الی النور

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


الی النور کاٹائیٹل

کتاب: اِلی النُور

شاعر:سہیل احمدصمیم

سال اشاعت :2023

اس کتاب میں 10 ابیات، 13 قطعات، 23 نظمیں (ایک نظم چالیس مصرعوں اور ایک مسدس نظم 63 شعروں کی ) اور 26 غزلیہ آہنگ کی نعتیں شامل ہیں۔مذکورہ مجموعے میں کسی بھی جگہ حضورﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے لیے ”تو، تیرے، تمھارے یا اس“ کا استعمال نہیں لایا گیا۔ مضامین و آرا کی بات کی جائے توڈاکٹر عادل سعید قریشی اور ڈاکٹر عامر سہیل کا مضمون، بیک پیچ میں سعود عثمانی اورآصف ثاقب کی رائے، فلیپس میں حسن عباسی، ناصر بختیار، عبدالوحید بسملاور احمد ریاضکی آرا شامل ہیں۔


دیگر احباب کی آراء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صدام فدا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت گوئی حضور پاک کی دنیا میں آمد سے پہلے ہی کسی نہ کسی صورت میں شروع ہوگئ تھی اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے اور یومِ آخر تک اسی آب و تاب کے ساتھ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ہر عہد کے شعرا نے اپنے عہد میں رائج زبان و بیان کو استعمال کیا اور مدحتِ رسول بیان کی لیکن سب میں مشترک چیز عشقِ رسول ہے۔بعض لوگ نعتیہ شاعری کو صرف عقیدت کے زمرے میں ڈال کر ایک طرف ہو جاتے ہیں اور نعت کے فنی محاسن اور مضمون بندی وغیرہ پر بات نہیں کرتے کہ کہیں ایسا کرنا گناہگار نہ کر دے لیکن میری دانست میں جس طرح غزل پر محنت کی جاتی ہے اور باریک بینی سے دیکھی سمجھی جاتی ہے اس کے ایک ایک پواٹنٹ پر بات کی جاتی ہے تنقیدی محافل منعقد ہوتی ہیں اسی طرح نعت بھی اس کی متقاضی ہے۔نعت ایک مکمل فن ہے ۔اب دنیاوی محبوب کی تعریف پر اتنی محنت کی جائے لیکن جہاں بات حضور پاک کی مدح سرائی کی ہو وہاں صرفِ نظر کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔کی ذمہ دار فہرست میں ایک نام سہیل احمدصمیم کا ہے۔جن کے کلام سے تازگی کی مسحور کن خوشبو آتی ہے اور قاری کو یہ نہیں لگتا کہ یہ شعر تو پچاس سال پہلے یا بیس سال پہلے فلاں نے بھی کہا ہوا ہے۔اگر کوئی خیال پہلے برتا بھی ہوا ہے تو سہیل احمد صمیم نے اسے اپنے سانچے میں ڈال کر نیا کر دیا ہے۔اب وہ پرانا نہیں لگتا۔


سہیل احمد صمیم کی خاص خوبی یہ بھی ہے کہ وہ آزاد نظمیہ نعت کہنے پر اتنی ہی قدرت رکھتے ہیں جتنی قدرت ان کی پابند شاعری پر ہے۔مثلاًان کی آزاد نظم کی ہیئت میں نعت ملاحظہ کریں۔


‛‛‛حضورِ شاہِ کل جہاں کی بات کرتے ہیں‛‛‛


زمیں کی بات کرتے ہیں نہ آسماں کی بات کرتے ہیں

حضورِ شاہِ کل جہاں کی بات کرتے ہیں

ہمارے آس پاس کی یہ روشنی انہی کے دم سے ہے

یہ زمزے یہ چاندنی انہی کے دم سے ہے

شعور و آگہی یہ بندگی انہی کے دم سے ہے

یہ حسن یہ جمالِ دو جہاں

یہ سادگی انہی کے دم سے ہے

ناممکنات میں وہ ممکنات ہیں

مرا عقیدہ ہے

وہ مقتصد

وہ روحِ مقصدِ نظامِ کائنات ہیں

وہ دینِ حق کی شش جہات ہیں

وہ آئینہِ جمال کی حیات ہیں

تمام منزلوں کے راستے انہوں نے اپنے ہاتھ سے بہم کیے

ستم سہے مگر کرم کیے

ہمیشہ مہرباں رہے تو مہرباں کی بات کرتے ہیں

حضورِ شاہِ کل جہاں کی بات کرتے ہیں

یہ حکمتیں یہ معجزے انہی کے فیض سے عیاں ہوے

خوشا کہ ان کی اک

صدائے حق پہ بے زباں بھی ان کے ہم زباں ہوے

دل و دماغ کو خبر کہاں

کہ ان کے تذکرے کہاں کہاں ہوے

سکونِ قلب مل گیا

یفیں کے قافلے رواں دواں ہوے

جو ان کے نقشِ پا پہ چل دیے

زمیں پہ رہ کے بھی وہ آسماں ہوے

خدائے وحدہ‛ کے ترجماں کی بات کرتے ہیں

حضورِ شاہِ کل جہاں کی بات کرتے ہیں وہ چاند سے حسین ہیں

وہ آفتابِ علم و دین ہیں

وہ وارثِ علومِ اولین ہیں

وہ واقفِ امورِ آخرین ہیں

بلاشبہ وہ آخری مبین ہیں

وہ سیدالانام ہیں

وہ مقتدائے کل جہان ہیں

یقینِ حق کی جان ہیں

ہمارے واسطے وہ سائبان تھے وہ سائبان ہیں

سنو کہ سائباں کی بات کرتے ہیں

حضورِ شاہِ کل جہاں کی بات کرتے ہیں۔


سہیل احمد صمیم کی نعت گوئیمیں ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ وہ موجودہ عہد کے مسائل کا ذکر بھی کرتے ہیں۔موجودہ عہد میں اصل کی بجائے نقل کی بھر مار ہے ۔ہر شخص نے اپنے اوپر ایک خول چڑھا رکھا ہے۔یہ خول جتنا اوپر سے خوب صورت ہے آدمی اتنا ہی اندر سے کھوکھلا اور نفرت سے بھرا ہے۔سہیل احمد صمیم اس خول کو ہٹا کر صرف حضرت محمد کی تعلیمات سے لو لگانے کی بات کرتے ہیں اور ہر مسلمان کا یہی عقیدہ بھی ہونا چاہیے کہ کامیابی کی معراج اتباعِ خدا و رسولِ خدا ہے۔


اِس تناظر میں ایک نظم دیکھیں


‛‛‛جنت کا رستہ‛‛‛


شہر کی اخباروں پر غور کریں

تو معلوم یہ ہوتا ہے

دنیا خود پر نفرت کے خول چڑھانے میں مصروف عمل ہے

افسوس کہ ہم کو اک دوجے کے دکھ سے کچھ فرق نہیں پڑتا

شہروں میں رہنا مشکل ہوتا جاتا ہے

انساں جنگل کی طرف بھاگ رہے ہیں

حالت بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے

قسمت سوتی جاتی ہے

اشکوں کے ہار پروتی جاتی ہے

ایسی جھنجٹ بستی میں

بس ذکر_سرکار کریں

اپنی جنت کا رستہ ہموار کریں۔


اسی طرح ان کی کتاب میں ‛‛حالات بدل جائیں گے‛‛

‛‛حضور_والا‛‛

‛‛دروازہ‛‛

‛‛کامیاب‛‛

‛‛آمد‛‛ ‛‛حل‛‛

‛‛جنت کا رستہ‛‛

آزاد نظموں کی ہیئت میں کہی خوب صورت نظمیں ہیں جن میں شاعر نے روایت سے ہٹ کر نئے مضامین سامنے لائے ہیں۔


آزاد نظمیہ نعوت کے علاوہ سہیل احمد صمیم نے پابند نظمیہ نعوت بھی اسی آب و تاب ‛ جذبہءحبِ نبی کی سرشاری میں کہی ہیں۔ان نعوت میں سب سے زیادہ پسند آنے والی شے مصرعوں کی روانی ہے ۔سہیل احمد صمیم کا قلم گویا چلتا گیا اور نعت ہوتی گئ۔

مسدس حالی پر بڑے بڑے لوگوں نے بہت کچھ لکھا اور لکھتے بھی کیوں نہ کہ اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔ایسے ہی مسدس کی صورت میں صمیم نے بھی نعت کہی اور خوب کہی۔اس کا ایک ایک بند قابل صدستائش ہے۔


مسدس سے نمونے کے لیے کچھ بند۔


دائرے زیست کے گمنام ہوا کرتے تھے

اس جہاں میں بڑے ہنگام ہوا کرتے تھے

سانحے باعثِ دشنام ہوا کرتے تھے

اور جھگڑے تو بہت عام ہوا کرتے تھے

رب کی توحید بھی معدوم ہوئی جاتی تھی

مرکزی راز سے محروم ہوئی جاتی تھی


اب اس بند میں لفظ‛‛ مرکزی راز‛‛ میں جو گہرائی اور وسعت ہے وہ الگ سے بحث طلب ہے۔ایسی تراکیب کو استعمال کرنے کا ہنر صمیم ہی جانتا ہے۔


ایک اور بند ملاحظہ کریں جس میں اس دور میں امت_مسلم کی اپنی غلطیوں اور بد اعمالوں کی طرف اشارہ ہے۔اس کے علاوہ ان بداعمالوں کی وجہ سے جو ذلت و رسوائی اٹھانی پڑ رہی ہے اس طرف بھی خوب اشارہ کیا گیا ہے۔


زندگی درد سے پرخار ہوئی پھر سے حضور

آگہی باعثِ آزار ہوئی پھر سے حضور

روشنی راہ کی دیوار ہوئی پھر سے حضور

بندگی بھی بڑی دشوار ہوئی پھر سے حضور

اے نبی واقفِ اسرار بہت تھوڑے ہیں

آج کل صاحب_کردار بہت تھوڑے ہیں


اسی طرح الی النور میں نظم


‛‛قطرے سے سمندر‛‛

‛‛مانگتا ہوں‛‛

‛‛پیش_نظر‛‛

‛‛نماز_عشق‛‛

خوب صورت پابند نظم کی صورت میں کہی گئ نعوت ہیں۔جنہیں پڑھ کر آدمی ایمان کے جذبوں سے سرشار ہو جاتا ہے اور خیالات اس ہستی کے تصور سے مہک دار ہو جاتے ہیں۔

آخر میں سہیل احمد ثمیم کی غزل کی ہیئت میں کہی گئ نعوت کے کچھ منتخب اشعار نمونے کے طور پر حاضر ہیں جن کو پڑھ کر یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ہیئیت میں نعت کہنے پر شاعر کتنا زیادہ قادر ہے۔کسی ایک نعت گو میں یہ خوبی اتنی شدت سے موجود ہونا حیرت ہے۔


میرا کھویا ہوا پندار دیا ہے مجھ کو

آپ نے واقفِ اسرار کیا ہے مجھ کو

ایک نقطے پہ جہاں سارا ہُوا ہے قائم

بالیقیں سوچ یہ کہتی ہے وہ نقطہ ہیں حضور

زمین اپنی جگہ منجمند پڑی ہوئی تھی

بہ فیضِ شاہِ عرب ارتقا نصیب ہوا

وہ جو چاہیں تو گلستاں کو نمویاب کریں

وہ جو چاہیں درودیوار کو گھر کرتے ہیں

میری رسوائی کسی طور نہیں ہے ممکن

ہاتھ آقا نے مری پشت پہ رکھا ہوا ہے

یہ ملائک یہ قلندر یہ سخن ور سارے

رشک سے دیکھتے ہیں ان کو پیمبر سارے

یہ روشنی یہ چاشنی یہ زندگی یہ راگنی

یہ چاندنی ہے آپ سے یہ زمزمے ہیں آپ سے

نعت کہنے کے لیے طرزِ بیاں مل جائے

بے زباں شخص کو یعنی کہ زباں مل جائے

ان اشعار کے علاوہ بھی سہیل احمد صمیم کی کتاب الی النور اچھے اور تازہ اشعار سے بھری ہوئی ہے۔میں دعا گو ہوں اس محبت اور خلوص بھرے شخص کو اللہ رزق_سخن سے مزید مالا مال کرے اور سرخروئی ہمیشہ اس کا مقدر ہو۔آمین


صدام فدا