اردو شاعری میں حضرت شائقؔ حیدرآبادی کا مقام - پروفیسر عبد الحمید اکبر ؔ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: پروفیسر محمد عبد الحمید اکبرؔ ( گلبرگہ )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اُردو نعتیہ شاعری میں حضرت شائقؔ حیدر آبادی کا مقام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’ نعت ‘‘ بلا شبہ مشکل صنفِ سخن ہے۔ فارسی کے مشہور شاعر، عرفیؔ نے خو ب ہی لکھا ہے : ؎


عُرفی مَشِتاب ایں راہ نعت است نہ صحرا است

آہستہ کہ راہ بردم تیغ است قدم را

" نعت ‘‘ در اصل ارشادِ ربانی وَرَفَعنَا لَکَ ذَکرَک کا حاصل ہے۔ علامہ اخترؔ کچھو چھوی نے سچ کہا ہے ؎


صرف اُسی کو ہے ثنائے مصطفی لکھنے کا حق

جِس قلم کی روشنائی میں ہو شامل احتیاط

ایک مو من کی شایانِ شان شاعری صداقت و راستی سے مزین ہو تی ہے، فکر و فن کی طہارت سے آراستہ اور عشق و ایمان جیسی دولتِ لا زوال سے ما لا مال ہو تی ہے۔ چنانچہ یہی شاعری روح مذہب سے آشنا ، اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ اور بارگاہِ الٰہی میں مقبول و محبوب ہو تی ہے۔ یہی وہ شاعری ہے جس کے ذریعے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سرکارِ ابد قرار ﷺ کی حضوری میں منبر پر کھڑے ہو کر اشعار سنانے کی عزت و سعادت حاصل ہوئی۔ اور حضور ختمی مرتبت ﷺ کی زبان ِ فیض ِ تر جمان سے ’’ اللھم اید ہ بروح القدس ‘‘ جیسی پاکیزہ اورحیات آفیریں دُعا ملی۔ اِ س نعتیہ اور تقدیسی شاعری کی ایک طویل تاریخ ہے ، جو اپنے اوراق میں ، مو لانا جلال الدین رومی، امام شرف الدین بو صیری، شیخ مُصلح الدین ، سعدی ؔشیرازی، حافظ شمس الدین حافظؔ شیرازی، مُلا عبد الرحمن جامی ؔوغیرھم عربی و فارسی میں ، اور اُردو میں امیرخسرؔو دہلوی، حضرت خواجہ بندہ نواز ، نیاز احمد نیازؔ بریلوی، مو لانا کفایت علی کافیؔ ، محسنؔ کا کوروی،امیرؔمینائی، مو لانا عبد القادر بدایونی، مولانا امام احمد رضاؔ فاضل بریلوی، مولانا انوار اللہ انورؔ، فاضلِ حیدر آبادی، مو لانا حسن رضاؔ بریلوی،حضرت آسی ؔغازی پوری ، میر اعظم علی شائق ؔحیدر آبادی اور حضرت امجدؔ حیدر آبادی وغیرہ جیسے نہ معلوم کتنے بیش قیمت لعل و گہر سموئے ہو ئے ہیں۔ یہ و ہ نفو س ِ قدسیہ ہیں جنھوں نے اپنی تقدیسی شاعری کے ذریعے عقائد و ایمان کے مرجھائے ہوئے گلشن کو عِطر بیزی و شادابی عطا کی۔ ذہن و فکر کو جِلا بخشی اور زبان و ادب کو گو یا تقدیس کا مہکتا پیرا ہن عطا کیا۔

اِدھر چو دھویں صدی کے رُبعِ اول میں اُردو نعتیہ شاعری کے ذریعے جن شعراء نے زبان و ادب سے لے کر عقائد و ایمان اور فکر و نظر سے قلب و جگر تک وغیرہ کو جو سوز و گداز اور کیف و سرور عطا کیاہے۔ ان میں حضرت مفتی میر اعظم علی شائق ؔ بھی بلا شبہ صفِ اولین میں شامل ہیں۔

حضرت شائقؔ کی ولادتِ با سعادت ۱۷ ؍ربیع المنور شریف ۱۲۹۴؁ء کو ننھیال کے یہاں حیدر آباد ہی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ تفسیر ، حدیث ،فقہ اور ادب کے لئے اپنے والدِ بررگوار حضرت حافظ سید احمد علی شاہ علیہ الرحمہ کے علاوہ اپنے چچا حضرت سید عمر حسینی علیہ الرحمہ کے یہاں زانوئے ادب تہ کیا۔حضرت شائق ؔروحانی طور پر اپنے تایا حضرت سید خواجہ محبوب اللہ قُدِّ س سُّرہٗ العزیز کے زیر تربیت رہے۔ اس طرح شریعت و طریقت کا یہ حَسین امتزاج بہت جلد ہی مفتیٔ اول بلدہ حیدر آباد کے عہدے پر فائز کئے گئے۔ شعر و ادب سے دلچسپی آپ کے گھرانے کا مِزاج بھی رہی ہے۔ اِسی لئے آپ کے خاندان میں بیشتر افراد صاحبِ دیوان شاعر گزرے ہیں۔ حضر ت شائق ؔکے لئے گھر کا یہ شعری ما حول اِنہیں بھی شعر کہنے کے لئے مہمیز کا کام کیا اور حضرت شائق ؔنے کم عمری ہی سے شعر کہنا شروع کیا۔ ابتداء میں آپ نے اپنا کلام اپنے تایا زاد برادر حضرت سید عثمان حسینی فائق ؔکو دِکھایا اور بعد میں ڈاکٹر احمد حسین مائل ؔسے آپ نے مشورۂ سخن کیا۔چونکہ آپ پُر گو شاعر تھے اس سلئے بہت جلد ہی کلیات شائقؔ کے نام سے آپ کے نعتیہ دیوان ۱۳۲۰؁ھ میں شائع ہو کر منظر عام پر آگیا۔عطا محمد حسین کے مقالے کے بموجب حضرت شائق ؔکی دوسری شعری تصانیف میں (۱) رسالہ نمونۂ قیامت معروف بہ دریا ئے غم (۲) دُعائے سحر (مناجات ِ شائق ؔ) (۳) یاد محمدی (نجاتِ شائقؔ) (۴) ارمانِ شائقؔ (۵) سفر نامۂ حج و غیرہ شامل ہیں۔ سید بادشاہ حسینی بشیر پاشاہ (نبیرۂ حضرت شائقؔ) کے مضمون کے مطابق کلیات شائق ؔ کے سِوا دوسری مذکو رہ تمام تصانیف نا یا ب ہیں۔

میلاد شریف کی کتابیں تصنیف کرنے کی حد تک بھی نعت گوئی کا مذاق رکھنے والوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ نعت خوانی پھر نعت گوئی کا ذوق میلادِ غلام امام شہید ، میلادِ عطار، میلادِ گو ہر ، میلاد اکبر ،میلادطیش، مولود سعدی، مولودِ سعیدی اور کلیات شائقؔ ہی کا مر ہونِ منت ہے جو سالہا سال سے گھر گھر میں پڑھی جا رہی ہیں اور پڑھی جاتی رہیں گی۔

بلا شبہ دیوانِ نیازؔ (شاہ نیاز احمد) محامد خاتم النبین (امیرؔ مینائی) ، مدیحِ خیر المرسلین (محسنؔ کا کوروی) ، حدائقِ بخشش ( حضرت رضا ؔبریلوی)، دیوانِ بیدمؔ (بیدم وارثی)، نعتیہ مسدس انورِ احمدی(حضر انوار اللہ انورؔ حیدر آبادی) ، کلیاتِ شائق ؔ(حضرت مفتی میر اعظم علی شائقؔ حیدر آبادی) نعتیہ رباعیاتِ امجدؔ حیدر آبادی اور شاہنامہ، اسلام ( حفیظ جا لندھری) وغیرہ۔ کے منظر عام پر آنے کے بعد نعت گوئی نے مستقل صنفِ سخن کی جو حیثیت حاصل کی ہے وہ بہت مبار ک ثابت ہوئی اور ااب اس کی عملی و ادبی عظمت و اہمیت بھی مسلم ہو گئی ہے۔ اس کے مو ضو عات اور فنی تجر بات میں روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ تشبیہ، استعارے، صنائع بدائع، نکتہ سنجی اور معنیٰ آفرینی کے کامیاب تجربے کئے جا چکے ہیں اور کئے بھی جا رہے ہیں۔ متا خرین نعت گو شعراء کے یہاں کچھ خصو صیات مشترک ہیں۔ رسولِ پاک ﷺ کی شانِ اقدس میں عاشقانہ الفاظ مثلاً وصل ، ہجر ، شوق، بے تابی وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اوراسی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدو خال ، زلف و گیسو، لب و دہن اور چہرہ و رخسار وغیرہ کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ فنی تجربات میں ، رعایتِ لفظی ، صنعت تضاد، لف و نشر مرتب و غیر مرتب سے بھی کام لیا گیاہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

تیرھویں صدی ہجری کے ربعِ آخر میں امیرؔ مینائی کا نعتیہ دیوان ’’ محامد ِ خاتم النّبیین کی اشاعت ۱۲۷۷؁ ھ میں عمل میںآئی تو پہلی بارنعت گوئی کو بئی شاہ راہ پر گامزن ہو تے دیکھا گیا۔ اس سلسلہ میں مو لانااحمد رضا فاضل بریلوی نے عالمانہ شان و شکوہ، مجددانہ فہم و فراست اور شاعرانہ حنِ بیان سے خو ب سے خوب تر انداز میں آگے بڑھا یا اور نعت کو زریعۂ اظہار بنا کر ایمان و عقائد کی اِصلاح و درستی کاکام لیا۔ حضرتِ رضا ؔبریلوی کا نعتیہ مجموعۂ کلام ’’ حدائق بخشش ‘‘ کے نام سے ۱۳۲۵؁ھ میں چھپ کر منظر عام پر آیا ، جب کہ حضرت مو لانا انوار اللہ فاروقی انورؔ حیدر آبادی کا نعتیہ مُسدس جِس کے چند بندوں کی تشریح ’’ انوارِ احمدی ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو ئی ، سنہ طباعت ۱۳۲۳؁ھ ہے۔ یہاں یہ بات قابِل ِتوجہ ہے کہ حضرت رضا ؔبریلوی کی ’’ حدائق بخشش ‘‘ اور مو لانا انوار اللہ انورؔ حیدر آبادی بانی جامعہ نظامیہ کی نعتیہ مسدس مشمولہ ’’ انوارِ احمدی ‘‘ کی اشاعت سے بتدریج پانچ سال اور تین سال پہلے ’’کلیاتِ شائق ؔ ‘‘ کی اِشاعت عمل میں آئی یعنی اس کا سنہ طباعت ۱۳۲۰؁ھ ہے۔ ؎


ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا

اِس مقام پر حسّان ِ دکن ، عارف باللہ حضرت شائقؔ نے عشق و محبت ، عقیدت و احترام کے جو گلہائے سر سبز و شاداب پیش کئے ہیں ان کی خوشبو نے مشامِ جان و ایمان کو معطر و منور کر دیا۔ الغرض ان کا علمی تبحر ، زور بیان کے ساتھ ساتھ وابستگی اور عقیدت کے عناصر ان کی نعتوں میں یوں گھل مل اور رچ بس گئے ہیں کہ اُردو نعت میں ایسا خوشگوار امتزاج خال خال نظر آتا ہے۔

عشقِ رسول ایک نعمت غیر مترقبہ اور وہ سعادت ہے جو نعتیہ شاعری کی روح ِ رواں کہلاتی ہے۔ عشق رسول کے بغیر اس کا رنگ پھیکا، ہر پہلو بے کیف اور ہر جلوہ بے مزہ سا ہوجاتا ہے۔ حضرت جامیٔ دکن کا دِل عشقِ رسول کی جلوہ گاہ تھا وہ سچے عاشق رسول تھے، ان کی شاعری کا مر کز و محور سرورِ کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تھی اور جب محبو بِ کائنات کا جذبہ عشق و محبت دِل کے سوز و گداز کے ساتھ،لفظوں کے پیکر میں ڈھلتا ہے تو نعت کے پُر کیف اشعار، پڑھنے اور سننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ حضور کی بارگاہ ِکریم میں ان کا یہ والہانہ اور عاشقانہ انداز دیکھئے۔ حضرت شائق فرماتے ہیں۔ ؎


محبت بڑھتے بڑھتے عشق ہو جائے

یہی دانہ بنے خرمن خُداکا

جلوہ فرما جب ہمارے دِل میں ہوں گے مصطفی

خانۂ ویراں ہمارا گلستاں ہو جائے گا

دم میرا نکلتے ہی کہا عشق نبی نے

چل پاس محمدﷺ کے تو جاتا ہے کدھر آج

ہر دم نئی نئی ہے تجلی کی روشنی

دل عاشقوں کا طُور ہے طیبہ کے چاند کا

ہے الفتِ مژگانِ محمد کا تصدق

عشاق کے دِل کو ہے سردار سے مطلب

اے یاد نبی سَلَّمہ اللہ تعالیٰ

فرقت میں نہیں ہے کسی غم خوار سے مطلب

جب مزہ ہر دم دیتاہے حضرت کا فراق

کیوں نہ سمجھوں وصل سے ہے بے شبہ اچھا فراق

جان جائے گی یہی نا اور کیا ہو گا مرا

عاشقِ خیر الوریٰ ہوں کیا ڈراتا جا فراق

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

بادِ صبا کو مخاطب کر کے بارگاہ رسالت میں اپنا پیامِ دل پہچا نے کی التجا اور سوزِ دُروں کا اظہار شعراء کرام کا وطیرہ رہا ہے۔ حضرت شائقؔ بھی اس روایت پر کس مہارت کے ساتھ عمل پیرا ہیں ملاحظہ فر مائے۔ ؎


اے صبا کہنا گذر ہو جو ترا طیبہ میں

حیدر آباد میں شائقؔ ہے پریشاں تیرا

اے صبا جاکر مدینہ میں یہ کہ سرکار سے

ہے بُرا حال اب دکن میں عاشقِ رنجور کا

محبوب کے ساتھ دیارِ محبوب سے اُنس و رغبت ، اس کے دیدار کی تڑپ اور مدینہ پہنچنے کی تمنا ایک عاشق صادق کا فطری طریقہ ہے۔ ’’ کلیاتِ شائقؔ ‘‘کے صفحات پر بھی دیارِ حبیب کے اور اس کی یادوں کے تاج محل جا بجا اپنی شو کتوں کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں : اشعار دیکھئے۔ ؎


جلد بلا لو مدینہ میں حضور

ظلم ڈھاتی ہے جُدائی آپ کی

دعاء یہی ہے کہ پہنچادے تو مدینہ میں

الٰہی ایک زمانے سے ہے اثر کی طمع

چل مدینہ کی طرف چھوڑ دکن اے شائقؔ

دل میں بیٹھے ہوئے کر تا ہے تقا ضا کوئی

دیارِ حبیب کے تذکرے کا یہ انداز بھی کتنا کیف آور ، رقت انگیز اور لطیف ہے کہ روح جھوم جھوم سی جاتی ہے اور دل مچلنے لگتا ہے۔ حسرت و تمنا کے ساتھ والہانہ شیفتگی کا یہ انداز ملا حظہ ہو۔ ؎


زائرو! جا کے مدینہ میں یہ تم عرض کرو

مجھ گنہ گار کو کیا شاہِ اُمم بھول گئے

جالی سے لِپٹ کے رو کے بولوں

مر جائوں یہیں عرب کے جانی

سفر ملکِ طیبہ کا یا مصطفی

نہ شائق کو اب تک مُیسر ہوا

سوئے طیبہ مرا گزرنہ ہوا

وائے قسمت کہ یہ سفر نہ ہوا

کس طرح رہتا ہے شائقِ مضطر مدینہ میں

تقدیر میں دکن کے جب آب و دانہ تھا

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

سرور و انبساط کی یہ نادر کیفیت ملاحظہ ہو۔ ؎


نعت کا صدقہ ہے شائق جو تیرے اشعار پر

مر حبا کا شوق ہے غُل ہے جزاک اللہ کا

شعراچھے ہو تو اچھے ہیں بُرے ہو تو بُرے

نعت ہی لکھیں یہ شائق شعراء سے نہ ہوا

نعتِ احمد نے کیا ہے سُرخ رُو

شائقؔ اپن بول بالا ہوگیا

گرمیٔ نعتِ نبی سے ہوئی گرمی دِل کی

ہم کو شائق تیرے اشعار نے سونے نہ دیا

صد شکر دل کو ہو گیا اب نعت سے لگائو

شائقؔ کلام سے مرے رنگِ غزل گیا

لکھی میں جو لب ہائے محمد کی ثنا شائقؔ

میرا ہر شعر دفتر بن گیا شیریں مقالوں کا

نعت گو شعراء حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مختلف پہلو ئوں مثلاً : زلف، رخسار وغیرہ کا ذکر نہایت شیفتگی سے کرتے ہیں۔ ان روایتی مضامین سے حضرت شائقؔ نے زلف کی تعریف و توصیف اس قدر بیان کی ہے گویا ان کی ساری تو جہ حُسن کے اِسی پہلو پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ اشعار دیکھئے۔ ؎


جب عشق،زلفِ احمد مختار ہو گیا

دِن بھی ہمارے حق میں شب تار ہو گیا

زلفِ روئے مصطفی کا آگیا جِس دم خیال

سورۂ واللیل و نور والضحیٰ یاد آگیا

عشقِ گیسوئے نبی میں مَر کے اے شائق کہو

اے فرشتے جائو مرقد سے مجھے آتی ہے نیند

رخسارِ محمد سے ہوئی بات یہ پیداا

ساکن مُلکِ حُسن پہ ہیں شمس و قمر بھی

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حضرت شائقؔ کے نعتیہ دیوان میں رِندی وعِرفانی رنگ کی جلوہ افروزی بھی نمایا ں طور پر دِکھائی دیتی ہے، مثلاً : یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔ ؎


ہر کسی کی آنکھ میں ہو ہر کسی کے دل میں تم

کیا نرالے چاند ہو رہتے ہو دو منزل میں تم

واحدیت ہو کہ وحدت ہو کہ ارواحِ مثال

میں تمہیں پہچانتاہوں ہو ہر اک محفل میں تم

کھوئے جو خودی اپنی تو بندہ بھی خُدا ہو

منصور کے لب ہو تو اناالحق کی صدا ہو

کیوں عکسِ رُخِ پاک کو ہم صاف نہ دیکھیں

چھوٹا سا جب اک آئینہ پہلو میں لگا ہو

اس طرح مری آنکھ میں بینائی ہو پیدا

پُتلی کے عوض یار کا نقشِ کفِ پا ہو

پردے میں میم ہی کے دیکھوں خُدا کی صورت

گھونگھٹ ذرا اُٹھادے مسند نشینِ طیبہ

اے بانکے محمد صل علیٰ رتبہ ترا ہم نے کیا جانا

اللہ کی قسم کیا منھ سے کہوں جِس نے تجھ کو جا نا جانا

وہ آنکھ وہ ابرو،وہ سیرت شاہی میں فقیری کی صورت

جس نے نہ تجھے مَولا جانا اللہ کو اُس نے کیا جانا

حضرت میر اعظم علی شائقؔ زُود گو اور پر گو شاعر تھے ، انہوں نے داغؔ دہلوی کا اثر قبول ضرور کیا تھا، اس کے با وصف ، زبان کے معاملے میں وہ شمالی ہند کے روز مرہ اور محاورے کی اتباع کو ضروری نہیںسمجھتے تھے۔ وہ دکنی الفاظ کے علاوہ محاورہ بھی بہت بے تکلفی کے ساتھ استعما ل کر جاتے ہیں : ؎


ہاتھ آیا بوسہ کفِ پائے محمدی

اپنے کو ہم نے خاک میں جِس دم ملا دیا

اس ایک ہی شعر میں دو (۲) محاورے یعنی ’’ ہاتھا آنا ‘‘ اور ’’ خاک میں ملانا ‘‘ کو استعمال کر کے اپنی مہارت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اس طرح کا وصف دیگر شعراء میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

حضرت شائق ؔ کے کلام میں تشبیہ ، استعارہ، رعایت لفظی ، لف و نشر مرتب و غیر مرتب کے علاوہ سہل متنع وغیرہ کے اشعار مل جاتے ہیں۔ اِس ضمن میں سلسلہ وار شعر ملاحظہ ہوں :

تشبیہ


آنکھیں آہو کمانِ ابرو

بانکا سردار کملی والا

شائقؔ وہ آنکھ میں ہے نہاں مثلِ نور چشم

ظاہر میںملک دُور ہے طیبہ کے چاند کا

استعارہ


جلوہ فرما جب ہمارے دل میں ہوں گے مصطفی

خانۂ ویراں ہمارا گلستاں ہو جائے گا

کیوں عکسِ رُخِ پاک کو ہم صاف نہ دیکھیں

چھوٹا سا جب اک آئینہ پہلو میں لگا ہو

رعایت لفظی


مژگانِ مصطفی کا ہے ہر دم مجھے خیال

تیروں کا میں نے دل کو نشانہ بنا دیا

آبِ دریائے گنہ میں یاد آئے مصطفی

کشتیٔ تن ڈوبتے ہی نا خُدا یاد آگیا

چاک کر ڈالا وہیں اپنا گریباں ہجر میں

اپنے پیارے کا جو دامانِ عَبا یاد آگیا

تلمیح


رازداری چاہئے تھی ان کو شائقؔ یارکی

بھید جِس دم کُھل گیا سر کٹ گیا منصور کا

حکم حق ’’لَاتَرْفَعُوااَصْواتَکم‘‘

آپ کا اعزاز مانا چاہئے

لَف و نشر مرتب

ہے زلف روئے پیمبر کے عشق میں گردش

فِدا ہوں ان کے یہ ہے شام کی سحر کا طمع

لَف و نشر غیر مرتب

پُر نور شب ہے روئے مبارک کی یاد میں

روشن ہے شامِ ہجر یہ کیوں نے سبب چراغ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سہل ممتنع


میٹھی باتیں کرے گا سب سے

شیریں گفتار کملی والا

ڈھانپے گا وہ گناہ سب کے

نُورِ ستار کملی والا

ہر جگہ اُس کا بول بالا ہے

دِل سے جو ہو گیا محمد ﷺ کا

شائقؔ اتنا ہی کہ کے تو چپ رہ

ہوں بُرا یا بھلا محمد ﷺ کا

حضرت شائقؔ کے کلام کے مطالعے سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے یہاں عشقِ رسول کا یہ والہانہ پن ہی ہے کہ وہ جِس طرح بھی بن پڑے ، مدینہ پہنچ جانا چاہتے ہیں۔ ان کی کو ئی نعتیہ غزل ایسی نہیں ہو تی کہ جِس میں وہ مدینہ پہنچنے کی آرزو نہیں کرتے۔ لیکن جامیٔ دکن حضرتِ شائقؔ جب حج کے لئے مکہ مکرمہ گئے سارے مناسک حج مکمل کر لئے لیکن اپنے ہی اِس شعر کے مصداق مدینہ منورہ بظاہر نہیں پہنچ سکے۔ ؎


سوئے طیبہ مرا گزر نہ ہوا

وائے قسمت کہ یہ سفر نہ ہوا

جہاں پہنچنے کی آرزو اُنہیں زندگی بھر تڑپاتی رہی اور سخت علالت کی با عث وطنِ مالوف حیدر آباد واپسی پر واڑی ضلع گلبرگہ کے مقام پر ۱۵ /محرم الحرام ۱۳۲۸؁ھ کو ۳۳ سال ۱۰ ماہ کی عمر میں حضرت شائقؔ کا وصالِ با کمال ہوا۔ اس سانحہ کی پیش گوئی شائقؔ نے اپنے نعتیہ مثلث کے آخری بند میں کر دی ہے۔ ؎


میں یوں ہی مر جائوں گا ہجرِ نبی میں دوستو

راہ میں روتے ہوئے خلقت یہ بولے گی سنو

لاش پر شائقؔ کے یہ کیسی اُداسی چھائی ہے

نعت گو شاعر کی حیثیت سے ان کی شہرت و مقبو لیت کا راز ان کی یہی ولہانہ وابستگیٔ رسول تھی۔ مثلاً : شائق ؔ کہتے ہیں۔ ؎


مغفرت کا یہی ہو جائے وسیل شائقؔ

پیرے احمد کو اگر ہوں ترے اشعار پسند

دیکھ کر شانِ نبی لے کر بلائیں یہ کہوں

حشر والو مجھے دامن سے لپٹ جانے دو

جُدائی نبی کی گوارہ نہیں

مگر کیا کریں کوئی چارہ نہیں

مرے خانۂ دل کے مالک ہیں آپ

کسی کا کچھ اس پر اجارہ نہیں

حضرت شائقؔ نے شاعری کوبرائے شاعری نہیں اپنایا بلکہ اس کو اپنے مسلک عشق و عرفان کے اظہار کا ذریعہ بنایا، اس طرح اپنے کلام ِ بلاغت نظام سے اُردو شاعری کے دامن میں وہ مو تی بکھیر ے ہیں جِس کی چمک اُردو نعتیہ شاعری کے دابستان میں توانا ئی کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ نصیر الدین ہاشمی کے بقول : ’ حضرت شائق نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے آپ کا پورا دیوان نعت سے معمور اور عشق رسول میں ڈوبا ہو ا ہے۔‘‘

صِرف اپنی ۲۶ سال کی عمر میں حضرت شائق ؔ نے اپنا یہ نعتیہ دیوان ’’ کلیاتِ شائق ؔ‘‘ کے نام سے شائع کر کے دادِ تحسین حاصل کیا ہے۔ الغرض، حضرت شائق ؔکا یہ نعتیہ کلام، غزل قصیدہ ، مثنوی، مستزاد، مثلث ، مخمس ، مسدس، ٹھمری، قطعات، رباعیات اور سلام جیسی مختلف اصنافِ سخن کا ایسا لہلہاتا گلشن ہے جِس میں تشبیہ ، استعارہ، رعایتِ لفظی اور دیگر صنعات کے ہمہ رنگ گل بوٹے عاشقانِ رسول کے مشامِ ایمان کو معطر و مُعنبر کرنے میں اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔ حضرت ِ شائق ؔ کی نعتیں ہندو پاک کے ہر گوشے میں زبانِ زد عام ہیں۔ لیکن افسوس کہ جِس ہستی نے اُردو ادب کو ذوقِ نعت عطاکیا اور جِس کا کلام بلاغت نظام اُردو ادب میں ایک عظیم سرمایہ کے ساتھاضافہ کا باعث بنا، اس کا تذکرہ اُردو ادب کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ اگر ملتا بھی ہے تو وہ بھی نہایت مختصر۔ مگر یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ ’’ مشک آنست کہ خود بیوید ‘‘ نہ کہ عطار بگوئید کے مصداق۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حضرت شائقؔ کا ذوق محبت اور شوق ِ مدحت سرائی، عشق رسول کا پیغامِ سعادت و مسرت دیتے ہوئے جیسے جیسے افراد تک پھیلتا گیا، بحیثیت شاعرِ دربارِ رسالت ،اُردو ادب میں بلند سے بلند تر مقام پر فائز ہو تا گیا۔

بہر کیف بزم شائقؔ کے ارباب حل و عقد کی خدمت مین میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ حضرت شائقؔ جیسی با کمال ادبی و علمی شخصیت کے غیر مطبوعہ کلام ، کو کسی سنجیدہ عالم یا دانشور کے مبسوط مقدمے/پیش لفظ یا تبصرے کے ساتھ شائع فرما دیں گے تو مَیں یہ سمجھوں گا کہ حضرتِ شائقؔ کی اس دیرینہ خدمات کا صحیح معنٰی میں اعتراف کیا گیا۔ ؎


شائقؔ خستہ جگر، عشقِ پیمبر کے طفیل

ذِکر تیرا ہر گلی میں ہے اک محفل میں ہے

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سانچہ:بکس مضامین

نئے صفحات