"ثنا نامہ" کا مطالعہ ۔ ریاض احمد قادری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از ریاض احمد قادری

ریاض پرواز کے نعتیہ دیوان ثنانامہ کا مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتِ محبوبِ خدا ایک معطر ،مطہر ،پاکیزہ اور طیب و طاہر صنفِ سخن ہے اس کی عطا ربِ کریم کی بارگاہ سے ہو تی ہے۔ نعت نگاری ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ مرزا غالب جیسے استادِ سخن اور ماہرِ فن قادرالکلام شاعر کہہ اٹھتے ہیں کہ

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم

کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمد ﷺ است

اقبال کہتے ہیں

ادب گا ہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر <ref> فاضل مضمون نگار اس شعر کو علامہ اقبال سے منسوب کر گئے ہیں حالانکہ یہ شعر عزت بخاری کا ہے </ref>

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا

اور نعت نگاری کی توفیق اور استطاعت جب غلافِ کعبہ پکڑ کر مقامِ ملتزم پر روتے ہوئے اشک بار آنکھوں سے مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ خالی نہیں لوٹاتا۔نعت کی توفیق ضرور عطا کرتا ہے۔اور پھر ریاض پرواز جیسا ناتواں کمزور ونحیف شاعرِ نعت کے سب سے زیادہ اشعار سے ثمر بار ہو تا ہے جس نے ۱۹۵۴ میں ادبی شعری سفر کا آغاز کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ سے [[نعت نگاری}} کی توفیق ۱۹۸۴ میں ملی جس میں اس کی تیس سالہ ادبی ریاضت اور فنی و شعری تب و تاب اور توانائی بھی شامل ہے جس سے اسے مستجاب لمحوں میں مانگی گئی دعا کے ثمر کے طور پرنعتیہ مجموعے ’’ طلع البدر علینا‘‘، ’’اعجازِ نیاز‘‘ اور ’’ ریاض الجنہ‘‘ عطا ہو گئے جو ۱۹۸۸ تک اشاعت کا شرف بھی پا گئے اور علمی و ادبی حلقوں میں باریابی بھی حاصل کر گئے۔استادِ رباعی ڈاکٹر سید قمر اشرف ان سے ۳۵ سال بڑے تھے اس کے با وجود وہ ریاض پرواز سے مرعوب نظر آئے۔ جس کا اعتراف و اظہار انہوں نے اپنے مضمون ’’ مرعوبیت ‘‘ میں کیا اور فرمایا کہ ریاض پرواز مجھ سے کہیں زیادہ اچھا لکھتے ہیں جس کی وجہ سے میں ان سے مرعوب ہوں۔

جناب ریاض پرواز کا شمار اردو نعت کے ریاضینِ خمسہ میں ہو تا ہے جن میں ریاض سہروردی،ریاض مجید،ریاض احمد چودھری اور ریاض حسین زیدی بھی شامل ہیں۔انہوں نے نعت نگاری میں یہ منفرد مقام اپنی مسلسل ریاضت ، اخلاص ، حسنِ نیت اور عشقِ رسول ﷺ سے حاصل کیا ہے۔ انہیں ا س کے صدقے میں بار بارحاضری درِ رسولﷺ کا شرف بھی مل چکا ہے۔اور ان کی نعت میں کیف وسرور اور سوز و گداز بھی پیدا ہو چکاہے۔وہ ارتجالاََ نعت گو ئی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ان کی تراکیب و شوکتِ الفاظ کے سارے شعراء کرام قائل ہیں۔وہ ایسی لغت اور ڈکشن استعمال کرتے ہیں جن کی تفہیم کے لئے فرہنگِ آصفیہ یا اردو لغات کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اسی خوبی نے ڈاکٹر سیدقمر اشرف کو متاثر کیااور انہوں نے تراکیبِ ریاض پرواز کی طویل فہرست بھی فراہم کی ہے۔ مثلاََ مجادلہ، رقصندگی ،مملوئے ہوس،اکرام نہادہ،ارقام، معطور، مطلع مودود، قرطاسِ سیمیں، تملک رستگاری، تعذیب وغیرہ۔ ریاض پرواز نے جس صنفِ سخن میں ڈاکٹر سید قمر اشرف مرحوم جیسے ماہر عروض اور فنِ رباعی کے مستند شاعر کو مزیدمتاثر کیاہے وہ ان کارباعی کا فن ہے۔رباعی کہنا نہایت مشکل فن ہے ریاض پرواز نے ۶۰۰ سے زائد رباعیات استاد ڈاکٹر سید قمر اشرف کو سنا کران سے بے پناہ داد سمیٹی۔اور اس پر استادِ فن نے فرمایا آپ کا فہم میرے فہم سے کئی گنا برا ہے اور لفظیات کا دائرہ بھی بہت وسیع ترہے اوراس کا ادراک بہت مشکل ہے۔

محقق نعت اور صدارتی ایوارڈ یافتہ نعت گوشاعر ڈاکٹر ریاض مجید نے اپنے ہم نام جناب ریاض پرواز کو ان جید معتبر اور قابلِ قدر نعت گو شعراء کرام کی فہرست میں شامل کیا ہے جن کی وجہ سے شہرِ فرخندہ نہاد فیصل آباد شہرِ نعت کہلاتا ہے۔انہوں نے انہیں مبارک باد پیش کر کے ہا ہے وہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے مختلف ہئیتوں اور اصنافِ سخن مثنوی، قطعہ ، رباعی اور غزل میں نعت کہی ہے۔ سخن وراور نقاد سرورخان سرور انہیں نعت کا غالب قراردیتے ہیں۔اور یہ بات درست ہے وہ واقعی اردو نعت کے غالب ہیں۔

دیوان نگاری اساتذہ کاخاصہ ہے۔ آج کل ہر نعتیہ مجموعہ کو نعتیہ دیوان قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ وہ دیوان کے تقاضے پورے نہیں کرتا ۔دیوان کے لئے اردو حروفِ تہجی کے اعتبار سے کلام لکھنا ضروری ہے۔جناب ریاض پرواز اس حوالے سے بھی مبار ک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے عصرِ حاضر میں بھی ایک ایسا نعتیہ دیوان رقم فرمایا ہے جس میں پانچ سو کے قریب نعتیں شامل ہیں جو اردو حروفِ تہجی کے اعتبار سے ہیں اس طرح انہوں نے کم و بیش دس دیوانوں کی ضخامت کے برابردیوان تخلیق فرماکر اپنی قادرالکلامی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اس دیوان’’ ثنا نامہ‘‘ میں انہوں نے رباعی کے اوزان پر بھی بے تکان لکھا ہے ۔اور اس فن کو زندہ و جاوید اور ترو تازہ کر دیا ہے۔انہوں نے اردو کے ہر حروفِ تہجی کی ردیفوں اور قوافی میں سینکڑوں کے حساب سے نعتیں کہی ہیں جبکہ ایسے شعراء کرام بھی موجود ہیں جنہوں نے ان حروف تہجی میں ایک بھی نعت نہیں کہی۔

ان کے مضامینِ نعت میں حاضری اور حضوری کی تڑپ،دیدارِ مدینہ کی شدید خواہش، بارگاہِ مصطفوی میں باریابی کا شرف پانے کی آرزو، شہرِ نبی مدینہ منورہ کے دروبام چومنے کی تمنا،اور خود کو ان کے نامِ نامی اسمِ گرامی پر قربان کر نے اور مٹادینے کی امنگ جیسے جذبات کا اظہارشامل ہیں۔ریاض پرواز نے ان کا اظہار نہائیت سہولت اور آسانی سے کیا ہے ۔ انہوں نے سہلِ ممتنع سے چھوٹی اور بڑی بحروں میں بہت اعلیٰ اشعار تحریر فرمائے ہیں۔

کہتا تھا مرا حال زبوں ہے یوں ہے

پہنچا ہوں جو طیبہ میں سکوں ہے یوں ہے

ٹھہراؤ طبیعت کو مدینے میں ملاہے

ہر بات پہ کہتا تھاکہ یوں ہے یوں ہے


ان کی ایک اور نعت کے اشعار ملاحظہ فر مائیں


حُب کے موسم میں دعاؤں میں اثر آتا ہے

ایسے عالم میں ثناؤں میں اثر آتا ہے

نعتِ محبوبﷺ سے الفاظ میں ڈھل جانے سے

میری نعتوں میں نواؤں میں اثر آتا ہے

جناب ریاض پروازؔ کے مضامینِ نعت میں ندرت تشبیہات و استعارات کے بے ساختہ استعمال نے کی ہے

دل کو لے کر ہم مدینے کے جہاں تک آئے ہیں

ہم زمیں کے رہنے والے آسماں تک آئے ہیں

ت کی ردیف میں تیس نعتوں میں سے ۲۴ نعتیں نعت ردیف میں کہہ کر نعت کے فضائل و مناقب بیان کئے ہیں مثلاََ

ع۔ ہر سانس کو دے جاتے ہے خوشبو نعت

ع ۔ ظلمات کے ماحول میں بنتی ہے ضیاء نعت ا نہوں نے جذبوں کا یہ چراغ ہوا کے اور مدحت کا ہر خیال دعا کے سپرد کیا ہے۔ان کی مدحت میں آیا ہوا ہر ہر حرف تاثیر کے لئے خدا کے سپرد ہے۔انہوں نے اپنا قلم بھی انﷺ کی رضا کے سپرد کیا ہوا ہے کہ شاید یہ کبھی کو ئی نعتِ محبوبِ خدا رقم کر دے۔انہوں نے نعتِ محبوبِ خدا ایسی طیب فضا میں رقم کی ہے جو آقاﷺ سے ان کی ارادتوں کا اظہار ہے۔ان کے زیبِ قلم خیال کی رعنائیاں بھی ہیں وردِ زباں روزو شب صلِ علیٰ بھی ہے۔انہوں نے اپنی جبینِ عقیدت کووقفِ درِ مصطفیﷺ کیا ہوا ہے۔وہ روضہ انور کی دید و زیارت کے لئے اشکوں سے وضو کر کے ہر شب تصوراتِ سرکارِ دوعالم ﷺ کیلئے منظر سجاتے ہیں۔ان کے مشامِ جان میں درودوسلام کی خوشبو ہے جو اصل میں رسولِ اکرم و خیر الانعامﷺ کی خوشبو ہے۔ ان کے حروفِ نعت ایسے ہیں جو مشامِ جان کو معطر کرتے ہیں۔ثنائے خواجہﷺ میں اندازِ نعت خوب ترین ہے۔ان کے مضامینِ کمال دلوں میں اترتے جا تے ہیں۔انہیں انوار کی زرتاریاں درِ سرکارﷺ سے ملی ہیں۔ان کے مضطرب دل کی بے تابیاں ان سے نعتِ سرورِ عالمﷺ کہلواتی ہیں۔ان کی شبِ بیداریاں ان کے کام آگئی ہیں۔ان کی زیست نے مفہوم آگہی نعت شاہِ دوسراﷺ تحریر فرما کر لیا ہے۔نعتِ سرورِ عالمﷺ ہی ان کا مقسوم ہے۔نعتِ حبیبِ خداﷺ کے تمام الفاظ خاور کی طرح فروزاں اور تمام حروف ماہِ منور کی طرح درخشاں ہیں۔ان کے نعت جذبے ٹھنڈی رتوں کی چاہ کی صورت پھول نما ہیں۔طیبہ کا حرم ان کے ایمان کی پناہ ہے۔درود صلِ علیٰ ہر ایک طوفاں کفر اور سیلابِ بلا میں ان کو اپنی پناہ میں لیتا ہے۔وہ نویدِ طلوعِ صبح بھی حضورﷺ کی نعت پاک سے لیتےہیں۔

؂ کہنی ہے آج مجھ کو شہِ انبیاء کی نعت

خیرالبشرﷺ کی نعت ، حبیبِ خدا کی نعت

پروازؔ لے کے آئے نویدِ طلوعِ صبح

ٹھہری ہے ہم پہ لازمی نورِ ہدیٰ کی نعت

ان کی نعت میں شگفتگی ہے شیفتگی ہے، سادگی ہے تازگی ہے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ فریفتگی اور والہانہ پن ہے۔نعت پڑھتے ہو ئے ان کا اشک بار انداز، ان کی گلو گیر آواز ، ان کا سوز ان کا گداز ان کے جذبے کی سچائی اور عشق کی شدت کاا ظہار ہے۔وہ دیارِ مدینہ وہاں حاضری اور وہاں سے بچھڑنے کا بیان اشک آور لہجے میں کرتے ہیں تو پوری محفل پر کیف و سرور اور گداز طاری ہو جاتا ہے۔ان کی بھیگی پلکیں ، ان کے بہتے آنسو ان کے اندر کا احوال بیان کرتے ہیں۔شہرِ نعت فیصل آباد میں فقیرِ مصطفی امیر کے بعد وہ دوسرے نعت گو شاعر ہیں جو بہتے اشکوں سے نعت کہتے ہیں۔

مالائیں گلابوں کی پرو دیتے ہیں

منظر مرے اشکوں میں سمو دیتے ہیں

طیبہ کے حرم کے ہیں جو روشن مینار

پلکوں کو وہ یک لخت بھگو دیتے ہیں ا نہوں نے شہرِ نعت کے بہت سے شعراء کرام کو اپنے اسلوبِ نگارش سے متاثر کیا ہے اور وہ ان کے رنگ میں لکھنا اپنے لئے باعثِ اعزاز سمجھتے ہیں

انہوں نے اپنی نعت نگاری کے اثرات جن شعراء کرام پر بہت زیادہ چھوڑے ہیں ان میں دوسروں کے علاوہ غلام مصطفی آزاد نقیبی بھی شامل ہیں۔’’ثنا نامہ‘‘ یقیناًاردو نعت نگاری میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو آنے والے معاصر شعراء کرام پر بے پناہ اثرات مرتب کرے گا۔ یہ دیوان محققین نعت کے لئے بھی ایک خاصے کی چیز ہو گی۔ جناب ریاض پرواز کا کلام اس پائے اور معیار کا ہے کہ اس پرت ایم فل کے مقالات تحریر کے جائیں۔مجھے امید ہے ان کا سفرِ نعت آگے سے آگے جاری رہے گا اللہ تعالیٰ ان کی کاوشِ حسنہ قبول فرمائے آمین

مضمون نگار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ریاض احمد قادری

اسسٹنٹ پروفیسر-شعبہ انگریزی

گورنمنٹ پوسٹ گریجو ایٹ کالج سمن آباد فیصل آباد

حوالہ جات و حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]