیں لیکن لگتا کچھ یوں تھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ نبی (ص) کے نام پر صلح کر لو۔ بس میں نے بھی سوچا کہ سیاسی معاملات پر ان لڑائی جھگڑوں اور تلخیوں کے درمیان اس تحریر کے ذریعے میں بھی”صلو علی محمد و آلِ محمدؑ” کہہ کر ماحول کچھ بہتر بنا دوں۔
اے کاش ذرا دیر یہیں وقت ٹھہر جائے
میں پیشِ رسولِ عربی(ص) نعت سرا ہوں !
(حفیظ تائب)
بشکریہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نعت خوانی کے بارے اہم صفحات | |
---|---|
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
نئے صفحات | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
|