اختر ہوشیارپوری کی نعت۔ایک مطالعہ ۔ امین راحت چغتائی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : امین راحت چغتائی۔اسلام آباد

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

اخترہوشیارپوری کی نعت......ایک مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۲۰/اپریل۱۹۱۸ء۔۱۸/مارچ۲۰۰۷ء)

ABSTRACT:

Akhtar Hoshiarpuri was a renowned poet who contributed towards genre of Naat with his five poetry collections, besides 11 collections of general poetry. Humiliation, Respectful attitude and modern trend of expression with new style have made him unique in the field of Naat creators. Some stylistic couplets have been cited here in order to strengthen the narrative of writer for the purpose of introduction of the late poet.

میں اختر ہوشیارپوری مرحوم کی شاعری کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ عرصہ بسرکرچکا ہوں اوراُنھیں زندگی کے آخری لمحوں تک ویسا ہی تازہ فکر پایاجیسا اُنھیں۱۹۴۸ء میں اپنی پہلی ملاقات کے وقت دیکھا تھا۔اُن کی شاعری میں کہیں تھکن کااحساس ہے نہ اُنھوں نے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔مجموعی طورپراُن کے سولہ مجموعہ ہائے کلام شائع ہوچکے ہیں اور’’خیرالبشر‘‘اُن کا چودھواں (۱۹۹۹ء)مجموعۂ کلام ہے اورنعت نگاری کے لحاظ سے چوتھا ۔اُن کے نعت کے دومجموعے’’برگِ سبز‘‘ اور’’مجتبی‘‘ بالترتیب ۱۹۸۷ء اور۱۹۹۷ء میں نظر نواز ہوئے۔۱۹۹۸ء میں منعقد ہونے والی قومی سیرت کانفرنس میں وزیراعظم جناب محمد نوازشریف نے بذاتِ خود اُنھیں’’ موخرالذکر‘‘ مجموعے پرانعام دیا تھاجوجناب اخترہوشیارپوری نے کانفرنس ہال میں ہی وزیراعظم کے خودانحصاری فنڈ میں دے دیا تھا۔اپنے آقاصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدحت نگاری پرملنے والے انعام کااس سے زیادہ مبارک مصرف اورکیاہوسکتا تھا۔

جناب اخترہوشیارپوری جس طرح جدید اردوغزل کونیا اُسلوب اورلہجہ دینے والے اکابر شعرا میں شمار ہوتے ہیں اُسی طرح جدید نعت میں بھی اُن کالہجہ نئے پن کااحساس دلاتاہے۔اُن کی نعت کے پانچوں مجموعوں میں تین خصوصیات بہت نمایاں ہیں۔اوّل: عجز وانکسار،دوم:حدِادب اور سوم:غیرروایتی موضوعات اورتینوں اوصاف کااسلوب بیان نیا۔اس سلسلے میں سب سے پہلے ’’برگ سبز‘‘۱۹۸۸ء کی مختلف نعتوں کے یہ تین اشعار پڑھیے:

قرطاس کاسینہ ہے، مری نوکِ قلم ہے

یہ معجزۂ نعتِ خداوندِحرم ہے


قلم کارو!حراسے حرف کی آواز آتی ہے

کہ اب آواز کے سورج کووادی میں نکلنا ہے


اُن کی گلیوں کی اگر خاک میسر آجائے

آئینہ ہو کہ نہ ہو ، آئینہ گربن جاؤں

اب مجتبیٰ کے یہ اشعاردیکھیے۔مواجہہ شریف سامنے ہے جہاں بڑے بڑوں کا دامنِ صبر ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ جاتاہے مگر مجتبیٰ کے شاعر کے عجز اورحسنِ طلب کااسلوب نرالاہے۔

میں نے ہاتھوں پہ سجایا ہے لبوں کواختر

اور پھیلا دیا ہاتھوں کو کہ چھلکے چھاگل

اس شعر کوباربارپڑھ کر یہ احساس شدت سے غالب رہتاہے کہ معاصرشعرا کے ہاں ایسا نادرودلآویزاسلوب کم کم نظر آتاہے جس میں دربار رسول کے تمام آداب بھی ملحوظ خاطرہوں اور عاجزانہ طلب بھی ہو۔پاس ادب کے ساتھ مدحت سرائی کاایک اورانداز دیکھیے:

وہ درگہِ مکرم ، وہ درس گاہِ عالی

مٹی کا ہر ہیولیٰ انسان ہوگیا ہے

مجتبیٰ کے غیر روایتی موضوع اوراسلوب کابھی ایک شعر ملاحظہ کیجیے:

ہنگامِ اذاں،حرف کانم چوم کے خوش ہوں

جب نام ترا آئے،قلم چوم کے خوش ہوں

اب آئیے تیسرے مجموعۂ نعت’’ رسالتمآب‘‘۱۹۹۹ء کی طرف نعتیہ ادب کے قارئین وناقدین یہ کلام پڑھنے کے بعد محسوس کریں گے کہ جناب اخترہوشیارپوری بڑی خاموشی سے نعت کے جدید شعرا کی ذہنی تربیت کررہے ہیں۔اس کتاب کی نعتیہ فضا یکسر مختلف ہے۔اس میں نہ صرف مذکورۃ الصدر کتابوں کے اوصاف برقرار ہیں بلکہ اکثر مقامات پرخیال کی ندرت،الفاظ کی جدت اورمعانی کی لطافت نے کچھ ایسا سماں باندھ رکھاہے کہ آنکھیں فرطِ عقیدت سے چھلکتی ہیں توروح انوکھے کیف و سرور سے سرشار ہوتی ہے۔یہی نہیں نعت کی صورت میں عصرِ حاضر پرمرتب ہونے والی سیرت رسول کے اثرات کاظہور بھی دکھائی دیتاہے۔مثلاً:

آپ کاطرزِ کلام وگفتگو سنتی رہیں

تب کہیں چٹکی ہیں کلیاں بادصبح وشام سے


یوں فرشتے ہیں عرش پر جیسے

کوئے خیرالانام ہوتا ہے


میں لوٹ لوٹ کے آتاہوں دیکھنے تجھ کو

کہ جیسے میراپلٹنا ہی رقصِ آہو ہے


کوئی فرشتہ سپردِ قلم کرے آکر

بیان کرنے لگاہوں میں داستانِ رسول


درودوں کی صداؤں کے تصدق

میں اپنے قد سے اونچا ہوگیا ہوں


تونے انساں کوبلند اتنا کیا سوچتاہوں

اب گداؤں کومیں شاہوں کے مقابل سمجھوں


اختر یہ عرصہ،عرصۂ ختم الرسول ہے

روزِ ازل کی صبح بھی ،یوم نشور بھی

میں نے یہ چند اشعار یونہی منتخب نہیں کرلیے بلکہ انتخاب سوچ سمجھ کرکیاہے اوربتانا یہ مقصود ہے کہ جناب اختر کی نعت میں ایک نیاپن توہے ہی مگر یہ اُسے عصر حاضر کے دوسرے نعت گوشعرا سے متمّیز بھی کرتا ہے۔اُن کے انداز فکر اوراسلوب بیان میں جدید عہد کے تقاضوں کی جھلک بھی ہے اورذات وصفات دونوں حوالوں سے لکھی جانے والی نعت کا دلآویز امتزاج بھی۔اُن کی نعت کیف افزا شاعری کے ذیل میں بھی آتی ہے اورعقل وخرد کوشکار ہونے سے بھی بچاتی ہے۔ہمارے عہد میں توحید ورسالت کی حدفاصل کوجن نعت گو شعرا نے بڑی احتیاط سے سمجھا ہے اُن میں سرِفہرست توحفیظ تائب ہیں مگر اُن کے ہمرکاب اخترہوشیارپوری بھی ہیں۔

جناب اختر کاچوتھا مجموعۂ نعت’’خیرالبشر‘‘۲۰۰۰ء ہے۔جسے وزارت مذہبی امور انعام سے بھی نوازچکی ہے۔ٹی ۔ایس۔ایلیٹ نے ایک بار کہا تھا کہ شاعری کاپہلا منصب مسرت بہم پہنچانا ہے۔وہ خود مذہبی آدمی تھا۔مذہب اورادب میں کسی خط امتیاز کاقائل نہیں تھا۔اُس نے مسرت کی کوئی وضاحت نہیں کی۔یہ روحانی بھی ہوسکتی ہے اور مادی بھی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ مسرت روح کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔اگرکوئی شاعر رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سراپا اورفکروعمل سے سرشار ہوکر نعت تخلیق کرتاہے تویہ اُس کی محض ذاتی روحانی مسرت نہیں ہے بلکہ حضور وحتمی مرتبت کاہرامتی اس سے سرشار ہوتاہے اور’’خیرالبشر‘‘میں بھی کچھ ایسی ہی سرشاری ہے۔کتاب میں کہیں مایویسی،اندھیروں یاناکامیوں کاذکر نہیں ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمسے وابستگی کے باعث بہاروں کی آمد،خوشبوؤں کی اڑان،سنبل وریحاں کی مہکار کاذکر ہے۔یہ سب رجائیت کی علامتیں ہیں اوراختر خود:

خداکرے کہ زمانہ بھی نیند سے جاگے

سحر کے وقت میں جب اُن کانام لے کے اٹھوں

کہتاہوا لوگوں کوپیامِ حیات دے رہے ہیں۔

اس مجموعے میں فضائل وشمائل کابیان زیادہ ہے اوررنگ تغزل بھی اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ بھرپور ہے اورادھر اختر کی بعض غزلوں پربھی نعت کارنگ چھایا ہواہے اب دونوں رنگوں کی گھلاوٹ سے یہ شعر تخلیق ہوا:

مری داستانِ حیات میں ترے نام ہی کی بہارہے

تری صبح ہی کے گلاب ہیں،تری شام ہی کی بہارہے

اورفضائل کی عظمت نے اس شعر کوجنم دیا۔

زمانہ تویہاں سے ہے وہاں تک

محمد ہیں مکان و لامکاں تک

اب اسی مزاج کے چند اوراشعار دیکھیے اورفیصلہ کیجیے کہ جناب اختر کے ہاں نئی نعت نے فروغ پایا ہے یانہیں؟

شعور آدمی نے کروٹیں لیں

گلستانِ مدینہ کی ہوا سے


کب بامِ افق پرکچھ دھراہے

سورج توحراسے پھوٹتا ہے


آپ سے حال وماضی ہوئے سربہ خم

اورفرداہے عقدہ کشا آپ سے


پہلے اُن کانام لکھا اورپھرلب رکھ دئیے

آفر ینش کی حدیث دلربا کہتے ہوئے

اور۲۰۰۳ء میں’’خاتم المرسلین‘‘(پانچواں مجموعۂ نعت)مرتب کرنے تک جناب اختر ہوشیارپوری’’سندِامتیاز‘‘(۷/جولائی ۱۹۹۸ء)اورتمغۂ امتیاز(۲۳/مارچ۱۹۹۹ء)سے سرفراز ہوچکے تھے۔’’خاتم المرسلین‘‘کی طباعت کے وقت وہ عمر کی ۸۵منزلیں طے کرچکے تھے اور آج میں خود اُن کے نعتیہ مجموعوں کاجائزہ لیتے وقت بفضلہ ۸۷ سال کے مراحل میں ہوں،الحمداللہ!

نعت کے ضمن میں وہ خود بہت محتاط شاعر تھے۔’’خاتم المرسلین‘‘ کے پیشِ لفظ ایک طرز احساس میں وہ بصد عجز کہہ چکے ہیں کہ نعت کہتے وقت توحید ورسالت کاامتیاز ہمیشہ اُن کے پیشِ نظر رہا نیز کوئی لفظ یاترکیب ایسی نہیں جوشائستہ دربار نبی نہ ہو اوریہ درست ہے اُن کی ہرنعت میں مقام آشنا التجا ہے۔مدینے سے وابستگی کے ہزاروں اظہار ہیں اورہراظہار میں ایک قرینہ ہے بلکہ زیرنظر مجموعے کاگہری نظر سے مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوگا کہ یہاں کوئی نعت ایسی نہیں جومدینے کی برکات کے ذکر سے خالی ہو اورچوں کہ یہاں مدینہ موضوعِ سخن ہے اس لیے اسلوب سخن میں غزل کارنگ درآیاہے۔مثلاً:

وجہِ بہار زیست مدینے کاپھول ہے

میری رگوں میں خوں نہیں،حب رسول ہے


کیا کہوں لطفِ نبی کااعجاز

مکہ جاگا ہے ، مدینہ جاگا


شہر نبی میں چھاؤں بھی،لطفِ شگفتگی بھی ہے

روشنی سحر بھی ہے،چاند کی چاندنی بھی ہے


سوادِ وادئ طیبہ ہے صحنِ امن وسکوں

کہ اس کے حلقے میں تفریقِ نام وذات نہیں


پاہی لیں گے کسی روز منزل

قافلے چل دئیے ہیں مدینے

دوسرا پہلو جو اس کتاب میں بہت نمایاں ہے وہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاوجہِ کائنات ہوناہے اوراُنھی کو شمع مہر بھی کہا گیاہے اورچاند کااجالا بھی ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کونعمت جاں اوردولت ہستی سے تعبیر کیا گیا ہے اوربتایا گیاہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمہی کی وہ چوکھٹ ہے جس سے زمانے کابھلا ہوتاہے۔یہیں سراپا غزل کے انداز کابھی ایک بولتا ہواشعر نظر سے گزرے گا۔ملاحظہ فرمائیں:

جنبشِ لب میں شگوفوں کی چٹک ہے پنہاں

بات کے لہجے میں اندازِ صبا ہوتاہے

جناب اختر نے’’مجتبیٰ‘‘کے پیشِ لفظ میں خود بڑے شوق سے یہ اقرار کیاہے کہ میں نے نعت جوش سے نہیں ہوش سے کہی ہے اوراپنی اوقات کو ایک لمحے کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا کہ عشق رسول ،اطاعت رسول کے سوا کچھ نہیں خود خالق ہردوجہاں اپنی محبت کواتباع رسول سے مشروط کررہے ہیں۔اب آخر میں جناب اختر ہوشیارپوری کاایک غیر فانی شعر ملاحظہ فرمائیں:

ارض طیبہ میں میرے نبی کاوجود

جیسے قرآن اختر ہو جزدان میں