اردو نعت گوئی پر دلاور علی آزر کے نقش ۔ آزاد حسین آزاد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naqsh.jpg

مجموعہ نعت : نقش

مضمون نگار : آزاد حسین آزاد

اردو نعت گوئی پر دلاور علی آزر کے نقش[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب

ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبیست


نعت گوئی ایک مہتم باالشان مگر دشوار گزار صنف سخن ہے. جس کیلئے مکمل ذمہ داری درکار ہے. بڑے بڑے جید عالم و فاضل اورقادر الکلام شعراء بھی نعت لکھتے ہوئے گھبراتے ہیں. یہ ایسی دو دھاری تلوار ہےجس پر چلنا سہل نہیں ہے. یہ خالصتا عطائے رب کریم ہے. ایک اعزاز ہے. اور اس کے معززین کا انتخاب بھی کہیں اوپر ہی اوپر طے پاتا ہے. ہر ایک شاعر کے بس میں نہیں کہ وہ نعت لکھ سکے اور یہ حق ادا کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے. دیکھا گیا ہے کہ اردو نعتیہ شاعری میں اکثر شعراء پر نعت رسول مقبول کے اسرار منکشف نہیں ہو سکے اور نہ انھوں نے فنِ نعت گوئی کے آداب ملحوظ رکھنے کی کوشش کی ہے. نتیجہ یہ ہوا کہ نعتیہ اشعار غلو آمیز خیالات کی نذر ہوکر رہ گئے. متعدد شعراء نے غیر ارادی طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوی حیثیت کو فراموش کرتے ہوئے عمومی انداز میں آپ کی سیرت کو پیش کیا ہے. جس کا نقصان یہ ہوا کہ عام لوگ مقصدِ نبوت کے تقاضوں کو سمجھ نہیں پائے. جبکہ فنِ نعت گوئی ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم نعت لکھتے ہوئے حبِ رسول کے اصل مفاہیم جان لینے کے بعد عاشقانِ علم کے لئے اطاعتِ رسول کی معنویت پر غور کرنا آسان بنائیں تاکہ نعتیہ صنف سخن نئے آفاق سے ہمکنار ہو سکے.

میری نظر میں نعتیہ شاعری کی ابتدا نزولِ قرآن کے ساتھ ہی ہوگئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ پہلے نعت خواں خود خدائے بزرگ و برتر ہیں. جنھوں نے قرآن کریم میں اپنے محبوب کی شان میں انک علی خلق العظیم، خاتم النبین، روف و رحیم، وماارسلناک الارحمۃ اللعالمین، سراج منیر، یاسین، طہ، معلم، مصدق، شاہد، مبشر اور محمد و احمد جیسے تعریفی نام و کلمات استعمال کر کے لکھنے والوں کے لئے نعتیہ راہ کا تعین کیا. آپ کے چچا حضرت ابوطالب سے نعتیہ قصیدے منسوب ہیں.آپکی والدہ حضرت آمنہ سے بھی نعتیہ اشعار منسوب ملتے ہیں. تاریخ حضرت میمون بن قیس کو پہلا نعت خواں ثابت کرتی ہےاور کچھ نعتیہ اشعار امہات المومنین حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی منسوب ملتے ہیں. تاہم باقاعدہ طور پر نعتیں کہنے والے شعراء میں حضرت حسان بن ثابت، حضرت بوصیری ، حضرت کعب بن زہیر، اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کے نام آتے ہیں . حضرت حسان بن ثابت کو تو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھیں شاعرِ رسول کہا جاتا ہے. تاریخ بتاتی ہے کہ اس دور کی آنکھوں نے ایسے روح پرور مناظر بھی دیکھے کہ منبرِ رسول پر حسان بن ثابت نعت پڑھ رہے ہیں اور ہمارے آقا دوعالم فرش نشین ہوکر انہیں سماعت فرما رہے ہیں.


اردو نعتیہ شاعری کی روایت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے قائم کی. آپ ولی کامل اور پکے عاشق رسول تھے. ایک تحقیق فخر الدین نظامی کی قدم راؤ پدم راؤ کے نعتیہ اشعار کو اردو نعتیہ شاعری کا پہلا مستند حوالہ بتاتی ہے. اسی کے ساتھ اردو شاعری کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ کو اردو نعت کی مستقل حیثیت متعین کرنے والا پہلا نعت گو شاعر قرار دیتی ہے.


آگے چل کر ولی دکنی نے اس روایت کو اسلامی تعلیمات و دانشوری کے ساتھ آگے بڑھایا. مرزا محمد رفیع سودا کے نعتیہ اشعار کو شمالی ہند میں اس صنف کا روشن اور معتبر ابتدائیہ کہا گیا ہے. پھر میر تقی میر کا نمبر آتا ہے جنہوں نے کہا


جلوہ نہیں ہے نظم میں حسنِ قبول کا

دیواں میں شعر گر نہیں نعتِ رسول کا


اس کے بعد مولانا کفایت علی کافی مرادآبادی کا نام قابل ذکر ہے جن کی ساری شاعری نعت اور منقبت پر مشتمل ہے. ان کے معاصرین میں مولانا غلام امام شہید اور حافظ لطف علی خان بریلوی کے محترم نام آتے ہیں. ان برگزیدہ شاعروں کے منفرد اور اجتہادی رنگ نعت نے نعت رسول کا انداز ہی بدل دیا. ان کے سبب اردو کی نعتیہ شاعری حسنِ بیان کے ساتھ ساتھ مضامینِ تازہ اور اسلامی تحریکی عناصر سے مالامال ہوئی.

ان کے بعد تو جیسے مفتی غلام سرور لاہوری، میر اعظم علی شائق، سید واجد علی وحید، غلام مصطفی عشقی، تمنا مراد آبادی، امیر مینائی، محسن کاکوروی، الطاف حسین حالی، احمد رضا خان بریلوی، علامہ اقبال، بہزاد لکھنوی، ماہر القادری، حفیظ تائب، مظفر وارثی، نصیر الدین نصیر وغیرہ کے لئے ایک دبستانِ نعت کھل گیا. نعتیہ شاعری کے بہت سارے مجموعے منظر عام پر آئے یہ اعزاز یونہی چلتا ہوا موجودہ عہد تک پہنچا. موجودہ عہد میں بھی نعت لکھنےوالے شعرا کی ایک بڑی تعداد موجود ہے. جن میں افتخار عارف، احسان اکبر ، خورشید رضوی، سلیم کوثر، ریاض مجید، صبیح رحمانی اور اب اس میں ایک عمدہ اضافہ ]]دلاور علی آزر]] کی نقش کی شکل میں ہوا ہے.

نعتیہ شاعری کے لئے قرآن حکیم ،احادیث مبارکہ، تاریخ اسلام اور تاریخ اقوام کا بھرپور علم ہونا اشد ضروری ہے تاکہ آپ کے کہے ہوئے کے لئے کوئی حوالہ یا سند موجود ہو. جذبوں میں سچائی، حرارت ایمانی اور مقصد نبوت کا گہرا شعور بھی فنِ نعت کو کمال عطا کرتا ہے. اس تناظر میں اگر دلاور علی آزر کی بات کی جائے تو مجھے ان کے ساتھ طویل وقت گزارنے کا شرف حاصل ہے. میں نے دلاور علی آزر کی عادات و اطوار کا بغور مشاہدہ کیا ہے وہ بڑے خوش فہم، صاحب ادراک اور حرارت ایمانی سے سرشار درویش منش اور سچے عاشق رسول ہیں. یہی وجہ ہے کے" نقش" میں ایک کیفیتِ قلبی کے ساتھ ساتھ زبان وبیان لفظی نشست و برخاست وسیع مطالعہ اور عصری شعور نظر آتا ہے. نعت گوئی جس قدر والہانہ عقیدت و شیفتگی کا تقاضا کرتی ہے اسی قدر ادب و احترام کی بھی متقاضی ہے کیونکہ بقول شخصے

باخدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار

ایک کامیاب نعت گو کے لئے جہاں سوز و گداز تڑپ عشق اور سرشاری کی ضرورت ہے وہیں حد درجہ احتیاط حفظِ مراتب اور شریعت کی پاسداری کی بھی ضرورت ہے. دلاور علی آزر کی کتاب نقش میں ان تمام محاسن کا خاص طور پر التزام موجود ہے.

آپ کا نام حوالہ ہے میرے ہونے کا

آپ کا عشق میری ذات کی سچائی ہے


سرکار نے مدحت کے لئے ہم کو چنا ہے

ہم لوگ ہیں لفظوں کو نگیں دیکھنے والے


جو کچھ ملا حضور کے صدقے سے ہے ملا

اور جو نہیں ہے اس کی ضرورت نہیں مجھے


نعت لکھنے کی اجازت مجھے سرکار نے دی

طے مرے لفظ کا معیار مدینے سے ہوا


دلاور علی آزر کا نعتیہ اسلوب رسمی نہیں ہے انہوں نے نعت کو ایک الگ جہت عطا کردی ہے. روایتی نعت گو شعراء کے ہاں مضامین کی شدید قلت نظر آتی ہے جس کا سبب شاید نعت لکھنے کا دائمی خوف ہے جو ان کو احترام سے آگے نہیں بڑھنے دیتا. اگر ہم نبی اکرم ص کی زندگی کا مطالعہ کریں، مدینہ کے رسم ورواج دیکھیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زندگیوں کو جانچیں تو ہم پر کھلے گا کہ نعت میں کتنے موضوعات سموئے جا سکتے تھے اور حیاتِ نبوی کے کتنے پہلو ہیں جو ہمارے خوف کے سبب تشنہ رہ گئے." نقش "میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، تعلیمات، معجزات اور عادات و خصائل غرض کے جملہ متعلقاتِ سیرت کا بہت واضح انداز میں بیان موجود ہے جس کے سبب دلاور علی آزر کے اندازِ نعت کو جذب و مستی اور اظہار محبت کے لحاظ سے بالکل الگ تھلگ کہا جاسکتا ہے.


اسم تھا میرے لبوں پر اور نہایت پاک اسم

جو میری انگلی پکڑ کر مہربان تک لے گیا


درود پڑھ کے قدم جب زمین پہ رکھتا ہوں

تو خود ہی راستے ہموار ہونے لگتے ہیں


بساطِ وقت لپیٹی گئی تو راز کھلا

ازل ابد کا سرا مصطفی کے ہاتھ میں ہے


دولخت ہوتے ہوئے مہتاب کا اعزاز

بہ رمزِ حکم خدا مصطفی کے ہاتھ میں ہے


فقیر رات کی چادر سے چن رہے ہوں گے

یہ ریزہ ریزہ تبرک یہ پارہ پارہ نور


آپ کے اسم کی برکت سے کھلی لکنتِ فقر

آپ کے نام سے جاری ہوا عرفانِ عرب


عقیل ملک نقش کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ دلاور نے روایت کے تسلسل میں نعت ضرور کہی ہے مگر اس کی نعت میں روایتی احساس بالکل بھی نہیں ہے. اس کی نعت کے اندر تازگی، ایمائیت اور ابہام کا تناسب دیدنی ہے. اس نے اپنی نعت کے لیے ان لفظیات کا چناؤ کیا ہے جو ہماری روایتی نعت قبول نہیں کرتی ہے. جدید طرز اظہار سے اس نے کمال فن کاری کے ساتھ نعت کے نورانی دھاگوں کو بنا ہےوہ کہتے ہیں کہ دلاور نے نبی اکرم ص کی ذات مبارکہ کے اندر بشریت کو بھی جاننے کی کوشش کی ہے. اور آپ کی نورانی خاصیتوں کو بھی دیکھنے کی تگ و دو کی ہے یہ امتزاج ہمیں عہد حاضر اور اس سے قبل شعرا کے ہاں دکھائی نہیں دیتا ہے. یہ وہ نکتہ ہے جس نے دلاور علی آزر کی نعوت کو کہی جانے والی دوسری نعتوں سے بالکل الگ تھلگ کر دیا ہے. ہمیں جہاں دلاور علی آزر کے ہاں حسن و جمال، آہنگ کی چاشنی، فکری مسائل اور جمالیاتی تحرک جیسے عوامل ملتے ہیں. وہیں نوروبشر کی ذیل میں دونوں خصوصیت کا امتزاج بھی ہاتھ آتا ہے.


روشنی اس کی ماہ و مہر سے بڑھ کر نکلی

وہ ستارہ جو نمودار مدینے سے ہوا


ہم اسی اوتار کے نقشِ قدم پر چل دئیے

جسمِ خاکی کو حد نور داں تک لے گیا


قدم پڑے ہیں مدینے کی خاک پر کس کے

کہ چپہ چپہ زمیں طور کا علاقہ ہے


آکر یہاں ملتے ہیں چراغ اور ستارہ

لگتا ہے اسی غار میں دربار دو عالم


میرے سب اشعار بھی اس نور سے معمور ہوں مجھ کو بھی حصہ ملے تنزیل نعت پاک کا


میں اپنے عشق کو ترتیل تک تو لے جاؤں

کہ لفظ لفظ سے تفسیرِ نور کھینچ سکے.


دلاور علی آزر کی نقش آپ کے سامنے ہے انہوں نے سرکارِ دو جہاں کے حضور نہایت قرینے، سلیقے اور حسنِ اہتمام کے ساتھ حمد و ثنا کے گلدستے پیش کئے ہیں. ثنائے احمد مرسل کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہے کہ ان کی نوازشات اتنی ہیں کہ بندہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں گردانتا کہ حق ادا کر سکے یہی وجہ ہے کہ غالب جیسے قادر الکلام شاعر کو بھی کہنا پڑا تھا


غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دان محمد است


ہزار ہا زبان و بیان کی رنگینیاں ہوں، خیال و فکر کے پھول ہوں، عشق و شیفتگی کی انتہا ہو، عقیدت و محبت، ادب و احترام کے ہزاروں لوازم ہوں مگر پھر بھی ان کی مدح سرائی کا حق ادا نہیں ہوتا مگر نقش کے آنے سے یہ ضرور ہوا ہے کہ اردو نعتیہ شاعری کو ایک بالکل الگ انداز ملا. غزل کے اسلوب میں نعت کے مضامین نئی علامتیں، استعارے، تازہ کاری جو دلاور علی آزر کی غزل کا خاصہ ہے. ان کا یہی رنگ آپ کو ان کی نعوت میں بھی نظر آئے گا. نبی کریم ص کے لیے استعمال ہونے والے استعاروں اور علامتوں کا چناؤ ان کی فکری گہرائی اور مذہبی شعور کے عمیق مطالعے کا مظہر ہے .

میں صبیح رحمانی صاحب کے ان الفاظ کے ساتھ اجازت چاہوں گا.

" نئ اردو نعت اپنا جو ایک توانا لہجہ اور اسلوب تراش رہی ہے اس میں دلاور علی آزر جیسے تازہ کار شعراء کا ایک اہم حصہ نظر آتاہے"


میں نقش کے شاعر کو ایوانِ نعت میں روشن امکانات اور یقین کی دولت کے ساتھ داخل ہونے پر کھلے بازوؤں سے خوش آمدید کہتا ہوں


غزل کا مرتبہ بڑھتا ہے آزر

جو ہم آواز ہوں نعتِ نبی سے

آزاد حسین آزاد

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات