اقبال سہیل کاایک نعتیہ قصیدہ(تقابلی مطالعے کی روشنی میں) ۔ظفر احمد صدیقی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : ظفر احمد صدیقی۔بھارت

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

اقبال سہیلؔ کاایک نعتیہ قصیدہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(تقابلی مطالعے کی روشنی میں)

ABSTRACT:

Iqbal Sohail's Qasida in praise of Prophet Muhammad (S.A.W) has brought into focus for study in comparison of similar type poetical attempts of Urdu poets like Sauda and Munir Shikoh Abadi and Persian Poets like Khaqani and Urfi Shirazi. Discriminative aspects of poetic approach of Iqbal Sohail have been delineated to show uniqueness of beauty of expression and associations of words chosen for hinting light, beauty and love. Thought content of Qasida of Iqbal Sohail has also comparatively been found error free than poetic work of others under reference.

اقبال سہیلؔ (۱۸۸۴ء۔۱۹۵۵ء)علامہ شبلی نعمانی کے شاگردایم۔اے،ایل۔ایل۔بی۔ (علیگ)اورسیدسلیمان ندوی کے نامور معاصر تھے۔وہ غیر معمولی ذہانت وفطانت اوربے نظیر قوت یاداشت کے مالک تھے۔عربی زبان وادب اورعلوم اسلامیہ سے بخوبی واقف اوراردو فارسی دونوں زبانوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔سید سلیمان ندوی نے بحیثیت شاعران کی دو خوبیوں کاخاص طورپر ذکرکیاہے۔ایک ان کاشاعرِ طبعی وفطری ہونا،دوسروں صنف قصیدہ وغزل دونوں پربیک وقت قدرت رکھنا۔چناں چہ اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں:

’’شاعر دوقسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جو پڑھ لکھ کرقابلیت کے زورسے شاعر بنتے ہیں دوسرے وہ ہیں جوماں کے پیٹ سے شاعر ہوکرآتے ہیں وہ کچھ نہ بھی پڑھتے توبھی شاعر ہی ہوتے۔پہلے لوگ بہ تکلف شاعربنتے ہیں اور دوسرے فطری شاعرہوتے ہیں،البتہ تعلیم ان کی شاعری کوجلادیتی ہے۔ہمارے دوست اقبال سہیلؔ دوسری قسم کے شعرامیں ہیں یعنی فطری و طبعی شاعر ہیں۔‘‘۱؂

آگے رقم طراز ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’پرانے شعرا میں قصیدہ گواورغزل گوشعرا الگ الگ ہوتے تھے۔قصیدہ گو غزل میں اورغزل گوقصیدہ میں کامیاب نہیں ہوتے تھے کیوں کہ دونوں کی زبانیں الگ ہوتی ہیں۔مگرمستثنیٰ اشخاص بھی ہیں جودونوں مملکتوں پرایک ساتھ حکمراں ہیں۔جیسے قدما میں سعدیؔ ،متوسطین میں عرفیؔ اوراخیر دور میں مولانا شبلی مرحوم۔سہیلؔ صاحب بھی انھی مستثنیٰ قابلیت کے لوگوں میں ہیں جو قصیدہ اورغزل دونوں پرقدرت رکھتے ہیں۔‘‘۲؂

سہیل ؔ کی غزل گوئی سے صرفِ نظرکرتے ہوئے ہم سردست ان کی قصیدہ گوئی کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ شاعری پرقدرت کاملہ کے باوجود سہیلؔ نے شعر گوئی کوہمہ وقتی مشغلہ نہیں بنایا،پھر جو کچھ کہا اسے محفوظ رکھنے کی کوشش بھی نہیں کی بلکہ بقول خود:

’’دوسروں کی محنت سے جمع شدہ سرمائے کوبھی ضائع کردیا۔‘‘۳؂

یہی وجہ ہے کہ ’’کلیات سہیل‘‘میں غزلیات کی طرح قصائد بھی محدود تعداد میں ملتے ہیں پھر بھی ان کی شاعرانہ عظمت کایہ عالم ہے کہ ڈاکٹر ابومحمدسحرؔ کے’’انتخاب قصائد اردو‘‘میں ان کابھی ایک قصیدہ شامل ہے بلکہ یوں کہیے کہ انھی کے قصیدے پراس انتخاب کااختتام ہوتاہے۔یہ نعتیہ قصیدہ ہے اور اس کا مطلع حسب ذیل ہے:

کرے تارشعاعی لاکھ اپنی سعیِ امکانی

رفو ہوتا نہیں اب صبح کا چاک گریبانی

سہیلؔ کایہ قصیدہ ان کی قصیدہ گوئی اورنعت گوئی دونوں کاشاہکار ہے لیکن اس پر تفصیلی گفتگو سے پہلے یہ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کہ انھوں نے یہ قصیدہ سوداؔ کے نعتیہ قصیدے کی زمین میں ان کا تتبع کرتے ہوئے کہاہے۔سوداؔ کا مطلع درج ذیل ہے:

ہواجب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی

نہ ٹوٹی شیخ سے زنارِ تسبیح سلیمانی

اب جہاں تک سوداؔ کاتعلق ہے تویہ زمین انھوں نے خود نہیں نکالی بلکہ اس باب میں فارسی کے مشہور قصیدہ نگار خاقانیؔ شروانی کاتتبع کیاہے البتہ خاقانیؔ کاقصیدہ نعتیہ نہیں بلکہ حکیمانہ اوررثائیہ ہے اس کامطلع یوں ہے:

نثارِ اشکِ من ہرشب شکر ریز است پنہانی

کہ ہمت را زنا شوئیست با زانو و پیشانی ۴؂

(ہررات میرے دانہ ہائے اشک کابکھرنا سرِعروس شکر ریزی کے مشابہ ہے اس لیے کہ بلندہمتی کا زانو وپیشانی سے تعلق زن وشوہر کے تعلق کی مانندہے)

لیکن خاقانیؔ کایہ قصیدہ نہات ادق ہے۔اس کے بیشتر اشعار مجھ پرکھل نہ سکے۔بعض نسبتاً آسان شعر ترجمے کے ساتھ نمونے کے طورپر نقل کیے جاتے ہیں:

دل ازتعلیم غم پیچد معاذ اللہ کہ بگذارم

کہ غم پیردبستا نست ودل طفل شبستانی

(دل غم کی تعلیم سے پیچ وتاب کھاکر بھاگنا چاہتاہے۔پناہ بخدا کہ میں اسے چھوڑ دوں یعنی نہیں چھوڑوں گا۔دل کے بھاگنے کی وجہ یہ ہے کہ غم پیردبستاں ہے اوردل طفل شبستاں ہے)

ببستم حرص را چشم وشکستم آز رادنداں

چوں میم اندرخطِ کاتب چوں سیں درحرفِ دیوانی

(جس طرح کاتب کی تحریر میں میم کی آنکھ بند ہوتی ہے،اسی طرح میں نے حرص کی آنکھیں بند کر دی ہیں اور جس خطِ دیوانی میں سین کے دندانے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں،اسی طرح میں نے لالچ کے دانت توڑ دیے ہیں)

مرا آئینۂ وحدت نماید صورتِ عنقا

مرا پروانہ عُزلت دہد ملک سلیمانی

(گوشہ تنہائی کے آئینے میں مجھے عنقا کی صورت دکھائی دیتی ہے اورکنج عُزلت کاپروانہ مجھے ملک سلیمانی عطاکرتاہے)

چہ آزادند درویشاں ازآسیب گراں باری

چہ محتا جند سلطاناں بہ اسباب جہاں فانی

(درویش لوگ آسیبِ گراں باری سے کس قدرآزاد ہیں اور بادشاہ لوگ سامانِ جہاں بانی کے کس قدر محتاج ہیں؟)

بداسلطانیا کورا بود رنجِ دل آشوبی

خوشا درویشیا کورا بودگنجِ تن آسانی

(کیا ہی بری ہے وہ بادشاہت جسے پریشانیِ خاطرکارنج لاحق ہواورکیا ہی خوب ہے وہ درویشی جسے آرام وراحت کاخزانہ میسر ہو)

پس ازسی سال روشن گشت برخاقانی ایں معنی

کہ سلطانیست درویشی ودرویشی است سلطانی۵؂

(تیس سال بعدخاقانی پریہ بات منکشف ہوئی کہ بادشاہت درحقیقت درویشی ہے اوردرویشی درحقیقت بادشاہت ہے)

یہاں یہ اشعار اس طرف توجہ دلانے کے لیے نقل کیے گئے کہ سوداؔ نے اپنے قصیدے کی تشبیب میں جو حکیمانہ اورفلسفیانہ اندازاختیار کیا ہے تواس کاماخذ خاقانیؔ کازیر بحث قصیدہ ہے۔موازنے کے لیے سودا کے قصیدے سے تشبیب کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

فراہم زرکا کرنا باعثِ اندوہِ دل ہووے

نہیں کچھ جمع سے غنچے کوحاصل جز پریشانی

خوشامد کب کریں عالی طبیعت اہل دولت کی

نہ جھاڑے آسیتن کہکشاں شاہوں کی پیشانی

عروجِ دست ہمت کونہیں ہے قدرپیش وکم

سداخورشید کی جگ پرمساوی ہے زرافشانی

اکیلا ہو کے رہ دنیا میں گرچاہے بہت جینا

ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمرِ خضر طولانی

برنگِ کوہ رہ خاموش حرفِ ناسزا سن کر

کہ تابد گوصدائے غیب سے کھینچے پشیمانی

کرے ہے دہر زینت ظالموں پرتیرہ روزی کو

کہ زیبِ ترک چشم یارہے سرمہ صفا ہانی

اس میں کوئی شک نہیں کہ سوداؔ کایہ قصیدہ مطلع وتشبیب سے لے کر گریز تک جدت وطرفگی کا حامل ہے اورسودا ؔ نے بطور خاص تشبیب میں خاقانیؔ کاکامیاب تتبع کیاہے۔لیکن اس قصیدے کا نعتیہ حصّہ بہت کمزور ہے۔ا س کابنیادی سبب یہ ہے کہ سوداؔ علوم اسلامیہ اوررسول اکرم کی حیات طیبہ اور سیرت وشمائل نبوی سے بڑی حد تک ناواقف تھے۔اس باب میں ان کا منبع علم چند ضعیف روایات اوربعض مشہور مضامینِ نعت تک محدود تھا۔مثلاً:

(۱)حضرت آدمؑ کی پیشانی میں نورِ احمدی کاموجودہونا۔

(۲)روایت لولاک کماخلقت الافلاک۔

(۳)حضورپا ک کاشافع محشر ہونا۔

(۴)آپ کاکمال عدل و انصاف۔

(۵)جسم اطہر کے سایۂ مبارک کازمین پرنہ پڑنا۔

پھر ان مضامین کے نظم میں بھی سوداؔ ندرت یاتازگی کاکوئی پہلو پیدانہیں کرسکے ہیں۔چناں چہ پہلے دومضامین انھوں نے روایتی انداز میں نظم کیے ہیں ملاحظہ ہوں:

ملک سجدہ نہ کرتے آدمِ خاکی کو گراس کی

امانت دارِ نوراحمدی ہوتی نہ پیشانی

اسی کوآدم وحوّا کی خلقت سے کیا پیدا

مراد الفاظ سے معنی ہے تا آیاتِ قرآنی

اس کے بعدانھوں نے مضمون شفاعت نظم کیا ہے،لیکن یہاں وہ جدت کی کوشش میں جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے ہیں:

خیالِ خُلق اس کا گرشفیع کافراں ہووے

رکھیں بخشش کے سر،مِنت یہودی اورنصرانی

زباں پراس کی گذرے حرف جس جاگہ شفاعت کا

کرے واں نازآمرزش پہ ہراک فاسق وزانی

جہاں تک مضمون عدل وانصاف کاتعلق ہے توسوداؔ نے یہاں سب سے زیادہ زورِ طبع صرف کیاہے لیکن ان کی باتیں سب خیالی ہیں جن کاسیرت شمائل نبوی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ اشعار دیکھیے:

رکھا مسند پہ آجب سے قدم ان نے شریعت کی

کرے ہے موجِ بحر معدلت تب سے یہ طیغانی

اگرنقصان پرخس کے شرر کاٹک ارادہ ہو

کُرہ کو آگے کے د وہیں کرے غرق آن کرپانی

پلے ہے آشیاں میں باز کے بچہ کبوتر کا

شباں نے گرگ کوگلے کی سونپی ہے نگہبانی

ہما آساہے پرواز ملخ اوجِ سعادت پر

کرے ہے مورچڑھ کرسینۂ ددْ پرسلیمانی

کھلے ہے غنچۂ گل باغ میں خاطر سے بلبل کے

جواب اوراق جمعیت کوہوتی ہے پریشانی

البتہ سایۂ مبارک کے معدوم ہونے کے سلسلے میں سوداؔ نے حسنِ تعلیل کاایک دلکش پہلو پیداکیاہے:

نہ ہونے سے جدا سائے کے اُس قامت سے پیدا ہے

قیامت ہووے گادل چسپ وہ محبوب سلطانی

لیکن اس کے بعد حضرت یوسفؑ کے تذکرے میں استخفاف کاانداز پیدا ہوگیاہے:

جسے یہ صورت وسیرت کرامت حق نے کی ہووے

بجاہے کہیے ایسے کواگر اب یوسفِ ثانی

معاذ اللہ یہ کیسا حرف بے موقع ہواسرزد

جواس کوپھر کہوں توہوؤں مردودِ مسلمانی

کدھر اب فہم ناقص لے گیا مجھ کو،نہ یہ سمجھا

کہ وہ مہرِالوہیت ہے یہ ہے ماہِ کنعانی

اس کے بعد قصیدے کے اختتامی اشعارہیں لیکن انھیں اس قصیدے کاکمزورترین حصّہ کہنا چاہیے کیونکہ اس میں سوداؔ نے حدودسے تجاویز کرتے ہوئے معاذ اللہ عبدومعبود کے درمیان فرق کو مٹانے کی جسارت کی ہے کہتے ہیں:

جوصورت اس کی ہے لاریب ہے وہ ہے صورتِ ایزد

جومعنی اس میں ہیں بے شک وہ ہیں معنی ربانی

حدیث من رآنی دال ہے اس گفتگو اوپر

کہ دیکھا جن نے ان کوان نے دیکھی شکل یزدانی

یہاں ضمناً یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتاہے کہ فارسی میں عرفیؔ شیرازی کانعتیہ قصیدۂ میمیہ بھی بہت مشہور ہے اوراس میں بھی نعت کی بنیاد زیادہ ترخیالی مضامین پررکھی گئی ہے ممکن ہے کہ سوداؔ نے اس قصیدے کوبھی پیش نظر رکھا ہو اس کامطلع یہ ہے:

اقبال کرم می گزد ارباب ہمم را

ہمت نکشد نیشترِ لاونعم را

(عالی حوصلہ لوگ امرا کے لطف وکرم سے اذیت محسوس کرتے ہیں کیوں کہ انھیں امیروں کے انکار واقرار کی تاب لانا دشوار ہوتاہے) اس قصیدے کے چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:

تاثیر برد سہم تو از حکم کواکب

تغئیر دہد ہیبتِ توطعم ،نعم را

(اے رسول پاک آپ کے خوف کی وجہ سے ستاروں کے خواص زائل ہو جاتے ہیں[یعنی نحس ستارہ بھی سعد بن جاتاہے]اورآپ کی ہیبت کی وجہ سے نعمتوں کاذائقہ تبدیل ہوجاتاہے[یعنی زہر آلود کھانا بھی بامزہ ہوجاتاہے)

انعام تو بردوختہ چشم و دہنِ آز

احسانِ تو بشگافتہ ہر قطرۂ یم را

(آپ کے انعام نے لالچ کی آنکھ اوراس کا منہ بندکردیاہے اورآپ کے احسان نے[بخشش کے لیے موتیوں کی تلاش میں]سمندر کے ہرقطرے کوچیر ڈالاہے)

تا ذاتِ ترا اصلِ مہمات نخوانند

نشنید قضا ترجمۂ لفظ اہم را

(جب تک آپ کی ذات پاک کواصلِ مہمات کہہ کرپکارا نہ گیا،اس وقت تک قضاوقدر کولفظ ’’اہم‘‘کاترجمہ سننا نصیب نہ ہوا)

تا مجمع امکان و وجوبت ننوشتند

مورد متعین نشد اطلاق اعم را

(جب تک آپ کی ذاتِ والاصفات کومجمعِ امکان ووجوب نہ لکھا گیا،اس وقت تک مفہومِ اعم کے اطلاق کامحل متعین نہ ہوسکا)

تقدیر بہ یک ناقہ نشانید دو محمل

سلماے حدوث تو ولیلاے قدمِ را

(قدرت کے ہاتھوں نے ایک ہی اوٹنی پرآپ کے حدوث کی سلمیٰ اورقدمِ الہٰی کی لیلیٰ کے دوکجاوے کس دیے ہیں)

تا نام تر افسر فہرست نکردند

شیرازۂ مجموعہ نبستند کرم را ۷؂

(جب تک آپ کانام نامی سرِ فہرست نہ رکھا گیا،مجموعۂ کرم کی شیرازہ بندی نہ ہوسکی)

لیکن یہاں سوداؔ وعرفیؔ کے موازنے سے اندازہ ہوتاہے کہ تتبع کی کوشش کے باوجود سوداؔ ،عرفیؔ کی بلند فکری سطح تک پہنچنے سے قاصر رہ گئے ہیں۔ اب ہم اقبال سہیلؔ کے قصیدے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔چوں کہ یہ قصیدہ نعتیہ ہے۔اس لیے سہیلؔ نے یہ التزام کیا ہے کہ اس کی تشبیب کے ہرشعر میں جلوہ ونور یالطف وسرور یاحسن و عشق یاباغ وبہار کا کوئی نہ کوئی تلازمہ ضروررکھا جائے۔بعض مثالیں ملاحظہ ہوں:

تلازماتِ نور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابھی تک کہہ رہا ہے ذرہ ذرہ دشتِ ایمن کا

قیامت ہے قیامت جلوۂ جاناں کی عریانی

ادھر دوشیزہ کرنوں کانکلنا سمت مشرق سے

اُدھر بزمِ جہاں سے رخصتِ شمع شبستانی

ادھر صبحِ گریباں چاک کاراہ عدم لینا

ادھر خورشیدِ عالم تاب کاآغازِ رخشانی

تلازماتِ بہار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کہیں دوشِ صبا پر رقص کرنا نکہتِ گل کا

کہیں شاخِ نشیمن پرعنادل کی حدی خوانی

ادھر غنچوں کے لب پروِرد یافتاح جاری ہے

اُدھر محوِ اقامت ہے قطا رِ سروِ بستانی

ادھر سبزے کاجاگ اٹھنا خمار خوابِ نوشیں سے

اُدھر بادسحر سے زلفِ سنبل کی پریشانی

تلازماتِ حسن وعشق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تمناؤں کاحشراٹھا ہے پھر ویرانۂ دل میں

جنوں نے دل کودی پھردعوتِ شوریدہ سامانی

چمن میں جس طرف دیکھو نظربازوں کاجھرمٹ ہے

الہٰی ! کوچۂ قاتل ہے یا صحنِ گلستانی

نہ جانے حسن ہے یاعشق اتنا جانتے ہیں ہم

ہمیں کھینچے لیے جاتاہے کوئی جذب پنہانی

نعت کے لحاظ سے سہیلؔ کے قصیدے کی یہ تشبیب موقع ومحل اورمقتضاے حال کے عین مطابق ہے۔اس لیے کہ آئندہ ذکر کیے جانے والے مضامین سے اس کاربط وتعلق ظاہر وباہر ہے۔اس کے برخلاف سوداؔ کے قصیدۂ نعتیہ کی تشبیب اگرچہ حکیمانہ وفلسفیانہ افکار وخیالات پرمبنی ہونے کی بناپر دلچسپ اورپُرکشش ہے لیکن مضمون نعت سے چنداں مناسبت نہیں رکھتی۔اسی طرح سوداؔ کے قصیدے کامطلع بھی اگرچہ فکر اورندرت خیال کے لحاظ سے چونکانے والا ہے لیکن نعتیہ قصیدے کے لیے مناسب وموزوں نہیں معلوم ہوتا۔کیوں کہ اس میں کفرکوتمغائے مسلمانی کہا گیا ہے اور علامت کفر زنّار کے بالمقابل حامل لواے اسلام شیخ کو عاجز وبے بس دکھلایا گیا ہے۔یہی اعتراض محسنؔ کاکوروی کے معرکہ آرا قصیدۂ لامیہ پر بھی کیا گیاہے کہ اس کی تشبیب میں بھی کفر اورعلامات کفر کاتذکرہ اس زوروشور سے کیاگیاہے کہ اس کے مقابلے میں اسلام دبتا ہوامحسوس ہوتاہے لیکن سہیلؔ نے ایسے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں چھوڑی بلکہ معاملہ برعکس رکھاہے۔

تشبیب کی طرح سہیلؔ کے قصیدے کی گریز بھی بہت خوب ہے کیوں کہ یہاں تشبیب سے نعت اس طرح بے ساختہ برآمد ہوئی ہے جس طرح کلی سے پھول برآمد ہوتاہے۔اشعار ملاحظہ ہوں:

کمال عاشقی ہے آپ مرنا اپنے جلوؤں پر

مرے مذہب میں خودبینی کوکہتے ہیں خدادانی

خود اپنی شکل دیکھی پردۂ برقِ تجلی میں

تعجب کیا اگر تھی دیدۂ موسیٰ کو حیرانی

کہاں کا دشت ایمن طور کیا،برقِ تجلی کیا

یہ سب کچھ تھی جمالِ مصطفی کی پر تو افشانی

گریز کے بعد مدح یانعت شروع ہوتی ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سہیلؔ کے زیر بحث قصیدے کا سب سے منفرد اوردلکش حصّہ یہی ہے۔اس انفرادیت کے کئی پہلو ہیں:اوّل یہ کہ سہیلؔ نے نعت کی بنیاد جن مضامین پررکھی ہے وہ روایتی اورباربار کے باندھے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر سہیلؔ کے ہاں پہلی بار سلک نظم میں پروئے گئے ہیں مثال کے طورپر نعت کے یہ ابتدائی اشعار دیکھیے:

محمد وہ کتاب کون کا طغراے پیشانی

محمد وہ حریم قدس کا شمع شبستانی

محمد یعنی وہ حرف نخستیں کلکِ فطرت کا

محمد یعنی وہ اعضاے توقیعات ربانی

وہ فاتح جس کا پرچم اطلسِ زنگاریِ گردوں

وہ اَمّی جس کے آگے عقلِ کل طفلِ دبستانی

وہ رابط عقل ومذہب کوکیا شیر وشکر جس نے

وہ فارق زہد سے جس نے مٹایا داغِ رہبانی

وہ ناطق جس کے آگے مہربرلب بلبلِ سدرہ

وہ صادق جس کی حق گوئی کاشاہد نطقِ ربانی

نعت گو سہیلؔ کادوسرا امتیا زیہ ہے کہ ان کے اکثر وبیشترمضامین نعت کا ماخذ ومصدر آیات قرآنی،احادیث نبوی اورکتب سیرت وشمائل ہیں جنھیں سہیلؔ نے اعلیٰ درجے کی شاعرانہ فن کاری وہنرمندی کے ساتھ نظم کیاہے چناں چہ ان کے نعتیہ اشعار حقائق پرمبنی ہونے کے ساتھ ساتھ شکوہ بیان،روانی،موسیقیت اورتازگی وطرفگی کی صفات سے بھی متصف ہیں۔اس کے ساتھ ہی ان میں معنوی مناسبات اورلفظی رعایات کابھی پورا اہتمام کیا گیاہے۔ان تمام خوبیوں نے مل کر کلام شاعر کوسحرِ حلال کے درجے پرپہنچا دیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

وہ عادل جس کی میزان عدالت میں برابر ہے

غبار مسکنت ہویا وقار تاج سلطانی

وہ جامع جس نے یکجا کردیے بکھرے ہوئے دانے

مٹادی جس نے آکے باہمی تفریق انسانی

وہ درس آموزِ فطرت جس نے سب سے پہلے دنیا میں

بتائے اہل عالم کو حقوق جنس نسوانی

وہ گنجورِ معارف جس کے اک اک حرف میں پنہاں

نکات فلسفی ، اسرار نفسی ، راز عمرانی

وہ کشاف سرائر،جس نے کھولا چنداشاروں میں

علوم اولین و آخریں کاگنج پنہانی

سہیلؔ کے اس نعتیہ قصیدے میں بعض ایسے خوب صورت اشعار بھی ہیں جن کی مثال نعتیہ شاعری کے پورے ذخیرے میں بہ مشکل مل سکے گی۔مثلاً:

تراشہ جس کے ناخن کا ہلال آسماں منزل

غسالہ جس کے تلوؤں کا زلال آب حیوانی

نہیں مہردرخشاں اس کے فیض جبہہ سائی سے

چمک اٹھا ہے چرخ چار میں کا داغِ پیشانی

نعت میں انبیائے سبابقین کاذکر بالعموم آتا ہے اورآنا بھی چاہیے لیکن بعض اوقات یہ تذکرہ شایان شان نہیں ہوتا۔سہیلؔ کاایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ انبیاورسل کے ذکر میں حفظ مراتب کوملحوظ رکھتے ہیں۔زیربحث قصیدے سے بعض مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

وہ مقصود دو عالم مستغاثِ قاصی و دانی

کیا جس نے مکمل نسخۂ اخلاق انسانی

مبشر جس کی بعثت کا ظہور عیسیٰ مریم

مصدق جس کی عظمت کا لبِ موسیٰ عمرانی

تعالیٰ اللہ ذاتِ مصطفی کا حسنِ لاثانی

کہ یکجا جمع ہیں جس میں تمام اوصاف امکانی

دعائے یونسی ، خلق خلیلی ، صبر ایوبی

جلالِ موسوی ، زہد مسیحی ، حسن کنعانی ۸؂

کسی مضمون کوکم سے کم الفاظ میں اداکرنا،ایجاز کہلاتاہے اورتکرار بے فائدہ سے بچتے ہوئے خوبی ودل آویزی کے ساتھ قدرے تفصیل سے پیش کرنے کواطناب کہتے ہیں۔سہیلؔ کو دونوں طرزاداپرپوری پوری قدرت حاصل ہے۔زیر بحث قصیدۂ نعتیہ کے اشعار اکثر وبیشتر ایجاز کے حامل ہیں لیکن واقعۂ معراج کاذکر انھوں نے اطناب کے پیرائے میں کیاہے۔اس سلسلے کے بھی چند اشعار ملاحظہ ہوں:

حریم ام ہانی میں حضور آرام فرما تھے

درِ دولت پہ قدسی وملک تھے محوِ دربانی

وہ چشمِ نرگسیں تھی بند لیکن چشم دل واتھی

سرھانے طالع بیدار کرتا تھا مگس رانی

ادب سے آکے جبریل امیں نے یہ گزارش کی

کریں سرکار بزم نور تک تشریف ارزانی

سنی روح القدوس سے جب طلب بزمِ حضوری کی

اٹھے اوردی براقِ پاک پر دادِ سبک رانی

براق برق پیکر لے چلا یوں ذاتِ انور کو

فضا میں تیر جائے جس طرح بجلی کی تابانی

حضور اس طرح گزرے گنبد مینائے گردوں سے

نظر جس طرح شیشے سے گزر جائے بہ آسانی

سہیلؔ کے قصیدہ نعتیہ کے کسی قدر تفصیلی تجزیے کے بعد مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں منیرؔ شکوہ آبادی کے’’قصیدہ درنعت‘‘موسوم بہ’’فریاد زندانی‘‘کابھی ذکر کیاجائے۔حسن اتفاق کہ منیرؔ کاقصیدہ بھی سوداؔ ہی کی زمین میں ہے۔اس کا مطلع اس طرح ہے:

رخِ احباب سے ظاہر ہواہے بغض پنہانی

صفائی کے گواہوں میں ہے کاذب صبح پیشانی

منیرؔ شکوہ آبادی امیرؔ اورداغؔ کے معاصرین میں ہیں۔انھوں نے قصیدہ گوئی کے فنی لوازم کا اہتمام کرتے ہوئے باکثرت قصائد لکھے ہیں۔۹؂ ان کا زیر بحث قصیدہ اس لحاظ سے ایک معرکہ آراقصیدہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ شعوری طورپر سوداؔ کا تتبع کیاہے بلکہ بحیثیت مجموعی ہرطرح ان سے آگے نکل جانے کی کوشش کی ہے چناں چہ سوداؔ کاقصیدہ۴۸؍اشعار پرمشتمل ہے تو منیرؔ نے اپنے قصیدے کی تعداد ابیات ۱۹۸رکھی ہے۔اسی طرح قصیدے کے تمام اجزائے ترکیبی میں عموماً اور مضامین نعت کے بیان میں انھوں نے سوداؔ سے کہیں زیادہ زورِ طبع صرف کیا ہے مثلاً سایۂ مبارک کے معدوم ہونے کامضمون سوداؔ نے صرف ایک شعر میں اس طرح اداکیا تھا:

نہ ہونے سے جداسائے کے اس قامت سے پیدا ہے

قیامت ہووے گا دلچسپ وہ محبوب سبحانی

تومنیرؔ نے اسی مضمون کوسات شعروں میں اس طرح باندھا ہے:

کہوں کیا سایۂ پرنور کے معدوم ہونے میں

سبھوں کے توسن فکر ت نے کی ہے اس میں جولانی

نہ ہوتا جمع یہ سایہ اگر مدِامانت میں

نہ ہوتی خوش سواد اس مرتبہ اقلیم روحانی

سیاہی چشم وزلف حور کی اس کی بدولت ہے

قلم نے لوح پرلکھے اسی سے حکم ربانی

کلام پاک میں واللیل اسی کوحق نے فرمایا

امانت ہے قسم کے واسطے یہ ظل نورانی

یہی توپردہ دار عاشق ومعشوق ٹھہرا تھا

شبِ معراج بن کرکی اسی نے نورافشانی

اسی سائے نے شاید لے لیا ظل حمایت میں

کہ طوبیٰ کی ملائک کرتے ہیں اتنی نگہبانی

بنی شام جوانی بھی اسی سائے کے صدقے میں

لباسِ کعبہ نے پائی اسی سے مشک افشانی

ان سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منیرؔ ،سوداؔ کے دائرے سے باہرنہیں جاتے یعنی جس طرح سوادؔ روایتی یاخیالی مضامین پرنعت کی بنیاد رکھتے ہیں وہی کیفیت منیرؔ کی بھی ہے مثال کے طورپر یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

نہیں ممکن کرے کوئی گمانِ بطنِ نورانی

عبث باندھے ہے پتھر پیٹ پر مُہر سلیمانی

بڑھے گی اس قدر حیرت جو صبرِ پاک دیکھے گا

بنے گا سورۂ صاداک نظر میں چشم قربانی

مگر فرشِ زمیں پر روضۂ اقدس بنانا ہے

سروں پہ ڈھوتے ہیں حور وملائک خشتِ پیشانی

سواپایا مزا،اصلی وطن سے آپ کے دل میں

اتر کر لامکاں سے آئیں جب آیات قرآنی

جو زر بخشی کی خاطر نام لکھے وہ فقیروں کا

نوالہ کھائے سونے کا دہان میم مہمانی

جو اس کے گیسوئے پر نور حکم عام فرمائیں

کسی گھر میں نہ کرنے پائے جمعیت پریشانی ۱۰؂

ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ منیرؔ باوجود شاعر انہ قادرالکلامی اورطباعی کے روایت کے دائرے میں محصور ہیں۔اس کے برخلاف اقبال سہیلؔ اس حصار کوتوڑنے میں کامیاب نظرآتے ہیں اور جیساکہ تفصیل سے ذکر کیاگیا یہی ان کانشان امتیاز ہے۔البتہ ’’عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو‘‘کے بہ مصداق اس حقیقت کااعتراف بھی ضروری ہے کہ سہیلؔ کے زیر بحث نعتیہ قصیدے میں دعا کاحصہ مفقود ہے حالاں کہ منقبتی قصائد کاعموماً اورنعتیہ قصائد کاخصوصاً یہ ایک اہم اورضروری جزہے۔

حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔کلیات سہیل،اقبال سہیل خاں سہیلؔ ،مرتبہ عارف رفیع،معارف پریس،اعظم گڑھ،۲۰۱۱ء،ص۷

۲۔ایضاً،ص۸

۳۔ایضاً،ص۲۲

۴۔کلیاتِ خاقانی،مطبع نول کشور۱۲۹۳ھ،ص۲۴

۵۔دیوان خاقانی شروانی،انتشارات ارسطو۱۳۶۲،ایران،ص۳۳۵۔۳۴۰

۶۔انتخاب قصائد اردو،مرتبہ:ڈاکٹر ابومحمد سحر،طبع چہارم،۱۹۹۵ء،ص۳۴۔۳۶

۷۔کلیات عرفی شیرازی،بہ کوشش غلام حسین جواہری،ایران،سنہ ندارد،ص۹۔۱۱

۸۔کلیات سہیل،ص۳۰۔۳۴

۹۔انتخاب قصائد اردو،ص۱۲۸۔۱۳۶