اپنی بات۔صبیح رحمانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat syed sabihudin rehmani.jpg

اداریہ : صبیح رحمانی

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

ابتدائیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ادب و تہذیب کے جملہ مظاہر انسانی فکر و شعور کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم اس امر کو بھی ہمیشہ ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ افراد کے فکر و شعور کی تشکیل و تعمیر میں ان کے انفرادی ذوق و جستجو کے ساتھ ساتھ ان کی اجتماعی، سماجی اور گروہی خواہش و کاوش کا بھی خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ادب و تہذیب کا کام اپنے اظہار میں بے شک فردیت رکھتا ہے، لیکن اس کی صورت گری میں سماجی رجحانات اور گروہی رویے بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیب، شاعر یا کوئی بھی تخلیق کار خلا میں جی سکتا ہے اور نہ ہی اپنے اظہار کی معنویت کا سراغ پاسکتا ہے۔ اسے اپنے معاشرے میں جینا ہوتا ہے اور یہیں اس کا فن جلا پاتا ہے اور معنویت سے ہم آغوش ہوتا ہے۔


افراد کی بلندی یا پستی کا اندازہ اُن کے مقصدِ حیات سے کیا جاسکتا ہے، اسی طرح کسی تہذیب اور کسی عہد کے لیے تخمین و ظن کا کام یا اس کی سرافرازی اور قدر و منزلت کا جائزہ بھی اسی اصول کو پیشِ نظر رکھ کر لیا جاسکتا ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو جدید دور گہرے المیے سے دوچار نظر آتا ہے۔ اس کے افراد اپنے اپنے انفرادی دائرے میں اور اس کا سماج اپنی مجموعی صورت میں بڑی حد تک روحانی اور اخلاقی اقدار سے برگشتہ جب کہ مادّیت اور تعیش پسندی کا دل دادہ دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر فرد و سماج کے باطن میں ذرا سا جھانک کر دیکھا جائے تو دور تک گہری ہوتی ہوئی تاریکی کے سوا کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔ نام نہاد ترقی، خوش حالی اور روشن خیالی کے اس دور میں ظلمت پسندی کا یہ رویہ انسانی آزادی اور ارضیت پسندی کے نام پر فروغ پارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی خود اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق گزارنے کا حق ہے۔ اس حق کا مطالبہ گزشتہ ادوار کے اخلاقی ضابطوں، تہذیبی فلسفوں اور نفسِ انسانی کی تربیت کرنے والے مذاہب کے خلاف اعتراضات کا غلغلہ بلند کرتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں زور دے کر کہا جاتا ہے کہ فلسفے اور مذہب نے انسان کو جکڑ بندیوں میں ڈالا اور اس کی آزادی سلب کی ہے۔ اسے آسمان کے خواب دکھائے ہیں اور زمین سے لاتعلق ہونے کی ترغیب دی ہے۔ اب اُسے ان خوابوں سے نکل کر اپنی خواہشوں اور زمینی حقائق کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ صرف اسی صورت میں وہ ایک آزاد، خودمختار، پسندیدہ اور بامعنی زندگی بسر کرسکتا ہے اور اسے خوشی نصیب ہوسکتی ہے۔

ان نظریات پر بحث کا یہ محل نہیں، اس لیے میں یہ قصہ نہیں چھیڑوں گا کہ یہ باتیں کتنی درست اور کس حد تک غلط ہیں۔ ہاں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اس ارضیت پسندی نے آج کے انسان کا رشتہ آسمان سے منقطع کردیا ہے۔ بہت سے لوگ اسی فکر کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں اور جو ابھی نہیں ہوئے، ان کو بھی اسی راہ پر لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی سمت سے کوئی آواز آسمان کے حق میں یا اُس کی طرف سے آنے والی روشنی کے اثبات کے لیے آتی ہے تو اُس پر واشگاف الفاظ میں ردِعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ دورِ حاضر کی مقتدر قوتیں انسانیت کو مذہب سے لاتعلق دیکھنے کی خواہاں ہیں۔ اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں۔ دنیا میں لادینیت کو آزادی کا عنوان دے کر آگے بڑھایا جارہا ہے۔ اس کے فروغ کے لیے باقاعدہ پالیسیاں بنائی جارہی ہیں اور انھیں الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف حربوں سے پھیلایا جارہا ہے۔ ان نظریات کو قبول نہ کرنے والے لوگ مطعون گردانے جاتے ہیں اور انھیں مسترد کیا جاتا ہے۔ اگر ہم ذرا دھیان دیں تو اپنے اطراف کے حالات اور روزمرہ کے معمولات ہی میں کسی نہ کسی صورت میں ان رویوں کا تجربہ آپ کو اور مجھے بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک تجربہ پچھلے دنوں ہمیں اُس وقت ہوا جب ’’نعت رنگ‘‘ کے سلور جوبلی نمبر میں ہمارے عہد کے نامور ادیب اور نقاد مبین مرزا کا مضمون مہمان اداریے کے طور پر شائع کیا گیا۔

اس حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بددیانتی کے مترادف ہوگا کہ مبین مرزا نے اپنے اس مضمون میں جس زاویۂ نظر سے بات کی ہے اور جو مقدمہ بناکر اردو شاعری کی تہذیب پر نظر ڈالی ہے وہ ہمارے نعتیہ مطالعات ہی میں نہیں بلکہ اردو تنقید کی روایت میں بھی ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اس مضمون میں اردو شعر و ادب کی تہذیب کے حوالے سے کچھ ایسے فکر افروز نکات اٹھائے گئے ہیں جو اس سے قبل ہمیں اپنی تنقید کے دامن میں نظر نہیں آتے۔ ان نکات کی رُو سے دیکھا جائے تو اپنی شاعری اور اس کے مزاج کے بارے میں ہمارا تأثر ہی تبدیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک اہم مضمون ہے اور ہمارے تنقیدی شعور کو ایک نئی سمت عطا کرتا ہے۔ اس کا کسی نہ کسی انداز میں اعتراف پاک و ہند کے ان سب اہلِ نظر کی طرف سے کیا گیا جو ادب اور تنقید میں تازہ کاری کو اہمیت دیتے ہیں اور ادب و مذہب کے رشتے کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بات آپ اور ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ایسے مضامین جہاں ایک طرف داد و تحسین کے مستحق گردانے جاتے ہیں وہیں دوسری طرف ردِّعمل کا ہدف بھی بنتے ہیں۔ ردِّعمل اور اختلافِ رائے کا اظہار ادب میں منفی نہیں، بلکہ مثبت رویہ گردانا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذریعے فکر کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں اور نئے زاویے پیدا ہوتے ہیں۔ مبین مرزا کے مضمون کے سلسلے میں یہ ہوا کہ اس کی ستائش کی گئی، لیکن وہ لوگ جو مذہب سے بیگانے ہیں یا اس کی طرف ایک منفی رویہ رکھتے ہیں، انھوں نے اس مضمون پر نہ صرف اپنے منفی ردِعمل کا اظہار کیا، بلکہ کھلے لفظوں میں کہا کہ یہ ادب کو اسلامیت کے زیرِ اثر لانے کی کوشش ہے اور ہم ایسی ہر کوشش کو رد کرتے ہیں جو ادب کی سیکولر حیثیت کو ختم کرتی ہو۔

مبین مرزا نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ادب و مذہب کا رشتہ آج کا نہیں، بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ اس سے پہلے کے ادبی تناظر میں یہودیت، عیسائیت، ہندومت، جین مت اور دوسرے مذاہب کے حوالے سے مطالعہ کرکے کتنے ہی شواہد باآسانی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ جب ایسا ہے تو اسلام اور اردو ادب کے باہمی رشتے کے حوالے سے اعتراض کی بھلا کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ دوسری بات یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اگر ایک شخص کی آزادی کے ضمن میں ہم اُسے یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ادب کو سیکولر یا لامذہب سمجھے تو دوسرے شخص کو یہ آزادی دینے میں کیا امر مانع ہے کہ وہ ادب و مذہب کو ہم رشتہ گردانے۔ اگر بات حقوق ہی کی ہے تو پھر دونوں کو یکساں حقِ آزادی ملنا چاہیے۔ دونوں طرح کے لوگوں کو اپنے اپنے انداز سے ادب تخلیق کرنے، پڑھنے اور سمجھنے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔ اسی اصول کے تحت مبین مرزا کے حقِ آزادیِ رائے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

’’نعت رنگ‘‘ اپنے اشاعتی سفر کے آغاز ہی سے غایتِ تخلیقِ کائنات کی مدح و توصیف کو اپنا موضوع بنائے ہوئے ہے۔ یہ درحقیقت ایک میڈیم ہے، یعنی ایک ایسا ذریعہ ہے خدا کی اس روشن دلیل کو اپنی عقل، اپنی روح اور اپنے پورے وجود میں بسانے کا جس سے ساری روشنیاں پھوٹتی ہیں، اور جس سے دُوری یا انقطاع ہی دراصل ظلمات، گمراہی یا تاریکی کا دوسرا نام ہے۔

روشنی کے اس سفر میں ’’نعت رنگ‘‘ کا یہ چھبیسواں سنگِ میل ہے۔ اس سفر میں ہم نے اہلِ قلم کو اس ہستی سے جوڑے رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہے جس نے خود تو قلم و قرطاس بے شک استعمال نہیں کیے، لیکن اپنی تعلیمات سے قلم و قرطاس کو معتبر گردانا اور نگاہِ اعتبار سے دیکھا۔ جس مبارک ہستی پر اس لافانی کتاب کا نزول ہوا جس میں خداے ذوالجلال نے قلم کی قسم کھائی اور اپنی محبت کی واحد شرط یہ بتلائی کہ اگر میرے محبوب کی اطاعت کرو گے تو تم بھی میرے محبوب ہوجائو گے، جس کے رب نے اس کے اسم کو اپنے اسم سے اور اس کے ذکر کو اپنے ذکر سے منسلک کرتے ہوئے اس کی رسالت پر ایمان کو اپنی وحدانیت پر ایمان سے مشروط کردیا ہے۔ وہ فرطِ محبت سے فرشتوں کے ساتھ اپنے محبوب پر خود بھی درود بھیجتا ہے اور اہلِ ایمان کو بھی اس مبارک عمل کی تلقین کرتے ہوئے قبولیتِ دعا کو بھی درود بھیجنے سے مشروط کرتا ہے۔ اس نے اپنی تمام مقدس کتابوں کو اپنے محبوب کی بعثت کی بشارت سے روشن رکھا ہے۔ یہ تمام حقائق کیا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ اللہ کا وہی محبوب غایتِ تخلیقِ کائنات ہے اور جب کائنات انسانوں کے باطن میںاپنی غایت کے انکشاف و اعتراف سے محروم ہوجائے تو کیا وجودِ انسانی کا ظلمت و گمرہی کی بھینٹ چڑھ جانا لازمی نہیں ہوجائے گا۔ ’’نعت رنگ‘‘ اسی تاریکی کے خلاف آوازہ بلند کیے ہوئے ہے، اس گہرے ایمان و ایقان کے ساتھ کہ اس روشنی کی تلاش اور اس سے جڑے رہنے کی صورت ہی میں ہمارا قلبی سکون اور ہماری آخری نجات پوشیدہ ہے۔

چھبیسواں شمارہ پیش کرتے ہوئے میرا دل ایک بار پھر تشکر کے جذبات سے لبریز ہے۔ پچیسویں شمارے کی پذیرائی سے یقینا ہمارے حوصلے بلند ہوئے ہیں، بلکہ نعت کی تفہیم کا دائرہ بھی وسیع ہوا ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ کے قلمی معاونین میں مسلسل اضافہ اور موضوعات کا تنوع اور اس میں سامنے آنے والے مباحث کی گہرائی کو دیکھا جائے تو یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ ہم اس سفر میں مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ عصرِ حاضر کے نمائندہ نقادوں کا نعت گوئی کے اسالیب اور شعری جمالیات پر تنقیدی شعور کے ساتھ اظہارِ خیال کی جانب سنجیدگی سے متوجہ ہونا خوش آئند ہے، صرف خوش آئند نہیں بلکہ یہ عمل ہماری اس کوتاہی، غیر ذمے داری اور غفلت کا مداوا بھی معلوم ہوتا ہے جو طویل عرصے تک نعتیہ ادب کے ضمن میں ہمارے ہاں فکر و ادب کی دُنیا میں رائج رہی ہے اور جس کے منفی اثرات ہماری تہذیب اور سماج کے تقریباً سب ہی شعبوں میں افسوس ناک حد تک نمایاں طور پر ایک پورے دور کے حوالے سے دیکھے اور محسوس کیے جاتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تنقیدِ نعت کا شعبہ ایسا ارزاں بھی نہیں کہ کوئی بھی اس میں در آئے۔ بڑے سے بڑا نقاد اور دانش ور بھی یہ کام توفیق من جانب اللہ اور داخلی مطالبے کے بغیر نہیں کرسکتا۔

مبین مرزا کے بقول:


ادب کی دوسری اصناف کی طرح نعت کا تنقیدی مطالعہ نقاد سے محض علمی وسعت اور تجزیاتی بصیرت ہی کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ ایک خاص سطح کی کشادہ نظری اور فکری متانت بھی لازمی شرائط کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس لیے دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی نقاد تنقیدِ نعت کے شعبے کی طرف اس وقت تک نہیں آتا جب تک یہ اس کا داخلی مطالبہ نہیں بن جاتا اور اس مطالبے کی تکمیل اس کے لیے ایک روحانی داعیے کی صورت اختیار نہیں کر لیتی۔


اس تناظر میں یقینا یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ عرصے میں تنقیدِ نعت کی طرف ادب کے کچھ معتبر، سنجیدہ اور اہم ناقدین متوجہ ہوئے ہیں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نیا ابھرتا ہوا یہ طرزِ عمل دراصل ہمارے ہاں تہذیبی، فکری، ثقافتی، سماجی اور ادبی سطح پر ایک بڑی انقلابی تبدیلی کا بلیغ اور خوش کن اشارہ ہے۔ وقت کا تغیر اسی طرح قوموں کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تبدیلی جلد ہی اپنے وجود کا اثبات ہمارے تہذیبی، سماجی اور ادبی رویوں میں واضح طور پر کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ ایک ایسی تبدیلی جو ہمارے تہذیبی اور ملی وجود کو نئی معنویت سے ہم کنار کرے گی۔ ہمارے گم گشتہ وقار کی بحالی کا ذریعہ ہوگی اور ہماری آئندہ نسلوں کو اپنے فکری مبدا اور روحانی ورثے سے وابستہ و پیوستہ کرکے اس کو جینے کے اصل معنی سے سرشار کرے گی۔


زندہ اور فکر انگیز ادب ہمیشہ مکالماتی فضا کو قائم رکھتا ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ ادب کی اس کشادگی کا قائل ہے اور اس پر کاربند بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کے صفحات پر ابتدا ہی سے اختلافِ رائے کی گرماگرم محفلیں آراستہ ہوتی رہی ہیں، جن میں فکری، ذہنی، نظریاتی، علمی اور فنی حوالوں سے خوب خوب گفتگوئیں ہوئیں۔ ہم اب بھی ادب و فکر کے مکالماتی بیانیے کو نیک شگون سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس طرح کے مکالمے ادب و فن کی راہوں پر نئے چراغ روشن کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے اگر کچھ لوگ ’’نعت رنگ‘‘ میں شائع ہونے والی کسی بھی تحریر کے بارے میں اپنی رائے یا اختلاف کا اظہار کرنا چاہیں تو ہم ان کو خوش آمدید کہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ بحث علمی و فکری اور ادبی نوعیت کی ہو اور اس کا لب و لہجہ بھی ادبی ہو۔

اس شمارے سے ’’نعت رنگ‘‘ کی بزم میں کچھ اور اہم نام پہلی مرتبہ شریک ہو رہے ہیں، ان میں ڈاکٹر مولا بخش، ڈاکٹر محمد اشرف کمال، ڈاکٹر طاہر مسعود، ڈاکٹر افتخار شفیع اور ڈاکٹر نذر عابد وغیرہ شامل ہیں۔ ان احباب کی شمولیت سے بھی ’’نعت رنگ‘‘ کی کہکشاں مزید باوقار ہوئی ہے۔


میری دعا ہے کہ ربِ لوح و قلم ہماری اس بزم کو ہمیشہ آباد رکھے۔ اس محفل میں پہلے سے آئے ہوئے اہلِ فکر و نظر میں سے جو لوگ اس عرصے میں ہم سے جدا ہو گئے ان پر ربِ کریم اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اور جو حیات ہیں انھیں صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور خدمتِ نعت پر مامور رکھے۔


وفیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زیر نظر شمارے میں یادنگاری کے حصے میں چار اہم نعت نگاروں اور نعت کاروں کے بارے میں مفصل مضامین شامل کیے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے نعتیہ منظرنامے کے اہم نام تھے جو ہم سے پچھلے کچھ عرصے میں جدا ہوئے، ان میں پروفیسر محمد اکرم رضا، خالد شفیق، ماجد خلیل اور عارف منصور شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی اہم نام اس فہرست کا حصہ ہیں۔ میں ایک بار پھر عازمِ سفر ہوں اس لیے جو نام اس وقت ذہن میں آئے ہیں سرِدست صرف ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے چند سطور پیشِ خدمت ہیں۔

سیّد منظور الکونین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۵؍جولائی۱۹۴۴ء - ۱۹؍ جولائی ۲۰۱۶ء

صاحبزادہ سیّد منظورالکونین کی ساری زندگی مدحت سرائی میں بسر ہوئی اور پایانِ عمر تک ان کا یہ جوش و جذبہ جوان رہا۔ ان کے آہنگِ ثنا خوانی میں موسیقی کے اسرار و رموز سے آگاہی کی ادب آموز گونج بہت واضح سنائی دیتی تھی، یہی وجہ ان کے نعتیہ منظرنامے پر نمایاں رہنے کی بنی۔ ان کی پڑھت کا انداز، ادائی کا اسلوب اور طرزیں وضع کرنے کا مؤدّب اور باوقار اظہار ان کی محبوبیت کی وجہ بنا۔ انھوں نے اپنے پیچھے اپنے شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ چھوڑا جو نعت خوانی کے فن کو ان کے انداز میں اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے اور یہی سیّد منظورالکونین کا کمال ہے۔ ان کی چند نعتیں بھی میری نظر سے گزری ہیں جو ان کے عشق و ادب کی حلاوت اور نسبت و تعلق کا اعلامیہ بن وقت کے اوراق پر محفوظ ہو گئی ہیں۔

جو مجھ پہ چشمِ رسالت مآب ہو جائے

ہر ایک لمحہ مرا کامیاب ہو جائے

بروزِ حشر نہیں کوئی حامی و ناصر

کرم حضور کہ آساں حساب ہو جائے

کوثر بریلوی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۹۳۸ء - ۲۲؍ستمبر ۲۰۱۶ء

کوثر بریلوی نے نعتیہ ادب کو دو مجموعے عطا کیے۔ ان کا پہلا مجموعہ نعت ’’یہ تو کرم ہے ان کا ورنہ‘‘ اور دوسرا ’’حصارِ نعت‘‘ کے نام سے شائع ہوا جب کہ ایک مجموعۂ غزل بھی ’’حدیثِ محبت‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ کراچی کے ادبی منظرنامے پر کوثر بریلوی خاصے فعال رہے مگر ان کا شعری تشخص نعت کے حلقے میں زیادہ مستحکم ہوا۔ ان کا ایک شعر:

جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی مری اوقات نہیں

یہ تو کرم ہے اُن کا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں

عوامی حلقوں میں خاصا مقبول ہوا۔

حسین سحر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یکم مارچ ۱۹۴۲ء - ۱۵؍ستمبر ۲۰۱۶ء

اُردو پنجابی کے ممتاز شاعر، نقاد، مترجم اور ماہرِ تعلیم پروفیسر حسین سحر بھی پچھلے دنوں ہم سے بچھڑ گئے۔ ۴۰ سے زیادہ کتابیں اپنے آثارِ علمی کے طور پر چھوڑنے والے حسین سحر کو نعتیہ ادب سے بھی خصوصی لگائو تھا۔ ان کے دینی شاعری کے مجموعوں میں تقدیس (حمد و نعت)، دو جگ دا والی (پنجابی نعت)، تنویر (نعت)، سعادت (حمد ونعت)، تطہیر (سلام و منقبت) اور مؤدت ( مناقب و سلام) شامل ہیں۔


سحرؔ یہ نعت ہی کے شعر کو اعزاز ہے حاصل

کہ ظلمت میں ادا یہ نور کا کردار کرتا ہے

عابدہ کرامت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء

کینیڈا میں مقیم معروف اُردو شاعرہ عابدہ کرامت بھی اس سال ہم سے جدا ہوئیں۔ وہ متعدد کتب کی مصنفہ تھیں۔ ۱۲؍ جولائی ۲۰۰۵ء کو انھوں نے ٹورنٹو کینیڈا کی ایک ادبی محفل میں مجھے اپنا حمدیہ مجموعۂ کلام ’’جبینِ نیاز‘‘ عطا کیا تھا۔ یہ عام حمدیہ شاعری کے مجموعوں سے الگ ایک ایسا جادۂ عرفان محسوس ہوا جس کے مطالعے سے گزرتے راہِ سلوک کی کتنی ہی منازل طے ہو جاتی ہیں اور پھر ایک ایسی منزل آتی ہے جہاں زبان خاموش ہو جاتی اور چشمِ نم سے شکر و دعا کے موتی برسنے لگتے ہیں۔ حمدیہ ادب میں اس خصوصی مجموعے کی اپنی ایک اہمیت ہے۔

ترے جلووں کی کوئی حد نہیں ہے

تو کیوں میری نظر محدود رکھی

رگِ جاں سے بھی بڑھ کر قرب ٹھہرا

تو کیوں دُوری مرے معبود رکھی

امجد صابری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۲۳؍ دسمبر ۱۹۷۹ء - ۲۲؍جون ۲۰۱۶ء


بعض شخصیتیں ایسی شاداب اور زندگی سے بھرپور ہوتی ہیں کہ ان کو مرحوم لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ امجد صابری بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل تھا کہ اس کی موت کا اب تک یقین نہیں آتا۔ وہ ایک بہت بڑا فنکار ہونے کے باوجود انتہائی منکسرالمزاج اور خلیق دوست تھا۔ ہمیشہ ادب اور نیازمندی کے ساتھ ملنا اس کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ ایک دل آواز مسکراہٹ والا، سروں کی دنیا میں گم، یہ شخص اپنے وجود میں بھی موسیقی جیسا بہائو رکھتا تھا۔ ہم اکثر ساتھ مختلف ٹی وی چیلنجز پر مقابلۂ نعت میں منصف کے فرائض انجام دیتے اور مختلف محافل میں پڑھتے رہے اور میں نے اسے ہر جگہ ایک ہی رنگ اور کیفیت میں پایا یعنی ’’سراپا محبت‘‘۔ افسوس کہ ساری دنیا میں دینی اقدار کی روشنی کو مذہبی کلاموں کے ذریعے پھیلانے والے اس چراغ کو دہشت گردی کا اندھیرا نگل گیا اور ہماری ریاست اپنی روایتی بے حسی سے دیکھتی رہی۔ اس کا پڑھا ہوا کلام ’’جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا‘‘ اس کی وہ عرضی بن گیا جو یقینا قبولیت سے سرفراز ہوئی ہوگی، لیکن اس کے جانے کے ایک ماہ بعد تک اس کی آواز میں یہ عشق و عقیدت اور طلبِ شفاعت و رحمت میں ڈوبی ہوئی التجا پاکستان کے ہر ٹی وی چینل پر گونجتی رہی اور لوگوں کے عقیدے اور عقیدت کو تازہ کرتی رہی۔ امجد صابری تم چلے گئے مگر تمھارے نام اور کام کی روشنی دلوں کو گرماتی رہے گی۔ (ان شاء اللہ) ٭٭٭