انور جمال کی نعت گوئی ۔ جاوید اختر بھٹی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : جاوید اختر بھٹی۔ملتان

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

انور جمال کی نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Anwar Jamal's devotional poetry has been introduced in this article. Anwar Jamal presented two collections of Naatia Poetry 'Lo La Ka Lama' and 'Hasonat Jami Khisalehi' in 1984 and 2000 respectively. The first one was a Sestet formed poem. This form of poetry requires command in expression of views and composition of words and the poet fulfilled the requirement at his best. Anwar Jamal bears consciousness of form and content of Naatia poetry and has also expressed his view point in foreword of 'Lo La Ka Lama 'which shows his critical approach. Examples of some couplets have also been laid down in the article from poetry presented in the book Hasonat Jami Khisalehi . This is a brief introduction of poetic work of Anwar Jamal in the genre of Naat.

پروفیسر انور جمال(انور حسین بھٹی)ملتان کے معروف شاعر ہیں۔وہ یکم اپریل۱۹۴۸ء کو پیدا ہوئے۔ملتان کے ایک پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل رہے۔اس سے قبل مختلف کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔۳۱/مارچ ۲۰۰۸ء کوریٹائر ہوئے۔

انور جمال نے شاعری،تنقید،تحقیق،مزاج اور خاکہ نگاری میں نام پیداکیا۔ان کی اب تک ۱۰ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔’’لولاک سَما‘‘(نعتیہ مسدس)۱۹۸۴ء،’’نصف النہار‘‘(مجموعہ غزل) ۱۹۹۱ء ، ’’پراگندہ طبع لوگ‘‘(خاکے۔انشائیے)۱۹۹۳ء،’’ادبی اصطلاحات‘‘(تحقیق وتنقید) ۱۹۹۴ء ۔ ’’تیرے بعد‘‘(مجموعہ نظم وغزل)۱۹۹۹ء،’’حسنت جمیع خصالہٖ‘‘(نعتیں)۲۰۰۰ء،’’ادبی اشارات ‘‘ (تحقیق)۲۰۰۰ء،’’تاویلات‘‘(تحقیق وتنقید‘ ‘۰۳ ۰ ۲ ء ، ’’تشنگی ہجرہے‘‘(شاعری)۲۰۰۷،’’بوہے باریاں‘‘(پنجابی شاعری)۲۰۱۰ء۔

انور جمال نے شاعری میں نام پیداکیا اورخوب صورت شعر کہے۔انھوں نعتیہ شاعری کی۔ان کی دوکتب شائع ہوئیں۔پہلی’’لولاک کما‘‘اوردوسری’’حسنت جمیع خصالہٖ‘‘۔ان کی نعتیہ شاعری میں رسالت مآب سے محبت اورقلبی وابستگی موجود ہے۔نعت خلوص دل سے ہی کہی جاسکتی ہے جس کے اندر محبت کاچراغ روشن ہوتاہے۔وہ نعت کہتاہے ورنہ یہ اعزاز نصیب نہیں ہوتا۔

انور جمال کی شاعری کی پہلی کتاب’’لوکاک سَما‘‘نعتیہ مسدس ہے۔یہ ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی یہ۱۲۰صفحات پرمشتمل ہے۔اس دیباچے(حرف عجز)میں انورجمال لکھتے ہیں:

’’اگر ہم نعت گوئی کافروغ چاہتے ہیں اور سیرت طیبہ کی قندیل کی روشنیاں عام کرنا چاہتے ہیں تونعت میں ایسے مضامین کی حوصلہ افزائی کی جائے جن کا تعلق اسوۂ حسنہ سے ہے۔جن کا واسطہ رحمت عالم کی انقلاب آفریں حیات سے ہے۔جن کا رشتہ اخلاق نبوی سے ہے۔جن کاعلاقہ عقیدت و محبت کے متوازن جذبوں سے ہے۔جن مضامین سے انسانی ذات میں تحقیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔جن کی دلوں سے مودت اور احترام کے الاؤ سلگتے ہیں اورجن سے ایمان کی کلیاں مہکتی ہیں۔‘‘

بے بس ہے علم ودرک و خبر اس مقام پر

ہیں طائر خیال و تفکر کے خام پر

وجدان وعقل ہوش جھکیں اس کے نام پر

حیرت بجاں ہے آدمی اس کے نظام پر

تر ہے جبینِ فن،عرقِ انفعال سے

بالا ہے وہ گماں سے خرد سے خیال سے

اس کے بعد ایک سو نعتیہ بند ہیں۔ان میں سے چار بند پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتاہوں:

لوح و قلم بنے تھے نہ تصویرِ کائنات

آب و ہوا نہ رنگ نہ موسم نہ واقعات

پھل پھول تھے نہ پیڑنہ کا نٹے نہ ڈال پات

جن وملک نہ انس نہ جامد نہ ذی حیات

برگ حملِ سخن سے بھی پہلے کی بات ہے

تخلیقِ حرف کن سے بھی پہلے کی بات ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسم عظیم سیدِ امجد عطا ہوا

آدم کے دل کو نسخہ احمد عطا ہوا

دنیا کے پہلے شخص کو ابجد عطا ہوا

سازِ ازل کو نغمۂ سرمد عطا ہوا

پرکارِ جاں کونقطۂ محور دیا گیا

آئینۂ خیال کوجوہر دیاگیا

لکھوں اگر حضور کے احسان کم سے کم

سطحِ فلک بنے میرا دیوانِ کم سے کم

دریا درخت سب ہوں قلمدان کم سے کم

پھر جا کے لکھا جائے گا عنوان کم سے کم

حماد جس کی رب جہاں کی زبان ہو

تعریف اس رسول کی کس سے بیان ہو

اس مسدس کاآخری بند:

اے تو،کہہ کرتیری ذات سے محکم ہے میری ذات

اے تو،کہ تری نعت پہ نازاں قلم دوات

مجھ پرسدا رہی ہے تیری چشم التفات

یہ نعت خواں ہو حشر میں بھی تیرے سات سات

حیرت میں ہوں ملک مرے اوجِ نصیب پر

محشر کے لوگ رشک کریں مجھ غریب پر

نامور نقاد جابر علی سید مرحوم نے اس مسدس پر اعلیٰ رائے دی ہے۔سید صاحب کی یہ خوبی تھی کہ وہ مروت میں نہیں لکھاکرتے تھے۔وہ اپنی رائے کوقائم کرتے تھے۔انورجمال پرانھوں نے اظہارِ خیال ہے تودراصل یہ ان کی قلب کی سچائی ہے۔سیدمرحوم نے فرمایا:

’’انور جمال عہدجدید کے نعت سراؤں میں ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔جذبۂ نعت متعدد ہستیوں میں ابلاغ پاسکتا تھا اورپُرہیئت میں اس کا تاثر یکساں نہیں ہوسکتا۔ہرچند کہ مرکزی احساس ایک ہی ہے تاہم ہیئت کا انتخاب طرز احساس کے متعین کرنے میں کافی دخل رکھتا ہے۔نعت جیسی پاکیزہ اورمتانت آمیز صف شاعری کے لیے مسدس ہیئت کاانتخاب اس میں تاریخی شعور ، معنوی ارتقاء،اورہیتی جمالیت کے درآنے کایقینی ضامن ہے جب نعت کے ساتھ تاریخی شعور شامل ہوگا تولامحالہ ایک ایسی نوعیت کاتاثر ہاتھ آئے گا جسے ہم عصراز تاثر سے بڑی حدتک مختلف وممیز پانے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ مسدس نعت لکھ کر انور جمال نے اس مقبول عوام صنف کوایک نئے موڑ پرکھڑا کردیاہے جہاں سے نئے افق احساس اورادرک کے ہویدا ہوں گے اور بیشتر شعراء اس نعتیہ کارنامے کواپنا سرعشق بنانا پسند کریں گے۔اس کازور اور تاثیر،آہنگ اوراسلوب اپنی نوع کے آپ ہیں اوررنگ میں واضح طور پر منفرد نظر آتے ہیں۔‘‘

جس وقت یہ مسدس شائع ہوئی اس وقت انورجمال کی عمر۳۶برس کی تھی لیکن ان کے کلام میں فنی پختگی دکھائی دیتی ہے اس کے ساتھ نبی پاک سے روحانی وابستگی اورتاریخی شعور نمایاں ہے اور انھوں نے مضامین کونئے انداز میں پیش کیا۔ا س سے اندازہ ہوتا کہ انھوں نے شاعری کے اسرار و رموز پرابتداء میں ہی دسترس حاصل کرلی تھی ورنہ سید مرحوم کی داد حاصل نہ کرتے۔

ان کا دوسرا نعتیہ مجموعہ’’حسنت جمع خصالہٖ‘‘۲۰۰۰ء میں شائع ہوایعنی پہلے ہدیہ نعت ’’لولاک لما‘‘کے۱۶سال بعداس پرڈاکٹر عاصی کرنالی مرحوم نے نظر ثانی کی تھی اوردوسرے مجموعۂ کلام پرانھوں نے دیباچہ’’انورجمال کی نعت گوئی‘‘لکھا۔ڈاکٹر عاصی کرنالی نے اپنے دیباچے کی ابتداء میں لکھا:

’’انورجمال شعروادب کاایک معتبر حوالہ ہے۔نعت گوئی میں بھی اس کابڑانام ہے۔’’لولاک لما‘‘اس کا مطبوعہ مسدس ہے جو اس کے عشق وعقیدت،علم وخیر اوراستعداد ومہارت کی تحریری دستایز ہے اورجس کی قبولیت اورمقبولیت اس کے سلیقہ نعت گوئی کی روشن دلیل ہے۔اب وہ ایک نعتیہ مجموعہ’’حسنت جمیع خصالہٖ‘‘کے نام سے بارگاہ رسالت کی نذر کررہا ہے تفصیل توآگے عرض کروں گا۔یہاں ایک جملے میں نہایت ذمہ داری کے ساتھ ایک بات کہہ دوں کہ انورجمال کی یہ نعتیں اس نعت گوئی کے سرمائے میں ایک بیش بہا اضافہ ہیں۔‘‘

اس شعری سعادت کوانھوں نے تین حصّوں میں تقسیم کیا:

i۔حمدربِ ذی الجلال والاکرام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس میں حمدیہ شاعر کی تعدادتین ہے ان میں سے ایک ایک شعر کونقل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔

سحر طلوع ہوئی ہے اس اہتمام کے ساتھ

دعا دعا تری خوشبو ، اذاں اذاں تری یاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کی تاریک باطن سے سحر کرکے طلوع

پھراسے سورج کی کرنوں سے سجا دیتا ہے وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبحوں کا ترنم ہو کہ پھولوں کا تبسم

ہر حسن میں تو جلوہ جما ہے مرے مولا

اب ایک خوبصورتی دیکھیے۔حمدباری تعالیٰ کے ساتھ رات ختم ہونے کااورسحر کے طلوع ہونے کاتصور سامنے آتاہے۔ایک نئی صبح کی خواہش ابھرتی ہے گویاہم نے اپنی تمام امیدیں باری تعالیٰ سے وابستہ کررکھی ہیں۔یہی ہمارے ایمان اوریقین کی دلیل ہے۔

ii۔یاایہا المرمل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس حصّے میں ۱۶نعتیں ہیں۔تین نعتوں سے دو، دو شعر پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتاہوں۔

آمدِ سید لولاک لما ، بسم اللہ

نغمہ صلِ علیٰ ، صلِ علیٰ ، بسم اللہ

حشر میں نعت کی جب میں نے اجازت چاہی

داورِ حشر نے خود مجھ سے کہا ، بسم اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منزل کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور بس

اور وہ رسولِ پاک کا اُسوہ ہے اور بس

سچ پوچھیے توحشر گرِ کائنات میں

فردوس کوئی ہے تو مدینہ ہے اور بس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چین وہی تسکین وہی ہے وقتِ نزع یاسین وہی ہے

رحمتِ عالم اس کا رتبہ ، صلی اللہ علیہ وسلم

جس میں چلیں بازار مقدس جس میں رکیں وہ غارمقدس

جس میں بسیں دو شہر مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

iii۔یاالیا المدثر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تیسرے حصّے میں ۱۲نعتیں ہیں۔ان نعتوں سے بھی تین سے دو،دوشعر پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔

میں ظلمت و حرماں کے دہانے پہ کھڑا ہوں

روشن ہے تری ذات سے کونین کا سینہ

ہو عشق ترا میری تمناؤں کا مرکز

ترے ہی لیے ہوا مرا مرنا مرا جینا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گرہی جائے نہ کہیں کچے مکان کی صورت

کلیۂ جسم کی دیوار ، رسولِ عربی

دل میں اک حسرت ناکام لیے پھرتا ہوں

ہاں وہی خواہشِ دیدار ، رسولِ عربی


لکھ اے قلم حضورِ رسالت مآب میں

اک نعت پاک حاصلِ ایماں کہیں جسے

سر بہر سجدہ خم ہو ترا حرف حرف پر

آنکھوں کی کیفیت کہ چراغاں کہیں جسے

میں نے انورجمال کے دونعتیہ مجموعوں کاصرف تعارف پیش کیاہے۔نعت اورحمد سے صرف حسن اورخوبی تلاش کرنے کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہے۔اللہ اوررسول کاذکر آئے توتجزیہ نگار اپنا رنگ بدل کرخود کورحمت کے بہاؤ کے سپرد کردیتاہے کیونکہ یہ درود وسلام کامقام ہے۔

انورجمال کی نعتوں میں عقیدت کی خوشبو ہے،روشنی ہے،زیارت کی تڑپ ہے۔انھوں نے خوبصورت لفظوں میں اظہارِ عقیدت کیاہے۔گویا اپنی آخرت آسان کرلی ہے۔اللہ تعالیٰ انھیں صحت اورزندگی دے تاکہ انھیں مزید نعتیں لکھنے کی سعادت حاصل ہو۔

انورجمال ملتان کے چند اہم شعراء میں شمار ہوتے ہیں لیکن میں نے محسوس کیاہے کہ غزل اور نظم کہنے والے انورجمال سے نعت گو انورجمال مختلف ہے۔اس مقام پر اورہی رنگ ہے اورہی تاثرہے میں نے ان کی نعتیہ شاعری کا مختصر ساتعارف پیش کرسکتاہوں اس سے زیادہ ممکن نہیں ہے۔

آنکھوں کی کیفیت کہ چراغاں کہیں جیسے